Monday, April 4, 2022
مسلم ایجادات
دفطھ*اس امریکی پروفیسر نے مسلمانوں کے بغیر دنیا کا تصور کیا اور انتہائی حیران کن نتائج برآمد کیے!*
ایان بریمر*، ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ اور یونیورسٹی کے پروفیسر نے دراصل مسلمانوں کے بغیر دنیا کا تصور کیا تھا اور یہ پوسٹ کچھ ہی دیر میں وائرل ہو گئی… مزید برآں، اس نے میم پر شاندار ردعمل ظاہر کیا۔
ایان بریمر نے ٹوتھ برش سے لے کر ہسپتالوں تک مسلمانوں کی تمام ایجادات پر روشنی ڈالی۔
مسلمانوں کے بغیر آپ کے پاس یہ نہیں ہوگا:
کافی
کیمرے
تجرباتی طبیعیات
شطرنج
صابن
شیمپو
پرفیوم/اسپرٹ
آبپاشی
کرینک شافٹ، اندرونی دہن انجن، والوز، پسٹن
امتزاج کے تالے
آرکیٹیکچرل اختراع (پوائنٹڈ آرچ - یورپی گوتھک کیتھیڈرلز نے اس تکنیک کو اپنایا کیونکہ اس نے عمارت کو بہت مضبوط بنایا، گلاب کی کھڑکیاں، گنبد عمارتیں، گول ٹاور وغیرہ)
جراحی کے آلات
اینستھیزیا
پون چکی
کاؤپاکس کا علاج
روشنائ والا قلم
نمبر سازی کا نظام
الجبرا/ٹرگنومیٹری
جدید کرپٹولوجی
3 کورس کا کھانا (سوپ، گوشت/مچھلی، پھل/گری دار میوے)
کرسٹل شیشے
قالین
چیک کرتا ہے۔
باغات جو جڑی بوٹیوں اور باورچی خانے کے بجائے خوبصورتی اور مراقبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
جامع درس گاہ
آپٹکس
موسیقی
ٹوتھ برش
ہسپتالوں
غسل کرنا
لحاف
میرینر کا کمپاس
سافٹ ڈرنکس
پینڈولم
بریل
کاسمیٹکس
پلاسٹک سرجری
خطاطی۔
کاغذ اور کپڑے کی تیاری
یہ ایک مسلمان تھا جس نے محسوس کیا کہ روشنی ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے، یونانیوں کے برعکس جو سوچتے تھے کہ ہم شعاعوں کا اخراج کرتے ہیں، اور اس نے اس دریافت سے ایک کیمرہ ایجاد کیا۔
یہ ایک مسلمان تھا جس نے پہلی بار 852 میں اڑان بھرنے کی کوشش کی، حالانکہ یہ رائٹ برادران نے کریڈٹ لیا ہے۔
یہ جابر بن حیان کے نام سے ایک مسلمان تھا جو جدید کیمیا کے بانی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس نے کیمیا کو کیمسٹری میں بدل دیا۔ اس نے ایجاد کیا: کشید، طہارت، آکسیکرن، بخارات، اور فلٹریشن۔ اس نے سلفیورک اور نائٹرک ایسڈ بھی دریافت کیا۔
یہ الجزاری کے نام سے ایک مسلمان ہے جسے روبوٹکس کا باپ کہا جاتا ہے۔
یہ ایک مسلمان تھا جو ہنری پنجم کے قلعے کا معمار تھا۔
یہ ایک مسلمان تھا جس نے آنکھوں سے موتیا بند چوسنے کے لیے کھوکھلی سوئیاں ایجاد کیں، یہ تکنیک آج بھی استعمال ہوتی ہے۔
یہ ایک مسلمان تھا جس نے کاؤ پاکس کے علاج کے لیے ٹیکہ لگانے کی دریافت کی، جینر اور پاسچر کو نہیں۔ مغرب اسے ترکی سے لے کر آیا ہے۔
یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ریاضی جیسے الجبرا اور مثلثیات میں بہت زیادہ حصہ ڈالا، جو 300 سال بعد یورپ میں فبوناکی اور باقیوں کو درآمد کیا گیا۔
یہ مسلمانوں نے ہی دریافت کیا تھا کہ زمین گلیلیو سے 500 سال پہلے گول ہے۔
فہرست جاری ہے.........
حوالہ جرمن دستاویزی فلم ہے۔
https://youtu.be/L1boEHaKAzE
برطانوی فلم
https://youtu.be/dOsHenGodD0
بی بی سی کی رپورٹ
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2550624671839359&id=1391449297756908
سبحان اللہ
یہ انتہائی منفرد معلومات مسلم کمیونٹی کے لیے حیران کن اور خوش کن ہے۔
Sunday, April 3, 2022
اسلام اور دیگر مذاہب کے روزوں کا فرق
dfاسلام اور دیگر مذاہب کے روزوں کا فرق
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
*روزہ* اسلام کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے، *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے جن پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا ان میں ایک روزہ بھی ہے ۔*قرآن مجید* سے اس کی فرضیت اور اہمیت ثابت ہے ۔ روزے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام کی طرح دوسرے ادیان و مذاہب کا بھی لازمی جز رہا ہے حتی کہ ان اقوام میں بھی جن کا اہل کتاب ہونا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے روزہ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے ۔
*قرآن مجید* میں روزہ کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ *صیام* ہے جو *صوم* کی جمع ہے *صوم* کے لغوی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت انسانی خواہشات، بہیمی جذبات اور سفلی میلانات سے بچنے اور رکنے کا نام ہے ۔ *اللہ تعالٰی* نے انسان کے اندر دو طرح کی قوتیں ودیعت کی ہیں ۔ *حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح* نے انہیں *قوت بہیمی* اور *قوت ملکی* سے تعبیر فرمایا ہے ۔ پہلی قوت معائب و مفاسد کا مجموعہ اور سر چشمہ ہے ،جب کے دوسری قوت خیر و خوبی اور نیکیوں کا مجموعہ ہے ۔ انسان کی بیہمی و شہوانی قوت کی شدت و جوش عام طور پر کھانے پینے کی کثرت اور جنسی لذتوں میں مشغولیت و انہماک سے پیدا ہوتی ہے ،اس لئے مذہب اسلام نے اس جوش و شدت کو کم کرنے اور انسان کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرنے کے لئے روزے کے دنوں میں کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روک دیا ہے یہی روزے کا شرعی اور اصطلاحی مفہوم ہے ۔
مذہب اسلام نے دیگر عبادات کی طرح روزے کو بھی نہایت مکمل اور جامع صورت دی ہے، دیگر مذاہب و ادیان میں جو غلو بے اعتدالی اور افراط و تفریط پائی جاتی تھی ان سے اسلام کے روزے یکسر خالی اور تمام تر فطرت کے مطابق ہیں ۔
*بعض* مذاہب و ادیان نے روزے کو اپنے متبعین میں سے کچھ مخصوص لوگوں پر ضروری اور لازمی قرار دیا تھا باقی لوگ اس فریضے سے مستثنی تھے ۔ لیکن اسلام نے بلا تخصیص ہر عاقل و بالغ شخص کو روزے کا مکلف بنایا ہے اور عورت و مرد عالم و عامی شاہ و گدا امیر و غریب آقا و غلام حاکم و محکوم میں کوئی فرق و تمیز روا نہیں رکھا ہے ،بعض مذاہب میں روزے کے سلسلہ میں غیر معمولی شدت پائی جاتی تھی،چنانچہ یہود کے یہاں چالیس دن کے روزے فرض تھے ،اسی طرح بعض لوگ شب و روز کے مسلسل یعنی چوبیس گھنٹے لگاتار روزے رکھتے تھے ،عیسائ مذہب میں راہب اور پادری کئی کئی دنوں اور جینی مذہب کے ماننے والے ایک ایک ہفتہ متواتر روزے رکھتے تھے۔ اسی طرح یہود کے یہاں یہ انتہا پسندی تھی کہ روزہ کھولنے کے بعد ایک دفعہ کھا پی لینے کے بعد دوبارہ کھانا پینا ممنوع ہو جاتا تھا ۔ اور اسی وقت سے دوسرا روزہ شروع ہوجاتا تھا۔
اسلام نے روزے کے اوقات کے لئے ان سختیوں اور بے اعتدالیوں کو ختم کرکے صرف طلوع صبح سے غروب آفتاب کے وقت تک کھانا پینا ممنوع قرار دیا اور شب کے اوقات میں کوئ پابندی عائد نہیں کی، بعض قوموں کے یہاں روزے کے دنوں کی طرح راتوں کو بھی ازدواجی تعلقات ممنوع تھے ۔ ابتداء مسلمانوں میں بھی یہی طریقہ رائج تھا ،لیکن ظاہر ہے یہ غیر فطری صورت برقرار نہیں رہ سکتی تھی،اس لئے اسلام نے صرف روزہ کی حالت میں مخصوص اوقات کے اندر ہی اس قید کو باقی رکھا ۔ بعض مذاہب میں یہ عجیب و غریب شدت پائی جاتی تھی کہ روزے جن لوگوں پر فرض تھے ان سے کسی حال میں ساقط نہیں ہوسکتے تھے ۔ یہاں تک کہ مجبوری اور معذوری کی صورت میں بھی ان کی ادائیگی لازمی تھی،یہود کے یہاں اگر روزے میں غیر یہودی مسافر بھی آجاتا تو اس کو روزہ رکھنے کے لئے مجبور کیا جاتا تھا ،لیکن اسلام نے اصول فطرت کے مطابق معذور و مجبور لوگوں کو رخصت دی ہے کہ وہ مجبوری اور عذر کے رفع ہوجانے کے بعد روزے رکھیں، مریضوں، مسافروں اور کمزوروں کے علاوہ ایام حمل ،رضاعت و حیض میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور شیخ فانی کو روزہ کے بدلے فدیہ دینا کافی ہوگا ۔ اس شدت کے مقابلے میں بعض مذاہب کی نرمی کا یہ حال تھا کہ روزے میں بعض مخصوص قسم کی غذائیں مثلا غلہ اور گوشت وغیرہ کھانا تو ممنوع تھا ،لیکن پھلوں اور سبزیوں کے کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ،مگر اسلام نے اوقات صیام کے اندر ہر قسم کے اکل و شرب یعنی کھانے پینے پر پابندی عائد کردی ہے ۔ ( مستفاد ماہنامہ زندگی اکتوبر ۱۹۷۶ء)
مذھب اسلام نے ایک ہی ماہ روزہ کے ایام کی تحدید کی، جو ہر اعتبار سے موزوں اور مناسب ہے اور عین فطرت کے مطابق ہے،کیونکہ *روزہ* کا مقصد تذکئہ روح ،تصفیہ قلب ،اصلاح حال و اعمال، تہذیب اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار ہے، اس لئے اس کی مدت نہ تو اتنی زیادہ مقرر کی گئی جو عام لوگوں کی قوت برداشت سے باہر ہو اور نہ ہی اتنی کم کہ اصل مقصود ہی فوت ہوجائے ۔ *علامہ سید سلیمان ندوی رح* ایک ماہ روزے کی تحدید کی حکمت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :
*روزہ ایک قسم کی دوا ہے اور دوا کو بقدر دوا ہی ہونا چاہیے تھا،اگر پورا سال اسی دوا میں صرف کیا جاتا تو یہ ایک غیر طبعی علاج ہوتا اور مسلمانوں کی جسمانی جد و جہد کا خاتمہ ہوجاتا اور ان کی شگفتئ مزاج مٹ جاتی جو عبادات کا اثر قبول کرتی ہے،لیکن اگر ایک دو روز کا تنگ اور محدود زمانہ رکھا جاتا تو یہ اتنی کم مدت تھی کہ اس میں دوا کا فائدہ ظاہر نہ ہوتا ،اس لئے اسلام نے روزہ کے لئے سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ کا زمانہ مقرر کیا ،اس ایک مہینہ کی تخصیص کی بھی ضرورت تھی تاکہ تمام افراد امت بیک وقت اس فرض کو ادا کرکے اسلام کے نظام وحدت کا مظاہرہ کریں اور اس کے لئے وہی زمانہ موزوں تھا ،جس میں خود قرآن نازل ہونا شروع ہوا۔* ( سیرت النبی ۵/ ۲۲۱)
*اسلامی* روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روزے میں شمسی سال کا اعتبار نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کی وجہ سے روزہ کا زمانہ اور موسم متعین ہوجاتا جو کسی حال میں بدل نہیں سکتا،اس طرح جن ملکوں اور قوموں میں روزے کا زمانہ گرمی میں پڑتا اس کے لئے تکلیف دہ صورت ہمیشہ باقی رہتی اور جن لوگوں کے یہاں سردی کے زمانے میں روزے کا موسم ہوتا ان کو یہ آسانی ہمیشہ میسر رہتی ،اسلام نے اس غیر معتدل صورت کا خاتمہ اس طرح کیا کہ روزے کے معاملے میں شمسی کے بجائے قمری تاریخوں کا لحاظ کیا ہے ۔
*غلطی* اور بھول چوک انسانی فطرت ہے یہ چیز انسان کی خمیر اور سرشت میں داخل اور شامل ہے کوئی فرد بشر اس سے محفوظ نہیں ہے الا یہ کہ جس کی حفاظت خود خدائے وحدہ لاشریک کرے ۔ اس لئے اگر روزہ کی حالت میں روزہ دار بھول کر کچھ کھا پی لے یا غیر ارادی طور پر اس سے کوئی ایسا فعل ہوجائے یا کوئی لغزش سرزد ہوجائے جو روزے کے منافی ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا دیگر مذاہب میں خاص طور پر یہود روزے کو مصائب کی علامت تکالیف کی نشانی اور غم کی یاد گار خیال کرتے تھے ،اس لئے روزے کی حالت میں وہ زیب و زینت ترک کرکے اپنی صورت کو غم زدہ اور رنجیدہ بناتے تھے ،اسلام نے روزوں کو غم کے بجائے خوشی اور نعمت کی یاد گار بتایا اور اس حالت میں حساس بشاش رہنے کی تاکید کی ہے اور زیب و زینت اور طہارت و نظافت کی جو صورتیں ہیں مثلا مسواک کرنا ،خوشبو لگانا ،سرمہ لگانا ہاتھ دھونا نہانا وغیرہ سب کو جائز قرار دیا ۔ *حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ* کا ارشاد ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ *جب کوئی روزہ رکھے تو تیل لگانا چاہیے یعنی بن سنور کر رہنا چاہیے تاکہ اس پر روزے کا اثر و نشان نہ دکھائ دے ۔ مضمحل اور سست معلوم نہ ہو* ۔
*اسلام* نے روزے داروں کو روزے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے کا حکم دیا اور تعاون و نصرت کی ترغیب دی تاکہ غریبوں اور یتیموں ناداروں اور بیواؤں کی زیادہ سے زیادہ مدد ہو سکے اور بے سہارا اور محتاج لوگ بھی اسلامی تہوار کی خوشیوں میں برابر شریک ہوسکیں ۔ دوسروں کو افطار کرانے اور مزدوروں کی اوقات مزدوری میں تخفیف کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ۔
جان بوجھ کر روزہ ٹوڑ دینے یا ضعف و بیماری کی صورت میں روزہ نہ رکھنے پر فدیہ اور کفارہ کی شکلیں اور صورتیں بتائیں اور لازمی طور پر اس کو ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ مخلوق خدا کی مالی خدمت اور تعاون ہوسکے ۔ روزہ کے اختتام پر صاحب حیثیت اور صاحب نصاب پر صدقئہ فطر واجب کیا تاکہ روزہ کی حالت میں جو کمی اور کوتاہی ہوئی ہو اس کی تلافی ہوسکے اور اس بہانے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد ہوجائے تاکہ وہ اور ان کے بچے بھی روزے کے شکرانے کے طور پر جو عید کی خوشی منائی جاتی ہے اور اچھے اور نئے لباس میں لوگ ملبوس ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو اچھا سے اچھا پہناتے ہیں اس خوشی میں ان کے بچے بھی شامل ہوسکیں اور کسی کو اپنی کمتری کا احساس نہ ہو ۔
Friday, April 1, 2022
اجرت تراویح کا جواز
فھ*بسم اللہ الرحمن الرحیم* :
تراویح کی اجرت کو ناجائز کہنے کی بنیاد یہ ہے کہ یہ تلاوت مجردہ کے مشابہ ہے اور جس طرح تلاوت مجردہ پر اجرت ناجائز ہے اسی طرح اس پربھی اجرت لینا ناجائز ہے، اس میں پہلا مقدمہ( یہ تلاوت مجردہ کے مشابہ ہے) تسلیم نہیں اس لئے کہ تلاوت مجردہ میں مقصود تلاوت ہی ہے جس کا فائدہ ثواب ہے اس کی اجرت لیں گے تو ثواب کو بیچنا لازم آ ءے گا جو کہ درست نہیں؛ مگر تراویح میں مقصود ختم قرآن مجید نہیں؛ بلکہ نماز تراویح ہے، دلیل اس کی یہ ہے اگر تراویح میں ختم قرآن کی وجہ سے لوگوں پر گرانی ہو اور مسجد کی جماعت تراویح میں وہ اس کی وجہ سے شریک نہ ہوں تو ایسی صورت میں فقہاء کرام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ پورا ختم نہ کیا جائے اور جماعت کی کثرت کو باقی رکھنے کی غرض سے قرآن پاک کا تھوڑا تھوڑا حصہ ہی پڑھ کر تراویح کی نماز مکمل کرلی جائے؛ مگر اس کے برعکس فقہاء کرام نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ کے لوگ مجموعی طور پر تراویح کی نماز کو ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے گا، غور فرمائیں ختم قرآن کے ترک پر قتال کا حکم نہیں جبکہ تراویح کے ترک پر قتال کا حکم ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل ہے تراویح کی نماز، نہ کہ اس میں ختم قرآن جب یہ بات ثابت ہو گئ تو جو اصل ہے حکم اس پر لگے گا(اور اصل تروایح کی نماز کا ہونا ابھی واضح ہوچکا )؛ لہذا اجرت تراویح کی نماز کی امامت کی ہو گی نہ کہ اس میں ختم قرآن کی؛ کیوں کہ وہ تابع ہے اور تابع پر حکم نہیں لگتا، کماهو مصرح فی کتب الفقہ. اور جب اجرت تراویح کی نماز کی امامت پر ٹھہری تو اس امامت پر اجرت بالکل اسی طرح درست ہو گی، جس طرح پنج وقتہ نمازکی امامت ، عیدین کی نماز کی امامت ، نماز جنازہ وغیرہ کی امامت پر اجرت درست ہے.
یہی وجہ ہے کہ کسی فقہ کی کتاب میں تراویح کی امامت پر اجرت کا عدم جواز اور بقیہ نمازوں کی امامت کی اجرت کا جواز الگ الگ طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ ضرورتاً امامت کی اجرت کا استثناء مطلقاً بغیر کسی قید کے مذکور ہے اور جب امامت کی اجرت جائز ہے تو نماز تروایح کی امامت بھی امامت ہی ہے تو اس پر اجرت کے عدم جواز کا کیا مطلب؟
اور اگر یہ کہا جائے کہ مقصود اس میں ختم قرآن ہے، تو اس کا جواب اوپر آگیا کہ مقصود نماز تراویح ہے نہ کہ ختم قرآن لہذا امامت تراویح پر اجرت بلاشبہ درست ہے، اس کے عدم جواز کی کوئ وجہ نہیں؛ ہاں اگر کوئی صراحتاً ختم قرآن پرہی اجرت متعین کرے مثلاً یوں کہے کہ :تروایح میں پورا قرآن مجید ختم کرنے پر اتنے پیسے لوں گا ورنہ ختم نہیں کروں گا تو ایسی صورت میں بلاشبہ ایسا کرنا ناجائز ہو گا کہ اب صراحت کی وجہ سے ختم قرآن کی ہی اجرت ہوگی جوکہ درست نہیں الحاصل تروایح کی اجرت کو تلاوت مجردہ پر قیاس کرکے ناجائز قرار دینا درست نہیں کیونکہ تروایح میں اجرت ختم قرآن مجید پر نہیں؛ بلکہ امامت تروایح پر ہے لہذا تلاوت پر اجرت لینا نہیں ہوا جو کہ ناجائز ہے بلکہ امامت پر لینا ہوا جو کہ جائز ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر تروایح میں پورا قرآن مکمل نہیں پڑھا جاتا مگر وہاں بھی حافظ صاحب کی لوگ خدمت کرتے اور اچھی خاصی کرتے ہیں. نوٹ! حضرات اکابر رحمہم اللہ کے فتاوے میں جہاں بھی عدم جواز کی بات ہے وہ ختم قرآن پر ہے( جس کا بندہ بھی قائل ہے) امامت تراویح پر نہیں؛ بلکہ امامت تراویح کی اجرت کے جوازکا قول حضرات اکابر کے فتاوی میں موجود ہے، کفایت المفتی وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے .
خیر یہ بات تو اس لیے عرض کی گئ کہ اس کی امامت کی اجرت لینے کو ناجائز نہ سمجھا جائے، باقی اگر کوئی حافظ صاحب بغیر اجرت کے امامت کروائیں تو یہ بہت بہتر شکل ہو گی.
نوٹ! اس سلسلے میں تفصیل کے لیے *مفتی محمد سلمان صاحب قاسمی پالن پوری* (کھلی) کی کتاب *"اجرت تراویح اور خدمت امام دلائل کی روشنی میں"* کھلے دل کے ساتھ ملاحظہ کے قابل ہے، دلائل تشفی بخش ثابت ہوں گے. انشاءاللہ تعالیٰ.
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان گذارشات پر اہل علم حضرات ذرا سنجیدگی سے غور وفکر فرمائیں. ( آمین) فقط.
*محمد مرشد عفااللہ عنہ*
خادم الافتاء والتدريس :
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور.
Subscribe to:
Comments (Atom)