Wednesday, December 10, 2025

 *علم النحو کی کہانی* پڑھیں اور اپنی نحو تازہ کریں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


گاٶں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا ۔اس کا نام  "لفظ"  تھا۔ اس کے  دو  بھائی تھے ۔

 ایک  کا نام  موضوع اور  دوسرے کا نام  مہمل ۔ 

   موضوع  بہت ہوشیار لڑکا  تھا۔  ہر چیز  کا معنی  بتاتا ۔  سمجھ میں آجاتا تھا۔

 اور مہمل ، وہ تو پاگل تھا۔ہر چیز الٹی بتاتا، جس کا کوئی مطلب نہ نکلتا ۔

 موضوع کے دو بیٹے تھے ۔

 ایک کا نام مفرد تھا ، دوسرے کا نام  مرکب۔  مفرد اکیلا اکیلا پھرتا تھا جب کہ مرکب سب کے ساتھ مل کر چلتا تھا ۔ 

مرکب کے بھی دو دوست تھے۔  ایک کا نام مرکب ناقص ، دوسرے کا نام مرکب  تام تھا۔

مرکب ناقص بڑا نالائق لڑکا تھا۔ ہمیشہ ادھوری بات کرتا۔ کسی کی سمجھ میں اس کی کوئی بات نہیں آتی تھی ۔

 مرکب تام بھائی بہت اچھا لڑکا تھا  ایسی صاف بات کرتا  کہ پاگل بھی سمجھ جاتا۔ وہ ہر چیز کی خبر دیتا۔  سچ میں جھوٹ  ملا کر بات کرتا۔  اس لیے وہ خود کو وزیر نحو کہا کرتا۔


پھر یوں ہوا کہ اچانک  گاؤں میں  ایک یتیم لڑکا آگیا, جس کا نام "کلمہ" تھا , جس کے ساتھ تین لوگ اور بھی تھے .

 ان کا نام اسم، فعل، اور حرف تھا۔

 اسم بیچارہ , بہت  امیر تھا ،اپنا سب کام خود کرتا۔ کسی سے کچھ  مدد  نہ لیتا۔

  فعل ہمیشہ کنجوسی سے  اپنا کام خود کرتا۔ دوسروں کو بھی لے کر آتا ۔اکیلا آتے ہوئے ڈرتا کہ کہیں کوئی کام غلط نہ ہو جائے۔

حرف بہت غریب تھا۔  نہ کھانے کےلیے کچھ اور نہ پہننے پہنانے کے لیے۔

 کچھ اسم سے ، کچھ فعل سے مدد لےکر اپنی گزر اوقات کرلیتا ، لیکن بعض اوقات ایسے کرتب دکھاتا کہ سارے گاؤں والے عش عش کر اٹھتے۔

لبھائی اسم کی دو بیویاں تھیں۔

 اک کا نام معرفہ تھا۔ دوسری کا نام نکرہ۔

 معرفہ آنٹی ہمیشہ خود کو خاص  سمجھتی تھیں۔مشہور و معروف تھیں۔ سب انہیں جانتے تھے۔

 نکرہ آنٹی بہت سادہ سی رہتیں۔عام سی خاتون تھیں۔ انکساری اتنی کہ خود کو کچھ نہیں سمجھتیں۔

 آنٹی معرفہ  کے سات  بچے تھے۔ 

  تین لڑکیاں اور چار لڑکے۔

 بچوں کے نام تھے ، ضمیر، علَم ، اشارہ ، موصول ، معرٗف باللام، معرف بالاضافة ، معرف بالنداء.

بھائی ضمیر ، وہ تو بس سارا دن ہی ،تو تو ،  میں میں ، وہ وہ کرتا رہتا۔


بھائی علَم ،  اپنے آپ کو  خاص سمجھتا۔ اپنے خاص نام پر فخر جتاتا۔

 کہتا :  میرے جیسا  کوئی نہیں۔

بھائی اشارہ ،  وہ تو بس دوسروں پر بلا وجہ انگلی اٹھا اٹھا کر  الزام تراشی کرتا رہتا ۔ اس کے بغیر اسے سکون ہی نہیں ملتا۔

بھائی موصول،  ہمیشہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر کام کرتا۔

معرف باللام بہن ، محترمہ اتنی  نخریلی ہیں کہ بس ان کی ہمیشہ گھر میں لڑائی ہی رہتی ہے۔  ضد ہے کہ میرے شروع میں الف لام لگاؤ کیوں کہ وہ میری تب جان ہے۔

معرف بالاضافة بہن ، بہت ہوشیار لڑکی ہے ، اپنے خاص نام کو اپنے خاص پسندیدہ کھانے سے جوڑتی ہے تاکہ کوئی کھا نہ جاۓ۔

معرف بالنداء بہن ، بہت ضدی  لڑکی ہے۔ اس سے سب بہت تنگ ہیں۔ کہتی ہے:  میں اپنا کام سب کچھ خود کروں گی۔ کسی کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

ندا بہن کے دو پکے دوست  تھے۔

 ایک کا نام مذکر ، دوسرے کا نام مونث  تھا۔

 مذکر میں لڑکی کی کوئی علامت نہ تھی۔ 

 کہتا : میں میل ہوں۔میں لڑکا ہوں۔  

مؤنث کہتی :  میں لڑکی ہوں۔  مجھے کبھی کوئی غلطی سے بھی لڑکا نہ کہنا۔ میں بہت خطرناک ہوں۔

مؤنث  کی 3 بیٹیاں ہیں۔ 

 جن کے نام 

گول ة ، الف مقصورہ اور الف ممدودہ ہیں۔

گول ة بہن، ایک  ضدی لڑکی ہے ،  جو کہتی ہے میری خوب صورت چاند سی گول شکل کبھی نہ بگاڑنا۔

 الف ممدودہ بہن ، اونچی پوری دراز قد ہمدرد لڑکی ہے ، تنہا باہر نہیں نکلتی۔ باجی  ھمزہ کو بھی اپنے ساتھ لیکر آتی ہے۔ خوش گلو اور بلند آہنگ ہے۔

 الف مقصورہ بہن، 

توبہ توبہ  وہ تو  باجی ھمزہ سے حسد کرتی ہے۔ ساتھ تو دور کی بات ہے ، کبھی اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتی۔

 مؤنث  کے دو سہیلیاں ہیں۔ 

 

 ایک کا نام آنٹی مؤنث حقیقی تو دوسری کا نام آنٹی مؤنث  لفظی ہے۔

آنٹی مؤنث  حقیقی  ہمیشہ اپنا مقابلہ مرد کے ساتھ کرتی ہیں۔ 

آنٹی مؤنث لفظی ، بہت نرم و نازک ہیں۔ لو بلڈ پریشر LOW BP   کی مریضہ ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ مرد کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے آنٹی مونث حقیقی ، اسے چھوڑ کر  واحد کے  گھر چلی گئیں۔

 واحد ہمیشہ اکیلا رہتا۔اس کا کوئی ساتھ نہیں دیتا تھا۔

 واحد کے دو بھائی ہیں۔ ایک کا نام  تثنیہ بھائی ہے، دوست مثنی بھائی کہتے ہیں۔ 

 دوسرےکا نام  جمع بھائی ہے۔ 

بھائی مثنی کہتے ہیں: میں تو صرف دو کے ساتھ رہوں گا۔ کسی تیسرے کے ساتھ مجھےکبھی گوارا نہیں۔

 بھائی جمع توبہ توبہ ! 

وہ تو سارا دن دوست بناتا رہتا ہے۔کم از کم تین ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ جمع سے گھر والے تنگ ہیں۔ جمع بیچارے کو گھر سے نکال دیا گیا ، وہ  اپنے دوست  جمع سالم اور جمع مکسر کے پاس گیا۔


جمع سالم ، ہمدرد  انسان ہیں شریف ۔کسی کو نہیں چھیڑتے۔اپنی  پیٹھ پر اون ، این ، آت کا بوجھ لاد لیتے ہیں۔

لیکن جمع مکسر ضدی بھی ہیں اور شعلہ مزاج بھی۔ پیسے نہیں ملتے ، یا کھانا نہیں ملتا  تو گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈانٹے تو کہتے ہیں : میں جدت پسند ہوں۔ نئی نئی چیزیں بناتا ہوں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسی لگی نحوی کہانی آپکو ضرور اپنی راۓ کا اظہار فرمائیں

اگر اچھی لگی تو ضرور آگے بھی شیئر کرتے جائیں جزاکم اللہ خیرا

Saturday, November 8, 2025

مکتب کے اساتذہ

 خلاصۂ بیان حضرت *مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم* 


 *مکاتب کے اساتذہ کے لیے انتہائی قیمتی اور ضروری باتیں* 


 🌹مثال بنو ۔۔مسئلہ نہ بنو 

بعض اساتذہ مثال ہوتے ہیں اور بعض مسئلہ ہوتے ہیں،انہیں سنبھالنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے مکتب یا مدرسہ پر آنچ آتے رہتی ہے اسے حل کرنا پڑتا ہے ایسے نہ بنو ۔۔۔بلکہ ایسے بنو کہ لوگ اور طلبہ خود مثال دیں ۔۔۔آگے چل کر وہ آپ کی طرح بننے کی فکر کریں

🌹جو طلبہ آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں وہ معصوم و بے گناہ ہیں،شرم کیوں نہیں آتی استاذ کو،خود گنہگار ہے اور بےگناہ طلبہ کو مارتا ہے 

🌹مکتب کے طلبہ کو ڈاڑھی ٹوپی والے حلیہ سے متوحش نہ کرو (وحشت اور دوری پیدا نہ کرو)

🌹کمزور طلبہ کا نام لے کر تنہائی میں دعا کرو ۔۔۔اس میں بڑی طاقت ہے 

🌹بچوں کو سزا دیتے وقت ایسی کیفیت ہونے چاہیے جیسے ماں کی اولاد کو سزا دیتے وقت ہوتی ہے 

ماں کی سزا کیسی ہوتی ہے ؟۔۔۔وہ بچوں کو سزا دیتی ہے لیکن تنہائی میں روتی ہے 

ایسے ہی استاذ کو مشفق ہونا چاہیے 

🌹سخت سے سخت بات میٹھے میں لہجے کہی جاسکتی ہے ۔۔۔

کوئ شہد بیچنے والا بدزبان تھا تو اس کا شہد نہیں بکا، اور ایک سرکہ بیچنے والا شیریں زبان تھا ۔اس کا سرکہ بک گیا، اس لیے طلبہ سے نرم لہجے میں بات کریں ۔

🌹ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا فلاں نے مجھ سے پڑھا ۔۔۔۔لیکن ہم سے متنفر ہوکر کس نے دین و تعلیم کو چھوڑا یہ میدان محشر میں معلوم ہوگا، اس لیے خدارا کسی بچے کی تعلیم چھوٹنے یا یہ لائن چھوٹنے کاسبب نہ بنو ۔

🌹جو استاد اپنی محنت کو تن خواہ میں تول رہا ہے اس نے اپنی محنت کو ذلیل کردیا،

کیسے خیال آیا کہ یہ دنیا میری اس محنت کا بدلہ دے گی ۔۔ یہ دنیا والے ایک مرتبہ کہے گئے سبحان اللہ کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں کہ اس کا بدلہ پوری دنیاو مافیہا سے زیادہ ہے ، اس لیے اہل دنیا سے اپنی محنت کے بدلہ کی امید نہ لگائیں ، بلکہ اس خدمت کا بدلہ آخرت کے لیے چھوڑ رکھیں 

🌹ملازم بن کر چلنے والا انقلابی نہیں بن سکتا۔اس لیے اللّٰہ سے معاملات کرکے کام کیجیے 

🌹تحفیظ سے زیادہ تفہیم کی ضرورت ہے(رٹانے سے زیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے)

میمورائز سے زیادہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔کلمہ رٹائیں ۔۔۔مگر اس کو سمجھائیں بھی 

ایمان مفصل سمجھائیں 

چہل حدیث سمجھائیں 

🌹 محیی السنہ (حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ)کی لکھی ہوئی کتاب *چار امام*  کو مطالعہ میں رکھیں۔اس سے ائمہ عظام کی وقعت دل میں بیٹھے گی اور طلبہ کو بھی بتا سکیں گے، 

🌹یہ پڑھنے پڑھانے کا دینی ماحول جو ملاہے وہ بڑی نعمت ہے 

کیوں کہ اس ماحول نے اختیاری نہ سہی اضطراری طور پر کتنے سارے گناہوں سے بچارکھا ہے ۔۔۔؟؟ 

اس لیے بنے ہوئے ماحول کی قدر کریں ۔

مدرسہ نہ ہو تو کون فقہ وفتاویٰ کاکام کرے گا۔

جمعہ نہ ہوتو کتاب کون پڑھتا ہے ؟

فجر کی امامت نہ ہو تو کتنے علماء وحفاظ کی فجر باجماعت ہوتی ہے ؟

اس لیے ماحول کی قدر کرلو ۔۔۔

🌹 ایک جگہ ہم لوگ نیم پاگلوں کے اسکول گئے ایک جگہ نابیناؤں کے اسکول کا دورہ کرنے کی توفیق ہوئ وہاں جانے پر بچے ڈر گئے ٹیچرز سے لپٹ گئے،وہاں کے اساتذہ نے کہا کہ ہم ان کے کپڑے صاف کرتے ہیں،ان کی ہر بات سنتے ہیں،اور ان کے ماحول میں ڈھل کر انہیں پڑھاتے ہیں،ایسے بےشمار  اسکول ہیں، 

پڑھانے والے انہیں پڑھارہے ہیں ہمارے شاگردان سے گئے گزرے تو نہیں ہیں، 

لوگ معذوروں کو،اجڈ لوگوں کو، دیہاتیوں کو اندھوں کو پڑھا سکتے ہیں میں اچھے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاسکتا؟

اس لیے ہر بچہ آپ کے پاس آنے والا قیمتی ہے اسے پڑھانے کی پوری کوشش کریں 

🌹آج اساتذہ کو تنخواہ کی کمی کا غم ہے ،اپنی صفات کی کمی کا غم نہیں،ضرورتوں کا غم زیادہ ہے،جب کہ اس سے زیادہ ذمہ داریوں کا غم ہونا چاہیے

🌹فضولیات سے بچ جائیں گے تو ضروریات پوری کرنے کے اسباب و ذرائع مل جائیں گے۔

🌹 آج تنظیموں کے اختلاف اور بے کار کے جھگڑوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے جو عالم چالیس سال ، تیس سال سے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس کی برائیاں بیان کرنے انہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ،

یاد رکھو ! اس آدمی کی بدبختی آگئی ۔جو اپنے بڑوں کے عیوب کے پیچھے لگ گیا ۔۔۔

اس لیے بڑوں کے عیوب یا ان کی برائیوں کے پیچھے مت پڑو، 

🌹 تن خواہ کی کمی کی وجہ سے بعض علماء وحفاظ اس لائن کو چھوڑ دیتے ہیں ، سن لیجیے ! دینی ماحول وخدمات سے نکلنا آسان ہے ، لگنا مشکل ہے ، اس لیے اس لائن کو مت چھوڑیں 

🌹یہ تصور رہے کہ اگر مجھے مسجد سے نکالا گیا تو وہ صدر نے یا کمیٹی نے نہیں نکالا میری تنہائیوں  نے نکالا ۔میری بداعمالیوں نے نکالا، 

🌹اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا  اس آیت کے مطابق کیا ہم دنیا ہی میں اپنے نیکیوں وخدمات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ؟

صحابہ و اکابر نے دنیا کی خدمات کے معاوضے دنیا ہی میں ادا کردئے  کہ کہیں یہ دنیا ہی میں بدلہ نہ دے دیا گیا ہو،

حضرت ابوبکر نے بیت المال کو اپنے وظائف لوٹادئے ، مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم کی ساری تن خواہ واپس کردی ،

 اس لیے اپنے دنیاوی خدمات کابدلہ آخرت میں اللہ سے لینا ہے ، کیوں کہ 

اللہ کا قانون ہے کہ جو ان کے لیے،ان کی رضامندی کی خاطر دنیا چھوڑتا ہے ، اسے خوب دیتے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو چھوڑا تو اللہ نے جوانی کے ساتھ واپس کیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

🌹فرصت میں فساد ہے۔  اس لیے فرصت میں نہ رہیں ، نہ اپنے طلبہ کو فرصت میں رہنے دیں ۔

🌹 اپنے گھر سے محنت کریں ، آپ کے مکتب کا سب سے پہلا شاگرد آپ کی بیوی ہے، اپنے گھر پر پہلے محنت کرو ،

مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے اسفار و خدمات سے زیادہ ان کی معاشرت(گھریلو زندگی) نے حیرت زدہ کیا ۔۔۔بیوی کو حافظ بنایا ۔۔۔بچوں کو حافظ بنایاگھر ہی میں  ، ایک ایک 

بچے کی شادی کرتے سال بھر ساتھ رکھتے پھر سامنے ہی کسی گھر میں منتقل کردیتے اور  فرماتے ! ہم مرے نہیں ہیں سامنے رہو اور زندگی گزارنا سیکھو ، کچھ کمی بیشی ہوگی ہم پوری کریں گے، 

اس لیے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کریں ، 

🌹ہم مال کی کمی کا روناروتے  رہتے ہیں، اور اس کی چکر میں بہت اہم اور ضروری چیزیں اپنی زندگی کی چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کیا انسان مال کی کمی ہے تو مطالعہ نہیں کرسکتا؟

مال کی کمی ہے تو شیخ سے رابطہ نہیں کرسکتا؟ مال کی مکی ہے تو بیوی کو نہیں پڑھا سکتا؟ کیا مال کی کمی ان چیزوں میں مانع ہوسکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔اس لیے مال کی کمی کا بہانہ بنا کر اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں ، 


🌹بچوں کے ایمان کی فکروں کے سلسلے میں مفتی سلمان بجنوری صاحب نے بڑی بات کہ دی _____ کہ زمانہ ایسا آچکا ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد بچوں کو کلمہ پڑھانا پڑے گا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے موت کے وقت اپنے چار بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ بچوں میں اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان تمہارے پاس گروی رکھ کر جارہا ہوں ۔۔۔قیامت کے دن پوچھوں گا۔ آج یقیناً یہی حالات آچکے ہیں ، اس لیے مکاتب کے اساتذہ کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے ، 


🌹اس زمانے کے بچے جوانی سے پہلے بوڑھے ہورہے ہیں ، موبائل نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، 

اس لیے بچوں کے اخلاقیات بھی سنواریں ۔۔ان کی تنہائیوں کو پاک کرنے کی کو شش کریں

اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین 


ابو احسان ذکی 

خادم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

Sunday, November 2, 2025

 😜امراء القیس کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی🥲


اِذَا  ما تَرَسْنا   لِدِیدَارِکُم

جَلَسْنا  بِسَایَۃِ   دِیْوارِکُم


وحُبِّی  لَکُم لَیْسَ  اَفْسَانۃً

خَجْل و خُوَار بینَ بازارِکُم


جَزاءُ الوَفادارِی ھل ھکذا؟

گَرَجْتُم بَرَسْتُم علی یارِکُم

😂😝😝

Wednesday, October 29, 2025

 وقف: غربت مٹانے کا ایک ذریعہ

چشم کشا حقائق پر مشتمل، غربت کا آسان حل

کیا آپ جانتے ہیں کہ:

دنیا میں 79 کروڑ 50 لاکھ افراد روزانہ بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دنیا میں 3 ہزار بچے خوراک کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو بمشکل روٹی میسر آ پاتی ہے۔دنیا میں 80 کروڑ انسانوں کو وقتاً فوقتاً بھوکا سونا پڑتا ہے۔دنیا میں 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پوری دنیا میں ایک کروڑ 4 لاکھ افرادگھر سے بے گھر زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں کل 2 ارب 20 کروڑ بچے ہیں، جن میں سے ایک ارب غربت و افلاس کی آغوش میں زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں 30 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔پسماندہ براعظم افریقہ کے 22 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

لاطینی امریکا کے 4 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے براعظم ایشیا اور بحرالکاہل کے 55 کروڑ 30 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں 2 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آپ کے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں 60 افراد ہر ماہ غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ صرف افغانستان میں 50 لاکھ یتیم بچے ہیں۔ 

افغانستان کے دار الحکومت کابل میں 75 ہزار بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ مسلم ملک عراق میں جنگ کی وجہ سے مصر میں پناہ لینے والے عراقی 13 لاکھ ہیں۔ عراق کے 8 لاکھ باشندے اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شام میں جنگ کی وجہ سے ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندے 20 لاکھ ہیں۔

ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ کچھ اعداد و شمار کافی ہیں۔ جس سے دنیا کی صورت حال، عالم اسلام کی صورت حال، پھر ہمارے براعظم اور ہمارے پڑوس کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ اعداد و شمار انور یوسف صاحب کے 2 نومبر کے روزنامہ اسلام کے کالم سے لیے گئے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں اپنی خیبر کی زمین اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تم اصل زمین کو وقف کر دو اور اس سے جو کچھ پیدا ہو، اسے بطور صدقہ تقسیم کر دو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ اللہ کی راہ میں دے دیا، یعنی وقف کر دیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اسے کسی کی میراث قرار دی جائے۔یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح میں موجود ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ معلوم ہوتا ہے۔ زمین اضافی ملی تو فوراً اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبے کے ساتھ حاضر ہو گئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کی جانب رہنمائی فرما دی تاکہ اس کے اثرات دور رس ہو جائیں۔ تم یہ زمین وقف کر دو، باقی پیداوار اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی رہے گی۔ اس طرح اس کا معاشرے پر دیر تک اثر پڑتا رہے گا اور تمہارا ثواب بھی جاری رہے گا۔

اس وقت دنیا سسک رہی ہے۔ مالدار مال بنانے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ غریب غربت، ناداری اور پریشانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جس کی ایک جھلک شروع میں آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ صورت حال انفرادی سطح پر بھی ہے اور ملکوں کی سطح پر بھی۔اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر امت کو ان مشکل حالات سے نکالنے کی کوشش ضرور کریں۔ کوشش کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ہم امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے لیے دعا ضرور کریں۔ اللہ تعالی نے ہمیں سکون و عافیت دی، اس کی قدر کریں۔ اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار رہیں۔ جتنی ہو سکیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں۔

حضرت عمر کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کا مشورہ عنایت فرمایا۔ یہ مشورہ آج بھی ہمارے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے راہیں فراہم کر سکتا ہے۔ تو آئیے! دیکھتے ہیں کہ وقف سے کیا مراد ہے؟ وقف کیوں کیا جاتا ہے؟ وقف کس چیز کا کیا جا سکتا ہے؟ وقف کے دنیاوی فوائد کیا ہیں؟ وقف کے آخرت میں فوائد کیا ہیں؟ وقف کس مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت ہم وقف کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ 

وقف کیا ہے؟

وقف سے مراد کسی چیز کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد بندوں کے لیے قرار دینا۔ جیسے کوئی زمین یا مکان وقف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکان یا دکان اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی گئی۔ اب اس کے فوائد جیسے زمین کی صورت میں اس کا استعمال یا پیداوار اور گھر کی صورت میں اس کی رہائش کا حق دار وہ ہو گا جس کے بارے میں وقف کرنے والا کہے۔ جیسے میں اپنا گھر غریبوں کے لیے وقف کر دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر تو اللہ تعالی کی ملکیت میں چلا گیا۔ باقی اس میں رہائش یا رہائش کے ذریعے ہونے والی کمائی غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔

وقف کی ضرورت

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جس میں کوئی رقم کسی کو دیے دینے سے لے کر کسی کو کوئی سہولت فراہم کرنا سب شامل ہیں اور اخلاص کے بقدر اس پر اجر اللہ تعالی کی جانب سے ملے گا۔ بعض اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ ایسا کوئی صدقہ کیا جائے جس کا اجر مستقل ملتا رہے۔ ایسی صورت میں شریعت صدقہ کرنے کا طریقہ بتا تی ہے۔ جس میں اصل چیز اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اس کے فوائد متعینہ لوگوں کو ملتے رہتے ہیں اور وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔

وقف کس چیز کا کیا جائے؟

اصولاً تو صرف جائیداد اور زمین کو ہی وقف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وقف میں اصل کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد کو لوگوں کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ یہ بات جائیداد وغیرہ میں تو پائی جاتی ہے۔ جبکہ باقی چیزیں بہت جلد استعمال سے خراب یا ختم ہو جاتی ہیں۔ البتہ جائیداد کے ساتھ دیگر اشیا بھی وقف کی جا سکتی ہیں، جیسے: زمین وقف کی تو اس کے ساتھ ٹریکٹر، ٹیوب ویل بھی وقف کر دے تا کہ پیداوار میں سہولت رہے۔ الگ سے اخراجات نہ کرنے پڑیں۔

وقف کے مقاصد

وقف کسی گناہ کے کام کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ باقی کسی نیک مقصد کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے! وقف سے فائدہ اٹھانے والا مسلمان یا غیر مسلم دونوں ہو سکتے ہیں، لہذا وقف اگر عام رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے۔ جیسے پانی کا کنواں کھدوایا، کوئی باغ وقف کیا تو جس طرح مسلمان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، غیر مسلم بھی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح وقف کرنا درست ہے۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ انسان ہی کسی وقف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ٹرسٹ جانوروں کی فلاح کے لیے ہو سکتا ہے، لیکن وقف صرف جانوروں، کتے، بلی وغیرہ کی فلاح بہبود کے لیے نہیں ہو سکتا۔

وقف کے اُخروی فوائد

وقف کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔ مرنے والے کے مر جانے کے بعد بھی اس کا نامہ اعمال میں ثواب چلتا رہتا ہے۔ اسی بات کی طرف ایک حدیث میں اشارہ فرمایا گیا کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جس نے کوئی نہر کھدوائی ہو یا نیک اولاد چھوڑی ہو یا کسی نیک کام کی بنیاد رکھی ہو توا س کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ وقف بھی انہی اعمال میں سے ہے، جس میں انسان کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ تو ہم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا ثواب چلتا رہے تو وقف اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

وقف کے دنیاوی فوائد

ایک ہے صدقہ یا خیرات کرنا۔ اس سے غریب کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے، لیکن ایسا کوئی قدم اٹھانا جس سے معاشرے کی فلاح و بہبود میں تیزی سے اضافہ ہو تو اس کے لیے وقف ایک مثالی ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت معاشی مسائل میں سرفہرست غربت ہے۔ جس کی ایک جھلک ہم نے مضمون کے شروع میں آپ کے سامنے پیش کی۔ وقف کو استعمال کر کے غربت کا بہترین حل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسے وقف بنائے جا سکتے ہیں جو معاشرے سے ہی عطیات وصول کریں اور براہ راست غریبوں پر خرچ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقف کی بنیاد پر ایسے ادارے بنائے جا سکتے ہیں، جو معاشرے میں ٹیکنکل تعلیم فراہم کریں۔ ٹیکنکل تعلیم سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے، ہنر مندی سکھانے والے ادارے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں اور بہت سے ادارے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد کام شروع کریں گے، لیکن یہ ادارے معاشرے کے مالدار افراد کی توجہ حاصل کر کے دولت کے بہاؤ کو ناصرف غریبوں کی طرف کریں گے، بلکہ اس طریقے سے کریں گے کہ دولت کا استعمال بہت بہتر انداز میں ہو گا اور بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل حل ہوتے جائیں گے۔

آج ہم حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرتی۔ غریبوں کا خیال نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو غریبوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ بے روزگار لوگوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ کفالت عامہ کا نظام تھا، لیکن وقف ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر حکومت کے بھی ہم اپنے معاشرے کو بنا سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے وقف کے بارے میں چند بنیادی باتیں رکھی ہیں، تفصیلات اہل علم سے معلوم کر یں۔ ہمیں ہمت کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔

اسلامی معاشیات

مولانا شیخ نعمان

شریعہ ڈپارٹمنٹ، بینک اسلامی

.............

Wednesday, September 17, 2025

 *عرب اسپرنگ ۔سری لنکا.بنگلہ دیش ۔نیپال اور فرانس ہنگامہ آرائیاں*



جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے


جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 

دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکا ن نہیں ہے 

 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا

 ایک بدعتی شاعر کی شہر دیوبند پر تنقید اور

 مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ کی طرف سے اس کے شعر کا جواب۔


                تنقید 


دغا کی "دال" ہے یاجوج کی ہے "یا" اس میں

وطن فروشی کا "واؤ" بدی کی "با" اس میں


جو ان کے "نون" میں نار جحیم غلطاں ہے

تو اس کی "دال" سے دہقانیت نمایاں ہے


ملے یہ حرف تو بے چارہ *دیوبند* بنا

برے خمیر سے یہ شہر نا پسند بنا


           *جواب تنقید*

از۔ مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ


دعا کی "دال" کو کہتے ہو تم دغا کی ہے

علاجِ چشم کراؤ بڑی خطا کی ہے


یہ " دال" دولت دنیا و دیں سے ہے معمور

دماغ و دیدہ دل اس سے ہوگئے پرنور


غضب ہے " یا " تمہیں یاجوج کی نظر آئی

ضرور ڈوب گئی ہے تمہاری بینائی


نظر جماؤ کہ یاد خدا کی " یا " ہے یہ

یقین و یثرب و یمن و صفا کی " یا" ہے یہ


کہا جو " واؤ " کو تم نے وطن فروشی کا

ثبوت دے دیا اپنی گناہ کوشی کا


ادب کرو کہ وضو کا وفا کا " واؤ " ہے یہ

وقار و وعظ و وصال خدا کا " واؤ " ہے یہ


بدی کی " با " جسے کہتے ہو تم شرارت سے

وہ ہے بہشت بریں برکت و بہار کی " بے "


جو تم نے " نون " میں نار جحیم ہی دیکھی

تو کیا قصور تمہاری تو عاقبت ہے یہی


سنو کہ " نون " ہے نزہت و نفاست کا

نماز و نعمت و نیکی کا نور و نعمت کا


جو تم نے " دال " میں دہقانیت کی بو سونگھی

تو سمجھو اپنی غلاظت ہی ہو بہو سونگھی


ارے یہ " دال " دیانت کی دوستی کی ہے

درود کی ہے دوا کی ہے دل کشی کی ہے

بڑے ہی پاک عناصر سے دیوبند بنا

عدو کی جان جلی شہر دل پسند بنا

Tuesday, September 9, 2025

 جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے  اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا