Saturday, July 30, 2022
ودی سرکارنے اشتہارات پر کتنا خرچ کیا؟ وزیر اطلاعات نے دی جانکاری
اردو دنیا
By
اردو دنیا
29/07/2022
نئی دہلی،29 جولائی:(اردودنیا.اِن/ایجنسیاں)مودی حکومت سال 2017 سے اب تک تقریباً ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے اشتہارات پر خرچ کر چکی ہے۔یہ معلومات مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے جمعرات (29 جولائی 2022) کو راجیہ سبھا میں دی۔ ٹھاکر نے یہ بھی بتایا کہ غیر ملکی میڈیا پر کوئی خرچ نہیں کیا گیا ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے 2017 سے پانچ سال کی مدت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات پر 3,339.49 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
ایک تحریری جواب میں انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ حکومت نے 2017-18 سے 12 جولائی 2022 تک پرنٹ میڈیا میں اشتہارات پر 1,756.48 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ ساتھ ہی، اس مدت کے دوران الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات پر 1,583.01 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔انوراگ ٹھاکر نے بتایا کہ اشتہارات پر یہ خرچ سینٹرل بیورو آف کمیونی کیشن کے ذریعے خرچ کیا گیا تھا۔مرکزی وزیر نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے غیر ملکی میڈیا میں اشتہارات پر حکومت کی کسی وزارت یا محکمہ نے کوئی خرچ نہیں کیا ہے۔
دینیات"کے نام پرچلائےجانے والےنصاب سے امت کافائدہ کم نقصان زیادہ: وردی محمداسلم چنگیری
چنگیری ( صدائے حق نیوز ) آج کل جو نصاب دینیات کے نام پر چلایاجارہاہے اس سے امت کافائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے اور مکاتب کاجو فائدہ ہوناچاہئے تھا وہ اس سے بالکل بھی نہیں ہورہاہے ان خیالات کا اظہار چنگیری تعلق کے دعوت وتبلیغ کے متحرک کارکن اورطلبہ وتعلیم سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے وردی محمد اسلم نے کیا انھوں نے کہاکہ مکتب کامقصد ہے گھرگھراورفردفرد تک دینی تعلیم کاپہونچانا جس کے لئے بچوں کی ذہنی ساخت کومدنظررکھتے ہوئے آسان بہترین اورکم وقت میں زیادہ کارآمدنصاب کاہوناضروری ہوتاہے ہندوستان میں جب علماء نے مدارس کے ساتھ گاؤں گاؤں مکاتب کاجال بچھاجاتواس کے لئے ایک جامع اوربہترین نصاب تعلیم تیارکیاگیاجس میں بغدادی قاعدے یسرناالقرآن سے لے کر نورانی قاعدے تک اور دینی وذہنی تربیت کے لئے اردوکتابیں تعلیم الاسلام سے لے کر دینی تعلیم کارسالہ تک تیارکیاگیاان کتابوں میں بچوں کی صلاحیت اوران کی ذہنی طاقت کو خاص طورپرمدنظررکھاگیااور اس کی وجہ یہ تھی ان نصاب تعلیم کو تیارکرنے والے اس زمانے کے ملک کے ممتازوجیدعلماء کرام تھے جن میں خصوصیت کے ساتھ حضرت تھانوی مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ مولانامحمدمیاں دیوبندی اوراب قریب میں حضرت ہردوئی رحمہم اللہ جیسی شخصیات شامل تھیں جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ہندوستان میں گھرگھردینی علم پھیلااور قرآن پاک پڑھنے کابہترین سلیقہ آیا جمعیۃ علماء نے اس کاایک مستقل پلیٹ فارم بناکرجگہ جگہ مکاتب کاجال پھیلایااوراس کے فائدے بہت عام ہوئے لیکن ادھرکچھ دنوں سے ایک نیانصاب ''دینیات ''کے نام سے شروع کیاگیاجس میں ان اکابرین کی کتابوں کویکسرنظراندازکردیاگیااورچند لوگوں پر مشتمل ایک ایسانصاب تیارکیاگیاجس میں نہ بچوں کی ذہنی ساخت ملحوظ نظرہے اورناہی بزرگوں کاطرزتعلیم سامنے رکھاگیاجس میں تعلیم سے زیادہ نظام پرتوجہ دیاجارہاہے گویاایک مکمل بزنس نیٹ ورک یاتجارتی جال ہے جس میں لوگوں کو دین اورتعلیم کے نام پر آسانی سے پھنسایاجارہاہے
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہاکہ نصاب دینیات سے ایک نقصان یہ ہے کہ اس کی مدت تعلیم لمبی ہونے کی وجہ سے اکثربچوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے خاص کرلڑکیاں جو جلدبڑی ہوجاتی ہیں انھیں بیچ میں ہی تعلیم روکنی پڑتی ہے
انھوں نے کہاکہ یہ اصل میں تعلیم کے نام پر ایک تجارت ہے آپ سوچئے آپ کے بچوں کو اگرنصاب دینیات پڑھاناہوتو بیگ کتاب اسکاف یونیفارم کپڑے جبہ وازارٹوپی بینچ اوردیگرچیزیں سب دینیات اینڈکمپنی سے ہی لینی ہوگی اگرکسی ایسی جگہ سے یہ چیزیں خریدیں جس پر دینیات کالیبل نہ ہوتو وہ نہیں چل سکتیں اب سوچئیے ان تمام چیزوں کے فروختگی روزکڑوڑوں کی تعداد میں ہوتو کتنی بڑی آمدنی ہورہی ہے اس نیٹ ورک کوپھیلانے کے لئے تبلیغ کاسہارالیاگیا اور دعوت کے ساتھیوں میں دعوت کے نام پر خوب پھیلایاگیا ہمارے ساتھی دین کے نام پراپنے بھولے پن کی وجہ سے اس کے حامی ہوگئے اور تجارتی تحریک کو تعلیم کے نام پر بڑی ہوشیاری چالاکی اور آسانی سے دعوت وتبلیغ کے ساتھیوں کے درمیان اور مسجد مسجد پھیلادیاگیا اوراب ہرجگہ اسی تعلیم کو زبردستی چلایاجارہاہے یہ نصاب کسی حدتک اسکولی طلبہ کے لئے ٹھیک تھا لیکن یہ مدرسوں اور پہلے سے چل رہے مکاتب میں داخل کرکے ایک نیامحاذ کھول دیاگیابہت سی جگہ فتنے جھگڑے بھی پیداہوئے اماموں اور عالموں کو نکالاگیا جو مدرس دینیات نہیں پڑھاتااس کی چھٹی کردی گئی
واضح ہوکہ اس نظام کوچلانے کی نہ نظام الدین سے ہدایت تھی نہ کسی بڑے عالم کااشارہ پھر کس بنیادپر اسے فروغ دیاجارہاہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے
انھوں نے دینیات کے سلسلے میں اوربھی بہت سی گفتگوکی اورکہاکہ اگرکسی کو ان باتوں پرکوئی شبہ ہوتو مجھ سےرابطہ کرلیں(9986124788)
Friday, July 29, 2022
*ڈاکٹرعبدالکلام کہتے ہیں:*
میں نے 22 سال تک پڑھایا۔
1. میں نے کبھی حاضری نہیں لی کیونکہ کلاس اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ طلباء کو خود ہی آنا پڑتا تھا۔
2. میں نے کبھی بھی کلاس روم میں خوف پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ کلاس روم طلباء کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔
3. کوئی بھی طالب علم جو دیر سے آیا، میں نے شرکت کی اجازت دی، چاہے وہ کلاس ختم ہونے سے دس منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے ذمہ داری کا احساس۔
4. میں نے کبھی بھی لفظ کو دو بار سے زیادہ نہیں دہرایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہر کوئی اتنی گہرائی سے سن رہا ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ۔
5. میں نے کبھی بھی مکمل 90 منٹ تک نہیں پڑھایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اچھے، اوسط اور کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی مختلف ہوتی ہے۔
6. میں نے کبھی نقد جرمانہ نہیں کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ کلاس میں کوئی یتیم یا غریب بچہ ہوگا۔
7. میں نے اپنے طالب علموں کو کبھی اپنے دروازے کے پیچھے انتظار کرنے نہیں چھوڑا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہونا عزت نفس کو ختم کر دے گا۔
8. میں نے ہمیشہ اجتماعی سزا کو انفرادی سزا سے بہترسمجھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ گروہ ناقابل فراموش تفریح ہے، لیکن فرد دل دہلا دینے والا ہے۔
9. میں نے ہمیشہ طالب علم کو بورڈ پر بلایا اور اس سے وہ پوچھتا جو کچھ وہ جانتا تھا ۔
افسر افغان کی فیس بک وال سے
دنیا میں سب سے زیادہ عہدے رکھنے والاشخص
مفتی محمد تقی عثمانی# کون ہے?
#ایک_عہد_ساز_شخصیت
کون جانتا تھا کہ 27 ’’اُکتوبر‘‘ 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپورؔ کے مشہور قصبہ دیوبندؔ میں پیدا ہونے والے اِس فرزند نے عالمِ اِسلام کے اُفق پر کس چمک دمک کے ساتھ طلوع ہو کر چمکنا ہے کہ اِن کے مقابلے میں باقی سب کی چمک دمک ماند پڑجائے گی
پاکستان بننے سے چار سال پہلے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور بانیانِ پاکستان اور بعداَزاں مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ کے گھر میں اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد تقی عثمانی کی شکل میں ایک ایسا گوہر نایاب پیدا ہوا‘
جس کی چمک سے آج پوری دنیا کی علمی محفلیں پُر رونق ہیں۔
اگرچہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے والد کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ لیکن اپنی خدمات میں وہ اپنے بڑے بھائی مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے بھی بہت آگے ہیں۔ اور اگر حقیقتِ حال کو مدنظر رکھا جائے‘ تو اِس وقت اَہلِ حق میں اِن کی ٹکر کی کوئی دوسری علمی شخصیت پاکستان کیا پوری دُنیا میں دیکھنے کو نہیں ملتی
سات براعظم میں پھیلی پوری اُمتِ مسلمہ میں یہ ایک واحد شخصیت ہیں‘ جن کی بات پر عرب و عجم اور دنیا جہاں میں پھیلی اُمت سرِ تسلیم خم کرتی ہے۔ اور ہر مشکل کی گھڑی میں اُمت کے طبقات کی پہلی اور آخری نظر اِنہی کی طرف جاتی ہے
افریقہ میں قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے سے متعلق کیس چل رہا تھا، اور عدالت میں دلائل دینے تھے‘
تو افریقہ کے مسلمانوں کی پوری دُنیا میں اِس مقصد کےلئے جس ہستی کی طرف نظر گئی‘
وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تھے۔
جو افریقیوں کی دعوت پر افریقہ گئے،
اور کورٹ مین اپنے دلائل سے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے میں کامیاب رہے
فجی سے لے کر مغرب کے آخری کنارے تک،
اور ناروے سے لے کر جنوب کے آخری کنارے تک پھیلی ہوئی پوری اُمت جس کو اپنا متفقہ مفتیٔ اَعظم مانتی ہے، اور جس کے فتاویٰ کو حرفِ آخر کا درجہ دیتی ہے‘ وہ ہے مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ
جس سے اگر اُمتِ مسلمہ میں کوئی ناواقف ہے‘
تو وہ صرف اور صرف پاکستانی قوم ہے‘
جو چراغ تلے اندھیرے والے محاورے کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہے،
اور پاکستان کی اکثر آبادی مفتی صاحب سے یا تو سرے سے واقف ہی نہیں‘
یا پھر صرف نام کی حد تک شناسا ہے
مفتی تقی عثمانی صاحب وہ ہستی ھیں ‘
جسے سعودی عرب عرصۂ دراز سے نیشنیلٹی دے کر مستقل سعودی شہریت اور رِہائش کا اِصرار کررہا ہے‘
مگر یہ درویش اپنی مٹی سے محبت کا قرض چکانے کےلئے حرمین کا پڑوس چھوڑے ہوئے ہے۔
جسے اپنے ملک کے حکام نے بھلے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ نہ دیا ہو‘
مگر اُردن کے بادشاہ نے اُن کی دینی خدمات کے اِعتراف میں اُنہیں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایورڈ دیا ہے
صرف اِسلامی دُنیا کے حکمران نہیں‘
بلکہ برطانیہ (اِنگلینڈ) کے سابقہ وزیراعظم ڈیوڈکیمرون سے لے کر شمالی (لاطینی) اَمریکہ کے صُدُور تک مفتی تقی صاحب سے وقت لے کر اُن سے اِسلام کے نظامِ معیشت پر آگاہی لیتے ہیں،
اور اپنے سودی نظام کے مقابلے میں اپنے ہاں اُسے نافذ العمل کروانے کےلئے مشورے لیتے ہیں
جنہیں خطابات کےلئے صرف پاکستان یا دیگرممالک کے مدارس سے ہی دعوت نامے نہیں ملتے‘
بلکہ دُنیا کی نامور اور مشہورِ زمانہ یونیورسٹیوں سے لے کر ورلڈ اِکنامک فورم جیسے عالمی فورمز پر معیشت کے موضوع پر خطاب اور آگاہی پروگراموں کےلئے مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔
ڈیڑھ سو سے زائد عربی، اُردو، فارسی اور انگریزی زَبانوں پر مبنی کتابوں کا علمی خزانہ اُمت کو لکھ کر ہدیہ کرچکے ہیں
اور یہ کوئی ڈیڑھ سو کتابچے نہیں‘
بلکہ ایک کتاب کئی کئی جلدوں پر محیط ہے،
اور ہر ہرجلد میں ہزاروں صفحات ہیں۔
پاکستان کی اَعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کے کم و بیش بیس سال چیف جسٹس رہ چکے ہیں
اور اِس دَوران کئی تاریخی اور یادگار فیصلے صادر فرماچکے ہیں۔ جن میں ’’رِبا (یعنی سود)‘‘ کے خلاف تاریخی فیصلہ ہمارے عدالتی فیصلوں کے ماتھے کے جھومر کے طور پر تاقیامت چمکتا دمکتا اور یاد گار رہے گا
سود سے لتھڑی ہوئی آلودہ بینکاری کے مقابلے میں دُنیا کو سود سے پاک اِسلامی اُصولوں پر مبنی بینکاری کا مکمل نظام لکھ کر دے چکے ہیں۔
(#نوٹ:
موجودہ اِسلامی بینکاری کے نام سے مشہور بینک اِن کے بتائے ہوئے نظام پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں‘
اِس میں مفتی صاحب کا کوئی دَوش نہیں.
اُنہوں نے مکمل نظام مرتب کر دیا ہے۔
اب اہلِ اِقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِسلامی بینکوں کو مفتی تقی صاحب کے مروج کردہ اُصولوں پر چلانے کےلئے قانون سازی کرے۔
اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے‘ تو
اُس میں مفتی تقی صاحب کا کوئی قصور نہیں
اور یہ واحد اِسلامی مصنف ہیں‘
جنہوں نے آسان ترجمہ قرآن کو زمین کی بجائے فضاء میں لکھ کر عالمِ اِسلام میں ایک نئے ریکارڈ کا اِضافہ کیا۔
تین جلدوں پر مبنی آج تک لکھے گئے تراجمِ قرآنیہ میں سب سے سلیس بامحاورہ اور شستہ اُردو سے مزین خوبصورت ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ سارے کا سارا اپنے عالمی اَسفار کے دَوران جہاز کی پرواز میں لکھا،
اور یوں ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کرگئے
اِن سے پہلے چند لوگوں نے انگریزی میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا‘ مگر وہ لوگ چونکہ باقاعدہ مولوی اور عربی پر اِتنی مہارت نہیں رکھتے تھے‘
بلکہ اُنہوں نے قرآن کے اُردو تراجم کو انگریزی میں نقل کیا تھا؛
اِس لئے اُن انگریزی تراجم میں وہ چاشنی نہ تھی۔
اِس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب وہ پہلے عالمِ دین ہیں‘ جنہیں بذاتِ خود عربی پر مادری زُبان جتنا عُبور تھا، اور انگریزی میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی۔
یوں دونوں زُبانوں پر مکمل عبور کی وجہ سے اِن کا لکھا گیا انگریزی ترجمۂ قرآن پاک آج یورپ کے مسلمانوں کی متاعِ عزیز بنا ہوا ہے،
اور بلاشبہ اُردو کی طرح انگریزی میں بھی اِن کے جیسا ترجمہ قرآن دوسرا نہیں ملتا۔
زندگی کے ایک لمحے کو قیمتی بنانے والے اور اُسے ذریعۂ آخرت بنانا کوئی مفتی تقی صاحب سے سیکھے۔ کہ جہاز کی پرواز کے دوران کے وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچایا،
اور اُردو کا سب سے خوبصورت، مستند ، بامحاورہ آسان ترجمۂ قرآن لکھنے جیسے خوبصورت کام میں لگاکر ذخیرۂ آخرت بنا لیا
سن 2009 میں پی آئی اے
(پاکستان اِنٹرنیشنل اِئیرلائن)
پر پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ٹریولنگ کرنے والے مفتی تقی عثمانی صاحب تھے۔
جس پر پی آئی اے نے اِنہیں بطور اِعزاز عمر بھر کےلئے پی آئی اے پر سفر کرنے کی صورت میں اِن کو ایک تہائی یا آدھے کرائے میں سفر کرنے کی سہولت دے رکھی ہے
مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی مادری زُبان اُردو کے ساتھ دیگر چار زُبانوں ’’عربی، انگریزی، فارسی، اور ہسپانوی(Spanish)‘‘ پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ خاص کر عربی اور انگریزی میں بہت ہی زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔
چنانچہ اُن کے اُردو سے زیادہ عربی اور انگریزی کے بیانات سے اِنٹرنیٹ بھرا پڑا ہے
اِس کے علاوہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر میں کن کن عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ؟
یا ابھی تک فائز ہیں‘
اُن کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں
.
تاحال_جن_عہدوں_پرفائز ہیں:
1:
چیئرمین شریعہ بورڈ آف اسٹیٹ بینک پاکستان۔
2:
نائب مہتمم، اور شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی۔
3:
چیئرمین اِنٹرنیشنل شریعہ اسٹینڈرڈ کونسل، اَکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیش آف اِسلامک فائنانشل اِنسٹیٹیوشن ،بحرین۔
4:
مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ، سعودی عرب۔
5:
آرگن آف آرگنائزیشن آف اِسلامک کانفرنس (OIC)۔
6:
ممبر رابطۃ العالم الاسلامی فقہ اکیڈمی مکہ، سعودی عرب۔
7:
مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ،سعودی عرب، (اسپانسرڈOIC)۔
8:
چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔
9:
چیئرمین شریعہ بورڈ، سنٹرل بینک بحرین۔
10:
چیئرمین شریعہ بورڈ، ابوظہبی اِسلامی بینک،
یواے ای(UAE)۔
11:
چیئرمین شریعہ بورڈ، میزان بینک لمیٹڈ کراچی پاکستان۔
12:
چیئرمین شریعہ بورڈ اِنٹرنیشنل اِسلامک ریٹنگ ایجنسی، بحرین۔
13:
چیئرمین شریعہ بورڈ،پاک کویت تکافُل کراچی۔
14:
چیئرمین شریعہ بورڈ ، پاک قطر تکافُل کراچی۔
15:
چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِنویسٹمنٹ اِسلامک فنڈز، کراچی۔
16:
چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِسلامک پینشن سیونگ فنڈز۔
17:
چیئرمین شریعہ بورڈ عارف حبیب اِنویسٹمنٹ_پاکستان اِنٹرنیشنل اِسلامک فنڈ، کراچی۔
18:
چیئرمین ’’ Arcapita‘‘ اِنویسٹمنٹ فنڈز، بحرینْ
19:
ممبر متحدہ شریعہ بورڈ اِسلامک ڈیویلپمنٹ بینک، جدہ، سعودی عرب۔
20:
ممبر شریعہ بورڈ، گائیڈنس فائنانشل گروپ،
یو۔ایس۔اے(USA)۔
.
#ماضی_میں_جن_عہدوں_پرفائزرہ_چکے:
21:
جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان،(’’1980‘‘تا،مئی’’1982‘‘)
22:
چیف جسٹس،شریعت ایپلٹ بینچ،سپریم کورٹ آف پاکستان، (’’1982‘‘تا،مئی’’2002‘‘)۔
23:
چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔
24:
ممبر سنڈیکیٹ یونیورسٹی آف کراچی،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔
25:
ممبر بورڈ آف گورنمنٹ اِنٹرنیشنل اِسلامی یونیورسٹی، اِسلام آباد، (’’1985‘‘تا’’1989‘‘)۔
26:
ممبر اِنٹرنیشنل اِنسٹیٹیوٹ آف اِسلامک اِکنامکس ،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔
27:
ممبر کونسل آف اِسلامک آئیڈیا لوجی،(’’1977‘‘تا’’1981‘‘)۔
28:
ممبر، بورڈ آف ٹرسٹیز اِنٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی، اِسلام آباد،(’’2004‘‘تا’’2007‘‘)۔
29:
ممبر، کمیشن آف اِسلامائزیشن آف اِکانومی، پاکستان آف پاکستان۔
۔
جس کو دُنیا جہان نے اِعزازاً اِس قدر بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں،
اور اپنے نیشنل لیول کے اِداروں کا چیئرمین بنا رکھا ہے، اُسے پاکستانی حکومت ایک بلٹ پروف گاڑی دینے کو تیار نہیں۔
اور وجہ صرف اِسلام دُشمنی ہے،
اور کچھ نہیں
مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف مسلم ہی نہیں‘
بلکہ دُنیا جہان کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بہت عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
لیکن نہ تو پاکستانی قوم اُن کو صحیح سے جانتی ہے، اور اُس قدر کی۔ اور نہ ہی پاکستان کی حکومتوں نے کبھی اُن سے اُن کی صلاحیتوں کے بقدر کوئی بڑا کام کیا
جو شخص امریکہ اور طالبان جیسی دو متحارب طاقتوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے‘
اُس شخص سے اگر حکومتِ پاکستان چاہے‘
تو دینی چھوڑ دُنیاوی اِعتبار سے کتنے فوائد حاصل کرسکتی ہے۔ اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کس قدر گراں مایہ خدمات لے سکتی ہے ؟
مگر افسوس ہمارے دولت پرست حکمرانوں پر‘
جنہوں نے کبھی پاکستان کے گوہر نایاب کو جاننے اور پہچاننے کی کوشش نہ کی۔
ضیاء الحق مرحوم نے اُن کی صلاحیتوں کا معترف ہوکر اُنہیں سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ کا چیف جسٹس لگایا تھا‘
مگر جنرل نامشرف نے ’’سود‘‘ کو حرام قرار دینے کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے پر زبردستی قبل اَز وقت معزول کردیا
مفتی تقی صاحب کی تعریف میں دیوان بھی لکھ دیے جائیں‘ تو وہ بھی کم ہیں۔
بس اِتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آج کی دُنیا میں اِقبال کے شعر کی کوئی زندہ مثال ہے‘ تو
وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اِقبال اپنی قبر سے اُٹھ کر دوبارہ سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے پھر سے اپنے شعر کو ترکیبِ لفظی دیتے ہوئے مفتی تقی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہہ رہا ہے :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور تقی جیسا پیدا
Thursday, July 28, 2022
Wednesday, July 27, 2022
پولس امواتپچھلے 2 سال میں یوپی میں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات
اردو دنیا
By
اردو دنیا
27/07/2022
نئی دہلی ، 27 جولائی :(اردودنیا.اِن/ایجنسیاں) مرکزی حکومت نے منگل (26 جولائی) کو کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں پولیس حراست میں کل 4,484 اموات ہوئیں، جب کہ 233 افراد انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ ان میں سب سے اوپر اتر پردیش، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش ہیں، جہاں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی، ماؤنواز سے متاثرہ چھتیس گڑھ اور جموں و کشمیر میں انکاؤنٹر کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔یہ جانکاری وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ عبدالصمد صمدانی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے دی۔
رپورٹ نیشنل ہیومن راٹس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پیش کی گئی، جس میں یکم اپریل 2020 سے 31 مارچ 2022 تک کا ڈیٹا پیش کیا گیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ 2020-21 کے دوران مجموعی طور پر 1,940 اموات ہوئیں، جبکہ 2021-22 میں اس طرح کے 2,544 کیس درج کیے گئے۔ 2020-21 میں اس معاملے میں اتر پردیش سب سے اوپر تھا اور اس دوران 451 لوگوں کی موت ہوئی۔ اس کے بعد مغربی بنگال میں 185 اور ایم پی میں 163 لوگوں کی موت ہوئی۔یوپی پھر 2021-22 میں 501 اموات کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد بنگال 257 اور ایم پی 201 پر ہے۔ 2020-21 میں پولیس مقابلوں میں 82 ہلاکتیں ہوئیں، جب کہ 22-2021 میں 151 مقدمات درج ہوئے۔
ماؤنواز زدہ چھتیس گڑھ میں 2020-21 میں سب سے زیادہ پولیس انکاؤنٹر اموات ریکارڈ کی گئیں، جب کہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اس مدت کے دوران 45 پولس انکاؤنٹر اموات ریکارڈ کی گئیں۔انسانی حقوق کے معاملے پر، وزارت نے کہا کہ پولیس اور پبلک آرڈر آئین ہند کے ساتویں شیڈول کے مطابق ریاستی مضامین ہیں۔ شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بنیادی طور پر متعلقہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
وزارت نے کہا کہ جب کمیشن کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی شکایات موصول ہوتی ہیں تو کمیشن انسانی حقوق کے تحفظ کے قانون 1993کے تحت طے شدہ دفعات کے مطابق کارروائی کرتا ہے۔جواب میں کہا گیا کہ این ایچ آر سی کی طرف سے وقتاً فوقتاً ورکشاپس/سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ سرکاری ملازمین کو انسانی حقوق کی بہتر تفہیم اور خاص طور پر پولیس کی تحویل میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آگاہ کیا جا سکے۔
Send
Share
Tweet
Pin
Tuesday, July 26, 2022
علماء کبار میں سے بھت سارے محدثین۔ مفسرین وائمہ فقھاء ایسے ہیں جو اپنے ناموں سے مشہور نہ ہوسکے۔ بلکہ اپنی کنیت والقاب سے جانے گئے۔ ان میں سے۔۔۔ 👇🏼
إبن تيمية :نام أحمد بن عبدالحليم
إبن القيم:نام محمد بن أبي بكر .
إبن رجب :نام عبدالرحمن بن أحمد
إبن حزم : نام علي بن أحمد.
إبن حجر: نام أحمد بن علي.
إبن كثير: نام إسماعيل بن عمر .
ابن الجوزى: نام عبدالرحمن بن علي
البخارى:نام محمد بن إسماعيل
أبو داود : نام سليمان بن الأشعث
الترمذى:نام محمد بن عيسى.
النسائى :نام أحمد بن شعيب
إبن ماجه : نام محمد بن يزيد .
أبوحنيفة :نام نعمان بن ثابت .
الشافعى: نام محمد بن إدريس .
الذهبى : نام محمد بن أحمد .
القرطبى:نام محمد بن أحمد
الصنعانى:نام محمد بن اسماعيل
الشوكانى:محمد بن علي
السيوطى : عبدالرحمن بن أبي بكر
أللهم اجعلنا ممن ينتفعون بعلومهم
واجعلنا أتباعهم۔ اللہ ہمیں انکے علوم سے فائدہ اٹھانے والا اور انکا پیروکار بنائے۔ آمین
حححمیں مولوی کیوں بنا؟
*🖌افسوس میں مولوی کیوں بنا!!*
کبھی بچپن میں بڑی تمنا تھی کہ اللہ حافظ قرآن بناۓ، والدین کی دعاؤں اور استاذ کی محنت سے یہ مرحلہ مکمل ہو گیا، ابھی تک تو عمر دس سال تھی، کہیں بھی جا سکتے تھے، مگر قسمت میں مولوی اور پھر مفتی بننا لکھا تھا۔
مگر کیا معلوم تھا کہ مولوی اور مفتی بن کر بھی کوئی کام یا ہنر ہی سیکھنا پڑے گا، اور اتنے دھکے کھانے پڑیں گے کہ دل یہ کہنے لگے گا "کہ کاش میں مولوی نہ بنتا، صرف دین دار بن جاتا"۔
کیوں کہ نیا نیا فارغ مولوی بیچارہ جب کسی مدرسہ میں پڑھانے کیلئے درخواست دیتا ہے تو مہتمم اور ذمہ داران کی آواز آتی ہے کہ ہم کو تجربہ کار مولوی چاہیے، اور وہ بھی چھ سات ہزار تنخواہ میں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ چوبیس گھنٹے مدرسہ کی چہار دیواری میں طلبہ کے ساتھ قید رہے گا، نہ وہ باہر امامت کر سکتا ہے اور نہ کوئی کاروبار کر سکتا ہے۔
نیا فاضل مولوی مدرسہ کے دروازے سے مایوس ہو کر واپس آ جاتا ہے، کیوں کہ وہ تجربہ کار نہیں ہے۔
پھر وہ کسی مسجد میں امامت کا فیصلہ لیتا ہے، تو وہاں اور منھ کی کھانی پڑتی ہے، مسجد والے ایسی شرطیں رکھتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے وہ اس سے حرمین شریفین میں نماز پڑھوائیں گے، مسجد والوں کی شرطیں یہ ہوتی ہیں:
عالم ہو، مفتی ہو، شادی شدہ ہو، سال لگا ہوا ہو، لچھے دار مقرر ہو، اور ساتھ میں خوبصورت بھی ہو، اور تندرستی سے عالم لگتا ہو، دبلا پتلا یا چھوٹے قد کا نہ ہو۔
اب اس کومعقول تنخواہ (سات ہزار ملیگی،،،،،
عام طور سے ہر مولوی کے اندر یہ شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں، خصوصاً نئے مولوی میں، چنانچہ وہ نوجوان عالم ومولوی جو ایک جذبہ اپنے دل میں لے کر نکلا تھا کہ امت کو دین سکھاؤں گا، ان کو نماز سکھاؤں گا، ان کے بچوں کو علمِ دین پڑھاؤں گا، اب وہ اپنے جذبہ پر خاک ڈالتے ہوئے مایوس ہوکر واپس لوٹ آتا ہے، اوراب اس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرے؟
کبھی وہ سوچتا ہے کوئی دکان کرے گا، کبھی ارادہ بناتا ہے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرے گا، یا کوئی اور ہنر سیکھے گا۔
اور اس طرح وہ مولوی اور اس کا علم وعمل خاک میں مل جاتے ہیں، اور وہ مولوی گھر والوں اور بستی والوں کی نظر میں گر جاتا ہے، اور سب کے طعنے اس کو سننے ملتے رہتے ہیں، تواس وقت وہ یہ تمنا کر رہا ہوتا ہے کاش میں مولوی نہ بنتا، کاش میں شروع سے ہی کوئی اور کام کرتا تو اب تک لاکھوں کما لیتا، اور لوگوں کے یہ طعنے آج مجھے نہیں ملتے، افسوس میں عالم کیوں بنا۔
اس لئے مساجد ومدارس کے ذمہ داران سے درد مندانہ اپیل وہ گزارش ہے کہ خدا کے واسطے ان نوجوان عالموں کو اس طرح کی شرطیں لگا کر ضائع مت کیجۓ، ان کو پیار کے ساتھ کام پر لگائیں، اور یہ تمام الٹی سیدھی شرطیں نہ لگائیں، ورنہ یہ نئے عالم اسی طرح ضائع ہوتے رہیں گے۔
ان کو ذمہ داری دو ان شاءاللہ یہ امت کے نوجوان نئے جذبہ کے ساتھ کام کریں گے۔
اللہ اس امت کو خصوصاً مدارس ومساجد کے ذمہ داران کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
،،،،،،،،پوسٹ اچھی لگے تو عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی دعوت دیں....اور شیر کرے
Monday, July 25, 2022
*سور کی چربی کی تاریخ*
ڈاکٹر ایم امجد خان
(ہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے)
یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ * صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے۔ *
کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی اور امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔
اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تا کہ پیسے بھی کمائے جا سکیں ۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کیا گیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔
شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر مصنوعات کے لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔
چونکہ ان کی مصنوعات کا بہت بڑا خریدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی ، جس کے نتیجے میں ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔
وقت کے ساتھ اگر آپ 1857 میں چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ وہاں پہنچنے میں مہینوں لگے اور سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود بندوق کا گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔
اس کے بعد گولیوں کو محفوظ کرنے کے لئے سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے ۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان حقائق کو پہچان لیا ، اور PIG FAT لکھنے کے بجائے ، انہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا۔
1970 کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک کے حکام نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے تو ، ان کو بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے ، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی قانون کے مطابق حلال طریقہ سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔
اس طرح ، ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر نقصان کاسامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی آمدنی کا بڑا حصہ مسلم ممالک کو اپنا سامان بیچنے سے حاصل ہوتا تھا۔
آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا استعمال کر رہے ہیں ، اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے۔ اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں ،
ان مصنوعات میں
دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں
کینڈیڈ فوڈز
ملٹی وٹامنز اور بہت سی دوائیاں شامل ہیں چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے
سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی ، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے
لہذا تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہھو تو ، پھر اس سے یقینی طور پر بچیں ، کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔
* E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E904 *
ڈاکٹر ایم امجد خان
میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ
👈براہ کرم اس وقت تک شیئر کرتے رہیں جب تک کہ وہ بلائنس آف مسملز ورلڈ وائڈ پر نہ آجائیں۔
یاد رھے کہ شیئرنگ صدقة جاريه میں گردانی جا سکتی ھے
Book 2:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02r9Uc8YHXr6Jf7bHy3DhmGmeEiszoHvM87y2aj14L9p5yXNtDbgaZJYg52wpgyQu7l&id=100063553984324
https://www.facebook.com/100011167902210/posts/pfbid06LVBKXQYjzRXeQ7MyKtc5F26sfrS2VmUEPcybwYhYJW1wQQJgfaPzPxSB1DURYyEl/
رسول اللہ ﷺاور آپ کے صحابہؓ نے انہیں (یہود کو)
وہاں (حجاز)سے نکال دیا تھا، پھر بھی سعودی
حکمران انہیں واپس لے آئے! یہودی ادارے کے
دفاعی نمائندے نے ریاض سے اپنے دورے کو براہ
راست نشر کیا
(ترجمہ)
ابو عبیدہ بن جراح کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری
باتوں میں سے ایک یہ تھی کہ، أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ
جَزِيرَةِ الْعَرَبِ "یہودیوں کو حجاز سے اور نجران کے لوگوں (عیسائیوں)کو
جزیرہ نما عرب سے نکال دو۔"(احمد)
حجاز کی سرزمین پر یہود کے غاصبوں کے دورے ابھی منظم
طریقے سے ظاہر کیے جا رہے ہیں، اور اس کے ذریعے امت اسلامیہ کے اندر
شکست کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہودی ادارے
کے 'چینل 13 (ریشیٹ 13)' کے دفاعی نمائندے نے اپنا ریاض شہر کا سفر
نشر کیا ۔ آخر کیسے اُس نے اس کے بازاروں کا دورہ کیا؟ اِس دورے میں
اُس نے شہر کے لوگوں سے عبرانی زبان میں بات کی ، اور انہیں بتایا کہ
اس کا تعلق یہودی وجود سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ مجرم کیسےملک میں داخل ہوا؟ کہاں تھیں
سعودی حکمرانوں کی سیکورٹی سروسز جو کہ لوگوں کی گردنیں
دبوچنے میں مہارت کے لیے مشہور ہیں؟ کہاں ہے وہ ایئرپورٹ سیکیورٹی
جس نے ایلون بین ڈیوڈ کا نام پڑھا، لیکن پھر بھی اسے نہ روکا اور نہ
ہی اس سے تفتیش کی؟ کہاں ہے سعودی پولیس کا وہ نظام جو جمعہ
کے خطبات، سوشل میڈیا پر لوگوں کی گفتگو، یہاں تک کہ کیفیز میں
ہونے والی گفتگو کی بھی جاسوسی کرتا ہے ؟ کیا وہ یہ سمجھ رہے
ہیں کہ حجاز کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی اس کی موجودگی
پر خبردار نہیں ہوا اور اس وجہ سے کسی نے بھی سیکورٹی کو یہ
اطلاع نہیں دی کہ انہوں نے ایک یہودی کو ریاض کی سڑکوں پر
گھومتے ہوئے دیکھا ہے؟... ؛لیکن وہ (حکمران)تو جزیرہ نمائے اسلام پر
سازشوں کو مسلط کرنے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور غدار حکمرانوں میں سے اس کی مدد کرنے والے، امت
اسلامیہ کو یہودی شیطانی وجود کے ساتھ معمول کےتعلقات قائم کرنے
پر اب تک راضی نہیں کرسکیں ہیں بلکہ ناکام ہیں ۔ اس کے بجائے، امت
کی عورتیں اپنے بچوں کے اندر اس وجود کے خلاف نفرت کے پودے کو
پروان چڑھائیں گی، جبکہ مرد اِس کے نو جوانوں کواُس مقررہ وقت کے
لیے تیار کریں گے جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی تھی، جب
آپﷺنے فرمایا: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ
حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا
عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ " قیامت قائم
نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے۔ پھر مسلمان ان کو قتل کریں
گے یہاں تک کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا، تو وہ پتھر یا
درخت بولے گا: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ہے ایک
یہودی ہے ادھر آ اور اس کو مار ڈال مگر غرقد کا درخت نہ بولے گا(وہ ایک
کانٹے دار درخت ہے جو بیت المقدس کی طرف بہت ہوتا ہے)،وہ یہود کا درخت
ہے۔"(مسلم)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا الۡيَهُوۡدَ
وَالنَّصٰرٰىۤ اَوۡلِيَآءَۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ
الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ " اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک
دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ
بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔"(المائدہ،
5:51)
انجینئر صلالح الدین عضاضة
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02kzEwFEK47QYP5oL2aB7abtSUEwhydBGBU7qcvaTh9r8mvBGYdEH8fmejE5SFKbYCl&id=100063553984324
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02UcYsp4mzrMUu5GhBg8KxZauwR2WAadaWXZjtUJZrY2DkHcV1GKwqzMzdxVbxaENtl&id=100063553984324
نوح علیہ السلام نے کشتی بنانے سے پہلے 950 سال یہ محنت بھی کہ تھی کہ کشتی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گُلشن
مُنتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو!!!
حبیب جالب
ایک پروپیگنڈا جس سے اکثر لوگ متاثر ہوجاتے ہیں, وہ یہ ہے کہ جیسے دینی فکر رکھنے والے لوگوں نے برصغیر پر برطانوی تسلط کو مکمل طور پر قبول کرلیا تھا اور اور اس کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
جوہر برادران کی تحریک خلافت ہو جو برطانوی قبضے کے دوران ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی تحریک تھی، انجمن خدام کعبہ ہو ہو یا کامریڈ میگزین۔
حسرت موہانی کی انگریز مخلف تقاریر اور سیاسی سرگرمیاں ہوں یا ہمدرد میگزین۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے جاری کردہ اخبارات ہوں جیسے کہ الاہلال اور البلاغ، تنظیمی طور پر جمعیت حزب اللہ ہو یا علمی حلقوں کے طور پر دارالارشاد۔
اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے علماء میں انگریز مخالفت کے بیج ہوں یا مولانا محمود الحسن کی تحرک ریشمی رمال۔
مہاجرین تحریک ہو یا ہندوستان سے باہر موجود دینی فکر رکھنے والوں کے علمی, سیاسی یا جنگی عزائم جیسے کہ بیروت میں قائم کردہ اسلامی کالج، استنبول میں قائم کردہ انڈین مسلم کمیٹی ہو یا اس کے ذریعے اخوت اخبار کا اجرہ، عرب علاقوں میں تعینات ہندوستان سے آئے مسلم فوجیوں کو برطانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہو یا برلن اور ماسکو میں جاکر کبھی جرمن اور کبھی کمیونسٹ قیادت سے مدد کے پلان ترتیب دینا, چین میں جاکر 'حزب اللہ' کے نام سے فوج تشکیل دینے کی کوشش ہو یا لندن میں مسلم اشرافیہ اور مفکرین میں اسلام, آزادی اور انگریز مخالف فکر کی ترویج۔۔۔ ہر جگہ 'دینی' فکر کے لوگ متحرک نظر آتے ہیں۔
ہاں ان کی فکر عین اسلام پر مبنی نہیں تھی، اس میں مغربی فکری یلغار کا اثر نظر آتا ہے، وہ شفافیت اور خالص پن سے عاری تھے۔۔۔ لیکن یہ پروپیگنڈا کہ جیسے دین سے محبت رکھنے والے، اللہ اور اس کے رسول ص کا ذکر کرنے والے انگریز کے لیے راہ ہموار کررہے تھے اور ہندو, لبرل یا سرخے آزادی کی جدوجہد۔۔ سوائے جھوٹے پروپیگنڈا کے اور کچھ نہیں۔
Book 2:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02UcYsp4mzrMUu5GhBg8KxZauwR2WAadaWXZjtUJZrY2DkHcV1GKwqzMzdxVbxaENtl&id=100063553984324
نوح علیہ السلام نے کشتی بنانے سے پہلے 950 سال یہ محنت بھی کہ تھی کہ کشتی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گُلشن
مُنتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو!!!
حبیب جالب
ایک پروپیگنڈا جس سے اکثر لوگ متاثر ہوجاتے ہیں, وہ یہ ہے کہ جیسے دینی فکر رکھنے والے لوگوں نے برصغیر پر برطانوی تسلط کو مکمل طور پر قبول کرلیا تھا اور اور اس کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
جوہر برادران کی تحریک خلافت ہو جو برطانوی قبضے کے دوران ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی تحریک تھی، انجمن خدام کعبہ ہو ہو یا کامریڈ میگزین۔
حسرت موہانی کی انگریز مخلف تقاریر اور سیاسی سرگرمیاں ہوں یا ہمدرد میگزین۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے جاری کردہ اخبارات ہوں جیسے کہ الاہلال اور البلاغ، تنظیمی طور پر جمعیت حزب اللہ ہو یا علمی حلقوں کے طور پر دارالارشاد۔
اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے علماء میں انگریز مخالفت کے بیج ہوں یا مولانا محمود الحسن کی تحرک ریشمی رمال۔
مہاجرین تحریک ہو یا ہندوستان سے باہر موجود دینی فکر رکھنے والوں کے علمی, سیاسی یا جنگی عزائم جیسے کہ بیروت میں قائم کردہ اسلامی کالج، استنبول میں قائم کردہ انڈین مسلم کمیٹی ہو یا اس کے ذریعے اخوت اخبار کا اجرہ، عرب علاقوں میں تعینات ہندوستان سے آئے مسلم فوجیوں کو برطانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہو یا برلن اور ماسکو میں جاکر کبھی جرمن اور کبھی کمیونسٹ قیادت سے مدد کے پلان ترتیب دینا, چین میں جاکر 'حزب اللہ' کے نام سے فوج تشکیل دینے کی کوشش ہو یا لندن میں مسلم اشرافیہ اور مفکرین میں اسلام, آزادی اور انگریز مخالف فکر کی ترویج۔۔۔ ہر جگہ 'دینی' فکر کے لوگ متحرک نظر آتے ہیں۔
ہاں ان کی فکر عین اسلام پر مبنی نہیں تھی، اس میں مغربی فکری یلغار کا اثر نظر آتا ہے، وہ شفافیت اور خالص پن سے عاری تھے۔۔۔ لیکن یہ پروپیگنڈا کہ جیسے دین سے محبت رکھنے والے، اللہ اور اس کے رسول ص کا ذکر کرنے والے انگریز کے لیے راہ ہموار کررہے تھے اور ہندو, لبرل یا سرخے آزادی کی جدوجہد۔۔ سوائے جھوٹے پروپیگنڈا کے اور کچھ نہیں۔
Our way to Khilafah
Part-III
اس تحریر کی دوسری قسط میں، میں نے اشرافیہ پر خلافتیوں کو پہنچانے کی بات کی تھی۔ یاد رکھیں جو شخص بھی بڑی مسند پر پہنچتا ہے اور اسلام کے لیے کام کرنا شروع کرتا ہے اس کا صبر اور اللہ پہ توکل اتنا بڑا ہونا چاہیے کیونکہ اس پاکستان میں آپ کو کام کرنے کے دوران روزانا کسی یزید اور کسی اب جہل سے لازمی پالا پڑے گا۔ اور اس زمین کے خدا آپ پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن جب ہم لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اشرافیہ کا حصہ بن جائے گی تو کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ اشرافیہ میں جانے کے بعد ہمیں اپنے نفس کے خلاف بھی اتنا بڑا جہاد ہی کرنا ہو گا جتنا ہم نظام کے خلاف کر رہے ہیں، پیسے، کمیشنز گاڑیاں اور عیاشیوں کی چکا چوند ہمیں اپنے مقصد سے ہٹا سکتی۔ ہمیں اس فتنے سے بچ کے رہنا ہو گا جس کا ہمارے سردار سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا تھا بچ کہ رہنا ہو گا یعنی مال اور عورت۔ پاکستان نے جب بھی امت مسلمہ کو لیڈ کرنے لگا یا اسلام کے لیے سخت موقف پیش کیا یہاں موجود لوگوں کو انہیں سیکولر اشرافیہ کے ذریعے فارغ کر کے ایک ہائبرڈ قسم کا اسلامی نظام دے دیا گیا۔ مثال کے طور پر بھٹو (اس سے لاکھ اختلافات سہی) نے اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کی تو اس کی حکومت کو ضیاء کے ذریعے گرا دیا گیا اور پھر اسی ضیاء نے اسلامائزیشن کی ایسا اسلامی نظام جس میں معیشت سود پر ہی رہی۔ اگر وہاں جنرلز میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی جو اسلام واقعی میں چاہتے تو کبھی بھی ایسا نقلی اسلام نافذ نہ ہوتا۔ اسی نظام کو آپ ایسے بھی دیکھ لیں کہ کیسے مرسی کی حکومت کو مصر میں ایک یہودی عورت کے پالے بظاہر مسلمان جنرل سیسی نے الٹ دیا اور ملک کا حال برا کر دیا۔ ہمیں اس نظام کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بدلنا ہے نہ کہ جذباتی نعروں سے۔
Link to part 2
https://www.facebook.com/groups/revivalofkhilafah3/permalink/898904334400587/
Madras bail
https://www.livelaw.in/news-updates/madras-high-court-bail-to-man-booked-under-uapa-for-facebook-posts-203990?infinitescroll=1
Sunday, July 24, 2022
تین بڑے نظامِ تعلیم
از : مفتی محمد تقی عثمانی
تقسیم سے پہلے ہندوستان میں تین بڑے نظامِ تعلیم معروف تھے: ایک دارالعلوم دیوبند کا نظامِ تعلیم، دوسرا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا نظامِ تعلیم اور تیسرے دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نظامِ تعلیم۔ حضرت والد ماجدؒ نے تقریباً 1950ء میں ایک موقع پر جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی:
’’پاکستان بننے کے بعد درحقیقت نہ ہمیں علی گڑھ کی ضرورت ہے، نہ ندوہ کی ضرورت ہے، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت ہے، بلکہ ہمیں ایک تیسرے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے اَسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
بظاہر سننے والوں کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک مستند مفتی اعظم اور دارالعلوم دیوبند کا ایک سپوت یہ کہے کہ ہمیں پاکستان میں دیوبند کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں ایک نئے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔
حضرت والد ماجدؒ نے جو بات فرمائی وہ درحقیقت ایک بہت گہری بات ہے اور اُسی کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بڑی عظیم غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان میں جو تین نظامِ تعلیم جاری تھے، وہ درحقیقت فطری نہیں تھے، بلکہ انگریز کے لائے ہوئے نظام کا ایک نتیجہ اور انگریز کی لائی ہوئی سازشوں کا ایک ردّعمل تھا، ورنہ اس سے پہلے رائج مسلمانوں کے صدیوں پرانے نظامِ تعلیم پر غور کیا جائے تو اس میں مدرسے اور اسکول کی کوئی تفریق نہیں ملے گی۔ وہاں شروع سے لے کر اور انگریز کے زمانے تک مسلسل یہ صورت حال رہی کہ مدارس یا جامعات میں بیک وقت دونوں تعلیمیں دینی اور عصری تعلیم دی جاتی تھیں۔
صورت حال یہ تھی کہ شریعت نے جو بات مقرر کی کہ عالم بننا ہر ایک آدمی کے لیے فرضِ عین نہیں، بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی ضرورت کے مطابق کسی بستی یا کسی ملک میں علماء پیدا ہوجائیں تو باقی سب لوگوں کی طرف سے وہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا فرضِ عین ہے، یہ ہر انسان کے ذمے فرض ہے۔ اُن مدارس کا نظام یہ تھا کہ اُن میں فرضِ عین کی تعلیم بلاامتیاز ہر شخص کو دی جاتی تھی، ہر شخص اُس کو حاصل کرتا تھا، جو مسلمان ہوتا تھا۔ البتہ جس کو علمِ دین میں اختصاص حاصل کرنا ہو، اُس کے لیے الگ مواقع تھے۔ جو کسی عصری علم میں اختصاص حاصل کرنا چاہتا تھا، اُس کے لیے مواقع الگ تھے۔
گزشتہ سال میں اور برادرم معظم حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مراکش میں تھے۔ میں نے پچھلے سال دیکھا تھا اور حضرت نے اِس سال اُس کی زیارت کی۔ مراکش کو انگریزی میں ’’موروکو‘‘ کہتے ہیں، اُس کا ایک شہر ہے جس کا نام ’’فاس‘‘ ہے۔ میں ’’فاس‘‘ کے شہر میں پچھلے سال گیا تھا اور اِس سال حضرت بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ’’جامعۃ القرویین‘‘ کے نام سے ایک جامعہ آج تک کام کر رہی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چار بنیادی اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی ’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے اور چوتھی ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہے۔ تاریخی ترتیب اسی طرح ہے۔
اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی ترتیب میرے سامنے نہیں آئی کہ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس تیسری صدی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابر کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔ اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، اس لحاظ سے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس تو ہر جگہ ہوں گے، لیکن جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔
اس یونیورسٹی میں آج بھی تیسری اور چوتھی صدی کی سائنٹفک ایجادات کے نمونے رکھے ہیں۔ اُس زمانے میں اسی جامعۃ القرویین سے فارغ لوگوں نے جو ایجادات گھڑی وغیرہ کی کیں، اُن ایجادات کے نمونے بھی وہاں پر موجود ہیں۔ آپ تیسری صدی ہجری تصورکیجیے۔ یہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے۔ اس میں اسلامی علوم کے بادشاہ بھی پیدا ہوئے، اور وہیں سے ابن رُشد فلسفی بھی پیدا ہوا اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ ہوتا یہ تھا کہ دین اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا۔ اُس کے بعد اگر کوئی علمِ دین میں تخصصات حاصل کرنا چاہتا تھا تو وہ اسی جامعۃ القرویین میں علم دین کی درس گاہوں میں پڑھتا۔ اگر کوئی ریاضی پڑھانے والا ہے تو وہ ریاضی بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ اگر کوئی طب پڑھانے والا ہے تو وہ طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ یہ سارا کا سارا نظام اس طرح چلا کرتا تھا۔ جامعۃ القرویین کی طرح جامعہ زیتونہ تیونس اور جامعۃ الازہر مصر کا نظامِ تعلیم بھی رہا۔ یہ تینوں یونیورسٹیاں ہمارے قدیم ماضی کی ہیں۔ ان میں دینی اور عصری تعلیم کا سلسلہ اس طرح رہا۔
اس میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر قاضی عیاضؒ جو حدیث اور سنت کے امام ہیں، اُن کا حلیہ دیکھا جائے اور ابن خلدون جو فلسفہ تاریخ کے امام ہیں، ان کا حلیہ دیکھا جائے، دونوں کو دیکھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا کہ یہ دین کا عالم ہے اور وہ دنیا کا عالم ہے۔ دونوں کا حلیہ، لباس، ثقافت، طرزِ زندگی، طرزِ کلام سب یکساں تھا۔ اگر آپ مشہور اسلامی سائنسدان فارابی، ابن رُشد، ابوریحان البیرونی ان سب کا حلیہ دیکھیں اور جو محدثین، مفسرین اور فقہاء پیداہوئے اُن کا حلیہ دیکھیں، دونوں کا حلیہ ایک جیسا نظر آئے گا۔ اگر وہ نماز پڑھتے تھے تو یہ بھی نماز پڑھتے تھے۔ اگر اُن کو نماز کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ اگر اُن کو روزے کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ بنیادی اسلامی تعلیمات جو ہر انسان کے ذمے فرضِ عین ہیں، اُس دور میں ہر انسان جانتا تھا اور اس یونیورسٹی میں اُس کو پڑھایا جاتا تھا۔۔ تفریق یہاں سے پیداہوئی کہ انگریز نے آکر باقاعدہ سازش کے تحت ایک ایسا نظامِ تعلیم جاری کیا کہ اس سے دین کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ اُس وقت ہمارے اکابرین مجبور ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے دین کے تحفظ کے لیے کم از کم جو فرضِ کفایہ ہے، اُس کا تحفظ کریں۔ اُنہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا جس نے الحمدللہ! وہ خدمات انجام دیں جس کی تاریخ میں نظیر ملنامشکل ہے، لیکن یہ ایک مجبوری تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی جو جامعۃ القرویین میں تھی، جو جامعہ زیتونہ میں تھی، جو جامعۃ الازہر کے ابتدائی دور میں تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی۔ اگر پاکستان صحیح معنی میں اسلامی ریاست بنتا اور صحیح معنی میں اس کے اندر اسلامی احکام کا نفاذ ہوتا تو پھر اُس صورت میں ہمیں بقول حضرت والد ماجدؒ کے نہ علیگڑھ کی ضرورت تھی، نہ ندوہ کی ضرورت تھی، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت تھی، ہمیں جامعۃ القرویین کی ضرورت ہے، جامعہ زیتونہ کی ضرورت ہے اور ایسی یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس میں سارے کے سارے علوم اکٹھے پڑھائے جائیں۔ سب دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، چاہے وہ انجینئر ہو، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، چاہے کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہو، وہ دین کے رنگ میں رنگا ہوا ہو، لیکن ہم پر ایسا نظامِ تعلیم لاد دیا گیا جس نے ہمیں سوائے ذہنی غلامی کے سکھانے کے اور کچھ نہیں سکھایا۔ اُس نے ہمیں غلام بنایا۔ اکبر الٰہ آبادی نے صحیح کہا تھا ؎
اب علیگڑھ کی بھی تم تمثیل لو
اب معزز پیٹ تم اُس کو کہو
صرف پیٹ بھرنے کا ایک راستہ نکالنے کے لیے انگریز یہ نظامِ تعلیم لایا اور اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوری تاریخ اور پورا ورثہ تباہ کردیا گیا۔
نتیجہ یہ کہ آج اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے زبردست دو فرق واضح طو رپر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ موجودہ تعلیمی نظام میں اسلامی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے فرضِ عین کا بھی معلوم نہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اکثر طالب علم جانتے ہی نہیں ہیں کہ دین میں فرض کیا ہے؟ دوسرے اُن کے اوپر افکار مسلط کردیے گئے ہیں کہ اگر عقل اور ترقی چاہتے ہو تو تمہیں مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا۔ تیسری ان کی ثقافت بدل دی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ اگر اس دنیا میں ترقی چاہتے ہو تو صرف مغربی اَفکار میں ملے گی، مغربی ماحول میں ملے گی، مغربی انداز میں ملے گی۔ افسوس یہ ہے کہ اس نئے نظامِ تعلیم سے جو گریجویٹس، ڈاکٹرز یا پروفیسرز بن کر پیدا ہوتے ہیں، وہ ہم جیسے طالب علموں پر تو روز تنقید کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا، یہ اجتہاد نہیں کرتے۔ قرآن و سنت اور فقہ میں ’’اجتہاد‘‘ ایک عظیم چیز تھی، لیکن ایک ایسی چیز جس میں اجتہاد کا دروازہ چاروں طرف چوپٹ کھلا ہوا تھا، وہ تھی سائنس اور ٹیکنالوجی، ریاضی، علومِ عصریہ اس میں تو کسی نے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا۔ علیگڑھ کے اور اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو مغرب کے سائنسدانوں کا مقابلہ کرتے۔ اُس میں آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو اجتہاد کرکے طب، فلکیات، ریاضی، سائنس وغیرہ میں نئے راستے نکالتے۔ اجتہاد کا دروازہ جہاں چوپٹ کھلا تھا وہاں کوئی اجتہاد کیا ہی نہیں، اور جہاں قرآن و سنت کی پابندی ہے اور قرآن و سنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد کرنا ہوتا ہے، وہاں شکایت ہے کہ علمائے کرام اجتہاد کیوں نہیں کرتے؟
ابھی کچھ دن پہلے کسی صاحب نے ایک کلپ بھیجا جس میں ایک عالم دین سے یہ سوال کیا جارہا تھا کہ مولانا! یہ بتائیے کہ علمائے کرام کی خدمات ویسے اپنی جگہ ہے، لیکن یہ کیا بات ہے کہ علمائے کرام میں کسی طرف سے بھی کوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوا، کوئی ڈاکٹر پیدا نہیں ہوا، کسی بھی طرح کی ایجاد نہیں ہوئی، اس کا علمائے کرام کے پاس کیا جواب ہے؟ بندئہ خدا! یہ سوال تو آپ اپنے آپ سے کرتے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسا مجتہد پیدا ہوا جس نے کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ لیکن وہاں تو اجتہاد کے دروازے اس طرح بند ہیں کہ جو انگریز نے کہہ دیا، مغرب نے کہہ دیا بس وہ نظریہ ہے، اُس نے جو دواء بتادی وہ دواء ہے، اُس نے اگر کسی چیز کے بارے میں کہہ دیا کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے تو اس کی اقتداء کرتے ہیں۔ انڈے کی زردی کے بارے میں سالہاسال سے کہا جارہا تھا کہ یہ کولیسٹرول پیدا کرتی ہے اور امراضِ قلب میں مضر ہوتی ہے، لیکن آج اچانک ہر ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے کہ انڈے کی زردی کھائو، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ مغرب سے یہ پیغام آگیا ہے، اُسے آپ نے قبول کرلیا ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمارجڑی بوٹیاں لگی ہوئی ہیں، اُس پر آپ نے کبھی تحقیق کی ہوتی، اُس سے آپ نے کوئی نتیجہ نکالا ہوتا کہ فلاں جڑی بوٹی ان امراض کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کے فوائد بیان فرمائے تھے، اُس پر کوئی تحقیق کی ہوتی۔ وہاں تو اجتہاد کا دروازہ ٹوٹل بند ہے اور اُس میں کوئی تحقیق کا راستہ نہیں، اور جو قرآن و سنت کی بات ہے اُس میں اجتہاد کا مطالبہ ہے۔ یہ ذہنی غلامی کا نظام ہے جس نے ہمیں اس نتیجے تک پہنچایا۔ دوسرا یہ کہ تصورات بدل گئے۔ پہلے علم کا تصور ایک معزز چیز تھی جس کا مقصد معاشرے اور مخلوق کی خدمت تھی، یہ اصل مقصود تھا۔ اس کے تحت اگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوجائیں تو ثانوی حیثیت رکھتے تھے، لیکن آج معاملہ الٹا ہوگیا، علم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ علم کا مقصد یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرو کہ لوگوں کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکال سکو۔ تمہارا علم اس وقت کارآمد ہے کہ جب تم لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکو۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور میں کتنے لوگ پڑھ رہے ہیں اور گریجویشن کررہے ہیں، ماسٹر ڈگریاں لے رہے ہیں، قسما قسم کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں، اُن کے ذہن سے پوچھا جائے کہ کیوں پڑھ رہے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ کیریئر اچھا ہو، اچھی ملازمتیں ملیں، پیسے زیادہ ملیں۔ تعلیم کی ساری ذہنیت بدل کر یہ تبدیلی کردی کہ علم کا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ عالم حاصل کرکے معاشرے یا مخلوق کی کوئی خدمت انجام دینی ہے، اس کا کوئی تصور اس موجودہ نظامِ تعلیم میں نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص پیسے کمانے کی دوڑ میں مبتلا ہے اور اُس کو نہ وطن کی فکر ہے، نہ ملک و ملت کی فکر ہے اور نہ مخلوق کی خدمت کرنے کا کوئی جذبہ اُس کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ دن رات اسی دوڑ دھوپ میں مگن ہے کہ پیسے زیادہ بننے چاہیے۔ اُس کے لیے چوری، ڈاکہ، رشوت و ستانی وغیرہ کے ناجائز ذرائع بھی استعمال کرتا ہے۔
یہ بتائیے! موجودہ نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ یہاں تیار ہورہے ہیں، انہوں نے مخلوق کی کتنی خدمت کی؟ کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا؟ ہمیں تو پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی تھی: ’’اَللّٰھُمَّ لَاتَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا غَایَتَ رَقْبَتِنَا‘‘ ’’یااللہ! دنیا کو ہمارے لیے نہ تو ایسا بنائیے کہ ہمارا ہر وقت دھیان دنیا ہی کی طرف رہے اور نہ ہمارے علم کا سارا مَبلغ دنیا ہی ہوکر رہ جائے، اور نہ ہماری ساری رغبتوں اور شوق کا مرکز دنیا ہوکر رہ جائے۔‘‘ لیکن اس نظامِ تعلیم نے کایا پلٹ دی۔
حضرت والا ماجد مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو بات فرمائی تھی اُس کا منشاء یہ تھا کہ انگریز کی غلامی کے بعد جو تعلیم کی کایا پلٹی گئی ہے، اُس کایا کو دوبارہ پلٹ کر اُس راستے پر چلیں جو راستہ جامعۃ القرویین نے دکھایا، جو جامعہ زیتونہ نے دکھایا، جو ابتدائی دور میں جامعۃ الازہر نے دکھایا۔ میں ابتدائے دور کی بات اس لیے کررہا ہوں کہ آج جامعہ ازہر کی بھی کایا پلٹ چکی ہے، اسی لیے ابتدائی دور کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے یہاں حکومتی سطح پر وہ نظام تعلیم نافذ نہیں ہوسکا، لہٰذا مجبوراً کم از کم دارالعلوم دیوبند کے نظام کا تحفظ تو ہو۔ الحمدللہ! اسی غرض سے مدارس قائم ہوئے۔ جب تک ہمیں حکمرانوں او رنظامِ حکومت پر اور اُن کے بنائے ہوئے قوانین پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی بھروسہ ہونے کی امید ہے، اس لیے اُس وقت تک ہم اِن مدارس کا پورا تحفظ کریں گے۔ مدارس کو اسی طرح برقرار رکھیں گے جس طرح ہمارے اکابر نے دیوبند کی طرح برقرار رکھا۔ اس کے اوپر ان شاء اللہ کوئی آنچ بھی نہیں آنے دیں گے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ قوم اُس طرف بڑھے جو ہمارا ابتدائی مطمح نظر تھا۔ اسی سلسلے میں حرا فائونڈیشن کی یہ چھوٹی سی پریزینٹیشن تھی۔(دارالعلوم کراچی میں قائم سکول حرا)
اس میں رئیس الجامعہ کا چھوٹا سا خطاب تھا اور میں بھی اسے ہر جگہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ الحمدللہ! پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد بقدرِ ضرورت اچھی خاصی ہوگئی، لیکن سارے مدارس فرضِ کفایہ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کا تناسب پورے ملک کے حساب سے دیکھا جائے تو مشکل سے ایک فیصد ہوگا، لیکن ننانوے فیصد قوم جن اداروں میں جارہی ہے اور جس طرح وہ انگریزوں کی ذہنی غلام بن رہی ہے، اس تعداد کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
میں یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور کہتا رہتا ہوں کہ آپ کا اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کے لیے ہماری اس نسل کو اس انگریز کی ذہنی غلامی سے نکالیے۔ آپ کو یہ تاثر دینا ہے کہ الحمدللہ! ہم ایک آزاد قوم ہیں، ہم ایک آزاد سوچ رکھتے ہیں، ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ رکھتے ہیں اور یہ جو ذہنی غلامی کا تصور پالا گیا ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ مغرب سے آئے گا اور ہم مغربی افکار پر پروان چڑھیں گے، خدا کے لیے اس نئی نسل کے ذہنوں سے یہ چیز مٹائیے اور ان کے اندر اسلامی ذہنیت پیدا کیجیے۔ مغرب کی بھی ہر بات بری نہیں ہے، کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں، لیکن اُن اچھی چیزوں کو لے لو اور بری چیزوں کو پھینک دو، ’’خُذْ مَاصَفا وَدَعَ ماکدر‘‘ اس اصول کے اوپر اگر کام کیا جائے تو ان شاء اللہ ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔
اقبال مرحوم نے بعض اوقات ایسے حسین تبصرے کیے ہیں کہ وہ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مغرب کی ترقی جو کہیں سے کہیں پہنچی ہے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے چند شعر کہے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ؎
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب
چنگ و رباب یعنی موسیقی کے آلات۔ مغرب کی قوت اس لیے نہیں ہوئی کہ وہاں موسیقی کا بڑا رواج ہے، نہ اس وجہ سے ہوئی کہ بے حجاب اور بے پردہ عورتیں رقص کرتی ہیں۔
نے ز سحر ساحران لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے ز قطع موست .
نہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں حسین عورتیں بہت پھرتی ہیں اور نہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنی ٹانگیں ننگی کر رکھی ہیں اور اپنے بال کٹوا رکھے ہیں۔
قوتِ مغرب ازیں علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
مغرب کی قوت اسی علم و فن سے ہے اور اسی چراغ (علم و فن) کی روشنی سے روشن ہے
مفتی محمد تقی عثمانی
منقول
بشکریہ برادر قاضی توفیق
Wednesday, July 20, 2022
*ایک علاقے میں کچھ اسطرح سے رکھے گئے بچے بچیوں کے نام*
ایک بچے کا نام "انزلنا"
اسی طرح ایک بچی کا نام ہے "من تشاء"
"انعمت" تو اب عام ہوگیا ہے
سب سے زیادہ ہنسی تب آئی جب نام سنا "لذینا"۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کا مادہ "الذین" ہے۔
پوچھا صاحب آپ کا نام ؟
بولے کالو خان۔۔
ہم نے اس کا چہرہ دیکھا تو گورا چٹا
پھر استفسار کیا یہ نام کیوں اور کس نے رکھا
بولے دادا نے رکھا ہے قرآن سے دیکھ کر۔۔
"قالو" انا للہ وانا الیہ راجعون
عرصہ قبل ایک رکشہ والے نے رکشہ پہ بیٹے کانام سارق لکھاھواتھا
کہنے لگاقرآن سے دیکھاھے
سمجھابجھاکےتبدیل کرنے پہ آمادہ کیا.
بچی کا نام "منھا" سنا۔
میں نے نام رکھنے کی وجہ اور مطلب پوچھا تو
جواب ملا: "مطلب کا تو پتا نہیں البتہ قرآن پاک میں یہ لفظ آتا ھے اس لیے رکھا ھے".
ایک بچے نے کلاس میں بتایا کہ اس کے گاؤں میں ایک بچی کا نام ذلک ہے.
ہمارے پڑوس میں ایک خاتون کا نام فَھِیَ رکھا گیا ہے.
ہماری مسجد کے ایک نمازی نے اپنی بچی کا نام "ِلنْتَ" رکھا ہوا ھے۔
مسجد کے امام صاحب نے تبدیل کرنے کا بولا تو جواب ملا: " بچی کی دادی کو دورانِ تلاوت یہ لفظ پسند آیا تھا اس لیے رکھا ھے، لہذا دادی کی خوشی کی خاطر یہ نام تبدیل نہیں کر سکتے "
ہمارے گاؤں میں ایک کا نام حامیہ رکھا گیاتھا۔
ایک صاحب نے کہا "وریشا" نام رکھا ہے بیٹی کا، ٹھیک ہے؟ دیکھ بھال کے عرض کیا کہ اس میں واو عطف کا اور آخر میں ا منصوب ہونی کی وجہ سے ہے۔ کہنے لگے، "یہ ہمارا مسئلہ نہیں!"
میرا دکھ میرا ہی دکھ تھا
بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر
ہمارے گاؤں کوٹلی لوہاراں مغربی سیالکوٹ میں ایک آدمی نے اپنی بیٹی کا نام ۔۔اولئک رکھا ہے اور بیٹے کا نام کظیم کہتا یہ قرآن مجید میں ہیں.
میں حجام کے پاس تھا تو کہنے لگا میرے بھائی کو اللہ نے بیٹی دی ہے اور ہم نے اس کا نام "منھا" رکھا ہے میں نے کہا یہ کہاں ہے تو کہنے لگا قرآن میں.
ہاں یہ بھی ۔ اور ہمارے ہاں ایک بڑا مسٸلہ اور بھی تھا جو خیر اب ختم ہوا کہ اکثر خواتین کے قرآن پڑھنے کا کوٸ خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ماں بیٹی کو سکھاتی پھر وہ اپنی بیٹی کو اسی طرح نسل در نسل چلتا رہتا۔ بوڑھی خواتین بہت ذیادہ تلاوت کرتی تھیں۔ کوٸ بچہ پیدا ہوتا تو تلاوت کے دوران دادی/نانی کو کوٸ لفظ پسند آتا وہی رکھ لیتا۔اسی کے تحت ہمارے پڑوس میں ایک شخص کا نام ”خبال“ ہے حالانکہ یہ فساد کو کہتے ہیں۔
پٹھان بھائیوں میں صحابہ یا انبیاء کے اسماء پر نام رکھے جاتے ہیں تو ساتھ میں 'حضرت' بھی لگایا جاتا ہے۔
حضرت علی،حضرت عمر،حضرت بلال تو میں نے سن رکھے ہیں.
سائیکل خان بھی تھا ہمارے گاؤں میں.
لاریب فیہ ایک بچی اور
ایک بچے کا خاتون نے فرعون تجویز کیااورایک افغانی بچےکا زنیم رکھاگیاتھاجو میں نے تبدیل کیا.
ہماری ایک عزیزہ نے پوتے کا نام ابلیس تجویز کیا، پوچھا گیا تو فرمایا کہ قرآن میں آتا ہے اور جب بھی پڑھتی ہوں بہت اچھا لگتا ہے اس لیے سوچ رکھا تھا کہ یہی نام رکھنا ہے.
شیخ محمد ابن العثيمين رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ کہا جاتا ہے ایک بندے نے اپنے بیٹے کا نام "نَکْتَلْ" رکھا، پوچھنے پر کہنے لگا یہ یوسف علیہ السلام کے بھائی کا نام تھا ، فأرسل معنا أخانا نكتل... الخ
( الشرح الممتع)
سوات میں ایک خاتون کا نام سنا تھا: فطرنی۔ اس سے بھی عجیب تر نام مردان میں ایک بوڑھی خاتون کا سنا: تجریان!
ایک خاتون نے ھُنَّج نام رکھا ، ان سے پوچھا گیا یہ نام کہاں سے آیا تو فرمایا قرآن میں ہے، پوچھا گیا کہاں تو کہا "وھدیناہ النجدین"
ہمارے گاؤں کی ایک خاتون نے اپنی بھتیجی کے نام "فاحشہ" تجویز کیا تھا، شاید ان کو ساؤنڈ بہت اچھا لگا تھا اس لفظ کا.
یہ لوگ قرآن کے کسی صفحے پر آنکھ بند کرکے انگلی پھیرتے ہیں۔ کسی کے پاس قرآن اس وقت موجود نہ ہو تو کوئی دوسری کتاب حتی کہ اخبار پر بھی انگلی پھیرتے ہیں جہاں آنکھیں کھول لیں وہاں انگلی روک لیتے ہیں اور وہ لفظ نام ہوتا ہے۔ اس حساب پر ہمارے ہاں "مختلف" "اچانک" نام بھی ہیں۔
جامعہ اسلامیہ میں ایک انڈونیشن لڑکے کا نام رزقاً طیباً ہے۔
ہمارے گاؤں میں بھی ایک بزرگ تھے وہ اپنے پوتوں پوتیوں کا نام قرآن سے اسی طرح کا رکھتے تھے، ان کے ایک پوتے کا نام قم اللیل ہے ایک پوتی کانام صلات دوسری کا رب اغفرلی جو اب فرلی ہوگیا، ایک لڑکی کو استقرار حمل ہوا تو اس نے نام پہلے ہی تجویز کرلیا لڑکی ہوگی تو ابلیسہ اور لڑکا ہوگا تو ہامان.
ہمارے گاؤں میں ایک شخص کا نام *عبدالسلام* ہے، اب ان کے بیٹوں کا نام بھی انہیں کے بروزن *انت السلام* اور *منک السلام* رکھا گیا ہے. پوچھنے پر کہتے ہیں نماز کے بعد کی دعا میں یہ نام آیا ہے تو غلط تھوڑی ہوگا۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
Sunday, July 17, 2022
ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھا۔ وزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ مطمئن ہوکر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔
اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟
بادشاہ نے کہا شکار پر۔
کمہار کہنے لگا‘ حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
بادشاہ نے کہا‘ ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ تو کیا جانے موسم کیا ہے ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟
پھر بادشاہ نے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بے پر کی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے ۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھر بارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی۔ بادشاہ اور مصاحب کو سارا شکار بھول گیا۔ جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔ بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حالوں میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر اس نے دو کام کیے ۔ پہلا یہ کہ وزیرِ موسمیات کو برطرف کیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا، اسے انعامات سے نوازا اور وزیرِ موسمیات بننے کی پیشکش کی۔
کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘ حضور! کہاں میں جاہل اور ان پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اور کبھی بھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔
یہ سن کر بادشاہ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیرِ موسمیات مقرر کر دیا۔
مؤرخ کا کہنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی۔۔!! 😊
نوٹ: یہ سیاسی پوسٹ نہیں ہے۔🌺
میڈیا اور ہم
آج کا سب سے زیادہ طاقتور میڈیا الکٹرانک میڈیا ہے،
اسپر اپنا پیغام پہنچانے کے کئی وسائل ہیں۔
ویبسائٹ
بلاگ
فلائر
ویڈیو
متحرک تصویریں
کارٹون
مقالہ
تحقیق
مختصر پیغامات
بیانات
گفتگو
چاٹنگ
تعلیق
ٹویٹ
وغیرہ
پیغام پھیلانے کے لئےکئ پلاٹ فارم ہیں جیسے
فیس بک
ٹیوٹر
یوٹیوب
لنکڈان
ٹکٹاک
انستگرام
اسناپچاٹ
واتساب
اپلیکیشن
وغیرہ
میں یہ سمجھتا ہوں کہ علماء صرف اور صرف مضمون، تقریر يا شاعري كا سہارا لیتے ہیں وہ بھی اردو میں، اور انکا پلاٹ فارم صرف واتس اب، فیسبک یا یوٹیوب ہے۔
انکی پہنچ اپنے حلقہ سے آگے نہیں ہے۔ دکھ بھی اپنوں میں خوشی بھی اپنوں میں، تبصرہ بھی اپنوں میں، تذکرہ بھی اپنوں میں، دنیا نہ انکا دکھ جانتی ہے نہ انکی خوشی، پھر وہ ذہن سازی کیسے کرسکینگے؟؟؟
میڈیا جیسے طاقتور ذرائع انکے لئے غیر مفید ہوگئے۔
جمعیت اور جماعتوں کا بھی اکثر زور بیانات اور پروگرام پر ہوتاہے، کسی زمانے میں یہ شاید مفید رہے ہوں، اب ہماری نسل خطیب کیا کہنے والا ہے اکثر پہلے ہی سے اسکا اندازہ کرلیتی ہے ۔ عناوین شاید نئے ہوں لیکن باتیں تو بہرحال ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
زندہ قومیں بدلتے زمانے کا ادراک کرتی ہیں اور اسکا ساتھ دیتی ہیں، مردہ قومیں تبدیلی کو خطرہ سمجھتی ہیں اور أرطغرل جیسے پروگراموں میں بہل جاتی ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ نئ نسلوں کے ساتھ بیٹھیں، اور انکے ڈگمگاتے ایمان کو سنبھالیں، بھٹکتے قدموں کو روکیں، ایمان کی چاشنی سے روشناس کرائیں، وہ شرح صدر کے ساتھ اسلام پر جینے مرنے کی خواہشمند ہوں، یہ آج کی اہم اور فوری ضرورت ہے۔ اور یہ کام تسلسل چاہتا ہے۔ قربانی چاہتا ہے۔ یہ تزکیہ و تربیت ہے۔
تعلیم تو بیان سے منٹوں میں ممکن ہے لیکن تربیت مہینوں اور سالوں چاہتی ہے۔
ایک دن میں مسائل نماز تو سکھائے جاسکتے ہیں لیکن تربیت نماز کے لئے دس سال درکار ہیں، اسکے بعد بھی کوتاہی ہو تو پھر سرزنش کا حکم دیا گیا۔ یہ تو صحابہ کے بچوں کے لئے تھا، ہمارے بچوں کے لئے کیا بیانات کافی ہیں؟
ہر زبان میں ہر روز دسیوں کی تعداد میں مذکورہ سارے وسائل کے ذریعہ ہماری بات پہنچنی چاہئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کتنا مواد نہیں ہے، ہم سب جانتے ہیں لیکن کیا دنیا کو بتایا گیا؟؟
بتانے کے لئے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی گئی؟؟
مسلمانوں کی رواداری پر بہت کچھ مواد ہے، صرف لائبریری میں پڑا ہے، کیا دنیا کو بتایا گیا؟ انکی قبیح شکل تو سب جانتے ہیں، انکی خوبیاں کون جانتا ہے؟؟
اللہ ہمیں توفیق دے، ہمارے نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔
شیخ عبدالسلام عمری مدنی
*امیر شہری جمعیت اہلحدیث چنائ*
*مؤسس اسپائر کالج آف ایکسیلینس برائے اسلامی* تعلیمات چنائ اور بنگلور
Saturday, July 16, 2022
ایک دلچسپ مناظرہ✍️
ایک مرتبہ ایک عورت نے دعوٰی کیا کہ میں قرآن ہوں کوئی مجھے دلیل وثبوت کے دائرے میں رہ کر یہ ثابت کردے کہ میں قرآن نہیں ہوں چنانچہ یہ چیلنج اس نےہر ایک سےکرنا شروع کر دیا یہ معاملہ طول پکڑنے لگا اور بازار میں اسکے بارے میں چہ می گوئیا تیز ہونے لگیں اسکی یہ بات کسی عالم نے سنی تو عالم نے اس عورت سے بذات خود مناظرہ کرنا درست نہ سمجھا چنانچہ اس عالم نے ایک کالج کےنوجوان کو اسکے لئے تجویز کیا اور اسکو سارا معاملہ بتادیا کہ کرنا کیا ہے اسکے بعد اس نوجوان نے اسکے اس چیلنج کو قبول کر لیا اور مناظرے کا ایک دن مقرر ہوگیا مناظرے کے دن اسٹیج سجایا گیا جب نوجوان اور عورت کا مناظرہ شروع ہوا تو نوجوان نےاسٹیج پر سب کے سامنے اس کوسینے سے لگایا اور چومنا شروع کیا عورت کی عقل نے کام کرنا تو بند ہی کردیا اسنے نوجوان سے کہا یہ کیا کر رہے بدتمیزلڑکے، نوجوان نے کہا کہ یہ ہمارا طریقہ ہے کہ ہم اپنے مقدس قران کو کھولنے سے پہلے سینے سے لگاتے ہیں اور تعظیم میں بوسہ بھی لیتے ہیں تو ہم نے ابھی اسکو سینے سے لگایا اور چوماہے ابھی ہمیں اس کو کھولنااور پڑھنا باقی ہے اس کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔عورت نے شکست قبول کی اور بنا کچھ بولے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی بھلائی سمجھی اور ابھرتے ہوے فتنے کا سر قلم ہوا 👏🏾😂
آر ایس ایس کے لیے کام کرنے والے کچھ ایسے بھی نام نہاد علماء ہیں، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ بیان فرماتے ہیں!
ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں ، جو دارالعلوم دیو بند کے فاضل اور سنسکرت کے ماہر ہیں۔ ہندو مذہب پر اُن کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور اُس پر لکھتے بھی رہتے ہیں۔ ٹی وی اور میڈیا پر بھی وہ اسلام اور مسلمانوں کی اچھی نمائندگی کرتے ہیں۔ آرایس ایس کے دفتر اور اُن کے کتب خانے میں اُن کا آنا جانا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہاں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے دَسیوں علماء آرایس ایس کے لئے کام کرر ہے ہیں۔ اسلام کی کسی بات کو اعتراض کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے اور کس حدیث کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیا جاسکتا ہے ، وہ اِس طرح کا مواد نکال کر دیتے ہیں ، اور کچھ دوسرے لوگ اُس کا ترجمہ کرکے آرایس ایس کے لئے فکری کام کرنے والوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ میں نے اُن لوگوں سے پوچھا: تمہیں یہ کام کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تُم فلاں مدرسے کے فارغ ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد جمع کر کے دیتے ہو؟ تو اُن حضرات نے برجستہ کہا کہ دیکھیے ، *یہ ہمارے ٹیم لیڈر ہیں ، اِن کی تنخواہ ماہانہ دولاکھ روپے ہے ، میری ڈیڑھ لاکھ روپئے ، اور اِن کی ایک لاکھ روپئے —- آپ ہمیں اتنی تنخواہ دے دیں ، ہم ابھی یہ کام چھوڑ دیتے ہیں*۔ میں نے کہا بے ضمیری کی بھی انتہا ہو گئی۔ آپ سوچئے کہ ایک طرف اُن کی محنت کا یہ حال اور دوسری طرف ہماری بے غیرتی کا یہ نمونہ!! آپ کو معلوم ہوگا کہ قادیانیت کا ایک پرچہ آتا ہے “البدر” ، اُس میں ہمارے بعض مدارس کے قارئین کے نام ہوتے ہیں ، جن کا مضمون قادیانیت کی تعریف میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اُنہوں نے غلط نِسبت لگا رکھی ہے ، یا لکھنے والے وہ قادیانی تھے جنہوں نے دھوکہ دے کر ہمارے اِداروں میں پڑھا ، یا اللّٰہ نہ کرے کہ پیسے کی لالَچ میں مُرتد ہو گئے ، واللّٰہ اعلم ، لیکن اِس سے اندازہ کیجیے کہ صورت حال کس قدرخراب ہے۔
ماہنامہ راہِ اعتدال عمر آباد ماہِ اپریل ۲۰۱۹ ء صفحہ ۱۷.
Friday, July 15, 2022
کھڑے ہونے کا انداز آپ کی شخصیت کا کون سا پہلو بیان کرتا ہے؟
العربیہ ڈاٹ نیٹ ۔ جمال نازی
پہلی اشاعت: 11 جولائی ,2022: 08:35 AM GST
آخری اپ ڈیٹ: 11 جولائی ,2022: 08:38 AM GST
انسان کے ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی کیفیت چاہے ٹانگیں ایک دوسرے کے متوازی ہوں، قدرے الگ ہوں یا کراس ہوں، یا ایک ٹانگ آگے رکھ بیٹھا جائے، یہ سب حالتیں انسان کی شخصیت کی خصوصیات کا اظہار کرتی ہیں۔
"جاگرن جوش" ویب سائٹ کی طرف سے شائع کی گئی ایک ایسی ہی تحقیق میں ماہرین کا خیال ہے کہ کھڑے ہونے کے دوران ٹانگ کی پوزیشن کسی شخص کو اس کی شخصیت کے کچھ خصائص جاننے یا دوسروں کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کو دریافت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کھڑے ہونے کے چار کلاسک طریقے ہیں۔
اشتہار
1- متوازی ٹانگوں کی پوزیشن
اگرکوئی شخص متوازی دو ٹانگوں کے ساتھ کھڑا ہے تو اس کا کرداراختیار کے تابع ہونے یا احترام کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ دوسروں سے بات کرتے وقت بہت اہم نہیں ہوتا بلکہ اسے قبول کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اکثر اسے ایک اچھا سننے والا سمجھا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں متوازی ٹانگوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے لوگ خود اعتمادی، علم اور حقائق کے علم کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات میں تدبر اور معروضیت پسند ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے متوازی ٹانگوں کے ساتھ کھڑا ہونا بھی روح کو پرسکون کرنے میں مدد کرتا ہے جب کوئی شخص ضرورت سے زیادہ پرجوش، خوف یا دباؤ کا شکار ہو رہا ہو۔
یہ بھی دکھایا گیا کہ ایک دوسرے کے متوازی ٹانگوں کے ساتھ کھڑے لوگ کسی موضوع پر غیر جانبدارانہ موقف رکھتے ہیں اور زیر بحث موضوع میں کوئی مضبوط جذبات یا شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ دیکھا گیا کہ متوازی ٹانگوں کے ساتھ کھڑی خواتین مستقبل کے بارے میں دوسری عورتوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔
2- ٹانگوں میں معمولی فاصلہ رکھنا
اگرکوئی شخص ٹانگوں کے درمیان معمولی فاصلہ کرکے کھڑا ہوتا ہے اس کی شخصیت بااختیار اور کمانڈنگ ہونے کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ اعتماد اور مضبوطی کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح کھڑا ہوتا ہے جیسے لگتا ہے کہ وہ زیادہ جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اعتماد اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے ذہن میں جو کچھ ہے اس کا اظہار کرتا ہے۔
طرز عمل کے ماہرین بتاتے ہیں کہ مردوں میں قدرے پھیلے ہوئے پیروں کے ساتھ کھڑا ہونا زیادہ عام ہے، حالانکہ خواتین بھی طاقت اور غلبہ کی نشاندہی کرنے کے لیے اس طرح کھڑی ہوتی ہیں۔
3- ایک ٹانگ آگے
اگرکوئی شخص ایک ٹانگ آگے بڑھا کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کی شخصیت میں سکون اور اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو اسے بہت آرام دہ لگتا ہے۔ یہ شخص اپنے باطن کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتا ہے اور موجودہ لمحے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایک ٹانگ آگے کے ساتھ کھڑا ہونے والا شخص اپنے جذبات اور احساسات کے بے تکلف اظہار سے پہچانا جاتا ہے۔
ایک ٹانگ کے ساتھ کھڑا ہونا دلچسپی یا کشش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حیرت انگیز طور پر اگر کوئی شخص کسی گروپ میں کھڑا ہو تو وہ اپنے پیروں کو اس شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے وہ سب سے زیادہ دلچسپ یا اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
4- ٹانگوں پر ٹانگیں رکھنا
اگرکوئی شخص ٹانگوں پر ٹانگیں رکھ کرکھڑا ہوتا ہے تو یہ اس کی تنہائی کے لطف کو اس وقت ظاہر کرتا ہے جب وہ کسی بھیڑ میں ہوتے ہیں۔ وہ شخص اپنے جذبات اور احساسات کا دفاعی یا محافظ ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات ان میں بعض حالات یا بات چیت میں اعتماد کا فقدان ہو سکتا ہے، کسی بھی نئے تجربات سے دور رہنے کے رجحان کی وجہ سے اجنبیوں کے ساتھ جلدی مشغول ہونا پسند نہیں کرتا۔
لیکن اگر وہ شخص کراس ٹانگوں والی پوزیشن میں مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا ہے اور بازو بندھے ہوئے نہیں ہیں تو یہ ایک پر سکون حالت کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ دفاعی بھی ہے یا پھر بھی اپنے ذہن میں صورتحال کا اندازہ لگا رہا ہے۔
کچھ عام معاملات میں ماہرین وضاحت کرتے ہیں کہ ٹانگوں سے ٹانگوں پر کھڑے ہونے یا دیوار یا کسی دوسری چیز سے ٹیک لگا کر پیٹھ کو سہارا دینے کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اس بات میں "بہت دلچسپی" رکھتا ہے کہ بات چیت کیا ہے اور اسے آخر تک جاری رکھنا چاہتا ہے۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دونوں ٹانگوں اور بازوؤں کو کراس کی پوزیشن میں کراس کرتا ہے تو وہ ممکنہ طور پر بات چیت یا صورتحال کے بارے میں زیادہ مثبت محسوس نہیں کر رہا ہے اور وہ جلد ہی اس کیفیت سے باہر آنا چاہتا ہے۔
ٹیگز
پانی
شخصیت
اوپر کی طرف واپس
پاكستان
مشرق وسطی
بين الاقوامی
نقطہ نظر
حج
© جملہ حقوق بحق العربیہ نیٹ ورک محفوظ ہیں 2022
Wednesday, July 13, 2022
نام نہاد اہل حدیث کے پچاس سوالات کے جوابات
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾
(1) تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: غیر منصوص مسائل میں مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینے یا بالفاظ دیگر دلیل کی تحقیق اور مطالبہ کے بغیر محض اس حسن ظن پر کسی کا قول مان لینے کو تقلید کہتے ہیں کہ وہ دلیل کے موافق ہی بتائے گا۔
(2)تقلید ضروری کیوں ہے؟
جواب: اس لئے کہ ہرفرد شریعت کا مکلف ہے،اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہرکس وناکس براہ راست قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج نہیں کرسکتا، اس لئے غیر مجتہد کے لئے تقلید ضروری ہے۔
(3)تقلید کس کی ضروری ہے؟
جواب: مجتہد، اہل الذکر، اولواالامر اور منیب الی اللہ کی۔
(4)کیوں میں حنفی ہوں؟
(5)کیوں میں مالکی ہوں؟
(6)کیوں میں شافعی ہوں؟
(7)کیوں میں حنبلی ہوں؟
جواب: آپ کچھ بھی نہیں ہیں، آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے، ہاں جولوگ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کو مجتہد ومنیب الی اللہ سمجھ کر ان کے اجتہادی فیصلوں پر عمل کرتے ہیں، اور غیر منصوص مسائل میں ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہیں، وہ اسی اتباع اور تقلید کی وجہ سے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہلاتے ہیں۔
(8)کیا تقلید کرنا فرض ہے؟
جواب: تقلید فرض نہیں بلکہ واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر شریعت کی پاسداری ہے۔
(9)تقلید کب تک کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب تک مکلف کے اندر اجتہادی اور استنباطی واستخراجی صلاحیت نہ ہوجائے۔
(10)جب عیسی علیہ السلام دنیا میں پھر سے نازل ہونگے تو ان چار اماموں میں سے کس کی تقلید کریں گے؟
جواب: کسی کی بھی نہیں، بلکہ وہ خود مجتہد ہوں گے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہے۔
(11)عیسی علیہ السلام جس امام کی تقلید کریں گے وہ حق پر ہوگا کیوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں؟
جواب: کسی امام کی تقلید کریں گے ہی نہیں، پھر حق وناحق کا مسئلہ کیسا؟
(12)چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے کا حکم کس نے دیا؟ اللہ نے؟ رسول نے؟ خود ان اماموں نے؟ یا آج کے مولویوں نے؟
جواب: سب نے دیا ہے، اللہ نے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، اور خود ائمہ اور علماء نے بھی،
اس لئے کہ سب نے قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، اور یہ غیر مجتہد کے لئے اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کے اجتہادی فیصلے کو تسلیم کئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اسی کا نام تقلید ہے۔
(13)اسلام میں صرف چار طرح کا حکم ہے، فرض، واجب، سنت اور نفل، تو پھر ان چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا کیا ہے، فرض، واجب، سنت یا نفل؟
جواب: واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر جس کی وجہ سے تقلید واجب ہوئی احکام شرعیہ کی پاسداری ہے
اگر نفل ہے تو پھر آپ کے لئے فرض کیسے بن گئی؟
جواب: کس نے کہا کہ فرض ہے؟
جب ہم نے نہ نفل کا دعوی کیا نہ فرض کا، تو نفل کا اثبات اور فرض کا استفہامیہ انکار چہ معنی دارد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب تک جو تقلید آپ کے یہاں حرام، شرک، ناجائز اور نہ جانے کیا کیا تھی، وہ اب نفل ہوگئی؟
(14)صحابہ کون تھے؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی؟
جواب: صحابہ کس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے؟ اور حدیث کی کونسی کتاب پڑھتے تھے؟ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد یا ابن ماجہ؟
جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے، اسی طرح فقہ ائمہ اربعہ کی تدوین سے پہلے احکام شرعیہ پر عمل بھی کرتے تھے۔
(15)کیا صحابہ میں کوئی ایک صحابی اس قابل نہیں تھا کہ ان کو اپنا امام بنادیا جائے؟
جواب: کیا صحابہ میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کیجائے اور اس کی کتاب پڑھی پڑھائی جائے اور اسی کو اپنا مستدل بنایا جائے؟
(16)صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان میں سے کوئی امام کیوں نہیں بنا؟
جواب: صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان کی قرآت اور کتاب کیوں نہیں پڑھی پڑھائی جاتی؟
(17)ہم تو چار امام کو مانتے ہیں، لیکن شیعہ تو بارہ امام کو مانتے ہیں، تو پھر ہم ان کو گمراہ کیوں کہتے ہیں؟
جواب: ائمہ کی تعداد گمراہی کا سبب نہیں، اور نہ ہم اس وجہ سے انہیں گمراہ کہتے ہیں، ورنہ تو آپ کو شیعوں سے بھی بڑھ کر گمراہ سمجھتے۔
بلکہ گمراہی کا سبب فساد عقیدہ ہے، ہم ائمہ اربعہ کو اولواالامر، اہل ذکر، مجتہد ومنیب، قانون دان، شارح اور غیر معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ شیعہ اپنے بارہ ائمہ کو قانون ساز، شریعت ساز اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں، جو یقینا گمراہی ہے۔
(18)کیا ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کا نام قرآن وحدیث میں آیا ہے؟
جواب: جس طرح شریعت پر عمل کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ محدثین اور قراء سبعہ کا نام نہیں آیا۔اسی طرح احکام شرعیہ کی پاسداری کا حکم تو قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کا نام نہیں آیا۔
(19)جو لوگ ان چار اماموں کے پیدا ہونےسے پہلے مرچکے ان کا کیا ہوگا ؟
جواب: ان کی فکر چھوڑیے، پہلے آپ اپنی فکر کیجئے کہ مرنے کے بعد آپ کا کیا ہوگا؟ اس لئے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا، لوگوں کے اندر تدین، تقوی، خوف آخرت، خشیت الہی اور اتباع شریعت کا غلبہ تھا، وہ آپ کی طرح خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ نہیں تھے کہ.....
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو
(20)ان چار اماموں کے والدین کس امام کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: قراء سبعہ اور ائمہ محدثین کے والدین کس کی قرآت پر قرآن اور کس کی حدیث کی کتاب پڑھتے تھے ؟
(21)امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد (رحمہم اللہ) کونسے امام کو مانتے تھے؟
جواب: سارے ائمہ کو مانتے تھے، البتہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ خود مجتہد ومستنبط تھے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب ہے۔
(22)اگر میں ایک امام کو مانتا ہوں تو کیا باقی امام حق پر نہیں؟
جواب: ہم تو سارے ائمہ کی امامت تسلیم کرتے بلکہ برحق مانتے ہیں،ہاں اگر ماننے کا مطلب اس کے فیصلہ کے مطابق شریعت پر عمل کرنا ہو، تو یہ بتادیں کہ اگر آپ ایک نبی کو مانتے ہیں اور ایک قاری کی قرات پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، تو کیا باقی انبیاء اور قراء حق پر نہیں؟
(23)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر میں ایک ہی امام کے پیچھے کیوں ؟
جواب: اس لئے کہ آپ خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ ہیں، اور شریعت خواہش پرستی سے منع کرتی ہے۔
(24)امام ایک دوسرے کے استاذ شاگرد تھے تو پھر ان کی فقہ الگ الگ کیوں ؟
جواب: جس طرح ائمہ محدثین کی کتابیں ایک دوسرے کا شاگرد ہونے کے باوجود الگ الگ ہیں، اسی طرح ائمہ کی فقہ بھی الگ الگ ہوگئی۔
(25)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر ان کے اندر آپس میں اختلاف کیوں ؟
جواب: جس طرح سارے صحابہ اور سارے قراء کا حق پر ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف ہے، اسی طرح ائمہ کا بھی اختلاف ہے، اس لئے کہ کسی بھی امام کا کوئی ایسا قول نہیں جو کسی صحابی سے ثابت نہ ہو۔
(26)ان چار اماموں میں سے باقی تین اماموں کی اپنی لکھی ہوئی کتاب آج بھی موجود ہے، لیکن ابوحنیفہ کی لکھی ہوئی کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ کتاب حنفی مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟
جواب: اگر اطاعت وفرماں برداری یا تقلید واتباع کے لئے مطاع ومتبوع کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا ہونا ضروری ہے، تو یہ بتائیے کہ امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک یا صحابہ کرام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کونسی کتاب دنیائے اہل حدیث میں موجود ہے، جسے آپ لوگ اپنی مساجد میں پڑھ پڑھا کر عمل کرتے ہیں؟
(27)اگر امام کو نہ ماننا گناہ ہے، تو ایک امام کو ماننے سے دوسرے تین امام چھوٹ جاتے ہیں، اس کا گناہ میرے سر پر کیوں؟
جواب: جس طرح ایک نبی اور ایک قاری کو ماننے سے باقی انبیاء اور قراء نہیں چھوٹتے، اسی طرح ایک امام کو ماننے سے دوسرے ائمہ بھی نہیں چھوٹتے، اس لئے کہ سب کی تعلیم ہے کہ شریعت پر عمل کرو اور خواہشات کی اتباع نہ کرو، اور یہ ایک امام کی مان کر ہی ہوسکتا ہے، آپ گناہ کی بالکل فکر نہ کریں۔
(28)جب اماموں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی جیسی نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو ایسی نسبتوں سے جوڑتا/جوڑتی ہوں؟
جواب: جب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو محمدی، اہل حدیث، اہل اثر اور سلفی اثری وغیرہ نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر آپ کیوں آپ آپ کو ان نسبتوں سے جوڑتے/جوڑتی ہیں؟ اور ان ناموں سے متعارف کراتے /کراتی ہیں؟
(29)کیا ہمارے امام نے ہم سے کہا ہے کہ صرف میری ہی تقلید کرنا، اور میرے علاوہ کسی کی بھی تقلید نہ کرنا؟
جواب: امام نے یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا اور خواہشات کی پیروی مت کرنا، اور یہ ایک امام کی ہی تقلید سے ہوسکتا ہے، جیسا کہ علماء امت نے صراحت کی ہے۔
(30)کیا میرا منہج وہی ہے جو ہمارے امام کا تھا ؟
جواب: جی ہاں ہمارا منہج تو وہی ہے جو ہمارے امام کا ہے، البتہ چونکہ آپ کا کوئی امام ہی نہیں اس لئے آپ لامنہج اور لامذہب ضرور ہیں
(31)میں اپنے امام کے بارے میں کتنا جانتا ہوں ؟
جواب: جب آپ کا کوئی امام ہی نہیں، تو آپ کیا جانیں گے، البتہ اتنا ضرور بتادیجئے کہ جس نبی کا آپ کلمہ پڑھے ہیں، اور جن کی امامت اور رسالت ونبوت کا اقرار جزو ایمان ہے، ان کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں ؟
(32)کتنی کتاب اب تک میں نے یا میرے گھر والوں نے اپنے امام کی پڑھی ہے ؟
جواب: جب آپ اور آپ کے گھر والوں کا کوئی امام ہی نہیں، تو اس کی کتاب کیا پڑھیں گے؟ ہاں یہ ضرور بتادیجئے کہ آپ یا آپ کے گھر والوں نے اب تک امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اب تک کتنی کتابیں پڑھی ہیں ؟
(33)قبر میں فرشتے کیا مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتا تیرا امام کون ہے؟
جواب: یہ تو نہیں پوچھیں گے، البتہ جو سوال کریں گے ان کا جواب ان ائمہ کی تقلید کے بغیر مشکل ہے۔
(34)قیامت کے دن کیا مجھ سے یہ سوال کیا جائے گا کہ بتا تیرا امام کون تھا؟ اور تو اس کی تقلید کرتا تھا؟
جواب: یہ پوچھا جائے گا کہ بتا تو نے شریعت کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں؟ اور شریعت کے غیر منصوص احکام پر غیر مجتہد کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کے بغیر عمل کرنا دشوار ہے ۔
(35)قبر میں یا قیامت کے دن باقی تین اماموں کے بارے میں کیا جواب دوں گا ؟
جواب: آپ اگر کسی ایک کی مان کر احکام شرعیہ پر عمل کرلئے تو باقی ائمہ کے بارے میں آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا، تو جواب کی تیاری کیسی؟
ہاں اگر عامی اور جاہل ہونے کے باوجود کسی کی نہیں سنے، تو آپ کی جہالت آپ کو نہیں بچاسکے گی، اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ جب معلوم نہیں تھا تو اپنی خواہش پرستی ونفس پرستی کے مقابلے میں کسی اولواالامر اور اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کیوں نہیں کیا ؟
(36)اگر میں نے اپنے امام کا نام بتا بھی دیا، اور اگر مجھ سے یہ سوال ہوگیا کہ صرف اس امام ( مثلا امام شافعی) کی ہی تقلید کو کیوں چنا؟ تو اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟؟
جواب: ایسی صورت میں کسی اور کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا، اس لئے کہ کسی ایک امام کی تقلید سے مقصود اصلی (احکام شرعیہ پر عمل) حاصل ہوجاتا ہے۔
(37)کیا میری یا میرے والدین کی یا میرے علماؤوں ٭کی اتنی حیثیت ہے کہ کس امام کو مانا جائے اور کس کو چھوڑا جائے ؟
جواب: حیثیت نہیں، بلکہ بتوفیق الہی صحیح اور غلط، اور حق وباطل کی تمیز اور صحیح راستے کی رہنمائی ہے، جسے توفیق خداوندی اور ارائة الطریق کہا جاتا ہے، اور یہی ارائة الطریق کا فریضہ ہم آپ کے ساتھ بھی انجام دے رہے ہیں،
اللہ ہماری اور آپ کی راہ راست کی رہنمائی فرمائے، اور تاحیات اس پر قائم رکھے۔
(38)کیا یہ لوگ امام سے زیادہ تقوی والے اور علم والے ہیں ؟
جواب: امام سے زیادہ تو نہیں، البتہ آپ، آپ کے علماء اور والدین سے علم وتقوی میں زیادہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ آپ کے علماء (جو درحقیقت جہلاء ہیں) خود دین حق سے جاہل اور غلط راستے پر ہیں، تو پھر ان کے شانہ بشانہ چلنے والے آپ اور آپ کے والدین کے پاس کہاں سے علم اور تقوی آئے گا۔
(39)اور ایک خاص سوال یہ ہے کہ جب یہ امام نہیں تھے تو مسلمان کس کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور حدیث پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی طرح غیر منصوص مسائل پر عمل بھی ہوتا تھا۔
٭بھائیو! اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں، تو معاف کرنا، آپ نہ حنفی ہیں، نہ مالکی اور نہ حنبلی
جواب: سارے سوالات کے جوات بحمد اللہ ہیں، بلکہ دے بھی دیئے، اور یقینا ہم مسلکا حنفی ہیں، والحمد للہ علی ذلک
٭اور شاید آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں ؟؟
جواب: ہمیں تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دینا مسلم، مسلکا حنفی اور نسبتا دیوبندی ہیں، البتہ آپ کیا ہیں؟ اس کی وضاحت ضرور فرمادیں۔
اور کچھ سوالات:
جواب: جی! فرمائیں، ہم بھی خدمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
(40)وہ کونسا امام ہوگا جو اللہ کے آگے ہماری سفارش کے لئے سجدہ میں جائے گا ؟
جواب: خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(41)وہ کونسا امام ہوگا جس کی سفارش ہمارے حق میں اللہ قبول کرے گا ؟
جواب: امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور دیگر مقبول بارگاہ خداوندی، جنہیں خاص اجازت حاصل ہوگی۔
(42)وہ کونسا امام ہوگا جو حوض کوثر پر کھڑا ہوگا ؟
جواب: خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونگے، اور اپنے لائے ہوئے دین میں تبدیلی کرنے والوں کو سحقا سحقا لمن بدل دینی کہہ کر حوض سے دور بھگائیں ۔
(43)وہ کونسا امام ہوگا جس کے بارے میں ہم سے قبر میں سوال ہوگا ؟
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کی شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کے دامن کو پکڑا ہے۔
(44)وہ کونسا امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے؟
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی اطاعت کے جذبہ اور نافرمانی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(45)وہ کونسا امام ہے جس کا کلمہ ہم نے پڑھا ہے؟
(46)وہ کونسا امام ہے جو اپنی امت کی خاطر رویا ہے؟
(47)وہ کونسا امام ہے جس کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے؟
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر عمل کرنے اور خواہش پرستی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید کی ہے۔
(48)سوچئے! کیا ہم اتنے غافل ہیں اسلام سے؟
جواب: اگر ہم اسلام سے غافل ہوتے، تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کسی اولواالامر اور اہل ذکر کی تقلید ہی کیوں کرتے؟ آپ کی طرح مادر پدر آزاد گھومتے پھرتے نہیں ؟؟
(49)کیا تقلید کی وجہ سے یہ امت فرقوں میں نہیں تی ؟
جواب: نہیں، اس لئے کہ مقلدین کا باہمی جو اختلاف ہے وہ وہی ہے جس میں صحابہ وتابعین باہم مختلف تھے، اور یہ کوئی معیوب نہیں!
البتہ اس سے شاید کسی بھی عقلمند کو انکار نہ ہو کہ جب تک ہند وپاک میں تقلید پر اتفاق رہا، سارے مسلمان باہم شیر وشکر تھے، کسی کے اندر اسلام کی طرف غلط نگاہ بھی اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،لیکن افسوس! کہ جب آپ کے آباؤ واجداد نے ترک تقلید اور مادر پدر آزادی کا نعرہ لگایا، اسی وقت سے آج تک امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکی، اور وہ مسلمان جو اب تک شیر وشکر تھے، باہم دست وگریباں ہونے لگے،اور آج اس کے نتیجہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے،
یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کے بڑوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔
(50)اگر اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے تو پھر ہم اور زیادہ اختلاف کریں ؟
جواب: ہند وپاک میں آپ کے جنم لئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے، اور ان ایام میں آپ نے جمہور امت ( جو ائمہ اربعہ کی تقلید پر متفق تھی) سے قادیانیت، نیچریت، انکار حدیث، مودودیت اور نہ جانے کتنے فرقے اپنی کوکھ سے جنم دیئے، اب باقی کیا رہ گیا ہے، جو اور کریں گے۔
خدا را امت کو اب اور فرقوں میں مت تقسیم کیجئے، بہت ہوگیا، اختلاف کا جو مقصد تھا وہ بھی آپ کو حاصل ہوگیا، جاگیریں اور جائیدادیں بھی ملیں، انگریز ملک چھوڑنے کے باوجود اب تک آپ کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکا،
فی الحال اسلام پر ہرچہار جانب سے حملے ہورہے ہیں، سب کا نشانہ واحد اسلام ہے، سب کی نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ہر ایک موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے، ایسے وقت میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے،
خدا را! خدا را! امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرو، اور جو ایک ہیں ان میں انتشار نہ پیدا کرو۔
اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے اور باطل وگمراہ راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہم اھدنا الصراط المستقیم
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
٭٭٭
Tuesday, July 12, 2022
[7/13, 6:17 AM] +91 95900 48573: شاہ صاحب کا مقام طریقت
حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا علم وفضل اور حیرت انگیز حافظہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی دوسری خوبیاں اس میں گم ہو گئیں، ورنہ انابت وتقویٰ اور سلوک وتصوف میں بھی انھیں ممتاز مقام حاصل تھا۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب سے انھوں نے خود بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ میں کشمیر سے آرہا تھا۔ راستہ میں ایک صاحب مل گئے جو پنجاب کے ایک مشہور پیر کے مرید تھے، ان کی خواہش اور ترغیب یہ تھی کہ میں بھی اُن پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اتفاق سے وہ مقام میرے راستہ میں پڑتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی ارادہ کر لیا۔ ہم پیر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ بڑے اکرام سے پیش آئے، کچھ باتیں ہوئیں، پھر وہ مریدین کی طرف متوجہ ہو گئے اور اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی جس سے وہ بے ہوش ہو ہو کر لوٹنے اور تڑپنے لگے۔
میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا ”میرا جی چاہتا ہے کہ اگر مجھ پر بھی یہ حالت طاری ہو سکے تو مجھ پر آپ توجہ فرمائیں“۔ انھوں نے توجہ دینی شروع کی اور میں اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پاک کا مراقبہ کر کے بیٹھ گیا۔ بے چاروں نے بہت زور لگایا، لیکن مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا، کچھ دیر کے بعد انھوں نے خود فرمایاکہ آپ پر اثر نہیں پرسکتا۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ الله عليہ بتاتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ الله عليہ نے یہ واقعہ سنا کر غیرمعمولی جوش کے ساتھ فرمایا کہ کچھ نہیں ہے، لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں، اگر کوئی چاہے اور استعداد ہوتو ان شاء اللہ تین دن میں یہ بات پیدا ہو سکتی ہے کہ قلب سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے، لیکن یہ بھی کچھ نہیں۔ اصل چیز تو بس احسانی کیفیت اور شریعت وسنت پر استقامت ہے۔
[7/13, 6:17 AM] +91 95900 48573: عجیب و غریب واقعہ
میری عمر اس وقت کوئی چھ سال تھی. والد صاحب ایک بہت بڑا بیل لے کر آئے. دیکھنے میں کسی گینڈے سے کم نہیں. خوبصورت نارنجی رنگ. لمبے لمبے سینگ، آنکھیں ایسی موٹی کہ بندہ ڈوب جائے. ہیبت ایسی کہ جب نگاہ اٹھاتا تو بچوں کی فوج ادھر ادھر بھاگ نکلتی. آج کل دو تین لاکھ سے کم کا کیا ہوگا. مگر اس زمانے میں 3 ہزار سے بھی کم کا لیا گیا تھا. اس بیل میں چار یا پانچ حصے تھے. ایک امی کا، ایک ابو کا، ایک ماموں کا اور ایک نبی اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے ایصال ثواب کے طور پر تھا.
عید کا دن آگیا. والد صاحب کو کوئی ساتھی نہ ملا جو جانور گرانے میں مدد دے. وقت گزرتا جا رہا تھا. آخر انہوں نے والدہ سے کہا، "چلو اللہ کا نام لو. ایسے ہی قربان کر دیتے ہیں." امی نے کہا، "ایسے کیسے ہوگا. اتنی بڑی جان کہاں قربان کریں گے؟" ابو نے کہا :"یہیں قربان کریں گے بس تم دیکھتی جاؤ. "بیل موقعے کی نزاکت کو سمجھ چکا تھا اس کی آنکھوں کے انگارے دہک رہے تھے. سر جھٹک کر بار بار اعلان جنگ کر رہا تھا.
اتفاق سے اس وقت گھر میں کوئی رسی بھی نہیں تھی. والد صاحب نے چارپائی کے بان کھول کر رسی نکالی اور بیل کو پچکارنے لگے. آہستہ آہستہ اس کے قریب چلے گئے. اس کی ٹانگوں میں رسی ڈال کر بولے:"محبوب! ارشاد! اسے پکڑو اور تیار رہو. "پھر چھری سنبھالی اور بیل کے کان میں جا کر کچھ کہا. بیل نے سر جھکا لیا. بالکل پرسکون ہو گیا.
ہم محلے کے بچوں کے ساتھ گھر کے دروازے پر کھڑے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے. یاد رہے کہ یہ قربانی گھر کے صحن میں ہو رہی تھی جو بمشکل 15 فٹ چوڑا اور 20 فٹ لمبا تھا. اگر بیل سرکشی کرتا تو تو گھر کی دیواریں بھی ٹوٹ جاتیں اور اسے گرانے والے کل افراد بھی. یعنی امی، ابو، اور دونوں لڑکے.
اب والد صاحب نے بسم اللہ پڑھ کر بیل کے منہ کی رسی کھینچ کر اسے گرانے کی کوشش کی. بیل بڑے آرام سے لیٹ گیا جیسے پہلے ہی تیار ہو. محبوب بھائی اور ارشاد نے پچھلی ٹانگوں سے بل دی ہوئی دم پکڑی. یہ دونوں حضرات اس وقت دس گیارہ سال سے زیادہ کے نہ تھے.بڑے ماموں نے اگلی ٹانگوں میں لپٹیی گئ بان کی رسی تھام لی. والدہ صاحبہ نے سر کو پکڑا ہوا تھا.
والد صاحب نے "بسم اللہ اللہ اکبر" پڑھ کر جونہی چھری پھیری. خون کی ندی بہہ نکلی.ساتھ ہی بیل کا زور دار خراٹا بھی...... جو اتنا ہیبت ناک تھا کہ بچے چیخیں مارتے ہوئے بھاگ نکلے.بیل نے جان دیتے ہوئے اضطراری حالت میں جو ٹانگ چلائ جو صحن کی دیوار سے لگی اور پلستر اکھڑ گیا اور اینٹیں نظر آنے لگیں. اس کے سوا اس شریف جانور نے کچھ نہیں کیا.
کچھ دیر بعد لوگ اپنی قربانیوں سے فارغ ہو کر آئے تو حیران ہو کر ابو سے کہنے لگے :"حاجی صاحب! آپ نے اتنا بڑا جانور گھر میں ہی گرا لیا؟ کیسے، کون کون تھا آپ کے ساتھ؟ " جب والد صاحب بتاتے کہ اہلیہ اور دو بچوں کے سوا کوئی نہ تھا تو کسی کو یقین نہ آتا.
ایک بار ہم نے والد صاحب سے پوچھا :" ابو! آپ نے اس بیل کے کان میں کیا کہا تھا؟ " فرمانے لگے :" میں نے کہا تھا، بیٹا! تمہاری قربانی میں ایک حصہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کا بھی رکھا ہے. اس کا خیال کر لینا. "
جانور کو رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے نام کی حرمت کا خیال ہے. ہمیں کیوں نہیں؟ اسی عید کے دن نبی اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے کتنے ارشادات پامال ہوتے ہیں. ہمارے دل میں کوئی ٹیس تک نہیں اٹھتی.
تحریر: مولانا محمد اسماعیل ریحان
قربانی کا عمل، ہمیں یہ پیغام دے گیا
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
*قربانی* کے ظاہری و رسمی اور علامتی عمل سے ہم سب مسلمان خدا کے فضل و کرم سےآج غروب سے پہلے فارغ ہوگئے ۔ اور کل عصر میں آخری تکبیر تشریق کہہ کر بھی فارغ ہوجائیں گے ۔
لیکن *قربانی* کا جو حقیقی پیغام ہے، اور قربانی کا یہ عظیم عمل جو ہمیں جوش، فدا کاری، کا اور ایثار و خود سپردگی کا درس دیتا ہے، اس پر عمل کرنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوگیا، جس وقت ہم نے جانور کے گردن پر چھری چلا کر یہ عہد لیا کہ بار الہا !
جس طرح ہم نے اس جانور کی گردن پر تیرے حکم سے اور تیرے نام پر چھری چلائی ہے ، اسی طرح ہم اپنی نفسانی خواہشات، من چاہی زندگی اور حرص و ہوس والے جذبات و خواہشات پر بھی چھری چلاتے ہیں ۔
*عید قرباں* یا *عید الاضحی* حضرت ابراہیم علیہ السلام کی، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہر قربانی کے لئے ہمہ وقت آمادگی کا جذبہ،آپ کی بے مثال سنت اور اس انوکھے عمل کی یاد دلاتا ہے، جب آپ علیہ السلام نےاپنے نور نظر لخت جگر چہیتے اور بے حد فرمانبردار بیٹے کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی طرف سے قربان کر ڈالا تھا ، اور اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کر دکھایا تھا، جس کو پورا کرنا ہمہ شما اور بڑے سے بڑے کے بس میں نہیں تھا اور نہ ہے ۔
اللہ تعالٰی اپنے برگزیدہ بندوں سے ان کو نکھارنے سنوارنے اور ان کے مقام و رتبہ کو بلند کرنے کے لیے بڑی قربانی لیتا اور چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے خاص طور پر اپنے نبیوں اور رسولوں سے بڑی بڑی قربانیاں لیں اور پھر ان کے مقام و مرتبہ کو بلند و بالا کیا ۔ اس قربانی کی فہرست کو الٹ جائیے ، تو سب سے بڑی قربانی *حضرت ابراہیم علیہ السلام* کی نظر آتی ہے تاریخ میں کوئی بھی قربانی اس کے مماثل اور برابر کی نہیں ہوسکتی ۔
قدرت نے بڑھاپے میں *حضرت ابراہیم علیہ السلام* کا عجیب و غریب اور انوکھا امتحان لیا ، جو بظاہر عقل انسانی سے ماورا ہے ۔ جس امتحان میں باپ اور بیٹے دونوں کامیاب ہوئے ۔ بڑھاپے میں ملنے والے لاڈلے اور چہیتے لخت جگر اور نور نظر کو ایک اشارے پر ذبح کے لئے لٹا دینا تسلیم و رضا کے پیکر اور استقامت کے پہاڑ اور ہمت کے دھنی وقت کے پیغمبر کا ہی جذبہ اور حوصلہ ہو سکتا ہے ۔ چشم فلک نے تاریخ انسانی کے کسی دور میں ایسا نظارہ نہ دیکھا ہوگا ۔ اس عظیم امتحان و آزمائش اور مشکل ترین امتحانات میں کامیابی کے بعد اللہ تعالی نے ان کو خلیل اللہ کے لقب سے ملقب کیا اور یہ شرف اور طمغہ ان کو اس عظیم اور بے نظیر و بے مثال قربانی کے بعد ملا ۔ *قرآن مجید* نے اس امت کو حکم دیا کہ *حضرت ابراہیم* کی اور ان کی ملت اور ان کے اسوہ کی پیروی کرو جو کہ حنیف ہیں ۔
اس طرح اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اس یاد گار کو اور ان کے اس شعار و طریقہ کی پیروی کو اس امت پر لازم کر دیا ۔
ایک موقع پر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے یہ سوال کیا کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی سنت اور شعار ہے ۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ۔
پتہ یہ چلا کہ قربانی کی غرض و غایت اور اس کا مقصد صرف ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ قربانی ایک سہ روزہ دینی اخلاقی اور تربیتی ٹریننگ اور ورک شاف ہے جو ہمیں ماہ و گردش کے ہر سال تسلیم و رضا،خود سپردگی و خاکساری اور قربانی کے ان جذبات سے آشانا کرواتی ہے، جو ایمان کی معراج اور اسلام کی کمال ہیں ۔ آداب فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن پر بغیر کسی ڈر اور خوف اور تردد و لیت لعل کے اللہ تعالی کے حکم کے عملی نفاذ کے لئے پیش کردی ۔
یہ فیضان نطر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
ایک ماں نے برسوں کی دعاؤں آرزوؤں تمناؤں خواہشوں التجاوں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور نظر کو بلند حوصلے اور عظیم جذبے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ
جان دی دی ہوئ اسی کی تھی
حق تو ہے کہ حق ادا نہ ہوا
*قربانی* کا یہ مبارک عمل اور یہ مبارک ایام اور دن ہمیں یہ پیغام دے گیا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کائنات کی ہر شئ چاہئے اولاد ہو یا کوئی عزیز مال ہو یا جائداد عہدہ ہو منصب اقتدار ہو یا کرسی ان سب کی حیثیت خدا کے مقابلے میں پر کاہ کے برابر بھی نہ ہو ۔ ان سب کی محبت دل سے نکل جائے اور اللہ کی رضا ان تمام پر غالب آجائے ۔ اسی نظریے کی بنیاد پر قربانی کو اس امت پر ضروری اور لازم کیا گیا ہے کہ اپنے مال و متاع اور خواہش پرستی پر اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے چھری چلا دی جائے ۔ اور ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ جب بھی موقع آئے گا جہاں ہم کو اپنی جان مال خواہشات یہاں تک کہ آل و اولاد کو بھی راہ خدا میں نثار و قربان کرنا پڑے تو ہمارے پاوں پیچھے نہ ہٹے ۔ نسل ابراہیمی کے روشن چراغ اور خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے رکن رکین اور فرد فرید حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی تو میدان کربلا میں اسی جذبہ کا تو عملی مظاہرہ کیا تھا اور اپنی قیمتی جان کو شریعت محمدی کی پاسبانی اور پیارے نانا جان کی سنت اور طریقہ کی حفاظت و تحفظ میں اپنا ہرا بھرا گردن قربان کردیا اور راہ خدا لٹا دیا ۔ علامہ اقبال مرحوم نے اس دوسری عظیم قربانی کو پہلی بے مثال قربانی کا اتمام اور حجت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہیں اسمعیل
قربانی کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے، کہ ایثار و قربانی اور اخلاص و للہیت کا مزاج پیدا ہو ۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہر محبت اور چاہت پر غالب ہو ۔ جب ایک طرف بیوی بچوں کی خواہشات ہوں اور دوسری طرف حکم شریعت ہو تو ایسی صورت میں حکم شریعت کو ترجیح دینا اور اللہ کی محبت میں ہر طرح کے رسم و رواج کو قربان کر دینا یہ قربانی کی روح اور اسپرٹ ہے ۔
*ضرورت* ہے کہ ہم قربانی کی اس روح اور پیام و پیغام کو سمجھیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و عبرت سے نفع اٹھائیں اور زندگی کے جس موڑ پر ہم سے جیسی قربانی مانگی اور چاہی جائے ہم اس کے لئے اپنے کو تیار رکھیں ۔
اَللّٰهُ اَكْبَر
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان
میری نظر میں اور اب تک کی سائنسی ریسرچ کے مطابق
زمین کا پہلا موشن یہ ہے کہ یہ ہر سیکنڈ میں آدھا کلومیٹر اپنے محور میں گھومتی ہے تبھی چوبیس گھنٹے میں ہمارا دن رات مکمل ہوتا ہے
دوسرا موشن زمین کا یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں تیس کلومیٹر سورج کے گرد گھوم رہی ہے
یاد رہے گولی کی رفتار سے بھی ساتھ گناہ زیادہ رفتار ہے زمین کی سورج کے گرد گھومنے کی
تیسری موشن ایسی ہے زمین کہ پورا سسٹم سورج سمیت اور نظام شمسی کے سیاروں سمیت ایک سیکنڈ میں دو سو کلومیٹر کی رفتار سے ایک ( ویگا ) نامی سٹار کی طرف پچھلے پندرہ ارب سال سے ٹریول کررہے ہیں
کیا اندازہ لگا سکتے آپ میرے اللہ کی نشانیوں کا
اسی لیے زمین سے باہر دنیا لائٹ ائیر یعنی روشنی کی رفتار سے فاصلے کو جانچتی ہے
اب روشنی کی جو رفتار ہے وہ یہ ہے ایک سال میں روشنی جتنا فاصلہ طے کرتی ہے وہ ہے لائٹ ائیر
اور مختصر روشنی کی رفتار کی پیمائش یہ ہے کہ تین لاکھ کلومیٹر ایک سیکنڈ میں طے ہوتی ہے
ایک سیکنڈ میں روشنی زمین کے سات چکر کاٹ سکتی اور یاد رہے ہماری زمین کا سرکل 🌍 چالیس ہزار کلومیٹر ہے
یہ ہے میرے اللہ کا تعارف
کیا ہے کوئ جو میرے رب کی نشانیوں کا اندازہ لگا سکے ۔۔۔ ؟؟؟
اب تک کی ریسرچ کے مطابق 250 ارب گلیکسیز دریافت ہوچکی ہیں ان گلیکسیز میں سے ایک گلیکسی ہماری ملکی وے ہے جس میں تین سو ارب سے بھی زیادہ سورج ہیں
اور یاد رہے کہ ہمارا سورج سب سے چھوٹا ہے
سائنس مختصر تعارف میں یہ کہتی کے دنیا کے سبھی سمندروں کے کناروں پہ جتنے ریت کے زرے ہیں نا ان سب سے بھی زیادہ ستارے ہیں اس آسمان پہ اس کائنات میں
کون ہے جو لگاۓ گا اندازہ میرے رب کی نشانیوں کا ۔۔۔۔؟؟؟؟
کبھی آج تک ایسا ہوا کہ سورج نہ نکلا ہو یا غروب نا ہوا ہو
حقیقت میں وہ غروب اور طلوع نئ ہوتا لیکن زمین کے سسٹم کے حساب سے ہم دیکھیں تو وہ غروب ہوتا وہاں جہاں ہم موجود ہوتے اور دوسری ذمین کی ڈائریکشن پہ نکل جاتا
کون ہے اس سارے سسٹم کو چلانے والا بیلنس کرنے والا ۔۔۔۔ ؟؟؟؟
اور پچھلے پندرہ ارب سال سے بغیر کسی فیول ایڈجسٹمنٹ کے وہ چلتا جا رہا ہے
یاد رہے انسان ابھی تک صرف اٹھارہ لاکھ کلومیٹر دور ایک جیمز ویب ٹیلی سکوپ نامی دوربین بیجھ سکا ہے کامیابی سے
مزید اللہ کے رازوں کو جاننے کے لیے
اب تک کی ریسرچ کے مطابق انسان سمیت بیس لاکھ جانور اور حشرات پرند چرند کی نسلیں صورتیں دریافت ہوچکی ہیں
کون ہے ان کو بنانے والا ان کو رزق دینے والا ان سب کو بیلنس کرنے والا ۔۔۔۔ ؟
بیشک وہ میرا اَللّٰهُﷻ ہے
اَللّٰهُ اَكْبَر
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان
*🎤قیمتی نصائح🎤*
از افادات: *حضرت اقدس مولانا ابراہیم صاحب پانڈور* دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ *حضرت شیخ الحدیث مولانازکریاصاحب* و جانشین فقیہ الامت *حضرت مفتی محمود حسن گنگوھی*)
*ارشاد*(6) میرا بہت سے مدرسوں میں جانا ہوتا ہے ، وہاں معلوم کرتا ہوں کہ مدرسہ کا کیا حال ہے تو اکثر جگہ جواب ملتا ہے کہ ماشاءاللہ ہمارے یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے تعلیم وتربیت دونوں پر پورا دھیان دیا جا تا ہے ، ان سے پوچھتا ہوں کہ تعلیم وتربیت سے کیا مراد ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ تعلیم سے مراد یہ ہے کہ نصاب بہت اچھا ہے ،اس کو پورا کرنے کا بڑا اہتمام ہے ، اس کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، کیونکہ نصاب تو بزرگوں کا بنایا ہوا ہے ،اور ہر جگہ تقریبا ایک جیسا ہی ہوتا ہے ،اور تربیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ : تربیت سے مراد یہ ہے کہ اساتذہ وطلبہ میں گھنٹے کی پابندی کا مزاج ہے ،طلباء تعلیمی اوقات میں ادھر ادھر نہیں پھرتے ،نماز با جماعت کا اہتمام ہے ، فجر اور ظہر کے وقت نمازوں کے لئے طلبہ کو اٹھانے کا اہتمام ہے ،طلبہ وقت پر مسجد پہنچ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ، اس کو لوگ تر بیت کہتے ہیں! حالانکہ یہ تو مدرسہ کا نظام ہے یہ تربیت نہیں ، *تربیت کا حاصل ہے نبی کریم ﷺ کا ذہن طلبہ میں منتقل کرنا ، نبی کریم ﷺ جو مزاج وسوچ لیکر آۓ ہیں اور صحابہ کرام میں جو مزاج منتقل فرمایا ہے ، وہی مزاج اور سوچ طلبہ میں پیدا کرنا*،
یہ حاصل ہے تربیت کا ۔
Monday, July 11, 2022
*گائے کی قربانی کے متعلق اہم مضامین*
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
بعض مسلمان ہندوؤں کے میل جول کی وجہ سے گائے کا ذبح کرنا اور اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اسلام کچھ گوشت خوری پر موقوف نہیں، اسلام میں گوشت کھانا اور نہ کھانا دونوں یکساں ہیں گائے کا گوشت نہ کھاکر بکری کا کھالیا تو اس میں کیا حرج ہے گائے کا گوشت کھانا فرض تھوڑی ہے۔
افسوس ان لوگوں نے شریعت خداوندی کے مقابلہ میں اپنی ایک شریعت گھڑلی ہے، ان لوگوں نے یہ مسئلہ ہندوؤں سے لیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ گائے ہندوؤں کا معبود ہے اس کا ذبح کرنا اس لئے ان کو ناگوار ہے۔ پھر ان مسلمانوں کو شرم نہیں آتی کہ جس غرض کا منشاء شرک ہو اس میں وہ ہندوؤں کی موافقت و حمایت کرتے ہیں ۔
جو چیز عام طور پر اسلام و کفر میں امتیاز پیدا کرنے والی ہو وہی شعائر اسلام ہے اور ظاہر ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کو ہندوؤں سے امتیاز گائے کے ذبح اور اس کا گوشت کھانے سے ہوتا ہے اور اس وقت تجربہ نے بتلا دیا کہ جو لوگ اس شعار اسلام کے تارک تھے زیادہ تر وہی فتنہ ارتداد کے دام میں مبتلا ہوئے ،اور جو اس شعار کو اختیار کئے ہوئے ہیں ان کی طرف کوئی رخ بھی نہیں کرتا تو علاوہ شعار اسلام ہونے کے یہ بڑا پہرہ دار بھی ہے۔
بحوالہ :
احکام قربانی عقل و نقل کی روشنی میں - مزید تحقیق و تفصیل- ص 96,97.
Sunday, July 10, 2022
*حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ بیان فرماتے ہیں !*
ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں، جو دارالعلوم دیو بند کے فاضل اور سنسکرت کے ماہر ہیں۔ ہندو مذہب پر ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور اس پر لکھتے بھی رہتے ہیں۔ ٹی وی اور میڈیا پر بھی وہ اسلام اور مسلمانوں کی اچھی نمائندگی کرتے ہیں۔ آرایس ایس کے دفتر اور ان کے کتب خانے میں ان کا آنا جانا ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے دسیوں علماء آرایس ایس کے لیے کام کرر ہے ہیں ۔ اسلام کی کسی بات کو اعتراض کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے اور کس حدیث کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیا جاسکتا ہے، وہ اس طرح کا مواد نکال کر دیتے ہیں ، اور کچھ دوسرے لوگ اس کا ترجمہ کر کے آرایس ایس کے لیے فکری کام کرنے والوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا تمھیں یہ کام کرتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟ تم فلاں مدرسے کے فارغ ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد جمع کر کے دیتے ہو؟ تو ان حضرات نے برجستہ کہا کہ دیکھیے ، *یہ ہمارے ٹیم لیڈر ہیں ، ان کی تنخواہ ماہانہ دولاکھ روپے ہے، میری ڈیڑھ لاکھ روپے، اور ان کی ایک لاکھ رو ہے۔۔۔آپ ہمیں اتنی تنخواہ دے دیں، ہم ابھی یہ کام چھوڑ دیتے ہیں* ۔ میں نے کہا بے ضمیری کی بھی انتہا ہو گئی۔ آپ سوچے کہ ایک طرف ان کی محنت کا یہ حال اور دوسری طرف ہماری بے غیرتی کا بی نمونہ! آپ کو معلوم ہوگا کہ قادیانیت کا ایک پر چہ آتا ہے "البدر"۔ اس میں ہمارے بعض مدارس کے قارئین کے نام ہوتے ہیں ، جن کا مضمون قادیانیت کی تعریف میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے غلط نسبت لگارکھی ہے، یا لکھنے والے وہ قادیانی تھے جنھوں نے دھوکا دے کر ہمارے اداروں میں پڑھا، یا اللہ نہ کرے پیسے کی لالچ میں مرتد ہو گئے، واللہ اعلم، لیکن اس سے اندازہ کیجیے کہ صورت حال کس قدرخراب ہے۔
ماہنامہ راہ اعتدال عمرآباد ماہ اپریل ۲۰۱۹ء صفحہ ۱۷
Saturday, July 9, 2022
*اپنی کم تنخواہ پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دے دیدیا گیا ہو*
ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت فرماتے ہیں کہ
○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*قد يكون الرزق خلقا أو جمالا*
رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو
○ *قد يكون الرزق عقلا راجحا*
*زاده الحلم جمالا وكمالاً*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی
اور تحمل و حلیمی عطا دے
○ *قد يكون الرزق زوجا صالحا*
*أو قرابات كراما وعيالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جاے
مہربان کریم دوست اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جائے
○ *قد يكون الرزق علما نافعا*
*قد يكون الرزق أعمارا طوالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو
○ *قد يكون الرزق قلبا صافيا*
*يمنح الناس ودادا ونَوالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو
○ *قد يكون الرزق بالا هادئا*
*إنما المرزوق من يهدأ بالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو
○ *قد يكون الرزق طبعا خيّرا*
*يبذل الخير يمينا وشمالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو۔ وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا پھرے
○ *قد يكون الرزق ثوبا من تقى*
*فهو يكسو المرء عزا وجلالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو
○ *قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً*
*ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جائے جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے
○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*كن قنوعاً احمد الله تعالى*
○ پس رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو ❤️
میدان عرفات میں رسول اللہﷺ نے 9 ذی الحجہ، 10 ہجری [7 مارچ 632 عیسوی] کو آخری خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں، کیونکہ رسول اللہﷺ نے کہا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:-
*۱*۔ اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔
*۲*۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں [تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے]۔
*۳*۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو-
*۴*۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔
*۵*۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔
*٦*۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو [معاف کر دو]۔
*۷*۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔
*۸*۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار [پارٹنر] اور بے لوث خدمت گذار رہتی ہیں۔
*۹*۔ کبھی *زنا کے قریب بھی مت جانا۔*
*۱۰*۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، *5 فرض نمازیں* ادا کرتے رہو، رمضان کے *روزے* رکھو، اور *زکوۃ* ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو *حج* کرو۔
*۱۱* ۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔ *برتری صرف تقوی* کی وجہ سے ہے۔
*۱۲*۔ یاد رکھو! تم کو ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے، *خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو* جانا۔
*۱۳*۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، نہ ھی کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔
*۱۴*۔ میں تمہارے لیے 2 چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، *قرآن اور میری سنت،* اگر تم نے ان کی *پیروی کی, تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے*۔
*۱۵*۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا۔ اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔ اور یہ ممکن ہے کہ بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ [اور عمل کر] سکیں۔
پھر آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا، اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔
*نوٹ*: اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرلے، جو *اس پیغام کو سنیں/پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں۔ اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔* اللہ ہم سب کو رسول اللہﷺ کی محبت و سنت عطا کرے اور آخرت میں جنت الفردوس میں ان کے ساتھ عطا کرے، آمین-
Friday, July 8, 2022
سچی باتیں۔۔۔ اتفاق کی اصل تواضع۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
Print Friendly, PDF & Email
1930-11-21
’’حضرت حاجی (امداد اللہ چشتی مہاجر مکّی) صاحبؒ فرمایا کرتے تھے، کہ لوگ اتفاق اتفاق پکارتے ہیں، مگر جو اصل ہے اتفا ق کی، اُس سے بہت دُور ہیں۔ تو اتفاق کی اصل تواضع ہے۔ جن دوشخصوں میں تواضع ہوگی، اُن میں نااتفاقی نہیں ہوسکتی، اور تواضع کی ضد تکبّر ہے۔ جہاں تکبّر ہوگا، وہاں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ اب لوگ ہربات میں تکبّر کو اختیار کرتے ہیں، اور زبان سے اتفاق اتفاق پکارتے ہیں، تو اس سے کیاہوتاہے‘‘۔
(وعظ السوق، ص: ۲۸از حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی مد ظلہ)
امت کے سب سے بڑے مرض کی تشخیص اور علاج، آپ امت کے حکیم کی زبان سے سن چکے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ تشخیص غلط ہے؟ کیا آپ کو اس علاج سے اختلاف ہے؟ اتفاق کا وعظ آج ہرزبان پرہے، لیکن اتفاق کے معنی آج ہر دل میں صرف یہ نہیں، کہ دوسرا متفق ہوجائے، دوسرا اپنی رائے کو مغلوب کردے، دوسرا اپنے کو جھکادے، اور خود کو کسی ایک موقع پر بھی نہ جھکنا پڑے۔ یہی معنی ہیں کبر کے، یہی حقیقت ہے تکبرکی۔ اور اسی خود بینی وخودنمائی ، خودرائی وخود پرستی کا نام، اصطلاح جدید میں، خودداری اور ضمیر کی مضبوطی ہے!’’خِرد کا نام جنوں پڑگیا ، جنوں کا خرد‘‘ ! نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدل جایاکرتی ہے۔ مرض کا نام صحت رکھ دینے سے مرض کی حقیقت نہیں بدل جائے گی۔ تکبر، جو دشمن ہے اتفاق واتحاد کا، اور اصل ہے نااتفاقی کی، تکبر ہی رہے گا، خواہ اُسے کسی نام سے موسوم کیاجائے۔
اتفاق پیداکرنے کے لئے، جلسے بہت سے ہوچکے، تقریریں اُن سے زیادہ ہوچکیں، رزولیوشن خدامعلوم کتنے پاس ہوچکے، لیکن ہردوااب تک مرض کو بڑھاتی ہی رہی ہے۔ ہر جلسہ کے بعد ایک نئی پارٹی، ہر کمیٹی کے بعد ایک نئی انجمن، ہرروز ایک نیا انتشار، ایک نئی تفریق! عطائیوں کے اتنے نسخوں کے بعد کیا اب بھی وقت نہیں آیاہے، کہ طبیبِ حاذق کے نسخہ کا تجربہ ، تجربے ہی کے غرض سے سہی، کرکے دیکھا جائے؟ خودی کے بڑھانے کے سامان، بہت ہوچکے، کبھی تو خودی کے مٹانے کے نتائج کا تجربہ کیاجائے۔ اپنی توہین پر بگڑجانے کا تماشہ تو سالہا سال سے دیکھنے میں آرہاہے، کبھی آخر یہ بھی تو دیکھا جائے، کہ اپنی توہین پر مزہ لینے میں کیا مزہ آتاہے!
Monday, July 4, 2022
*ذبیحہ گاؤ ، حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب ؒ اور گاندھی جی*
گاندھی جی نے ایک مرتبہ گاؤ تحفظ کی مہم چھیڑی تھی ، بعض شخصیات نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ستائش کی لیکن مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نے کہا کہ گاندھی جی تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہندﺅوں کی دلجوئی کیلئے مسلمان ذبیحہ گاؤ چھوڑ دیں تو آپ کو بھی وہ چیزیں چھوڑنی پڑے گی جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے ،گاندھی جی نے پوچھا وہ کیا ہے تو مولانا نے جواب دیاکہ ایک خدا کے علاوہ کسی اور کی پوجا ہوتے ہوئے جب مسلمان دیکھتا ہے تو انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے اس لئے آپ بھی سرعام مورتیوں کی پوجا بند کردیں۔
Sunday, July 3, 2022
یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اگر اپنی گاڑی پر ہندوستان بلگام کرناٹک سے حج یا عمرے کا سفر کیا جائے تو اس سفر کے لئے کتنا وقت اور خرچ درکار ہوگا۔
چچا گوگل کا کہنا ہے کہ بلگام کرناٹک سے مکہ مکرمہ تک ایک طرف کا کل فاصلہ5770 کلومیٹر ہے، اس اعتبار سے دوطرفہ فاصلہ لگ بھگ گیارہ ہزار کلومیٹر ہوا، مدینہ طیبہ اس سفر میں راستے میں ہی آتا ہے۔
اچھی اور آرام دہ کار عام طور پر کم از کم بھی دس کلومیٹر کی ایوریج دیتی ہے، بعض کاریں بارہ پندرہ اٹھارہ کی ایوریج دیتی ہیں، اگر دس کلومیٹر فی لٹر کی ایوریج کا حساب لگایا جائے تو سفر میں ک،1100 لیٹر پیٹرول درکار ہوگا۔
پیٹرول اس وقت ہندوستان میں 102 روپیہ لیٹر چل رہا ہے، اس حساب سے 1100 لٹر پیٹرول ہوا 112200 روپے کا، یہ ریٹ ہندوستان کے حساب سے لگایا گیا ہے جبکہ ایران اور عرب ممالک میں جاکر پیٹرول سستا ہوجاتا ہے، اس حساب سے پیٹرول کا خرچ یقیناً اور کم آئے گا۔
باقی رہی بات وقت کی، تو چچا گوگل ہی کے کہنے کے مطابق اس سفر میں ایک طرف کے لیے تقریباً 65 گھنٹے کا وقت درکار ہے، یعنی اگر مسافر روز صرف 12 گھنٹے بھی سفر کریں، باقی وقت آرام کریں تو بھی پانچ دن میں آرام و سکون سے حرم شریف کے دروازے پر پہنچ سکتے ہیں۔
ٹول ٹیکس، کھانا، رہائش، آئل چینج وغیرہ وغیرہ کی مد میں ہم آنے جانے کا دو لاکھ ستر ہزار روپیہ ڈال لیتے ہیں تو اس حساب سے پانچ لاکھ روپے میں کم از کم چار افراد حج کا "سفر" کر سکتے ہیں یعنی قریب قریب سوا لاکھ روپیہ فی کس میں۔ اگر گاڑی میں پانچ افراد بیٹھیں یا سیون سیٹر گاڑی لے کر جائیں تو خرچ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے یہ زمینی راستے کھول دیں ہم تو بائیک پر بھی جاسکتے ہیں ۔۔۔😀😀
. بندہ ابو طلحہ فلاحی بلگامی۔
Subscribe to:
Comments (Atom)