Thursday, June 30, 2022

موب لنچنگ کے مقتولین

लींचिंग (1) मोहसिन शैख़ पुणे 2 जून 2014 (2) अखलाक दादरी यूपी 28 सितंबर 2015 (3) पहलू खान अल्वर राजस्थान 5 अप्रैल 2017 (4) अफराजुल राजस्थान 7 दिसंबर 2017 शंभु रैगर (5) रकबर अल्वर राजस्थान 20 जुलाई 2018 (6) तबरेज़ अंसारी झारखंड 17 जून 2019 (7) अरबाज कर्नाटक अक्टूबर 2021 1/2 (8) आसिफ खान मेवात मई 2021 (9) समीर चौधरी शामली यूपी सितंबर 2021 (10) मोहम्मद अंजान इमरान बिहार अक्टूबर 2021 (11) दिलशाद हुसैन गोरखपुर यूपी जनवरी 2022 (12) राहुल खान हरियाणा दिसंबर 2021 (13) आलम रिज़वी बिहार फरवरी 2022 (14) ज़ैनुल अंसारी सीतामढ़ी बिहार 2018 2/3 (15) गुलनाज हाजीपुर बिहार 17 नवंबर 2020 (16) आमिर हंजला पटना बिहार 2019 (17) सनव्वर खातून बिहार अधारपुर जून 2021 (18) शौकत अली असम अप्रैल 2019 (19) जाबिर अंसारी झारखंड 18 अप्रैल 2020 (20) सुभान अंसारी झारखंड 11 मई 2020 (21) मुबारक खान झारखंड 13 मार्च 2021 3/4 (22) शौकत दिल्ली कंझावला 2020 (23) हाफिज जुनैद हरियाणा बल्लभगढ़ 2021 (24) अकबर खान अलवर राजस्थान 2018 (25) आजम अहमद कर्नाटक 15 जुलाई 2018 (26) अनवर अली यूपी सोनभद्र 20 मार्च 2019 (27) गुलाम अहमद यूपी बुलन्दशहर 2मई 2017 (28) शेर खान उर्फ शेरा यूपी मथुरा 4 जून 2021 4/5 (29) शाकिर कुरैशी यूपी मुरादाबाद साल? (30) मोहम्मद काशिम यूपी हापुड़ जून 2018

Wednesday, June 29, 2022

*مذمت کرتے ہیں مذمت کی!!!* از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327 *راجستھان کے اودے پورمیں گستاخ رسول کی توہین کرنے والی نوپورشرماکی تائید کرنےو الے ایک درزی کو دو مسلم نوجوانوں نے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا، جس کے بعد راجستھان میں حالات بےحد کشیدہ ہیں۔یہ حرکت جمہوری نظام میں ناقابل قبول ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہیے اور ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں کی ملی،سیاسی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ دینی اداروں اور علماء نے بھی اس حرکت کی بھرپور مذمت کی ہے اور مذمتی بیانات کے انبار سوشیل میڈیا سمیت ملک کے بیشتر اخبارات میں نمایاں طو رپر دکھائی دے رہے ہیں۔جمہوری نظام میں کسی کو سزادینا خصوصاً شرعی معاملات میں سزا دینے کااختیار کسی کو نہیں ہے،سوائے عدالتوں کے۔اودے پورکے نوجوانوں نے جو حرکت کی ہے وہ پوری طرح سے داعش کی مشابہت رکھتی ہے،اس سلسلے میں بھارت کے آئین کے مطابق انہیں سزا ملنی ہی چاہیے۔وہیں دوسری جانب پچھلے دس سالوں سے ملک میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اور درجنوں مسلمانوں کو سرعام قتل کیاگیاہے اور مسلمانوں کا جینا حرام کیاگیاہے وہ بھی معاملات قابل مذمت ہیں۔آج اودے پورکے معاملے میں قصوروار نوجوانوں کی جو مذمت ہورہی ہے وہ مذمت شائدہی اس سے پہلے سیلاب کی شکل میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران دیکھی گئی ہے،یہاں تک کہ خود مسلمانوں نے اتنے بڑے پیمانے پر مذمتی بیانات جاری نہیں کئے ہیںنہ ہی ان میں تلملاہٹ دیکھی گئی ہے۔تب اور اب میں بہت فرق دیکھاجارہاہے،ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اودے پورکے واقعہ کی مذمت نہیں کرنی چاہیے،بلکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جو تڑپ اور تلملاہٹ سے اس وقت مذمتی بیانات جاری ہورہے ہیں اُن بیانات کو اخلاق، جنید،پہلو خان، نجیب، اترپردیش کے نعمان، جھارکھنڈ کے مظلوم انصاری، آسام کے ابو حلیفہ اور ایازالدین،مغربی بنگال کےدیناپور کے ناصرالحق، محمد سمیر الدین،محمد ناصر، جھارکھنڈ کے اصغر انصاری،عثمان انصاری اور میوات کے عمرمحمد جیسےنوجوانوں نے کی موت بھی قابل مذمت ہے اس پر شائد مسلم طبقہ اتنی تیزی اور حرکت کے ساتھ مذمتی بیانات جاری نہیں کیاہے۔حق کی لڑائی میں لڑنے والے صدیق کپن، شمس تبریزاور محمد زبیر جیسے صحافیوں نے بھی حق کی لڑائی لڑنے کےا لزام میں جیلوں کو بھیجا گیاہے، جس پر مسلم قیادت کی خاموشی ہی قابل مذمت ہے۔دنیا جانتی ہے کہ آج جو پرچوں پر مذمتی بیانات جاری کررہے ہیں اُن کے دلوں میں کیاہے،یقیناً دنیا دکھائوے کی ہوگئی ہے۔جہاں اپنے ظلم کا شکار ہورہے ہیں اُن کیلئے کوئی آواز بلندنہیں ہورہی ہے اور دکھائوے کیلئے کئی مذمتی بیانات جاری ہورہے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ جو علماء اس وقت جیلوں میں ہیں اُن کی رہائی کیلئےکوئی فکرنہیں ہے۔مولانا کلیم صدیقی جیسے فعال عالم دین جیل کی صعبتوں کو جھیل رہے ہیں،اس پر مسلمانوں کی نظر کمزور ہوچکی ہے۔فہرست لمبی ہے جس پر مسلمانوں کی جانب سے مذمت ہونی باقی ہے،اگر سب کا وکاس سب کاساتھ کے فارمولے پر کام کرناہی ہے تو مسلمانوں کے وکاس اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہونے کی ضرورت ہے۔ہم مذمت کرتے ہیں ڈھکوسلے مذمتی بیانات کے۔*
گگ‏مائیكل ہارٹ نے اپنى كتاب’’ سو عظيم شخصيات‘‘ كو لكھنے ميں 28 سال كا عرصہ لگايا ، اور جب اپنى تاليف كو مكمل كيا تو لندن ميں ايك تقريب رونمائى منعقد كى جس ميں اس نے اعلان كرنا تھا كہ تاريخ كى سب سے ’’عظيم شخصيت‘‘ كون ہے؟ جب وہ ڈائس پر آيا تو كثير تعداد نے سيٹيوں ، شور اور ‏احتجاج كے ذريعے اس كى بات كو كاٹنا چاہا، تا كہ وہ اپنى بات كو مكمل نہ كر سكے۔ پھر اس نے كہنا شروع كيا: ايك آدمى چھوٹى سى بستى مكہ ميں كھڑے ہو كر لوگوں سے كہتا ہے ’’مَيں اللہ كا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں‘‘ ميں اس ليے آيا ہوں تاكہ تمہارے اخلاق و عادات كو بہتر بنا سكوں، ‏تو اسکی اس بات پر صرف 4 لوگ ايمان لائے جن ميں اس كى بيوى، ايك دوست اور 2 بچےتھے۔ اب اس كو 1400 سو سال گزر چكے ہيں۔ مرورِ زمانہ كہ ساتھ ساتھ اب اس كے فالورز كى تعداد ڈيڑھ ارب سے تجاوز كر چكى ہے۔۔۔ اور ہر آنے والے دن ميں اس كے فالوروز ميں اضافہ ہورہا ہے۔ ‏اور يہ ممكن نہيں ہے كہ وہ شخص جھوٹا ہے كيونكہ 1400 سو سال جھوٹ كا زندہ رہنا محال ہے۔ اور كسى كے ليے يہ بھى ممكن نہيں ہے كہ وہ ڈيڑھ ارب لوگوں كو دھوكہ دے سكے۔ ہاں ايك اور بات! اتنا طويل زمانہ گزرنے كے بعد آج بھى لاكھوں لوگ ہمہ وقت اس كى ناموس كى خاطر اپنى جان تك قربان كرنے ‏كے ليے مستعد رہتے ہيں. كيا ہے كوئى ايك بھى ايسا مسيحى يا يہودى جو اپنے نبى كى ناموس كى خاطر حتى كہ اپنے رب كى خاطر جان قربان كرے۔۔؟ بلا شبہ تاريخ كى وہ عظيم شخصيت ’’ حضرت محمد ﷺ‘‘ ہيں۔ اس كے بعد پورے ہال ميں اس عظيم شخصيت اور سيد البشر ﷺ كى ہيبت اور اجلال ميں خاموشى چھا گئى۔ ‏اگر آپ نے یہ اعزازی تحریر پڑھ لی ہے تو ایک بار درود پاک کا وِرد کیجئے اور اس پوسٹ کو شئیر / فاروڈ کر کے سب کے ساتھ اس عظیم شخصیت ﷺ کا تذکرہ کیجئے تا کہ ہر کسی کا ایمان پھر سے تازہ ہو جاۓ, شئیر کیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا ﷺ
عر[6/29, 3:51 PM] Mol Muzzammil Qasmi Sb: *دارالقضاء یا دارالفساد؟* *حضرت امیرِ شریعت کرناٹک دامت برکاتہ سے مخلصانہ گزارش!* *از سید مزمل احمد قاسمی ازہری* *خادم: جامعہ اسلامیہ فاتح العالمۖ* *بسم اللہ نگر - الکٹرانک سٹی, بنگلور* الحمدللہ! بصیرت اور شرحِ صدر کے ساتھ اِس عاجز نے اپنے چند قریبی دوستوں سے تقریباً 5 یا 6 سال قبل ہی یہ بات ظاہر کردی تھی کہ بنشنکری میں دار القضاء کے نام پر جو دکان لگ رہی ہے عنقریب لوگ اُس کی حقیقت کو پہچانیں گے, اور جلد ہی لوگوں کو اندازہ بھی ہوجائے گا کہ بنشنکری میں جو دار القضا ہے وہ در حقیقت دار القضاء نہیں بلکہ دار الشرّ اور دار الفساد ہے۔ یہ بات اِس عاجز نے اُسی وقت ظاہر کردی تھی جب دار القضاء کے قیام کے نام پر بنشنکری میں اجلاس عام منعقد کرکے کچھ لوگوں نے "قضاء اور دستار قضاء" جیسی اعلی ترین ذمہ داری کا مذاق اڑایا تھا۔ (یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ اُس اجلاس میں گرچہ شہر کے بعض ذمہ دار علماء کرام بھی شریک تھے مگر اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک اُن کی لاعلمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کمالِ عیاری اور چالاکی کے ساتھ دار القضاء کا یہ ناٹک رچایا گیا۔ اور بعض علماء کرام وہ بھی ہیں جب اُنھیں اِس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تو انھوں نے فتنے کی شنگینی کو اُسی وقت محسوس کرلیا اور پوری سختی کے ساتھ شرکت سے انکار کردیا۔) حقیقت یہ ہے کہ دار القضاء یا محاکم شرعیہ مسلمانوں کے عائلی قوانین اور مسائل جیسے نکاح، فسخِ نکاح، طلاق، ایلاء، ظہار، لعان، خلع، نفقہ، مہر، ثبوتِ نسب، امانت، جائیداد، حقِ شفعہ، ہبہ اور اوقاف جیسے معاملات میں تنازعات کے اُبھرنے پر رہبری و رہنمائی کے لئے قائم کئے جاتے ہیں۔ دورِ نبوت سے لیکر آج تک پوری تاریخ اسلامی کو پڑھ جائیے ان شاء اللہ آپ بہ چشم خود دیکھ لیں گے کہ ہر دور میں نظامِ قضاء کی عظمت و اہمیت مسلّم رہی ہے۔ نظام قضاء جیسے عظیم مگر بیحد نازک اور ذمہ دارانہ منصب کو سنبھالنے کے لئے امیر المؤمنین یا مسلمانوں کی جماعت حل و عقد کی طرف سے علومِ شرعیہ کے حامل اور فقہِ اسلامی کے ماہر کو قاضیٔ شریعت مقرّر کیا جاتا ہے جو شرعی اصول و آداب کی روشنی میں خالصة لوجہ اللہ مسلمانوں کے نزاعی معاملات میں فیصلہ کرتا ہے۔ *1.* اب آئیے دیکھتے ہیں کہ درج بالا سطور میں نظامِ قضاء کو سنبھالنے کے لئے جن اوصاف کے حامل قاضیٔ شریعت کی ضرورت ہے کیا وہ اوصاف بنشنکری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے اندر موجود ہیں؟ *2.* کیا دار القضاء کو سنبھالنے کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو دی جانی چاہئے جو اپنے یہاں آنے والے فریق یا فریقین کا استقبال ماں بہن کی گالیوں سے کرتے ہوں؟ *3.* کیا دار القضاء کے عنوان سے فیصلے اور سٹیلمنٹ کے نام پر ہزاروں لاکھوں روپیوں کی رشوت کا لین دین جائز ہے؟ *4.* کیا زبردستی خلع کے کاغذات پر دستخط کروانا یا کم از کم خلع کے لئے کسی کو بھی مجبور کرنا صحیح ہے؟ *5.* کیا فیصلوں کی آڑ میں مدرسے کے چندے کے لئے بڑی بڑی رقموں کا ڈیمانڈ کرنا صحیح ہے؟ *6.* جس دار القضاء میں فیصلوں کے نام پر رشوتیں لی جاتی ہوں, منتظمین کی جانب سے ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہوں کیا اُس دار القضاء پر اطمنان کرلیا جائے کہ وہاں اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہورہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کئی لوگ بنشنکری والوں کی شرارت سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر اپنے ازدواجی معاملات اِس عاجز کے پاس لے آتے ہیں, اور اللہ رب العزت کا کروڑہا کروڑ شکر و احسان ہے کہ یہ عاجز پوری دیانت داری کے ساتھ اُن کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اِس عاجز کی کوشش کو کامیاب بھی کردیتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارے پاس ہمارے پاس صلح, خلع اور طلاق کے معاملات میں فریقین کے درمیان فیصلوں کا سلسلہ تقریبا 7 سال سے قائم ہے اور الحمدللہ بے شمار مقدمات ہمارے ادارے کے ذریعہ فیصل کئے جاچکے ہیں۔ لیکن آج تک ہم نے اپنے اداروں پر دار القضاء یا محکمہ شرعیہ کا بورڈ آویزاں نہیں کیا۔ اور نہ ہی زوجین میں سے کسی کی غیر موجودگی کی بناء پر ہم فسخِ نکاح کرتے ہیں۔ رہی بات دارالقضاء بنشنکری کی تو ایک آدھ ہفتہ قبل میرے اپنے ایک دوست کے ذریعے مجھے معلوم ہوا تھا کہ "دار القضاء سبیل الرشاد, بنگلور" کی جانب سے بنشنکری والوں کو فسخ نکاح کی اجازت دی گئی ہے, مگر یہ بات کہاں تک درست ہے میں نہیں جانتا۔ لیکن اگر یہ حقیقت ہے تو پھر میں حضرت امیر شریعت کرناٹک مدظلہ العالی سے ادباً و احتراماً گزارش کرتا ہوں کہ فوراً اِس معاملہ میں مداخلت فرماکر مزید فتنہ و فساد کو پھیلنے سے اور بالخصوص گھروں بلکہ خاندانوں کو برباد ہونے سے بچائیں۔ جزاکم اللہ خیرا [6/29, 10:57 PM] Uzair Qasmi: میں نے خود بھی مولوی دستگیر سلمہ سے فسخ نکاح سے متعلق استفسار کیا تھا اور کہا تھا اس سے باز آجائیے یہ صرف اور صرف امیر المومنین کا حق ہے نیز فسخ نکاح میں مسیح العلوم شاہ ولی اللہ اور تعلیم القرآن تینوں ادارے سرجوڑ کر بیٹھ کر کوئی حتمی فیصلہ لیتے ہیں.
gشہروں میں ایک 'اجتماعی ترک ِسُنّت ' کی وبا عام ہورہی ہے ایک فکر انگیز بات خلاصہء بیان از: حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب (رکنِ شوریٰ درالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء مالیگاؤں) خطبہء جُمعہ بتاریخ 17 اگست کا خلاصہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی نمازیں عیدگاہ میں ادا کرنا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سُنّت ہے، جس میں بہت سی حِکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں لیکن آج کل عیدالاضحٰی کی نماز مسجدوں میں ادا کرنے کا رواج عام ہوگیا ہے جبکہ مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے کی اجازت صرف بوڑھوں، کمزوروں اور مریضوں کے لیے ہے ۔ لوگ اس ارادے سے کہ قربانی جلد کردیں مسجد میں نماز ادا کرلیتے ہیں، یہ طریقہ خلافِ سُنّت ہے ۔ کیا ہم نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، سے زیادہ سمجھدار اور اُن سے بڑی قربانی کرنے والے ہیں، جو اپنی مسجد 'مسجد ِنبوی ' جس میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار (50,000) نمازوں کے برابر ملتاہے وہ چھوڑ کر عید گاہ جاتے تھے؟ ذرا غور کریں کہ ہم کتنی اہم سُنّت کو پامال کررہے ہیں؟ اور اسلام کے ایک اہم حکمتوں بھرے حُکم کو ہلکا کررہے ہیں ۔ اور پھر ایک دو مسجدیں نہیں شہر کی تقریباً تمام مسجدوں میں عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی جاتی ہے، کیا یہ ایک عظیم سُنّت کو ٹھکرانا نہیں ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ شہر کی کچھ مسجدوں میں صرف بوڑھوں اور مریضوں کے لیے عید کی نماز کا انتظام کردیا جاتا اور باقی سارے لوگ عید گاہ میں نماز ادا کرتے۔ یاد رہے جو ٹرسٹیان اپنی مسجدوں میں عید کی نماز کا انتظام کروا رہے ہیں وہ لوگ بھی 'ترک ِسُنّت ' کے گناہ میں شریک ہورہے ہیں اور ایک گناہ میں اعانت کررہے ہیں۔ شہر کا شہر اس عظیم سُنّت کے ترک میں مشغول ہے اور کسی کو اس کا دُکھ بھی نہیں ہوتا کہ حضور علیہ السلام کی ایک اتنی بڑی سُنّت دھڑلّے سے پامال کی جارہی ہے، ہوسکتا ہے ہم پر جو حالات اور پریشانیاں مسلط ہیں وہ اس اجتماعی ترکِ سنت کی وجہ سے ہوں۔ لہذا تمام لوگ اس 'ترکِ سُنّت' کے گناہ سے باز آئیں اور عید کی نماز عید گاہ میں ہی ادا کریں، رہی قربانی کو جلد ادا کرنے کی بات تو وہ کبھی بھی ادا کی جاسکتی ہے، چاہے گھنٹہ دو گھنٹہ دیر سے ہو یا دوسرے یا تیسرے دن ادا کی جائے۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص فسادِامّت کے زمانے (پُرفتن دور) میں میری ایک سُنّت کو زندہ کرے گا اسے سو ‌100 شہیدوں کے بقدر ثواب ملے گا۔ تو آئیے عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنے کی سُنّت کو زندہ کرنے کا ارادہ کریں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہت اہم پیغام ہے، اپنے تمام دوستوں، رشتے داروں اور اپنے تمام گروپس میں ضرور پہنچادیں ۔۔جزاکم اللہ

Tuesday, June 28, 2022

کچھ مربوط غیر مربوط لیکن مفید باتیں تحریر: مسعودجاوید عموماً میں مذہبی، مسلکی، مشربی اور کوئی ایسی بحث جس سے قاری کو نفع کی بجائے نقصان ہو، سے احتراز کرتا ہوں ۔ بالفاظ دیگر میں مناظرہ کا آدمی نہیں ہوں۔ تاہم دو روز سے ایک صاحب کی پوسٹ پر تبصرہ کرنا جواب دینا اور دین اسلام کا موقف واضح کرنا فرض سمجھا اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی بحث میں پڑ گیا۔ میرے خیال میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس سے واقف نہیں ہے کہ دین اور شریعت میں کیا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے مسلمان دیگر' مذاہب' والوں سے نفرت کرتے ہیں، دشمن مانتے ہیں جبکہ مسلمانوں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ وہ کسی بھی پیغمبر کو اور ان کی کتاب کو غلط نہیں سمجھیں گے ۔ ہم سب کی ارواح نے اللہ، اس کے تمام فرشتوں، اس کی مقدس کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لایا اور وعدہ کیا کہ وہ ان پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کریں گے۔ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (قرآن آیت285)۔ ایک صاحب نے لکھا : " دنیا میں 3400 مذاہب ہیں۔ ہر مذہب کا اپنا خدا اور کتاب ہے ہر مذہب والے دوسرے مذاھب کو جھوٹا سمجھتے ہیں جس طرح ہم ان سب 3399 مذاہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اسی طرح یہ 3399 مذاہب ہمارے مذہب کو بھی کو بھی جھوٹا سمجھتے ہیں"۔ اس کا جواب اس حقیر نے اپنی استطاعت کے مطابق جو دیا وہ مندرجہ ذیل ہیں: مسلمان اپنے عقیدہ کے بموجب کسی بھی مذہب/دین ، اس کی کتاب اور اس کے پیغمبر کو جھوٹا نہیں سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جسے اللہ نے آدم علیہ السلام کے ساتھ بھیجا اور جو رہتی دنیا تک رہے گا اور جس کی تبلیغ اس کے بعد کے پیغمبروں نے کی پھر جب ان پیغمبروں کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے دین سے منہ موڑنا شروع کیا اور دین اسلام میں تحریف کیا تو اللہ نے دوسرے پیغمبر کو اصلاح کے لئے بھیجا اس طرح یہ سلسلہ چلتا ہوا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ۔ انہوں نے بھی اسی دین اسلام کی تبلیغ کی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کے بانی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے ۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق جب جب دین اسلام میں تحریف کیا گیا اللہ نے پیغمبر بھیج کر اصلاح کرایا اور لوگوں کو اصل دین کی طرف بلایا ۔ دین ایک ہی ہے آدم علیہ السلام سے لے کر آخری دنیا تک۔ شریعت بدلتی رہی زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ۔ ان پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ان میں سے بعض کے ساتھ صحیفے بھی اتارے گئے ۔ قرآن مجید میں ان پیغمبروں میں سے چند کا نام آیا ہے اسی لیے قرآن کی تعلیم کے مطابق ہم مجموعی طور پر ہر پیغمبر اور ان پر نازل کتابوں صحیفوں پر ایمان لاتے ہیں اور پیغمبروں میں کسی کے ساتھ بھید بھاؤ تفریق نہیں کرتے ہیں ۔ ہم سب نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ ہر پیغمبر پر ایمان لانے کے لئے اور کسی پیغمبر کے ساتھ بھید بھاؤ تفریق نہیں کرنے کے لئے قرآن کریم کی درج ذیل آیات کی رو سے ہر مسلمان پابند ہے۔ جب تک تمام انبیاء و رسل پر ہم ایمان نہیں لاتے ہم مسلمان نہیں ہو سکتے۔ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) تو پھر آپ نے یہ کہاں سے اخذ کیا کہ ہم دنیا کے تمام مذاہب، پیغمبروں اور کتابوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں ‌؟ ہم‌ صرف تحریف شدہ کتابوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ ------------ سوال : اگر دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے تو پھر قرآن میں ایسا کیوں لکھا ہوا ہے: " وَمَنْ يَبْتَغِِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ"۔ جواب: جی اس آیت سے بھی میری ہی بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ دین اسلام ایک ہے۔ جیسا کہ اللہ نے قرآن مجید میں کہا " أن الدين عند الله الاسلام". اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے". آپ نے قرآن كي جو آیت ومن يتبع غير الاسلام ..... اس آیت سے بھی میری ہی بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ دین اسلام ایک ہے اور جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور کو دین سمجھ کر اتباع کیا وہ عنداللہ مقبول نہیں ہے اور آخرت میں وہ خسارہ والوں میں سے ہوگا ۔ دین اسلام سے مراد دین محمدی نہیں ہے۔ در حقیقت دین محمدی کوئی دین نہیں ہے جس طرح عیسائیت اور یہودیت دین نہیں ہیں ۔ دین تو بس اسلام ہے۔ باقی یہ سب شریعتیں ہیں ۔ شریعت محمدی ، شریعت مسیحی اور شریعت داؤدی وغیرہ ۔ سوال: تو پھر اللہ نے قرآن مجید میں "لکم دینکم و لی دین" کیوں کہا ؟ جواب: یہ کفار و مشرکین کو ترکی بہ ترکی جواب ہے کہ جب تم بت پرستی کو ہی دین مانتے ہو تو جاؤ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ۔ ہم بھی روز مرہ کی زبان میں " دیگر مذاہب والے" استعمال کرتے ہیں جبکہ اس سے مراد دیگر شریعت والے ہوتے ہیں۔ اسی لئے یہودی عیسائی اہل کتاب کو ہم اہل اسلام مانتے ہیں بشرطیکہ وہ کتاب میں تحریف نہ کریں ۔ تثلیث دراصل تحریف کا نتیجہ ہے اس لئے کہ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال: خدا نے آدم کو تخلیق کیا اور آدم کی پسلی سے حوا ۔ برھما نے شیو کو پیدا کیا اور شو نے اپنے میں سے پاروتی کو ۔ جواب : اس میں آپ کو اعتراض کس بات پر ہے یا آپ کا سوال کیا ہے؟ ۔ تقریباً ہر مذہب کی کتابوں میں ایسی بے شمار باتیں ہیں جو دوسرے مذاہب کی باتوں کے بہت حد تک مماثل ہیں ۔ اور یہی وہ عناصر ہیں جو مکالمہ بین المذاہب interfaith dialogue کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں اور پر امن بقائے باہم peaceful coexistence کے نظریہ کو جلا بخشتے ہیں . تعصب اور نفرت کی بنیاد پر کسی بھی مذہب کے پیروکار سے دوری نہ بنائیں ۔

Monday, June 27, 2022

[6/28, 12:00 PM] +91 95590 87781: *قربانی کی شرعی حیثیت کیا ؟ سنت یا واجب ؟* دلائل کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ قربانی واجب نہیں سنت مؤکدہ ہے، یہی مسلک حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت بلال، حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہم کا ہے، اور سعید بن مسیب، عطاء، علقمہ، اسود، اسحاق، ابو ثور، ابن المنذر، داؤد، مزنی اور امام شافعی، امام مالک، امام احمد کا بھی ہے، اور ایک روایت احناف کے امام یوسف سے بھی یہی ہے، ان سب حضرات کی دلیل یہ صحیح مسلم کی روایات ہیں۔۔۔ (1) أم سلمة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره شيئا" (صحيح مسلم 1977/ سنن النسائي 4364/ سنن الدارمی 1991/ مسند احمد 26474) ترجمہ:👇 اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھے تو اپنے بال اور ناخن کو نہ کاٹے۔۔۔ (2) "إذا دخل العشر وعنده أضحية فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا" (صحيح مسلم 1977/ صحیح بن حبان 5918) ترجمہ: 👇 اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: "جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اور کسی کے پاس قربانی کا جانور ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن کو نہ کاٹے"۔۔۔ (3) "إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك من شعره وأظفاره" (صحيح مسلم 1977/ صحیح بن حبان 5916) ترجمہ: 👇 اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: "جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھے تو اپنے بال اور ناخن کو چھوڑ دے"۔۔۔ ان روایات سے صاف ہے کہ قربانی کو اللہ کے رسول نے انسان کے ارادہ پر چھوڑا ہے، نہ کہ اسے واجب قرار دیا ہے، لہٰذا اگر اسکا وجوب ہوتا تھا تو ارشاد اس طرح ہوتا۔۔۔ ""إذا رأيتم هلال ذي الحجة فليمسك من شعره و اظفاره حتى يضحي"" مزید یہ کہ صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ... (1) أَخْبَرَنَاهُ أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ‏:‏ عَلِىُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى مَرْيَمَ حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِىُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ وَمُطَرِّفٍ وَإِسْمَاعِيلَ عَنِ الشَّعْبِىِّ عَنْ أَبِى سَرِيحَةَ الْغِفَارِىِّ قَالَ‏:‏ أَدْرَكْتُ أَبَا بَكْرٍ أَوْ رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ رضي الله عنهمَا لاَ يُضَحِّيَانِ مخافة أن يستن بهما" و فِى بَعْضِ حَدِيثِهِمْ "كَرَاهِيَةَ أَنْ يُقْتَدَى بِهِمَا‏". (روى البيهقي في "معرفة السنن والآثار" 14/16 "18893"/ و "السنن الكبرى" 9/444 ) و أخرجه عبد الرزاق في المصنف (4/ 381: 8139)، والطبراني في الكبير (3/ 203: 3058). قال الهيثمي في المجمع (4/ 18): "رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح". و صححه ابن حجر العسقلانی فی المطالب العالیة 10/481، و قال الالباني فى إرواء الغليل : اسناده صحيح 4/355، و قال الهيثمي في مجمع الزوائد - 21-4 رجاله رجال الصحيح) ترجمہ: 👇 ابو سریحہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر اور عمر رضي اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ قربانی نہیں کرتے ہیں، اس ڈر سے کہ کہیں اُنکا اتباع نہ کر لیا جائے"... اور حضرت ابو مسعود انصاری رضي اللہ عنہ سے صحیح سند سے اتنی صریح روایت ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے، اور اس روایت سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ قربانی کو واجب نہیں سمجھتے تھے۔۔۔ (3) ‏أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ‏:‏ عَلِىُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِىُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى وَائِلٍ عَنْ أَبِى مَسْعُودٍ الأَنْصَارِىِّ رضي الله عنه قَالَ‏:‏ إِنِّى لأَدَعُ الأَضْحَى وَإِنِّى لَمُوسِرٌ مَخَافَةَ أَنْ يَرَى جِيرَانِى أَنَّهُ حَتْمٌ عَلَىَّ‏. و عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَدَعَ الْأُضْحِيَةَ، وَإِنِّي لَمِنْ أَيْسَرِكُمْ بِهَا مَخَافَةَ أَنْ يُحْسَبَ أَنَّهَا حَتْمٌ وَاجِبٌ». (مصنف عبد الرزاق 8148، روى البيهقي في"السنن الكبرى" 9/444 قال الالباني فى إرواء الغليل : اسناده صحيح 4/355) ترجمہ: 👇 ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں مالداری کی حالت میں بھی اس ڈر سے قربانی چھوڑ دیتا ہوں کہ کہیں میرے پڑوسی یہ نہ سمجھیں کہ مجھ پر واجب ہے"... دوسری روایت میں ہے، صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں قربانی چھوڑ دوں گا، جبکہ میں قربانی کرنے پر تم سے زیادہ وُسعت رکھتا ہوں لیکن اس ڈر سے چھوڑ رہا ہوں کہ اسکو لازم اور واجب نہ سمجھ لیا جائے۔۔۔ اسی طرح کا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کا واضح قول امام طحاوی نے "مختصر اختلاف العلماء" ( 3 / 221 ) میں اور حافظ ابن عبد البر نے "كتاب التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (194/23)" میں نقل کیا ہے فرماتے ہیں۔۔۔ (4) قَالَ ابْنُ عُمَرَ فِي الضَّحِيَّةِ لَيْسَتْ بِحَتْمٍ وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ وَمَعْرُوفٌ ترجمہ:👇 ابن عمر نے قربانی کے بارے میں فرمایا کہ وہ ضروری نہیں ہے لیکن سنت ہے اور معروف عمل ہے، انکے ساتھ دیگر صحابہ سے بھی اس تعلّق سے کئی روایات موجود ہیں، اور اسکے بر خلاف امام ابن حزم نے المحلى میں ( 6 / 10 ) پر یہ صراحت کی ہے کہ ""لا يصح عن أحد من الصحابة أن الأضحية واجبة"" کسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ قربانی واجب ہے۔۔۔ یہ تو ہوئے اسکے واجب نہیں ہونے کے دلائل، جہاں تک بات ہے اسکے وجوب کی تو یہ مذہب ہے امام ابو حنیفہ، ربیعہ، ليث، اور سفیان ثوری کا ہے، ان حضرات کی دلیل یہ روایت ہے۔۔۔ (1)حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا (رواه ابن ماجة 3123/ مسند احمد 8273) ترجمہ: 👇 اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا "جسکے پاس وُسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری مصلّی (مسجد یا عیدگاہ) کے قریب نہ آئے"۔۔۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ روایات صحیح نہیں ہے، خود امام احمد نے اس روایت کو تنقیح التحقیق میں 3/567 "منکر" کہا ہے، امام نووی نے المجموع میں اسکو ضعیف کہا ہے اور شعیب الارناؤوط نے مسند احمد کی تخریج میں اسکو ضعیف قرار دیا ہے، ابنِ قدامہ نے المغنی 13/361 میں اس روایت کا ذکر کرکے لکھا ہے "ضعفه اصحاب الحدیث" اس روایت میں ایک راوی عبد اللّٰہ بن عیّاش ہیں جو مختلف فيه ہیں امام نسائی، امام ابو داؤد نے اسکو ضعیف کہا ہے، ابن یونس نے منکر الحدیث کہا ہے، اور دیگر محدثین نے انکو صالح کہا ہے۔۔۔ لیکن جن بعض حضرات نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اُنہوں نے اس کے موقوف اور مرفوع ہونے میں اختلاف کیا ہے، اور وقف کو ترجیح دی ہے، لہٰذا امام بيهقي نے اپنی سنن میں (9/260) پر فرمایا ہے کہ۔۔۔ "بلغني عن أبي عيسى الترمذي أنه قال: الصحيح عن أبي هريرة أنه موقوف . قال: ورواه جعفر بن ربيعة وغيره عن عبد الرحمن الأعرج عن أبي هريرة موقوفاً " انتهى. ترجمہ: 👇 مجھے یہ خبر ملی ہے کہ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ روایت حضرت ابو ہریرہ پر موقوف ہے، جعفر بن ربیعہ اور دیگر حضرات نے عبد الرحمن الاعرج سے اور اُنہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے موقوفا اس روایت کو نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر نے "فتح الباري" میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد (12/98) پر لکھا ہے کہ۔۔۔ "أخرجه ابن ماجة وأحمد ورجاله ثقات، لكن اختلف في رفعه ووقفه، والموقوف أشبه بالصواب. قاله الطحاوي وغيره ، ومع ذلك ليس صريحاً في الإيجاب۔ ترجمہ:👇 ابن ماجہ اور امام احمد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں، لیکن اسکے موقوف اور مرفوع ہونے میں اختلاف ہے، اور وقف زیادہ صحیح ہے، یہی بات یعنی موقوف ہونے کی امام طحاوی نے بھی کہی ہے، اور اس سب کے باوجود یہ روایت قربانی کے وجوب پر صریح نہیں ہے، انکے علاوہ حافظ ابن عبد البر نے اور عبد الحق نے "أحكامه الوسطى" 4/ 127 میں، محدث منذري نے "الترغيب والترهيب" میں، اور ابن عبد الهادي نے "التنقيح" 2/498" میں اسکو موقوف قرار دیا ہے ساتھ ہی ساتھ سنن ابن ماجة پر حاشیہ سندھی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، یعنی اس روایت کی نسبت حضور کی جانب درست نہیں ہے بلکہ یہ حضرت ابو ھریرہ کا قول ہے، لیکن اگر اسکو مرفوع مان کر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ روایت وجوب پر صریح نہیں ہے، کیونکہ اُمت میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے کہ اگر کوئی قربانی نہ کرے تو وہ عید کی نماز نہ پڑھے، جبکہ بُخاری اور مسلم میں اسی طرح کی ایک روایت موجود ہے حضور نے فرمایا: « مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلاً فَلْيَعْتَزِلْنَا - أَوْ قَالَ - فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا ، وَلْيَقْعُدْ فِى بَيْتِهِ » . رواه البخاري ( 855 ) و مسلم ( 1281) ترجمہ:👇 جس نے لہسن یا پیاز کھائی تو وہ ہمیں چھوڑ دے یا یہ کہ ہماری مسجد سے نکل جائے اور اپنے گھر میں بیٹھے۔۔۔ اس روایت سے بھی کسی کے نزدیک لہسن یا پیاز کھا کر مسجد جانا حرام نہیں ہے، خلاصہ یہ کہ روایت صحیح نہیں ہے، صحیح مان لیں تو مرفوع نہیں ہے، اور اگر مرفوع بھی مان لیا جائے تو یہ روایت وجوب پر صریح نہیں ہے بلکہ یہ استحبابی حکم ہے جس کے ذریعہ قربانی پر ابھارا گیا ہے، جیسے کہ لہسن اور پیاز کھاکر مسجد نہ آنے پر اُبھرا گیا ہے۔۔۔ لہٰذا ایک ایسی روایت جو سندا صحیح نہ ہو، اور صحیح ہو تو حضور تک اسکی نسبت نہ ہو، اور پھر وجوب پر صریح بھی نہ ہو اس کو بنیاد بنا کر کسی عمل کو واجب قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا، مزید یہ کہ صدقۃ الفطر کے جیسے معمولی نصاب میں اسکو واجب کر دینا۔۔۔ یعنی اگر کسی انسان کے پاس 40000 ہزار کی چاندی ہو تو ہر سال 5000 سے 10000 کی قربانی کرے، اس پر بس نہیں بلکہ مزید یہ کہ اگر گھر میں تین افراد کے پاس صدقۃ الفطر کا نصاب ہو تو تینوں پر قربانی کو واجب کر دینا۔۔۔ اس میں بہت زیادہ حرج ہے، بلکہ قربانی کے عظیم عمل کو جو خالص للہ ہونا چاہیے اور اپنی رضا سے خدا کی رضا کے حصول کے لیے ہونا چاہیے لوگوں پر بوجھ بنا دینا ہے، جبکہ نبیﷺ کے زمانہ میں صحابہ کا عمل یہ ہوتا تھا کہ گھر کا ایک فرد پورے اہل خانہ کی جانب سے قربانی کرتا تھا اور وہ کافی ہوتی تھی، امام ابو داؤد، امام ترمذی اور ابن ماجہ نے صحیح سند سے روایت نقل کی ہے حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ : سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ : كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى. و قال ابو عيسى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، سنن الترمذی 1505، سنن ابن ماجہ 3147، تخریج شرح السنة 4/347 صححه الالباني و شعيب الارناؤوط ترجمہ:👇 عطا بن یسار کہتے ہیں میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ (حضورﷺکے بعد) لوگ فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو تم دیکھ رہے ہو۔۔۔ ترمذی کے مشہور شارح علامہ مبارکپوری نے اس روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ "وهو نص صريح في أن الشاة الواحدة تجزئ عن الرجل وعن أهل بيته وإن كانوا كثيرين وهو الحق" "یہ روایت اس بات پر صریح دلیل ہے کہ ایک بکری ایک آدمی اور اسکے گھر والوں کی جانب سے کافی ہے، چاہے وہ زیادہ ہی ہوں، اور یہی حق ہے"، دیگر کئی صحابہ سے اس طرح کی روایات موجود ہے جو مالداری کے باوجود بھی تمام گھر والوں کی جانب سے ایک ہی قربانی کرتے تھے، اسکے سوا امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اوزاعی، اسحاق بن راویہ اور دیگر اہل علم اور محدثین کا مسلک بھی یہی ہے کہ ایک فرد کی قربانی تمام گھر والوں کی جانب سے کافی ہے۔۔۔ اس سب سے ہٹ کر مزید یہ کہ ہر فرد پر اپنی اپنی قربانی لازم ہے اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔۔۔ قربانی ایک عظیم عمل ہے، اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے، اسلامی شعار ہے، حضورﷺ کی سنت ہے، اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص رکھ کر قربانی کرنی چاہیے، قربانی کا گوشت پورا کا پورا خود ہی رکھ کر کھا لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے، نہ ہی ایسا کرنے سے قربانی کے ثواب میں کوئی کمی ہوتی ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ قربانی کے گوشت کو رشتے داروں اور غریبوں میں تقسیم کرنے سے صدقۃ و صلہ رحمی کا اجر ملتا ہے، خوب خوب قربانی کریں، خوشی سے کریں، نئے نئے طریقوں سے گوشت پکا کر کھائیں اور لوگوں میں تقسیم کریں، ✍️عبد الکبیر ندوی [6/28, 12:05 PM] +91 84120 34032: قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں ہے۔ تحریرلکھنے والے گرچہ ندوۃ العلماء کےفارغ ہیں لیکن ان کی نظریات قرآن واحادیث اور اکابر علماء دیوبند سے بالکل مختلف ہیں ‌۔ آنجناب صرف قربانی کی وجوب پر ہی نہیں بل کہ کئی سارے دوسرےمسائل کےتعلق کے بھی غلط توجیہات بیان کی ہیں۔ جو کہ سراسر غلط ہے [6/28, 12:08 PM] +91 84120 34032: بسم اللہ الرحمن الرحیم قربانی واجب ہے ۔ قربانی کے واجب ہونے کے دلائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ 1۔’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَا نَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلَّا نَا‘‘(سنن ابن ماجہ:كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابٌ : الْأَضَاحِيُّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا، حدیث نمبر: 3123 ) ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کر ے تو وہ ہما ری عید گاہ کے قر یب نہ آئے۔ اس حدیث میں وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ ﷺ نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور وعید ترک واجب پر ہوتی ہے، تو معلوم ہوا کہ قربانی واجب ہے۔ 2۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الضَّحَايَا أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ قَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ، وَجَرَتْ بِهِ السُّنَّةُ.‘‘(سنن ابن ماجہ:كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابٌ : الْأَضَاحِيُّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا، حدیث نمبر:3124 ) ترجمہ: محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا قربانی واجب ہے؟ تو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی ہے، اور آپ کے بعد مسلمانوں نے کی ہے، اور یہ سنت جاری ہے۔ 3۔عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ ، قَالَ : كُنَّا وَقُوفًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ ؟ هِيَ الَّتِي يُسَمِّيهَا النَّاسُ الرَّجَبِيَّةَ ". ترجمہ: مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی اور ایک "عتیرہ" ہے، تم جانتے ہو کہ"عتیرہ"کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ "رجبیہ"کہتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ:كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابٌ : الْأَضَاحِيُّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا، حدیث نمبر3125 ) 4۔ حضرت جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں۔ ’’شَھِدْتُّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْ مَ النَّحْرِ فَقَالَ : مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلوٰۃِ فَلْیُعِدْ مَکَانَھَا اُخْریٰ وَمَنْ لَّمْ یَذْ بَحْ فَلْیَذْبَحْ‘‘ (صحیح البخاری، باب من ذبح قبل الصلوٰۃ اعاد،حدیث نمبر: 5562) ترجمہ: میں نبیﷺ کی خدمت میں عید الاضحی کےدن حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے ) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہئے کہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے عید سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں دوبارہ لوٹانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔ واضح رہے کہ سنت ابراہیمی قربانی کو اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی یادگار ہے۔
vggقرآن میں بیویوں کو کھیتیاں کیوں کہا گیا ؟ قرآن پاک کا اعجاز ہے ۔اس پر جتنا غور کرو اتنے ہی مفاہیم سامنے آتے ہیں ہمارے یہاں ایک آیت کو عموما میاں بیوی کے جنسی تعلقات کی حد تک محدود کر دیا جاتا ہے ۔ یقینا سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں تو حکم ایسا ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے بڑے کینوس پر کیوں نہیں دیکھا جاتا ۔ پہلے سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ دیکھیں نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ” ترجمہ : تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ۔ “ مجھے اس سے اختلاف نہیں کہ یہاں اسلام خانگی الجھنوں کو دور کرتے ہوئے راہنمائی کر رہا ہے لیکن غور کریں کہ کھیتی کی ہی مثال کیوں دی گئی ۔ یہاں لفظ "کھیتی" نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا تمہاری عورتیں تمہاری "کھیتیاں" ہیں ۔ زیادہ تر علما کرام کے یہاں بھی کھیتی کی مثال اولاد سے تعبیر کی جاتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ نسل انسانی کا فروغ یعنی اولاد عورت سے ہے ۔ جس طرح بیج بونے پر کھیتی اناج یا پھل دیتی ہے ایسے ہی اولاد کا حصول عورت یعنی بیوی سے جڑا ہے اب دوسرا رخ دیکھیں آپ کسان ہیں ،آپ کے پاس زمین ہے لیکن آپ اس پر توجہ نہیں دیتے ، ، اس کی برھوتڑی کے لیے پیسے خرچ نہیں کرتے ، اسے وقت نہیں دیتے ، اس سے محبت نہیں رکھتے ، اپنا آرام سکون غارت کر کے اس کی خدمت نہیں کرتے ، اسے ہرا بھرا بنانے کے لیے اپنا آرام سکون بھول نہیں جاتے ۔اس کی طرف آنے والے سور اور دیگر جانوروں سے اس کی حفاظت نہیں کرتے ، اسے دوسروں کی گزر گاہ بننے سے بچانے کی کوشش نہیں کرتے ، اسے اس کے مزاج کے مطابق کم یا زیادہ دھوپ سے نہیں بچاتے ،اسے اس کی ضرورت کا پانی نہی دیتے تو کیا ہو گا ؟؟؟ کھیتی سوکھ جائے گی ،اجڑ جائے گی ،آپ کو اس کا فائدہ نہیں ہو گا ،پھل اناج نہیں ملے گا اور آپ اسے تباہ کر بیٹھیں گے یہاں یہ سب بھی صرف اس ایک لفظ " کھیتی " میں چھپا ہے ۔آپ شادی شدہ ہیں تو آپ کی بیوی اسی کھیتی کی طرح آپ کی توجہ چاہتی ہے ،وہ چاہتی ہے آپ ہر بات بھول کر اس کے نخرے اٹھائیں ،اسے توجہ دیں ،اس سے اپنی محبت کا اظہار کریں ، ہر روز اس کے پاس رہیں ، اس کی ضروریات کا خیال رکھیں ،اس کے محافظ بنیں ،اس پر پیسے خرچ کریں ،اس کے تحفظ کے لیے دوسروں کے سامنے کھڑے ہوں ، اس کی طرف دیکھنے والے سوروں کو مار بھگائیں ۔اسے خوش دیکھنے کے لیے اس کے آرام سکون کے لیے اپنے مال میں سے خرچ کریں جب آپ اسے یہ سب مہیا کریں گے تو یقینا وہ ہری بھری رہے گی ، اس کا لہلہانا آپ کے دل کو خوش کرے گا لیکن اگر ایسا نہیں کریں گے تو وہ مرجھا جائے گی اور اسے دیکھ کر آپ کا بھی منہ بن جائے گا یہ فطرت ہے ،یہ قدرت کا اصول ہے اور یہ قرآن کی آیت مبارکہ کے ایک لفظ میں چھپی حقیقت ہے اپنی بیگم کو توجہ دیں ، عزت دیں ، روزانہ کی بنیاد پر اپنا وقت دیں ، اس پر اپنا مال خرچ کریں ، اس کی ضروریات فوری پوری کریں ۔ عورت اتنی ہی توجہ چاہتی ہے جتنا کسی بھی کھیتی کو اپنے کسان کی توجہ درکار ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے آپ کو اس آیت مبارکہ کی جہاں بھی تشریح یا ذکر ملے گا وہ جنسی ملاپ تک ہی محدود ملے گا حالانکہ اس آیت کا صرف ایک لفظ ہی اتنا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ مجھ ایسا گناہ گار دنگ رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں قرآن پاک پر ریسرچ کا ویسا کانسیپٹ نہیں جیسا ہونا چاہیے ،قرآنی الفاظ کے مفاہیم پر ہی توجہ دی جائے تو بہت سے نئے جہاں سامنے آ جاتے ہیں لیکن یہاں فرقہ وارانہ دلائل کے سوا کوئی علمی کام ہی نہیں ہوتا ۔اللہ پاک ہم پر علم کے دروازے کھول دے آمین.

Saturday, June 25, 2022

vgg‏مائیكل ہارٹ نے اپنى كتاب’’ سو عظيم شخصيات‘‘ كو لكھنے ميں 28 سال كا عرصہ لگايا ، اور جب اپنى تاليف كو مكمل كيا تو لندن ميں ايك تقريب رونمائى منعقد كى جس ميں اس نے اعلان كرنا تھا كہ تاريخ كى سب سے ’’عظيم شخصيت‘‘ كون ہے؟ جب وہ ڈائس پر آيا تو كثير تعداد نے سيٹيوں ، شور اور ‏احتجاج كے ذريعے اس كى بات كو كاٹنا چاہا، تا كہ وہ اپنى بات كو مكمل نہ كر سكے۔ پھر اس نے كہنا شروع كيا: ايك آدمى چھوٹى سى بستى مكہ ميں كھڑے ہو كر لوگوں سے كہتا ہے ’’مَيں اللہ كا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں‘‘ ميں اس ليے آيا ہوں تاكہ تمہارے اخلاق و عادات كو بہتر بنا سكوں، ‏تو اسکی اس بات پر صرف 4 لوگ ايمان لائے جن ميں اس كى بيوى، ايك دوست اور 2 بچےتھے۔ اب اس كو 1400 سو سال گزر چكے ہيں۔ مرورِ زمانہ كہ ساتھ ساتھ اب اس كے فالورز كى تعداد ڈيڑھ ارب سے تجاوز كر چكى ہے۔۔۔ اور ہر آنے والے دن ميں اس كے فالوروز ميں اضافہ ہورہا ہے۔ ‏اور يہ ممكن نہيں ہے كہ وہ شخص جھوٹا ہے كيونكہ 1400 سو سال جھوٹ كا زندہ رہنا محال ہے۔ اور كسى كے ليے يہ بھى ممكن نہيں ہے كہ وہ ڈيڑھ ارب لوگوں كو دھوكہ دے سكے۔ ہاں ايك اور بات! اتنا طويل زمانہ گزرنے كے بعد آج بھى لاكھوں لوگ ہمہ وقت اس كى ناموس كى خاطر اپنى جان تك قربان كرنے ‏كے ليے مستعد رہتے ہيں. كيا ہے كوئى ايك بھى ايسا مسيحى يا يہودى جو اپنے نبى كى ناموس كى خاطر حتى كہ اپنے رب كى خاطر جان قربان كرے۔۔؟ بلا شبہ تاريخ كى وہ عظيم شخصيت ’’ حضرت محمد ﷺ‘‘ ہيں۔ اس كے بعد پورے ہال ميں اس عظيم شخصيت اور سيد البشر ﷺ كى ہيبت اور اجلال ميں خاموشى چھا گئى۔ ‏اگر آپ نے یہ اعزازی تحریر پڑھ لی ہے تو ایک بار درود پاک کا وِرد کیجئے اور اس پوسٹ کو شئیر / فاروڈ کر کے سب کے ساتھ اس عظیم شخصیت ﷺ کا تذکرہ کیجئے تا کہ ہر کسی کا ایمان پھر سے تازہ ہو جاۓ, شئیر کیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا ﷺ

Tuesday, June 21, 2022

دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں، یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے. قاضی نے پوچھا تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟ ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو۔ وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہو گئی۔ قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟ وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی، میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کی ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے، میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی شادی کی رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں۔ جج صاحب میری طلاق ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کر دی، میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی (یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھوپھی کے شوہر سے شادی کر لی اور اس کے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے اسے طلاق دے ڈالی۔ قاضی حیرت سے پھر ؟ وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد (میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کرو گے؟ اس نے ہاں کر دی میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی (میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں، اس نے ایسا ہی کیا۔ میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کر لی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی۔ قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟ میری پھوپھی کہنے لگی : قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کر لیا۔ قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے: مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا، طلاق بھی جائز ہے، وکالت بھی جائز ہے، طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جا سکتی ہے بشرط یہ کہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی۔ كتاب :جمع الجواهر في الحُصري عربی سے ترجمہ: بقلم فردوس جمال!! #زندگی سفر ہے اللہ سےاللہ تک

Monday, June 20, 2022

bhhحضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک عجیب عارفانہ نکتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ حاضرین مجلس سے فرمانے لگے، آپ کہاں لمبے لمبے مراقبے اور وظائف کرو گے، میں تمہیں اللہ کے قرب کا مختصر راستہ بتائے دیتا ہوں، کچھ دن کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، قرب کی منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں: پہلا اللہ پاک سے چُپکے چُپکے باتیں کرنے کی عادت ڈالو، وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی جائز کام کرنے لگو، دل میں یہ کہا کرو، اللہ جی ۔۔ 1۔ اس کام میں میری مدد فرمائیں ۔۔۔ 2۔ میرے لئے آسان فرما دیں ۔۔۔ 3۔ عافیت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔۔۔ 4۔ اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں۔ یہ چار مختصر جملے ہیں مگر دن میں سینکڑوں دفعہ اللہ کی طرف رجوع ہو جائیگا۔ اور یہ ہی مومن کا مطلوب ہے کہ اسکا تعلق ہر وقت اللہ سے قائم رہے۔ دوسرا انسان کو روز مرہ زندگی میں چار حالتوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔۔ 1۔ طبیعت کے مطابق ۔۔۔ 2۔ طبیعت کے خلاف ۔۔۔ 3۔ ماضی کی غلطیاں اور نقصان کی یاد ۔۔۔ 4۔ مستقبل کے خطرات اور اندیشے۔ جو معاملہ طبیعت کے مطابق ہو جائے، اس پر "اللهم لك الحمد ولك الشكر" کہنے کی عادت ڈالو۔ جو معاملہ طبیعت کے خلاف ہو جائے، تو "انا لله وانا اليه راجعون" کہو۔ ماضی کی لغزش یاد آجائے تو فورا "استغفراللہ" کہو۔ مستقبل کے خطرات سامنے ہوں تو کہو: "اللهم اِنى أعوذ بك من جميع الفتن ما ظهر منها وما بطن"۔ شکر سے موجودہ نعمت محفوظ ہو گئی۔ نقصان پر صبر سے اجر محفوظ ہو گیا اور اللہ کی معیت نصیب ہو گی۔ استغفار سے ماضی صاف ہو گیا۔ اور اللهم انى أعوذ بك سے مستقبل کی حفاظت ہو گئی۔ تیسرا شریعت کے فرائض و واجبات کا علم حاصل کر کے وہ ادا کرتے رہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتے رہو۔ اور چوتھا تھوڑی دیر کوئی بھی مسنون ذکر کر کے اللہ پاک سے یہ درخواست کر لیا کرو اللہ جی ۔۔۔ میں آپ کا بننا چاھتا ہوں، مجھے اپنا بنا لیں، اپنی محبت اور معرفت عطا فرما دیں۔ چند دن یہ نسخہ استعمال کرو، پھر دیکھو کیا سے کیا ہوتا ہے، اور قرب کی منزلیں کیسے تیزی سے طے ہوتی ہیں! ر ی ح ا ن

Friday, June 17, 2022

*آج کا دن امیروں کے لیے اچھا نہیں رہاٗ ایلن مسک سے لے کر مکیش امبانی تک خسارے میں* https://wp.me/pacC8F-JGZ

Tuesday, June 14, 2022

برہمن واد

*کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا* *احمد نور عینی* *استاذ: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد* برہمن واد کی تقریبا چار ہزار سالہ تاریخ میں اسلام ہی وہ تنہا مذہب ہے جو برہمن وادکے سامنے پوری توانائی کے ساتھ کھڑا ہے، برہمن واد کے پلٹ وار سے اسلام کی اشاعت کا بڑھتا دائرہ رک تو گیا مگر اس پلٹ وار سے اسلام نہ لڑکھڑایا، نہ گرا، نہ جھکا،اس کا پیغام آج بھی یہاں کے دبے کچلے اور غلامی میں جکڑے طبقات کے لیے ایسی کشش رکھتا ہے کہ بھارت کے یہ سارے طبقات اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں، یہی وہ ڈر ہے جس نے برہمن واد کو ایک زمانے سے بے کل کیے رکھا، بل کہ سقوط سلطنت مغلیہ کے بعد تو اس بے کلی میں اور اضافہ ہوا ہے، اور آزادی کے بعد تو یہ ڈر برہمن واد کو خوابوں میں بھی ستاتا ہے، اسی وجہ سے برہمن واد نے اپنی پوری توانائی اسلام کو بدنام کرنے، اسلامی تعلیمات سے متنفر کرنے، مسلم سماج کے خلاف ایس سی، ایس ٹی، بی سی کے دماغ میں نفرت کا زہر گھولنے اور دونوں سماج کے درمیان دیواریں اٹھانے اور دوریاں بڑھانے میں لگا رکھی ہے، برہمن وادی پیشواؤں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوگیا ہے کہ بھارت کی سبھی قوموں کو ہم غلام بناسکتے ہیں، مگر مسلم قوم کو بہ حیثیت قوم ہم غلام نہیں بناسکتے، کیوں کہ ان کی خودی کی تیغ لا الہ الا اللہ کی سان پر چڑھ چکی ہے، ان کے سینے توحید کے امانت بردار ہیں ان کے پاس اسلام وایمان جیسی ناقابل تسخیر طاقت ہے ، اس لیے برہمن واد کی کوششیں مسلمانوں کو ذہنی وفکری غلام بنانے کے بجائے انھیں سماج میں اچھوت بنانے میں صرف ہورہی ہیں، ہمیں برہمن واد کی اس چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی آئیڈیالوجی اور پالیسی اسی کے گرد گھومتی ہے، نفرت کا بازار اسی لیے گرم کیا جارہا ہے، ہمیں اس بات کو سمجھنے اور اسلام جیسی دولت کی قدر کرنے کی ضرورت ہے، ڈر اور گھبراہٹ کی نفسیات سے باہر نکل کر فکری یلغار کا جواب فکری یلغار سے دینے، پوری تیاری بیداری اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ برہمنواد کی فصیل میں مسلسل نقب لگانے، اسلامی بنیادوں پر سماجی انصاف کی متواتر تحریک چلانے اور اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی کی طرف لانے، برہمنی مذہب کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارا دلا کر اسلام کی پناہ میں لانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ مقصد بعثت بھی ہے فریضۂ امت بھی اور وقت کی ضرورت بھی۔ جس قوم کے پاس اسلام وایمان جیسی طاقت ہے، وہ طاقت جو بھارتی سماج کو برہمن واد سے بہ آسانی نجات دلا سکتی ہے، وہ طاقت جس کے ڈر سے برہمن واد بوکھلایا ہوا ہے اور بوکھلاہٹ میں کبھی نفرت وعداوت کا بازار سجاتا ہے اور کبھی قتل وخون کی ہولی کھیلتا ہے،حیرت ہے کہ ایسی عظیم طاقت اپنے پاس رکھنے والی قوم ملک کے موجودہ حالات سے ڈرنے اور سہمنے لگی، سکڑنے اور ٹھٹھرنے لگی: کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو ؟! دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ وتفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے اب ضرورت ہے کہ "لا الہ الا اللہ" کی سان پر تیز کی ہوئی تیغ پھر سے بے نیام ہو اور برہمن واد کے صنم کو دو لخت کرے، سوشل جسٹس اور سوابھیمان (عزت نفس) کے لیے کی جانے والی کوششوں کا رخ اگر "لا الہ الا اللہ" کی طرف ہوجائے تو نتیجہ بہت حیران کن ہوگا۔ خدا سے امید ہے کہ آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گُل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی

Monday, June 13, 2022

*برہمن کو پرابلم ،سمجھدار اور مزاحمت کار مسلمانوں سے ہے ،نرم رویہ رکھنے والے لیڈروں سے نہیں* ایک چشم کشا تحریر 👇 _-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_ ہے اگر اس کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے احمد نور عینی استاذ: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد حق وباطل کی کشمکش ہمیشہ سے رہی ہے، چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی ازل سے تا امروز جاری ہے، ہر دور میں خدا نے حق کا پیغام دے کر اپنے رسول بھیجے، رسول مدنی ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آنے والا، اس لیے آپ کا لایا ہوا پیغام ہی دین بر حق ہے، اس حق کے خلاف باطل کی ریشہ دوانی بھی مسلسل جاری ہے، اس سلسلہ میں دو طاقتیں قابل ذکر ہیں: ایک یہودیت دوسرے برہمنیت، برہمنیت کی فکری یلغار کا دائرہ گو یہودیت سے چھوٹا ہے؛ مگر وہ یہودیت سے زیادہ قدیم اور انسانوں کی تقسیم میں اس سے زیادہ منظم اور مضبوط ہے۔ بھارت میں اسلام اور اس کے پیروکاروں کو برہمنیت کی یلغار اور اس کے ظالمانہ نظام کا سامنا ہے، برہمنیت نہ صرف یہ کہ ایک باطل نظام حیات ہے؛ بل کہ ظالمانہ اور غیر انسانی نظام حیات ہے، اس کی بنیاد انسانی عدم مساوات پر ہے، اس کے بر خلاف اسلام کا نظام ہے جو عادلانہ ہے اور انسانی مساوات پر مبنی ہے، برہمنی نظام بھارتی سماج کو غلامی کی زنجیریں پہناتا ہے؛ جب کہ اسلامی نظام یہ زنجیریں توڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ برہمنواد اسلام سے خوف کھائے ہوئے ہے؛ بل کہ اپنی نیند گنوائے ہوئے ہے، وہ اپنا خوف چھپانے کے لیے ہمیں خوف اور مایوسی کی نفسیات میں ڈالنا چاہتا ہے، اور صورت حال یہ ہے کہ مسلمان یا تو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہے کہ فکری یلغار کرنا نہیں چاہتا یا مایوسی کی نفسیات میں مبتلا ہے کہ بھارتی سماج کو برہمنواد کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارا دلانا نہیں چاہتا۔ ہمارے دیش میں مذہب حق کے خلاف باطل کا سوپر ورژن یعنی برہمنوادی اقتدار مسلسل برسر پیکار ہے، کیوں کہ اسے ڈر ہے کہ اگر اس نے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا چھوڑدیا تو وہی ہوگا جو بھارت میں اسلام کی آمد کے وقت ہوا تھا، اس نے ماضی میں اسلام کی آمد کے وقت یہ دیکھ لیا کہ اسلام کی مساوات اور انسانیت پر مبنی تعلیمات اور مسلمانوں کے اور خاص کر صوفیا کے انسانی برتاؤ کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوئے اور اسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ اسلام کے اندر جو کشش ہے وہ برہمنواد کے لیے سنگین خطرہ ہے،اس خطرہ سے نمٹنے کی اس نے تدبیریں کیں،چناں چہ صوفی تحریک کی انقلابیت گنگا جمنی تہذیب کے دریا میں بہہ گئی اور اشاعت اسلام رک سی گئی، مغل دور تک اس نے مذہبی روادی اور مذہب پرعمل کی آزادی کے نام پر یہاں کے غیرمسلم سماج پر اپنا تسلط باقی رکھا، مغلیہ سلطنت کے سقوط کے بعد اور خاص کر بیسویں صدی کے اوائل سے اس نے یہ حکمت عملی بنائی کہ اسلام اور یہاں کے پست وپسماندہ طبقات کے درمیان اس طرح حائل رہنا ہے کہ وہ اسلام کو قریب سے نہ دیکھ سکیں اور اسلامی تعلیمات پر مستقل حملے کرتے رہنا ہے تاکہ یہاں کی پست وپسماندہ اقوام کا ذہن اسلام کے تعلق سے صاف نہ ہو، اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے مسلم قوم کی ایسی شبیہ بنانا ہے کہ یہاں کی قومیں نہ صرف مسلمانوں سے نامانوس رہیں بلکہ ان کے خلاف صف آرا رہیں اور ان کی اس صف آرائی کی وجہ سے مسلمان بھی ان سے دوری بنائے رکھیں ۔ برہمنیت کی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ جمہوری دورمیں برہمنواد کا تسلط در اصل غلامی کا تیسرا دور ہے۔ پہلا دور ودیشی یوریشیائی حملہ آور قوم کے بھارت پر غلبہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور گوتم بدھ کے انقلاب تک چلتا ہے۔ رد انقلاب کے ذریعہ غلامی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے، جمہوری دور میں برہمنواد تیسرے دور میں داخل ہوتا ہے، تیسرے دور غلامی میں طریقۂ کار کے اختلاف کی وجہ سے برہمنواد دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، ایک سیکولرزم کا سہارا لیتا ہے اور دوسرا نیشنلزم کا، اول الذکر میدان سے رخصت ہوا، اب دیش کی باگ ڈور ثانی الذکر کے ہاتھ میں ہے، اس نے تیسرے دور غلامی کے لیے برہمنواد کے چہرے پر ہندوتو کی چادر اوڑھا دی، یہ چادر ایسی دیدہ زیب ہے کہ پست وپسماندہ طبقات اس پر فریفتہ ہوگئے اور ایسی دبیز ہے کہ مسلم سماج کے لیے پس پردہ حقیقت کا ادراک مشکل ہو گیا، ہندوتو کی فکر سازی برہمنواد کے لیے جمہوری دور کی مجبوری ہے، اسی ہندوتو کی فکری بنیادوں پر برہمنواد نے ہندو راشٹر (برہمن راشٹر) قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ برہمن راشٹر کے باضابطہ قیام تک ہندوتو کے نام پر یا کم از کم ہندو قوم کے نام پر یہاں کی دیگر قوموں کو ایک ثابت کرکے اپنے کو اکثریت میں باقی رکھنا جمہوری دور میں برہمن واد کی مجبوری ہے ؛ اس لیے جن قوموں کو غلام بنانا ہے ان سب کو ایک ساتھ نشانہ بنانے سے سارا کھیل بگڑ جائے گا؛ اس لیے اس کی شروعات مسلمانوں سے کی جارہی ہے، ماضی کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ برہمنواد غلامی اور چھوت چھات کا طوق سب کے گلے میں یکساں اور ایک ساتھ نہیں ڈالتا، وہ تقسیم اور تدریج کے اصول پر عمل کرتے ہوئے غلامی اور چھوت چھات کی زنجیریں پہناتا ہے، وہ آغاز تو مسلمانوں سے کر رہا ہے، مگر ایک ایک کر کے سب کے پر کترے گا، برہمنواد کی منصوبہ بندی کچھ ایسی ہی ہے، اس کے مقابل میں ہمیں بھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، ہم اگر صحیح منصوبہ کے ساتھ صحیح رخ پر صحیح حکمت عملی اپنا کر کام شروع کردیں تو خدا کی ذات سے امید ہے کہ برہمنواد اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوپائے گا۔ کہتے ہیں کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے اور ماضی کی تاریخ حال کو سمجھنے اور مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، برہمنیت کی پوری تاریخ ذکر کیے بغیر دوسرے دور غلامی اور موجودہ تیسرے دور غلامی کی مشترک خصوصیات ذکر کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے، دوسرے دور غلامی میں باغی طبقہ یعنی بدھسٹ اور انتیج کو سیاسی، سماجی ،معاشی ہر اعتبار سے اچھوت بنایا گیا موجودہ دور غلامی میں باغی طبقہ یعنی مسلمانوں کو ہر اعتبار سے اچھوت بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، (واضح رہے کہ بھارتی مسلم قوم کے پوروجوں نے آمد اسلام کے وقت برہمنواد سے بغاوت کی تھی)، دوسرے دور غلامی میں گائے کے نام پر اچھوت بنایا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی مسلمانوں کو گائے کے نام پر اچھوت بنایا جا رہا ہے، دوسرے دور غلامی میں گائے کے نام پر اچھوتوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے شودر کو استعمال کیا گیا، موجودہ دورغلامی میں بھی گائے کے نام پر مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے شودر یعنی او بی سی کا استعمال کیا جارہا ہے، دوسرے دور غلامی میں باغی طبقے پر حملہ کرنے کے لیے شودر کو استعمال کیا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی اوبی سی کو استعمال کیا جارہا ہے، دوسرے دور غلامی میں شودر کو گائے کے تقدس کا دیوانہ بنایا گیا موجودہ دور میں بھی شودر یعنی او بی سی کو گائے کے تقدس کا دیوانہ بنایا گیا، دوسرے دور غلامی میں بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کردیا گیا موجودہ دور غلامی میں بھی مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کیا جارہا ہے، دوسرے دور غلامی میں باغی طبقے کا قتل عام کیا گیا اور انھیں گھروں سے بے گھر کیا گیا تیسرے دور غلامی میں بھی باغی طبقے کی لنچنگ کی جا رہی ہے اور ان کے گھر اجاڑے جا رہے ہیں، دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے گوتم بدھ کی مورتیوں کے آگے سر جھکا کر بدھسٹوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی موجودہ دور غلامی میں بھی یہ لوگ امبیڈکر کی مورتی کے آگے سر جھکا کر امبیڈکر وادیوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، دوسرے دور غلامی میں قانون کے ذریعہ برہمنواد کی بنیادیں مضبوط کی گئیں موجودہ تیسرے دور غلامی میں بھی دستور کے پریمبل اور بنیادی حقوق کے خلاف قانون بنا کر برہمنواد کی بنیادیں مضبوط کی جارہی ہیں، دوسرے دور غلامی میں سماج کے اندر رہنے والا شودر طبقہ حقوق کے حصول کے لیے بغاوت کرنے کے بجائے بس اتنی سی بات پر طبقاتی نظام کا حصہ بنا رہا کہ برہمن طبقہ کی طرف سے اسے تحفظ حاصل ہے، جبکہ اتی شودروں کو یہ تحفظ حاصل نہیں ہے، اسی طرح موجودہ تیسرے دور غلامی میں مسلم سماج حقوق کے حصول کی حکمت عملی اپنانے اور حصہ داری کی سیاست کرنےکے بجائے بس اتنی سی بات پر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے رہا ہے کہ فلاں پارٹی کی حکومت میں اسے تحفظ مل سکتا ہے؛ جبکہ فلاں دوسری پارٹی کی حکومت میں اسے تحفظ حاصل نہیں رہے گا، دوسرے دور غلامی میں شودر واتی شودر کو آپس میں لڑا کر برہمن راج کرتا رہا موجودہ دور غلامی میں مسلمانوں اور بہوجنوں کو آپس میں لڑا کربرہمن راج کر رہا ہے، دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے بدھسٹ خانقاہوں، تعلیمی اداروں اور حکومتی محکموں میں گھس کر قیادت اپنے ہاتھ میں لی موجودہ دور حکومت میں برہمنوں نے تمام جمہوری اداروں اور محکموں میں گھس کر قیادت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے،دوسرے دور غلامی میں برہمنوں نے حکومتی اقتدار کی راہ ہموار ہونے تک ’’سنگھ‘‘ کے ذریعہ سماج کے اندر گھس کر کام کیا، موجودہ دور غلامی میں ان لوگوں نے حکومتی اقتدار کی راہ ہموار ہونے تک ’’سنگھ‘‘ کے ذریعہ سماج کے اندر گھس کر کام کیا؛ البتہ دوسرے دور غلامی اور تیسرے دور غلامی میں ایک بڑا فرق ہے، اور یہی وہ فرق ہے جس نے برہمنواد کو بے کل کر رکھا ہے، وہ یہ کہ دوسرے دور غلامی میں بدھ مت اس برہمنواد کا پلٹ وار نہ سہہ سکا اور اس کی انفرادی شناخت باقی نہ رہی؛ مگر اسلام اس ملک میں آج بھی اپنی غیر محرف شکل میں وحدت الہ اور وحدت انسانیت کا علم لیے سینہ تانے کھڑا ہے، برہمنواد اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ وہ اسلام کی شکل اور مسلمانوں کے تشخص کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا تو پھر تیسرے دور کی غلامی کا کام کیسے مکمل ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اچھوت بنا کر برہمنواد اپنے مقصد کی تکمیل کرے گا، مسلمانوں کو اچھوت اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب ان کا رشتہ بھارتی سماج کی دیگر اکائیوں سے مکمل کاٹ دیا جائے ، اور یہ اسی وقت ہوگا جب مسلمانوں کے خلاف ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو’’ ہندو‘‘ کے نام پر بھڑکایا جاتا رہےاور مسلمانوں کے مسائل اٹھا کر انھیں مسلمانوں سے لڑایا جاتا رہے۔ برہمنواد کی اس پالیسی کو سمجھنے اور اس کے خلاف اقدامی طور پر فکری یلغار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اب تک رد عمل کے محاذ پر کھڑے ہیں اور دشمن بھی ہمیں رد عمل کے محاذ پر ہی کھڑا دیکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ہم جب تک اس محاذ پر کھڑے رہیں گے اس کا فائدہ ہوتا ر ہے گا، اس لیے وہ مسلسل ایسے شوشے چھوڑتا رہتا ہے کہ ہم رد عمل کے لیے میدان میں آئیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم دفاعی رد عمل کے بجائے اقدامی عمل کا محاذ سجائیں، برہمنواد کے جدید قالب یعنی ہندوتو کی آئیڈیالوجی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسی آئیڈیالوجی اختیار کریں کہ دشمن اقدامی عمل کے بجائے دفاعی رد عمل کے محاذ پر جانے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو ان شاء اللہ ملک کا مستقبل اسلام اور مسلمان دونوں کے لیے سازگار ہوگا ورنہ دشمن کی طرف سے چھوڑے جانے والے شوشوں میں الجھ کر اپنی توانیاں صرف کرتے رہیں گے اور حالات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جائیں گے۔

Saturday, June 11, 2022

_*برہمن کشمیری پنڈت پناہ گزین بمقابلہ گجراتی مسلمان 2002 کے متاثرین - کچھ نامعلوم حقائق*_ 1) کشمیر میں 219 برہمن کشمیری پنڈت تشدد میں مارے گئے۔ بمقابلہ 2002 میں گجرات میں 2000 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ کون سی نسل کشی ہے؟ 2) 58,697 برہمن کشمیری پنڈت خاندانوں نے وادی چھوڑی اور پورے ہندوستان میں مفت کھانا فراہم کیا، ریاستی اور مرکزی حکومت کے دفاتر، اسکولوں اور کالجوں میں ریزرویشن*۔ بمقابلہ 5 لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے اور شروع میں مہاجر کیمپوں میں اور بعد میں سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہوئے کیونکہ مودی نے مہاجر کیمپوں کو بند کردیا۔ 3) روپے 2011* تک برہمن کشمیری پنڈت خاندانوں کی بحالی کے لیے 1,61,8,00,00,000 (1618 کروڑ روپے) رقم جمع کی گئی۔ بمقابلہ روپے 500 (ہاں صرف پانچ سو روپے!) گجرات 2002 میں کھاکھی چڑھی دہشت گردوں کے ذریعہ جلائے گئے گجراتی مسلمان کے ہر گھر کے لئے۔ 4) کشمیری پنڈت سرکاری ملازم جنوبی دہلی میں 20 سال سے زیادہ کرایہ کے بغیر مہنگی سرکاری رہائش پر قابض ہیں۔ بمقابلہ گجرات میں مسلمانوں کو گھر کرایہ یا خریدنے کے لیے نہیں ملتے چاہے وہ پریمیم ادا کرنا چاہیں! 5) 'جے اینڈ کے مائیگرنٹس امویو ایبل پراپرٹی (پریزرویشن، پروٹیکشن اینڈ ریسٹرین آف ڈسٹریس سیلز) ایکٹ 1997' اور 'جے اینڈ کے مائیگرنٹس (اسٹے آف پروسیڈنگز) ایکٹ، 1997' وادی میں چھوڑی گئی جائیدادوں کی پریشانی کی فروخت کو روکنے اور روکنے کے لیے۔ کشمیری پنڈت جو بھاگ گئے* بمقابلہ 'ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ' گجراتی مسلمانوں کو اپنی جائیدادیں بیچنے اور احمد آباد کی چند یہودی بستیوں میں رہنے پر مجبور کرتا تھا جب کہ ہندو ایسے مسلمانوں کو گھر نہیں بیچ سکتے۔ 6) 1990 کی دہائی میں وادی کشمیر سے بھاگنے والے ہر برہمن کشمیری پنڈت خاندان کے ایک فرد کو HMT جیسے مرکزی حکومت کی ملکیتی یونٹوں میں سرکاری ملازمت مل گئی۔ اب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیکس دہندگان کے پیسے سے پنشن کے مزے لے رہے ہیں۔ بمقابلہ 2002 کی نسل کشی میں متاثر ہونے والے گجراتی مسلمانوں میں سے کسی کو ایک بھی سرکاری نوکری نہیں ملی۔ اس کے بجائے کئی سالوں تک انہیں گرفتار کرکے جعلی مقابلوں میں مارا گیا۔ 7) 1990 کی دہائی سے زیادہ تر ریاستی حکومتوں نے برہمن کشمیری پنڈت پناہ گزینوں کے لیے پروفیشنل کالجوں میں نشستیں مخصوص کیں۔ بمقابلہ 2002 کی نسل کشی کے بعد اسکولوں میں گجراتی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ 8) برہمن کشمیری پنڈت باقی ہندوستانیوں کی طرح انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں منموہن سنگھ کے دور حکومت میں جاری کردہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کی بدولت بمقابلہ امتیازی سلوک کے باوجود گجراتی مسلمان ہر ایک کی طرح محنت کرتے ہیں اور قوم کو ٹیکس دیتے ہیں۔ *ذرائع*: * اگست 2011 اور 13 دسمبر 2011 کو لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے داخلہ، حکومت ہند، جتیندر سنگھ کا بیان (پریس ٹرسٹ آف انڈیا، نئی دہلی) # ٹائمز آف انڈیا، 01 دسمبر 2010 _*Brahman Kashmiri Pandits refugees vs Gujarati Muslims 2002 victims - Some unknown facts*_ 1) 219 Brahman Kashmiri Pandits killed in Kashmir in violence*. Vs Over 2000 Muslims killed in Gujarat in 2002. Which is genocide? 2) 58,697 Brahman Kashmiri Pandit familes left valley and provided with free food, reservation in state and central government offices, schools and colleges, all over India*. Vs 5 lakh Muslims displaced and forced to live initially in refugee camps and later on streets as Modi closed the refugee camps. 3) Rs. 1,61,8,00,00,000 (Rs. 1618 crores) of money pumped in for rehabilitation of Brahman Kashmiri Pandit families till 2011*. Vs Rs. 500 (yes five hundred rupees only!) for each house of a Gujarati Muslim burnt by khakhi chaddi terrorists in Gujarat 2002. 4) Kashmiri Pandits Government servants occupying expensive Government accommodation in south Delhi without rent for over 20 years#. Vs Muslims in Gujarat don't get homes to rent or to buy even if they want to pay a premium! 5) 'The J&K Migrants Immovable Property (Preservation, Protection and Restrain of Distress Sales) Act 1997' and 'J&K Migrants (Stay of Proceedings) Act, 1997' to protect and restrain the distress sale of properties left behind in the Valley by the Kashmiri Pandits who ran away*. Vs 'Disturbed Areas Act' used to force Gujarati Muslims sell their properties and live in a few ghettos of Ahmedabad while Hindus can't sell homes to such Muslims. 6) In 1990s one member of each Brahman Kashmiri Pandit family who has ran away from Kashmir valley got a Government job in Central Government owned units like HMT. They are now enjoying tax payers' money as pension after retirement. Vs None of the Gujarati Muslims affected in the 2002 genocide got a single government job. Instead for many years they were arrested and killed in fake encounters. 7) Most of the state governments since 1990s reserved seats in professional colleges for the Brahman Kashmiri Pandit refugees. Vs Gujarati Muslims were discriminated in schools after 2002 genocide. 8) Brahman Kashmiri Pandits do it pay income taxes like rest of Indians thanks to an executive order issued during the reign of Manmohan Singh Vs Despite discrimination Gujarati Muslims work hard and pay taxes to the nation like every one else. *Sources*: * Statement by Minister of State for Home, Government of India, Jitendra Singh in Lok Sabha in Aug 2011 and on December 13, 2011 (Press Trust Of India, New Delhi) # Times of India, 01 Dec 2010
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کے نکاح کو لیکر کیئے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب : ایک اہم تحقیق : محمد نعمان مکی۔ کنگ عبداللہ میڈیکل سٹی مکہ مکرمہ۔ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيِمِ.. الحَمْدُ لله رَبِّ العَالَمِينَ وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الخَلْقِ أَجْمَعِينَ وَخَاتَمِ الأَنْبِياءِ وَالمُرْسَلِينَ سَيِّدِنا مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ بِإِحْسَانٍ إِلَى يَوْمِ الدِّيِنِ. *کیا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت محمد ﷺ کے ساتھ کم سنی میں ہوا تها......؟؟؟* دشمنان اسلام خصوص" مغربی دنیا کے لوگ اس بات کو لیکر حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں. .. اور آپ ﷺ کے مبارک تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں، جنکا دیکھا دیکھی آج کل ہندوستان کے کچھ تنگ ذہن، اسلام مخلاف لوگ بھی اس کو عنوان بنا کر مسلمانان ہند کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں.. جس کو سن کر مسلمان بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں اور شان اقدس میں ہونے والی گستاخی کو برداشت نہیں کرپاتے، مگر اس کے باوجود اس اعتراض پر اپنے آپ کو لاجواب محسوس کرتے نظر آتے ہیں.. اور بعض مسلمان خود حیران ہوکر اس پر سوال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے امی عائشہ سے اتنی کم عمری میں نکاح کیوں کیا تها....؟؟؟ آگے جو تحقیق اور حقائق آپکے سامنے پیش کیئے جارہے ہیں اسے پڑھ کر آپکے سارے اشکال دور ہوجائیں گے ان شاءالله، اور آپ خود اپنے دوسرے مسلم اور غیر مسلم بھائیوں کی غلط فہمی کو دور کر سکتے ہیں، یہ تحریر بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے اسکو کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھیں تاکہ پوری زندگی آپکو اس عنوان کے متعلق تذبذب میں مبتلا نہ ہونا پڑے. عنقریب اسکا انگریزی میں ترجمہ بھی پیش کیا جائے گا ان شاءالله، جسکو آپ اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ بھی شیر کرسکتے ہیں.. بوقت ضرورت مقررین حضرات بھی اس تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو اس کے متعلق بتا سکتے ہیں، جو کہ اسوقت مسلمان ، خصوصا" دنیوی پڑھے لکھے طبقے کے ایمان و عقائد کی سلامتی کے لئیے ضروری ہے..... صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنه کا نکاح انکی چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی کے وقت انکی عمر شریف نو برس کی تھی. { رواه البخاري (3894) ومسلم (1422) }.. یہ ساری روایات صحیح ہیں انکی صحت پر کلام نہیں کیا جاسکتا. اس بات کو مغربی میڈیا نے کئی دفعہ mispresent کرکے عوام کے دلوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق بدگمانی پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے. .. جس کی وجہ سے بعض لوگ حیرانی اور تعجب سے پوچھتے ہیں کیا محمد ﷺ نے ایک بچی سے نکاح کیا تھا...؟؟؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسکی کیا حقیقت ہے..... اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی...؟؟؟ 1400 سو سال پہلے کیا یہ عام سی بات تھی. ....؟؟؟؟ اسکا جواب دینے کے لئیے ان روایات کی صحت پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسکو تاریخی پس منظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے... *اہم نکتہ*:- وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی غذا اور انکے کے استعمال کی چیزوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور اسی طرح انسانوں کے اندر بھی جسمانی تبدیلیاں ( Anatomical and Physiological Changes ) ہوئی ہیں... 1400 سال پہلے اتنی کم عمری میں شادی ہونا ایک عام سی بات تھی... اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ، ایشیاء، افریقہ اور امیریکہ میں 9 سال سے 14 سال کی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی تھیں. .. مثال کے طور پر سینٹ آگاسٹین Saint Augustine ~ 350 AD نے جس لڑکی سے شادی کی اسکی *عمر 10 سال* تھی. . راجا ریچرڈ 2 ، KING RICHARD-II 1400 AD نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی *عمر سات سال* کی تھی. . ہینری 8 ، HENRY 8 نے ایک *6 سال* کی لڑکی سے شادی کی تھی. . یہاں تک کہ عیسائیوں کی پڑھی جانے والی آج کی موجودہ بائبل میں ہے. In the book of Numbers, chapter 31 and verse 17 *" But Save for yourselves every GIRL who has never slept with a man "* *" مگر ہر وہ لڑکی جو باکرہ ہے اسکو اپنے لیئے محفوظ کرلو"* عیسائیوں کی کیتھولک ینسائکلوپیڈیا کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کا نکاح انکی 12 سال کی عمر میں 99 برس کے جوسف سے ہوئی تھی. 1929 سے پہلے تک برطانیہ میں، چرچ آف انگلینڈ کے وزراء *12 سال* کی لڑکی سے شادی کرسکتے تهے. 1983 سے پہلے کیتھولک کینان کے قانون نے اپنے پادریوں کو ایسی لڑکیوں سے شادی کرلینے کی اجازت دے رکھی تھی کہ جنکی *عمر 12* کو پہنچ چکی ہو. بہت سارے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ امیریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلیورا میں 1880 میں لڑکی کی شادی کی جو کم سے کم عمر تھی وہ *8 سال* تھی. اور کیلیفورنیا میں *10 سال* تھی. .. یہاں تک کہ آج تک بھی امیریکہ کے کچھ اسٹیٹس میں لڑکیوں کی شادی کی جو عمر ہے، وہ *میسیچوسس میں 12 سال*، اور *نیوہیمسفر میں 13 سال* اور *نیویارک میں 24 سال* کی عمر ہے. یہاں تک تو عیسائیت اور مغربی ممالک میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر اور وہاں کے معروف شخصیات کے متعلق تھا، جس سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ تاریخی نکتہ نظر سے اس عمر کی لڑکی سے نکاح کرنا ایک عام سی بات تھی اور اسکو کوئی معیوب نہیں سمجھتا تھا. *ہندو مذہب میں شادی کی عمر* : اب ہمارے ملک ہندوستان کے قوانین اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر کے بارے میں کیا لکھا ہے. ؟ ہندو مذہب کی کتاب منوسمرتی میں لکھا ہے، *" لڑکی بالغ ہونے سے پہلے اسکی شادی کر دینی چاہیے"* ( گوتما 18-21 ) *"اس ڈر سے کے کہیں ایام حیض نہ شروع ہوجائیں، باپ کو چاہئیے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کردے جب کے وہ بے لباس گھوم رہی ہو، کیونکہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اسکا گناہ باپ کے سر ہوگا "* واشستها ( 17:70 ) (manu ix, 88; http://www.payer.de/dharmashastra/dharmash083.htm) - *Age of Marriage in India* *ہندوستان میں شادی کی عمر* : اس کے متعلق کیمبرج کے سنٹ جانس کالج کے Jack Goody نے اپنی کتاب *The Oriental, the Ancient and Primitive* میں لکھا ہے کہ ہندوستانی گھروں میں لڑکیاں بہت جلدی ہی بیاہ دی جاتیں تھیں. . سری نواس ان دنوں کے بارے لکھتے ہیں جب کہ انڈیا میں بلوغت سے قبل شادی کرنے کا رواج چلتا تھا.. (1984:11) : لڑکی کو اسکی عمر کو پہنچنے سے پہلے اسکی شادی کردینی ہوتی تھی؛ ہندو لا کے مطابق اور ملک کے رواج کے موافق لڑکی کے باپ پر یہ ضروری تھا کہ وہ بالغ ہونے سے پہلے اسکی شادی کردے، گرچہ کہ رخصتی میں اکثر تاخیر ہوتی تھی، جو تقریبا" 3 سال ہوتی تھی. (The Oriental, the Ancient, and the Primitive, p.208.) - اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایسی کم عمری کی شادیوں کا انڈیا میں آج بھی رواج ہے. - *The Encyclopedia of Religion and Ethics* میں لکھا ہے کہ، جس کی بیٹی اس حالت میں بلوغت کو پہنچتی تھی کہ وہ غیر شادی شدہ ہو تو اسکے (ہندو) باپ کو گنہگار سمجھا جاتا تھا ، اگر ایسا ہوتا تو وہ لڑکی خود بخود "سدرا" (نچلی ذات ) کے درجہ میں چلی جاتی تھی. اور ایسی لڑکی سے شادی کرنا شوہر کے لئیے باعث رسوائی ہوا کرتا تھا.. *منو* کی *سمرتی* نے مرد اور عورت کے لئیے شادی کی جو عمریں طے کی ہیں وہ اسطرح کہ، لڑکا 30 سال کا اور لڑکی 12 سال کی یا لڑکا 24 سال کا اور لڑکی 8 سال کی... مگر آگے چل کر *بھراسپتی* اور *مہابهارتہ* کی تعلیم کے مطابق ایسے موقعوں پر (ہندو) لڑکیوں کی جو شادی کی عمر بتائی گئی ہے، وہ 10 سال اور 7 سال ہے، جبکہ اسکے بعد کے *شلوکاس* میں شادی کی کم از کم عمر 4 سے 6 سال اور زیادہ سے زیادہ 8 سال بتائی گئی ہے. اور اس بات کے بے شمار شواہد ہیں کہ یہ باتیں صرف تحریر میں نہیں تھیں ( یعنی ان پر عمل کیا جاتا تھا) (encyclopedia of religion and ethics, p.450 ), - تو ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اپنی کتابوں کے مطابق بھی اس عمر میں شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، جو لوگ اسپر اعتراض کرتے ہیں یا تو وہ جہالت کی بنیاد پر کرتے ہیں یا سیاسی مفاد کی خاطر... انکو چاہئیے کہ پہلے تاریخ کا اور اپنی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کریں.... *1400 سال قبل ملک عرب میں* بھی اس عمر میں لڑکی کی شادی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا... حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں جن لوگوں نے آپکے پیغام کو جھٹلایا تھا، انہوں نے ہر طریقے سے آپ ﷺ کو بدنام کرنے اور آپکو نیچا دکھانے کی کی کوشش کی. وہ ہر اس موقع کی تاک میں رہتے تھے کہ جس سے وہ آپ ﷺ کی شخصیت پر وار کر سکیں زبانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی. آپ ﷺ پر جو زبانی حملے کرتے تھے ان میں کبھی آپﷺ کو جادوگر کہتے تھے، کبھی آپکو کو جھوٹا کہتے تو کبھی آپ ﷺ کو مجنون کہتے تھے، نعوذ بالله من ذالك. مگر کبھی بھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنه سے آپکے نکاح کو لیکر اعتراض کریں یا طعنہ دیں، ایسا کیوں...؟؟؟ کیونکہ اسوقت انکے سماج میں یہ عام سی بات تھی. اور انکے نزدیک وہ کوئی ایسی عیب کی بات نہیں تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ آپ کو طعنہ دیتے.... *کیا آپ جانتے ہیں. ..؟* کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ کے پہلے 54 سال تک صرف ایک ہی زوجہ محترمہ تھیں، وہ ام المومنین حضرت خديجة الكبرى رضى الله عنه تھیں. کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک بیوہ عورت تھیں جن سے حضرت محمد ﷺ نے نکاح کیا تها؟؟؟؟؟ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں. .؟؟؟ حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی کے عین جوانی کے ایام صرف یہ ایک بیوی حضرت خدیجہ رضى الله عنه کے ساتھ گذارے ہیں جو آپ سے 15 سال بڑی تھیں...اور آپ ﷺ نے انکی وفات تک بھی ان سے تعلق رکھا اور یہاں تک کے انکی وفات کے بعد بھی انکے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تعلق کو برقرار رکھا.... *أم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے آپکا نکاح:* اللہ کے حکم پر آپﷺ نے أم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے نکاح فرمایا جب کہ انکی عمر مبارک 6 سال تھی، مگر اسی وقت رخصتی نہیں کی گئی، جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه کی عمر 9 سال کی ہوئی تب آپکی رخصتی ہوئی. اب سوال یہ ہے کہ، جس وقت آپکی رخصتی ہوئی ہے اسوقت کیا حضرت عائشہ ابھی نابالغ بچی تھیں....؟؟؟ نہیں بلکہ ملک عرب کے موسم اور وہاں کی ترتیب کے حساب سے وہ عمر بچیوں کی رخصتی کے لئیے قابل قبول عمر تھی... *تاریخ اور جدید سائنس* : اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بلوغت کی عمر مختلف زمانے اور مختلف علاقوں کے حساب سے مختلف ہوتی رہی ہے... موجودہ سائنسی تحقیقات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ " لڑکیاں مکمل بلوغت کی عمر کو *9 سے 15 سال کی عمر* کے درمیان کسی بھی وقت پہنچ سکتی ہیں. " ( http://www.livescience.com/1824-truth-early-puberty.html ) *" The average temperature of the country is considered the chief factor with regard to Menstruation and Sexual Puberty"* (Women : An Historical, Gynecological and Anthropological compendium, Volume I, Lord and Brandsby , 1998, p. 563) ترجمہ : "کسی بهی علاقے کی بچیوں کے ایام حیض کے شروعات اور ازدواجی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں اس ملک کا اوسط" جو درجہ حرارت ہے، وہ اہم کردار ادا کرتا ہے." ان سارے دلائل کی روشنی میں اگر اس واقعہ کو دیکھیں تو یہ اشکال کہ أمی عائشہ رخصتی کے وقت نابالغ بچی تھیں، بلکل ختم ہوجاتا ہے. اور ان سارے واقعات اور تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کسی کو بهی اس نکاح پر اعتراض کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں رہتا.... ہاں! اگر کسی کے دل میں پہلے ہی سے مرض ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کرسکتا... قوله تعالى: ﴿ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴾ سورة: (البقرة) الآية: (10) "ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا." *اس نکاح کی عظیم حکمت :* تو اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی. ..؟؟؟ ہمارا خالق، ہم کو سب کو پیدا کر نے والا سب چیزوں کو سب سے بہتر جاننے والا ہے. حضرت عاشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے آپ ﷺ نے نکاح، اللہ تبارک وتعالى کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا. ( صحیح البخاری، جلد 5، کتاب 58، حدیث 235 ) سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنه نے، اللہ کے حبیب ﷺ کی 2200 سے زاید احادیث ہم تک پہنچائی ہیں. حضرت عائشہ رضی اللہ عنه غیر معمولی ذہین تھیں اور بہت بہترین قوت حفظہ کی مالک تھیں. اور چونکہ کم عمری میں ہی انکی شادی اللہ کے نبی ﷺ سے ہوگئی تھی، تو انہیں آپ ﷺ سے بہت سارا علم حاصل کرنے کا موقع مل گیا. جس کی بدولت آگے چل کر انہوں نے ایک بہت بہترین استاد، ماہر اور فقیہ کا کردار ادا کیا. تو اس شادی کے پیچھے بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں. حضرت محمد ﷺ دنیا کی آسائش اور اسکی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئیے دنیا میں تشریف نہیں لائے بلکہ آپنے ہمیشہ اپنے آپ کو دنیا کی زیب و زینت اور اسکی لذتوں سے دور رکھا، اور اپنی امت کو بھی اسکے دھوکے سے ڈرایا. جتنے بھی نکاح آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں فرمائے وہ مردوں والے شوق کی شادیاں نہیں تھیں، بلکہ وہ حکم الہی اور حکمت خداوندی کی بنیاد پر تھیں.. ورنہ ایک ایسا حسین و جمیل، اجمل و اکمل، ابحا و انور، اعلی و انسب، تونا اور خوبصورت نوجوان، جس جیسا کسی کی آنکه نے نہ دیکها ہو، وہ اپنی عین بھر پور جوانی کے ایام اپنے سے 15 سال بڑی ایک ہی بیوی کے ساتھ کیسے گزاسکتا تها ...؟؟ وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني, وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ. خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ, كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ. *آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا.* *آپ جیسا جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا.* *آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے* *آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے خود آپنے اپنے لئیے چاہا.* اللَّهمَّ صلِّ وسلِّم وبارك عليه، عدد خلقك.. ورضا نفسك، وزِنَةَ عرشِكَ، ومدادَ كلماتِك، اللَّهمَّ صلِّ وسلِّم وبارك عليه عدد ما خلقتَ، وعدد ما رزقتَ، وعدد ما أحييتَ، وعدد ما أَمتَّ. اس کو شیر کر کے صدقۂ جاریہ ثواب میں حصہ لیجیے https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender&hl=en
*نقشِ حیات، اور مصلحتِ حیات والے مدنی* مولانا محمود مدنی صاحب بی جے پی کو ذمہ دار پارٹی آپ کیسے کہہ سکتے ہیں،؟ عربوں کی دباؤ کے بعد نپور شرما کو پارٹی سے نکالا گیا، ارے بی جے پی کو ذرہ برابر دکھ اور ہمدردی ہوتی پہلے ہی نکال دیتی.. اب تو حد ہے کہ اسے مضبوط سیکورٹی دیدی گئی اور افسوس اب تو راجدھانی میں اسکی حمایت میں ہندو سینا اور تعصب پرست ہندو احتجاج بھی کرنے لگے ہیں، کل گزشتہ جمعہ کو ہندوستان کے الگ الگ علاقوں سے پروانۂ رسالت صل اللہ علیہ وسلم کے جانب سے پر امن ریلی نکالی گئی.مگر یہ پر امن مظاہرے بھی اس ٹولے کو ایک آنکھ نہیں بھایا، اور تو اور ہندوستانی ہر عسکری وردی مسلموں کے لئےرچھک سے بچھک بن چکی ہے عدمِ قیادت کی وجہ سے رانچی وغیرہ میں بے چارے تین لوگ استبدادی حکومت کے گولیوں کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے ہیں، اسلام زندہ باد کا نعرہ اور ناموس رسالت کے لئے سرخ رو ہوکر اپنے رب کی بارگاہ پہونچ چکے ہیں، اور پچاس سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں، اور کتنوں کو سلاخوں میں ڈال دیا گیا ہے، اب سوال یہ ھیکہ مسلم تنظیمیں انکے لئے کیا کام کرتی ہیں اور کہاں تک انکا ساتھ دیتی ہیں؟ اب بھی آپ اس کو سیاسی ذمہ دار پارٹی مانتے رہینگے، جو اپنے انا اور تعصب میں اس قدر ڈوب چکی ہے. کہ انکو کوئی فرق ہی نہیں کہ جی ڈی پی کتنی ہی گرجائے،گلف ممالک کے تجارتی باییکاٹ سے مہنگائی کی مار آسمان چھونے لگے،خام تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے اور انکے اس ڈھٹائی کی وجہ سے کتنے لوگ روڈ پر آجائیں، اس حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا! پھر بھی یہ ذمہ دار پارٹی ہے، اور آپکی اس بات کی تائید کے لئے آپکے نرے مقلدین برہمن کے بتوں پر جل چڑھانے کو لیکر بھی اچھی تاویل کرسکتے ہیں ۔ *بتوں پر جل چڑھانے کا یہ مقصد یہ برہمن کا* *کہ بت بھی باوضو ہوکر خدا کا نام لیتے ہیں* چلیں چھوڑیں! مدے پر آتے ہیں، بظاہر ایک مماثل مسئلہ پر دادائے محترم اور پوتے کی بات دیکھ لیتے ہیں آپ عقل و خرد سے پرے ایسا فلسفیانہ کلام کرتے ہیں کہ آپکے حوارئین سمجھانے کو لیکر حیران و سراسیمہ ہوجاتے ہیں. جیسے ملک پہلے ہے ملت بعد میں،، اب کس طرح ہے مجھے تو سمجھ نہیں آیا. کسی کو سمجھ آیا ہو تو مجھے بتائے، چلو نقش حیات والے مدنی کا واقعہ سنیں دہلی کے ایک جلسہ میں فخرِقوم و ملت شیخ الاسلام مولانا حسین احمدصاحب مدنی رح نے مسلم لیگ کی مخالفت کی، سیاسی جماعت کی مخالفت الگ شے ہے محلِ استشہاد آگے ہے خیر خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فر مایا کہ،،،موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں،،، اس سلسلے میں علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان اڈیٹر، (زمیندار، اخبار لاہور) کا نظریہِ اختلاف یہ بنا کہ ملت کا اساس وطن نہیں دین ہے۔۔۔اور دونوں حضرات نے شیخ الاسلام پر شعر کے ذریعہ طنز کسا۔۔۔ ظفر علی خان لکھتے ہیں ؀ *وطن جسکی رو سے ہے بنیادِ ملت* *میں اس شرع کی پیروی کررہا ہوں میں* *کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملت وطن سے* *حالانکہ ہے فرمودہ شاہ دوسرا اور* علامہ اقبال لکھتے ہیں ؀ *عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ* *ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است* *سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است* *چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است* *بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست* *اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است* واضح رہے یہ ا عتراض۔۔بس لفظ کی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا۔۔ آگے سنئے۔۔۔۔ جب شیخ الاسلام نے اپنے موقف کی وضاحت کردی کہ،،،میں نے اپنی تقریر میں لفظِ قومیت کا کہا ہے ملت کا نہیں کہا ہے دونوں لفظوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ملت کا معنی شریعت اور دین کے ہیں اور قوم کے معنی عورتوں اور مردوں کی جماعت کے ہیں میں نے کب کہا تھا کہ ملت یا دین کی اساس وطن پر ہے،،، بعد میں علامہ اقبالؒ نے روزنامہ ،،احسان،،میں شیخ الاسلام ؒپر اپنے اعتراض کو واپس لیا۔۔ اور مولانا ظفرؒنے بھی حضرت مدنیؒ کی رائے سے اتفاق ظاہر کیا اور پھر مولانا ظفر علی خان دیوبند کی خراجِ تحسین کرتے نظر آئے ۔۔؀ *شاد باد و شاد زی اے سرزمینِ دیوبند* *ہند میں تونے کیا اسلام کا جھنڈا بلند* *اسم تیرا با مسٰمی ضرب تیری بے پناہ* *دیوِ استبداد کی گردن ہے اور تیری کمند* *اس میں قاسمؔ ہوں کہ انور شہؔ کہ محمود الحؔسن* *سب کے دل تھے درد مند سب کی فطرت ارجمند* *گرمی ہنگامہ تیری حسین احمدؔ سےآج* *جن سے پرچم ہے روایاتِ سلف کا بلند* ان دونوں واقعہ سے دادا اپنی علم و ذہانت اور فقاہت کا لوہا منواتا نظر آتا ہے. کہ اقبال و ظفر جیسے نقد کرنے والے سخن سنج کو نہ صرف انکا ناطقہ بند کیا بلکہ. انہیں قائل و شرح صدر کرکے ہم اتفاق کر لیا. اور انکے زبانوں سے خراجِ تحسین بھی وصول کیا. اب پوتے محمود مدنی صاحب کی جانب سے،، ملک پہلے ہے ملت بعد میں،، اس حوالے سے مجھے امید ہے کہ کچھ ایسی وضاحت و تاویل ملیگی جس سے قوم کنوونس ہوپائیگی، اور آگے سے جمیعت اور دیگر مسلم تنظیمیں اس طرح بے ترتیبی اور عدم قیادت میں قوم کو تنہا نہیں چھوڑینگے، کل کے واقعہ سے سیاسی اور غیر سیاسی سر بر آوردہ لوگ ضرور اس بات پر سنجیدگی سے غور کرینگے، اور امت میں اس طرح کی ژولیدگی، اور مشق ستم نہ ہو اسکے لئے وچار کرکے کوئی لائحہ عمل تیار کرینگے. *ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں* *دبی ہے آگِ جگر مگر بجھی تو نہیں* *ابھی کچھ اور دکھائے گی روز بادِ خزا ں* *چلے گی بادِ بہاری مگر ابھی تو نہیں* محمد سلمان قاسمی بلرامپوری 10 جون 2022

Sc cast In Karnataka

Adiyan 2. Barda 3. Bavacha, Bamcha 4. Bhil, Bhil Garasia, Dholi Bhil, Dungri Bhil, Dungri Garasia, Mewasi Bhil, Rawal Bhil, Tadvi Bhil, Bhagalia, Bhilala, Pawra, Vasava, Vasave 5. Chenchu, Chenchwar 6. Chodhara 7. Dubla, Talavia, Halpati 8. Gamit, Gamta, Gavit, Mavchi, Padvi, Valvi 9. Gond, Naikpod, Rajgond 10. Gowdalu 11. Hakkipikki 12. Hasalaru 13. Irular 14. Iruliga 15. Jenu Kuruba 16. Kadu Kuruba 17. Kammara (in South Kanara district and Kollegal taluk of Mysore district) 18. Kaniyan, Kanyan (in Kollegal taluk of Mysore district) 19. Kathodi, Katkari, Dhor Kathodi, Dhor Katkari, Son Kathodi, Son Katkari 20. Kattunayakan 21. Kokna, Kokni, Kukna 22. Koli Dhor, Tokre Koli, Kolcha, Kolgha 23. Konda Kapus 24. Koraga 25. Kota 26. Koya, Bhine Koya, Rajkoya 27. Kudiya, Melakudi 28. Kuruba (in Coorg district) 29. Kurumans 30. Maha Malasar 31. Malaikudi 32. Malasar 33. Malayekandi 34. Maleru 35. Maratha (in Coorg district) 36. Marati (in south Kanara district) 37. Meda, Medara, Medari, Gauriga, Burud 38. Naikda, Nayaka, Cholivala Nayaka, Kapadia Nayaka, Mota Nayaka, Nana Nayaka, Naik, Nayak, Beda, Bedar, and Valmiki. 39. Palliyan 40. Paniyan 41. Pardhi, Advichincher, Phanse Pardhi, Haranshikari 42. Patelia 43. Rathawa 44. Sholaga 45. Soligaru 46. Toda 47. Varli 48. Vitolia, Kotwalia, Barodia 49. Yerava 50. Siddi (in Uttar Kannada district) ST Caste list in Karnataka PDF Download – Official link SC Caste List In Karnataka Central List of Scheduled Castes

Friday, June 10, 2022

بروقت نکاح کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقوال ........................ *نکاح* ......................... اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہورہے ہیں اور 25، 30 سال تک نکاح نہیں ہورہا تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے ۔ ............... ............ *نکاح*.......................... وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے۔ اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے ............................. *نکاح*........................... ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں۔۔ .......................... *نکاح*.......................... بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے. اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ............................ *نکاح*........................... بدقسمتی کی انتہا، اسکول، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔ ............................ *نکاح*.......................... انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے۔ اور اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔ ........................... *نکاح* ........................... اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔ .......................... *نکاح*.......................... اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔ . .......................... *نکاح* ...................... نکاح انسانوں کا طریقہ ہے۔ جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔ ........................ *نکاح*........................... والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں *یہ کوئی فحش پوسٹ نہیں ہے ایک درس ہے جو ہر والدین کی ضرورت ہے بےحیائی کو روکنے کا گناہوں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کا ذریعہ ہے*.

عائشہ رضی اللہ عنھا

کبھی کبھی خاموشی بھی ایک کتاب ہوتی ہے. ہر اہل زبان بول لیتا ہے لیکن کب خاموش رہنا اور کب کتنا بولنا یہ سیکھنا پڑتا ہے اور یہ بھی علم کا حصہ ہے. ہر بات کا جواب دینا نہ ضروری ہے اور نہ معقول سمجھا جاتا ہے. 6 سال میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی 14 سو سال پہلے کیا، آج بھی بہت سارے قبائلی نطام میں بچپن میں شادی ایک عام سی بات ہے. صحیح روایات کی کسی کو خوش کرنے کے لئے غلط تاویل نہیں کی جاسکتی ہےاور ایسی کوششیں علمی کام نہیں کھلائی جائیں گی. اگر اللَّهِ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ باللہ کوئی عیب صادر ہوا ہوتا تو اس زمانے کے لوگ اور عرب تہذیب کی طرف سے اس پر اعتراض کیا جاتا، جبکہ ایسا کچھ بھی تاریخ میں نہیں ہے، اس لئے اس زمانے کے لوگوں کا اس مسئلہ پر سوال، اسلام دشمنی کےعلاوہ اور کچھ نہیں ہے. نیز آپ صل اللہ علیہ وسلم، نبی و رسول ہونے کی وجہ سے آپ صلعم سے کسی سماجی عیب کا ارتکاب ہونا خارج از امکان ہے. ہندو بگوان رام اور ان کے بھائی لکشمن نے سیتا اور ان کی بھن سے کس عمر میں شادی کی تھی اس کو بھی دیکھ لیا جائے. آج ہندوستان کے قبائل میں اور یہاں تک کے کچھ غیر قبائلی علاقوں میں بچوں کے پیدا ہوتے ہی یا بہت کم عمر میں جو شادی کروادی جاتی ہے پہلے ان پر کام کرلیا جائے. اللہ کے نبی صلعم کی زندگی ہم مسلمانوں کے لئے دین کا ایک اہم حصہ ہے، اس میں سےکوئی بات کسی غیر مسلم کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے. جیسا کہ کم عمری میں حضرت مریم علیھا السلامُ کے پیٹ سے کسی مرد سےملے بغیر ہی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پیدا ہونا اور پھر کچھ ہی دن کی عمر میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بول پڑنا مسلمان اور عیسائیوں کے لیے مذہبی عقائد کا حصہ ہے. یہ باتیں غیر عیسائی اور غیر مسلموں کو اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تو اس سے ان مذاہب کے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے. ہم مسلمانوں کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر کا سوال کوئی مسئلہ ہے نہیں، دوسرے اپنے گھر کی خبر گیری کریں اور اسلام کے مسائل کو مسلمانوں پر چھوڑ دیں. والسلام محمد برہان الدین قاسمی

عائشہ رضی اللہ عنھا سے نکاح

*#شمع_فروزاں🕯* *🔰پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح* *🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی* https://youtube.com/c/KhalidSaifullahRahmani ___________________________ نبی کی حیثیت عام انسانوں کی نہیں ہوتی، وہ خالق کائنات کا نمائندہ اور اس کی مرضیات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کا رویہ، سفر وحضر، غرض کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرکت وعمل انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہوتا ہے، اس کے بولنے میں بھی انسانیت کے لئے سبق ہے اور اس کی خاموشی میں بھی، نبوت کا سلسلہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا، آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے؛ اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سو دو سو اور ہزار دو ہزار سال کے لئے نہیں؛ بلکہ قیامت تک کے لئے نمونہ ہے، اور آپ کی سیرت وسنت کی اتباع میں آخرت کی بھی فلاح ہے اور دنیا کی بھی کامیابی ہے۔ زندگی کا ایک اہم شعبہ ازدواجی اور خاندانی زندگی ہے، جس سے ہر انسان گزرتا ہے، ہر شخص حاکم اور قاضی نہیں بنتا، ہر شخص تجارت اور کاروبار نہیں کرتا؛ لیکن تقریبا ہر شخص خاندان کا حصہ ہوتا ہے، شادی بیاہ کے مرحلہ سے گزرتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، خاندان کا حصہ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں، اس کوقدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عام لوگوں کے مقابل زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی، آپ نے مختلف قبائل میں نکاح کئے، جس سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملی، خواتین نیز خاندانی زندگی سے متعلق احکام کی تفصیلات مہیا ہوئیں، آپ نے بحیثیت مجموعی جن خواتین سے نکاح کیا، ان کی تعداد گیارہ ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ سب کی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں، آپ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں، اور ایک بیوہ خاتون تھیں، بچپن ۵۵؍ سال کی عمر ہونے تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بیوی رہیں: حضرت خدیجہؓ اور ان کے بعد حضرت سودہؓ، زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں بقیہ ازواج آپ کے نکاح میں آئیں۔ غرض کہ پہلا نکاح آپ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی خاتون سے کیا ، دوسرے: ایک کے سو ا آپ کی تمام بیویاں بیوہ یا مطلقہ تھیں، تیسرے: جو انسانی زندگی میں اصل زمانۂ شباب ہوتا ہے، اس میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا فرمایا اور عمر کے آخری مرحلہ میں متعدد نکاح کئے، اگر ان نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ بہت سے غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو اعداء اسلام کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں،جن میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے نکاح بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا رشتہ پہلے جبیر ابن مطعم کے لڑکے سے طئے ہو چکا تھا، یہ خاندان ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جبیر کی بیوی نے کہا کہ اگر ابو بکر کی لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا گھر بھی بددین ہو جائے گا؛ اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں (مسند احمد: ۶؍۲۱۱) ؛ اس لئے یہ رشتہ ختم ہو گیا، پھر جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت خولہؓ نے آپ سے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رشتہ پیش کیا، حضرت سودہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عمر تھیں، آپ نے ان سے نکاح فرمایا اور بعض غیبی اشاروں کی بنا، پر حضرت عائشہؓ کے رشتہ کو بھی قبول فرمالیا، اور حضرت خولہؓ سے خواہش کی کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں، حضرت خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے سامنے یہ بات رکھی، حضرت ابو بکر کو یوں تو یہ رشتہ دل وجان سے محبوب تھا؛ لیکن چوں کہ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا؛ اس لئے اس پر تأمل ہوا، جب حضرت خولہؓ نے حضور سے یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی، اس لئے ان کی بچی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے، تو پھر وہ کھٹک بھی دور ہوگئی، اس طرح حضرت عائشہؓ سے آپ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال ، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی؛ لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔ حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑئ فوائد حاصل ہوئے: ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے، اگر آپ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس جاہلانہ رسم کے خاتمہ کا اعلان نہ کیا ہوتا، اور صرف زبانی ہدایت پر اکتفا کیا ہوتا تو شاید بھائی اور بھتیجی کے مصنوعی رشتہ کا تصور آسانی سے ختم نہیں ہوتا، اور صدیوں سے آئے ہوئے اس رواج کی مخالفت لوگوں کو گوارا نہیں ہوتی؛ لیکن جب آپ نے خود منھ بولے بھائی کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا تو ہمیشہ کے لئے یہ تصور ختم ہوگیا۔ دوسرے: اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، ۳۵۰؍صحابہ وتابعین نے ان سے حدیث حاصل کی اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد ۲۲۱۰؍ ہے، (سیر اعلام النبلاء، ۲؍۱۳۹)سات صحابہ وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں، جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے، فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتاتھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں، ماضی قریب کے معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے حضرت عائشہؓ کے فتاویٰ کو ’’ موسوعہ فقہ عائشہ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جو ۷۶۷؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس سے فقہ وفتاویٰ کے میدان میں ان کی خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں ایک اصطلاح ’’استدراک‘‘ کی ہے، کسی شخص کی بات یا تصنیف میں کوئی غلطی یا غلط فہمی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کو استدراک کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے اکابر صحابہ پر استدراک کیا ہے، جس کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’ عین الاصابۃ فی استدراک عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، اور اہل علم کی رائے ہے کہ عموما ان استدراکات میں حضرت عائشہؓ کا نقطہ نظر زیادہ درست ہے، پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے؛ اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۴۷؍ سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔ اس سکے ساتھ ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نکاح کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے معاون ومددگار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان کو عزت سے سرفراز فرمایا، چار رفقاء نے سب سے بڑھ کر آپ کی مدد کی، ان میں سے دو حضرت ابو بکر وحضرت عمرؓ کی صاحبزادیوں کو آپ نے اپنے نکاح میں لے کر عزت بخشی، اور دو رفقاء حضرت عثمانؓ وحضرت علیؓ کے نکاح میں اپنی صاحبزادیوں کو دے کر عزت افزائی کی، اور اس طرح آپ نے ان چاروں دوستوں کی قربانی کے مقابلہ دلداری فرمائی، آپ حضرت ابو بکر کو کتنی ہی نعمتیں دے دیتے؛ لیکن حضرت عائشہؓ سے نکاح کی وجہ سے اس خاندان کو جو عزت ملی، اور جو سعادت حاصل ہوئی، وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی تھی؛ اس لئے نہ کبھی حضرت ابو بکر کو پچھتاوا ہوا کہ عمر کے کافی تفاوت کے ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کر دیا اور نہ خود حضرت عائشہؓ کو؛ بلکہ وہ اس نسبت کو اپنے لئے باعث عزت وافتخار سمجھتے تھے، اور جب ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چوں کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بہت صبرو شکیب کی زندگی گزارنی پڑتی تھی، اس لئے ازواج مطہرات اگر چاہیں تو اپنے حقوق لے کر علیحدگی اختیار کر لیں تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ نے اس کو رد کر دیا، اور کہا کہ وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ ہی رہیں گی، رشتہ نکاح کا تعلق اصل میں بیوی کے ساتھ ہوتا ہے، تو جب بیوی خود اس رشتہ کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتی ہو اور خوش دلی کے ساتھ باعث افتخار جانتے ہوئے اس پر راضی رہے تو کیسے کسی کو اس پر اعتراض کا حق ہو سکتا ہے؟ جہاں تک نکاح کے وقت کم سنی کی بات ہے تو اس کا تعلق اصل میں سماجی تعامل ورواج، موسمی حالات اور غذا سے ہے؛ اسی لئے مختلف علاقوں میں بلوغ کی عمریں الگ الگ ہوتی ہیں، عرب میں کم عمری میں لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا، عہد نبوت میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کی کئ مثالیں ملتی ہیں، جن میں دس سال سے کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کر دیا گیا، اور جلد ہی وہ ماں بھی بن گئیں، خود حضرت عائشہؓ کے نکاح میں حضرت خولہ ؓ نے رشتہ پیش کیا، اور حضرت ابو بکرؓ نے رضاعی بھائی ہونے کا بھی عذر کیا؛ لیکن عمر کے تفاوت پر کسی تامل کا اظہار نہیں کیا، پھر یہ کہ حجاز کا موسم گرم ہوتا ہے اور اس زمانے میں وہاں کی غذا کھجور اور اونٹنی کا دودھ ہوا کرتا تھا، جس میں بہت زیادہ غذائیت پائی جاتی تھی؛ اس لئے وہاں کے حالات کو ہندوستان پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رواج رہا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی کی بیوی نہیں بنیں، اور معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں کا خیال ہے کہ جوسف نامی شخص سے حضرت مریمؑ کا نکاح ہوا تھا، اس وقت جوسف کی عمر ۹۹؍ برس اور حضرت مریم کی بارہ برس تھی، ۱۹۸۳ء تک کیتھولک کینان نے اپنے پادریوں کو بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، ۱۹۲۹ء سے پہلے برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ نے بھی بارہ سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت دی تھی، امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلویرا میں ۱۸۸۰ء تک لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر ۸؍ سال اور کیلی فورنیا میں ۱۰؍ سال مقرر تھی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کافی کم رکھی گئی ہے، امریکہ کی ایک ریاست ’’ میسیچوسس‘‘ ہے، جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر ۱۲؍ سال مقرر ہے، اور ایک دوسری ریاست نیوہیمسفر‘‘ میں ۱۳؍ سال مقرر ہے۔ اگر ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کم عمری کی شادی کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے، منوسمرتی میں ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہئے، (گوتما: ۱۵۔۔۲۱) اور یہ کہ باپ کو چاہئے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کر دے جب وہ بے لباس گھوم رہی ہو؛ کیوں کہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا۔ (بہ حوالہ: many ix, 88,htpp:/www.payer.de.dharam shastra/dharmash083 htm)منوسمرتی میں میاں بیوی کی شادی کی عمر یوں مقرر کی گئی ہے: لڑکا ۳۰؍ سال اور لڑکی ۱۲؍ سال، یا لڑکا ۲۴؍سال اور لڑکی ۸؍ سال کی ۔ مہا بھارت میں شادی سے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے، اس میں لڑکی کی عمر ۱۰؍ سال اور۷؍ سال ہے، جب کہ شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر ۴؍ سے ۶؍ سال اور زیادہ سے زیادہ ۸؍ سال مقرر ہے۔ آج کل برادران وطن رام جی کو سب سے آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں تو رامائن سے پتہ چلتا ہے کہ رام اور سیتا کی شادی کے وقت سیتا کی عمر صرف چھ سال تھی (رامائن، ارینہ کانڈ، سرگ: ۴۷، اشلوک: ۱۱،۴،۱۰) غرضیکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی ، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔ ۰ ۰ ۰

Thursday, June 9, 2022

محمود مدنی وجمعیت کی کفر نواز اقوال

[6/9, 2:14 PM] President RMM Bangalore: ترک قیادت بھی سنت ہے تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450 گیان واپی جامع مسجد ، کھرگون اور دہلی کے جہانگیر پوری میں مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلانے کی مہم اور حکومتی سطح پر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے پس منظر میں جمیعت علمائے ہند کے دیوبند میں منعقدہ و متحدہ دو روزہ اجلاس 28/ 29/ مئی 2022 سے ملت اسلامیہ کو کافی امیدیں تھی کہ شاید اس اجلاس میں آخری وارننگ کے طور پر کچھ تجاویز منظور کی جائیں گی ، دفاعی جنگ پر کھلم کھلا اکسایا جائے گا ، مجاہد کی اذان گونجے گی ، وغیرہ وغیرہ ۔ مگر ایسا کچھ ہؤا نہیں ، مزید یہ کہ جو کچھ ہوا بھی وہ امیدوں کے بالکل برعکس ہؤا ، خدا اور رسول کی جگہ ملک کو بٹھادیا گیا — وہی ملک جہاں ہم دلتوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں — صاف اعلان کیا گیا کہ ”ملک پہلے ہے ملت بعد میں ملک بچے گا تو ملت بچے گی“ — اچھی طرح سمجھ لیں کہ ملک تو محفوظ ہے ملت محفوظ نہیں ، ویسے بھی آج کل ”ملک بچانے“ کا جو شور و غوغا ہے وہ دراصل وطن پرستی کی کوکھ سے نکلا ہے اور وطن پرستی سراسر توحید خالص کے منافی چیز ہے — یہ بھی اعلان کیا گیا کہ نفرت کا جواب محبت سے دیا جائے — معلوم نہیں بھارت میں وہ کونسے مسلمان ہیں جنہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے ؟ جنکو مذکورہ نصیحت بار بار کی جاتی ہے — بابری مسجد ہڑپ کرنے والی اور بے قصور مسلم نوجوانوں کو بیس بیس سال قید رکھنے والی عدلیہ پر بھروسے کا اظہار کیا گیا ، ایک لاکھ پیڑ لگوائے گئے ، ویسے شجرکاری کے لئے اجلاس کی چنداں ضرورت نہیں تھی یہ کام مسلمان کسان بغیر کہے کر رہے ہیں ۔ ویسے تو بھارتی مسلمان جمیعت علمائے ہند سے اس وقت سے شدید ناراض ہیں جب 1979 میں ”ملک و ملت بچاؤ تحریک“ چلائی تھی اس تحریک کو بہت سے نقادوں نے ملک و ملت بیچ آؤ تحریک کہا تھا ، اس کے بعد سے اب تک جمعیت سے بھارتی مسلمانوں کی ناراضگی میں اضافہ ہی ہوا ہے اور جمیعت نے کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جس سے باعتبار مجموعی ملت کو کوئی فائدہ پہنچا ہو ۔ مرحومین کے کفن کو داغدار کرنا اچھا نہیں اس لیے ماضی کو ماضی میں ہی دفن کردیتے ہیں ۔ دیوبند میں منعقد حالیہ اجلاس کے بعد ملت کے نوجوان اور بعض بڑے علماء بھی مولانا محمود مدنی اور جمعیت کے خلاف صف آراء ہوگئے ہیں ، مولانا سجاد نعمانی صاحب نے اس اجلاس کی تجاویز پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی‘ ؟ یعنی جب کفر کعبے سے ہی اٹھے گا تو مسلمان کہاں جائیں گے ؟ مولانا سجاد نعمانی صاحب سے بہت پہلے مرحوم مولانا ولی رحمانی صاحب بھی مولانا محمود مدنی کی پالیسیوں سے سخت اختلاف کرچکے ۔ بی جے پی کی خاتون ترجمان گستاخ رسول نوپور شرما اور جندال کے عالم اسلام کے دباؤ کے نتیجے میں پارٹی سے نکالے جانے کے بعد مولانا محمود مدنی نے بی جے پی کو برطرفی کے اس عمل کی وجہ سے ”ذمے دار پارٹی“ کہا تو مذکورہ صف آرائی میں اچانک اچھال سا آگیا اور ہر کوئی مولانا پر برسنے لگا ۔ خیال رہے کہ عالم اسلام کو بیدار کرنے میں سوشل میڈٰیائی جوانوں کی محنت رنگ لائی ہے ناکہ کسی قائد کی للکار یا بزرگ کی دعا ۔ خانوادۂ مدنی سے متعلق کسی قائد کی یہ پہلی مرتبہ بے وقعتی نہیں ہے بلکہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ملت کے نوجوان طمانچے مارنے تک گئے ،( نعوذباللہ ) مولانا اسد مدنی مرحوم پر پتھراؤ کیا گیا ، دوران خطاب کھلم کھلا مولانا مرحوم سے حساب کتاب مانگا گیا ، ملت کٹاؤ کہا گیا ، اب وہی صورت حال مولانا محمود مدنی کے ساتھ پیش آرہی ہے ۔ ایسا بالکل نہیں کہ ملت کے یہ نوجوان بے ادب ہوگیے ہوں یا وہ شعور و آگہی سے تہی دامن ہوں یا وہ مشتعل ہوگئے ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ جمعیت کے قائدین دو قومی نظرئیے کو ٹھکرانے کے بعد سے مسلسل ملت کے اجتماعی ضمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ ملت ان مسلط قائدین کی قیادت میں دلتوں سے بدتر مقام پر فائز ہوچکی ۔ ایسے میں قیادت سے ناراضگی ، بے اطمینانی ، قیادت سے سوالات اور قیادت کا محاسبہ جائز اور فطری چیز ہے ۔ مولانا کو مشورہ خانوادۂ مدنی کا کوئی بھی شخص آج تک ووٹوں کی بنیاد پر منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں پہنچا بلکہ کانگریس کی نظر عنایت سے یا مسلمانوں کے کسی زخم پر مرہم کے طورپر ممبر پارلیمنٹ یا وزیر بنائے گئے ہیں ، یہ صورت حال ایک واضح دلیل ہے کہ ملت آپ کو اپنا قائد نہیں ماننا چاہتی ، چونکہ ملت کے چھوٹے بڑے آپ کی قیادت سے پریشان ہیں آپ کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ رہے ہیں ، آپ کو اپنا نمائندہ نہیں مانتے تو آپ ہی کو کیا پڑی ہے کہ زبردستی ملت کی قیادت کریں ، زبردستی قیادت کرنا ویسے بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق سخت نا پسندیدہ ہے آپ قیادت کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ کرسی ہے ، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں‌ کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے گزر بسر کے لئے آپ کے پاس دولت کی کمی نہیں ، آرام سے اللہ اللہ کی ضربیں لگائیں ، حصول جنت کے لئے قیادت ہی ضروری نہیں ، قیادت کے علاوہ بھی ہزاروں عبادتیں ہیں جو خاموشی سے انجام دی جاسکتی ہیں ”ترک قیادت“ بھی حضرت خالد بن ولید کی سنت ہے اسی کو اختیار کرلیجیے ۔ جمعیت علمائے ہند بار بار اپنے آپکو ایک مذہبی جماعت کہتی ہے بھارت کے پس منظر میں ”مذہبی جماعت“ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اذان ، نماز ، تلاوت قرآن ، تعلیم قرآن ، تزکیہ نفس تک محدود ہے ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذکورہ بالا امور کو چھوڑ کر جمعیت کے قائدین کیوں سیاسی گلیاروں میں خاک چھانتے ہیں ؟ 9/ جون 2022 [6/9, 11:39 PM] President RMM Bangalore: ہم نے نظامِ مصطفوی کو ٹھکرا دیا تھا:-مولانا محمود مدنی ہم کشمیر کے مسئلہ(370)میں حکومت کے ساتھ ہیں:-مولانا محمود مدنی ظلم سہیں گے لیکن ملک پر آنچ نہیں آنے دیں گے:-مولانا محمود مدنی کوئی مسلمان اگر پاکستان،بنگلہ دیش وغیرہ سے آتا ہے تو ہم اسے واپس بھگائیں گے اور اگر کوئی ہندو آتا ہے تو اس کا استقبال ہے:-مولانا محمود مدنی این آر سی اور سی اے اے کے مسئلہ میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں-مولانا محمود مدنی اورنگ زیب سے بہتر حکمراں تھے شیواجی،میں اورنگ زیب کو 10 میں سے 7 نمبر دوں گا اور شیواجی کو 10 میں سے 10 :-مولانا محمود مدنی آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا محبت ہی سے بجھایا جا سکتا ہے:-مولانا محمود مدنی اس طرح کی اور بھی کئی باتوں کے ذریعہ مولانا محمود مدنی صاحب نے ہمیشہ نفرت کی آگ کو محبت کے پانی کے ذریعہ بجھانے کی کوشش کی ہے بی جے پی کے قومی ترجمان نے لائیو ٹی وی شو میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما نے پرائم ٹائم نیوز شو میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ۔نبیۖ کی ذات پر امی عائشہ ؓ کے حوالے سے کیچڑ اچھالی ، مقدس قرآن کا مذاق اڑاتے ہوئے مسلم کمیونٹی کے خلاف زہر اگلی ۔ اس واقعے نے پورے بھارت میں غم وغصے کا مظاہرہ کیا گیا اور نیٹیزن بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیاہے۔ گستاخ رسول ﷺ کی اک ہی سزا سر تن سے جدا! #اسلاموفوبیا_انڈیا @Sawtul_Hind ان دونوں جمیعتیوں کے ساتھ لفظ علماء نا لگایا جائے بلکہ ایک کو جمیعت امریکہ واسراءیل اور دوسری کو جمیعت مودی و یوگی و کانگریسی کھا جاۓ یہی ان دونوں کے لیے مناسب ہے امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ سعودی حکومت اور اھل حدیث اور ان جیسے منافقین جماعتوں سے اعلان براءت کرے اور جو جماعت شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کریں ھم اس کا ساتھ دیں اعلانیہ و خفیہ بھی اللہ عمل کی توفیق دے صبح ایک دل درد مند رکھنے والے ہمارے نہایت متحمل مزاج دیندار دوست نے جمعیت کے دو روزہ اجلاس کی ایک تصویر بھیجی اس پر جو کیپشن لگایا وہ ان کے درد کا عکاس تھا۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جب اس شخص کا تحمل جواب دے گیا تو صورت حال واقعی اب بہت خراب ہو چکی ۔ کیپشن دیکھیے: ("یہ ہے سنجیدگی کا عالم جیسے کہیں ولیمہ کی وتھ فیملی دعوت ہو." واقعی تصویر دیکھ کر لگا کہ لوگ نواسوں اور پوتوں کے ساتھ ایسے بے فکری سے بیٹھے ہیں جیسے امیر ترین رشتے دار کے شاندار ولیمے میں آئے ہوں۔ خیر ۳۵ لاکھ کے بنے پنڈال سے آپ اور کیا امید کرتے ہیں، جب ۵۵ لاکھ دو روزہ اجلاس کا بجٹ ہو گا تو کیسے مانا جائے کہ قوم بد حال و پریشان ہے، اب اس عظیم الشان پنڈال سے اس پیغام پر ان کی یہ درد و فکر انگیز تحریر دیکھیے۔ ابھی اقوام متحدہ کی بے اثر قرار دادیں آنا باقی ہیں۔ فی الحال یہ منقول تحریر پڑھیں: "ظلم سہیں گے, لیکن ملک پر آنچ نہیں آنے دیں گے". اگر یہ جملہ واقعی مولانا محمود مدنی کا ہے تو اس کا بین السطور یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنے حقوق کے لیے جد وجہد کرنا ملک کو نقصان پنہچانا ہے. کیا واقعی مولانا یہی کہنا چاہتے ہیں. یہ صحیح ہے کہ ہمیں حتی الامکان اشتعال وتصادم سے بچنا ہے, لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ظلم سہا جائے اور اس کے خلاف کوئی جد وجہد نہ کی جائے? کیا یہ عجیب اتفاق نہیں ہے کہ جس دن مولانا امت سے کہہ رہے ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز مت اٹھانا ورنہ ملک پر آنچ آنے کے مجرم تم ہوگے اسی دن گودی میڈیا پر بحث ہورہی ہے کہ کیا مسجد مندر تنازعہ کا سبب مسلمانوں کی ضد ہے. یعنی میڈیا کی طرح مولانا بھی ملک کی خراب ہوتی فضا کے لیے مجرم سنگھی غنڈوں کو نہیں مسلمانوں کو ہی قرار دیں گے. خیر سنا ہے کہ اجلاس منعقد کرنے کی اجازت اسی شرط کے ساتھ ملی تھی کہ یہاں سے ظلم سہنے کا پیغام دیا جائے گا.) *جمعیۃ علمائے ھند کے اجلاس میں مولانا محمود مدنی کا بیان کہا کہ ۔ " ہم ظلم برداشت کرنے تیار ہیں ہم ظلم سہنے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن ہم اپنے ملک پر آنچ نہیں آنے دیں گے "* ایک ایسے وقت میں جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ہندو دہشت گرد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں. ہندوستان میں ظلم کا مطلب مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرنا، انہیں جے شری رام کے کفریہ کلمات ادا کرنے پر مجبور کرنا، مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اور مسلم لڑکیوں کے حجاب پر حملے کرنے کا نام ظلم ہے. جمعیۃ علماء ھند کھلے عام قرارداد پاس کر رہی ہے کہ اس طرح کے مظالم کو برداشت کرنے کے لیے وہ تیار ہیں اب مسلمانان ہند خاص طور پر جمعیۃ اور دیوبند سے وابستہ علماء حفاظ و مفتیان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں تو اور کیا ہوگا ? بریلوی مسلک کے قائدین کھلے عام حکومتِ ہند کو چیلینج کر دیتے ہیں لیکن دیوبند. ندوۃ العلماء. مظاہرالعلوم. جامعہ ڈابھیل جن کی سیاسی قیادت جمعیۃ علماء ھند اور پرسنل لا بورڈ کے ہاتھوں میں ہے وہ ہندوتوا ظالموں کے سامنے پوری طرح سجدہ ریز ہو رہے ہیں. اس سے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہوگا? ہم خود پیدائشی دیوبندی ہیں اور پوری تعلیم ہمارے خاندان کے پانچ افراد نے دیوبند سے حاصل کی ہے. لیکن ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہیں تو واضح لگتا ہے کہ ہم اپنی عظیم میراث کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں. بحیثیت مسلمان سوچتے ہیں تو بڑی شرم محسوس ہوتی ہے. *اب یہ جو بیان حضرت محمود مدنی صاحب نے دیا ہے وہ حضرت کا تنہا ذاتی بیان تو ہے نہیں وہاں حضرت سیدی مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مدظلہ بھی موجود تھے اور سینکڑوں علماء و مفتیان پورے ہندوستان کے موجود تھے سب نے محمود مدنی صاحب کے اس بیان پر تالیاں بجائی ہیں. یہ جمعیۃ علمائے ہند کے ہر مقامی عالم اور صوبائی ذمہ دار کا بیان ہے.* علمائے کرام کا یہ طرزعمل مسلمانوں کو ارتداد کی طرف نہیں تو کہاں لے جاے گا? بالکل جمعیۃ سے ہمدردی رکھنے والے اور حقیقی دیوبندیت پر چلنے والے ہزاروں علماء و فضلاء ہیں اس ملک میں. لیکن وہ اپنے اپنے حلقوں اور علاقوں میں خاموش ہیں. اگر وہ حق بات بولنا شروع کردیں تو حکومت نواز علمائے مصلحت کے وبال سے امت کو بچا سکتے ہیں. لیکن کلمہ حق ادا کرنے کے لیے ایمانی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض صحافی و علمائے حق جب ایسی تنظیموں کی غلط روش پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں ہمارے ہی تنگ نظر اور غالی معتقد مزاج کے مولوی حضرات ایسے نشانہ بناتے ہیں گویا انہوں نے شانِ رسالت میں گستاخی کردی ہو. ایسی صورتحال میں حق بات کہنے کے لیے بھی بڑا جگر چاہیے ہوتا ہے. احقر العباد محمد راشد عثمانی قاسمی

Sunday, June 5, 2022

💀غیر مقلدین کے فرقے غیر مقلدین کی (بھیانک خدمات ) 💀وہابی ازم محض ايک اسلامی فرقہ ہے جو اٹھارویں صدی میں پھلا پھولا تھا۔ اس فرقے کی مثال عيسايیوں کے پیوریٹن فرقے کی سی ہے جسے سترہویں صدی میں انگلستان، نیدر لينڈاور ميسے چوسٹ میں فروغ حاصل ہوا تھا۔پیورٹین اور وہابی دونوں فرقوں کو وعویٰ ہے کہ انہوں نے اصل دین کی طرف مراجعت کی ہے لیکن يہ دونوں فرقے مکمل طور پر نئے اور اس وقت کے مخصوص حالات کے ردعمل کے طور پر معرض وجود میں آئے تھے ۔ پیغمبر اسلام کی سوانح حیات ص 31 کيرن آرمسٹرانگ کیا آپ جانتے ہیں کہ غیر مقلدین ( نام نہاداہلحدیث) میں کتنے فرقے پائے جاتے ہیں؟ 💀غیر مقلد ( نام نہاد اہلحدیث) میں14فرقے پائے جاتے ہیں -1جماعة دعوة اہلحدیث -2جمعیت اہلحدیث -3غرباءاہلحدیث 4 -يوتھ فورس اہلحدیث 5-سلفی اہلحدیث 6-ثنائيہ اہلحدیث 7-غزنوی اہلحدیث -8روپڑی اہلحدیث 9 -امرتسری اہلحدیث -10بنارسی اہلحدیث 11-توحیدی اہلحدیث -12 محمد ی اہلحدیث -13گوندلوی اہلحدیث -14نذيریہ اہلحدیث ❓کیا آپ جانتے ہیں کہ فتنہ غیر مقلدیت سے کتنے فتنوں نے جنم لیا ہے؟ ؟ ؟ ؟ ؟ 💀یوں تو ہرغیر مقلد اپنے اندر ايک فرقہ سموئے ہوئے ہيں لیکن يہاں ميں چند مشہور فرقوں کا ذکر رہا ہوں۔ مرزائی : ختم نبوت کے منکر 📌پرویزی(اہل قران ): احادیث پيغمبر ﷺ،حیات الانبیا،عذاب قبر، وسیلہ، شفاعت،کرامات،معجزات کے منکر 📌چکڑالوی : احادیث پيغمبر ﷺ،حیات الانبیا،عذاب قبر، وسیلہ، شفاعت،کرامات،معجزات کے منکر 📌جماعت المسلمین: احادیث پيغمبر ﷺ،حیات الانبیا،عذاب قبر، وسیلہ، شفاعت،کرامات،معجزات کے منکر 📌حزب اﷲ: احادیث پيغمبر ﷺ،حیات الانبیا،عذاب قبر، وسیلہ، شفاعت،کرامات،معجزات کے منکر 📌فرقہ نيچريہ : احادیث پيغمبر ﷺ،حیات الانبیا،عذاب قبر، وسیلہ، شفاعت،کرامات،معجزات کے منکر لطيفہ:ان میں سے ہر ايک فرقے کا يہ دعویٰ ہے ہمارے علاوہ باقی سب کافر ہيں بشمول والدہ محترمہ فرقہ اہلحدیث وضاحت:فرقہ اہلحديث کو والدہ محترمہ کا لقب اس ليے دیا کيونکہ يہ سارے فرقے اسی کےکوکھ ( گود) سے پیدا ہوئے ۔ ۔ ۔🎯🎯🎯