Sunday, November 25, 2018

bayan


https://www.blogger.com/blogger.g?blogID=8407953158283526049#editor/target=post;postID=5718582970885064540

اسماءے حسنی سے رو حا نی وجسمانی علاج



اسمائے حسنی
سے
روحانی و جسمانی علاج

اپنے اوپرپیش آنے والے حالات ومسائل و ضروریات کو اسمائے حسنی کے ورد اور وظیفے سے بآسانی حل کرسکتے ہیں ۔
مؤلف
عزیر احمد مفتاحی قاسمی
abdulkhadarpuzair@gmail.com
paktini1981@gmail.com
استاذ جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم
بانی ومہتمم جامعۃ القرآن ہرپن ہلی ضلع داونگرہ
شعبہ نشرواشاعت جامعۃ القرآن بنگلور کرناٹک
نمبر؍ ۸۲۵یعقوب منزل عمر نگر چوتھی گلی عربی کالج پوسٹ بنگلور

u

نامِ کتاب : اسمائے حسنیٰ سے روحانی و جسمانی علاج
مؤلف : عزیر احمد مفتاحی قاسمی
صفحات : ۸۹
تاریخ طباعت : ذی الحجہ ۱۴۳۷ ؁ھ/ ستمبر ۲۰۱۶ ؁ء
ناشر : جامعۃ القرآن، بنگلور، کرناٹک
موبائیل نمبر : 08553116065
ای میل : abdulkhadarpuzair@gmail.com
تزئین : مولوی محمد مدثر سلمہ




u
عناوین صفحہ


کلمات تبریک
۱۵
تقریظ
۱۷
عرض مؤلف
۱۹
ہم نے انسانوں کو بڑی مشقت میں پیدا کیا
۱۹
جنتی عورت
۲۱
ایک اہم حدیث
۲۳
حکایت
۲۵
وضاحت و استناد
۲۶
ضروری گذارش
۲۶
ضروری مسائل
۲۷
اسمائے حسنی کے فضائل
۲۸
اسمائے حسنی کی تعداد
۲۹
اسمائے حسنی
۲۹
نقشہ نود ونہ نام پاک اللہ عزوجل
۳۰
آمادگی اطاعت
۳۸
اعمال کی توفیق ہونے کے لئے
۳۹
اللہ کی رضا
۳۹
قلب کا منور ہونا
۳۹
اصلاح فاسق
۴۰
مقبولیت اعمال
۴۰
مقام حال اور مقام عرفان پر ثابت قدمی کے لئے
۴۰
فرشتہ صفت بننے کے لئے
۴۰
قیامت کے دن چہرہ چمکے
۴۰
دعا قبول ہونے کے لئے
۴۱
رقت قلب کے لئے
۴۱
دل سے غفلت ،بھول ،اور سختی دور کرنے کے لئے
۴۱
باطن کشادہ ہونے اور کشف ہونے کے لئے
۴۱
اپنی مغفرت کے لئے
۴۲
کشف والوں میں شامل ہو نے کے لئے
۴۲
قبر کے عذاب سے حفاظت کے لئے
۴۲
تقویت قلب کے لئے
۴۲
دل صاف ہونے کے لئے
۴۳
عمل قبول ہونے کے لئے اور رنج وسختی سے حفاظت کے لئے
۴۳
نیک لو گوں میں شامل ہو نے کے لئے
۴۳
دل سے دنیا کی محبت نکالنے اللہ کی محبت لانے اور خاتمہ بالخیر کے لئے
۴۳
دل سے زنگ دور کرکے نور وصفائی حاصل کرنے کے لئے
۴۳
دعا قبول ہو نے کیلئے
۴۴
اللہ کی خاص نظر حاصل ہو نے کے لئے
۴۴
اپنے باطن کو اللہ کے رازوں کا جان کار بنانے کے لئے
۴۴
مخلوق کو مطیع کر نے کے لئے
۴۴
دل منور ہو نے کے لئے
۴۵
دل ہمیشہ روشن رہنے کے لئے
۴۵
معرفت والوں کا مرتبہ پانے کے لئے
۴۵
نفس اور شیطان(ازلی دشمن)
۴۵
نفس کے ہاتھو ں سے چھٹکارا پانے کے لئے
۴۵
شیطانی وسوسے سے پناہ
۴۶
عزت وحرمت کے لئے اور نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
۴۶
شیطان کے شر سے حفاظت کے لئے اور اللہ کی امان میں رہنے کے لئے
۴۶
شیطان کے وسوسے اور فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے
۴۶
معاش ،رو زگاراور ضروریات زندگی سے متعلق
۴۶
کاروبار میں ترقی
۴۶
بلا ومصیبت سے نجات حاصل ہونا
۴۷
اعمال قضائے حاجت
۴۶
ہمیشہ خوش رہنا ،غم کادفع ہونا
۴۶
مشکل آسان ہونا
۴۸
غریب کی مراد پوری ہونے کے لئے
۴۸
مراد پوری ہونا
۴۸
گم شدہ چیز ملنے کے لئے
۴۹
توانگری کے لئے
۵۰
دولت وسلطنت والا ہونے کے لئے
۵۰
مالدار بننے کے لئے
۵۰
رزق کی زیادتی کے لئے
۵۰
فقر وفاقہ دور کرنے کے لئے
۵۲
حاجت پوری کرنے کے لئے
۵۲
گھر میں تنگی اور مفلسی نہ ہو نے کے لئے
۵۲
کبھی کسی کا محتاج نہ ہو نے کے لئے
۵۳
محتاج نہ ہو اور عزت والا ہو
۵۳
مخلوق سے بے نیاز رہنے کے لئے
۵۳
مخلوق میں توانگر، برگزیدہ اور بے احتیاج رہنے کے لئے
۵۳
بے نیاز اور مستغنی ہو نے کے لئے
۵۳
مشکل کام آسان ہو نے کے لئے
۵۴
غم یا مہم کی کفایت کے لئے
۵۴
مطلوبہ چیز خواب میں معلوم ہو نے کے لئے
۵۴
دکھ ،رنج،بیماری اور دشمن کو دفع کرنے کے لئے
۵۵
رنج اور تکلیف نہ پہونچنے کے لئے
۵۵
زمانے کے لو گوں سے آگے بڑھنے کے لئے
۵۵
درستگی و بہتری ظاہر ہو نے کے لئے
۵۵
بغیر سعی کے مہمات اور کاروبار بن جا نے کے لئے
۵۵
رنج دور ہو نے اور قلبی اطمنان حاصل ہو نے کے لئے
۵۵
معاشی تنگی ،تنہائی، بیماری یا لڑ کی کے نکاح کے لئے
۵۵
روزگار لگنا اور نکاح کا پیغام منظور ہونا
۵۶
توانگری کے لئے
۵۶
کام کی تکمیل کے لئے
۵۶
سب کام اپنے حساب سے انجام پانے کے لئے
۵۶
کام کی درستگی کے لئے
۵۶
مقصود حاصل ہو نے کے لئے
۵۷
کسی کا محتاج نہ رہنے کے لئے
۵۷
بھوک اور پیاس کو دور کرنے کے لئے
۵۷
کسی کا محتاج نہ رہنے کے لئے
۵۷
بھوک اور پیاس کو دور کرنے کے لئے
۵۷
بھوکانہ رہنے کے لئے
۵۷
مراد کو پہونچنے کے لئے
۵۷
کشتی میں آفت نہ پہونچنے کے لئے
۵۸
کھیتی کوآفت سے محفوظ رکھنے کے لئے
۵۸
بلاؤں سے مامون رہنے کے لئے
۵۸
قناعت اور برکت کے حصول کے لئے
۵۸
اسباب کے گم اور ضائع ہوجانے کے وقت
۵۸
دشواریاں آسان ہو نے کے لئے
۵۹
توانگری کے لئے
۵۹
ظاہر وباطن کی غنا کے لئے
۵۹
(معاشرتی زندگی سے متعلق)
۵۹
معاشی تنگی ،تنہائی، بیماری یا لڑ کی کے نکاح کے لئے
۵۹
روزگار لگنا اور نکاح کا پیغام منظور ہونا
۶۰
محبت کے لئے
۶۰
بیوی کا محبت کرنا
۶۱
بانجھ پن ختم ہونا
۶۱
بانجھ عورت کو نیک فرزند پیدا ہونے کے لئے
۶۱
حمل محفوظ رہنے کے لئے
۶۱
نیک فر زند پیدا ہونے کے لئے
۶۲
حصول اولاد کے لئے
۶۲
نیک اولاد کے لئے
۶۲
ماں کے دودھ آنے کے لئے
۶۲
اہل وعیال کا فرماں بردار ہونا
۶۳
بد خصلت لڑکے کو سدھارنے کے لئے
۶۳
جدائی سے بچنے کے لئے
۶۳
میاں بیوی کے درمیان جھگڑاہو جانے کے وقت
۶۳
میاں بیوی کے جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے
۶۳
نافرمان لڑکا اور لڑکی کو نیک بنانے کے لئے
۶۴
بیوی یا باندی کی ناپسندیدہ عادت کو بدلنے کے لئے
۶۴
حاملہ کا اپنے حمل کے ناقص وضع کے اندیشے کے وقت
۶۴
اولاد کے لئے
۶۴
گھر آباد رہنے اور اور آندھی طوفان سے حفاظت کے لئے
۶۵
عورت کا آفتوں سے چھٹکارا پانے کے لئے
۶۵
چھوٹے بچے کی حفاظت کے لئے
۶۵
متفرق اقارب و رشتے دار کو جمع کرنے کے لئے
۶۵
(ظالم ،دشمن ،حاسدین کے شرارت سے متعلق)
۶۶
ظالم سے بچنے کے لئے
۶۶
دشمن کو مہربان کر نے کے لئے
۶۶
دشمن سے بچنے کے لئے
۶۶
اپنا حق وصول کر نے کے لئے
۶۷
اللہ کی محبت اوردشمنوں پر غلبہ پانے کے لئے
۶۷
خوف دور ہونے کے لئے
۶۷
عمل شکست کفار
۶۷
حاسدین سے حفاظت کے لئے
۶۸
بے خوف رہنے کے لئے
۶۸
(عزت اور وقار سے متعلق)
۶۹
عزت بڑھنا
۶۹
مخلوق کی نظر میں معزز بننے کے لئے
۶۹
عزت وبزرگی کے لئے
۶۹
اپنی تعظیم اور تو قیر کے لئے
۶۹
صاحب عزت ہونے کے لئے
۷۰
عام مقبولیت کے لئے
۷۰
عزت وحرمت کے لئے اور نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
۷۰
(مختلف امراض کی شفا کے لئے)
۷۱
بیماری سے شفا کے لئے
۷۱
جنسی بیماری،جذام اور کوڑھ کے لئے
۷۱
آنکھ کی روشنی کے لئے
۷۱
تقویت بصر کے لئے
۷۱
آنکھ کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے
۷۱
برص کے لئے
۷۲
نسیان دفع ہونے کے لئے
۷۲
خوف سے محفوظ رہنے کے لئے
۷۲
مخلوق کو مہربان کرنے کے لئے
۷۲
(سفر سے متعلق)
۷۲
مسافر کے ماندہ اور عاجز نہ ہو نے کے لئے
۷۲
بخیریت واپسی
۷۳
سفر میں دل نہ گھبرائے
۷۳
سفر سے وطن لو ٹنے کے لئے
۷۳
باطن اورغیب پر مطلع ہونے لے لئے
۷۳
تمام آفتوں سے حفاظت کے لئے
۷۴
ظالموں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے
۷۴
مسبعات عشر کیا ہے ؟
۷۴
دشمن پر فتح پانے کے لئے
۷۴
دشمن کو مغلوب اور پست کرنے کے لئے
۷۵
ظالم و حاسد کے شر کو دفع کر نے کے لئے
۷۵
بادشاہ کا غصہ دفع ہو نے اورحاسدوں،دشمنوں کی زبان بند ہو نے کے لئے
۷۵
جنگ جیتنے کے لئے
۷۶
چور ،دشمن،برے ہمسایہ سے خوف کے وقت
۷۶
اپنے اہل وعیال کو دشمنوں اور آفتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے
۷۶
ظالم کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو نے کے لئے
۷۶
جنگ میں سختی اور رنج نہ پہونچنے کے لئے
۷۷
کسی کو مطیع وفرماں بردار بنانے کے لئے
۷۷
مظلوم کی سفارش قبول ہو نے کے لئے
۷۷
مہربان ہونے اور کرنے کے لئے
۷۷
قیدی کا قید سے رہائی کے لئے
۷۷
(دوسروں سے متعلق)
۷۸
مخلوق کو فرمابردار بنانے کے لیے
۷۸
مخلوق کی بد گوئی وعیب جوئی سے امن میں رہنے کے لئے
۷۸
مخلوق کے دل میں ہیبت وشوکت قائم کرنے کے لئے
۷۸
مخلوق میں اپنی ہیبت اور حرمت ظاہر کر نے کے لئے
۷۸
بخار،دردسر یا غم واندوہ سے نجات پانے کے لئے
۷۹
دل کی سیاہی دور کرنے کے لئے
۷۹
ڈوبنے ،جلنے ،زخمی ہونے کے خوف یا پریوں کا وہم کو دور کرنیکے لئے
۷۹
روزے دار کو قوت کے لئے
۷۹
فرشتوں سے دعا لینے کے لئے
۸۰
ابنائے جنس میں عزت وحرمت کے لئے
۸۰
دل کی زندگی کے لئے
۸۰
بجلی ،ہوا،پانی یا آگ کے خوف کے وقت
۸۰
مخلوق کے رازوں سے واقف ہو نے کے لئے
۸۱
بد زبانی اور فحش سے بچنے کے لئے
۸۱
عذاب قبر اور قیامت کے حساب سے بے خوف رہنے کے لئے
۸۱
غلطی نہ ہو نے کے لئے
۸۱
غائب شخص کی خبر ملنے یا لوٹ آنے کے لئے
۸۱
درد، رنج اور اپنے اعضاء کے ضائع ہونے کے خوف کے وقت
۸۲
نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
۸۲
صحت کے لئے
۸۲
تصرف کرنے کے لئے
۸۲
کھانے کو نور بنانے کے لئے
۸۳
تنہائی کی وحشت دور کرنے کے لئے
۸۳
قول وعمل میں سچا ہونے کے لئے
۸۳
کام کو حقانی بنانے کے لئے
۸۳
نفس کے فرمان بردار ہو نے کے لئے
۸۳
حق ہی پر اطمنان ہونے کے لئے
۸۴
قریب المرگ ہو نے کے وقت اعمال پاس نہ ہو
۸۴
نفسانی خواہشات کے آفتوں کے وقت
۸۴
شراب خوری اور زنا کاری کی عادت چھڑانے کے لئے
۸۴
تو بہ کی تو فیق کے لئے
۸۵
گناہوں کی معافی کے لئے
۸۵
(روحانی امراض سے متعلق)
۸۵
طمع ولالچ دور کرنے کے لئے
۸۵
ظاہر وباطن کی غنا کے لئے
۸۵
نیک بننے کے لیے
۸۶
اسرار الہی کی جانکاری کے لئے
۸۶
دل پر انوار ظاہر ہو نے کے لئے
۸۶
غفلت کو دور کرنے کے لئے
۸۶
المراجع والمصادر
۸۷





















کلمات تبریک

مرشدی ومولائی حضرت اقدس مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتھم
(خلیفہ حضرت اقدس مفتی مظفر حسین صاحب ؒ ،وبانی ومہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ،اما بعد:
انسانی زندگی کے لوازمات میں سے ہے کہ مختلف حوادث اور پریشانیاں اور متعدد النوع مسائل و حالات آتے رہیں اور اس سے کو ئی مفر بھی نہیں کیوں کہ یہ تقدیر ربانی اور فیصلۂ آسمانی سے جاری وساری ہو تی ہے اور اس میں اللہ کی بے پناہ حکمتیں اور مصلحتیں ہو تی ہیں ارشاد ربانی ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْن الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن اُولٰٓءِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰت’‘ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ’‘ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ (البقرۃ:۱۵۵-۱۵۷)
اس صورتِ حال میں بندوں کی بندگی کا تقاضایہ ہو تا ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہو ں اور ان حوادث اور پریشانیوں سے چھٹکارے وحفاظت کے لیے اسی کے دربار عالی میں رجوع ہو ں ۔
اور اس رجوع کا ایک طریقہ اللہ کا ذکر اور اس سے دعا ہے جو اللہ کے ناموں اور اس کے کلام سے استفادہ کے ساتھ ہو تا ہے ،اسی کے پیش نظر حضرات علما نے ہر دور میں ان پریشانیوں سے حفاظت اور ان کے ظاہری علاج کے ساتھ ساتھ باطنی علاج کے طور پر قرآن وحدیث کی روشنی میں روحانی نسخے جات کی ترتیب وتدوین کا عمل جاری کیا جو انتہائی مفید اور نا خطا کرنے والا نسخہ ہے ۔
زیر نظر رسالہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں اللہ کے ناموں کی خاصیات اور ان کے ذریعے ظاہری وباطنی روگوں اور بیماریوں ،حوادث وہریشانیوں کا علاج ،اکابر علما کی تحقیقات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی اس رسالے کو پریشان حال لو گوں کی پریشانی کا مداوابنانے کی اور ا س سے استفادہ کرتے ہو ئے تعلق مع اللہ پیدا کرنے کی توفیق بخشے ۔

(حضرت اقدس مفتی )محمدشعیب اللہ خان (صاحب دامت برکاتھم)











k

حضرت مولانامفتی سید رفیق احمد صاحب قاسمی دام اقبالہ
(استاذِ حدیث جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور)

حق جل مجدہ کے سلسلے میں صحیح العقل اور سلیم الفطرت مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ دونوں جہاں میں حق تبارک وتعالی ہی کا تصرف وارادہ کارفرما ہے ،جوہر ہو یاعرض ،عین ہویا وصف میں تبدیلی اسی کی رضا سے نافذ ہو تی ہے ۔نفع و نقصان ،صحت ومرض ،عزت وذلت اسی کے دست تصرف سے وجود پذیر ہو تی ہے ،قرآن وحدیث میں ایک سے زائد مرتبہ واضح طور پر بتایا گیا ہے ،ایک اردو خواں قرآن کریم کے تر جمے سے بہ خوبی واقف ہو سکتا ہے ۔احادیث مبارکہ ،اقوال صحابہ اور سلف صالحین کی طرز زندگی سے بھی یہ بات واضح طور پر معلوم ہو تی ہے کہ ظاہری،باطنی ،محسوس وغیر محسوس بیماری اور پریشانی کے لئے قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ کس قدر شفایا ب اور نجات دہندہ ہیں ۔آیات قرآنیہ اور ادعی�ۂماثورہ کے پڑھنے سے کیا کیا فائدے ہیں ؟اس موضوع سے متعلق سلف صالحین نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور اپنے مجربات چھوڑے ہیں ۔حضرت سید احمد شھید ؒ تعویذ میں صرف یہ لکھ دیا کرتے تھے ’’خداوند اگر منظور داری حاجتش را براری ‘‘اور جس کام کے لئے دیتے تھے حق تبارک وتعالی پورا فرمادیتے تھے ،(حکیم الامت کے حیرت انگیز واقعات:۵۳۵)
مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کتابوں سے اپنے امراض کا علاج کریں ؛مگر بعض مسلمانوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے،اس طبقے کا نظریہ عامل اور عملیایت سے متعلق کفریہ حد تک پہنچا ہو اہے یہ فتنہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ،مجاوروں اور سوامیوں کے پاس جاتے ہیں ،ان مذکورہ لو گوں کو حقیقی نجات دہندہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔اللھم احفظنا منھم ۔ایسے ہی لو گوں کی اصلاح کے لئے ہمارے عزیز محترم مولانا عزیر احمد صاحب (استاذ جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور )نے ’’اسمائے حسنی سے روحانی وجسمانی علاج ‘‘کے نام سے معتبر کتب سے نافع رسالہ ارقام فرماکر احقر کو حکم دیا کہ کچھ تبصرہ کروں !موصوف کے کہنے پر چند باتیں تحریر کی ہیں ،دعا ہے کہ اللہ تعالی اس رسالے کو مسلمانوں کے لئے نافع بنائے اور مو صوف کے لئے ذخیر�ۂآخرت بنائے آمین ۔
الہي! اجعل لھا نفعا کثیرا
لکي تصلح بھا شخصا ضریرا
(اے اللہ اس رسالے کے نفع کو کثیر فرما ؛تاکہ اندھا (اندھے سے مراد: قرآن وحدیث کو چھوڑ کر عاملین غافلین کے طریقے کو اپنانے والا )شخص بھی اس سے اپنی اصلاح کرلے )

سید رفیق احمد
(خادم تدریس وافتا جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم)
۳؍۷؍۱۴۳۷ ؁ھ مطابق۱۱؍۴؍۲۰۱۶ ؁ء


0

عرض مؤلف
ہر انسان کسی نہ کسی مسئلے سے پریشان ہے ؛کوئی تاجرروزگار ی سے کبیدہ خاطر ہے ،کوئی باپ اولاد کی وجہ سے غم گین ہے ،کوئی بھائی بہنوں اور بھائیوں سے پریشان ہے ،کسی کا گھر بیوی کی وجہ سے اجڑاہواہے یا شوہر کی وجہ سے گھر کا سکون چھن گیا ہے ،کچھ لوگ اپنی بچیوں کی شادی کو لے کر پریشان ہیں ،کہیں رشتے صحیح نہیں مل رہے ہیں کہیں شادی کا بوجھ اور خرچ بے قابو ہوا جارہاہے،کوئی سیدھا سادھا آدمی کسی ظالم، حاسد،دشمن یا مار آستین کا زخم خور دہ ہے، یہ ہر گھر،ہر فرد کی آپ بیتی ہے ایسابھی نہیں ہے سب پریشان ہیں بلکہ اس کے برخلاف کوئی روزگار سے خوشی میں مگن ہے ،کسی کی نیک و صالح اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک بنی ہو ئی ہے ،کہیں بھائی بہن ماں اور پورا گھرانہ ملن سار ہے ،کہیں میاں بیوی کو دنیا ہی میں جنت کا مزہ مل رہا ہے،کہیں رشتے اورشادی بوجھ نہیں ہیں ۔ جن کی حالت اس طرح ہے ان کو اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے ،کہ کہیں یہ استدراج تو نہیں اور جن کی زندگی مصائب کی نذر ہو گئی ہو ،ان کو پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں ہے ۔کیوں کہ یہ مصائب گناہوں کو دھونے اور درجات کو بلند کرنے کے لئے من جانب اللہ اتاری جاتی ہے ۔
ہم نے انسانوں کو بڑی مشقت میں پیدا کیا
(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَد)(البلد:۴) ترجمہ: ہم نے انسانوں کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ۔اس آیت کے تحت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نویؒ لکھتے ہیں :کہ چنانچہ عمر بھر کہیں مرض میں کہیں رنج میں ،کہیں فکر میں ،اکثراوقات مبتلارہتا ہے،اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ اس میں عجز ودرماندگی پیدا ہو تی اور اپنے کو بست�ۂحکمِ تقدیر سمجھ کر مطیعِ امر وتابعِ رضا ہو تا۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کہ’’کبد‘ کے لفظی معنی محنت ومشقت کے ہیں،معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمر سے آخر تک محنتوں اور مشقتوں میں رہتا ہے،حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا :کہ ابتدائے حمل سے رحمِ مادر میں محبوس رہا پھر ولادت کے وقت کی محنت ومشقت برداشت کی ،پھر ماں کا دودھ پینے پھر اس کے چھوٹنے کی محنت پھر اپنے معاش اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی مشقت ،پھر بڑھاپے کی تکلیفیں ،پھر موت ،پھر قبر،پھر حشر اور اس میں اللہ تعالی کے سامنے،اعمال کی جواب دہی پھر جزاو سزا ،یہ سب دور اس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں ،اور یہ محنت ومشقت اگر چہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لئے بالخصوص اس لئے فرمایا :کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور وادراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدر شعور زیادہ ہو تی ہے ،دوسرے آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ۔
بعض علما نے فرمایا کہ کو ئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے ،باوجود یہ کہ وہ جسم اور جثہ میں اکثر جا نوروں کی نسبت ضعیف وکمزور ہے ۔ظاہر یہ ہے کہ انسا ن کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے ،اسی لئے اس کی تخصیص کی گئی ہے ۔ مکہ مکرمہ ،اور آدم واولادِ آدم علیہ السلام کی قسم کھا کر حق تعالی نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ انسان کو ہم نے شدت ومحنت اور مشقت ہی میں اور اسی کے لئے پیدا کیا ہے ،جو اس کی دلیل ہے کہ انسان خود بخود نہیں پیدا ہو گیا،یا اس کو کسی دوسرے انسان نے جنم نہیں دیا ؛بلکہ اس کا پیدا کر نے والا ایک قادر مختار ہے جس نے اپنی حکمت سے ہر مخلوق کو خاص خاص مزاج اور خاص اعمال وافعال کی استعداد دے کر پیدا کیا ہے،اگر انسان کی تخلیق میں خود انسان کو کچھ دخل ہو تا تو وہ اپنے لئے یہ محنتیں مشقتیں کبھی تجویز نہ کرتا ۔
(معارف القرآن: ۸؍ ۷۵۰- تفسیرسورہ بلد آیت:۴)
جنتی عورت
حضرت عطا بن ابی رباح ؒ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھ سے ابن عباسؓ نے فرمایا:کیا میں تمھیں جنتی عورت نہ دکھا ؤں؟میں نے عرض کیا ضرور دکھائیے!فرمایا: یہ کالے رنگ کی عورت حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئی اور عرض کیا : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے ،اور میرا ستر کھل جاتا ہے ؛میرے لئے اللہ سے دعاکیجئے!حضور ﷺ نے فرمایا ’’اگر تو چاہے تو صبر کر اور اس کے بدلے میں تجھے جنت ملے گی ،اور اگر تو چاہپتی ہے تو میں دعا کرتا ہوں تاکہ اللہ تعالی تجھے شفا عطا کردے ۔اس عورت نے عرض کیا :میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا میرا ستر کھل جاتا ہے ،اللہ تعالی سے دعاکیجئے !کہ میرا ستر نہ کھلے ،تو حضور ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی
(متفق علیہ:البخاري:۵۶۵۲ : کتاب المرضی:باب فضل من یصرع من الریح۔و مسلم:۲۵۷۶،کتاب البر:باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض أو حزن أو نحو ذلک حتی الشوکۃ یشاکھا)
اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے اس عورت کو پریشانی پر صبر کرنے اور اس کے بدلے جنت کا وعدہ فرمارہے ہیں ،بالآخر وہ عورت اس پر را ضی بھی ہو گئی ۔
حکایت
شیخ شرف الدین سعدی شیرازیؒ لکھتے ہیں کہ’’ میں نے ایک صالح آدمی کو دریا کے ساحل پر دیکھا جس کو چیتے نے زخمی کردیاتھا،اور اس کا زخم کسی علاج سے اچھا نہ ہو تا تھا ایک عرصہ دراز تک اس تکلیف میں مبتلا رہا اور ہمیشہ خدائے عزو جل کا شکر ادا کرتا رہتا تھا،لوگوں نے اس سے پوچھاتو شکر کس چیز کا ادا کرتا ہے تو اس نے کہا شکر آں کہ بمصیبتے گرفتارم نہ بمعصیتے، شکر اس لئے اداکرتا ہوں کہ مصیبت میں گرفتا رہوں گناہ میں گرفتا ر نہیں ہو ں ۔
(گلستان:باب دوم در اخلاق درویشاں،حکایت: ۱۲)
موجودہ دور میں علمائے دیوبند کے اس سلسلے میں سینکڑوں واقعات ہیں کہ انہوں نے اختیاری طور سے پسندیدگی کے ساتھ مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے ۔تفصیل کے لئے شیخ زکریا صاحب ؒ کی آپ بیتی،تذکرۃ الخلیل ،تذکرۃ الرشید، ارواح ثلثہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
اورحضرت مولانا شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی ؒ کے زبان پر ایک شعر ہمیشہ رہتا تھا :
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکا میوں پر اشک برسانا نہیں آتا
مصائب حالات اور پریشانیاں انسان کے ساتھ لگی ہو ئی ہیں،اور ان مسائل کے حل کے لئے آپ ﷺ سے ،صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ،اکابرسلف صالحین متقدمین ومتاخرین سب سے اوراد وظائف کے معمولات ملتے ہیں اور اس رسالے میں خصوصیت سے اللہ کے ناموں سے متعدد النوع مسائل کے حل کے لئے اسمائے حسنی سے علاج بتایا گیا ہیاور یہ ذہن میں رہے کہ اللہ اپنے نام کی برکت سے پیش آمدہ مسئلے کو حل کردے تو اس کا کرم ہے اگر حل نہیں ہوا تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،جو اوراد اور وظائف پڑھے ہیں اس کا ثواب تو ضرور ملے گا (ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین) (۹؍التوبۃ :۲۳)
(یقین جانو کہ اللہ نیک لو گوں کے کسی عمل کو بے کار جانے نہیں دیتا )
اور ایک حدیث ہمیشہ مستحضر رکھیں۔
ایک اہم حدیث
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور آپ حضرت جبرئیل ؒ سے وہ اپنے پرور دگار عزوجل سے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’جس نے میرے ولی کی اہانت کی تو اس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا اور میں کسی چیز میں جس کو کرنے والا ہو تا ہوں تردد نہیں کرتا جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں کہ میں اس کی تکلیف کو پسند نہیں کرتا اور اس سے کو ئی چارہ بھی نہیں ،اور بعض مومن بندے ایک نوع کی عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کو اس سے روک دیتا ہو ں تاکہ اس کے اندر عجب داخل نہ ہو جائے اور وہ اس کو تباہ کردے ۔اور میرے بندے نے میرے فرض کی ادائے گی کے برابر کسی اور چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کیا ،اور ہمیشہ میرا بندہ نفل ادا کرتا رہتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں اور میں جس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان اور اس کی آنکھ اور اس کا ہاتھ اور اس کا مددگار ہو جاتا ہو ں ؛وہ مجھ کو پکارتا ہے میں اس کی پکار قبو ل کرتا ہو ں ؛وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کودیتا ہو ں اور میرے ساتھ خلوص اختیار کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہو ں ،اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کو فقر وافلاس ہی درست رکھ سکتا ہے ،اور اگر میں اس کو کشادگی عطا کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے ،اور میرے بعض بندے ایسے ہیں جس کے ایمان کو غنا اور توانگری ہی درست رکھ سکتا ہے،اور اگر میں اس کو مفلس کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے ،اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جس کے ایمان کو بیماری ہی درست رکھ سکتی ہے،اور اگر میں اس کو صحت عطاکردوں تو وہ اس کو تباہ کردے،،اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں جس کے ایمان کو صحت ہی درست رکھ سکتی ہے اور اگر میں اس کوبیمار کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے،میں چونکہ اپنے بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھتا ہو ں اس لئے اسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہو ں یقیناًمیں علیم وخبیر ہو ں ۔
(اقوال سلف: ۱/۱۴۳-۱۴۴،از شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی مد ظلہ)
اللہ کے نام میں بہت تاثیر ہے فائدہ ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی ذات پر کامل اور بھرپور یقین ہو،جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے: ’’أنا عند ظن عبدي بي‘‘۔
(مشکوۃ:۱۹۶:کتاب الدعوات: باب ذکراللہ عزوجل والتقرب الیہ، متفق علیہ)
(ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق رہتا ہو ں ۔)
بندہ جیسا گمان اور عقیدہ اللہ کے ساتھ رکھتا ہے فیصلہ بھی اسی کے مطابق ہو تا ہے اس لئے چاہئے کہ کامل شفا کے یقین کے ساتھ اپنے ناگفتہ بہ حالات میں اللہ کے نام کا وسیلہ لیں اور فائدہ اٹھائیں ۔
حکایت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خطبات میں ہے کہ ’’بس اب تم خدا کے ہو جاؤ ۔خدا خود سامان کر لے گا اور اسی پر توکل کروورنہ سمجھا جائے گا کہ تم خدا کے معتقد نہیں ہو اور تمہاری مثال اس حکایت کی طرح ہو جائے گی۔
ایک مولوی صاحب بسم اللہ کے فضائل بیان کر رہے تھے کہ جو کام بسم اللہ پڑھ کے کیا جائے اس میں ایسی برکت ہو تی ہے ۔وہ خوب اچھا ہو تا ہے ۔ایک گھسیارہ سن کر بہت خوش ہوا ۔اچھا ہو ایہ نسخہ ہا تھ لگا ،روز دریا سے پار اتر نے کا پیسہ دینا پڑتا ہے ،اب پیسہ روز بچے گا ،چنانچہ وہ پانی میں سے بسم اللہ پڑھ کے پار ہو جاتا تھا اور کسی قسم کا خطرہ نہ ہو تا تھا ۔اس نے ان مولوی صاحب کی دعوت کی کہ جن کی بدولت یہ دولت ملی ان کی دعوت تو کرنا چاہئے،جب مکان کی طرف لے چلا تو راستے میں دریا آیا ،مولوی صاحب رک گئے،اس نے کہا مولوی صاحب چلو مولوی صاحب نے کہا !کشتی تو ہے نہیں، کیسے چلو ں؟اس نے کہا !جی بسم اللہ پڑھ کر چلیے! اس دن آپ ہی نے تو وعظ میں مجھے نسخہ بتایا تھا ۔جب اس پر بھی مولوی صاحب کی ہمت نہ ہو ئی تو اس نے کہا چلئے میں آپ کو لے چلوں۔چنانچہ مولوی صاحب کا بھی اس نے ہاتھ پکڑ کر پار کردیا ۔مولوی صاحب نے فرمایا:بھائی تو عامل ہے اور میں صرف عالم ہوں۔
(خطبات حکیم الامت :۶/۳۰۹، نظام شریعت، وعظ: الاعتصام بحبل اللہ)
اللہ کے نام کی تاثیر پر یقین تھا تو دیہاتی کا بیڑا پار ہو گیا ۔
بزرگوں سے جو اوراد و وظائف منقول ہیں اس کے مطابق کرنے سے کبھی وہ دعا کی شکل اختیار کر لیتی ہے ،دعا قبول ہو ئی توجس مسئلہ کا حل طلب کیا تھا وہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔
وضاحت و استناد
رسالے میں موجود اسمائے حسنی کے روحانی وجسمانی فوائد میں کچھ تو وہ ہیں جوحضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اعمال قرآنی میں ذکر کئے ہیں باقی وہ ہیں جس کو حضرت مولانا نواب قطب الدین خان دہلوی ؒ نے خیر متین شرح حصن حصین باب اسمائے حسنی میں ذکر فرمائے ہیں اوران کو شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ اور شیخ فخرالدین ؒ کی شرحوں سے مستفاد بتلایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں’’الحمد للہ کہ بیان اسمائے حسنی کا شیخ عبد الحق اور شیخ فخر الدین رحمھما اللہ کی شرحوں سے تمام ہوا،الہی تو ہم سب کو اس پر عمل نصیب کر‘‘۔
(خیر متین شرح حصن حصین، باب اسمائے حسنی)
ضروری گذارش
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں کہ ’’احقر کو اعلی حضرت مرشدی سیدی رحمۃ اللہ علیہ (سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ )نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر کوئی حاجت مند تعویذ لینے آئے تو انکار مت کیا کرو،جو خیال میں آیا کرے لکھ دیا کرو ، احقر کا معمول ہے کہ اس کی حاجت کے مطابق کوئی آیت قرآنی یا کو ئی اسم الہی سوچ کر لکھ دیتا ہے اور بفضلہ تعالی اس میں برکت ہوتی ہے ۔چنانچہ ایک بی بی کی مانگ کے باوجود کو شش بار بار کے سیدھی نہ نکلتی تھی ۔احقر نے کہا اھدنا الصراط المستقیم پڑھ کر مانگ نکالو ۔چنانچہ اس کا پڑھنا تھا کہ بے تکلف مانگ سیدھی نکل آئی۔احقر نے یہ حکایت اس لئے عرض کی ہے اگر کو ئی طالب صادق بھی اس معمول کو اختیار کرے تو امید نفع اور برکت کی ہے ‘‘(مقدمہ اعمال قرآنی)
ضروری مسائل
(۱) بے وضو آیات قرآنی کاغذ یا طشتری پر لکھنا جائز نہیں ۔
(۲)بلاوضو اس کاغذ یا طشتری کا چھونا جائز نہیں ،پس چاہئے کہ لکھنے والا اور طشتری یا تعویذکا ہاتھ میں لینے والا اس کو دھونے والاسب باوضو ہوں؛ورنہ سب گناہ گار ہوں گے۔
(۳)جب تعویذ سے کام ہو چکے تو اس کو قبرستان میں کسی جگہ دفن کردے ۔
(اعمال قرآنی)
عزیر احمد
(استاذ جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم)









اسمائے حسنی کے فضائل

(قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہٗ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی) (۱۷/الاسراء:۱۱۰)
ترجمہ:اے نبی ﷺ بتادیجئے کہ اے لوگو!اللہ کہو یا رحمن کہو۔ان میں سے کو ئی نام بھی لو ۔بس اللہ کے نام تو سب پاک ہیں ۔
(وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا ص وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ ) (۷؍الاعراف:۱۸۰)
ترجمہ:اللہ کے بہت پاک نام ہیں ۔پس لو گو!اللہ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارا کرو اور جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں اسے چھوڑدو۔
آیات بالا سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کے نام تو فیقیہ ہیں یعنی جن اسماء کو اللہ تعالی نے اور اس کے رسول ﷺ نے اسمائے الہی بتایا ہے ۔ان کے سوا اللہ تعالی کو کسی اور نا م سے یاد کرنا پکارنا یا اسے اللہ تعالی کا پاک نام سمجھنا جائز نہیں ۔
’’عن ابی ھریرۃؓ عن النبی ﷺ قال:ان للہ تسعۃ وتسعین اسما من حفظھا دخل الجنۃ وا للہ وتر یحب الوتر وفی روایۃ ابن ابی عمرؒ :من احصاھا‘‘
(مسلم :کتاب الذکر والدعا ء،باب فی اسماء اللہ تعالی:۶۸۰۹)
ترجمہ: ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں ،جس نے ان کو حفظ کرلیا وہ جنت میں داخل ہوا ۔اللہ تو وتر ہے ،اللہ تعالی وتر کوپسند کرتا ہے۔ابن ابی عمرؒ (راوی)نے ’’حفظھا‘‘ کی جگہ’’ احصاھا‘‘ کہا ہے۔
اسمائے حسنی کی تعداد
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری(صاحب رحمۃ للعالمین )نے معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنی میں اسمائے حسنی سے متعلق محدثین کے تین مشہور طریقے اور شجرے نقشے کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں:
پہلا طریقہ امام ترمذی ،طبرانی ،ابن حبان اور ابن خزیمہ کا ہے ۔
دوسرا طریقہ زہیر بن محمد کا ہے، جسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے ۔
تیسرا طریقہ عبد العزیز بن حصین کا ہے جسے حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے ۔نقشہ اور شجرہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’اس نقشے سے واضح ہوجاتا ہے کہ مختلف طریق میں جو نام بیان ہوئے ہیں ان کا شمار ۱۸۵ہے اور ان میں آٹھ نام:
(۱) مالک الملک (۲) ذوالجلال والاکرام (۳) ذوالقوۃ (۴) ذوالطول (۵) ذو المعارج (۶) ذوالفضل (۷) فعال لما یرید (۸) رب المشرقین ورب المغربین۔ مرکب نام ہیں باقی ۱۵۰ مفرد ہیں ۔‘‘
(معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنی:۲۷ - ۳۹)
اسمائے حسنی
عن أبی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺان للہ تعالی تسعۃ وتسعین اسمامن أحصاھا دخل الجنۃ۔ھو اللہ الذی لاالہ الاھوالرحمن الرحیم الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبرالخالق الباری المصور الغفار القھار الوھاب الرزاق الفتاح العلیم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السمیع البصیر الحکم العدل اللطیف الخبیر الحلیم العظیم الغفور الشکور العلی الکبیر الحفیظ المقیت الحسیب الجلیل الکریم الرقیب المجیب الواسع الحکیم الودود المجید الباعث الشھید الحق الوکیل القوی المتین الولی الحمید المحصی المبدی المعید المحیی الممیت الحی القیوم الواجد الماجد الواحد الاحد الصمد القادر المقتدر المقدم المؤخر الأول الآخر الظاھر الباطن الوالی المتعالی البر التواب المنتقم العفو الرؤوف مالک الملک ذوالجلال والاکرام المقسط الجامع الغنی المغنی المانع الضار النافع النور الھادی البدیع الباقی الوارث الرشید الصبور۔
(رواہ الترمذی والبیھقی فی الدعوات الکبیر و قال الترمذی: ھذاحدیث غریب)
( مشکوۃ:کتاب اسماء اللہ تعالی،الفصل الثانی)
نقشہ نود ونہ نام پاک اللہ عزوجل

نمبر شمار
اسم پاک
حوالہ آیت قرآنیہ
۱
اللّٰہُ
( اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَ�آ اِلٰہَ اِلَّ�آ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ)
[۲۰؍طہ:۱۴]
۲
الرحمن
(الرحمن الرحیم)[۱؍ الفاتحہ:۲]
۳
الرحیم
[۱؍ الفاتحہ:۲]
۴
الملک
(اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّر )
۵
القدوس
[۵۹؍الحشر۲۳]
۶
السلام
[۵۹؍الحشر۲۳]
۷
المومن
[۵۹؍الحشر۲۳]
۸
المھیمن
[۵۹؍الحشر۲۳]
۹
العزیز
[۵۹؍الحشر۲۳]
۱۰
الجبار
[۵۹؍الحشر۲۳]
۱۱
المتکبر
[۵۹؍الحشر۲۳]
۱۲
الخالق
( الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّر)
[۵۹؍الحشر۲۴]
۱۳
الباری
[۵۹؍الحشر۲۴]
۱۴
المصور
[۵۹؍الحشر۲۴]
۱۵
الغفار
(وَاِنِّیْ لَغَفَّار’‘ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَن)
[۲۰؍طہ:۸۲]
۱۶
القھار
( اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ )
[۱۲؍یوسف :۳۹]
۱۷
الوھاب
( اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ )[۳؍آل عمران :۸]
۱۸
الرزاق
( اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن)
[۵۱؍الذاریات:۵۸]
۱۹
الفتاح
( وَھُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْم)[۳۴؍سبا :۲۶]
۲۰
العلیم
[۳۴؍سبا :۲۶]
۲۱
السمیع
(اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ)
[۴۰؍غافر:۲۰]
۲۲
البصیر
[۴۰؍غافر:۲۰]
۲۳
اللطیف
(وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ)[۶۷؍الملک: ۱۴]
۲۴
الخبیر
[۶۷؍الملک:۱۴]
۲۵
الحلیم
(اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا)
[۱۷؍الاسراء:۴۴]
۲۶
العظیم
(وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ)[۲؍البقرۃ:۲۵۵]
۲۷
الغفور
(اِنَّہٗ غَفُوْر’‘ شَکُوْر)[۳۵؍الفاطر :۳۰]
۲۸
الشکور
[۳۵؍الفاطر :۳۰]
۲۹
العلی
(وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْم)[۲؍البقرۃ:۲۵۵]
۳۰
الکبیر
(عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ)
[۱۳؍الرعد :۹]
۳۱
الحفیظ
(اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظ’)
[۱۱؍ھود ۵۷]
۳۲
المقیت
( وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا )
[۴؍النساء:۸۵]
۳۳
الحسیب
( اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا)
[۴؍النساء:۸۶]
۳۴
الکریم
(فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیّ’‘ کَرِیْم’‘ )
[۲۷؍النمل :۴۰]
۳۵
الرقیب
( اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا )[۴؍النساء:۱]
۳۶
القریب
(اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْب’‘ مُّجِیْب’‘ )[۱۱؍ھود:۶۱]
۳۷
المجیب
[۱۱؍ھود:۶۱]
۳۸
الواسع
(ان اللہ واسع علیم )[۲؍البقرۃ:۱۱۵]
۳۹
الحکیم
( اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم )[۲۷؍النمل:۹]
۴۰
الودود
(وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْد)[۸۵؍البروج:۱۴]
۴۱
المجید
( اِنَّہٗ حَمِیْد’‘ مَّجِیْد)[۱۱؍ھود:۷۳]
۴۲
الشھید
(اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْد’‘ )[۲۲؍الحج:۱۷]
۴۳
الحق
(اَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ الْمُبِیْنُ)[۲۴؍النور:۲۵]
۴۴
الوکیل
(وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا )
[۱۷؍الاسراء:۶۵]
۴۵
القوی
(وَھُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ )[۴۲؍الشوری:۱۹]
۴۶
المتین
( اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن)
[۵۱؍الذاریات:۵۸]
۴۷
الولی
(وَھُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْد)[۴۲؍الشوری :۲۸]
۴۸
الحمید
[۴۲؍الشوری :۲۸]
۴۹
الحی
( اَللّٰہُ لَ�آاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ)
[۳؍ آل عمران :۲]
۵۰
القیوم
[۳؍ آل عمران :۲]
۵۱
الواحد
( وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ )
[۳۸؍ص:۶۵]
۵۲
الاحد
(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد’‘ ُ )
[۱۱۲؍الاخلاص:۱]
۵۳
الصمد
(ااَللّٰہُ الصَّمَدُ)[۱۱۲؍الاخلاص:۱]
۵۴
القادر
( قَادِر’‘ عَلآی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ)
[۱۷،بنی اسرئیل:۹۹]
۵۵
المقتدر
( عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِر)[۴۵؍القمر:۵۵]
۵۶
الاول
(ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ)
[۵۷؍الحدید:۳]
۵۷
الآخر
[۵۷؍الحدید:۳]
۵۸
الظاھر
[۵۷؍الحدید:۳]
۵۹
الباطن
[۵۷؍الحدید:۳]
۶۰
الوالی
(وَمَالَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ )
[۱۳؍الرعد:۱۱]
۶۱
المتعالی
(عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ)
[۱۳؍الرعد:۹]
۶۲
البر
(اِنَّہٗ ھُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْم)[۵۲؍الطور ۲۸]
۶۳
التواب
(اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم)
[۲؍البقرۃ:۱۲۸]
۶۴
العفو
(اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا )
[۴؍النساء:۴۳]
۶۵
الروف
( وَاَنَّ اللّٰہَ رَءُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘)
[۲۴؍النور :۲۰]
۶۶
الجامع
( رَبَّنَآ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِ )
[۳؍آل عمران :۹]
۶۷
الغنی
(وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیّ’‘ حَمِیْد’‘ )
[۲؍البقرۃ:۲۶۷]
۶۸
النور
( اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرضِ)
[۲۴؍النور:۳۵]
۶۹
الھادی
(وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا )
[۲۵؍الفرقان:۳۱]
۷۰
البدیع
( بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)
[۶؍الانعام ۱۰۱]
۷۱
الرب
(رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا )
[۲؍البقرۃ:۱۲۶]
۷۲
المبین
(اَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ الْمُبِیْنُ )
[۲۴؍النور:۲۵]
۷۳
القدیر
(اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم’‘ قَدِیْر’‘ )
[۱۶؍النحل:۷۰]
۷۴
الحافظ
(فَاللّٰہُ خَیْر’‘ حٰفِظًا)[۱۲؍یوسف:۶۴]
۷۵
الکفیل
( وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلاً )
[۱۶؍النحل:۹۱]
۷۶
الشاکر
( فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘ )
[۲؍البقرۃ:۱۵۸]
۷۷
الاکرم
(اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ)[۹۶؍العلق:۳]
۷۸
الاعلی
(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی)
[۸۷؍الاعلی :۱]
۷۹
الخلاق
( وَھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ)[۳۶؍یس:۸۱]
۸۰
المولی
( ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰءھُمُ الْحَقِّ)
[۶؍الانعام ۶۲]
۸۱
النصیر
(وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا)[۴؍النساء:۴۵]
۸۲
الالہ
(اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّاحِد’‘ )
[۱۸ ؍الکہف:۱۱۰]
۸۳
العلام
(اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ )
[۵؍المائدہ:۱۰۹]
۸۴
القاھر
(وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ )
[۶؍الانعام:۱۸]
۸۵
الغافر
(غَافِرِالذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ )
[۴۰؍غافر:۳]
۸۶
الفاطر
( فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ)[۶؍الانعام:۱۴]
۸۷
الملیک
( فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِر) [۵۴؍القمر:۵۵]
۸۸
الحفی
(اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا )[۱۹؍مریم :۴۷]
۸۹
المحیط
(اَ لَآ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْط’‘)
[۴۱؍حم السجدہ :۵۴]
۹۰
المستعان
( وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ)
[۲۱؍الانبیاء:۱۱۲]
۹۱
الرفیع
(رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوالْعَرْش)
[۴۰؍المومن :۱۵]
۹۲
الکافی
(۳۵ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ )
[۳۹؍الزمر:۳۶]
۹۳
غالب
(وَاللّٰہُ غَالِب’‘ عَلآی اَمْرِہٖ)
[۱۲؍یوسف:۲۱]
۹۴
المنان
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْن)
[۳؍آل عمران:۱۶۴]
۹۵
المحصی
(وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ)
[۳۶؍یس :۱۲]
۹۶
المحی
(اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰی)
[۳۰؍الروم :۵۰]
۹۷
الممیت
( لَ�آ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْت)
[۷؍الاعراف:۱۵۸]
۹۸
الوارث
( وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ )
[۲۸؍القصص:۵۸]
۹۹
الباعث
(وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْر)
[۲۲؍الحج:۷]
۱۰۰
الباقی
( وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ)
[۵۵؍الرحمن :۲۷]
آمادگ�ئ اطاعت
البصیر (دیکھنے والا)
خاصیت:بعد نماز جمعہ سو مرتبہ پڑھنے سے دل میں صفائی ہو اور نیک اعمال کی تو فیق ہونے کے لئے۔
القیو م(تھامنے والا)
خاصیت:اس کی کثرت سے نیند جاتی رہے اور یا حی یا قیوم کو فجر سے طلوع آفتاب تک پڑھنے سے مستعدی اور آمادگئ اطاعت حاصل ہو۔
اللہ کی رضا
العفو (معاف کرنے والا)
خاصیت:بکثرت ذکر کر نے سے گناہوں سے معافی اور رضائے الہی حاصل ہو ۔
قلب کا منور ہونا
الباعث(رسولوں کو بھیجنے والے )
خاصیت:سوتے وقت سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کو سو بار پڑھا کرے تو اس کا قلب علم وحکمت سے منور ہوگا ۔
النور (روشنی والے )
خاصیت:اس کے ذکر سے نور قلب حاصل ہو۔
المؤخر (پیچھے کرنے والے )
خاصیت:کثرت سے پڑھے تو برے کاموں سے توبہ نصیب ہو ۔
التواب (توبہ قبول کرنے والے )
خاصیت:چاشت کی نماز کے بعد تین سو بار پڑھے توبہ کی تو فیق حاصل ہو اور اگر ظالم پر دس بار پڑھے تو اس سے خلاصی ہو ۔
اصلاح فاسق
المتین (مضبوط)
خاصیت:اگر کمزور پڑھے تو طاقتور ہوجائے اور اگر کسی فاجر وفاسق مردیا عورت پر پڑھا جائے تو فجور سے باز آجائے ۔
مقبولیت اعمال
الرشید (عالم کا راہ نما)
خاصیت:بعد عشاء کے سوبا رپڑھے تو سب عمل مقبول ہوں۔
مقام حال اور مقام عرفان پر ثابت قدمی کے لئے
الضار(نقصان پہنچانے والا)
خاصیت:جوکوئی کسی حال اور مقام عرفان پر پہونچ جائے،جمعہ کی راتوں میں اس نام کو سو بار پڑھے،اللہ تعالی اس کو ثابت قدمی عطافرمائے،اور آخر میں اہل قرب کے مرتبے کو پہنچے۔
فرشتہ صفت بننے کے لئے
القدوس السبوح(ہر نقص و عیب سے پاک ومنزہ)
خاصیت:جمعہ کی نماز کے بعد روٹی کے ٹکڑے پر لکھ کر کھاوے توفرشتہ صفت ہو جائے۔
قیامت کے دن چہرہ چمکے
انہ ھو البر الرحیم (وہ بڑا محسن ومہربان ہے ۔پارہ ۲۴،ع۶)
خاصیت:جو کوئی اس آیت کریمہ کو نماز کے بعد گیارہ بار انگلی پر دم کرکے پیشانی پر مل دیوے تو ان شاء اللہ قیامت میں اس کا چہرہ چمکے گا ۔
دعا قبول ہونے کے لئے
السمیع (سننے والا)
خاصیت:جمعرات کے روز چاشت کی نماز کے بعد پانچ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا کرے قبول ہو ۔
المجیب (قبول کرنے والا )
رقت قلب کے لئے
الرحیم(نہایت رحم والے )
خاصیت:جو شخص روزانہ سو بار پڑھے اس کے دل میں رقت اور شفقت پیدا ہو ۔
دل سے غفلت ،بھول ،اور سختی دور کرنے کے لئے
الرحمن الرحیم(بخشنے والا مہربان)
خاصیت:نماز کے بعد پڑھنے سے اللہ تعالی دل سے غفلت ،بھول اور سختی کو دور کر دیتے ہیں ۔
باطن کشادہ ہونے اور کشف ہونے کے لئے
اللہ
خاصیت:نمازکے بعد سو بار پڑھے تو اس کا باطن کشادہ ہو گا اور کشف ہو نے لگے گا ۔
اپنی مغفرت کے لئے
العلیم(ہر ڈھکی چھپی چیز کا جاننے والا)
خاصیت:کثرت سے پڑھنے پر اللہ اپنی مغفرت عطا کرے۔
کشف والوں میں شامل ہو نے کے لئے
یا عالم الغیب(اے غیب کے جاننے والے)
خاصیت:ذکر کے بعد سوبا ریا عالم الغیب پڑھے تو کشف والوں میں شامل ہو جائے۔
قبر کے عذاب سے حفاظت کے لئے
القابض(قبض کر نے والا)
خاصیت:جو کو ئی اس اسم کو چالیس روز چار لقموں پر لکھ کر کھائے تو قبر کے عذاب سے محفوظ رہے۔
تقویت قلب کے لئے
الماجد(بزرگوار)
خاصیت:لقمے پر پڑھ کر کھائے تو تقویت قلب حاصل ہو ،اور اگر اس اسم کو دواما پڑھے تو قلب منور ہو ۔
الواحد الأحد (اپنی ذات وصفات میں یکتا)
خاصیت:اگر ہزار با ر پڑھے تو مخلوق سے بے فائدہ تعلق اس کے قلب سے زائل ہو جائے ۔
دل صاف ہونے کے لئے
القدوس(نہایت پاک وصاف)
خاصیت:زوال کے وقت پڑھے تو دل صاف ہوگا ۔
عمل قبول ہونے کے لئے اور رنج وسختی سے حفاظت کے لئے
الباقی(ہمیشہ رہنے والا)
خاصیت:جمعہ کی رات میں سو بار پڑھے تو تمام اعمال قبول ہوں اور رنج وسختی نہ پہونچے۔
نیک لو گوں میں شامل ہو نے کے لئے
الغفار(گناہ بخشنے والا اور عیبوں کو چھپانے والا)
خاصیت:عصر کی نماز کے بعد یا غفار اغفرلی سو بار کہے تو اللہ تعالی اس کو نیک لو گوں کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں ۔
دل سے دنیا کی محبت نکالنے اللہ کی محبت لانے اور خاتمہ بالخیر کے لئے
القھار(غالب)
خاصیت:جو اس کو کثرت سے پڑھتا رہے اللہ تعالی دنیا کی محبت اس کے دل سے اٹھادیتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ،خدا کی محبت اور شوق اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
دل سے زنگ دور کرکے نور وصفائی حاصل کرنے کے لئے
الفتاح(رزق ورحمت کادروازہ کھولنے والا )
خاصیت:جو کو ئی فجر کی نماز کے بعد دونوں ہاتھ سینے پررکھے اور ستر بار(۷۰) یہ اسم پڑھے اس کے دل سے زنگ جاتا رہے اور نور وصفائی حاصل ہو ۔
دعا قبول ہو نے کیلئے
السمیع (سننے والا)
خاصیت:جمعرات کے دن چاشت کی نماز کے بعد پانچ سو بار اور ایک قول کے مطابق ہر دن سو بار پڑھے اور بات کئے بغیر دعا کرے تو دعا مقبول ہو جائے۔
المجیب(جواب دینے والا دعا قبول کرنے والا)
خاصیت:اس کو کثرت سے پڑھ کر دعا کرے تو دعا قبول ہو۔
اللہ کی خاص نظر حاصل ہو نے کے لئے
البصیر(دیکھنے والا)
خاصیت:جمعرات کے دن فجر کی سنت اور فرض کے درمیان صحیح عقیدے کے ساتھ سوبار پڑھے تو اللہ کی خاص نظر سے متصف ہو۔
اپنے باطن کو اللہ کے رازوں کا جان کار بنانے کے لئے
الحکم(حکم کرنے والا)
خاصیت:جمعہ کی رات میں اتنا پڑھے کہ بے خود ہو جائے تواللہ تعالی اس کے باطن کو اپنی بھیدوں کی کان بنادیں گے ۔
مخلوق کو مطیع کر نے کے لئے
العدل (انصاف کر نے والا)
خاصیت:جمعہ کے دن بیس لقموں پر لکھ کر کھائے تو حق تعالی مخلوق کو اس کا مطیع کردے۔
دل منور ہو نے کے لئے
النور(روشن کرنے والا)
خاصیت:جمعہ کی رات سات دفعہ سورۂ نوراور ایک ہزار بار اس نام کو پڑھے تو دل منور ہو۔
دل ہمیشہ روشن رہنے کے لئے
النور(روشن کرنے والا)
خاصیت:اگر صبح کے وقت اس کا پڑھنا لازم کرلے تو ہمیشہ اس کا دل روشن رہے ۔
معرفت والوں کا مرتبہ پانے کے لئے
الھادی(راستہ دکھا نے والا)
خاصیت:ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف منہ کرکے اس نام کو کثرت سے پڑھ کر ہاتھوں کو چہرے پر ملے تو معرفت والوں کا مرتبہ پائے۔
نفس اور شیطان(ازلی دشمن)
نفس کے ہاتھو ں سے چھٹکارا پانے کے لئے
الخبیر(سب چیزوں سے واقف)
خاصیت:جو نفس کے ہاتھوں میں گرفتار ہو اس کو کثرت سے پڑھتا رہے ان شاء اللہ چھٹکارا پالے گا ۔
شیطانی وسوسے سے پناہ
المقسط (انصاف کر نے والا )
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتے رہنے سے عبادت میں وسوسہ نہ آئے گا ۔
عزت وحرمت کے لئے اور نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
الملک القدوس(حقیقی بے نیاز بادشاہ،نہایت پاک وصاف)
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتے رہنے سے نفس فرماں بردار ہو اور عزت وحرمت کے لئے مجرب ہے ۔
شیطان کے شر سے حفاظت کے لئے اور اللہ کی امان میں رہنے کے لئے
المؤمن(امن دینے والا )
خاصیت:جو پڑھے گا یا اس کو اپنے ساتھ رکھے گا شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔اور کوئی اس پر قدرت نہیں پائے گا ،اس کا ظاہر وباطن اللہ کی امان میں رہے گا ۔
شیطان کے وسوسے اور فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے
المقسط(انصاف کر نے والا)
خاصیت:اس کو سو بار پڑھنے سے شیطان کے فتنے اور وسوسے سے مامون رہے ۔
(معاش ،رو زگاراور ضروریات زندگی سے متعلق)
کاروبار میں ترقی
الحلیم (بردبار)
خاصیت:اگر رئیس آدمی اس کوبہ کثرت پڑھے اس کی سرداری خوب جمے اور راحت سے رہے اور اگر کاغذ پر لکھ کر پانی سے دھو کر اپنے پیشے کے آلات واوزار پر ملے تو اس پیشے میں برکت ہو ،اگر کشتی ہو غرق سے محفوظ رہے ۔اگر جانور ہو تو ہر آفت سے مامون رہے ۔
بلا ومصیبت سے نجات حاصل ہونا
حسبنا اللہ ونعم الوکیل(ہم کو حق تعالی کافی ہے اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لئے اچھا ہے )
خاصیت:جو کوئی کسی مصیبت وبلا میں مبتلاہو اس آیت کو پڑھا کرے ان شاء اللہ تعالی اس کی مصیبت جاتی رہے گی ۔
اعمال قضائے حاجت
الحق(سزاوار خدائی)
خاصیت:ایک مربع کاغذ کے چاروں گوشوں پر لکھ کر اس کو ہتھیلی پر رکھ کر آخر شب میں آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرے تو مہمات میں کفایت ہو ۔
الوکیل(کارساز )
خاصیت:ہر حاجت کے لئے اس کی کثرت مفید ہے ۔
المقتدر (قدرت والے )
خاصیت:جب سو کر اٹھے اس کی کثرت کرے تو جو اس کی مراد ہو اس کی تدبیر اللہ تعالی آسان کردے۔
ہمیشہ خوش رہنا ،غم کادفع ہونا
الصبور(صبر کرنے والے )
خاصیت:آفتاب طلوع ہونے سے پہلے سو بار پڑھے تو کوئی تکلیف نہ پہونچے۔
الباقی(ہمیشہ رہنے والے)
خاصیت:ہزار بار پڑھے تو ضرور غم سے خلاصی ہو۔
الوارث (مالک)
خاصیت:مغرب اور عشاکے درمیان ہزار بار پڑھے تو حیرت دفع ہو۔
مشکل آسان ہونا
اللہ (اللہ)
خاصیت:جو شخص ہزار مرتبہ روزانہ پڑھے اللہ تعالی اس کو کمال یقین نصیب فرمائے اور جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے پاک وصاف ہو کر خلوت میں دو سو بار پڑھے اس کی مشکل آسان ہو اور جس مریض کی علاج سے اطبا عاجز آگئے ہوں اس پر پڑھاجائے تو اچھا ہوجائے بشرطیکہ موت کا وقت نہ آگیا ہو۔
غریب کی مراد پوری ہونے کے لئے
المقیت(غذادینے والے)
خاصیت:پیالے میں سات بار پڑھ کر دم کرے اور اس میں پانی ڈال کر پئے تو اپنی مراد حاصل ہو۔
مراد پوری ہونا
المعطی(دینے والے)
خاصیت:ہر مراد کے حاصل ہونے کے لئے مفید ہے ۔
المانع(روکنے والے)
خاصیت:جو اپنی مراد تک نہ پہونچ سکے اس کو صبح شام پڑھا کرے تو مراد حاصل ہو۔
الحفیظ (نگہبان)
خاصیت:اس کا ذکر کرنے والایا لکھ کر پاس رکھنے والاخوف سے محفوظ رہے اگر درندوں کے درمیان بھی سو رہے تو ضرر نہ پہونچے۔
المقیت(قوت دینے والے)
خاصیت:اگر روزہ دار اس کو مٹی پر پڑھ کر یا لکھ کر اس کو تر کرکے سونگھے تو قوت وغذائیت حاصل ہو ،اور اگر مسافر کوزے پر سات بار پڑھ کر پھر اس کو لکھ کر اس سے پانی پیا کرے تو وحشت سفر سے مامون رہے ۔
گم شدہ چیز ملنے کے لئے
الرقیب (نگہبان )
خاصیت:اس کے ذکر کرنے سے مال وعیال محفوظ رہے اور جس کی کوئی چیز گم ہو جائے ،اس کو پڑھے تو وہ ان شاء اللہ مل جائے اور اگر اسقاط حمل کا اندیشہ ہو تو اس کو سات مرتبہ پڑھے توساقط نہ ہو ،اور سفر کے وقت جس بال بچے کی طرف سے فکر ہو اس کی گردن پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھے تو مامون رہے ۔
الجامع (جمع کرنے والے)
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتے رہنے سے اپنے مقاصد اور احباب سے مجتمع رہے اور جس کی کوئی چیز گم ہو جائے اس کو پڑھے تو مل جائے۔
توانگری کے لئے
العلی(بلند مرتبہ)
خاصیت:جو کو ئی اس کو ہمیشہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے ،اگرفقیر ہو تو توانگر ہو جائے۔
دولت وسلطنت والا ہونے کے لئے
الجبار( بگڑے کاموں کو درست کرنے والا )
خاصیت:جو پابندی سے پڑھتا رہے تو دولت و سلطنت والا ہو جائے۔
مالدار بننے کے لئے
المغنی (توانگر کرنے والے)
خاصیت:ہزار بار پڑھے تو توانگری حاصل ہو
مالک الملک (دونوں جہاں کا بادشاہ )
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتے رہے تو مال وتوانگری حاصل ہو ۔
رزق کی زیادتی کے لئے
الملک(بادشاہ)
خاصیت:جو شخص زوال کے وقت ایک سو تیس بار پڑھا کرے ،اللہ تعالی اس کو صفائی قلب اور غنا عطا فرمائیں۔
العزیز(سب سے غالب )
خاصیت:روزانہ چالیس دن تک اکتالیس بار پڑھے توظاہری اور باطنی غنا نصیب ہو،اور کسی مخلوق کا محتاج نہ ہو ۔
الغفار (بخشنے والا)
خاصیت:نماز جمعہ کے بعد سوبار پڑھے تو مغفرت کے آثار پیدا ہوں اور تنگی دفع ہو اور بے گمان رزق ملے ۔
الوھاب (بڑے دینے والے )
خاصیت:بکثرت ذکر کرنے سے غنا، قبولیت اور ہیبت و بزرگی پیدا ہو ۔
الرزاق (رزق دینے والے)
خاصیت:فجر کی نماز سے پہلے گھر کے سب گو شوں میں دس دس بار کہے اور جو گوشہ قبلے کی جانب دائیں طرف ہو اس سے شروع کرے رزق میں وسعت حاصل ہو ۔
الفتاح (کھولنے والے )
خاصیت:نماز فجر کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر اکہتر (۷۱)بار پڑھے تو تمام امور میں آسانی ہو اور قلب میں طہارت و نورانیت ہو اور رزق میں آسا نی ہو ۔
القابض (بند کرنے والے )
خاصیت:چالیس دن تک روٹی کے لقمے پر اس کو لکھ کر کھائے تو بھوک سے تکلیف نہ ہو ۔
الباسط (کھولنے والے )
خاصیت:چاشت کی نماز کے بعد دس بار پڑھنے سے رزق میں فراخی ہو ۔
اللطیف (مہربان)
خاصیت:ایک سو تینتیس بار پڑھنے سے رزق میں وسعت ہو ،تمام کام لطف سے پورے ہوں ۔
العلی (سب سے بلند )
خاصیت:لکھ کر مسافر اپنے پاس رکھے تو جلد ہی اپنے عزیزوں سے آملے اگر محتاج ہو تو غنی ہو جائے ۔
الواسع(فراخی والے)
خاصیت:بکثرت ذکر کرنے سے ظاہری اور باطنی غنا حاصل ہو اور فراخ حوصلگی و بر دباری پیدا ہو ۔
فقر وفاقہ دور کرنے کے لئے
الوھاب(کثرت سے عطا کرنیو الا)
خاصیت:جس کسی کو فقر وفاقہ کا رنج ہو وہ اس کو کثرت سے پڑھتا رہے تو اللہ تعالی اس کو ایسے نجات دے گاکہ بندہ حیران رہ جا ئیگا یااس کو لکھ کر رکھ لے۔
حاجت پوری کرنے کے لئے
الوھاب(کثرت سے عطا کرنیو الا)
خاصیت:حاجت مند آدمی رات کے وقت مسجد یا گھر کے صحن میں تین بار سجدہ کرکے ہاتھ اٹھاوے، اور سو بار اس کو پڑھے تو اس کی حاجت پوری ہو جاتی ہے ۔
گھر میں تنگی اور مفلسی نہ ہو نے کے لئے
الرزاق(روزی پہونچانے و الا)
خاصیت:نماز فجر سے پہلے اورسورج طلوع ہو نے کے بعد اپنے گھر کے چاروں کو نوں میں دس دس بار پڑھے تو مفلسی اور تنگدستی نہ رہے گی ،پڑھتے ہو ئے منہ قبلے کی طرف رکھے اور دائیں کو نے سے شروع کرے۔
کبھی کسی کا محتاج نہ ہو نے کے لئے
الباسط(فراخ کرنے والا)
خاصیت:جو کو ئی سحر کے وقت ہاتھ اٹھائے دل میں دس بار پڑھے اور منہ پر ہاتھ پھیر لے تو کبھی کسی کا محتاج نہ ہو گا ۔
محتاج نہ ہو اور عزت والا ہو
العزیز(غالب و زبر دست)
خاصیت:جو کو ئی نماز فجر کے بعد اکتالیس با ر اس اسم کو پڑھے ،کسی کا محتاج نہ ہو اور خواری کے بعد عزت والا ہو۔
مخلوق سے بے نیاز رہنے کے لئے
الوھاب(کثرت سے عطا کرنیو الا)
خاصیت:چاشت کی نماز کے بعد آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کرے،اور سجدے میں سات بار اس اسم کو پڑھے تو خلقت سے بے نیازہو جائے گا ،
مخلوق میں توانگر، برگزیدہ اور بے احتیاج رہنے کے لئے
الرافع(بلند کرنے والا)
خاصیت:چودھویں چاند کے آدھی رات میں ہر مہینہ سوبار الرافع کہے تو اللہ تعالی مخلوق سے تو انگر ،برگزیدہ اور بے احتیاج بنادے۔
بے نیاز اور مستغنی ہو نے کے لئے
الصمد (بے نیاز)
خاصیت:وضو کی حالت میں پڑھے تو بے نیاز اور مستغنی ہو جائے۔
مشکل کام آسان ہو نے کے لئے
القادر(قدرت والا)
خاصیت:اگر کوئی مشکل کام پیش آئے ،اکتالیس بار اس نام کو پڑھے وہ کام آسان ہو جائے گا ۔
غم یا مہم کی کفایت کے لئے
البدیع ( بے مثال پیدا کر نے والا )
خاصیت:کو ئی غم یا مہم پیش آجائے،تو ستر بار ایک روایت میں ہزار بار یا بدیع السموات والارض کہے ،وہ مہم کفایت کو پہونچے۔
مطلوبہ چیز خواب میں معلوم ہو نے کے لئے
البدیع ( بے مثال پیدا کر نے والا )
خاصیت:وضو کی حالت میں یا بدیع السموات والارض اس قدر پڑھے کہ سوجائے ،جو مطلوبہ چیز ہے خواب میں معلوم ہو جائے۔
دکھ ،رنج،بیماری اور دشمن کو دفع کرنے کے لئے
الباقی(ہمیشہ رہنے والا)
خاصیت:دکھ ،رنج،بیماری اور دشمن کو دفع کرنے کے لئے اس کی کثرت کریں ۔
رنج اور تکلیف نہ پہونچنے کے لئے
الوارث(بافی رہنے والا ،مالک )
خاصیت:روزانہ طلوع آفتاب کے وقت اس نام کو سوبار پڑھے توکوئی رنج وسختی نہ پہو نچے،وفات کے بعد اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔
زمانے کے لو گوں سے آگے بڑھنے کے لئے
الوارث(بافی رہنے والا ،مالک )
خاصیت:جو اس کی کثرت کرے اپنے زمانے کے لوگوں سے فائق ہو۔
درستگی و بہتری ظاہر ہو نے کے لئے
الرشید (عالم کا رہ نما)
خاصیت:جو اپنے کام کی تدبیر نہ جانے اس نام کو مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان ہزار بار پڑھے ؛جو صواب اور بہتر ہو گا اس پر ظاہر ہو جائے گا ۔
بغیر سعی کے مہمات اور کاروبار بن جا نے کے لئے
الرشید (عالم کا رہ نما)
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھنے سے اس کی محنت کے بغیر مہمات اور کاروبار بن جائے۔
رنج دور ہو نے اور قلبی اطمنان حاصل ہو نے کے لئے
ا لصبور(بردبار)
خاصیت:جس کو رنج ،درد یا مشقت پیش آئے ،وہ اس نام کو ایک ہزار بیس(۱۰۲۰) بار پڑھے قلبی اطمنان حاصل ہو اور رنج ومشقت جاتا رہے ۔
معاشی تنگی ،تنہائی، بیماری یا لڑ کی کے نکاح کے لئے
اللطیف(نرمی کر نے والا)
خاصیت:جس کے پاس معیشت کا سامان نہ ہو ،فقر وفاقہ میں رہتا ہو یا تنہائی میں کو ئی مونس نہ ملے ،یا بیمار ہے کوئی اس کا غم خوار نہیں ہے یا لڑکی رکھتا ہو کوئی اس سے نکاح کا پیغام نہ بھیجتا ہوتو اچھی طرح وضو کرکے دو گانہ نماز پڑھ کر اس نام کو اپنے مطلب کی نیت سے سوبار پڑھے تو اللہ تعالی اس کا اہم مسئلہ حل کردے۔
روزگار لگنا اور نکاح کا پیغام منظور ہونا
البدیع (ایجاد کرنے والے )
خاصیت:اس کو ہزار بار پڑھے تو حاجت پوری ہو اور ضرر دفع ہو ۔
توانگری کے لئے
القیوم(قائم رہنے ولا )
خاصیت:خلوت میں اس کی کثرت کرے تو توانگر ہو جائے ۔
کام کی تکمیل کے لئے
الحکیم(استوارکار اور دانا)
خاصیت:کوئی کام پیش آجائے اور کفایت اور تکمیل کو نہ پہونچے تو اس کو کثرت سے پڑھے تو کفایت اور تکمیل کو پہونچ جائے۔
سب کام اپنے حساب سے انجام پانے کے لئے
النافع (فائدہ پہونچانے والا)
خاصیت:ہر کام کے شروع میں اکتالیس بار النافع کہہ لے تو سب کام اس کے حساب سے ہو جائے۔
کام کی درستگی کے لئے
التواب(توبہ قبول کرنے والا)
خاصیت:جو اس کی کثرت کرے اس کے کام درست ہواور اس کا نفس طاعت الہی سے سکون حاصل کرے ۔
مقصود حاصل ہو نے کے لئے
المقسط(انصاف کر نے والا)
خاصیت:سات سو بار پڑھے تو مقصود حاصل ہو۔
کسی کا محتاج نہ رہنے کے لئے
المنعم (انعام دینے والا)
خاصیت:اس کی کثرت سے کسی کا محتاج نہ رہے ۔
بھوک اور پیاس کو دور کرنے کے لئے
الصمد (بے نیاز)
خاصیت:رات کے آخری حصے میں ایک سو پچیس (۱۲۵)بار پڑھے، تو صدق و صدیقیت کے آثار ظاہر ہوں اور جب تک اس کاورد کرتا رہے بھوک کا اثر نہ ہو۔
بھوکانہ رہنے کے لئے
الصمد (بے نیاز)
خاصیت:کثرت سے پڑھے تو بھوکا نہ رہے ۔
مراد کو پہونچنے کے لئے
المتکبر(سب سے بڑا )
خاصیت:ہر کام کے شروع میں کثرت سے پڑھے تو مراد کو پہونچے۔
کشتی میں آفت نہ پہونچنے کے لئے
النافع (فائدہ پہنچانے والا)
خاصیت:جو کشتی میں سوار ہو اور روزانہ النافع پڑھتا رہے ،کو ئی آفت اس کو نہ پہو نچے۔
کھیتی کوآفت سے محفوظ رکھنے کے لئے
الحلیم (بردبار)
خاصیت:اس نام کو کاغذ پر لکھ کر دھوئے اور اس کا پانی کھیتی پر چھڑکے تو اللہ تعالی اس کی کھیتی کو آفت سے محفوظ رکھے ۔
بلاؤں سے مامون رہنے کے لئے
المجیب(جواب دینے والا دعا قبول کرنے والا)
خاصیت:اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے تو بلاؤں سے امن میں رہے ۔
قناعت اور برکت کے حصول کے لئے
الواسع(فراخی والا)
خاصیت:کثرت سے پڑھنے پر اللہ تعالی قناعت اور برکت عطا کرتے ہیں ۔
اسباب کے گم اور ضائع ہوجانے کے وقت
الحق (خدائی کے قابل)
خاصیت:اسباب کے گم یا ضائع ہونے کے وقت کاغذ کے چاروں کو نوں پر اس نام کو لکھے اور آدھی رات کے وقت اس کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر اس نام کے وسیلے سے دعا کرے تو وہ چیز یا اس سے بہتر چیز مل جائے گی ۔
دشواریاں آسان ہو نے کے لئے
المتعالی(بہت بلند)
خاصیت:جو اس کی کثرت کرے اس کی دشواریاں آسان ہو ۔
توانگری کے لئے
مالک الملک (دونوں جہاں کا بادشاہ) ذوالجلال والاکرام(بزرگی اور بخشش والا)
خاصیت:ان دونوں ناموں میں کسی ایک کو ہمیشہ پڑھتا رہے توانگر ہو جائے،اور کو ئی ضرورت اور پریشانی لوگوں سے نہ رہے ۔
ظاہر وباطن کی غنا کے لئے
یامغنی( اے بے نیاز)
خاصیت:یا مغنی گیارہ سو گیارہ مرتبہ اول وآخر گیا رہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھنا ظاہر وباطن کے غنا کے لئے نہایت مفید ہے ۔
(معاشرتی زندگی سے متعلق)
معاشی تنگی ،تنہائی، بیماری یا لڑ کی کے نکاح کے لئے
اللطیف(نرمی کر نے والا)
خاصیت:جس کے پاس معیشت کا سامان نہ ہو ،فقر وفاقہ میں رہتا ہو یا تنہائی میں کو ئی مونس نہ ملے ،یا بیمار ہے کوئی اس کا غم خوار نہیں ہے یا لڑکی رکھتا ہو کوئی اس سے نکاح کا پیغام نہ بھیجتا ہوتو اچھی طرح وضو کرکے دو گانہ نماز پڑھ کر اس نام کو اپنے مطلب کی نیت سے سوبار پڑھے تو اللہ تعالی اس کا اہم مسئلہ حل کردے۔
روزگار لگنا اور نکاح کا پیغام منظور ہونا
البدیع (ایجاد کرنے والے )
خاصیت:اس کو ہزار بار پڑھے تو حاجت پوری ہو اور ضرر دفع ہو ۔
محبت کے لئے
الرحمن الرحیم
خاصیت:یہ دونا م لکھ کر پانی سے دھوکر وہ پانی کسی درخت کی جڑ میں ڈال دیں اس کے پھل میں برکت پیدا ہو اور اگر کسی کو گھول کر پلائے اس کے دل میں کاتب کی محبت پیدا ہو،اسی طرح اگر طالب اور مطلوب کا نام مع والدہ کے لکھے اس کی محبت میں سر گرداں ہو بشر طیکہ جائز محبت ہو ۔
الکبیر (بڑے )
خاصیت:کثرت سے ذکر کرنے سے علم و معرفت کے دروازے کشادہ ہوں گے۔اور اگر کھانے کی چیز پر پڑھ کر زوجین کو کھلایا جائے تو باہم الفت ہو۔
الودود(دوست دار)
خاصیت:اگر کھانے پر ایک ہزار بارپڑھ کربیوی کے ساتھ کھائے تو وہ محب اور فرماں بردار ہوجائے ۔
الولی(مدد کرنے والے)
خاصیت:جو کثرت سے پڑھے محبوب ہوجائے اور جس کو کوئی مشکل پیش آئے شب جمعہ میں ہزار بار پڑھے تو مشکل آسان ہو جائے ۔
بیوی کا محبت کرنا
المغنی (توانگر کرنے والے)
خاصیت:جماع کے وقت خیال سے پڑھے تو بیوی اس سے محبت کرنے لگے ۔
بانجھ پن ختم ہونا
الباری المصور(بنانے والا، صورت بنانے والا )
خاصیت:کثرت سے ذکر کرنے سے صنائع عجیبہ کا ایجاد آسان ہو۔اگر بانجھ عورت سات دن روزہ رکھے اور پانی سے افطار کرے اور بعد افطار کے اکیس بار پڑھے تو ان شاء اللہ حمل قرار پائے اور اولاد ہو ۔
بانجھ عورت کو نیک فرزند پیدا ہونے کے لئے
المصور(صورت اور نقش بنانے والا)
خاصیت:بانجھ عورت سات دن روزہ رکھے اور افطار کے وقت اکیس بارالمصورپڑھ کر پانی میں دم کرکے پئے تو حاملہ ہو گی اور ان شاء اللہ نیک فرزند پیدا ہوگا ۔
حمل محفوظ رہنے کے لئے
المبدی(پیدا کرنے والے)
خاصیت:حاملہ کے بطن پر آخر شب میں پڑھے تو حمل محفوظ رہے اور ساقط نہ ہو ۔
نیک فر زند پیدا ہونے کے لئے
المتکبر (تکبر کر نے والے)
خاصیت:کثرت سے ذکر کر نے سے بزرگی میں برکت ہو اور شب زفاف میں بیوی کے پاس جا کر مباشرت سے پہلے دس بار پڑھے نیک بخت نرینہ اولاد پیدا ہو ۔
البر (نیک کار)
خاصیت:اگر سات مرتبہ پڑھ کر بچہ پر دم کیا کرے تو نیک بخت اٹھے ۔
حصول اولاد کے لئے
الواحد الاحد(اپنی ذات وصفات میں یکتا )
خاصیت:اس نام کو لکھ کر اپنے پاس رکھے تو اللہ تعالی فر زند عنایت کرے ۔
نیک اولاد کے لئے
المتکبر(سب سے بڑا )
خاصیت:اپنی حلال منکوحہ سے صحبت کرنے سے پہلے دس با ر پڑھے تو حق تعالی اس کو پرہیزگار نیک لڑکا عطا کرے گا ۔
ماں کے دودھ آنے کے لئے
المتین(مضبوط)
خاصیت:شیر خوار بچے کی ماں کے دودھ نہ آتا ہو تو یہ نام لکھ کر پانی میں دھوئے،اور وہ پانی اس کی ماں کو پلائے،دودھ خوب نکل آئے۔
اہل وعیال کا فرماں بردار ہونا
الشھید(بڑے موجود )
خاصیت:اگر نافرمان اولاد یا نافرمان بیوی کی پیشانی پکڑ کر اس کو ہزار بار پڑھ کر دم کردے تو وہ فرمابردار ہو جائیں گے ۔
بد خصلت لڑکے کو سدھارنے کے لئے
المقیت(غذادینے والے)
خاصیت:پیالے میں سات بار پڑھ کر دم کرے اور اس میں پانی ڈال کر پئے یا پلائے تو اپنی مراد حاصل ہو۔
جدائی سے بچنے کے لئے
المحیی(زندہ کرنے والے )
خاصیت:جس کو کسی سے مفارقت کا اندیشہ یا قید کا خوف ہو اس کو کثرت سے پڑھے۔
میاں بیوی کے درمیان جھگڑاہو جانے کے وقت
المانع(بازرکھنے والا)
خاصیت:جب میان بیوی میں خفگی اور جھگڑا ہوجائے تو بستر پرجاتے وقت اس نام کو بیس مرتبہ پڑھے اللہ تعالی غصہ کو دفع کردے۔
میاں بیوی کے جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے
الودود(محبت کرنے والا)
خاصیت:میاں بیوی میں نا اتفاقی اور جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس نام کو ایک ہزار بار پڑھ کر کھانے پر دم کرے اور جس کی طرف سے ناموافقت پیدا ہوئی ان کو کھلایا جائے تو ان کے درمیان اتفاق اور الفت ہو جائے۔
نافرمان لڑکا اور لڑکی کو نیک بنانے کے لئے
الشھید(حاضر اور مطلع)
خاصیت:جس کسی کا فرزند نافرمان ہو اور لڑکی نیک نہ ہو صبح کے وقت ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھ کر منہ آسمان کی طرف کرکے اکیس بار یاشھید پڑھے ،اللہ تعالی ان کو فرماں برداراور خوش نصیب بنادے ۔
بیوی یا باندی کی ناپسندیدہ عادت کو بدلنے کے لئے
الولی(مدگار دوست)
خاصیت:اپنی بیوی یا لونڈی کی کسی خصلت سے ناخوش ہو تو جب اس کے سامنے جائے تو اس نام کو خوب پڑھے ،اللہ تعالی اس کو نیک خصلت بنادیں۔
حاملہ کا اپنے حمل کے ناقص وضع کے اندیشے کے وقت
المبدی(پہلی بار پیدا کرنے والا)
خاصیت:حاملہ اپنے حمل کے ناتمام گرجانے کا خوف کرے تو اپنی شہادت کی انگلی پیٹ پر پھیرتے ہوئے المبدی نوے( ۹۰)مرتبہ پڑھے ،اللہ تعالی اس کے حمل کی حفاظت کرے۔
اولاد کے لئے
الاول(سب سے پہلے)
خاصیت:کسی کو فر زند نہ ہو تو چالیس دن تک روزانہ چالیس بار الاول پڑھے اس کی مراد پوری ہو ۔
گھر آباد رہنے اور آندھی طوفان سے حفاظت کے لئے
الوالی (کارساز ومالک)
خاصیت: نئے پیالے کو جس کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا اس میں الوالی لکھ کر پانی بھرے اور پانی کو دیواروں پر چھڑکے تو وہ گھر سب آفتوں سے سلامت میں رہے ۔
عورت کا آفتوں سے چھٹکارا پانے کے لئے
المتعالی(بہت بلند)
خاصیت:عورت اپنے حیض کی حالت میں اس کی کثرت کرے تو آفتوں سے رہائی پا ئے۔
چھوٹے بچے کی حفاظت کے لئے
البر (نیکی کرنے والا)
خاصیت:سات بار پڑھ کر چھوٹے بچے کو اللہ کے کرم کے حوالے کردے ،بلوغ تک محفوظ رہے گا ۔
متفرق اقارب و رشتے دار کو جمع کرنے کے لئے
الجامع(جمع کرنے والا)
خاصیت:جس کے اہل و اقارب متفرق ہو گئے ہوں ،وہ چاشت کے وقت غسل کرے اور آسمان کی طرف منہ کرکے اس نام کو دس بار پڑھے اور ایک انگلی بند کرلے پھر اپنے ہاتھ منہ پرملے تھوڑے ہی عرصے میں ان کے درمیان اجتماع ہو جائے ۔
(ظالم ،دشمن ،حاسدین کے شرارت سے متعلق)
ظالم سے بچنے کے لئے
الجبار(درست کرنے والے)
خاصیت:صبح وشام۲۱۶ مرتبہ پڑھے تو ظالموں کے شر سے محفوظ رہے گا
الرافع (بلند کرنے والے )
خاصیت:ستر بار(۷۰) پڑھنے سے ظالموں سے امن ہو ۔
الخبیر (خبر رکھنے والے )
خاصیت:سات روز تک بکثرت پڑھنے سے اخبار مخفیہ معلوم ہونے لگیں گے اور جو کسی ظالم موذی کے پنجے میں گرفتا ر ہو اس کو بکثرت پڑھنے سے حالت درست ہو جائے ۔
القوی(توانا )
خاصیت:اگر کم ہمت پڑھے با ہمت ہو جائے اگر کمزور پڑھے زور آور ہوجائے ۔اور اگر مظلوم اپنے ظالم کے مغلوب کرنے کو پڑھے وہ مغلوب ہو جائے ۔
دشمن کو مہربان کر نے کے لئے
القدوس السبوح
خاصیت:تین سو انیس بارشیرینی پر پڑھ کر دشمن کو دے تو مہربان ہوجائے ۔
دشمن سے بچنے کے لئے
القدوس السبوح
خاصیت:دشمن سے بچ کر بھاگنے کے وقت جس قدر ہو سکے پڑھتے رہنا چاہئے۔
اپنا حق وصول کر نے کے لئے
المذل(ذلت دینے والے )
خاصیت:جس کا حق دوسرے کے ذمہ آتا ہو ،وہ اس میں ٹال مٹول کرتا ہو اس کو بکثرت پڑھنے سے وہ اس کا حق اداکردے۔
اللہ کی محبت اوردشمنوں پر غلبہ پانے کے لئے
القھار (بڑے غالب )
خاصیت:کثرت سے ذکر کرنے سے دنیا کی محبت اور ما سوااللہ کی عظمت دل سے جاتی رہے اور دشمنوں پر غلبہ ہو ۔
اور اگر چینی کے برتن پر لکھ کر ایسے شخص کو پلایا جائے جو بوجہ سحر کے عورت پر قادر نہ ہو ،سحر دفع ہو ۔
خوف دور ہونے کے لئے
فَاللّٰہُ خَیْر’‘ حٰفِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنترجمہ:اللہ سب سے بڑا نگہبان ہے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔
خاصیت:جس کو کسی دشمن سے خوف ہو یا اور کسی طرح کی بلا ومصیبت کا خوف ہو وہ اس کو کثرت سے پڑھا کرے ان شاء اللہ تعالی دشواری دور ہو جائے گی ۔
عمل شکست کفار
القادر(توانا سب پر)
خاصیت:دو رکعت نماز پڑھ کر اس کو سو بار پڑھے تو قوت حاصل ہو اور اگر وضو کرتے ہوئے اس کی کثرت کرے تو دشمنوں پر غالب ہو ۔
المقدم(آگے کرنے والے )
خاصیت:معرکے میں جاکر پڑھے تو قوت اور نجات ہو ۔
التواب (توبہ قبول کرنے والے )
خاصیت:چاشت کی نماز کے بعد تین سو ساٹھ بار پڑھے تو توبہ کی تو فیق حاصل ہو گی ،اگر ظالم پر دس بار پڑھے تو اس سے خلاصی ہو ۔
المنتقم(بدلہ لینے والے )
خاصیت:جو شخص اپنے ظالم دشمن سے انتقام نہ لے سکتا ہو تو اس کی کثرت کرے،اللہ تعالی اس سے انتقام لے لیں ۔
حاسدین سے حفاظت کے لئے
المذل(ذلت دینے والے )
خاصیت:۷۵ بار پڑھ کر سجدے میں دعا کرے تو حاسد کے حسد سے محفوظ رہے ۔
بے خوف رہنے کے لئے
السلام (بے عیب اور سلامتی والا )
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتا رہے تو خوف سے نڈر ہو ۔

( عزت اور وقار سے متعلق)
عزت بڑھنا
العظیم (بزرگ)
خاصیت:بکثرت ذکر کرنے سے عزت اور ہر مرض سے شفا ہو۔
الجلیل (بزرگ قدر)
خاصیت:اس کو بکثرت ذکر کرنے سے یا مشک وزعفران سے لکھ کر پاس رکھنے سے قدر ومنزلت زیادہ ہو ۔
ذوالجلال والاِکرام(صاحب بزرگی اور انعام )
خاصیت:اس کے ذکر کر نے سے عزت وبزرگی حاصل ہو ۔
مخلوق کی نظر میں معزز بننے کے لئے
العظیم (بزرگ وبر تر)
خاصیت:جو کو ئی اس نام کو بلاناغہ جس قدر ہو سکے پڑھتا رہے تو مخلوق کی نظروں میں معززاور بزرگ ہو جائے۔
عزت اور بزرگی کے لئے
العلی(بلند مرتبہ)
خاصیت:جو کو ئی اس کو ہمیشہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے ،اگر ذلیل ہو تو صاحب عزت ہو جائے۔
اپنی تعظیم اور تو قیر کے لئے
الجلیل(بزرگ قدر)
خاصیت:جو کوئی اس نام کو مشک اور زعفران سے لکھ کر اپنے ساتھ رکھے یا دھو کر پئے تو تمام مخلوق اس کی تعظیم اور تو قیر کرے۔
صاحب عزت ہونے کے لئے
الکبیر(سب سے بڑا)
خاصیت:اس نام کو کثرت سے پڑھے تو عالی مرتبہ ہو جائے۔
عام مقبولیت کے لئے
العدل(انصاف کرنے والے )
خاصیت:جمعہ کی شب میں روٹی کے تیس ٹکڑوں پر اس کو لکھ کر کھانے سے مخلوق کے قلوب مسخرہو جائیں۔
الکریم (بخشش کرنے والے )
خاصیت :سوتے وقت بکثرت پڑھا کرے تو لوگوں کے قلوب میں اس کا اکرام واقع ہو ۔
المحصی(گھیرنے والے )
خاصیت:اگر روٹی کے بیس ٹکڑوں پر بیس بار پڑھے تو خلقت مسخر ہو ۔
عزت وحرمت کے لئے اور نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
الملک القدوس(حقیقی بے نیاز بادشاہ،نہایت پاک وصاف)
خاصیت:اس کو ہمیشہ پڑھتے رہنے سے نفس فرماں بردار ہو اور عزت وحرمت کے لئے مجرب ہے ۔

(مختلف امراض کی شفا کے لئے)
بیماری سے شفا کے لئے
السلام (بے عیب اور سلامتی والا )
خاصیت:جو کوئی بیمار پر ایک سو پندرہ مرتبہ پڑھے تو حق تعالی اس کو صحت وشفا عطا کرے۔
جنسی بیماری،جذام اور کوڑھ کے لئے
المجید(بزرگ اور شریف)
خاصیت:جس کو آتشک،جذام یا کوڑھ ہووہ تیرھویں ، چودھویں، پندرھویں کو روزہ رکھے اور افطار کے وقت پانی پر دم کرکے پی لے ۔خدا کی عنایت سے شفا مل جائے۔
تقویت بصر کے لئے(آنکھ کی روشنی کے لئے)
الشکور (قدر دان)
خاصیت:جس کوضیق النفس یاتکان یاگرانی اعضاء ہو اس کو لکھ کر بدن پر پھیر دے اور پئے تو نفع ہو ،اور اگرضعیف البصر اپنی آنکھ پر پھیرے نگاہ میں ترقی ہو۔
آنکھ کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے
الشکور(قدر دان)
خاصیت:آنکھ میں تاریکی واقع ہو تو اس نام کو اکتالیس بار پانی پر پڑھے اور یہ پانی اپنی آنکھ پر ملے تو شفا حاصل ہو ۔
برص کے لئے
المجید(بزرگ)
خاصیت:اگر برص والا مریض ایام بیض میں روزہ رکھے اور ہر روز افطار کے وقت اس کو بکثرت پڑھے ان شاء اللہ مرض اچھا ہو جائے ۔
نسیان دفع ہونے کے لئے
الرحمن (بڑے مہربان)
خاصیت:ہر نماز کے بعد سوبار پڑھنے سے قلب کی غفلت اور نسیان دفع ہو ۔
خوف سے محفوظ رہنے کے لئے
الحفیظ(نگہبان)
خاصیت:اس کا ذکر کرنے والا یا لکھ کر پاس رکھنے والا خوف سے محفوظ رہے گا ،اگر درندوں کے درمیان سورہے تو ان شاء اللہ ضرر نہ پہونچے گا ۔
مخلوق کو مہربان کرنے کے لئے
الرحیم(مہربان)
خاصیت:روزانہ سوبار پڑھے تو تمام مخلوق اس پر مہربان ہو ۔

(سفر سے متعلق)
مسافر کے ماندہ اور عاجز نہ ہو نے کے لئے
القدوس السبوح
خاصیت:مسافر سفر میں اس کو ہمیشہ پڑھتا رہے توکبھی نہ تھکے گا ۔
بخیریت واپسی
العلی(سب سے بلند )
خاصیت:اگر لکھ کر مسافر اپنے پاس رکھے تو جلدی اپنے عزیزوں سے آملے ۔
الأول (سب سے پہلے)
خاصیت:اگر مسافر ہر جمعہ کو ہزار بار پڑھے تو جلدی اپنے لوگوں سے آملے ۔
سفر میں دل نہ گھبرائے
المقیت (قوت دینے والے )
خاصیت:اگر روزے دار اس کو مٹی پر پڑھ کر یا لکھ کر اس کو تر کرکے سونگھے تو اس کو قوت اور غذائیت حاصل ہو ،اگر مسافر پیالے پر سات بار پڑھ کر پھر اس کو لکھ کر اس سے پانی پیا کرے تو وحشت سفر سے مامون رہے ۔
سفر سے وطن لو ٹنے کے لئے
العلی(بلند مرتبہ)
خاصیت:جو کو ئی اس کو ہمیشہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے ،اگرسفر میں سر گردان ہو تو وطن مالوف پہونچ جائے۔
باطن اورغیب پر مطلع ہونے لے لئے
المھیمن(نگہبان)
خاصیت:جو کوئی غسل کرکے ایک سو پندرہ بار پڑھے تو باطنوں اور غیبوں پر مطلع ہو ۔
تمام آفتوں سے حفاظت کے لئے
المھیمن(نگہبان)
خاصیت:اگر اس کی پابندی کرے تو تمام آفتوں سے پناہ میں رہے ۔
ظالموں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے
الجبار( بگڑے کاموں کو درست کرنے والا )
خاصیت:جو کوئی مسبعات عشر کے بعد اکیس بار یہ اسم پڑھے ظالموں کے شر سے محفوظ رہے۔
مسبعات عشر کیا ہے ؟
مسبعات عشر وہ دس چیزیں ہیں جن کو بسم اللہ کے ساتھ سات سات دفعہ پڑھتے ہیں:(۱) سورہ فاتحہ (۲) سورہ الفلق (۳) سورہ الناس(۴) سورہ اخلاص (۵)سورہ کافرون (۶) آیۃ الکرسی (۷) کلمہ تمجید (۸) درود شریف (۹)اللھم اغفر لی ولوالدی وارحمھما کما ربیانی صغیرا اللھم اغفر لجمیع المومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات والاحیاء منھم والاموات انک مجیب الدعوات یا قاضی الحاجات ویا رافع الدرجات برحمتک یا ارحم الراحمین (۰ا) اللھم یا رب افعل بی وبھم عاجلا و آجلا فی الدین والدنیا والآخرۃ ما انت لہ اھل ولا تفعل بنا یا مولاناما نحن لہ اھل انک غفور حلیم جواد کریم رء وف رحیم۔
دشمن پر فتح پانے کے لئے
الخافض(پست کرنے والا)
خاصیت:تین روزے رکھے اور چوتھے دن ایک مجلس میں ستر بار الخافض پڑھے تو دشمن پر فتح حاصل کرے۔
دشمن کو مغلوب اور پست کرنے کے لئے
القوی(قوت والا)
خاصیت:دشمن قوی ہو اس کو دفع کرنے سے عاجز ہو توتھوڑاآٹا گوندھے اور اس کی ایک ہزار گولیاں بنائے،اور ایک ایک گولی اٹھاکر یا قوی کہے اور دشمن کے دفع ہونے کی نیت سے مرغ کے آگے ڈالے اللہ تعالی اس کے دشمن کو مغلوب اور پست کردے ۔
ظالم و حاسد کے شر کو دفع کر نے کے لئے
المذل(ذلیل کرنے والا)
خاصیت:اگر کوئی کسی ظالم وحاسد سے ڈرتا ہو تو پچھتر ۷۵بارا لمذل پڑھے اور سجدہ میں جاکر کہے کہ یا اللہ فلاں ظالم کے شر سے امن دے تو اللہ تعالی اس کے شر کو دفع کردے گا ۔
بادشاہ کا غصہ دفع ہو نے اورحاسدوں،دشمنوں
کی زبان بند ہو نے کے لئے
ا لصبور(بردبار)
خاصیت:اگر اس نام کو ہمیشہ پڑھتا رہے تو حاسدوں اور دشمنوں کی زبان بند ہو اور بادشاہ کا غصہ دفع ہو جائے۔
جنگ جیتنے کے لئے
الکبیر(سب سے بڑا)
خاصیت:اگر حکام اور والیان ملک اس کو کثرت سے پڑھے تو سب لوگ ان سے ڈرے اور ان کی مہمیں بخوبی مکمل ہو ۔
چور ،دشمن،برے ہمسایہ سے خوف کے وقت
الحسیب(کفایت کرنے والا ،حساب لینے والا)
خاصیت:جو کوئی چور ،دشمن ،برے ہمسایہ یا نظربد لگنے سے ڈرے تو جمعرات سے شروع کرے اور آٹھ دن تک صبح شام دونوں وقت حسبی اللہ الحسیب پڑھا کرے ان شاء اللہ ان چیزوں کے شر سے بچ جاوے۔
اپنے اہل وعیال کو دشمنوں اور آفتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے
الرقیب (نگہبان)
خاصیت:جو کوئی سات با ر اپنے بیوی بچوں اور مال پر پڑھ کر ان کے اطراف دم کرے ،سب دشمنوں اور آفتوں سے امن میں رہے۔
ظالم کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو نے کے لئے
الصمد (بے نیاز)
خاصیت:آدھی رات کے وقت یا آدھی رات کے بعدصبح سے پہلے سجدے میں سر رکھ کر ایک سو پندرہ بار اس نام کو پڑھے تو ظالم کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو ۔
القادر(قدرت والا)
خاصیت:اعضاء کے دھونے کے وقت ہر جوڑ پر القادر پڑھے توکسی ظالم کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو ،اور کوئی دشمن اس پر فتح نہ پاوے۔
جنگ میں سختی اور رنج نہ پہنچنے کے لئے
المقدم (آگے کرنے والا)
خاصیت:جنگ میں اس نام کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے توکو ئی سختی اور رنج نہ پہو نچے۔
کسی کو مطیع وفرماں بردار بنانے کے لئے
الوالی (کارساز ومالک)
خاصیت:کسی کے تسخیر کی نیت سے پڑھے تو گیارہ بار پڑھے وہ شخص مطیع وفرمابردار ہو جائے۔
مظلوم کی سفارش قبول ہو نے کے لئے
الرء وف(مہربان)
خاصیت:مظلوم ظالم کے پھندے سے چھوٹنے کے لئے اس نام کو دس بار پڑھے ،وہ ظالم اس کی سفارش قبول کرے ۔
مہربان ہونے اور کرنے کے لئے
الرء وف(مہربان)
خاصیت:جو ہمیشہ پڑھتا رہے اس کا دل مہربان ہو جائے اور تمام آدمی اس پر مہربان ہوں۔
قیدی کا قید سے رہائی کے لئے
الحق (خدائی کے قابل)
خاصیت:اگر قیدی آدھی رات میں سر کو ننگا کرکے ایک سو آٹھ بار کہے تو قید سے رہائی ملے۔
(دوسروں سے متعلق)
مخلوق کو فرماں بردا ر بنانے کے لئے
المؤمن(امن دینے والا )
خاصیت:جو کثرت سے پڑھے گا مخلوق اس کی مطیع اور فرماں بردار ہو گی ۔
مخلوق کی بد گوئی وعیب جوئی سے امن میں رہنے کے لئے
الجبار( بگڑے کاموں کو درست کرنے والا )
خاصیت:جو اس کی پابندی کرے مخلوق کی عیب جوئی اوربدگو ئی سے مامون رہے ۔
مخلوق کے دل میں ہیبت وشوکت قائم کرنے کے لئے
الجبار( بگڑے کاموں کو درست کرنے والا )
خاصیت:اگر انگوٹھی پر نقش کر کے پہنے تو اس کی ہیبت و شوکت مخلوق کے دل میں قائم ہو ۔
مخلوق میں اپنی ہیبت اور حرمت ظاہر کر نے کے لئے
المعز(عزت دینے والا)
خاصیت:پیر یا جمعہ کی رات میں مغرب کی نماز کے بعد ایک سو چالیس بار پڑھے تو مخلوق کی نظر میں اس کی ہیبت اور حرمت ظاہر ہو ،اور خداکے سوا کسی سے نہ ڈرے۔
بخار،دردسر یا غم واندوہ سے نجات پانے کے لئے
الغفور(بہت بخشنے والے )
خاصیت:جس کسی کو بیماری ہو مثلابخار ،دردسروغیرہ یا غم واندوہ اس پر غالب ہو تو اس نام کو کاغذ پر لکھے اور اس کا نقش روٹی سے جذب کرکے کھالے۔اللہ تعالی مرض سے شفا اور غم سے نجات بخشیں گے۔
دل کی سیاہی دور کرنے کے لئے
الغفور(بہت بخشنے والے )
خاصیت:اس کو کثرت سے پڑھتا رہے تو دل سے سیاہی دور ہو جائے۔ صحیح حدیث میں آیا ہواہے کہ سجدے میں یا رب اغفرلی تین بار پڑھے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے۔
ڈوبنے ،جلنے ،زخمی ہونے کے خوف یا پریوں
کے وہم کو دور کرنے کے لئے
الحفیظ(حفاظت کرنے والا)
خاصیت: جس کو ڈوبنے ،جلنے ،زخمی ہو نے کا خوف ہو یا پریوں کا وہم اور گھبراہٹ ہویا حرام نگاہوں سے ڈرتا ہو وہ اس کو اپنے بازو پر باندھ لے اللہ تعالی اس کو ان چیزوں سے امن میں رکھے۔
روزے دار کو قوت کے لئے
المقیت(غذادینے والے)
خاصیت:روزے دار کو ہلاک ہو نے کا ڈر ہو تو پھول پر دم کرکے سونگھے،اس کو اتنی قوت حاصل ہو جائے گی کہ روزہ رکھ سکے۔
فرشتوں سے دعا لینے کے لئے
الکریم (بخشش کرنے والا)
خاصیت:بستر پر لیٹ کر پڑھتے پڑھتے سوجائے تو فرشتے اس کے حق میں دعا کرے اور اکرمک اللہ کہیں یعنی اللہ تعالی تمھیں مکرم اور معزز کرے،اور کہتے ہیں کہ علیؓ اس نام کو کثرت سے پڑھتے تھے اس لئے ان کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجھہ کہتے ہیں ۔
ابنائے جنس میں عزت وحرمت کے لئے
المجید(بزرگ اور شریف)
خاصیت:جس کو اپنے ابنائے جنس میں عزت وحرمت نہ ہو ہر صبح کو ننانوے بار پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کرے عزت وحرمت حاصل ہوگی۔
دل کی زندگی کے لئے
الباعث(اٹھانے والا)
خاصیت:جو کوئی چاہے کہ میرا دل زندہ ہو جائے تو سونے کے وقت سینے پر ہاتھ رکھ کر اس نام کو ایک سو ایک بار پڑھے ،اللہ تعالی اس کے دل کو انوار کے اترنے کی جگہ بنادے ۔
بجلی ،ہوا،پانی یا آگ کے خوف کے وقت
الوکیل(کارساز)
خاصیت:اگر بجلی ،ہوا،پانی یا آگ کا خوف ہو تو اس نام کو اپنا وکیل بنادے تو امن میں رہے،اگرخوف کی جگہ میں کثرت سے پڑھے تو امن میں رہے ۔
مخلوق کے رازوں سے واقف ہو نے کے لئے
الولی(مددگار دوست)
خاصیت:س نام کو کثرت سے پڑھے تو مخلوق کے بھیدوں سے آگاہ ہو جائے۔
بد زبانی اور فحش سے بچنے کے لئے
الحمید (ستودہ، قابل تعریف)
خاصیت:جس کو بد زبانی اور فحش بکنے کی عادت ہو اور بچنا مشکل ہو تو وہ اس نام کو پیالے پر لکھے ،ہمیشہ اسی سے پانی پیا کرے تو فحش سے امن میں رہے ۔
ؑ عذاب قبر اور قیامت کے حساب سے بے خوف رہنے کے لئے
المحصی(گھیر نے والا)
خاصیت:جمعہ کی رات میں اس نام کو ایک ہزار بار پڑھے تو عذاب قبر اور قیامت کے حساب سے بے خوف رہے۔
غلطی نہ ہو نے کے لئے
المحصی(گھیر نے والا)
خاصیت:جو اس نام کی کثرت کرے وہ غلطی نہ کرے۔
غائب شخص کی خبر ملنے یا لوٹ آنے کے لئے
المعید(دوبارہ پیدا کرنے والا)
خاصیت:غائب شخص کو واپس لانے کے لئے یا اس کی خبر معلوم کرنے کے لئے یہ کرے کہ جب گھر کے سب لوگ سوجائے،گھر کے چاروں کو نوں میں ستر ستر بار پڑھیں اور کہیں یا معید رد علی فلانا ان شاء اللہ سات دن کے اندر غائب شخص لوٹ آئے گا یا اس کی کچھ خبر ملے گی ۔
درد، رنج اور اپنے اعضاء کے ضائع ہونے کے خوف کے وقت
المحیی(زندہ کرنے والا)
خاصیت:اس نام کو سات بار(۷) پڑھے تو امن میں رہے ۔
نفس کو فرماں بردار بنانے کے لئے
الممیت(موت دینے والا)
خاصیت:اپنے نفس پر قدرت نہ ہوتو سوتے وقت سینے پر ہاتھ رکھ کر الممیت پڑھتے پڑھتے سوجائے ،اللہ تعالی نفس کو اس کے تابع بنادیں گے۔
صحت کے لئے
الحی(زندہ ،پہلے بھی اور بعد میں بھی)
خاصیت:بیمار اس کی کثرت کرے یا بیمار آدمی پر دم کرے تو صحت مل جائے۔
تصرف کرنے کے لئے
القیوم(قائم رہنے والا )
خاصیت:سحر کے وقت کثرت سے پڑھے تو مخلوق کے دل میں اس کا تصرف زیادہ ہو ۔
کھانے کو نور بنانے کے لئے
الواجد (غنی اور بے نیاز)
خاصیت:کھاتے وقت اس کو پڑھتارہے وہ کھانا پیٹ میں نور ہو گا ۔
تنہائی کی وحشت دور کرنے کے لئے
الواحد الأحد(اپنی ذات وصفات میں یکتا )
خاصیت:جس کو تنہائی میں وحشت ہو نے لگے وہ ایک ہزار بار(۱۰۰۰) اس کو پڑھے ،وحشت دل سے جاتی رہے ۔
قول وعمل میں سچا ہونے کے لئے
الصمد (بے نیاز)
خاصیت:آدھی رات کے وقت یا آدھی رات کے بعدصبح سے پہلے سجدے میں سر رکھ کر ایک سو پندرہ بار اس نام کو پڑھے حال اور قال میں سچاہو۔
کام کو حقانی بنانے کے لئے
المقتدر(قدرت والا)
خاصیت:سونے سے اٹھنے کے بعد المقتدر بیس بار پڑھے ،اس کے تمام کام حقانی ہو ۔
نفس کے فرمابردار ہو نے کے لئے
المقدم (آگے کرنے والا)
خاصیت:اگر اس کی کثرت کرے تو نفس طاعت الہی میں فرمابردار ہو ۔
حق ہی پر اطمنان ہونے کے لئے
المؤخر(پیچھے کرنے والا)
خاصیت:اس نام کو سو بار پڑھے تو دل کو حق کے بغیر اطمنان حاصل نہ ہو ۔
قریب المرگ ہو نے کے وقت اعمال پاس نہ ہو
الآخر (سب سے آخر)
خاصیت:جس کی عمر آخر ہو اور نیک اعمال نہ ہو تو الآخر کو اپنا ورد اور وظیفہ بنالے اللہ اس کے انجام کو بخیر کرےَ۔
آنکھ کی روشنی کے لئے
الظاہر(کھلا ہوا)
خاصیت:اشراق کی نماز کے بعد الظاہر پانچ سو بار پڑھے تو آنکھ میں روشنی آئے۔
نفسانی خواہشات کے آفتوں کے وقت
البر (نیکی کرنے والا)
خاصیت:جس کو ہوا وہوس کی آفتوں کا خوف ہو وہ اس کو پڑھے امن میں رہے۔
شراب خوری اور زنا کاری کی عادت چھڑانے کے لئے
البر (نیکی کرنے والا)۔
خاصیت:جو شراب خوری اور زنا میں مبتلا ہو روزانہ سات بار(۷) پڑھے تو اس کا دل ان چیزوں سے سرد ہو جائے۔
تو بہ کی تو فیق کے لئے
التواب(توبہ قبول کرنے والا)
خاصیت:چاشت کی نماز کے بعد تین سو ساٹھ بار پڑھے اللہ اس کو توبہ کی تو فیق عنایت کرے۔
گناہوں کی معافی کے لئے
العفو(در گذر کرنے والا)
خاصیت:جس کے گناہ زیادہ ہو وہ بلاناغہ اس کو پڑھتا رہے ،اللہ اس کے تمام گناہ بخش دے۔

(روحانی امراض سے متعلق)
طمع ولالچ دور کرنے کے لئے
الغنی المغنی(بے نیاز)
خاصیت:جو طمع کی بلا میں گرفتار ہو اپنے بدن کے ہر جوڑ پر یعنی منہ ،کان ، آنکھ ،ناک اور ہاتھ پاؤں پر ہاتھ رکھ کر پڑھے اور اتارے ،اللہ تعالی اس بلا کو دور کردے۔
ظاہر وباطن کی غنا کے لئے
یامغنی( اے بے نیاز)
خاصیت:یا مغنی گیارہ سو گیارہ مرتبہ اول وآخر گیا رہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھنا ظاہر وباطن کے غنا کے لئے نہایت مفید ہے ۔
نیک بننے کے لئے
الحمید (ستودہ، قابل تعریف)
خاصیت:کثرت سے پڑھتا رہے تو نیک بن جائے اور اس سے اچھے افعال صادر ہو۔
اسرار الہی کی جانکاری کے لئے
الباطن(چھپا ہوا)
خاصیت:روزانہ تینتیس بار(۳۳) پڑھے تو اسرار الہی کے جاننے والوں میں ہو جائے۔
دل پر انوار ظاہر ہو نے کے لئے
الماجد(بزرگ)
خاصیت:تنہائی میں اس کی اتنی کثرت کرے کہ بے خود ہو جائے تو دل پر انوار ظاہر ہو۔
غفلت کو دور کرنے کے لئے
المقتدر(قدرت والا)
خاصیت:اس نام کو ہمیشہ پڑھتا رہے تو غفلت احساس ذمہ داری سے بدل جائے۔
وبحمد اللہ ونعمتہ تمم الصالحات



N وG

(۱) بخاری شریف---الامام الحافظ ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ بن بردزبۃ البخاری ---( موسوعہ الحدیث الشریف، دار السلام للنشر والتوزیع ، ریاض)
(۲)مسلم شریف---الامام الحافظ ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیساپوری ---( موسوعہ الحدیث الشریف دار السلام للنشر والتوزیع ،ریاض)
(۳)مشکوۃ شریف---الشیخ ولی الدین محمد بن عبد اللہ الخطیب التبریزی الشافعی---(فیصل پبلیکیشنز دیوبند)
(۴)معارف القرآن---مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی ؒ
(۵)گلستان سعدیؒ ---شیخ شرف الدین مصلح سعدی شیرازیؒ
(۶)خطبات حکیم ا لامتؒ ---حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
(۷)اعمال قرآنی ---حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
(۸) خیرمتین شرح حصن حصین---محدث عظیم علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ
(۹)معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنی---قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوریؒ تحقیق وتخریج:محمد سرور عاصم--- (دار الشاعت مصطفائی دہلی)

s s s




مؤلف کی دیگر قیمتی کتب عن قریب منظرِ عام پر
عمامہ کی شرعی حیثیت

مؤلف ایک اور کتاب بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے،جس میں عمامہ (پگڑی، دستار )سے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے: عمامے کی تاریخ اور عمر،تاج اور عمامے کا فرق ، عمامے کی احادیث اور سلف کے اقوال، عمامے کی مقدار، لمبائی، شملے کی تعداد اور سائز، فرشتوں کی پگڑیاں، رنگین عمامے،کفن کا عمامہ، نماز کا عمامہ ، عیدین کا عمامہ ، سفر کا عمامہ ، مدرسے کا عمامہ وغیرہ سے متعلق احادیث اور فقہ کی روشنی میں کلام کیا گیا ہے۔
میڈیکل کے جدید مسائل(ملخصاً)

اس کتاب میں میڈیکل سائنس سے متعلق احکام ،خواتین کے لیے علاج معالجہ اور پاکی ناپاکی کے ضروری مسائل،مریض ومعالج کے بارے میں اہم شرعی ہدایات بڑے ہی اختصار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا جدید مجموعہ ہے کہ جس کا مطالعہ ہر مسلمان مرد وعورت کے لیے بالعموم اور معا لجین ،ڈاکٹر وحکیم حضرات کے لیے بالخصوص بہت ہی ضروری اور نافع ہے۔
تذکرہ حضرت مولانا قاسم قریشی صاحبؒ

یہ رسالہ جنوبی ہند کے مبلغِ عظیم، داع�ئکبیرحضرت مولانا قاسم قریشی صاحب ؒ کی سوانح حیات کے روشن باب اور دعوت و تبلیغ کی مروجہ مبارک محنت کی ابتدا، بان�ئتبلیغ (حضرت جیؒ )کا مختصر سوانحی خاکہ،کرناٹک میں جماعتِ تبلیغ کی شروعات اور کارکنانِ دعوت کے صفات سے متعلق بڑے ہی اہم اور قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔

چٹ فنڈ یا چٹھی کے اسلامی احکام

چٹ فنڈ کیا ہے؟ اُس کی حقیقت، طریق�ۂ کار، آداب، شرائط؛ نیز حرام و حلال چٹھیوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ مؤقر علمائے کرام کے فتاویٰ اور اس طرح کے اور اہم مباحث پر مشتمل مؤلف ہی کی ایک اور تالیف منظر عام پر آچکی ہے۔

حجامہ شریعت کی نظرمیں

اس رسالے میں حجامہ کے فضائل،فوائد،ضرورت،امراض، مقامات ،ایام، اجرت اور دیگر ضروری مسائل پر احادیث کی روشنی میں مفصل و مدلل بحث کی گئی ہے۔ اس طرح یہ وقیع سا رسالہ اپنے اندر حجامے سے متعلق مختلف مضامین کو احاطہ کیے ہوئے ؛ نیز اکابرین امت نے اس پر اپنی قیمتی تقاریظ بھی سپرد فرمائی ہیں، جو اس کے مستند ہونے پر ایک مضبوط دلیل ہیں۔
جامعۃ القرآن ہرپن ہلی ضلع داونگرہ
سرپرست: فقیہ العصر :۔حضرت اقدس مولانامفتی شاہ محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی دامت برکاتہم
بانی ومہتمم مسیح العلوم بنگلور،خلیفہ ومجازحضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب ؒ
بانی ومہتمم:حضرت مولانا مفتی عزیر احمد صاحب مفتاحی قاسمی
مدرسہ جامعۃ القرن ،ہرپن ہلی ،ضلع داونگرہ ،کرناٹک کا مشہور ومعروف ایک دینی ادارہ ہے،الحمداللّٰہ۔دار العلوم دیوبند اور ان سے منسلک مدرسون کے طرز پر قائم یہ ادارہ یوم تاسیس سے اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد کی حفاظت اور دینِ اسلام کی اشاعت میں مصروف ہے۔جامعہ میں مقامی وبیرونی طلباء قیام وطعام کے ساتھ زیرِ تعلیم ہیں ہرسال طلباء کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔جس میں اکثر غریب،یتیم اور مسکین ہیں۔جن کی ہر طرح کی کفالت (یعنی کتابوں ،کپڑوں اور علاج ودیگرضروریات کی سہولت)جامعہ ہی کرتاہے۔جامعہ کاسالانہ خرچ تقریباً 8لاکھ روپئے ہے۔
جامعہ ایک نظرمیں:۔{1}تعداد طلباء:50 {2}تعداداساتذہ وملازمین:6 {3}کل شعبہء جات:3 ۔عصری تعلیم کا معیاری نظم ۔
جامعہ کی خدمات:۔(۱) مدرسہ جامعۃ القرن (۲)صباحی ومسائی مکاتب:10(۳)مدرسہ اصلاح البنات برائے نسوان(غیر اقامتی) (۴) سمّر کیمپ کا نظام برائے اطفال(۶)سمّر کیمپ کا نظام برائے نسوان(بالغ ونابالغ)
جامعہ کے عزائم:۔طلبا کیلئے کھانے کا ہال ومطبخ،طلباء کیلئے دارالاقامہ،اورکتب خانہ،کمپیوٹرس،اور درسگاہیں اورجامعہ کے زیرِ نگرانی میں اسلامی نہج پر اسکول، کالج،یتیم خانہ،اور غریبوں کیلئے دواخانہ ،اور اساتذہ وملازمین کیلئے رہائش گاہ اور مہمان خانہ، بنانے کا عزم ہے۔
اب شدید تقاضے کی بناپراوراسی طرح طلباء کی تعداد زیادہ ہونے پر مسجد اور احاطہء مسجد کی موجودہ عمارت ناکافی ہونے کی وجہ سے جامعہ کیلئے آدھی ایکڑ
سے زیادہ زمین ایک صاحبِ خیر نے وقف کی ہے جس میں تعمیری کام کی شروعات کی گئی ہے۔
جامعہ کی عمارت میں حصّہ لینے کی ترتیب :۔مدرسہ کی مسجد کا ایک مصلّٰی مع تعمیر 6000/۔مدرسہ کاایک اسکوائر فٹ مع تعمیر3000/- ۔ مسجد کاایک اسکوائر فٹ مع تعمیر 2500/-۔زمینی ایک مصلّٰی 1500/-۔زمینی ایک اسکوائرفٹ 1000/-۔
لہٰذا:۔برادرانِ اسلام سے گزارش کی جاتی ہے کہ اپنی طرف سے یا اپنے والدین یا رشتہ داروں کے طرف سے ،یااپنے مرحومین والدین یا اپنے رشتہ داروں کے طرف سے ایصالِ ثواب کی نیّت سے اس میں حصّہ لیںیاحصّہ لینے والوں کو ترغیب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
اوراسی طرح آپ اہلِ خیر حضرات سے گزارش ہے کہ کسی طالبِ علم کی فیس اپنے ذمہ لے کر ،ماہانہ یاسالانہ چندہ عنایت کرکے یااسی طرح صدقہ،زکوۃ،چرمِ قربانی، تعمیری اشیاء اور دیگر عطایات سے ادارہ کا بھر پور تعاون فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
جزاکم اللہ خیرا
طالب دعا:عزیر احمد قاسمی

زنا یعنی نا جا ءز جنسی تعلقات جرم، عظیم ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم


(زنا)نا جا ئز جنسی تعلقات جرم عظیم ہے
عزیر احمد مفتا حی قاسمی
استا ذ جا معہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور
8553116065
8147097977
abdulkhadarpuzair@gmail.com
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بے حیا ئی ،مخلوط تعلیم اور پردے کے حدود کی رعایت نہ کر نے کے نتیجے میں معا شرہ جن مفاسد سے دو چار ہو تا ہے ان میں زنا سب سے زیادہ مہلک مرض ہے ،جو معا شرے کو جنسی انارکی ،قتل وغارت گری ،خود کشی جیسے سینکڑوں جرائم میں ڈکھیل دیتا ہے جس طرح زنا سے متعلق قران وحدیث میں بہت ساری وعیدیں آئی ہو ئی ہیں اسی طرح زنا سے بچنے اور عفت کی زندگی گذارنے پر بشارتیں اور خوش خبریا ں بھی سنا ئی گئیں ہیں،ابھی حال ہی میں سپریم کو رٹ کی طرف سے زنا کے جواز کا فیصلہ صادر کیا گیا ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے تا ریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ہر دور میں زانی اور زا نیہ مجرم ٹہرا ئے گئے ہیں حتی کہ ہندوستان کاسب سے بد ترین دور انگریزوں کا رہا ہے انہو ں نے بھی اس کو جرم ہی ما نا ہے ؛مگر موجودہ مودی سرکار میں سپریم کو رٹ کے نئے چیف جسٹس دیپک مشرا صا حب کی پا نچ رکنی بنچ نے زنا کے جرم ہو نے کے قانون( تعزیرات ہند :دفعہ ۴۹۷ )کو کو منسوخ کر کے زنا کی اجازت دے دی ہے ،دفعہ ۴۹۷ کو سمجھنے سے پہلے منا سب ہے کہ زنا سے متعلق اسلام کے ہدایات واحکامات کو سمجھا جا ئے ۔
زنا کے مفا سد
زنا کو ہر مذہب میں برا سمجھا گیا ہے اور اس کے مفا سد بھی بے شمار ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
(۱)جس نے کسی کے حرم پرہا تھ ڈا لا وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر زانی کو قتل کر دیتا ہے اور یہ جوش انتقام نسلو ں تک چلتا ہے اور کئی خاندانوں کوتباہ کر دیتا ہے
(۲)جس قوم میں زنا عا م ہو جا ئے وہا ں کسی کا نسب محفو ظ نہیں رہتا
(۳) چہرے کی وجا ہت ختم ہو جا تی ہے۔
(۴)عمر کم ہو جا تی ہے۔
(۵)دا ئمی فقر وفا قہ کا شکار ہو جا تا ہے۔
(۶)اللہ تعالی غصہ ہو تے ہیں۔
(۷)حساب وکتاب میں سختی کر دی جا تی ہے۔
(۸)دوزخ کا عذاب کا مستحق ہو جا تا ہے۔
(۹)آپسی الفت ومحبت ختم ہو جا تی ہے ۔
(۱۰)ولد الزنا کی صحیح تعلیم وتربیت نہیں ہو سکتی۔
(۱۱)ایمان اخلاق ،ختم ہو جا تے ہیں ۔
(۱۲)مادہ تو لید ضائع ہو جا تا ہے ۔
(۱۳) صحت پر برا اثر پڑتا ہے ، آتشک ،سوزک ،ایڈس ،کینسرجیسے متعدی امرا ض لا حق ہو جا تے ہیں ۔
(۱۴)قومیں تباہ وبرباد ہو جا تی ہیں ۔
(۱۵)اموات کی کثرت ہو نے لگتی ہے ۔
علامہ شمس الدین ذہبی ؒ نے الکبائر میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اے مسلمانو زنا سے بچو کیو ں کہ اس میں چھ طرح کی برا ئیا ں ہیں تین دنیا میں اور تین مر نے کے بعد دنیا کے عذابات یہ کہ (۱) چہرے کی وجا ہت ختم ہو جا تی ہے۔(۲)عمر کم ہو جا تی ہے۔ (۳)دائمی فقر وفا قہ کا شکار ہو جا تا ہے اور آخرت کے تین عذبا ت یہ ہیں: (۴)اللہ تعالی غصہ ہو تے ہیں (۵)حساب وکتاب میں سختی کر دی جاتی ہے۔ (۶) دوزخ کا عذاب کا مستحق ہو جا تا ہے ۔(الکبائر :۵۳،الکبیرۃالعاشرۃ: الزنا،بیھقی فی شعب الایمان ،ابن الجو زی فی
الموضوعات ،ابو نعیم فی الحلیۃ)
مومن کی ذمہ داری
مو من کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس طرح بھلا ئیوں اور نیکیو ں کے رواج دینے اور پھیلا نے کا پابند ہے اسی طرح برا ئیوں کے انسداد اور اس کے سد باب کے ذرا ئع اختیار کر نے کا بھی پا بند ہے قران کریم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرہی کی بنیاد پر مومن اور مسلمان کوخیر امت کے تمغے سے نوا زا ہیسپریم کو رٹ کے اس فیصلے سے ملک کی معا شرتی صورت حال کا بگڑنا یقینی امر ہے مگر وہ قوم جو خدا ئے واحد پر یقین رکھتی ہے ان کا ایمان اس طرح کے فیصلو ں کے بعد بڑھنے لگتا ہے ،کیو ں کہ انھیں پتہ ہے کہ جیسے جیسے زما نہ دور نبوت سے دور ہو تا جا ئے گا ما حول میں خرابی اور پرا گندگی آتی ہی رہے گی اور یہ حا لات مومن کے صبر اور امتحان کے لئے پیدا کئے جا تے ہیں اس میں مو من نکھرتا رہتا ہے اور منا فق بکھرتا رہتا ہے قران شریف میں زنا کا لفظ ۱۵ بار استعمال ہوا ہے اس کی قبا حت اور احکام چار آیات میں بیان کئے گئے ہیں ؛جن میں دوآیات صرف سورہ نور میں مو جود ہیں با قی آیات فرقان ،بنی اسرا ئیل اور ممتحنہ میں مو جود ہیں،اسی طرح فحا شی اور بے حیا ئی پر دلالت کر نے ولا لفظ فحش‘‘ قران کریم میں چو بیس جگہ ٓا یا ہوا ہے ۔
زناکے قریب بھی نہ پھٹکو!
بنی اسرا ئیل کی آیت میں حکم دیا گیا کہ زنا کے قریب بھی نہ جا و، مطلب یہ کہ زنا کا فعل تو الگ ہے اس فعل کے قریب جا نا بھی ممنوع ہے اس سے اندا زہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جرم اپنے اندر کتنی قبا حت رکھتا ہے کہ اس کے قریب بھی پھٹکناممنوعات میں شمار کیا گیا ہے ۔
(وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآءَ سَبِیْلًا) بنی اسرا ئیل:۳۲
زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو وہ یقینی طور پر بڑی بے حیا ئی اور بے راہ روی ہے
یہ آیت ان پندرہ آیا ت میں سے ہے جن میں تیرہ احکام بیان کیے گیے اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے بقول توریت کے جملہ احکام سورہ بنی اسرا ئیل کے ان پندرہ آیا ت میں جمع کر دئیے گئے ہیں(معارف القران بحو الہ مظہری ۵؍۴۷۳) ان میں سا تو اں حکم زنا کی حرمت سے متعلق ہے مفتی اعظم مفتی شفیع عثما نی ؒ نے لکھا ہے کہ زناکے حرام ہو نے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ وہ’’ بے حیا ئی ‘‘ہے اور انسان میں حیا نہ رہی تو وہ انسا نیت ہی سے محروم ہو جا تا ہے پھر اس کے لئے کسی بھلے برے کام کا امتیاز نہیں رہتا اس معنی کے لیے حدیث میں ارشاد ہے:’’ اذا فا تک الحیا فا فعل ما شئت‘‘ یعنی جب تیری حیا ہی جا تی رہی تو کسی برا ئی سے رکا وٹ کا کو ئی پردہ نہ رہا تو، جو چا ہو گے کرو گے اور اسی لئے رسول اللہ ﷺ حیا کو ایمان کا اہم شعبہ قرار دیا ہے ،’’ والحیا ء شعبۃ من الایمان ‘‘ (بخاری) ۔
دوسری وجہ معا شرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کو ئی حد نہیں رہتی اور اس کے نتا ئج بد بعض اوقات پو رے قبیلو ں اور قومو ں کو بر باد کر دیتے ہیں ،فتنے چوری ڈا کہ قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے، اس کے حا لات کی تحقیق کی جا ئے تو آدھے سے زیا دہ واقعات کا سبب کو ئی عورت ومرد نکلتے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہو ئے اس جرم کا تعلق اگر چہ بلا واسطہ حقوق العباد سے نہیں ؛مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کر نا شاید اسی بنا پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لا تا ہے جس سے حقوق العباد متا ثر ہوتے ہیں اور قتل وغارت گری کے ہنگا مے بر پا ہو تے ہیں، اسی لیے اسلام نے اس جرم کو تمام جرا ئم سے اشد قرار دیا ہے اور اس کی سزا بھی سارے جرائم کی سزاووں سے زیا دہ سخت رکھی ہے؛کیو ں کہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرا ئم کو اپنے میں سمو ئے ہو ئے ہے ۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ساتو ں آسمان اور ساتو ں زمینیں شا دی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اورجہنم میں ایسے لوگو ں کی شرمگا ہو ں سے ایسی سخت بد بو پھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اس سے پریشان ہو ں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی ‘‘(رواہ البزار عن بریدہ ،مظہری)۔ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’زنا کر نے والا زنا کر نے کے وقت مومن نہیں ہو تا ،چوری کر نے والا چوری کر نے کے وقت مو من نہیں ہو تا اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مو من نہیں ہو تا‘‘۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔اس کی شرح ابو داود کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کر نے والے جس وقت مبتلا ئے جرا ئم ہو تے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر با ہر آجا تا ہے اور پھر جب اس سے لو ٹ جا تے ہیں تو ایمان واپس آجا تا ہے۔ (معارف القران ۵؍ ۴۶۳)
رحمن کے بندے زنا نہیں کرتے
دوسری آیت میں اللہ تعالی نے انسا نو ں میں ان لو گو ں کا ذکر کیا ہے جو اس کے خا ص اور مقرب بندے ہو تے ہیں اور ان کے اعمال وصفات کو بیان کرکے ان کی پہچان اور شنا خت کروائی ہے کہ اگر کو ئی ان خدا کے بندو ں کو پہچا ننا چا ہے تو ان صفات سے پہچان سکتا ہے اور جس کوان کی جماعت میں شامل ہو نا ہے وہ ان صفات سے اپنے آپ کو مزین کر کے شامل ہو سکتا ہے اور یہ جملہ صفات فطرت اخلاق اور انسانیت کا خاصہ ہیں ان صفات کے حصول کے بغیر کو ئی انسان صحیح معنو ں میں انسان کہلا نے کے لا ئق نہیں ہو سکتا،من جملہ صفات میں ایک صفت زنا سے دور رہنا ہے ۔
(وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا ) (الفرقان:۶۸)
(رحمان کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے ،اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے ،اسے نا حق قتل نہیں کرتے ،اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا اسے اپنے گناہ کے وبال کا سا منا کر نا پڑے گا (ترجمہ حضرت تقی عثما نی دا مت بر کا تھم ،آسان ترجمہ قران )
یہ آیت عباد الرحمن کی صفات میں شمار کی جا تی ہے ،اللہ تعالی نے اس سورت میں من جملہ مضا مین کے عباد الرحمن کی تیرہ صفات بھی بیان کی ہیں جن میں شروع کے چھ صفات طاعات اور فرماں برداری کے اصولو ں پر مشتمل ہیں،باقی سات صفات میں معصیت ونا فرمانی کے اصولوں کا بیان ہے ،اس آیت میں شرک قتل اور زنا تینوں جرائم کو ایک ساتھ بیان کرتے ہو ئے کہا گیا کہ عباد الرحمن ان گناہوں سے دور رہتے ہیں ۔
شرک قتل اور زنا کو ایک ساتھ شمار کر نا حکمت سے خالی نہیں ہے ،اس کی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ جب شرک ہو گاتو قتل اور زنا بھی ہو ں گے اور جب زنا ہو گا تو قتل کے ورادات بھی پیش آنے لگیں گے ،اور عباد الرحمان ان چیزوں سے دور رہتے ہیں ۔
عفت کی زندگی پر بیعت لی جا ئے!
تیسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ آپ ﷺ مو منوں سے بیعت اور عہد لیا کرتے تھے کہ وہ ہر جرم سے اپنے آپ کو بچا ئے رکھیں گے جس میں زنا بھی شمار کیا گیا ہے ۔
( یٰٓاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآء کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْءًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘) ( الممتحنہ :۱۲)
اے نبی ﷺ ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں اس بات پر بیعت کر نے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں مانیں گی ،اور چوری نہیں کریں گی اور زنا نہیں کریں گی ،اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ،اور نہ کو ئی ایسا بہتان باندھیں گی جو انہو ں نے اپنے ہاتھو ں اور پاؤں کے درمییییان گھڑ لیا ہواور نہ کسی بھلے کام میں تمہاری نا فرمانی کریں گی ،تو تم ان کو بیعت کر لیا کروا ور ان کے حق میں اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو یقیناًاللہ بخشنے والا ،بہت مہر بان ہے (ترجمہ حضرت تقی عثما نی دا مت بر کا تھم ،آسان ترجمہ قران )
اس آیت میں عورتو ں سے چھ چیزوں پر بیعت لی گئی ہے کہ ان چھ چیزوں پر مضبو طی کے ساتھ عمل پیرا ہو ں گی،اس میں تیسری چیز زنا سے بچنے پر وعدہ اور بیعت ہے ،معلوم ہوا کہ یہ وہ نا سور ہے جس کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا ،اور بیعت میںیہ الفا ظ ک کہلواکر اس کی قباحت ، شنا عت اور سنگینی کو سمجھا گیا ہے ۔
زنا کار کی سزا
چو تھی آیت میں زنا کے مرتکب کو زنا کی پا داش میں جو سزاملے گی اس کو بیان کیا گیا ہے اور سزا دیتے ہو ئے ان پر رحم بھی نہ کر نے اورسزا بھی کھلے عام ایک بڑے مجمع کے سا منے دینے کا حکم دیا ہے تا کہ معا شرہ اس سے عبرت لے اور اس جرم سے دور رہنے کی فکر کرے :
( اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ ص وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃ’‘ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآءِفَۃ’‘ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ہ۲ اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَّۃً اَوْ مُشْرِکَۃً ز وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِک’‘ ج وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ) ( نور:۳ )
زنا کرنے والی عورت اور زنا کر نے والے مرد کو سو کو ڑے لگاؤ! اور اگر تم اللہ اور یو م آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معا ملے میں ان پر ترس کھا نے کا کو ئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے اور یہ بھی چا ہئے کہ مو منو ں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھو ں دیکھے ،زانی مرد نکاح کر تا ہے تو زنا کار یا مشرک عورت سے ہی نکا ح کر تا ہے تو وہی مرد جو خود زانی ہو یا مشرک ہو ،اور یہ بات مو منو ں کے لیے حرام کر دی گئی ہے ۔ (ترجمہ حضرت تقی عثما نی دا مت بر کا تھم ،آسان ترجمہ قران )
تعزیرات وحدود کا فرق
یہ آیات اس سورت کی ہے جس کے بارے حضرت فارو ق اعظمؓ نے اہل کو فہ کے نام اپنے ایک فرمان میں تحریر فرمایا :’’ علمو النساء سورۃ النور‘‘ یعنی اپنی عورتو ں کو سورہ نور کی تعلیم دو!(معارف القران ۶؍۳۴۰)اس میں سب سے پہلے زنا کار وں پر جاری کی جا نے والی سزا کا بیان ہے ،قران کریم اور احا دیث متواترہ نے چار جرائم (۱)چوری(۲)پاک دا من عورت پر تہمت لگا نے(۳)شراب پینے(۴)زنا کرنے،اس کی سزا اور اس کا طریقہ خود متعین کر دیا ہے ،کسی قاضی یا امیر کی را ئے پر نہیں چھو ڑا انھیں متعینہ سزاوں کو شریعت کی اصطلا ح میں حدود کہا جا تا ہے ان کے علا وہ با قی جرائم کے سزائیں امیر یا قاضی اپنی صواب دید سے دے سکتا جو معاشرے میں انسداد جرائم کے لئے مفید ہو سکیں ،ان سزاووں کو تعزیرات کہا جا تا ہے ۔
زنا کی سزا میں تدریج
مفتی شفیع صا حب ؒ نے لکھا ہے کہ زنا کی سزا کے احکام بتدریج آئے ہیں اور خفت سے شدت کے طرف بڑھتے گئے ہیں زنا کی سزا کا سب سے پہلا حکم سورہ نسا کی آیت نمبر ۱۵ ،۱۶ میں ہے جس میں زنا کے ثبوت میں چار مرد کا گواہ لا نا اور زنا کار عورت کو گھر میں قید کر دینا بیان کیا گیا ہے قاضی یا امیر اپنی صواب دید سے اس جرم کے مرتکب کو ایذا پہونچا ئے دوسرا دور وہ ہے جس میں سو سو کو ڑے لگا ئے جا نے کا حکم ہے ،تیسرا درجہ جو آپ ﷺ نے آیت مذکورہ کے نا زل ہو نے کے بعد ارشاد فرمایا سو کو ڑو ں کی سزا غیر شادہ شدہ مرد وعورت کے لیے ہے اور شادی شدہ مرد وعورت کے لیے رجم اور سنگ ساری ہے ۔
سزاجاری کرتے ہو ئے۔۔۔
دوسری بات جو آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ مجر مو ں کو سزا دینے میں رحم اور ترس کھا نا جا ئز نہیں ہے گر چہ کہ رحم ہر جگہ محمود ہے مگر مجرمو ں پر حم کر نا خلق خدا کے ساتھ بے رحمی کہلا ئی جا ئے گی ۔
تیسری بات یہ بیان کی گئی کہ مجرمو ں کو سزا دئے جا نے کے وقت ایک بڑی جماعت کا حا ضر رہنا ضروری ہے ؛تا کہ عبرت اور نصیحت حاصل ہو اور دو بارہ اس طرح کے واردات پیش آنے سے پہلے سنگین سزا کا خوف آنکھو ں میں رہے اور جرم سے باز رہنے میں مدد ملے ۔
مزاج کا بگا ڑ
چو تھی بات یہ بیان کی گئی کہ زنا ایک اخلا قی زہر ہے اس کے زہریلے اثرات سے انسان کا اخلا قی مزاج ہی بگڑ جا تا ہے ا سے بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی ؛بلکہ برا ئی اور خبا ثت ہی مر غوب ہو جا تی ہے حلال وحرام کی بحث نہیں رہتی اور جو عورت اس کو پسند آتی ہے اس کا اصلی مقصود اس سے زنا کر نا اور اس کو زنا کاری پر را ضی کر نا ہو تا ہے اور اگر زنا کے ارادے میں نا کام ہو جا ئے تو مجبوری سے نکا ح پر را ضی ہو تا ہے؛ مگر نکا ح کو دل سے پسند نہیں کر تا کیو ں کہ نکا ح کے جو مقاصد ہیں کہ آدمی عفیف ہو کر رہے اور اولاد صا لح پیدا کرے اور اس کے لئے بیوی کے حقوق نفقہ وغیرہ کا پا بند ہو جا وے یہ ایسے شخص کو وبال معلوم ہو تے ہیں اور چو ں کہ ایسے شخص کو در اصل نکا ح سے کو ئی غرض ہی نہیں اس لیے اس کی رغبت صرف مسلمان عورتو ں کی طرف نہیں بلکہ مشرک عورتوں کی طرف بھی ہو تی ہے ،یہی حال ان عورتو ں کا بھی ہو گا جن کو زنا کی لت پڑجا تی ہے ۔
(ملخص ازمعارف القران ۶؍۳۴۸)
چند قیمتی نکات
حضرت مو لانا خالد سیف اللہ رحمانی دا مت برکاتھم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
(۱) سماجی زندگی سے متعلق احکام و قوانین کے اعتبار سے سورہ نور کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ؛ اسی لئے حضرت عائشہؓ تلقین فرماتی تھیں کہ عورتوں کو سورہ نور سکھایا کرو : علموہن سورۃ النور ( مستدرک حاکم ، کتاب التفسیر ، باب تفسیر سورۃ النور:۳۴۹۴ ) سورہ نور کی اس اہمیت کی وجہ سے اور لوگوں کو اس کے مضامین کی طرف متوجہ کرنے کی غرض سے اس سورہ میں خاص طورپر ایک تمہید ذکر فرمائی گئی ہے کہ اس میں ذرا بھی شبہ نہ ہونا چاہئے کہ یہ سورہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اُتاری گئی ہے ، اس کے احکام اللہ ہی کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور اس کے مضامین نہایت واضح اور بے غبار ہیں ۔
(۲) زنا کو دنیا کے ہر مذہب اور ہر مہذب معاشرہ میں جرم سمجھا گیا ہے ، یہ آخرت کے اعتبار سے تو ایک شدید گناہ ہے ہی ؛ لیکن دنیا میں بھی سماج کے لئے اور خود زنا کرنے والے مرد و عورت کے لئے نہایت نقصاندہ اور مضرت رساں ہے ، زنا سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے ؛ کیوں کہ جو صنفی جذبات انسان کے اندر ہوتے ہیں ، وہی دوسرے جانداروں میں ہوتے ہیں ؛ لیکن ان کے یہاں ان کی شناخت محفوظ نہیں ہوتی ، انسان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ، وہ باپ دادا کی نسبت سے جانا جاتا ہے ، اس نسبت پر اسے فخر ہوتا ہے اور اگر کسی انسان کے بارے میں یہ بات کہی جائے کہ اس کے باپ کا پتہ نہیں ہے تو اس کے لئے یہ حد درجہ عار کی بات ہوتی ہے ؛ اس لئے زنا اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد انسانی سماج کے لئے ایک بد نما داغ سے کم نہیں ۔
دوسرے :انسان کو قدم قدم پر خاندان کی ضرورت پڑتی ہے ، زنا کے ذریعہ جو بچے پیدا ہوتے ہیں ، وہ خاندان سے محروم ہوتے ہیں ، نہ ان کی خوشی اور غم میں کوئی مونس و غمخوار ہوتا ہے ، نہ اس کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا کوئی شخص ذمہ دار ہوتا ہے ، ان کی حیثیت اپنے آپ لگ جانے والے پودوں کی ہوتی ہے ، جن کی نہ کوئی دیکھ ریکھ ہوتی ہے اور نہ کوئی قدر و قیمت۔
تیسرے :یہ عورت کے خاندان کے ساتھ زیادتی ہے ، عورت چاہے اپنی رضامندی سے برائی کی مرتکب ہو ؛ لیکن یہ اس کے پورے خاندان کے لئے رسوائی کا باعث ہوتا ہے ۔
چوتھے : طبی اعتبار سے بھی یہ گناہ حد درجہ نقصان دہ ہے ، مختلف امراض خبیثہ ---آتشک ، سوزاک اور ایڈس --- زنا کے نتیجے میں انسان کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور تکلیف دہ اور رسواکن موت تک پہنچا کر رہتے ہیں ؛ اسی لئے شریعت نے زنا کی سب سے سخت سزا رکھی ہے ، اگر شادی شدہ مرد و عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ان کی سزا سنگسار کرنا ہے ، جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں آیا ہے ، ( نسائی ، کتاب القسامۃ ، باب سقوط القود من المسلم للکافر ، حدیث نمبر : ۴۷۴۳) اور اس پر اُمت کا اجماع واتفاق ہے ، ( ہدایہ اولین :۵۰۹ ) امام فخر الدین رازیؒ نے ابوبکر جصاص رازیؒ سے نقل کیا ہے کہ سنگسار کرنے سے متعلق روایت تواتر کے درجہ کو پہنچتی ہے ، ( مفاتیح الغیب :۱۱؍۸۲۴) --- کنوارے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے زنا کی سزا سو کوڑے ہے ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے ، اگر شرعی اُصولوں کے مطابق یہ جرم ثابت ہوجائے تو اس سزا پر فقہاء کا اتفاق ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۲؍۱۶۸ ) حدیث میں اس کے علاوہ ایک اور سزا کا بھی ذکر آیا ہے ، کہ ایسے شخص کو ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے ، ( ابن ماجہ ، کتاب الحدود ، باب حد الزنا ، حدیث نمبر:۲۵۵۰) لیکن امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہیں ہے ؛ (بدائع الصنائع :۵؍۴۹۲) بلکہ یہ حکم بطور مصلحت کے ہے ، مصلحت یہ ہے کہ جب ایسے گناہ کا مرتکب سماج میں رہتا ہے اور لوگ اس کو چلتے پھرتے دیکھتے ہیں تو اس برائی کا چرچا ہونے لگتا ہے اور جب کسی برائی کا زیادہ چرچا ہو تو اس کی وجہ سے وہ برائی پھیلتی ہے ؛ چنانچہ حضرت عمرؓکے عہد میں ایک ایسے ہی مجرم کو شہر بدر کیا گیا ، وہ دوسری جگہ جاکر مرتد ہوگیا ، حضرت عمرؓ نے فرمایا : میں آئندہ کسی کو جلاوطن نہیں کروں گا ، (مصنف عبد الرزاق ، کتاب الاشربۃ ، حدیث نمبر:۱۷۰۴۰ ) ظاہر ہے کہ اگر شہر بدر کرنا سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو حضرت عمرؓکو یہ اختیار نہ ہوتا کہ وہ اپنے طورپر کسی سزا کو ختم کردیں ۔
زنا کے مضر اثرات اور انسان کے اندر جوانی کے زمانہ میں اس پر اُکسانے والے غیر معمولی جذبات کی وجہ سے اگرچہ اس جرم کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے ؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو باتیں قابل توجہ ہیں ، اول : یہ کہ زنا کی سزا دیئے جانے کے لئے اس کا ثابت ہونا شرط ہے ، ناکافی ثبوت اور شبہ کی وجہ سے یہ سزا نہیں دی جاسکتی ، اور اس کے ثبوت کی شرطیں بہت سخت ہیں کہ چار ایسے مرد گواہ اس فعل کی گواہی دیں ، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے عین فعلِ زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دونوں کو دیکھا ہو ؛ ( ابوداود ، کتاب الحدود ، حدیث نمبر:۴۴۵۲ ) ۔گویا مجرم صرف زنا کا مرتکب ہی نہیں ہو ؛ بلکہ اس نے حد درجہ بے حیائی کے ساتھ اس برائی کا ارتکاب کیا ہو ۔ دوسرے کوئی شخص یا سماج یا خاندان کا ذمہ دار اپنے طورپر زنا کی سزا نافذ نہیں کرسکتا ، امیر اور اس کے قائم مقام جیسے قاضی ہی اس سزا کو نافذ کرے گا : لا خلاف ان المخاطب بھذا الامر الإمام ومن ناب منابہ ۔ ( تفسیر قرطبی :۱۲؍۱۶۱)
عام طورپر اہل مغرب کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ شریعتِ اسلامی میں مختلف جرائم اور خاص کر زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے ، وہ نہایت سخت بلکہ غیر انسانی ہے ، اس سلسلہ میں دوباتیں پیش نظر رہنی چاہئیں ، اول یہ کہ زنا اور اس طرح کے جرائم کی سزا صرف دارالاسلام میں قابل نفاذ ہوتی ہے ، جہاں ایک حقیقی اسلامی حکومت ہو ، پوری طرح اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہو اور مجرم کو جرم سے بچنے کے لئے معاون ماحول دیا جاتا ہو ، مثلاً جہاں حقیقی اسلامی حکومت قائم ہو ، وہاں نہ شراب کے کارخانے ہوں گے اور نہ شراب کی خرید و فروخت ہوگی ، جو عام طورپر انسان کو زنا جیسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ، اسی طرح وہاں فحش لٹریچر ، ہیجان انگیز اشتہارات ، نیز تعلیم گاہوں اور آفسوں میں مرد و عورت کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہوگی ،خواتین اپنے سارے کام پردے کے ساتھ کریں گی ، ظاہر ہے ایسے پاکیزہ ماحول میں زنا جیسے واقعات اِ کَّا دُکَّا ہی پیش آئیں گے اور بمشکل ہی ثابت ہوسکیں گے ؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺکی دس سالہ زندگی میں اس جرم کے صرف تین چار واقعات ہی پیش آئے۔دوسرے یہ ایک حقیقت ہے کہ زنا جیسے جرم کو روکنے اور سماج کو عفیف و پاکدامن رکھنے کے لئے سخت جسمانی سزا ضروری ہے ، اس کو سمجھنے کے لئے موجودہ مغربی معاشرہ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ وہاں کس طرح عفت و عصمت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے ، بے نسب اولاد کی بہتات ہوتی چلی جارہی ہے ، خاندانی نظام بکھر گیا ہے اور جان لیوا بیماریوں نے سماج کو جکڑ لیا ہے ؛ اس لئے جو لوگ عفت و عصمت کو انسان کا اخلاقی جوہر سمجھتے ہیں ، جن کی نگاہ میں نسب کی حفاظت کی اہمیت ہے اور جو ایک پاکیزہ سماج تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، وہ ہرگز اس سزا کو ظلم اور انسانیت مخالف قرار نہیں دے سکتے ۔
زنا کی سزا مقرر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کی ہدایت دی ہے ، ایک یہ کہ جب جرم ثابت ہوجائے تو اس کے نفاذ میں تامل نہ کیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ رحم دلی کا جذبہ آڑے آجائے ؛ البتہ اگر کسی شخص سے زنا کا ارتکاب ہو اور معاملہ عدالت میں نہیں پہنچا ، تو اس کو چھپادینا اور اور اس پر پردہ رکھ دینا افضل ہے ؛ چنانچہ حضرت ماعزؓ کے واقعہ میں آپﷺنے فرمایا : اگر تم نے اپنے بھائی کے عیب کو چھپادیا ہوتا تو یہ بہتر ہوتا ، (ابوداود ، کتاب الحدود ، باب فی الستر علی الحدود ، حدیث نمبر :۴۳۷۷) ۔آیت میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ جب جرم ثابت ہوچکا اور اس پر سزا نافذ ہی کی جائے تو یہ سزا علی الاعلان نافذ کی جانی چاہئے ؛ تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی عبرت ہو اور معاشرہ میں یہ گناہ پنپنے نہ پائے ۔
زنا کی سزااور اس کی حکمت
زنا کی سزا میں شریعت کی حکمت قابل توجہ ہے کہ زنا ایک ایسا گناہ ہے ، جس سے انسان کا پورا وجود لذت حاصل کرتا ہے ، اسی لئے سنگساری یا کوڑے کی شکل میں سزا بھی ایسی مقرر کی گئی ، جس کا اثر اس کے پورے جسم پر پڑتا ہے اور یہ بات بھی قابل عبرت ہے کہ جب انسانوں نے اللہ کے احکام کو نافذ کرنا چھوڑ دیا تو قدرت کی طرف سے ان پر ایسی جان لیوا ، تکلیف دہ اوررُسواکن بیماریاں مسلط کردی گئیں ، جو انسان کے پورے وجود کو متاثر اور شدید قسم کے درد و الم سے دوچار کرتی ہیں ۔(آسان تفسیر،سورۃ نور آیت نمبر ۱،۲)
فحش اور بے حیا ئی
قران کریم میں جس طرح زنا کے فسادسے متعلق بہت ساری ہدا یات ملتی ہیں وہیں زنا سے ملتا جلتا لفظ ’’فحش ‘‘بھی ہے لسان العرب میں فحش کے معنی مختلف لکھے ہیں :’’ والفَحْشاءُ والفاحِشۃُ القبیحُ من القول والفعل ، وجمعہا الفَواحِشُ ، معتد فی القول والجواب ، کل شیء جاوز الحد‘‘۔ قول وفعل میں حد سے تجا وز کر نا فحش کہلا تا ہے جس طرح زنا ایک اخلا قی بیماری ہے اسی طرح فحش بھی ایک بہت بڑی اخلا قی بیماری ہے جس کے اندر بے حیا ئی کے ساتھ حد اعتدال سے ہٹ کر کو ئی بھی کام کر نا شامل ہو تا ہے،قرآن میں زنا ،بے حیا ئی،واقعہ افک میں منا فقین کی حضرت عا ئشہؓ پر بہتان ترا شی کے پرو پیگنڈے کو ،باپ کی منکو حہ سے شادی کر نے کونیز قوم لوط کے عمل کو بھی اور ہرطرح کے چھو ٹے بڑے ،ظاہری اور با طنی گناہو ں کو بھی فحش کے نام سے ذکر کیا ہے ۔
اللہ تعالی نے فحش سے بھی منع فرمایا ہے اور اس سے متعلق قران کریم میں چو بیس آیا ت ہیں جن کا خلا صہ یہ ہے کہ شیطان کے پیچھے مت چلو کیو ں کہ شیطان برا ئی اور بے حیا ئی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالی اس کا حکم نہیں دیتے اور اللہ تعالی اپنے مخلص بندو ں کو بے حیا ئی سے بچا لیتے ہیں ،نماز کی عادت بھی بے حیا ئی سے رو کنے میں مدد دیتی ہے،اور جو بندے فحش میں مبتلا ہو کر اپنی جا نو ں پر ظلم کرتے ہیں پھر انھیں احساس ہو تا ہے اور اللہ سے معا فی اور استغفار میں لگ جا تے ہیں تو اللہ تعالی انھیں معاف کردیتا ہے ، جو عورتیں فحش میں مبتلا ہو ں ان پر مردحضرات میں سے چار گواہ ضروری ہیں ، اور جو فحش وبے حیا ئی کو پھیلا تے ہیں ان کو درد ناک عذاب ہو گا ۔
زنا کے اسباب
زنا کے بہت سارے اسباب ہیں،ان میں سے گا نا بجا نا ،بے پردگی ،باریک وتنگ لباس کا استعمال ،بد نظری ،اختلاط مرد وزن ،زنا کے واقعات کو سننا ،سنا نا یا پھیلا نا،شہوات انگیختہ کر نے والی چیزوں کو دیکھنا پڑھنا یا سننا ،ذکر الہی سے غفلت ،خواہشات اور عیش وآرام کے پیچھے پڑے رہنا،زیا دہ کھا نا ، حرام مال کھا نا،مرد وعورت کا تنہا ئی میں یکجا ہو نا وغیرہ ہوسکتے ہیں ۔
گا نا اور با جے
گا نے بجا نے سے متعلق ابن جو زی ؒ نے تلبیس ابلیس میں بہت سارے احا دیث وآثار نقل کئے ہیں۔
حضرت فضیل بن عیا ض ؒ کہتے ہیں کہ’’ الغنا رقیۃ الزنا‘‘ گا نا زنا کی سیڑھی ہے ۔
حضرت یزیدبن ولید کہتے ہیں کہ اے بنو امیہ ! گا نے سے بچو؛ کیو ں کہ یہ شہوت کو بڑھا تا ہے شرافت کو ختم کر دیتا ہے ،شراب کے قائم مقام ہے اس لیے کہ شراب جس طرح آدمی کو مست کر دیتا ہے اسی طرح گا نا بھی مست کر دیتا ہے اگر تمہیں گا نے ہی کی ضرورت پڑ جا ئے تو عورتو ں کو اس سے بچا کے رکھو، گا نا زنا پرابھا ر نے والا ہے ۔
امیر المو منین سلیمان بن عبد الملک اپنے ڈیرے میں تھے دیر تک جا گ رہے تھے جب ان کے سا تھی چلے گئے تو وضو کے لیے پا نی ما نگا تو لو نڈی وضو کے لیے پا نی ڈا ل رہی تھی اسی اثنا میں سلیمان نے ہا تھ کے لیے لو نڈی سے مدد ما نگی مگر لو نڈی غافل ہو رہی تھی اور اپنے بدن کو ایک طرف جھکا کر اس گا نے کی آواز سے مست ہو رہی تھی ،جو لشکر کے طرف سے آرہی تھی سلیمان یہ حال دیکھ کر اس لو نڈی کو وہا ں سے ہٹا دیا اور خود اس آواز کو سننے لگا معلوم ہوا کہ گا نے والا مرد ہے اور اس کے اشعار کو سمجھ گئے ،پھر دوسری لو نڈی کو بلاکر اس سے وضو کیا، جب صبح ہو ئی تو لوگو ں کو اذن عام دیا کہ سب حا ضر ہو ں جب سب لو گ آگئے تو سلیمان نے ان لو گوں کا ذکر چھیڑا جو گا نا سنتے تھے،اس بارے میں ایسی نرم بیا نی سے کام لیا کہ لو گ سمجھے کہ سلیمان گا نے بجانے کی خواہش رکھتے ہیں ،تو لو گو ں نے گا نے کی نرمی پڑھنے کی سہولت اور دل میں اترجا نے کا تذکرہ کر نے لگے ،سلیمان نے پو چھا تم میں کو ئی آدمی ہے جس سے کچھ سنا جا ئے ؟ایک شخص نے کہا امیر المو منین میرے یہا ں ایلہ کے رہنے والے دو آدمی ہیں جو اس فن میں ما ہر ہیں سلیمان نے پو چھا لشکر میں تمہارا قیام کہا ں ہے ؟ اس نے اسی جا نب اشارہ کیا جہا ں را ت میں گا نے کی آواز سنا تھا ۔حکم دیا کہ ان دو نو ں کو بلوا یا جا ئے ،قاصد گیا ان میں سے ایک کو بلا لا یا ،سلیمان نے اس کا نام پو چھا تو کہنے لگا سمیر ہے پھر پو چھا گا نا کیسے جا نتا ہے؟ کہا اس فن میں ما ہر ہو ں پو چھا کب گا یا تھا ؟ کہا کل رات ! پو چھا لشکر کے کس طرف ہے ؟ اس نے اسی جگہ کی جا نب بتا یا جہا ں سے کل آواز سنی تھی ،دریا فت کیا کو نسا شعر گا یا تھا اس نے وہی شعر بتا یا ،اسی وقت سلیمان لو گو ں سے مخا طب ہو کر بو لا :اونٹ بلبلا تا ہے تو اونٹنی بے خود ہو جا تی ہے ،بکرا جو ش میں آواز نکالتا ہے تو بکری مست ہو جا تی ہے ،کبوتر غٹر غوں کر تا ہے تو کبوتری مزے میں آجا تی ہے، مرد را گ نکالتا ہے تو عورت اس طرف میں آجا تی ہے پھر اس گو یے کو خصی کر نے کا حکم دے دیا۔ پھر پو چھا: گا نے بجا نے کا رواج کہا ں سے ہو رہا ہے ؟ لوگوں نے بتا یا مدینے سے جہا ں مخنث لوگ اس فن کے کا مل اور پیشوا ہیں ، پھر عا مل مدینہ ابو بکر بن محمد کو لکھا کہ وہا ں کے مخنث گا نے والو ں کو سزا دی جا ئے !(تلبیس ابلیس : ۲۶۷فصل فی ذکرا لادلۃ علی کرا ھیۃ الغنا والنو ح والمنع منھما )
شرم وحیا
شرم وحیا سب سے بڑی دو لت ہے آپ ﷺ نے شرم وحیا سے متعلق بہت ساری با تیں بیان کی ہیں سب سے اہم بات یہ کہ وہ ایمان کا ایک حصہ ہے ، مطلب یہ کہ ایمان کا مجموعہ جن چیزوں پر مشتمل ہے اس میں سب سے اہم حصہ شرم وحیا ہے ،جس معا شرے میں شرم وحیا ہو گی وہ کبھی خیر اور بھلائی سے محروم نہیں رہے گا اور جہا ں شرم کو کرید کرید کر نکال دیا جا ئے وہا ں جرائم کو بہت آسانی سے پھیلا یا جا سکتا ہے جیسا کہ مغربی ممالک جہا ں پر میڈیا کی آزادی کے نام پر شرم وحیا سے وابستہ چیزوں کی اتنی بے اہمیتی اور بے وقعتی کی گئی کہ اس معا شرے میں شرم وحیا نام کی چیز ہی ختم ہو گئی،اب وہا ں کی حا لت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کو ئی عیب نہیں ہے نا جائز جنسی تعلقات جرم نہیں ہیں ،لیو ان ایلشن شپ ، بوائے فرنڈ ،ویلنٹائن ڈے ،پھراس کے نو ماہ بعد چلڈرن ڈے ،اس طرح کے جملہ اقدامات صرف اس لیے را ئج کئے جا رہے ہیں کہ معا شرہ شرم وحیا سے خا لی ہو جا ئے،اور شہوانی جذبات کی تکمیل میں لگ کر تباہ وبر باد ہو جا ئے ۔
حضرت زید بن طلحۃؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :ہر دین کا ایک مزاج ہو تا ہے اور اسلام کا مزاج شرم وحیا ہے (رواہ مالک وابن ماجۃ ،مشکو ۃ با ب الرفق والحیا وحسن الخلق ص: ۴۳۲)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : حیا اور ایمان دو نو ں ایک دوسرے سے مر بو ط ہیں اس میں سے ایک نکل جا ئے تو دوسرا بھی نکل جا تا ہے (مشکو ۃ با ب الرفق والحیا وحسن الخلق ص: ۴۳۲)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :لو گو ں نے سا بقہ نبوت کے کلام میں سے جو پا یا ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ جب حیا تم سے رخصت ہو جا ئے تو جو چا ہے کرو !(رواہ البخاری،مشکو ۃ با ب الرفق والحیا وحسن الخلق ص:۴۳۱)
حیا ایمان کا خا صہ ہے اور اور بے حیا ئی جفا اور ظلم ہے جفا اور ظلم جہنم میں لے جا نے والی چیزیں ہیں ۔
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حیا بہت بڑی دولت ہے جو ہر برا ئی سے رو کنے والی ہے
بد نظری
بد نظری شہوت کی قاصد اور پیغام بر ہو تی ہے نگاہ کی حفا ظت دراصل شرم گاہ اور شہوت کی جگہو ں کی حفا ظت ہے جس کی نظر آزاد ہو گئی وہ ہلاکت کے دہا نے میں جا بیٹھا ہے، نظر تمام آفتو ں کی بنیاد ہے۔’’ الصبر علی غص البصر ایسر علی الصبر علی الم بعدہ‘‘ (نظر کی حفا ظت کر کے صبر لرلینا آسان ہے اس مصیبت کے صبر سے جو بد نظری کے بعد پیدا ہو تی ہے)۔
(قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر’‘ م بِمَا یَصْنَعُوْنَہ۳۰ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ ص وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآءِھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوَاتِہِنَّ اَوْنِسَآءِھِنَّ اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِالتَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَو ِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ص وَلَایَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ ط وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )(النور:۳۱)
(مو من مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں ،اور اپنی شرم گا ہو ں کی حفا ظت کریں یہی ان کے لیے پا کیز ہ ترین طریقہ ہے ،وہ جو کار روا ئیا ں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پو ری طرح با خبر ہے اورمو من عورتو ں سے کہدو کہ وہ اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہو ں کی حفاظت کریں اور اپنی سجا وٹ کو کسی پر ظا ہر نہ کریں ،سوائے اس کے جو خود ہی ظا ہر ہو جا ئے اور اپنی اوڑھنیو ں کے آنچل اپنے گریبا نو ں پر دال لیا کریں اور اپنی سجا وٹ اور کسی پر ظا ہر نہ کریں ،سوائے اپنے شوہرو ں کے یا اپنے بھا ئیو ں یا اپنے بھا ئیو ں کے بیٹوں ،یا اپنی بہنو ں کے بیٹوں کے ،یا اپنی عورتو ں کے یا ان کے جو اپنے ہا تھو ں کی ملکیت میں ہیں یا ان خدمت گذارو ں کے جن کے دل میں کو ئی جنسی تقاضا نہیں ہو تا یا ان بچو ں کے جو ابھی عورتو ں کے چھپے ہو ئے حصوں سے آشنا نہیں ہو ئے اور مسلمان عورتوں کو چا ہئے کہ وہ اپنے پا وں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہو ں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جا ئے اور اے مو منو !تم سب اللہ کے سا منے تو بہ کرو تا کہ تمہیں فلا ح نصیب ہو)۔ (ترجمہ حضرت تقی عثما نی دا مت بر کا تھم ،آسان ترجمہ قران )
تفصیل
اس آیت کے تعلق ان آیات سے ہے جن میں زنا اور اس کے متعلقات کے احکام بیان کئے گئے ہیں،جن میں با لترتیب : (۱)زنا کی سزا،(۲)زانی زانیہ کے نکا ح سے متعلق،(۳)زنا کی جھو ٹی تہمت لگنے پر احکامات جس کو حد قذف کا باب کہا جا تا ہے (۴)لعان کے مسائل،جس میں شوہر بیوی پر زنا کی تہمت لگا تا ہے اور وہ بیوی اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جا تی ہے(۵)استیذان و آداب ملاقات(۶)عورتو ں کے پردے کے احکام ہیں ۔
تفسیر
حضرت مو لانا خالد سیف اللہ رحمانی دا مت برکاتھم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
ان آیات میں سماجی زندگی سے متعلق کم سے کم آٹھ اہم احکام دیئے گئے ہیں : اول یہ کہ مردوں پر واجب ہے کہ وہ کسی غیرمحرم یا اجنبی عورت پر نگاہ ڈالنے سے بچیں ؛ کیوں کہ بے حیائی و بے شرمی کے سارے کاموں کی ابتداء نگاہ ہی سے ہوتی ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے نظر کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر قرار دیا ہے ، ( مستدرک حاکم ، کتاب الرقاق ، حدیث نمبر :۷۸۷۵) ۔اگر غیرارادی طورپر نظر پڑ جائے تو یہ پہلی اور اچانک کی نظر تو معاف ہے ؛ لیکن اپنی نظر ہٹالے اور نظر جمانے سے گریز کرے ، (مسلم ، کتاب الآداب ، حدیث نمبر :۲۱۵۹ ، عن جریر بن عبد اللہؓ )
دوسرے :اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرے ، اس میں دونوں باتیں شامل ہیں ، ایک یہ کہ مرد بھی اپنے ستر کا خیال رکھیں اور شرمگاہ کو چھپانے کا خاص لحاظ ہو؛ ای یستروھا عن ان یراھا من لا یحل ( تفسیر قرطبی : ۱۲؍۲۲۳) اور یہ بات بھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طریقہ پر شہوانی تقاضوں کے پورا کرنے کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ کوئی اورطریقہ اختیار نہ کریں ، زنا ، ہم جنسی ، یا خود اپنی بیوی کے ساتھ خلافِ فطرت فعل ، یہ ساری باتیں اس حکم میں داخل ہیں ۔
تیسرے :عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں ، اگرچہ عورتوں کے لئے ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصہ کو چھوڑ کر محرم اورغیرمحرم مردوں کو دیکھنا جائز ہے ؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو حبشیوں کا کھیل دکھایا تھا ، (مسلم ، کتاب صلاۃ العیدین ، باب الرخصۃ فی اللعب الخ ، حدیث نمبر : ۸۹۲) اور اس لئے کہ خواتین عہد نبوی اور اس کے بعد بھی مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لئے آتی تھیں اور جمعہ وعیدین کے خطبے سنا کرتی تھیں ، حج میں شریک ہوتی تھیں ، ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں مردوں پر نگاہ پڑے بغیر چارہ نہیں ؛ لیکن بہتر ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ، غیر محرم کو بھی دیکھنے سے بچیں۔ حضور ﷺکی خدمت میں حضرت عبد اللہ بن مکتومؓ حاضر ہوئے ، وہاں حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ موجود تھیں ، آپﷺ نے ان دونوں کو وہاں سے جانے کا حکم دیا ، انھوں نے عرض کیا کہ یہ تو نابینا ہیں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ؟ (ابوداود ، کتاب اللباس ، حدیث نمبر : ۴۱۱۴) اس سے معلوم ہوا کہ احتیاط بہر حال نگاہ کو بچانے میں ہے ، اسی طرح جو حصہ مرد کے ستر میں داخل نہیں ہے ، اگر کوئی عورت کسی خاص مرد کے دیکھنے میں فتنہ محسوس کرے تو خود اس کے لئے اس سے بچنا بہتر ہی نہیں ؛ بلکہ واجب ہے ۔
چوتھے : عورتیں بھی اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اس میں زنا بھی شامل ہے ، ہم جنسی بھی ، خود اپنے شوہر کے ساتھ غیرفطری فعل بھی ، اور اس میں خصوصی طورپر صنفی اعضاء کے ستر کا لحاظ رکھنے کی طرف بھی اشارہ ہے ، عام طورپر قرآن مجید میں احکام کا مخاطب مردوں کو بنایا جاتا ہے اور عورتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں ؛ لیکن اس مسئلہ میں عورتوں کو بھی خصوصی طورپر مخاطب کیا گیا ہے ؛ کیوں کہ عفت و عصمت کا تعلق بنیادی طورپر عورت سے ہے اور اگر عورتیں پاکدامنی کے راستے پر قائم رہیں تو مرد خود بخود اس راستے پر قائم رہیں گے --- ان احکام کا تعلق تو فطری حسن کو چھپانے سے تھا۔
لیکن پانچویں نمبر پر:اس زینت و آرائش اورحسن وجمال کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے ، جس کا تعلق انسان کے بناو سنگار کی بنائی ہوئی چیزوں سے ہے ؛ چنانچہ فرمایا گیا کہ اپنی زیبائش وآرائش کو غیر محرم مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں ، اور اسی کے تقاضوں میں سے یہ ہے کہ دوپٹہ اس طرح استعمال کریں کہ وہ سرگردن اور سینہ کو اچھی طرح چھپادے ، زمانہ جاہلیت میں خواتین اس طرح دوپٹہ استعمال کرتی تھیں کہ سر کو چھپاتے ہوئے اس کو پشت کی طرف ڈال دیتی تھیں ، اس طرح گردن ، سینہ اور کان کھلا رہ جاتا تھا ، ( تفسیر قرطبی : ۱۲؍۲۳۰) افسوس کہ موجودہ دور کی جدید جاہلیت کا بھی فیشن یہی ہے کہ اوڑھنی ایک گلوبند کی طرح لٹکائی جائے اور سر اور سینہ کھلا رہے ، قرآن مجید میں اس کو صراحتاً منع کیا گیا ہے ، چھپانے سے صرف اس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا جو خود ہی کھلی رہے ۔
ما ظہر منھا اس سے کیا مراد ہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے نزدیک اس سے اوپر کے کپڑے مراد ہیں ، سعید بن جبیرؓکے نزدیک کپڑے اور چہرہ ، امام ابوحنیفہ ؒ اور بعض اور اہل علم کے نزدیک چہرہ ، گٹوں تک دونوں ہاتھ اور کپڑے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۲؍۲۲۸، مدارک التنزیل :۲؍۱۵۹ ، احکام القرآن للجصاص : ۵؍۱۷۲ ) کیوں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بالغ ہونے کے بعد چہرہ اورہاتھوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آنی چاہئے ، یہ بات آپ نے حضرت اسماء بنت ابی بکر کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمائی ، (ابوداود ، کتاب اللباس ، حدیث نمبر : ، عن عائشہؓ ) البتہ یہ حکم عمومی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا ہے ، بعد کے ادوار میں جب دیکھا گیا کہ بے حیائی بڑھ گئی ہے تو خود فقہاء احناف میں بھی بعد کے لوگوں نے جو ان عورتوں کے لئے چہرہ کے چھپانے کو بھی واجب قرار دیا ہے ۔ (الدر مع الرد :۹؍۵۳۲)
چھٹے :ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ، جن سے عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں ، ان میں ایک تو شوہر ہے اور سات محرم رشتہ دار --- باپ ، دادا ، شوہر کے باپ ، دادا ، بیٹے ، سوتیلے بیٹے ، حقیقی بھائی ، ( جس میں باپ شریک ، ماں شریک ، اور ماں باپ شریک تینوں شامل ہیں ) ، بھتیجے اور بھانجے ---ہیں ، ان کے علاوہ چار لوگوں میں بیویاں ، باندیاں ، ایسے کم عقل لوگ جن کو عورتوں کی طرف کوئی رغبت نہ ہو اور چھوٹے بچے ، جن کو صنفی اُمور کا کوئی شعور نہ ہو ، شامل ہیں ، اگرچہ یہاں بعض محرم رشتہ داروں کا ذکر کیا گیا ہے ؛ لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس میں تمام محرم رشتہ دار یعنی وہ مرد شامل ہیں ، جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہو ، خواہ یہ حرمت خاندانی رشتہ کی وجہ سے ہو یا سسرالی رشتہ کی وجہ سے یا دودھ کے رشتہ کی وجہ سے ۔
ساتواں حکم :یہ ہے کہ عورتیں زیورات اس طرح پہن کر نہ چلیں کہ اس کی آواز غیر محرم مردوں تک پہنچے ، خواہ زیور ہی میں کوئی ایسی شکل ہو جس سے آواز پیدا ہوتی ہو ، یا زمین پر اس طرح پاوں پٹخ کر چلیں کہ آواز پیدا ہو ، جیساکہ آج کل بھی رقاصائیں اپنے تماشہ بینوں کو لبھانے کے لئے کرتی ہیں ۔(آسان تفسیر ،سورہ نور :۳۱)
نظر ابلیس کے تیرون میں ایک زہر آلود تیر ہے ،آنکھو ں کا زنا دیکھنا ہے کا نو ں کا زنا سننا ہے زبان کا زنا نا محرم سے بات کر نا ہے ہاتھ کا زنا چھو نا ہے پیر کا زنا ان مقامات کی طرف چلنا ہے اور دل آرزواور تمنا کر تا ہے اور شرم گاہ اسکی تکذیب یا تصدیق کرتی ہے ،(مشکوۃ :۲۰،باب الایمان بالقدر،فصل اول )
احکامات کے باب میں عمو ما یہ ہو تا ہے کہ مردوں سے خطاب کیا جا تا ہے،جس میں عورتیں بھی شا مل ہو تی ہیں مگر شرم وحیا اور عفت وعصمت کے مسئلے میں اللہ تعالی نے عورتو ں سے بھی خطاب کیا اور خصوصیت سے انھیں اس کی اہمیت بھی سمجھا ئی گئی جیسا کہ غص بصر کے مضامین ہیں ،زنا کے حد کا باب ہے اور چوری کے قوانین ہیں جہا ں پر مردوں کے ساتھ عورتو ں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علا وہ با قی احکا مات میں عورتیں مردو ں کے ضمن میں شا مل ہو کر مکلف بنائی گئی ہیں ۔
عورت گھر سے باہر نہ نکلے !
پردہ عورت کے لئے انتہا ئی ضروری چیز ہے ،پردے سے متعلق قران کریم میں سات آیتیں نازل ہو ئی ہیں تین آیتیں سور ۃ نور میں اور چار آیتیں شورہ احزاب میں ہیں اور ستر سے زیا دہ احا دیث اس باب میں موجود ہیں،آپ ﷺ نے قولا وعملا پردے کے احکام بتلا ئے ہیں ،حضرت مفتی شفیع صا حب ؒ نے ایک مستقل رسالہ تفصیل الخطاب فی تفسیر آیات الحجاب کے نام سے لکھا ہے جو احکام القران جزء ثالث میں سورہ احزاب کے ذیل میں مو جود ہے ،مفتی اعظم ؒ نے پردے کی آیات واحا دیث کا حا صل یہ لکھا ہے کہ (وقرن فی بیو تکن ولا تبرجن تبرج الجا ھلیۃ الاولی)(احزاب : ۳۳)(اور اپنے گھرو ں میں رہا کرو جیسے گذشتہ جا ہلیت میں عورتیں زیب وزینت کااظہا ر کیا کرتی تھیں اس طرح زینت ظاہر نہ کیا کرو )(واذا سالتموھن متا عا فسئلوھن من وراء حجاب) (حزاب : ۵۳)(اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کو ئی چیز ما نگو تو پردے کے پیچھے سے ما نگا کرو ) ۔
اذا خرجت المراۃ استشرفھا الشیطان(الحدیث)عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تا ک لیتا ہے ،۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک دفعہ اپنی مجلس میں پو چھا :ای شی خیر للمراۃ ؟ عورتو ں کے لیے کو نسی چیز بہتر ہے ،کسی نے جواب نہ دیا سب خا مو ش رہے حضرت علیؓ فرماتے ہیں میں بھی مجلس میں تھا کو ئی جواب بن نہ پڑا جب گھر آیا تو فا ظمہؓ سے پو چھا تو کہا کہ لایراھن الرجال عورتو ں کے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ مرد ان کو نہ دیکھ سکے ۔شریعت کاا صل مطلوب حجاب اشخا ص ہے یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں سے مخفی رہے ،پہلا درجہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھرو ں میں رہے جس کو حجا ب اشخا ص بالبیوت کی اصطلا ح سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
حجاب با لبرقع
دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر گھر سے باہر جا نا نا گزیر ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :لیس للنسا ء نصیب فی الخروج الا مضطرۃ(طبرانی وکنز : ۸؍ ۲۶۳)(اضطرای صورت کے علا وہ عورت کو با ہر نکلنے کے لیے کو ئی حصہ نہیں ) تو اس وقت سر سے پا وں تک برقع یا لمبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں را ستہ دیکھنے کے لیے چادر میں سے صرف ایک آنکھ کھو لے یا جو جا لی آنکھو ں کے سا منے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں۔
(یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ)(احزاب ::۵۹))
(اے نبی آپ اپنی ازواج مطہرات اور بنات طا ہرات کو اور عام مسلما نو ں کی عورتو ں کو حکم دیں کہ اپنی جلباب استعمال کریں )جلباب اس لمبی چا در کو کہتے ہیں جس میں عورت سر سے پیر تک مستور ہو جا ئے (روی ذلک عن ابن عباسؓ)
یعنی بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ عورتیں بلا وجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ؛ لیکن اگر کسی ضرورت سے نکلنا پڑے تو ایسا گھونگھٹ استعمال کریں ، جس سے گزرنے والوں کو چہرہ نظر نہ آئے اور گھونگھٹ لٹکانے والی کو راستہ نظر آتا رہے ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کی شکل یہ بتائی کہ پیشانی کے اوپر دوپٹہ اس طرح باندھا جائے کہ سینہ اور چہرہ کا بڑا حصہ چھپ جائے اور دونوں آنکھیں کھلی رہیں ؛ تاکہ راستہ دیکھ سکیں ، اس کی گنجائش ہے ،: ذلک ان تلویہ فوق الجبین وتشدہ ، ثم تعطفہ علی الانف وإن ظہرت عیناھا لکنہ یسترا لصدر ومعظم الوجہ ۔ (جامع لاحکام القرآن للقرطبی : ۱۴؍۱۵۶) اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اوباش قسم کے لوگ سمجھ جائیں گے یہ شریف عورت ہے ۔(آسان تفسیر ،احزاب : ۵۹)
مفتی شفیع صا حب ؒ نے اس طرح باہر نکلنے میں چند قیود کی رعایت کر نا ضروری لکھا ہے کہ خوشبو نہ لگا ئے ،زیور نہ پہنے ،راستے کے کنارے سے جا ئے اور آئے،مردوں کے ہجوم میں دا خل نہ ہو ں وغیرہ (معارف القران ۷؍۲۱۷)
پردے کے چار درجات
حضرت مولانا خالد سیف اللہ صا حب دا مت برکاتھم نے احزاب آیت ۹ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : عورتوں کے لئے پردہ کی کیا حدود ہیں ؟ بحیثیت مجموعی اس کے چار درجات کئے جاسکتے ہیں ، اول:شوہر سے جس کے لئے کوئی پردہ نہیں ہے ۔ دوسرے:محرم رشتہ دار ، جن کے سامنے چہرہ ہاتھ ، بازو ، سینہ کا اوپری حصہ ، پنڈلی ، پاوں اور بال وغیرہ حسبِ ضرورت کھولنے کی گنجائش ہے ۔ تیسرے :اجنبی مرد یا ایسے غیر محرم جن کی عام طورپر گھر میں آمد ورفت نہیں ہوتی ، ان سے چہرہ کا پردہ بھی ضروری ہے ، سوائے اس کے کہ کوئی ضرورت درپیش ہو ، جیسے ڈاکٹر کو دکھانا یا کسی سامان کا خرید کرنا ۔ چوتھے :ایسے رشتہ دار جو غیر محرم ہوں ؛ لیکن مشترک گھر کی وجہ سے یا کثرت سے آمد و رفت کی وجہ سے ان سے مکمل پردہ دشوار ہو ، تو اگر ان کے سامنے ہونے میں فتنہ کا اور گناہ میں پڑ جانے کا اندیشہ نہ ہو تو چہرہ اور گٹوں تک ہاتھ کھولنے کی اجازت ہے ، جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کا مذہب ہے ؛ کیوں کہ حضرت اُم ہانیؓ اور بعض دیگر خواتین پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد بھی آپ کے سامنے آتی رہی ہیں ، اور اگر گناہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ان سے بھی پردہ ضروری ہے، فحل النظر مقید بعدم الشہوۃ و إلا فحرام ( درمختار :۲؍۲۴۲ )۔ اسی طرح اگر عمر دراز عورتیں ہوں ، جن کے سامنے ہونے میں فتنہ کا اندیشہ نہیں ہو ، ان کے لئے بھی چہرہ اور گٹوں تک ہاتھوں کے کھولنے کی گنجائش ہے ۔(آسان تفسیر ،احزاب : ۵۹)
ہندوستانی عدا لت نے زنا کو جائز کہہ دیا
سپریم کورٹ کی طرف سے موجودہ آر یس یس مودی گورنمنٹ میں بہت سارے غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلے ہو نے لگے ہیں جب عدالت عظمی سے اس طرح کے فیصلے آتے ہیں تو عدالت عظمی کے احترام میں لوگ آواز بلند نہیں کرتے ؛کیو ں کہ اس کا احترام ہندوستانی ہو نے کے نا طے کرنا پڑتا ہے، فیصلے سامنے آنے کے بعدپورے ملک میں چہ میگو ئیا ں شروع ہو گئی ،ابھی جمعرات ،۲۷ ؍ اکتوبر ۲۰۱۸ کے فیصلے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اجنبی مرد وعورت کے نا جا ئز تعلقات (زنا)کو جا ئز قراردئے جا نے کا فیصلہ سنا تے ہو ئے تعزیرات ہند کے ڈیڑھ سو سالہ قدیم دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دے کرنکا ح کے رشتے کو غیر مستحکم بنا دیا،اور زنا کو جرم کے کٹہرے سے نکال کر ایک ضرورت بنا دیا اور ملک کے چپے چپے میں جتنے مقدمات میا ں بیوی کے طرف سے نا جائز تعلقات کی شکا یتو ں سے متعلق پڑے ہو ئے ہیں سب کے سب بیکار ہو گئے اور با اخلاق شہریوں کے لئے یہ فیصلہ زیا دہ سخت ثابت ہو نے والا ہے ۔
افسوس کہ انسان ہو س کی آگ بجھانے کے لیے کتنے نیچے گر سکتا ہے ؛یہاں معاشرے کے ایک فرد کی بات ہو تی تو زیا دہ افسوس کی ضرورت نہیں تھی ؛بسا اوقات ہو س کا اندھا پچاری کبھی کبھار ایسی حرکتیں کردیتا ہے اور اس کی سزا بھی پوری زندگی پاتا رہتا ہے ،یہا ں تومرکزی عدالت کا یہ فیصلہ آیا ہے ، ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ بڑے مقام پرفائز لوگ زنا اور لو اطت جیسی قبیح ومذموم حرکات کو جرم کے دائرے سے نکال کر اس کے جواز کی سند دینے لگے گیں۔
خیر!دفعہ ۴۹۷میں پہلے ہی سے کمزوریاں تھیں،ججز کو چا ہئے تھا کہ وہ ان کمزوریو ں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ زنا جیسی حرکت کے دروازے کو بند کر کے معاشرے کی اصلا ح کی فکر کرتے تو اچھی بات تھی مگر انہو ں نے دفعے کی کمزوری کو دیکھتے ہو ئے ’’عورت شوہر کی ملکیت نہیں ‘‘کا نام دے کر عورت کو مساوی درجہ دیتے ہو ئے زنا کے دروازے کو ہمیشہ کے لئے کھول دیا ہے ،چلئے !اس دفعے کے نکا لے جا نے کی تھو ؒ ی تفصیل بھی دیکھ لیتے ہیں ۔
دفعہ 497
Central Government Act
Section 497 in The Indian Penal Code
497. Adultery.Whoever has sexual intercourse with a person who is and whom he knows or has reason to believe to be the wife of another man, without the consent or connivance of that man, such sexual intercourse not amounting to the offence of rape, is guilty of the offence of adultery, and shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to five years, or with fine, or with both. In such case the wife shall not be punishable as an abettor.
ترجمہ
:مرکزی حکومت ایکٹ
بھارتی جج کوڈ میں سیکشن 497
497. (اڈلٹری)زنا .- جو شخص کسی شخص کے ساتھ جنسی تعلق رکھے اور جسے وہ جانتا ہے یا اس شخص کے رضامند ہونے یا اس شخص کے بغیر کسی دوسرے شخص کی بیوی پر یقین کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس طرح جنسی تعلقات عدم تشدد کے سبب نہیں ، زنا کے جرم کے مجرم ہیں، اور کسی مدت کے قید کے ساتھ سزا دی جائے گی جس میں پانچ سال تک توسیع، یاجرمانہ یا دونوں کے ساتھ.
ایسی صورت میں بیوی کو زنا کے طور پر سزا نہیں دی جائے گی.
تشریح
دفعہ 497کے تحت اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ رضامندی سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اس خاتون کا شوہر عصمت دری کے نام پر اس مرد کے خلاف رپورٹ درج کرا سکتا ہے ، لیکن وہ اپنی بیوی کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ ساتھ ہی شادی کے بعد ناجائز جنسی تعلقات کے معاملہ میں شامل مرد کی بیوی بھی متعلقہ عورت کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکتی۔اس معاملہ میں عورت کو مجرم نہیں سمجھا جاتا، جبکہ مرد کو پانچ سال کی جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔موجودہ قانون کے مطابق کوئی شادی شدہ شخص کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے ، لیکن اس کے شوہر کی رضامندی نہیں لیتا ہے ، تو اسے پانچ سال تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے ۔لیکن جب شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے ، تو اسے اپنی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
خلا صہ
اس قانون کا خلا صہ یہ نکلتا ہے کہ زانیہ عورت کسی بھی سزا کی حق دار نہیں ہو سکتی مگرزانی شوہرعصمت دری کا مجرم بن کر پا نچ سال جیل کی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے، جب کہ زانیہ عورت کا شوہر کیس درج کرا ئے ،مگر یہا ں سو چنے کی بات یہ ہے کہ یہ عصمت دری کا کیس کیسے بنے گا جب کہ زانی اور زانیہ آپسی رضامندی سے اس سنگین گناہ میں ملوث ہو ئے ہیں عصمت دری اور ریپ کا اطلاق مو جودہ قوانین کی رو سے اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک طرف سے رضامندی نہ پا ئی جا ئے شاید اسی وجہ سے آج تک ان کیسوں میں کسی کو سزا ہو تے نہیں سنا گیا،اور اگر زانی مرد کی بیوی یہ کیس فائل کرتی ہے تو اس کا زانی شوہر پا نچ سال کی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے ،ایسی صورت میں کو نسی بیوی ہو گی جو اپنے زا نی شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرا ئے ،اس قانو ن میں یہ بھی ہے کہ زنا کر نے کے لئے اپنی بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے ،اگر رضامندی کو ضروری قرار دیا جا تا تو شاید اس گناہ میں ملوث ہو نے والو ں کی تعداد میں کمی ہو جا تی بلکہ ہر عورت اپنے شوہر کو اس نا جا ئز حرکت سے بچا ئے رکھنے میں کا میاب رہ سکتی تھی ،
بڑے لوگو ں کا لحا ظ
یہ قانون7 15سال پہلے بناتھا، جب سماج میں اونچ نیچ اور بھید بھا و بہت تھی بلکہ اس کو اسی طرح بڑھا وادیا جا تا تھا جیسے موجودہ سرکار میں دیکھنے کو مل رہا ہے اوراس زمانے میں انگریزی دور کی حالت یہ تھی کہ ساہو کار قسم کے بڑے لوگ کمزورطبقے کی خواتین پر بری نظررکھتے تھے۔کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ سا ہو کار کی خواہش کے خلاف جا ئے اس دورمیں غریبوں کی ہمتیں اتنی پست تھیں کہ کسی زمینداریا اس کے کارندے کے خلاف شکایت کریں؟ ایسی صورت حال میں مقدمے بازی اگر ہو بھی جا تی تو دفعہ ۴۹۷ کے تحت مظلومہ عورت کے شوہر کو خرید لینا کو نسی بڑی بات تھی،یہ قانون بڑے لو گو ں کا لحا ظ رکھ کر بنایا گیا تھا اور عورت کو ہر قانونی شکنجے سے دور رکھا گیا تھا،تا کہ وہ اگر بدکاری میں ملو ث ہو جا ئے تو اس پر کو ئی آنچ نہ آئے اور بڑے لو گو ں کی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح کی رکا وٹ کاکو ئی شو شہ با قی نہ رہ جا ئے ۔
چنا ں چہ سپریم کو رٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا صا حب والی پانچ رکنی بنچ نے اس قانون کو عورت پر غلبہ والے سماج کا قانو ن بتا تے ہو ئے اس کو منسوخ کر دیا ۔
سپریم کو رٹ کے پانچ رکنی بنچ کے تبصرے اخبارات کی رو شنی میں
27 ستمبر (یواین آئی) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے جمعرات کواٹلی میں رہ رہے کیرالہ کے رہائشی جوزف شائن کی درخواست پراپنے تاریخی فیصلے میں مردو خواتین کے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والے 157 سال پرانے قانون کو غیر آئینی قرار دے دیاعرضی میں کہا گیا تھا کہ دفعہ497مردوں کے غلبے والے سماج پر مبنی قانون ہے ۔ اس میں خاتون کے ساتھ بھیدبھاؤ ہوتا ہے ۔ اس قانون کے تحت خاتون کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اگر خاتون کے شوہر کی اجازت مل جاتی ہے تو ایسے تعلقات کو جرم نہیں مانا جاتاہے ۔
چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 497 (غیر ازدواجی تعلقات) کو غیر آئینی قرار دیا۔عدالت نے اسی سے متعلق تعزیرات ہند (سی آر پی سی) کی دفعہ 198 کے ایک حصے کو بھی منسوخ کر دیا۔جسٹس مشرا نے خود اور جسٹس کھانولکر کی جانب سے جبکہ جسٹس نریمن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس ملہوترا نے اپنا اپنا فیصلہ سنایا۔ سب کی رائے ایک ہی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ خاتون کے غیر ازدواجی تعلقات کو طلاق کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے لیکن اسے جرم نہیں قرار دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا''خواتین اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی اگر غلاموں کی طرح برتاؤ کرتا ہے تو یہ غلط ہے ۔ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہوتی''جسٹس مشرا نے کہا کہ صرف غیر ازدواجی تعلقات کو جرم نہیں مانا جاسکتا، بلکہ اگر کوئی بیوی اپنے رفیق حیات کے ایسے تعلقات کی وجہ سے خود کشی کرتی ہے اور اس سے متعلق ثبوت ملتے ہیں تو یہ جرم (خودکشی کے لئے ورغلانے ) کے زمرہ میں آئے گا۔جسٹس مشرا نے کہا''ہم قانون بنانے کو لے کر مقننہ کی صلاحیت پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں، لیکن تعزیرات ہند کی دفعہ497 میں'اجتماعی اچھائیاں' کہاں ہے ''۔ انہوں نے کہاشوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا۔
جسٹس نریمن نے بھی فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497قدیم دور کا قانون ہے ۔ یہ غیر آئینی ہے اور اس کو منسوخ کیا جانا چاہئے ۔
جسٹس چندرچوڑ نے بھی ایسے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے کو گزرے زمانے کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497عورت کی خود اعتمادی اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے ۔ یہ قانون عورت کو شوہر کے غلام کی طرح دیکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 497 عورت کو اس کی خواہش اورپسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اسلئے یہ غیر آئینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو شادی کے بعد اس کی پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
آئینی بنچ کی اکیلی خاتون جج اندو ملہوترا نے بھی غیر ازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والی دفعہ 497کو غیر آئینی قرار دیا۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ غیر ازدواجی تعلقات مردوں کے دبدبہ والے سماج کا عکاس ہے ۔ اس میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھتا ہے ، کیونکہ اگر عورت کے شوہر کی رضامندی مل جاتی ہے ، تو اسے جرم نہیں سمجھا جاتا۔معاملہ کی سماعت کے دوران ایک اہم مسئلہ اٹھا تھا کہ کیا رضامندی سے بنائے گئے جسمانی تعلقات کو جرم کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے ۔
ایک گذارش
ججز صا حبان کو اگر اس دفعے میں عورت کے ساتھ نا انصافی نظر آرہی ہے جیسا کہ حقیقت میں انگریزوں نے اسی طرح بنا یا ہے تو اس میں یہ ترمیم کر سکتے تھے کہ کہ عورت مر د کی ملکیت نہیں ہے ،اس لئے اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ زنا کر نے والے کی حرکت کو معاف کردے تو مقدمہ خارج نہیں ہو سکتا ،نیز جس طرح زنا کر نے والے کوسزا اور جرمانہ ہے اسی طرح زنا کر نے والی عورت بھی سزا کی حق دار ہو گی ،اس طرح اگر دفعہ ۴۹۷ کی ترمیم ہو تی تو عورت کو بھی برا بری کا درجہ مل جاتا اور وہ مرد کے ساتھ برا بر کی شریک ہو جا تی جیسا کہ اسلام نے اس مسئلے میں عورت کو مساوی اور برا بری کا حق دیا ہے نیز اس سے معا شرے کی بھی اس نا سور سے حفا ظت ہو جا تی ۔
فیصلے میں مو جود چند نکات
فیصلے میں مو جود نکات پر غور کر نے سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ ججز صا حبان کو بھی اس کا اقرار ہے کہ زنا کو جا ئز کر دینے سے معاشرہ میں جو بگا ڑ پیدا ہو گا وہ بہت سنگین ہے جیسے طلا ق کے واقعات ،خودکشی کے اقدا مات،قتل وغیرہ ؛مگر تعجب ہے کہ جا نتے ہو ئے بھی انہو ں نے زنا جیسے کرمنل دفعے کو منسوخ کر دیا ،ججز صا حبان کے تبصرو ں میں مو جود چند نکات ملا حظہ فرمائیں :
نا جا ئز جنسی تعلقات کو طلا ق کی بنیاد بنا یا جا سکتا ہے لیکن جرم نہیں ما نا جا سکتا ، عورت کسی کی ملکیت نہیں ہوتی' اگر کوئی بیوی اپنے رفیق حیات کے ایسے تعلقات کی وجہ سے خود کشی کرتی ہے اور اس سے متعلق ثبوت ملتے ہیں تو یہ جرم (خودکشی کے لئے ورغلانے ) کے زمرہ میں آئے گا، عورت کو شادی کے بعد اس کی پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
فلمو ں اور گانو ں نے اپنا اثر دکھا دیا
حیا سوز اور شرمناک فیصلوں کے بعد پو رے ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی جگ ہنسائی ہو نے لگی اور جس طرح کا ری ایکشن ہو نا چا ہئے تھا وہ نہیں ہوا، یہاں پرقابل تو جہ بات یہ ہے کہ زنا اور نا جا یز جنسی تعلقات پر پا بندی ختم کردینے کے فیصلے کے با وجود عوام کی اکثریت اس کے خلاف آواز اٹھا نے سے پیچھے کیو ں رہ گئی ؟یہ سب سے اہم سوال ہے ۔
جب سے دنیا میں ٹیلی ویزن کا رواج ہوا فلم سازی ہو نے لگی ،معاشرتی پروگرام بنا ئے جا نے لگے ،پرنٹ میڈیا ،الکٹرا نک میڈیا اور سوشل میڈیاوغیرہ جملہ آلات نشر واطلا عات اور فلمی ادا کاروں نے بڑی ایمان داری سے ایک کام یہ کیا کہ معاشرے سے شرم و حیا کو کھرید کھرید کر نکال دیا ،ہر وہ بات جو قابل شرم اور چھپا نے کی ہے اس کو اچھا لا اور اتنا اچھا لا کہ اس کے اندر سے حیانام کی چیز بالکل ہی مفقود ہو گئی ،مثلا کہیں زنا کا واقعہ پیش آجا ئے یا کو ئی بھی جرم پکڑا جا ئے تو اس کو اتنا اچھالا جا تا ہے کہ ملک کا چپہ چپہ گو نجنے لگتا ہے،اورمیڈیا کے کا رندے ہر راہ گیر سے دہرا دہراکر سوالات کرتے ہیں اور اس کے چرچے اس طرح کئے جا تے ہیں کہ شرم وحیا کا جنازہ نکلنے لگتا ہے۔
جب شرم وحیا کا جنازہ نکا لا جا چکا ہے تو اس طرح کے حیا سوز فیصلوں کے خلاف بو لنے لکھنے یا آواز اٹھا نے کے لیے کس کی طبیعت آمادہ ہو گی،بلکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ ان فیصلوں کو معا شرے کی ضرورت سمجھنے لگے ہو ں ،نعوذباللہ من ذلک
بھارت بدل رہا ہے
دفعے۴۹۷ کی منسوخی سے معاشرے کی جو گت بنے گی وہ اس طرح ہو گی کہ ایک کا شوہردوسرے کی بیوی کے ساتھ،کسی کی بیوی دوسرے کے شوہر کے ساتھ ،کسی کی بیٹی کسی کے بیٹے کے ساتھ،غیرشادی شدہ لڑکے، غیرشادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ تعلقات بناسکیں گے ،لیکن شوہربیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا،طلاق کی صورت میں مردکوجیل جاناپڑے گا، عورتوں کوانصاف اورحقوق دلانے کے دعوے دارو ں کا فیصلہ ہے کہ لیوان ریلیشن اور شادی شدہ لوگو ں کا اجنبی کے درمیان رشتہ بنانااپرادھ نہیں ہم جنس پرستی جرم نہیں لیکن ایک سے زائد نکاح کر کے عورت کو بیوی بنا کر اس کی کفالت کرنااورر اس کے حقوق اداکرنا عورت پرظلم بتا یا جا رہا ہے ،ان فیصلو ں کے نتیجے میں اب کسی کوشادی کی ضرورت نہیں رہے گی بس بے حیا ئی اور انار کی سے جنسی جذبات پو رے کر لیے جا ئیں گے،اب اگر کوئی شادی کرتا ہے تو اس کی بیوی صرف اس کی ہی نہیں رہے گی پورے محلے کے نو جوانو ں کے ہوس کو پورا کر سکتی ہے ،شوہر بھی صرف اپنی بیوی کا نہیں رہے گا،کوئی بھی عورت اس سے تعلقات بناسکتی ہے ۔
اب ملک میں کیا ہو گا
اس طرح کے ہوس پرست فیصلوں سے پورا سماج سخت اخلا قی بحران کا شکار ہو گا ،خاندا نی نظام کا تا نا با نا بکھر جا ئے گا ،نا جا ئز اولاد کی کثرت ہو گی چند برسوں میں مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی نا جا ئزوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہو گی اور ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو آج کل خواجہ سراووں کا ہورہا ہے جنہیں معاشرے میں سخت خفت کا سا منا کر نا پڑتا ہے کہیں نوکری کرتے ہو ئے عزت کے ساتھ انہیں جینا مشکل ہو جا تا ہے بالاخریہی ہو اکہ خواجہ سراوں کی اکثریت چوراہوں اور سگنلوں میں بھیک مانگ کر اپنا گذر بسر کرتے ہیں ،یہی حال نا جا ئزوں کا بھی ہو سکتا ہے جو معا شرے میں ایک نا سور بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو ں گے،ان کی وجہ سے معا شرہ بدترین حا لات اور جرائم سے دو چار ہو گا ۔
دفعے کی ترمیم کے وقت کی تا زہ خبریں
روزانہ خبروں میں جنسی تعلقات کے دل دہلا دینے والی خبروں کی کثرت ہو گئی ہے،چند خبریں ملا حظہ فرمائیں جو ابھی دفعہ منسوخ ہو نے کے ایام میں رونما ہو ئے ہیں :
بنگلور ۳؍ ستمبر ۲۰۱۸ (سیدھی بات نیوز سروس)ایک سیکوری گا رڈ (کمار) نے اپنی بیوی(گیتا ۳۳) کو چا قو سے بائیس مرتبہ وار کر کے موت کے گھا ٹ اتاردیا جے پی نگر پو لس تھا نے سے ملی اطلا ع کے مطا بق قتل کی اصل وجہ نا جا ئز تعلقات تھے گیتا ایک مقامی نو جوان سے نا جا ئز تعلقات رکھتی تھی کمار کے سمجھا نے کے با وجود با زنہ آئی اورنو سالہ لڑکے کو لے کر بھا گنے کی دھمکی دی تو کمار نے اس کا قتل کر دیا ۔
کمار کی بیوی کے مقامی نو جوان سے نا جا ئز تعلقات نے کتنی زندگیو ں کو بر باد کر دیا اور کتنے جرا ئم پیدا کر دیے ،سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ ایک شادی شدہ عورت اجنبی مرد سے تعلقات بنا رہی ہے ،نتیجہ صاف ظاہر ہوا کہ عورت قتل کردی گئی،نو سا لہ لڑ کا ما ں کی شفقت سے محروم ہو گیا ،اور شوہر قاتل بن گیا ،اور نو جوان پریمی کی چکر چلا نے کی ساری محنت بر باد ہو گئی اور اگر یہی وقت اور محنت رو زی رو ٹی کے پیچھے یا کسی جا ئز نفع بخش کام میں صرف کر تا تو ہمیشہ کے لیے فا ئدہ اٹھا تا ،اور یہ فعل تینو ں خاندانو ں کی شر مندگی کا با عث ہو گیا ،اس خاندانی تباہی کا ذمہ دار کو ن ہو گا ؟اس طرح ہر واقعے میں مصیبتو ں اور آلام کا ایک نا رکنے والا سیلاب بہہ رہا ہے ۔
بنگلور ۵؍اکتوبر ۲۰۱۸ (سیدھی بات نیوز سروس)بیاٹراین پورہ سے یہ خبر مو صول ہو ئی کہ نا جا ئز تعلقات کی وجہ سے میا ں اور بیوی دونوں نے خود کشی کر لی ان کی شنا خت ہریش اور شلپا سے کر لی گئی ہے، بتا یا جا رہا ہے ہریش کے نا جا ئز تعلقات اپنے دوست( ریونا) کی بیوی کے ساتھ تھے اسی کو لے کر شلپا اور ہریش میں کافی جھگڑے ہو تے رہے جب ریو نا کو اس کی خبر ملی تو اس نے ہریش کو سخت وارننگ دی کہ وہ آئندہ اس کی بیوی سے تعلقات نہ رکھے ،ہریش اس بات سے دل برداشتہ ہو کربنگلور سے اپنے گا وں آکرگھر میں خود کشی کر لی ،یہ خبر سن کرشلپا نے بھی خود کشی کر لی۔
شیموگہ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ (سیدھی بات نیوز سروس) بھدراوتی نیو ٹا ون کا ہیڈ کا نسٹبل (رویندرا گری) کی شادی داونگرے کی (انیتا) سے نو سال قبل ہو ئی تھی اس سے دو بچے بھی ہیں کانسٹبل کے نا جا ئز تعلقات ایک عورت سے تھے بیوی کو را ستے سے ہٹا نے کے لیے پا نچ لاکھ کی سپاری دی،سپاری کلرس نے سارا ما جراایس پی کو بتا دیا ۔
ہبلی ؍اکتوبر ۲۰۱۸ (سیدھی بات نیوز سروس)ہبلی کے مشہور دا کٹر اور سیا سی نیتا( ڈا کٹر کرا نتی کرن) نے بیوی کی دھمکی سے ڈر کر بیوی کے خلاف پو لس تھا نے میں شکایت درج کرا ئی ،کرا نتی کی بیوی (ڈا کٹر شوبھا) کے کرن کلکرنی کے ساتھ نا جا ئز تعلقات تھے ،کرا نتی نے جب بیوی کو کلکرنی سے بات کرتے ہو ئے اعتراض جتا یا تو شوبھا نے دھمکی دی کہ وہ کلکرنی کے ساتھ مل کر کرانتی کو قتل کر دے گی۔
ایک تا زہ واقعہ
میرے گھر کے سامنے سکینڈ فلور میں ایک غیر مسلم پڑوسی ہے ،اس کے گھر میں میا ں بیوی اور ایک بچی ہے آج وہ عورت میرے گھر آئی اور میری بہن سے کہنے لگی کہ تھو ڑا فون کرنا ہے بہن نے مجھ سے فون کا مطا لبہ کیا میں نے پیا ٹرن کھول کر فون دے دیا وہ تقریبا سات آٹھ منٹ اپنے شوہر سے بات کر رہی تھی اور اس سے کنڑا میں پوچھ رہی تھی کہ ابھی تک گھر کیو ں نہیں آئے اور جلدی سے گھر پہونچنے کا مطالبہ کر رہی تھی خیر جب ان کی بات مکمل ہو گئی تو فون میرے حوالے کر کے اپنی دا ستان بیان کر نے لگی جسے سن کر بہت تکلیف ہو ئی وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اس کی شادی تیرہ سال کے عمر میں ہو ئی او ،رشتے دارو ں میں ہی اس کی شادی ہوئی ،وہ کربا برادری سے تعلق رکھتی ہے جوکنڑ قوم کی ایک ذات ہے ،،اس کا شوہر دوسروں کی بیویوں کے ساتھ نا جا ئز تعلق رکھتا ہے کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا ہے ،اور کماتابھی نہیں ،گھر کے خرچے کی بھی فکر نہیں کرتا ،کئی عورتو ں کو وہ جا نتی ہے جس سے اس کے شوہر کے رو بط ہیں ،کئی کئی دن غائب رہنا ایک معمول بن گیا ہے اور ہفتہ اتوار کے دن وہ گھر سے ضرور غائب رہتا ہے ،کیو ں کہ جن عورتوں کے ساتھ اس کے نا جا ئز تعلقات ہیں ان کے شوہر ان دنو ں میں کہیں مصروف رہتے ہیں ،شوہر کو سمجھا نے پر کہتا ہے کہ اب یہ کام قانون کی نظر میں جرم نہیں ہیں اگر تمہیں پسند نہیں ہے تو مجھ کوطلاق دے دو!اور رو زانہ مارتا پیٹتا ہے تا کہ وہ اسے چھو ڑ دے یا طلا ق دے دے ۔
جب سے یہ قانون بنا ہے تب سے سماج میں اس طرح کے ظلم وستم اور زنا کے واقعات میں اضافہ ہو نے لگا ہے ،جب ان جرائم کو قانو نی امداد کے ذریعے پشت پنا ہی ملے گی تو حا لات اور ما حول کی درگت یہی بنے گی۔
اصل مدعا کی طرف آئیے!
یہ تمام باتیں تو چل رہی ہیں اور چلتے رہیں گی اس طرح کی با تو ں اور فیصلو ں سے کوئی زما نہ خا لی نہیں رہا ،تمام خرا بیو ں کی جڑ اسلام سے دور ہو نے کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں ،جس خدا نے انسان کو بنایا اسی نے انسانی زندگی کے لیے اہم ہدا یات دے رکھی ہیں جب ان ہدا یا ت کی پاس داری نہیں ہو گی تو نتیجہ اسی شکل وصورت میں سا منے آئے گا ۔
ڈا کٹر نعمان مکی صا حب کے مضمون سے ایک اقتباس نقل کر کے اپنی بات ختم کر تا ہو ں شاید اس طرح کے فیصلوں کو صادر کرانے کی جو محرکات ہیں ،عین ممکن ہے کہ وہ یہی ہو ں گی۔
’’*شیطانی گروہ یا فری میسن:*
جیسے حق کا داعی رحمن ہے، پھر اس کے انبیاء بھی ہیں، علماء اور مبلغین بھی ہیں۔ مومن و مومنات بھی ہیں، جو حیا کی پاسداری کرتے ہیں۔
ویسے ہی باطل کا داعی شیطان ہے، پھر اس کے شطونگڑے بھی ہیں۔ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنات میں سے بھی ہیں جو بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں۔
اس دور قرب قیامت میں جیسے ہم منتظر ہیں عیسیٰ مسیح ( Jesus Christ) کے، ایسے ہی کچھ لوگ منتظر ہیں، دجال مسیح (Anti Christ) کے.
یہ شیطان کی پوجا کرنے والا طبقہ ہے، جو دجال کو اپنا آقا مانتا ہے، اس گروہ میں یہودی اور دنیا کے کچھ سب سے زیادہ مالدار لوگ شامل ہیں۔ جو دجال کی آمد پر اس کی حکومت کو قائم کرنے کے لیے اس کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
*ماینڈ کنٹرولنگ:*
اس کے لیے وہ سب سے بڑا کام Mind Controlling کا کرتے ہیں، کہ عوام کے ذہن کو قابو میں کیا جائے۔ اور انکی سوچ کو لاشعوری طور پر اپنے موافق بنایا جائے۔ وہ نہ لینا چاہیں تو بھی اپنی بات کو انکے دماغوں تک پہنچا دیا جائے۔
؂ اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے دنیا میں کچھ ماینڈ کنٹرولنگ انڈسٹریز بنائی ہیں۔ جن میں سب سے اول ہے *میوزک انڈسٹری*، پھر *انٹر نیشنل میڈیا* جو انہی کے قبضے میں ہے جس سے، اپنے ایجنڈوں کے موافق لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے، پھر *فلم انڈسٹری* ہے، اور *سوشیل میڈیا* ہے، اور بچوں کے لیے *ڈزنی ورلڈ* اور *کارٹون انڈسٹری* ہے۔ یہ ساری انڈسٹریز دجل سے بھرپور ہیں۔ ان کے ذریعے سے دھیرے دھیرے لوگوں کے دلوں میں *مذہب بیزاری، خدا بیزاری، بے راہروی، عیاشی، فحاشی، عریانیت، آزاد خیالی، نشہ آواری، شراب نوشی، زنا، اور جوا جیسی مہلک بیماریوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔* اور دھیرے دھیرے مختلف مذاھب کے بنائے ہوئے زندگی کے آداب اور اصول و ضوابط سے آزاد کرایا جاتا ہے۔ پھر انسان ایک انسان نما درندہ بنتا چلا جاتا ہے، *جس کا قبلہ عورت، اس کی چاہت پیسہ اور اس کی زندگی کا مقصد صرف نفس کی ہوس کو پورا کرنے لیے نت نئے طریقے تلاش کرنا اور اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانا،* بن جاتا ہے۔
*مقصد:*
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کاموں سے دجالی حکومت کے چاہنے والوں کو کیا فائدہ ہوگا۔۔۔۔؟؟؟؟
اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دماغوں سے اعلی معیار کی سوچ critical thinking اور اعلی سطح کی فکر اور اور حکمرانوں سے سوال کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے۔ اور وہ ان سب کو عیاشی میں ڈال کر ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں اور کوئی ان کے خلاف آواز اٹھانے والا اور کڑے سوال کھڑے کرنے والا نہ ہو۔
کیونکہ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ،
*"It's easy to rule the corrupt people, because those who cannot stand for something, can fall for any thing"*
*"بے مقصد اور عیاش لوگوں پر حکوت کرنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ جو کسی ایک مقصد کے لیے کھڑے نہیں ہوسکتے، وہ کسی کے لیے بھی گر سکتے ہیں۔‘‘(بشکریہ ڈا کٹر نعمان صا حب،کنگ عبد اللہ میڈیکل مکہ)
ا خیر میں عرض ہے کہ زنا ایک بھیا نک مر ض ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جا ئے کم ہے اور ما حول کو پرا گندہ کر نے کے لئے دجا لی قوتو ں کی تحریکات کمربستہ ہو چکی ہیں ؛ایسے میں اہل اسلام پر ضروری ہے کہ ہم اپنے اوپر عا ئد فریضے کو بجا لا نے میں لا با لی پن کا شکا ر نہ بنیں :حتی الامکان جا ئز اور قانو نی طریقوں سے اس کا دفا ع کرتے رہیں ،اللہ تعالی ہماری حفا ظت فرما ئے اور انسا نیت کی بھلا ئی اور ان کی خیر خواہی کے لئے ہمیں میدان میں اترنے کی تو فیق عطا فرما ئے
فقط والسلام
عزیر احمد مفتا حی قاسمی
استا ذ جا معہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور
8553116065
8147097977
abdulkhadarpuzair@gmail.com


Back to Conversion Tool