Friday, June 25, 2021

وامن مشرام

آواز دو انصاف کو، انصاف کہاں ہے؟ وامن میشرام کے جھوٹ کو بے نقاب کرتی تحریر! تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف چئیرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ رکن: روشن مستقبل دہلی آج ہمارے کرم فرما، محب گرامی حضرت مولانا صادق مصباحی صاحب قبلہ (مہراج گنجوی) نے علی الصباح ایک لنک بھیجا اور سننے کو کہا - لنک اوپن کیا تو ویڈیو بام سیف کے صدر "وامن میشرام" کا تھا - مہاراشٹر کے کسی علاقے میں جمعیت کے پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے جس قدر جھوٹ بولا اور مسلمانوں کو ملزم اور حکم خدا سے انحراف کرنے والا ٹھہرایا اسے سن کر بڑا تعجب ہوا - اسی پر بس نہ کیا بل کہ دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوے یہ بھی کہا کہ" آج ہندوستان میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے دلتوں، پچھڑوں، نچلی قوموں کا ساتھ نہیں دیا- اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، لیکن مسلمان ہمارے ساتھ نہیں آئے۔" پہلے ہم ان کے ویڈیو کے اہم پوائنٹس آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں پھر اپنی بات رکھیں گے - (1) مسلمانوں نے دلتوں، مظلوموں کا ساتھ نہیں دیا - (2) کسی بھی فساد میں کوئی اونچی ذات کا بندہ لڑنے نہیں آتا، سب دلت اور بیک ورڈ ہوتے ہیں - (3) مسلمان‌ اللہ کے فرمان "مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ" پر عمل پیرا نہیں ہوے، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی یہی وجہ ہے- (4) مسلمان کانگریس جیسی پارٹیوں کا ساتھ دیتے رہے، ہمارا ساتھ نہیں دیا- وامن میشرام صاحب! شاید آپ بھول گئے ہیں کہ آپ کا ساتھ ہم نے ہمیشہ دیا ہے۔گول میز کانفرنس میں ہم نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی قوم کے لئے الگ سے انتخابات کی وکالت کی۔کامیابی بھی ملی- لیکن مسٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے 24 ستمر 1932 کو مسٹر گاندھی کی مرن برت (مرنے تک بھوک ہڑتال) سے عقیدت دکھا کر اپنی قوم کے پیروں میں کلہاڑی مار دی ۔۔۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 131 نشستوں پر کامیاب ہوکر بھی آپ کی قوم آج بھی ذہنی طور پر غلام ہے- آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ مسٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو آپ کی قوم نے بامبے کی ریزرو سیٹ سے بھی کامیاب نہیں کیا-اور ایک ہی ٹرم میں دو دو لوک سبھا الیکشن ہار گئے تھے - ع پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں! *کیا مسلمانوں نے صرف کانگریس کو ووٹ دیا؟* ہم نے 1980 سے کانگریس کو چھوڑ کر، کانشی رام، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا، لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ یادو، مایا وتی، شرد پوار، شرد یادو، چودھری چرن سنگھ، نیتیش کمار، رام ولاس پاسوان جیسے ملک بھر میں سیکڑوں دلت، بیک ورڈ لیڈر دیے، چار چار بار وزیر اعلی بنایا، مگر جو سلوک کانگریس نے ہمارے ساتھ کیا، اس سے برا سلوک آپ نے کیا- کانگریس تو ہماری مجبوری تھی، لیکن آپ کو تو ہم نے اپنا سمجھ کر چنا تھا، پھر کیا ہوا ترا وعدہ ؟ ہم نے آپ کو فرش سے عرش پر بٹھایا، کئی صوبوں میں وزیر اعلی کی کرسی کئی کئی بار آپ کو دی-اگر یہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ نے ہمیں کیا دیا؟ نوکری، کاروبار، تعلیمی مراکز، جان و مال کی حفاظت، کیا دیا؟ کبھی یہ بھی بتائیں! ہم تو جتنے پہلے لاچار، بے سہارا، مجبور تھے اس سے زیادہ آج ہیں- ع قصئہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم! *فسادات میں دلت، بیک ورڈ ہی کیوں؟* وأمن میشرام صاحب اچھا ہوا کہ یہ سچائی آپ ہی نے بتادی، ہم کہتے تو شکایت ہوتی- اگر آج بھی ہمارے خلاف آپ لڑنے آتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی نا! کہ آپ کے لوگ ہمیں آج تک سپورٹ نہیں کرتے! جھوٹی کہانیوں اور جھوٹے لوگوں پر آپ کو آج بھی وہی بھروسا ہے جو کئی صدیوں قبل تھا- آپ کا دشمن کوئی اور ہے اور آپ لڑتے کسی اور سے ہیں- یہ معمہ ہماری سمجھ سے باہر ہے - ہمیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ آج بھی اپر کاسٹ سے اندرونی پریم رکھتے ہیں- (جیسے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر صاحب ہمیشہ اپر کاسٹ کے خلاف لڑتے رہے لیکن عمر کے اخیر پڑاؤ میں ایک برہمن لڑکی سے شادی کر بیٹھے-) اور جب موقع ملتا ہے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں-جب آپ ہماری طرف سے سیکڑوں سالوں سے محبت اور برابری کا برتاؤ دیکھ رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپ ہمیں پھوٹی آنکھ نہیں دیکھنا چاہتے! جب کہ آپ کے چہیتے آپ کو گھوڑے پر چڑھنے نہیں دیتے اور مونچھیں بھی نہیں رکھنے دیتے، کیا یہ سلوک کوئی مسلم کرتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیوں ہم سے ہی بیر ہے؟ اور کیوں ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ اس کا جواب تو آپ ہی بہتر دے سکتے ہیں - سچ کہا جائے تو قوم مسلم کو دلتوں سے آج تک کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا-جب کہ ہم نے تعلیم کا حق، اٹھنے بیٹھنے سے لے کر ہر ہر موڑ پر دلتوں، مظلوموں کا ساتھ دیا ہے لیکن افسوس! کہ آپ جیسے لوگ بھی انھیں ہی ملزم ٹھہراتے ہیں جنھیں ساری دنیا ملزم گردانتی ہے-دنیا میں سب سے زیادہ آسان اگر کوئی کام ہے تو وہ مسلمانوں کو ہر کالے سفید کا مجرم ٹھہرانا ہی ہے جسے آپ بھی بخوبی نبھا رہے ہیں - *بے وقوف بنانا بند کریں* اگر آپ کہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں یہ بھی نہیں لگتا - آپ کا سنگٹھن پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ کئی لاکھ لوگ آپ سے جڑے ہیں- اگر آپ کی کوشش بہتر طور پر ہوتی تو کچھ نہ کچھ اثر ہوتا - لیکن یہاں تو ہر روز معاملہ الٹا پڑتا دکھ رہا ہے - دلت بی جے پی سے منسلک ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو ان کا وفادار ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں-آپ کی یہ کیسی کوشش ہے جس کا نتیجہ الٹا ہی نکل رہا ہے۔مہاراشٹر میں آپ کا اچھا اثر ہے۔ آپ اسی علاقے میں کافی سرگرم ہیں لیکن مہاراشٹر میں آپ نے مجلس کے ساتھ اتحاد کے لئے 'بہوجن وکاس اگھاڑی' پر کیوں دباؤ نہیں بنایا؟ اتر پردیش میں مایاوتی يا دیگر دلت، بیک ورڈ لیڈروں سے مل کر انھیں صحیح کام کرنے اور مسلم پارٹیوں سے اتحاد کرنے کو کیوں نہیں کہتے؟ راجستھان میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آپ صرف جلسوں تک ہی مسلمانوں کی بات کرتے ہیں؟ زمین پر اتر کر مسلمانوں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں دلت علاقوں سے ووٹ کیوں نہیں ملتا؟ لوک سبھا میں 84 ایم پی دلت ہیں اور 47 مہا دلت۔کل 131 سیٹیں تو آپ کی ہیں- ان سے مسلمانوں کے متعلق مضبوطی سے بات کرنے کو کیوں نہیں کہتے؟ اگر آپ دلتوں کے لیڈر ہیں اور فکری تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ان 131 میں سے کتنے سانسدوں اور ملک کے سیکڑوں ودھایکوں میں سے کتنے لیڈروں سے مسلمانوں کے متعلق نظریہ بدلنے پر کیا بات کی؟ اور اگر کچھ بات کی ہے تو آخر رزلٹ کیوں نہیں؟ کیا دو چار ودھایک يا ایم پی بھی آپ کی بات نہیں سنتے؟ اگر ایسا ہے تو پہلے اپنی قوم کی خبر لیجیے بعد میں ہمیں کوسیے گا! ان دلت لیڈروں سے کہیے کہ مسلمانوں کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں ، اگر یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو ہمیں بے وقوف بنانا بند کریں ! اگر آپ کی کوئی نہیں سنتا، تو مسلمانوں کو سنانے کی کوشش مت کریے - پہلے اپنا دم دکھائیں پھر ہمیں ملزم ٹھہرائیں - آپ کی اس تقریر کو سن کر مجھے یہ کہاوت یاد آگئی ہے - الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے- یہ مقولہ موجودہ بھارت میں اگر سب سے زیادہ کسی پر فٹ بیٹھتا ہے تو اس شخص کا نام "وامن میشرام" ہے- ہمیں کو ظالم کہے گی دنیا، ہمارا ہی قتل عام ہوگا ہمیں کنواں کھودتے پھریں گے، ہمیں پہ پانی حرام ہوگا *ذرا آنکھ میں بھر لو پانی* مشہور کہاوت ہے "آنکھوں کا پانی مرجانا" وامن میشرام جی! اگر آپ کی آنکھوں کا پانی نہیں مر گیا ہے تو ابھی آزادی سے پہلے اور کچھ بعد تک کے حالات دیکھ لیں-(بھارت کے بہت سے علاقوں میں آج بھی دلتوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا ہے) آپ کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا - لیکن ہم نے آپ کے ساتھ برابری کا سلوک کیا- حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ نے آپ کی قوم کی عورتوں کی عزت کی حفاظت فرمائی اور انھیں اپنا بدن ڈھکنے کے لیے اپر کاسٹ راجا مہاراجاؤں، امیر لوگوں کے ذریعے لگائے گئے ٹیکس ختم کیے-دنیا اسے स्तन टैक्स يعني پستان چھپانے کے ٹیکس کے نام سے جانتی ہے- کوئی کمزور قوم کا شخص کسی زمین دار کے دروازے سے نکلتا تو اپنے پیچھے جھاڑو لٹکاتا کہ ان کے پیروں کے نشان باقی نہ رہیں، عام تالابوں سے پانی پینے تک کا حق نہ تھا- چھوا چھات کا یہ عالم تھا کہ جانوروں کو تو انسانی حقوق حاصل تھے، لیکن دلتوں کو انسانی حقوق حاصل نہیں تھے - *مسلمانو! ہر ایک پر لٹو ہونا کب بند کروگے؟* پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا آپ کے اسٹیج سے آپ ہی کو ملزم ٹھہرا رہے ہیں اور آپ سن کر خوش ہو رہے ہیں۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جو خود کو مفکر، دانشور اور نہ جانے کیا کیا کہلاتے ہیں - لیکن اپنے ہی اسٹیج پر کی جانے والی باتوں کا مطلب تک نہیں سمجھ سکتے- ایسے لوگ اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کا نہ صرف مذاق بنواتے ہیں بلکہ پوری قوم کو احساس کمتری کا شکار کرتے ہیں-اور اسی احساس کمتری کے شکار لوگوں کا شکار کرکے اس طرح کے پروگرام کرائے جاتے ہیں اور قوم کا لاکھوں روپیہ اپنی ہی برائی پر صرف کر دیتے ہیں- ہمیں یہ سارے ہتھکنڈے سمجھنے کی ضرورت ہے - ہزاروں روپے لے کر پروگرام کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ہی ظالم کہہ کر تالیاں بھی بجواتے ہیں اس سے بڑی حماقت کیا ہوگی! اگر یہ واقعی ہمارے ساتھ کام کریں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن یہ صرف تقریر ہی کرتے ہیں اگر اور کچھ بھی کرتے ہوتے تو بدلاؤ دکھتا لیکن بدلاؤ نہیں ہو رہا، یعنی دال میں کچھ کالا ضرور ہے - وامن میشرام صاحب کے ویڈیو کا لنک اٹیچ کر رہا ہوں، قریب 8 منٹ کا یہ ویڈیو دیکھیں اور خود فیصلہ کریں - https://youtu.be/bhl3NybkNYM 22 /6/2021

Thursday, June 17, 2021

ویکسینیشن سے کیسے بچا جائے

*ویکسین سے کیسے بچا جائے؟* *اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ ویکسین سے کیسے بچیں۔۔۔؟ آج اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہیں۔* *پوری دنیا میں حکومتیں زبردستی ویکسین لگانے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے، ملازم پیشہ افراد کو تو مجبور کیا جارہا ہے کہ لگواو ورنہ نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں۔* *ایسے افراد جو اس ویکسین کی اصلیت کو جانتے ہیں اور اس سے بچنا چاہتے ہیں وہ اکثر سوال کرتے ہیں کہ ہم ویکسین سے کیسے بچیں۔ یہ تحریر ان کے لیے ہے۔* *دیکھیں اس ویکسین سے بچنے کے 2 طریقے ہیں۔* *پہلا طریقہ عام شہریوں کے لیے ہے۔* *آپ خود کو رجسٹرڈ ہی نہ کروائیں تو کوئی آپ کو زبردستی لگانے آپکے گھر نہیں آئے گا کیونکہ حکومت کے پاس اتنی تعداد میں موجود ہی نہیں کہ کروڑوں آبادی کو گھر گھر جاکر لگائے۔* *دوسری صورت ملازمت پیشہ افراد کی ہے۔۔۔* *انہیں اپنے ادارے ویکسین لگوانے کے لیے پریشر ڈال رہے ہیں بلکہ مجبور کیا جارہا ہے، دھمکایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کو بچنے کے لیے تھوڑی زیادہ محنت اور ہمت کرنی ہوگی۔* *سب سے پہلے آپ اپنے ادارے کے سربراہ کو دو ٹوک انداز میں واضح کردیں کہ قانون کے مطابق حکومت یا کوئی بھی ادارہ ہمیں تجرباتی مراحل سے گزرنے والی ایک نئی دوائی (ویکسین) جسے ابھی تک مکمل طور پر منظور بھی نہیں کیا گیا، زبردستی ہمیں نہیں لگا سکتے۔ یہ ہمارے آئینی بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی کہ آپ ہماری مرضی کے بغیر ہمیں ایک مشکوک ویکسین زبردستی لگادیں وہ بھی ایک ایسی بیماری سے بچانے کے نام پر جس سے پہلے ہی 99۔99 فیصد لوگ بغیر لگوائے ازخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ یعنی جس بیماری سے مرنے کی شرح اتنی کم ہے کہ اس بارے سوچنا بھی فضول ہوگیا۔۔۔* *ساتھ ہی اپنے ادارے کے سربراہ کو یہ بھی واضح کردیں کہ اگر آپ ہمیں زبردستی یہ ویکسین لگاتے ہو تو پھر مستقبل میں اگر ہمیں کچھ بھی ہوا، مثلا کینسر ہوگیا، ایڈز لگ گئی یا کوئی بھی نئی بیماری ہوگئی یا بلڈ کلاٹس بننے لگے (جو کہ یورپ میں سینکڑوں کے بنے بھی اور کئی سو اموات بھی ہوئیں) یا کوئی بھی دوسرے خطرناک سائیڈ افیکٹس سامنے آئے تو آپ تحریری طور پر ابھی سے ہمیں یہ لکھ کر دیں کہ ان سب کے ذمہ دار آپ ہوں گے اور بعد میں ہم آپکے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ یقین کریں کسی بھی ادارے کا سربراہ ذمہ داری لینے سے صاف انکار کردے گا۔* *پتا ہے کیوں؟* *کیونکہ انہیں خود بھی نہیں معلوم کہ اس ویکسین کے مستقبل میں کیا اثرات سامنے آئیں گے۔* *کیوں پتا نہیں؟* *وہ اس لیے اس ویکسین کا لانگ ٹرم ڈیٹا موجود ہی نہیں ہے۔ لانگ ٹرم ڈیٹا کے بغیر کسی بھی ویکسین کو محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔* *اپنے ادارے کے سربراہ کو یہ بھی صاف صاف کہہ دیں کہ اگر آپ ذمداری نہیں لے سکتے تو پھر ہمیں زبردستی بھی یہ ویکسین نہیں لگا سکتے۔ پھر ہماری مرضی ہے کہ ہم لگوائیں یا نہ لگوائیں۔ اگر آپ ذمداری نہیں لیتے، تحریری طور پر لکھ کر بھی نہیں دیتے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو بھی اس کے لانگ ٹرم سائیڈ افیکٹس کا کوئی علم نہیں ہے کہ مستقبل میں یہ چیز کیا بھیانک نتائج لاسکتی ہے۔۔۔۔ لہذہ یا تو لکھ کر دو یا پھر ھمیں زبردستی اس ویکسین کے لگوانے سے باز رہو۔* *یاد رہے کہ حکومتیں بھی اس کی ذمداری اٹھانے سے صاف انکار کر رھی ھیں۔۔* *ھمارے پڑوسی ملک پاکستان کی وزیر صحت پنجاب پاکستان ڈاکٹر یاسمین راشد خود ایک سینئر ترین ڈاکٹر ہیں، انہوں نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں باقائدہ اعلان کیا ھے کہ عوام اپنی ذمہ داری پر ہی ویکسین لگوائیں، کل کو آپ کو کچھ بھی ہوا تو اسکی ذمہ دار حکومت نہیں ہوگی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں حکومت نے اس کی ذمداری لینے سے صاف صاف انکار کردیا ہے۔* *کیوں انکار کردیا۔۔۔۔؟* *اگر یہ کہتے ہیں کہ ویکسین محفوظ ہے، سب لگوالو تو پھر یہ اسکی ذمہ داری لینے سے کیوں بھاگتے ہیں؟؟ کیا آپکو اب بھی انکی دو نمبری سمجھ نہیں آرہی ھے۔ کہ انکے اپنے ہی قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔* *ایک طرف یہ ذمہ داری لینے سے بھی صاف انکار کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے محفوظ کہہ کر آپکو الو بھی بناتے ہیں کہ لگواو۔۔۔۔ اور آپ انکی باتوں پر اندھا دھند یقین و اعتبار واعتماد کرلیتے ہیں۔۔۔۔ اففف۔۔۔* *سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ذمہ داری لینے سے کیوں انکاری ہیں؟؟* *آپ اس بارے کیوں نہیں سوچتے؟* *آپ ان سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ اگر تم کہتے ہو کہ یہ ویکسین بالکل محفوظ ہے تو لکھ کر دو تاکہ بعد میں ہم تمہیں سرعام پھانسی دے سکیں۔۔۔۔* *یقین کریں ان میں سے کوئی بھی آپکو لکھ کر نہیں دے گا۔* *ویکسین محفوظ کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟* *اسکی وجہ یہ ہے کہ ویکسین کا لانگ ٹرم ڈیٹا موجود نہیں ہے۔* *کوئی بھی ڈاکٹر چاہے کتنا ہی سینئر کیوں نہ ہو اس ویکسین کے مکمل محفوظ ہونے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔* *یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں اس ویکسین کو ایمرجنسی طرز پر پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت عجلت جلد بازی میں شروع کروایا گیا ہے۔ جیسے ہی عوام نے اقوام متحدہ یہودیوں کی بات کو سچ مان لیا، وباء کو تسلیم کرلیا تو انہوں نے ویکسین پر لگادیا، آپ نے ویکسین کو بھی مان لیا تو اب وہ زبردستی لگانے پر آگئے۔ آہستہ آہستہ وہ آپکو غلام بناتے جارہے ہیں۔۔۔ اقوام متحدہ کے شیطانوں نے دنیا بھر کی حکومتوں کو زبردستی ویکسین لگانے کے مشورے دیے ہیں حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس بیماری سے بچنے کے چانسز 99۔99 فیصد ہیں۔* *انکا مقصد آپکی صحت نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔۔۔ انکا مقصد صرف عالمی آبادی گھٹانا ہے اور آپکی پرائیوسی اور حقوق ضبط کرکے دنیا پر ٹوٹل کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ ٹوٹل کنٹرول کے بعد وہ عالمی دجالی حکومت کا قیام عمل میں لاسکیں۔ یعنی پوری دنیا کی ایک حکومت۔۔۔ جی ہاں وہی عالمی دجالی حکومت جسے صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات "دی الیومیناٹی ہروٹوکولز" میں واضح طور پر ذکر کیا جاچکا ہے کہ ہم عالمی حکومت قائم کرکے پوری دنیا کو اپنا غلام بنائیں گے اور پھر ہمارہ مسیحہ دنیا پر فرعون کی طرح حکمرانی کرے گا۔* *واپس موضوع پر آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔* *اگر آپ کو ادارے کی جانب سے زبردستی ویکسین لگائی جارہی ہے تو لازمی طور پر اپنے ادارے کے سربراہ سے تحریری طور پر بیان حلفی مانگ لیں کہ کل کو اگر اس ویکسین کے لگوانے کی وجہ سے ھمیں کچھ بھی ہوا تو ذمہ دار تم ہوگے۔ بیان حلفی کے بغیر ہرگز مت لگوائیں، صاف انکار کردیں۔ ورنہ آپ ایک مرتبہ اپنے حقوق اپنی پرائیوسی انہیں سونپ دیں تو آپ انکے اغلام بنتے جائیں گے۔* *ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ اگر آپکے ادارے میں آپ جیسے ہی ہم خیال لوگ موجود ہیں جو آپ کی طرح یہ ٹیکا نہیں لگوانا چاہتے تو آپ سب مل کر ایک اچھا پریشر گروپ بنائیں اور اپنے ادارے کے خلاف احتجاج کریں بلکہ اپنا آئینی حق حاصل کرنے کے لیے عدالت جانا پڑے تو وہاں بھی جائیں.* *عدالت کو بتائیں کہ اس ویکسین کا لانگ ٹرم ڈیٹا ابھی تک دنیا کے کسی بھی سائنسدان کے پاس موجود نہیں ہے اور جب تک کسی بھی ویکسین کا لانگ ٹرم ڈیٹا پاس نہ ہو جس کے ذریعے اسکے محفوظ ہونے کی دلیل دی جاتی ہے تو ایسی تجرباتی مراحل سے گزرنے والی ویکسین کو محفوظ نہیں کہا جاسکتا اور اسے مکمل منظوری سے پہلے صرف تجرباتی ویکسین کہا جاتا ہے اور اسے کسی کو بھی زبردستی نہیں لگایا جاسکتا۔* *یعنی اسکی مکمل طور پر ابھی منظوری نہیں دی گئی ہے، دنیا کے کسی ملک میں بھی نہیں دی گئی، کیونکہ ابھی تک اسکے لانگ ٹرم یعنی 3 سے 5 سال تک کیا اثرات سامنے آتے ہیں دنیا کے کسی بھی سائنسدان کو نہیں پتا۔* *قانون کے مطابق حکومت کسی بھی شہری کو تجرباتی مراحل سے گزرنے والی دوا نہیں پلا سکتی، ویکسین نہیں لگاسکتی، مجبور نہیں کرسکتی۔* *آپ پریشر گروپ بنائیں، عدالت جائیں، سڑکوں پر نکلیں، اپنے چاہنے والوں کو بھی حکومت کی اس زبردستی کے خلاف آگاہ کریں، انہیں ویکسین کے منظور ہونے کے مراحل کے بارے بتائیں کہ یہ ابھی منظور نہیں ہوئی بلکہ تجرباتی مراحل سے گزر رہی ہے اور جب تک تجرباتی مراحل یعنی 3 سے 5 سال نہیں گزر جاتے اور اسکا لانگ ٹرم ڈیٹا نہیں آجاتا تب تک اسے محفوظ نہیں کہا جاسکتا لہذہ جب تک اسکے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں آجاتی ہمیں ہرگز نہیں لگوانی چاہیے۔* *ویسے بھی لگوانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟* *پڑوسی ملک اور کئی ممالک میں 99 فیصد افراد تو ازخود بنا کسی ویکسین کے ٹھیک ہوچکے ہیں اور دنیا میں اکثریت لوگوں کی بہتری کی طرف گامزن ہے، پھر زبردستی کرکے ویکسین کس مقصد کے لیے لگوائی جارہی ہے؟* *کیا ہم سب پاگل ہوگئے ہیں؟* *سائنسی دلائل کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے؟* *صرف سیاسی گدھوں کی باتوں پر ہم کیوں مان لیں کہ یہ ویکسین محفوظ ہے ؟؟* *یقین کریں ایک مرتبہ آپ نے عالمی پلان کو تسلیم کرلیا، نزلہ زکام کے اس معمولی وائرس کو وباء تسلیم کرلیا، پھر اسکے بہانے ویکسین کو بھی تسلیم کرلیا تو وہ آپکو مزید اپنی باتیں منواتے جائیں گے، وہ آپکو بھیڑ بکریوں کی طرح مزید آگے ہانکتے چلے جائیں گے۔۔ اور آپ بیوقوف بن کر یہ سمجھ بیٹھے تھیں گے کہ انہیں آپکی صحت کی پرواہ ہے۔* *آپ نے ایک مرتبہ اس مشکوک ویکسین کو تسلیم کرلیا تو اگلی دفعہ وہ پھر کوئی اور بات منوائیں گے، یوں آہستہ آہستہ آپ اپنی آزادی کھوتے جائیں گے، اپنی پرائیوسی انکے قدموں میں ڈال کر انکے غلام بنتے جائیں گے۔ پھر وہ آپکی کوئی بات نہیں مانیں گے، اپنی منطق تھوپ کر ہر بات زبردستی منواتے چلے جائیں گے کیونکہ آپ نے ہی زبردستی انہیں منوانے کا موقع دیا ہے۔ وہ آپکو مستقبل میں پھر کبھی خوفزدہ کرکے ہر بات منوالیں گے۔* *اس لیے اپنے حق کے لیے لڑنا شروع کرو۔۔۔۔* *حکومت اور اپنے اداروں کے سربراہوں سے سوال کرو کہ جس چیز کی ضرورت ہی نہیں تو اسے کیوں لگوایا جائے؟؟* *اگر لگوائے بنا نام نہاد وباٰء سے نہیں بچا جاسکتا تو بتایا جائے دنیا کے 99 فیصد افراد کیسے بچ گئے؟* *کئی ممالک کے 99۔99 فیصد افراد کیسے صحتیاب ہوگئے؟* *جب ایک مرتبہ کوئی صحتیاب ہوجاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسکا امیونی سسٹم یعنی "مدافعتی نظام" وائرس کو شکست دیکر کامیاب ہوچکا ہے۔ اب جبکہ مدافعتی نظام وائرس کو پہچان کر اسے شکست دیکر اپنی ہسٹری میں اسے محفوظ بھی کرچکا ہے تو اسی کام کے لیے ویکسین کس لیے لگوائیں؟* *یقین کریں آپکو زور زبردستی کے بہانے غلام بنایا جارہا ہے باقی اس ٹیکے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ھے۔ ۔* *🔴🌳بقول شاعر 🌳🔴* *اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو* *کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو* *گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے* *کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو* *سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ* *جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو* *جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی* *اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔ !* اس تحریرحق کو صدقہ جاریہ کی نیت سے زیادہ سے زیادہ افراد ھر خواص وعام کو ارسال کرکے عند الله اجر عظیم کے مستحق بنیں۔۔۔ جزاک الله خیرا۔۔۔۔ اس تحریر کی تصحیح کرنے والے اور اس کو شروع سے آخر تک ترتیب دینے والے۔۔۔۔👇👇👇👇 *📝 سھیل ازھر ندوی احمد انکولوی* 📲 8618955640

Tuesday, June 15, 2021

ظلم کر کے داڑھی کاٹنے کی وائرل ویڈیو

*ظلم کرکے داڑھی کاٹنے کی وائرل ویڈیو* عزیر احمد قاسمی نائب صدر راشٹریہ مسلم مورچہ کرناٹک و بہوجن کرانتی مورچہ کرناٹک آج کل اتر پردیش الیکشن کو لے کر پورے ملک میں گھماسان چل رہا ہے بنگال میں بی جے پی کی کراری شکست کا غم اور دکھ اس وقت مزید گہرا ہوجاتا ہے اور بی جے پی اور آر یس یس دکھ اور درد سے کراہنے لگتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی ووزیر داخلہ امیت شاہ وزیر اعلی یوپی یوگی اور دیگر سینکڑوں بی جے پی ایم پی اور ایم ایل اے نیز ممتا بنرجی برہمن کی پارٹی کو ٹھوکر مار کر بی جے پی کے چرن چومنے والے لوگ بھی بنگال پر قبضہ نہ کرسکے اور اس شکست کو بی جے پی اور آر یس یس بھلا نہیں سکی اور ذلت آمیز شکست کو قبول نہیں کرسکی اس ضمن میں سینکڑوں مشاورتی اجلاس ہوچکے ہیں ابھی اس شکست سے ذلیل ہی ہوئے تھے کہ اتر پردیش الیکشن بھی بی جے پی کو دستک دینا شروع کردیا ہے بی جے پی اور آر یس یس ہائی کمانڈ پریشان ہے اترپردیش سے یوگی کو ہٹا کر دوسرے کسی نام نہاد ہندووادی کو بٹھانے کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور سلسلہ ابھی تک جاری ہے یوگی ہندوتوا ایجنڈے سے الیکشن جیتنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے مثلا مسلمان اہل ثروت سیاسی قائدین کی دولت اور ساکھ کو نقصان پہنچانے ۔کئی مسجدوں کو گرانے ۔مسلمان نہتوں کی موب لنچنگ کرواکر ہندو مسلم ایشو کو بڑھکا نے میں اپنی ساری صلاحیتیں جھونک رہے ہیں مگر کہیں بھی اس کا فائدہ انھیں نہیں مل رہا ہے ایسے میں ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہےمیڈیا میں بھی اسی کا چرچا ہے مسلمانوں کو دشمن اور ظالم باور کرانے کے اوچھے طریقے اپنائے جارہے ہیں وائرل ویڈیو کی تفصیل یہ ہے کہ ایک معمر ضعیف مسلمان کو پانچ دس غنڈے دھوکے سے اغوا کر کے دور کسی انجان مقام پر لیجاتے ہیں اور ویڈیو بنواتے ہیں جس میں تھپڑ مار تے ہیں دھمکاتے ہیں مسلمانوں میں خوف پھیلانے اور ہندوؤں کو بھڑکانے کے لئے جھوٹ موٹ کی باتیں بناتے ہیں پھر جے شری رام کے نعرے بلواتے ہیں ڈاڑھی کاٹ دیتے ہیں چار پانچ گھنٹے کی مسلسل ہراسانی اور مار پیٹ کے بعد بھیج دیتے ہیں اور ریکارڈ شدہ ویڈیو وائرل کرتے ہیں اور آن کی آن میں پورے ملک میں ویڈیو گردش کرنے لگتی ہے اس سب سے یہ واضح ہے منو واد بی جے پی بھوکھلاچکی ہے یوپی الیکشن کے لئے ہندومسلم منافرت اور فسادات کی کوششوں میں ملوث ہے بھلا ہو بام سیف تنظیم کا جنہوں غیرمسلم بھائیوں میں دشمن اور دوست کی پہچان کروانے کا کام مسلسل کررہی ہے اور سیاسی فوائد کے لئے سیاسی پارٹیوں کے اوچھے اور غیر انسانی ہتھکنڈوں سے آگاہ کروارہی ہے کسان آندولن سے بھی فائدہ ہو نے لگا ہے اور سیاسی ہتھکنڈے ناکام ہو نے لگے ہیں ایسے ویڈیوز ہرگز وائرل نہیں کرنا چاہیے ایسے واقعات کی صرف ایف آئی آر کروانی ہے ویڈیو وائرل کرنے سے خوف بڑھے گا اور سیاسی طاقتیں یہی چاہتی ہیں قرآن میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ تم دشمن کو خوف میں مبتلا رکھو اور تمہارے تین قسم کے دشمن ہیں پہلا اللہ کادشمن دوسرا خود تمہارا دشمن تیسرا منافق دشمن جس کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے افسوس کہ جو پالیسی ہماری تھی وہ آج دشمن طاقتیں ہمارے ہی خلاف استعمال کررہی ہیں عالمی سطح پر دہشتگردی کے نام پر اور ملکی سطح پر اس طریقے کے اوچھے اور گرے ہوئے ظالمانہ طریقے سے مسلمانوں کو خوف میں رکھنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں

جناب ضمیر صاحب مخیر قوم وملت

*جناب ضمیر احمد خان صاحب مخیر قوم وملت* عزیر احمد قاسمی نائب صدر راشٹریہ مسلم مورچہ کرناٹک و بہوجن کرانتی مورچہ کرناٹک جناب ضمیر احمد خان صاحب جو چامراج پیٹ حلقے کے ایم ایل اے ہیں ان سے متعلق میڈیا میں ایک بات خوب گردش کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنے حلقے سے سدرامیا صاحب کو کھڑا کریں گے کل بھی 12 جون 2021 بی بی ایم پی مزدوروں میں جناب ضمیر صاحب کی طرف سے راشن کٹس تقسیم کئے جانے کے موقع پر میڈیا نے سدرامیا صاحب سے یہی سوال کیا کہ وہ اگلا الیکشن ضمیر صاحب کے حلقے سے لڑیں گے؟ تو سدرامیا صاحب نے جواب دیا کہ اس بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے فی الحال وہ بادامی حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اس ضمن میں مخیر قوم وملت الحاج ضمیر احمد صاحب سے دست بستہ یہ عرض کرنا ہے کہ وہ اپنے حلقے کو خدارا کبھی نہ چھوڑیں اور نہ ہی سدرامیا صاحب جیسے قائد یا مسلمانوں کا بڑا سے بڑا خیرخواہ کانگریسی یا بی جے پی یا جنتادل وغیرہ سے کوئی بھی ہو اور اعلان کرے وہ مسلمانوں کے لئے ایسا ایسا کریں گے اور سبیل الرشاد میں ایوان اشرف بنادیں گے وغیرہ وغیرہ تو ان اعلانات یا وعدوں کی وجہ سے اپنا حلقے ہرگز نہ چھوڑیں یہ سچ ہے کہ سدرامیا صاحب ایک قابل اور زبردست قائد ہیں مگر ان کے لئے کوئی اپنے پیر پر کلہاڑی مارلے یہ عقلمندی نہیں ہوگی ویسے بھی ہم مسلمان جعفر شریف کے آخری ایام کی گمنامی اور روشن بیگ صاحب کی موجودہ کس مپرسی دیکھ رہے ہیں نیز آج بھارت جیسے کیپٹلزم جمہوری ملک میں مرکز اور ریاستوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر کردی گئی ہے افسوس تو اس وقت اور بڑھ جاتا ہے کہ کرناٹک سے اٹھائیس ایم پی نمائندگی کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے آپ اور رضوان ارشد صاحب نے اس کے لئے محنت کی اور الیکشن بھی لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے اور کانگریس نے کبھی مسلمان ایم پی بڑھانے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ کانگریس نے دھیرے دھیرے مسلم نمائندگی کو گھٹاتے گھٹاتے مسلم قوم کا دیوالیہ نکال دیا ایسے حالات میں آپ اپنے حلقے کو چھوڑ کر جعفر شریف صاحب مرحوم کی طرح گمنام یا بیگ صاحب کی طرح کس مپرسی کے عالم میں چلے جائیں ہمیں بالکل پسند نہیں ہے اگر سدرامیا صاحب کو زیادہ ووٹ سے جیتنا ہی ہے تو آپ کے حلقے کے علاوہ اور بھی کانگریسی حلقے ہیں وہاں سے ووٹ بڑھالیں مسلمان ہی کے گلے کو کاٹ کر آگے بڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ویسے بھی موجودہ تازہ رپورٹ کے مطابق آج ملک کا ہر چوتھا مسلمان بھکاری ہوچکا ہے ملک کے ان برے حالات میں آپ ودھان سودھا کی نمائندگی سے بھی دستیاب بردار ہوجائیں تو یہ مسلمانوں بلکہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں رہے گا

رزق کے سولہ دروازے

اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔ ۔ * پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔ * دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ * تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا * چوتھا دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ * پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے ٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے ٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔ ٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے ٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا ٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا ٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے ٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا ٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی ٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے ٭ پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے ٭ سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے

Thursday, June 3, 2021

راتوں میں جاگ کر صبح سونے والی قوم

. *راتوں کو جاگ کر دن میں سونے والی قوم* بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کئیے گئے قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی آج بھی اسکی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں کیوں پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں تباہی 1 دن میں نہیں آ جاتی *صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں* زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہے وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں ۔۔۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے *دن کے ایک بجے* سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے، اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار ماہ جبینیں چہرہ، پائوں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغن زیتون مل رہا ہے،، ! اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا ،، *اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں* برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں *برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا* لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے *اب 2018ء میں آتے ہیں* پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں ! آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے *اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا ۔۔۔ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دوسری جانب دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا* بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر پالیسی بناتے رہے اور رات کے باقی بچے ہوئے حصہ میں سجدے میں پڑے رب ذوالجلال سے امداد و استعانت طلب کرتے رہے ! کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے. *جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا. کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی*. اور یہ مت سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا. گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتا ہے. امت کی بقاء اور ترقی کیخاطر اس پبلک ویلفئر میسج کو اپنے حلقہ احباب میں ضرور شیئر کریں۔ جزاک اللہ خیر *تاریخ کا سبق* .

کرونا میں شریعت کی رہنمائی

*کورونا کے ماحول میں شریعت کی رہ نمائی* ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کورونا کی دوسری لہر زیادہ خطرناک رہی _ اس میں مرض نے شدّت اختیار کی ، بہت سے لوگ اس کی لپیٹ میں آئے ، خاصی تعداد میں لوگوں کا انتقال ہوا ، بہت بڑی تعداد ملازمتوں یا روزگار سے محروم ہوئی ، اس بنا پر انہیں معاشی طور پر بہت پریشانی رہی ، دیگر مسائل ، جو کورونا کی پہلی لہر میں پیش آئے تھے ، وہ دوسری لہر میں بھی اپنی شدّت کے ساتھ باقی رہے _ اس پس منظر میں جماعت اسلامی ہند ، تامل ناڈو کے رابطۃ العلماء (منطقہ اردو) نے ایک ہفتہ کے لیے لیکچر سیریز کا پروگرام بنایا ، تاکہ وابستگانِ جماعت کی ذہن سازی ہو ، ان کا اضطراب دور ہو اور انہیں شرعی رہ نمائی حاصل ہو _ افتتاحی پروگرام میں انھوں نے مجھے دعوت دی _ میں نے ان کے سامنے جو گفتگو کی اس کے نکات درج ذیل ہیں : (1) انسانوں اور خاص طور پر اپنے قریبی عزیزوں کی کورونا میں موت دیکھ کر دہشت طاری ہوتی ہے ، لیکن اگر یہ عقیدہ اپنے دلوں میں راسخ اور تازہ رکھا جائے کہ ہر شخص کی موت کا وقت متعیّن ہے تو یہ دہشت ختم یا کم ہوسکتی ہے _ قرآن مجید میں بار بار کہا گیا ہے : "ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے _ (آل عمران : 185 ، العنكبوت : 57 ، الانبیاء : 35) " جب کسی کی موت کا وقت آجائے گا تو ایک لمحہ پہلے موت آئے گی نہ ایک لمحہ بعد _"( الأعراف :34 ، یونس : 49 ، النحل :61، المؤمنون : 43 ، المنافقون :11 ، نوح :4) تو جب موت کا وقت متعیّن ہے تو گھبرانا کیسا؟ (2) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پھر علاج معالجہ میں دل چسپی نہ لی جائے اور یہ سوچ لیا جائے کہ چاہے علاج کرایا جائے یا نہ کرایا جائے ، مرنا تو اپنے وقت پر ہے _ بعض لوگ اسے تقدیر اور مشیّتِ الٰہی سے جوڑتے ہیں اور 'توکّل' کا نام دیتے ہیں ، حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے _ یہ سوچ عہدِ نبوی میں بھی بعض لوگوں کی تھی _ ایک موقع پر انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا : " اگر ایسی بات ہے تو پھر علاج کی کیا ضرورت ہے؟" آپ ص نے جواب دیا : " اے اللہ کے بندو ! علاج کراؤ _ اللہ نے جتنی بیماریاں نازل کی ہیں ، ہر ایک کا علاج بھی نازل کیا ہے ، سوائے بڑھاپےاور موت کے _" ( ابوداؤد :3855 ، ترمذی : 2038) ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا : " میں اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا کھلا چھوڑ کر؟" آپ ص نے جواب دیا : " اسے باندھو ، پھر اللہ پر توکّل کرو _ " (ترمذی :2517) (3) تعدیہ (Infection) کو اسلام تسلیم کرتا ہے _ ایک حدیث میں ہے : لا عَدوَی (انفیکشن نہیں ہوتا) ، لیکن اس کا مطلب انفیکشن کا انکار نہیں ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ انفیکشن بذاتِ خود مؤثر نہیں ہے _ کسی کو ہوگا یا نہیں ، یہ اللہ کی تقدیر پر منحصر ہے _ اس لیے اسی حدیث میں آگے ہے کہ جب آپ ص نے فرمایا : " انفیکشن نہیں ہوتا _" تو ایک شخص نے عرض کیا :" ہم تو دیکھتے ہیں کہ انفیکشن ہوتا ہے _ کسی جگہ صحت مند اونٹ ہوتے ہیں ، وہاں ایک خارش زدہ اونٹ پہنچ جاتا ہے تو سب کو اس مرض میں مبتلا کردیتا ہے _" اس پر آپ ص نے فرمایا : " اُس پہلے اونٹ کو کس نے مرض میں مبتلا کیا تھا؟" ( بخاری : 5717 ، مسلم : 2220) (4) جب انفیکشن تسلیم شدہ ہے تو اس سے بچنا ضروری ہے _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : " جذام میں مبتلا شخص سے اس طرح دور رہو جیسے شیر سے بھاگتے ہو _" ( بخاری : 5707 ، مسلم : 2220) ایک وفد میں شامل ہوکر ایک جذامی شخص حضور سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : " تم واپس جاؤ _ تم سے ہاتھ ملانا ضروری نہیں _ سمجھ لو کہ تم سے بیعت ہوگئی _" ( مسلم: 2231) آپ ص نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : " کسی مریض (اونٹ) کو صحت مند (اونٹ) کے پاس نہ لے جایا جائے _ (بخاری : 5771 ، مسلم: 2220) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انفیکشن ایک سائنسی حقیقت ہے ، اسے تسلیم کیا جانا چاہیے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہییں _ (5) جب کوئی متعدی مرض بہت بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تو اسے 'وبا' کہتے ہیں _ اس میں مزید سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے _ اس لیے کہ اس معاملے میں بے احتیاطی سے بہت بڑی آبادی کے متاثر اور جاں بحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہدایت فرمائی ہے _ عہد نبوی میں طاعون ایک وبائی مرض تھا _ اس کے سلسلے میں آپ نے ارشاد فرمایا : " جب تمھیں کسی علاقے میں طاعون کی خبر ملے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر وہ کسی علاقے میں پھیلا ہوا ہو اور تم وہاں ہو تو وہاں سے نکل کر دوسری جگہ نہ جاؤ _" (بخاری : 5728) وبا کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کرنا عقیدۂ تقدیر کے خلاف نہیں ہے _ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے معلوم ہوتی ہے _ ان کے عہدِ خلافت میں شام میں طاعون کی وبا پھیل گئی _ وہ مسلم فوج سے ملنے وہاں جا رہے تھے ، راستے میں اس کی خبر ملی تو انھوں نے اہلِ رائے سے مشورہ کرکے واپسی کا فیصلہ کیا _ اس پر ایک صاحب نے کہا : " کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟" حضرت عمر نے بڑا پیارا جواب دیا _ فرمایا : " ہاں ، ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں _" ( بخاری : 5729) اس بنا پر اگر وبا کے دوران میں ماسک لگایا جارہا ہے ، سینیٹائزر استعمال کیا جا رہا ہے اور سماجی فاصلہ اختیار کیا جارہا ہے تو یہ تعلیماتِ نبوی کے عین مطابق ہے _ (6) دین کے جتنے احکام ہیں سب عام حالات سے متعلق ہیں _ اگر عذر ہوگا تو رخصت ہوگی اور جتنا عذر ہوگی اتنی رخصت ہوگی _ نماز کے لیے وضو ضروری ہے ، لیکن پانی نہ ملے ، یا بیماری کی وجہ سے وضو ممکن نہ ہو تو تیمم کا حکم ہے _ نماز میں قیام ضروری ہے ، لیکن عذر ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ، بیٹھ کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو لیٹ کر پڑھی جاسکتی ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " نمازوں کی ، خصوصاً درمیانی نماز کی حفاظت کرو اور اللہ کے آگے با ادب کھڑے رہا کرو _ اگر تمھیں خوف ہو تو خواہ پیدل ہو یا سوار ، جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو _ پھر جب تمہیں امن میسر آجائے تو اللہ کو اُس طریقے سے یاد کرو جو اُس نے تمہیں سکھا دیا ہے ، جس سے تم پہلے نا واقف تھے _ ( البقرۃ :238_239) ظاہر ہے ، خوف کی حالت میں سواری پر بیٹھ کر باجماعت نماز پڑھی جائے گی تو نمازیوں کے درمیان فاصلہ بھی رہے گا اور صف بھی سیدھی نہیں رہے گی ، لیکن نماز کی تاکید کے ساتھ ان چیزوں کو گوارا کیا گیا _ پھر خوف چاہے ظاہری دشمن کا ہو یا کورونا وائرس جیسے نادیدہ دشمن کا ، دونوں کا حکم یکساں ہے _ چنانچہ عام حالات میں چہرہ ڈھک کر اور نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ، لیکن وبا کے دوران میں اس کی اجازت ہوگی _ عام حالات میں پنج وقتہ نمازیں اور نماز جمعہ مسجد میں ادا کرنے کا حکم ہے ، لیکن وبا کے دوران میں گھر میں پڑھنے کی اجازت ہے _ عام حالات میں عیدین کی نمازیں عید گاہ یا مسجد میں پڑھی جائیں گی ، لیکن وبا کے دوران میں گھر پر پڑھی جاسکتی ہیں _ عام حالات میں مسجد میں ایک نماز کی دو جماعتیں کرنے کی ممانعت ہے ، لیکن وبا کے دوران میں اس کی گنجائش ہے _ اس طرح کے دیگر احکام میں بھی رخصت پر عمل کیا جاسکتا ہے _ (7) عام حالات میں انسانوں کی خدمت کرنے ، ان کے کام آنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : " لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کی ذات سے دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے _" (صحیح الجامع :3289) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ جس نے کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ، یا کسی پیاسے کو پانی پلایا ، یا کسی مریض کی تیمارداری اور مدد کی ، اس نے گویا اللہ کو کھلایا ، اللہ کو پلایا اور اللہ کی تیمارداری کی _ ( مسلم : 2569) وبا کے ماحول میں ، جب لوگ سخت پریشان ہوں اور بھکمری سے دوچار ہوں ، رفاہی خدمات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے _ (8) رفاہی خدمات کے مستحق جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ہیں _ مذہب کا اختلاف ان کی مدد اور تعاون میں رکاوٹ نہیں بنتا ، بلکہ انسانیت کی بنیاد پر سب کا تعاون کیا جائے گا _ قرآن مجید میں ہے : " اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔" (الممتحنۃ :8) لیکن ان کا تعاون کرتے ہوئے ہر حال میں شرعی حدود کو ملحوظ رکھا جائے گا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی _ مثال کے طور پر کسی غیر مسلم کا انتقال ہوجائے اور اس کی آخری رسوم انجام دینے والا کوئی نہ ہو ، یا اس کے رشتے دار اس سے بھاگیں تو مسلمان یہ کام کرسکتے ہیں ، اس کی ارتھی کو شمشان گھاٹ تک بھی لے جاسکتے ہیں ، لیکن لے جاتے ہوئے نہ شرکیہ جملے ادا کریں نہ چتا کو آگ لگائیں _ (9) مسلمانوں کا ایک دوسرے پر حق ہے کہ ان میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کی نعش کو غسل دیں ، کفن پہنائیں ، نمازِ جنازہ پڑھیں ، پھر قبرستان میں لے جاکر دفن کریں _ لیکن یہ حکم بھی عام حالات کے لیے ہے _ اگر ان میں سے کسی کام کی انجام دہی میں کوئی عذر یا زحمت ہو تو وہ حکم ساقط ہوجائے گا _ کورونا میں وفات ہونے کی صورت میں اگر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے غسل اور تکفین ممکن ہو تو بہتر ہے ، ورنہ اسی حالت میں نماز جنازہ پڑھنے کے بعد دفن کیا جاسکتا ہے _ (10) وبائی مرض سے حفاظت کے لیے ویکسین ایجاد کی گئی ہے _ یہ علاج نہیں ، تحفظی تدبیر ہے _ اصل چیز قوتِ مدافعت کی تقویت ہے _ ویکسین لگوائے بغیر بھی کسی شخص کے جسم میں قوتِ مدافعت قوی ہو تو وہ مرض سے بچ سکتا ہے ، اس بنا پر ویکسین لگوانا ضروری نہیں _ لیکن اگر کوئی ویکسین لگوانا چاہے تو اس کی اجازت ہے _ اگر ویکسین میں کوئی حرام جز شامل ہے تو بھی ویکسین لگوانے کی گنجائش ہے ، اس لیے کہ اوّلاً حرام چیز کی قلبِ ماہیت کے بعد اس کی حرمت ختم ہوجاتی ہے _ ثانیاً اضطراری صورت میں بقدر ضرورت حرام چیز کا استعمال جائز ہوجاتا ہے _

Tuesday, June 1, 2021

کیا این آر سی کا جن بوتل سے باہر آگیا؟

*کیا این آر سی اور سی اے اے کا جن بوتل سے باہر آگیا؟* عزیر احمد قاسمی نائب صدر راشٹریہ مسلم مورچہ کرناٹک و بہوجن کرانتی مورچہ کرناٹک *قسط اول* یہ خبر وائرل ہورہی ہے کہ بھارت سرکار سی اے اے کو ملک کی پانچ ریاستوں کے تیرہ ضلعوں میں نافذ کرنے کے ارادے سے پناہ گزینوں سے درخواستیں طلب کر رہی ہے درخواست لے کر ان پناہ گزینوں کی مدد بھی کرے گی یا پندرہ لاکھ کی طرح الٹا پناہ گزینوں کو لوٹنے اور برباد کرنے کا کام کرے گی یہ تو آنے والا وقت اور حکومت کے کرتوت بتائیں گے جیسے پندرہ لاکھ دینے کا نام دے کر ہماری جیبوں کو بھی نوٹ بندی سے کاٹ لیا یہ اور بات ہے کہ سرکار قوم کی خدمت کی بجائے ان کو برباد کرنے ۔ کرونااور ویکسینیشن سے مروانے ۔ بے روزگار بنانے ۔پولیس تشدد کروانے ۔کسانوں اور مزدوروں کے استحصال کرنے ۔اور قومی جائدادوں کو نجی ہاتھوں فروخت کرنے کو اپنا نصب العین بناچکی ہے وزیر داخلہ امیت شاہ صاحب (جو جین اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں مگر آریس یس کے ہاتھ کا کھلونا ہیں) پارلیمنٹ میں نو مرتبہ دہراچکے ہیں کہ ملک میں این آر سی لاگو کیا جائے گا مگر این آر سی سے پہلے سی اے اے لاگو ہوگا چنانچہ برہمن واد مودی سرکار نے سی اے اے ایکٹ کو جو غیر قانونی اور غیر انسانی ایکٹ ہے پہلے لوک سبھا پھر راجیہ سبھا پھر صدر جمہوریہ کے دستخط سے پاس کرالیا اور کانگریس نے پارلیمنٹ میں اس کے خلاف ڈٹے رہنے کو چھوڑ کر واک آوٹ کرکے مودی سرکار کا ساتھ دیا آج بھارت سمیت اسی فیصد دنیا کی حکومتوں میں مغرب کا دیا ہوا جمہوریت سیکولرزم اور کیپٹلزم نافذ ہے یہ جمہوریت والی طاغوتی وجبری نظام چارکندھوں پر چلتی ہے پارلیمنٹ عدالت بیوروکریسی اور میڈیا بھارت جمہوری ملک کے چاروں ستونوں پر برہمنوں کا قبضہ ہے اور برہمن قوم نسلا یہودی ہیں جو خود کو برہما کے سر سے پیدا ہوجانے کی وجہ سے طاقت مال اور علم کا اکلوتا اجارہ دار سمجھتے ہیں اور دیگر قوموں کو شودر( چھوت )اور اتی شودر (اچھوت) سمجھتے ہیں اگر ملک میں گھس پیٹئے بڑھ چکے ہیں اور این آر سی ملک میں نافذ کرنا ضروری ہی ہے تو کاغذات اور دستاویزات سے این آرسی نہ کیاجائے کیونکہ سرکاری کرمچاری پیسے لے کر کوئی بھی جھوٹے دستاویزات بناکر دے سکتے ہیں اس لئے بہوجن کرانتی مورچہ کی طرف سے بھارت سرکار کو یہ مشورہ ہے کہ وہ گھس پیٹئے کی نشاندہی ڈی این اے DNA ٹیسٹ سے کرے ڈی این اے کو سپریم کورٹ بھی مستند مانتی ہے ڈی این اے ٹیسٹ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے مولنواسیوں اور گھس پیٹیوں کی پہچان ممکن ہے اس لئے ضروری ہے کہ مودی سرکار ویکسینیشن کی طرح ہر بھارتی کا ڈی این اے جانچ کرے تاکہ RIAI کا نمبر جس کا بھی نکلے گا ملک سے تڑی پار کرکے اسرائیل بھیج دے تاکہ یہ قوم ایک ہی جگہ اپنوں کے ساتھ رہ کر مرسکے *کیا این آر سی اور سی اے اے کا جن بوتل سے باہر آگیا؟* عزیر احمد قاسمی نائب صدر راشٹریہ مسلم مورچہ کرناٹک و بہوجن کرانتی مورچہ کرناٹک *قسط دوم* امریکہ واشنگٹن کی UTAH یونیورسٹی کے DNA پروفیسر مائیکل بمشاد کو یہ فکر ہونے لگی کہ بھارت میں SC.ST.OBC. کی 6643 ذاتیں کیوں ہیں جب کہ دنیا کے کسی ملک میں اس طرح کی بھید بھاو اور چھوت چھات کی ذاتیاں نہیں ہیں چنانچہ انہوں نے بھارت کی تاریخ کو کھنگھالنے کے لئے ایک مشن شروع کیا کئی سالوں کی محنت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہونچے کہ بھارتی عوام کو غلام بنائے رکھنے کے لئے ان کو ذاتیوں اور چھوت چھات کے بندھن میں زبردستی باندھا گیا ہے مائیکل بمشاد نے چار ہزار پانچ ہزار سال پرانے لاشوں کو میوزیم سے نکال کر تحقیقات کیں پھر وہ رپورٹس تیار کرتے گئے تفصیلات کے لیے پروفیسر ولاس کھرات صاحب کی ڈی این اے والی کتاب کا مطالعہ ضرور کریں اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہوچکا ہے کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ *پہلی رپورٹ:* برہمنوں کا ڈی این اے R1A1 HAPLO GROUPS ہے جو بحر اسود کے لوگوں کا ڈی این اے ہے جبکہ بھارتی باشندوں کا ڈی این اے HAPLO M52 .M92.M89 GROUPS ہے یہ رپورٹ 15 جون 2001 کو BMS GENERIC رسالے میں شائع ہوئی اسی طرح TOI ٹائمز آف انڈیا کے 21 مئی 2001 کے شمارے میں یہ رپورٹس شائع ہوئی جس میں دو سو پینسٹھ سائنسدانوں کی تصدیقی مہر ثبت ہیں *دوسری رپورٹ:* 24 ستمبر 2009 کو NATURE سائنسی رسالے میں رپورٹ آئی کہ برہمن دیڑھ ہزار سال سے دوہزار سال قبل مسیح بھارت میں گھس پیٹ کیے ویدک دھرم اور سنسکرت زبان ساتھ میں لائے ان کے آنے سے پہلے یہاں کی زبان اور تہذیب دراوڑوں کی تھی اور زبان تامل ملیالم کنڑا اور تیلگو تھی *تیسری رپورٹ* : دسمبر 2017 کو میرینا سلوا اور دیگر سائنسدانوں نے ڈی این اے رپورٹ شائع کی جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ برہمن گھس پیٹئے اپنے ساتھ عورتوں کو نہیں لائے ان کے ساتھ جن عورتوں کی لاشیں ملی ان کا ڈی این اے بھارتیوں کے ڈی این اے سے ملتا ہے مطلب یہ کہ ان گھس پیٹیوں نے بھارتی عورتوں کو استعمال کیا اور آج بھی برہمنوں کی مقدس قانونی کتاب *منوسمرتی* میں یہ عبارت ہے کہ *دھول شودر پشو ناری* *یہ سب ہیں تاڑن کے ادھیکاری* یعنی برہمن اپنی عورتوں کو بھی شودر مانتے ہیں اور بیوہ ہونے کے بعد ستی کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اس کے برہمن شوہر کے لاش کے ساتھ وہ بھی زندہ جل کر ساتھ میں ختم ہو جائے *کیا این آر سی اور سی اے اے کا جن بوتل سے باہر آگیا؟* عزیر احمد قاسمی نائب صدر راشٹریہ مسلم مورچہ کرناٹک و بہوجن کرانتی مورچہ کرناٹک *قسط سوم* *چوتھی رپورٹ* 2019کی ہے جس میں CALIS BRASS کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یمنایا برہمن تشدد پسند ۔ حد درجہ سفاک اور ظالم تھے بھارتی آبادی کی نسل کشی کی جس طرح انہوں نے یوروپ میں نسل کشی کی تھی جب وہ بھارتی آبادی کو نیست و نابود نہ کرسکے تو غلام بنائے رکھنے کے لئے ذاتی واد اور اونچ نیچ میں بانٹ دیا *چھٹی رپورٹ:* 17 ستمبر 2019 میں آن لائن جریدہ CELL میں INDUS VELLEY کی ڈی این اے رپورٹ شائع ہوئی جس میں انہوں نے راکھی گڑھی کی کھدائی میں ملی لاشوں اور انسانی ڈھانچوں کا ڈی این اے بتاتے ہوئے لکھا کہ قدیم ہڑپہ نسل کا تعلق پاسٹورالسٹ سے تھا یا ایرانی کسانوں سے تھا نیز یہ بھی ثابت کیا کہ برہمن دیڑھ ہزار سال سے دوہزار سال قبل مسیح میں بھارت میں گھس پیٹ کیے ہیں اور راکھی گڑھی کے سولہ انسانی ڈھانچوں کی تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا کہ ان کے سات سو سال بعد برہمنوں نے گھس پیٹ کیا ہے اس رپورٹ کے منظر عام پر آجانے کے بعد آر یس یس نے دکن کالج کے پرنسپل وسنت شنڈے اور نیرج رائے کے ذریعے جو تماشا کھیلا کہ برہمن حملہ آور نہیں تھے مولنواسی تھے اس کی داستان بھی بڑی عجیب اور دلچسپ ہے مضمون کی طوالت کی وجہ سے ترک کرنا مناسب لگ رہا ہے تفصیل کے لیے اصل کتاب کا مطالعہ کرلیں *ساتویں رپورٹ* 31مارچ 2018 کو ڈی این اے کے ماہر بانوے سائنسدانوں نے رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا''THE GENOMIC FORMATION OF SOUTH INDIA AND CENTRAL ASIA یعنی جنوبی بھارت کے لوگوں کی نسلی ساخت اور وسط ایشیا اس رپورٹ کے منظر عام پر آجانے کے بعد برہمنوں کی نیند حرام ہوگئی رپورٹ کو غلط ثابت کرنے کے لئے آسمان زمین کے قلابے ملادئے بانوے سائنسدانوں نے جب آر ایس ایس کی شرارت دیکھی تو دیگر پچیس جانے مانے عالمی سائنسدانوں کے پاس رپورٹ اور صورتحال کو پیش کیا پھر وہی رپورٹ تصدیق ہوکر ایک سو سترہ سائنسدانوں کی تائیدی وتوثیقی کلمات اور دستخطوں کے ساتھ CELL جریدے میں شائع ہوئی۔ جانے مانے عالمی سائنسدانوں میں DAVID REACH بھی شامل تھے موصوف کو لال جی سنگھ اور تھانگراج نے دھمکیاں دیں DAVID REACH نے اپنی کتاب " WHO WE ARE AND HOW WE GET HERE" میں درد اور دکھ کے اظہار کے ساتھ دلچسپ انداز میں برہمن واد آر ایس ایس کی کارستانیوں کو بیان کیا ہے پھر موہن بھاگوت نے وسنت شنڈے اور نیرج رائے کو آگے کیا بہوجن کرانتی مورچہ نے وسنت شنڈے کو رپورٹ میں تحریف کرنے کی وجہ سے قانونی نوٹس بھی بھیجا مگر اب تک جواب نہیں آیا اور شنڈے کی زبردست ترقی بھی کردی گئی ہے یہ کل سات رپورٹس نذر قارئین کی گئی ہے جو پروفیسر ولاس کھرات صاحب کی کتاب کا خلاصہ ہے ان سات رپورٹس سے پہلے اور بعد بھی کئی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ آرین نے بھارت میں گھس پیٹ کیا ہے اور خود برہمنوں نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بھارت کے نہیں ہیں مثلا پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈسکور آف انڈیا میں دیانند سرسوتی نے ستیارتھ پرکاش میں اور بال گنگا دھر تلک نے والکا سے گنگا تک نامی کتاب میں اقرار کیا ہے کہ وہ ودیشی تھے نیز بھارتی فوج کا لیفٹنٹ کرنل پرساد پروہت برہمن جس نے 2001 کو مالیگاوں میں شب برات کے موقع پر بم دھماکہ کیا تھا IPS ہیمنت کرکے شھید نے 2008 میں گرفتار کیا تھا آج تک وہ جیل میں سڑ رہا ہے مگر فوج سے تنخواہ برابر جاری ہے اس کی چارج شیٹ کے صفحہ 61پر اس کا فرید آباد کی میٹنگ میں دیا ہوا بیان درج ہے "یہ ملک ہمارا نہیں ہے اس ملک اور اس کے دستور کے خلاف لڑنا ہوگا یہ دستور ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے ہندو راشٹر کو قائم کرنے کے لیے دوسرا دستور بنا نا ہو گا وہ دستور منوسمرتی یا چودہ منوسمرتی کا نچوڑ ہوگا ۔ ہمیں ویدوں میں بتائے گئے ویدک سناتن دھرم ہی چاہئے " خلاصہ اس تحریر کا یہ ہے *الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے* جمہوری بھارت کے چاروں ستونوں پر براجمان صاحب اقتدار گھس پیٹئے برہمن مولنواسیوں سے سند شہریت کی فرمائش کررہے ہیں مگر خود تین تین دستاویزات سے گھس پیٹئے ہیں ڈی این اے ۔تاریخ اور خود ان کی کتابیں بتارہی ہیں کہ وہ ودیشی غیر ملکی اور گھس پیٹئے ہیں تو اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے گھس پیٹیوں کی پہچان ہو نہ کہ کاغذات سے۔ یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کانگریس کا بچہ آر ایس ایس ہے اور آر ایس ایس کا بچہ بی جے پی ہے اس کے علاوہ اور تین قدیم نیشنل پارٹیاں ترنمول کانگریس ۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی جن کے ممبران پارلیمنٹ کے اراکین ہیں سب کے سب برہمنوں کی بنائی ہوئی ہیں نیز برہمن تین چہروں میں ملتے ہیں مگر سب کے دل ایک ہیں 1سناتنی 2سیکولر 3کمیونل پوری دنیا یہودیوں کی ریشہ دوانی سے پریشان ہے اور بھارتی عوام یہودی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ برہمن مشرکوں سے بھی پریشان ہے سچ کہا انسانوں کے خالق نے لتجدن اشد الناس عداوہ للڈین امنوا الیہود والذین اشرکوا