Monday, February 21, 2022
برہمنیت کی تاریخ
بٹن سابرہمنیت کی تاریخ
ادوار وخصوصیات
🖋️ احمد نور عینی
استاذ: المعہد العالی الاسلامی
ہمارا یہ دیش فکری جنگ سے دو چار ہے، یہ جنگ برہمنواد نے اپنے نظام حیات کے لیے چھیڑ رکھی ہے، یہ دیش برطانوی غلامی سے تو آزاد ہو گیا مگر برہمنوادی غلامی سے اب تک آزاد نہ ہو سکا، یہ غلامی ہزاروں سال سے جاری ہے، برہمنواد نے اپنا ورچسو (تسلط) باقی رکھنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ہر دور میں اس کا مقصد ایک ہی رہا ، حکمت عملیاں بدلتی رہیں، گوتم بدھ کے انقلاب سے پہلے اس کی جو حکمت عملی تھی رد انقلاب اور اس کے بعد کے دور میں اس نے اپنی اس حکمت عملی میں تبدیلی لائی، صوفی تحریک کے دور میں بھی اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی، مسلم دور حکومت میں اس کی حکمت عملی کچھ اور رہی اور انگریزوں کے آنے کے بعد کچھ اور (تفصیل کے لیے دیکھیے: سوامی دھرم تیرتھ کی کتاب The Menace of Hindu Imperialism )۔
برہمنیت کی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ جمہوری دورمیں برہمنواد کا تسلط در اصل غلامی کا تیسرا دور ہے۔ پہلا دور ودیشی یوریشیائی حملہ آور قوم کے بھارت پر غلبہ کے بعد شروع ہوتا ہے، عدم مساوات پر مبنی طبقاتی نظام، برہمن طبقہ کی سریشٹا (افضلیت)، مولنواسی قوموں کی بنیادی حقوق اور عزت واحترام سے محرومی، یگیہ کے نام پر بے تحاشا جانوروں کی اور خاص کر گائے کی قربانی اور تشدد (ہنسا) پہلے دور کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ دور گوتم بدھ کے انقلاب تک چلتا ہے، گوتم بدھ کے انقلاب کی بنیادوں میں مساوات کا پیغام، اہنسا (عدم تشدد) کا درس، جنم کے بجائے کرم (عمل)کے معیار فضلیت ہونے کا تصور، یگیہ کی ممانعت اور پالی زبان کا استعمال قابل ذکر ہیں۔ گوتم بدھ کے پیروکاروں کی’’ سنگھ‘‘ نامی جماعت نے بدھ کے پیغام کی تبلیغ واشاعت کا کام کیا اور اشوک کے بدھ مت قبول کرنے کے بعد اس تحریک کو حکومتی سرپرستی میں پھلنے پھولنے کا کافی موقع ملا۔ برہمنواد نے تحریک کو دبانے کے لیے مختلف حربے اپنائے اور رد انقلاب شروع کیا،برہمن طبقہ کے باشعور لوگوں نے سنگھ میں داخل ہوکر سنگھ کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی،بدھ مت کی تعلیم گاہوں میں بھی برہمن بدھسٹ اونچے مناصب پر فائز ہوئے، یوں بدھ مت کے پردے میں برہمنی مت مضبوط ہوا، رد انقلاب کے اس دور میں گوتم بدھ کی تعلیمات کچھ کی کچھ ہوگئیں، انھیں اوتار مان لیا گیا، ان کی تحریک کی انقلابیت کو ختم کردیا گیا،بدھ مت مہایان ہنایان دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگیا، سنسکرت کو دوبارہ زندہ کیا گیا، برہمنی مت کے باز استحکام کے لیے لٹریچر کا بڑا ذخیرہ تیار کیا گیا،برہمن طبقہ بدھسٹ خانقاہوں اور تعلیم گاہوں میں تو داخل ہوا ہی، بدھسٹ حکومت یعنی موریہ حکومت کے اندر بھی داخل ہوا، چنانچہ پشیہ مترسونگ نامی برہمن فوج میں سپہ سالارکے عہدے تک پہنچا اور آخری موریہ راجہ برہدتیہ موریہ کا قتل کرکے حکومت پر قابض ہوگیا، آخری موریہ راجہ کےقتل کے بعد برہمنواد کو حکومتی قوت حاصل ہوگئی، بدھ مت کے پیروکاروں کی لنچنگ کی گئی، ان کا قتل عام کیا گیا، بدھ عبادت گاہوں اور خانقاہوں کو یا تو مسمار کیا گیا یا مندر میں بدل دیا گیا۔ اس رد انقلاب کے ذریعہ غلامی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے، اس دور غلامی میں پہلے دور غلامی کی خصوصیات تو ہیں ہی، ان کے علاوہ ذات پات کا استحکام ، ذاتوں کی بنیاد پر مولنواسی قوموں یعنی شودر اتی شودر (موجودہ:ایس سی، ایس ٹی او بی سی) کی ہزاروں ٹکڑیوں میں تقسیم، بین ذاتی کھان پان اوربین ذاتی شادی بیاہ پر پابندی، ہر ذات کے ساتھ مخصوص پیشہ کا لزوم، پیشہ بدلنے کی ممانعت، ذات کے قوانین کا نفاذ، ان قوانین کی خلاف ورزی پر ذات سے باہر کردینے کی سزا، چھوت چھات کارواج، گائے کا تقدس،برہمن کو دیوتا ماننے کا عقیدہ، دیوتا طبقہ کی طرف سے بے حیائی کو مقدس ماننے کی ذہنیت، گائے کھانے کی وجہ سے اچھوت پن کا نفاذ، شاستروں کے ذریعہ ذات پات کے نظام کو قانونی ومذہبی حیثیت کا حصول، مندر کلچر کا فروغ، بدھ عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی مندر میں تبدیلی، گوتم بدھ کو اوتار ماننے کا عقیدہ، گوتم بدھ کی مورتیوں کا مختلف دیوی دیوتاؤں کے روپ میں استعمال اس دوسرے دور غلامی کی قابل ذکر خصوصیات ہیں۔
اسی دوسرے دور غلامی میں تاجرین، مبلغین اور فاتحین کے ذریعہ اسلام کی بھارت میں آمد ہوئی، ان تینوں میں مبلغین یعنی صوفیاء کا کردار بہت اہم ہے، اسلام کی انسانیت اور مساوات پر مبنی تعلیمات نے یہاں کے لوگوں کا دامن دل کھینچا اور لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے، اسلام میں داخل ہونے کا یہ عمل صوفی تحریک کے آغاز میں ایک تحریک بن گیا، اور بڑے پیمانے پرلوگ اسلام قبول کرنے لگے، بلا امتیاز ذات پات صوفیا کا عوام سے ربط، لنگر کا نظام، انسانی بنیادوں پر خانقاہوں میں سب کا استقبال اور سب سے بڑھ کر اسلام کی اپنی کشش ان سب باتوں کی وجہ سےقبول اسلام کے عمل نے ایک انقلابی شکل اختیار کرلی، اس دور کے ڈانڈے بھارت میں مسلم سلطنت کے قیام کے دور سے مل جاتے ہیں، صوفی تحریک کا غلام یعنی شودر واتی شودر ذاتوں پر اتنا اثر پڑا کہ ان پست وپسماندہ ذاتوں میں برہمنیت کی مخالف اور مساوات کی داعی تحریک کھڑی ہوئی جس کو بھگتی تحریک کانام دیا گیا، کبیرداس، رودی داس، گرونانک اور بسویشور اس تحریک کے نمایاں نام ہیں۔ برہمنواد کے لیے اس انقلاب کو روکنا اور اپنا تسلط سماج پر باقی رکھنا ایک چیلنج بن گیا، البتہ خانقاہوں کے انقلابی کردار کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے آشرم اور مٹھ کے نظام کا سہارا لیا، جس میں غیر برہمنوں کے لیے بھی پروہتائی رو ا رکھی ، بھگتی تحریک میں گھس کر اس کا رخ بھی موڑ دیا اور آگے چل کر خانقاہی نظام کی انقلابیت بھی باقی نہ رہی، اسی طرح برہمنواد غیر مسلم سماج پر تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہا،اس کامیابی کے کئی اسباب ہیں، جن میں مسلم بادشاہوں کا شاہانہ مزاج، بھارتی سماج کا تنوع اور اس کی پیچیدگی، محکوم طبقات کی زبان سے حاکم طبقے کی ناواقفیت، برہمنوں کی تعلیمی وفکری قابلیت اور شودر واتی شودر کی تعلیمی وفکری محرومی، مذہبی رواداری اور مذہب پر عمل کی آزادی وہ نمایاں اسباب ہیں جن کی بنیاد پر مسلم حکمرانوں کی طرف سے برہمن طبقہ کو سماج پر تسلط برقرار رکھنے آزادی مل گئی۔برہمنواد کی طرف سے خانقاہوں کی انقلابیت ختم کرنےاور غیر مسلم سماج پر اس کا تسلط قائم ہونے کے بعد اسلام کی اشاعت وحفاظت رک سی گئی۔ البتہ گوتم بدھ کے انقلاب کو پلٹنے کے لیے برہمنواد نے جو رد انقلاب برپا کیا تھا اس میں وہ بدھسٹ اور غیر بدھسٹ دونوں کو یعنی پورے سماج کو دوبارہ غلامی میں جکڑنے میں کامیاب ہوگیا ؛ مگر قبول اسلام کا جو انقلاب آیا اس میں وہ غلامی سے آزاد ہونے والوں یعنی مسلمانوں کو دوبارہ غلام نہیں بنا سکااور نہ اسلام میں ایک حرف کی بھی تحریف کرسکا، یہی وہ بات ہے جس نے جمہوری دور میں برہمنواد کی مستقل نیند اڑا رکھی ہے۔ مسلم عہد سلطنت کے قیام سے برہمنوں کو یہ فائدہ ہوا کہ غیر مسلم سماج پر برہمنوں کے تسلط کو مذہبی رواداری اور مذہب پر عمل کی آزادی کے نام پر سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی، وہیں مسلم سماج کا یہ فائدہ ہوا کہ علما نے اس سماج کی مذہبی ودینی تربیت پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دی، جس کی وجہ سے آج اسلام بھی اپنی واضح شکل میں موجود ہے اور مسلمان بھی اپنے نمایاں تشخص کے ساتھ موجود ہیں، جب کہ برہمنواد نے نہ بدھ مت کو اس شکل پر باقی رکھا اور نہ بدھ قوم کا کوئی مستقل تشخص قائم رکھا؛ مسلم عہد سلطنت میں برہمن سماج اور مسلم سماج دونوں کا فائدہ ہوا؛ مگر پست وپسماندہ سماج کا دوہرا نقصان ہوا، مسلم سماج کے اعتزال کی وجہ سے یہ لوگ برہمنواد سے آزاد نہ ہوسکے اور برہمن سماج کو سرکاری سرپرستی ملنے کی وجہ سے ان کی غلامی کی زنجیریں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئیں۔
اسلام آنے کے بعد اور مسلم سلطنت کے قیام کے بعد ہونے والی اس تبدیلی کو ہم غلامی کا تیسرا دور تو نہیں کہہ سکتے ؛ البتہ اسے غلامی کے دوسرے دور کا ایک اہم مرحلہ کہہ سکتے ہیں، ایک ایسا مرحلہ جس کی خصوصیات میں شودر واتی شودر کہے جانے والے موالنواسیوں کا بڑی تعداد میں برہمنوادی غلامی سے آزاد ہوکر اسلام قبول کرنا، قبول اسلام کی تحریک کو دبانے کے کے لیےبرہمنواد کی طرف سے آشرم اور مٹھ کے نظام کا سہارا لینا، پست وپسماندہ طبقات میں چلنے والی بیداری کی تحریک کا رخ موڑنا، مذہبی رواداری اور مذہب پر عمل کی آزادی کے نام پر برہمنواد کا سرکاری سرپرستی میں غیر مسلم سماج پر ورچسو اور تسلط حاصل کرنا قابل ذکر ہیں۔ یہ مرحلہ انگریزی تسلط تک چلتا ہے، انگریزوں کے تسلط کے بعد سے بھارت کے عوامی جمہوریہ ہونے تک کا مرحلہ غلامی کے دوسرے دور کا آخری مرحلہ ہے، اس آخری مرحلہ میں بھارت کے عہد جدید کی برہمنیت مخالف تحریک کا آغاز ہوتا ہے، یہ تحریک شودر (موجودہ: او بی سی) طبقہ کے ایک عظیم قائد بابائے قوم جیوتی با پھلے کی قیادت میں شروع ہوتی ہے، ان کے بعد شاہو جی مہاراج سے اس کو تقویت ملتی ہے، پھر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اس کی کمان سنبھالتے ہیں، حیدرآباد کے بی شیام سندر، ٹاملناڈو کے پیریار ، کیرلا کے شری نارائنا گرو اور دوسرے کئی بہوجن قائدین اس کی سرکردگی کرتے ہیں، یہ تحریک در اصل عہد جدید میں برہمنیت مخالف انقلاب ہے۔ دوسرے دور کی غلامی کے اس آخری مرحلہ میں انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش چلتی رہی، یہ کشمکش تیسرے دور کی غلامی میں بھی داخل ہوئی اور ابھی تک جاری ہے۔
تیسرے دور کی غلامی میں برہمنواد کو ایک بڑے چیلنج سے نمٹنا پڑا، وہ چیلنج جمہوریت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، برہمنواد سے جس طبقہ کا مفاد وابستہ ہے وہ اقلیت میں ہے، اس کو حکومت کرنے کے لیے اکثریت کی تائید چاہیے تھی، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے برہمنوں کے دو گروہ ہوگئے، دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے لیے الگ راہ منتخب کی، دونوں کا طریقۂ کار ایک دوسرے سے مختلف تھا، البتہ مقصد دونوں کا ایک تھا، برہمنواد کے خاتمہ کے لیے دونوں میں سے کوئی تیار نہیں تھا، دونوں میں سے ایک نے سیکولرزم کا انتخاب کیا، اور ایک نے ہندوتو کا۔ اصل میں دیش کی آزادی کے وقت تین ہی صورتیں تھیں: مسلم حکومت قائم کی جائے، ہندو راشٹر (برہمن راشٹر) قائم کیا جائے، سیکولر حکومت بنائی جائے۔ سورنوں اور برہمنوں کا جو گروہ مسلمانوں کے ساتھ تحریک آزادی میں شریک ہوا تھا اس کے سامنے سیکولرزم کو کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا، کیوں کہ مسلم حکومت سے وہ راضی ہوجائے اس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، اور مسلمانوں کو چھوڑ کر اچانک کوئی نیا ووٹ بینک بنالے یہ کوئی آسان نہیں تھا،ہندوتوادی برہمنوں کو شبانہ روز جو محنت کرنی پڑی اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، یہ آسان اس لیے بھی نہیں تھا کہ تحریک آزادی کے دور میں برہمنوں اور سورنوں نے پست وپسماندہ ذات کو نظر انداز کیاتھا، امبیڈکر جب پست طبقات کو ہندو قوم سے الگ کرنے اور انھیں مستقل حقوق دینے کا مطالبہ لے کر اٹھے تو اس وقت سورنوں اور برہمنوں نے کچھ ہمدردی دکھانی شروع کی، مگر مسلم قوم کو یکسر نظر انداز کرکے ہندو کے نام پر پست وپسماندہ طبقات کو چند سالوں میں اپنا ووٹ بینک بنا لینا پھر بھی آسان نہیں تھا۔اس گروہ کے لیے آخر میں یہی صورت بچی کہ سیکولرزم کو اپنا لیا جائے، آزادی کے وقت جب قومیت کی بحث چھڑی تو متحدہ قومیت کو ماننے والی مسلم قیادت سیکولر برہمنوں کے ساتھ تھی،سیکولر برہمنوادی گروہ نے متحدہ قومیت کے بہانے آہستہ آہستہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت ختم کردی گئی، اور تقسیم وطن کے وقت بھارتی مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت صغری اور آئندہ ہونے والے فسادات کی وجہ سے ان کے اندر تحفظ اور سیکوریٹی کی نفسیات نے جنم لیا، سیکولر برہمنوادی گروہ نے اس نفسیات سے خوب فائدہ اٹھایا اور یوں آہستہ آہستہ مسلم قوم معاشی اور سماجی اعتبار سے دلتوں سے زیادہ بد حالی کا شکار ہوگئی، نہ تحفظات(ریزرویشن) ملے اور نہ کوئی حقوق، بس تحفظ کے لیے مسلمان ووٹ دیتے گئے، چوں کہ مسلم قوم اس برہمنوادی گروہ کا ووٹ بینک تھی اس لیے ’’بہ ظاہر‘‘ یہ سیکولر گروہ مسلمانوں کے تئیں نرم پہلو ہونے کا مظاہرہ کرتا رہا اور برہمنواد کو اس طرح مستحکم کرتا رہا کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ۔ برہمنوں کے دوسرے گروہ نے ہندوتو کی راہ کا انتخاب کیا، یہ راہ آسان نہیں تھی، کیوں کہ ذات پات کی دنیا میں ہر ذات کی اپنی دنیا ہوتی ہے، اس کی دنیا ذات سے شروع ہوکر ذات پر ختم ہوجاتی ہے، تمام ذاتوں کو متحد کرنا کوئی کھیل نہیں تھا، اور پھر متحد بھی اس طرح کرنا تھا کہ ان کے اندر ذات پات کی جو تقسیم ہے وہ باقی رہے، یعنی وہ سب متحد بھی رہیں اور آپس میں دست وگریباں بھی، چناں چہ اس کے لیے ہندوتو کی آئیڈیالوجی اپنائی گئی اور مسلمانوں کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا، اس گروہ نے ایسا منظم اور مستحکم کام کیا کہ سیکولرزم اختیار کرنے والا برہمنوادی گروہ بھی آہستہ آہستہ نرم ہندوتو کی طرف بڑھنے لگا۔ تیسرے دور کی غلامی کی اصل حکمت عملی یہی ہے ، اور اسی حکمت عملی کو بنیاد بنا کر ہندو راشٹر (برہمن راشٹر) قائم کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے دور غلامی اور موجودہ تیسرے دور غلامی میں کئی خصوصیات مشترک ہیں، دوسرے دور غلامی میں باغی طبقہ کو سیاسی، سماجی ،معاشی ہر اعتبار سے اچھوت بنایا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی باغی طبقہ یعنی مسلمانوں کو ہر اعتبار سے اچھوت بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، (واضح رہے کہ بھارتی مسلم قوم کے پوروجوں نے آمد اسلام کے وقت برہمنواد سے بغاوت کی تھی)، دوسرے دور غلامی میں گائے کے نام پر اچھوت بنایا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی مسلمانوں کو گائے کے نام پر اچھوت بنایا جا رہا ہے، دوسرے دور غلامی میں گائے کے نام پر اچھوتوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے شودر کو استعمال کیا گیا، موجودہ دورغلامی میں بھی گائے کے نام پر مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے شودر یعنی او بی سی کا استعمال کیا جارہا ہے، دوسرے دور غلامی میں باغی طبقے پر حملہ کرنے کے لیے شودر کو استعمال کیا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی اوبی سی کو استعمال کیا جارہا ہے، دوسرے دور غلامی میں شودر کو گائے کے تقدس کا دیوانہ بنایا گیا موجودہ دور میں بھی او بی سی کو گائے کے تقدس کا دیوانہ بنایا گیا، دوسرے دور غلامی میں بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کردیا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کیا جارہا ہے،دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے گوتم بدھ کی مورتیوں کے آگے سر جھکا کر بدھسٹوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی موجودہ دور غلامی میں بھی یہ لوگ امبیڈکر کی مورتی کے آگے سر جھکا کر امبیڈکر وادیوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، دوسرے دور غلامی میں شودر واتی شودر کو آپس میں لڑا کر برہمن راج کرتا رہا موجودہ دور غلامی میں بھی مسلمانوں اور بہوجنوں کو آپس میں لڑا کربرہمن راج کر رہا ہے، دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے بدھسٹ خانقاہوں، تعلیمی اداروں اور حکومتی محکموں میں گھس کر قیادت اپنے ہاتھ میں لی موجودہ دور حکومت میں بھی تمام جمہوری اداروں اور محکموں میں گھس کر قیادت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے،دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے حکومتی اقتدار کی راہ ہموار ہونے تک ’’سنگھ‘‘ کے ذریعہ سماج کے اندر گھس کر کام کیا، موجودہ دور غلامی میں بھی ان لوگوں نے حکومتی اقتدار کی راہ ہموار ہونے تک ’’سنگھ‘‘ کے ذریعہ سماج کے اندر گھس کر کام کیا؛ البتہ دوسرے دور غلامی اور تیسرے دور غلامی میں ایک بڑا فرق ہے جو اوپر بھی ذکر ہوا ہے کہ دوسرے دور غلامی میں بدھ مت اس برہمنواد کا پلٹ وار نہ سہہ سکا اور اس کی انفرادی شناخت باقی نہ رہی؛ مگر اسلام اس ملک میں آج بھی اپنی غیر محرف شکل میں وحدت الہ اور وحدت انسانیت کا علم لیے سینہ تانے کھڑا ہے، برہمنواد اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ وہ اسلام کی شکل اور مسلمانوں کے تشخص کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا تو پھر تیسرے دور کی غلامی کا کام کیسے مکمل ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اچھوت بنا کر برہمنواد اپنے مقصد کی تکمیل کرے گا، مسلمانوں کو اچھوت اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب ان کا رشتہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی سماج سے مکمل کاٹ دیا جائے ، اور یہ اسی وقت ہوگا جب مسلمانوں کے خلاف ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو’’ ہندو‘‘ کے نام پر بھڑکایا جاتا رہے۔
Friday, February 18, 2022
Ipc کے دھارے
ساالسلام علیکم وَرَحْمَةُاللَّهِ وَبَرَكَــــــــــاتُة
مجھے بڑی مفید پوسٹ ملی ہے
کاپی کر کہ لگا رہا ہوں
آئی پی سی میں دھاروں کے معنی جانیں ..... *
* دفعہ 307 * = قتل کی کوشش کی
* دفعہ 302 * = قتل کی سزا
* دفعہ 376 * = عصمت دری
* دفعہ 395 * = ڈکیتی
* دفعہ 377 * = غیر فطری حرکتیں
* دفعہ 396 * = ڈکیتی کے دوران قتل
* دفعہ 120 * = سازش
* سیکشن 365 * = اغوا
* دفعہ 201 * = ثبوت کا خاتمہ
* دفعہ 34 * = سامان کا ارادہ
* دفعہ 412 * = خوشی منانا
* دفعہ 378 * = چوری
* دفعہ 141 * = غیر قانونی جمع
* دفعہ 191 * = غلط ھدف بندی
* دفعہ 300 * = قتل
* دفعہ 309 * = خودکش کوشش
* دفعہ 310 * = دھوکہ دہی
* دفعہ 312 * = اسقاط حمل
* دفعہ 351 * = حملہ کرنا
* دفعہ 354 * = خواتین کی شرمندگی
* دفعہ 362 * = اغوا
* دفعہ 415 * = چال
* دفعہ 445 * = گھریلو امتیاز
* دفعہ 494 * = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا
* دفعہ 499 * = ہتک عزت
* دفعہ 511 * = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔
4
ہمارے ملک میں ، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں ، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں ، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔
تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں
* پانچ دلچسپ حقائق * آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں ،
جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
* (1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا * -
ضابطہ فوجداری کے تحت ، دفعہ 46 ، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل ، بھارتی پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی ، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔
* (2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔
عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت ، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
* (3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں * -
انڈین سیریز ایکٹ ، 1887 کے مطابق ، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے ، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔
* (4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا * -
زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق ، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
* (5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا *
آئی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق ، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو ، اسے کم سے کم * (6) * ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں
* یہ پیغام اپنے پاس نہ رکھیں ، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ *
علی میاں رح کی بصیرت افروز تحریر
سس*مولانا علی میاں کی بصیرت افروز تحریر پڑھیں گے تو حروف آنسو بنتے جائیں گے*
-------------------------
ﺍﺑﻮﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﯽ ﻧﺪﻭﯼ
*اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ* ! *ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ؟*
ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ‘ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﯽ
ﻣﺮﮐﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ھﮯ‘
ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ‘
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺟﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﮔﺘﯽ‘
ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ:
اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ !
ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ ! ﺳﻨﻮ !
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ،
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﻮﮐﮫ ﮔﺌﮯ٫
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ؟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮباﺯﻭ ﺍﺏ ﺷﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭیں زنگ آلود‘
ﺍﺏ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻗﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻡ ﮨﻮ۔
ﺩﯾﮑﮭﻮ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻻ ﮨﮯ‘
ﮨﻤﺎﺭﺍ لباﺱ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﮯ ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﻮﻣﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺷﻌﺎﺭ *ﭨﺎﺋﯽ* ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﮨﻢ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ تھے‘ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﭼﮑﮯ تھے‘ ﺍﺏ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ‘ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ‘
اﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﺏ ﺗﻢ ھﺮﺷﻌﺒﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞ اﻭﺭ ﮐﺎﻟﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﮨﮯ‘
تمھاﺭﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﮑﮧ ﮨﮯ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺗﻢ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮﻗﺮﺽﺩﺍﺭ ﮨﻮ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ‘
تمھاﺭﯼ ﻣﻨﮉﯾﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺣﻢ ﻭﮐﺮﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ناﺯ ﺗﮭﺎ ‘ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ”ﺫﺭﺍ ﻧﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﭩﯽ ﺑﮍﯼ ﺯﺭﺧﯿﺰ ﮨﮯ ﺳﺎﻗﯽ“
ﺗﻮ ﺳﻨﻮ! ﺍﺱ ﺯﺭ ﺧﯿﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ھﯿﺮﻭﺋﻦ ﺑﮭﺮﮮ ﺳﮕﺮﯾﭧ‘ ﺷﮩﻮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺗﺼﻮﯾﺮﻭﮞ ‘
ھﯿﺠﺎﻥ ﺧﯿﺰ، ﺯﻧﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﮨﻮﺱ زﺭ ﮐﺎ ﺁﺏِ ﺷﻮﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻨﺠﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
تمھیں اﭘﻨﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﺗﮭﺎ‘
ﺍﺏ ﺟﺎﺅ! ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ‘ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ تمھاﺭﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﺭﮨﻢ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ‘
ﺍﺏ ﺗﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ۔
بوﺳﻨﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺣﺸﺮ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
ﺟﺎﺅ ! ﺍﺏ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ‘
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺮﻣﻮ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ‘
ﺧﺒﺮ ﺩﺍﺭ ! ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻼﻣﯽ ﺳﮯ نکلنے ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ھﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ‘
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﻌﻨﯽ اﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﺨﺘﮕﯽ ‘ ﺟﻮﺵِ ﺟﮩﺎﺩ‘ ﺑﺎﻟﻎ ﻧﻈﺮﯼ ‘ ﻏﯿﺮﺕِ ﺩﯾﻦ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ‘ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺁﺳﺎﺋﺸﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﮮ ﮐﺮ
ﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ
ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ ﺫریعہ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ‘
ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ اﺗﺮ ﻭﺍﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺶ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺩﺍﻧﮕﯽ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮨﮯ۔
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻟﺪ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﺭﻕ‘
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﭙﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ھﻮﺳﮑﺘﺎ۔
اﻭﺭ ﺳﻨﻮ ! ﮨﻢ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ‘
ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻤﺄ ﮐﮯ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭﻣﺪﺭﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﮑﻔﯿﺮ ﮐﺮﮐﮯﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮍ ﻟﮍ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﻧﮯ ترﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺤﺪ اﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻓﻠﺴﻔﮯ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﯽ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯ
ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎﯾﺎ‘
تمھارے ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺀ‘ ﺑﮯﻏﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺩﯾﻦ‘ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍﺷﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ‘
ھﻢ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺬﮨﺐ ﻧﮯ
ﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ‘ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻭﮦ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ‘ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ تنگ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ‘ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ رﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ آﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ
اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ !
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
(ﻣﺄﺧﻮﺫ: ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﺍﻧﮧ
ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧفﻮﺫ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ)
نئی تعلیمی پالیسی
اسhttps://nvshq.org/article/new-national-education-policy-nep-2020/
*بریکنگ نیوز*
کابینہ نے نئی تعلیمی پالیسی کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ 34 سال بعد تعلیمی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل ہیں۔
*5 سال بنیادی*
1. نرسری @4 سال
2. Jr KG @ 5 سال
3. Sr KG @ 6 سال
4. درجہ اول @ 7 سال
5. جماعت دوم @8 سال
*تین سال کی تیاری*
6. جماعت 3 @ 9 سال
7. درجہ 4 @ 10 سال
8. 5ویں جماعت @ 11 سال
*3 سال درمیانی*
9. 6ویں جماعت @12 سال
10.Std 7th @13 سال
11۔ 8ویں @ 14 سال
*4 سال سیکنڈری*
12. 9ویں جماعت @ 15 سال
13.Std SSC @16 سال
14.Std FYJC @17 سال
15.STD SYJC @ 18 سال
*خصوصی اور اہم باتیں*:
*بورڈ صرف 12ویں کلاس میں ہوگا، ایم فل بند ہوگی، کالج کی ڈگری 4 سال*
*دسویں کا بورڈ ختم، ایم فل بھی بند،*
* اب پانچویں جماعت تک کے طلباء کو صرف مادری زبان، مقامی زبان اور قومی زبان میں پڑھایا جائے گا۔ باقی مضمون، چاہے وہ انگریزی ہی کیوں نہ ہو، بطور مضمون پڑھایا جائے گا۔*
*اب صرف 12ویں بورڈ کا امتحان دینا ہوگا۔ جبکہ پہلے دسویں کا بورڈ امتحان دینا لازمی تھا جو اب نہیں ہوگا۔
*امتحان 9ویں سے 12ویں جماعت کے سمسٹر میں ہوگا۔ سکولنگ 5+3+3+4 فارمولے کے تحت پڑھائی جائے گی۔*
ساتھ ہی، کالج کی ڈگری 3 اور 4 سال کی ہوگی۔ یعنی گریجویشن کے پہلے سال پر سرٹیفکیٹ، دوسرے سال ڈپلومہ، تیسرے سال میں ڈگری۔
*3 سالہ ڈگری ان طلباء کے لیے ہے جو اعلیٰ تعلیم نہیں لینا چاہتے۔ جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو 4 سالہ ڈگری کرنا ہوگی۔ 4 سالہ ڈگری کرنے والے طلباء ایک سال میں ایم اے کر سکیں گے۔
اب طلباء کو ایم فل نہیں کرنا پڑے گی۔ بلکہ ایم اے کے طلباء اب براہ راست پی ایچ ڈی کر سکیں گے۔
*دسویں میں بورڈ کا امتحان نہیں ہوگا۔*
طلباء درمیان میں دوسرے کورسز کر سکیں گے۔ اعلیٰ تعلیم میں داخلے کا مجموعی تناسب 2035 تک 50 فیصد ہو جائے گا۔ ساتھ ہی، نئی تعلیمی پالیسی کے تحت، اگر کوئی طالب علم کسی کورس کے درمیان میں دوسرا کورس کرنا چاہتا ہے، تو وہ دوسرا کورس کر سکتا ہے۔ ایک محدود وقت کے لیے پہلے کورس سے وقفہ کریں۔
*اعلیٰ تعلیم میں بھی بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں۔ اصلاحات میں درجہ بند تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی خود مختاری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی زبانوں میں ای کورسز شروع کیے جائیں گے۔ ورچوئل لیبز تیار کی جائیں گی۔ ایک قومی تعلیمی سائنسی فورم (NETF) شروع کیا جائے گا۔ بتا دیں کہ ملک میں 45 ہزار کالج ہیں۔
*سرکاری، نجی، سمجھے جانے والے تمام اداروں کے لیے یکساں اصول ہوں گے۔*
حکم سے :-
(عزت مآب وزیر تعلیم، حکومت ہند)
Thursday, February 17, 2022
ووٹر لسٹ میں نام نہ ہو تو
سسجب آپ پولنگ بوتھ پر پہنچیں اور دیکھیں کہ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں نہیں ہے، تو بس اپنا آدھار کارڈ یا ووٹر شناختی کارڈ دکھائیں اور سیکشن 49A کے تحت "چیلنج ووٹ" مانگیں اور اپنا ووٹ ڈالیں۔
اگر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے پہلے ہی آپ کا ووٹ ڈال دیا ہے، تو "ٹینڈر ووٹ" طلب کریں اور اپنا ووٹ ڈالیں۔
اگر کسی پولنگ بوتھ میں ٹینڈر ووٹوں کا 14% سے زیادہ ریکارڈ ہوتا ہے تو ایسے پولنگ بوتھ میں دوبارہ پولنگ کی جائے گی۔
اس اہم پیغام کو زیادہ سے زیادہ گروپوں اور دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔
ایڈووکیٹ شعیب میمن
Subscribe to:
Comments (Atom)