Monday, August 29, 2022
مسلمانوں کے گھروں میں ایک عجیب رجحان شروع ہو گیا ہے۔
مسلمان لڑکا 10ویں پاس کرتے ہی نوکری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے اور اپنی بہنوں کو 12ویں، کالج کمپیوٹر کلاسز، دنیا کی ساری تعلیم لینے گھر سے باہر بھیج رہا ہے
مسلمان لڑکے ، 14 سال کی عمر میں اپنی پڑھائی چھوڑ رہے ہیں اور 25، 25 سال کی عمر تک اپنی بہنوں کو بڑے شوق سے کالج بھیج رہے ہیں۔
مسلمان لڑکے شدید گرمی میں خون پسینہ بہا رہے ہیں اور اپنے کپڑے گیلے کر رہے ہیں، وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کی بہنوں کو کالج کی فیس جمع کرانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
میں چھوٹے بھائیوں کو پیسے کماتے اور اپنی بڑی بہن کو کالج بھیجتے دیکھ رہا ہوں۔
ایسا لگتا ہے کہ مسلم قوم صرف لڑکیوں کی تعلیم سے ترقی کرے گی۔
یا اللہ کیا ہے یہ۔۔
دسویں جماعت کے بعد اپنی کلاسوں میں مسلم لڑکیوں کو ڈھونڈنے کے بعد بھی نوٹ کے لیے،ٹیوشن ،کالج سے لے کر کمپیوٹر کلاس تک ہر جگہ مسلم لڑکے نہیں مل رہے ہیں۔
مجبور ہو کر غریب لڑکیاں اور معصوم لڑکیاں زعفرانی لڑکوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتی ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ زعفرانی کھٹملوں کو ایک مسلمان لڑکی کو متاثر کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔
بات نوٹ لینے سے شروع ہوتی ہے، پھر راستے میں بھی باتیں ہونے لگتی ہیں، معلومات شیئر کرنے کے بہانے واٹس ایپ نمبرز کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
یوں حجابی لڑکیاں رات بھر زعفرانیوں کے ساتھ گپیں لگانے لگتی ہیں۔
مسلمان بھائی تھکا ہارا گھر آ کر سو گیا، بہن کوکالج کے زعفرانی بوائے فرینڈ نے اسی بھائی کے فون پر پیار کا اسٹیکر بھیج دیا۔
بھائی خراٹے لے رہا ہے جبکہ بہن اسلام کے دشمنوں سے محبت کی باتیں کر رہی ہے۔
مسلم لڑکیاں بارہویں کے بعد نہیں پڑھیں گی، تب بھی زیادہ فرق نہیں پڑتا
لیکن اگر ان لڑکیوں کے بھائی دسویں کے بعد پڑھتے ہیں تو وہ خود بھی اچھی نوکری حاصل کر سکیں گے اور اپنی بہن کے لیے مناسب رشتہ بھی کر سکیں گے۔
کافروں نے گھر میں رہنے والی پاکیزہ مسلمان لڑکیوں کو گھر سے نکالنے کے لیے طعنہ دیا تھا کہ مسلمان عورتوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنی بہنوں کو گھر سے باہر نکال دیا
مسلمان لڑکی کو غیر اسلامی ریاست میں مسلمان بھائیوں کے سائے میں علم حاصل کرنا چاہیے، اکیلے یا زعفرانی پیروکاروں کے ساتھ نہیں۔
ایسا کر کے آپ اپنی بہنوں کا ایمان خطرے میں ڈال رہے ہیں، یاد رکھیں یہ چیز قیامت کے دن ضرور پکڑی جا سکتی ہے۔
بے غیرت مرد کبھی بھی ایمان کی لذت حاصل نہیں کر سکتا۔
مسلمانوں کی روز اول سے جو خاص پہچان رہی ہے وہ ہے ایمانی غیرت۔۔۔اپنی غیرت کو جگاؤ ۔۔
*بیٹے پڑھاؤ۔۔۔بیٹیاں بچاؤ۔۔۔*
#BhagwaLoveTrap
Saturday, August 27, 2022
خاتمے کا بہانہ بنا
By WARAQU-E-TAZA ONLINE Last updated اگست 28, 2022
465
Share
اطہر رسول
یہ تین اور چار مارچ، 1924 کی درمیانی رات تھی۔ آبنائے باسفورس پر واقع محل ڈولماباچے مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔محل کے مکین حسب معمول کھانا کھانے اور دیگر شبینہ مصروفیات سے نپٹنے کے بعد خواب گاہوں میں سما چکے تھے۔لیکن ابھی انہیں نیند کی آغوش میں پہنچے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ محل کے باہر ایک مجمع اکٹھا ہونے لگا۔ ان لوگوں میں سرکردہ شخصیت استنبول کے پولیس چیف کی تھی جس کے پاس ابھی ابھی انقرہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی سے پاس ہونے والا قانون پہنچا تھا۔اس قانون کی رو سے جمہوری حکومت نے حکم دیا تھا کہ خلیفہ اور ان کے خاندان کو جتنا جلد ہو سکے، ملک سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ یہ اہلکار آدھی رات کے وقت محل میں داخل ہوئے اور خلیفہ کو جگا دیا۔
معروف مورخ برنارڈ لیوس اپنی کتاب ’دی ایمرجنس آف ماڈرن ٹرکی‘ میں لکھتے ہیں کہ اہلکاروں نے خلیفہ کو ہدایت کی کہ وہ علی الصبح پانچ بجے ترکی سے نکل جائیں۔ خلیفہ جذبات سے مغلوب ہو گئے لیکن پھر جلدی سے انہوں نے اپنی عظمت و خلافت کو اس حد تک بحال کیا کہ اپنا کچھ ذاتی سامان باندھنے کی اجازت طلب کی اور درخواست کی کہ ان کے حرم کی عورتوں کے گزارے کا بندوبست کیا جائے۔
لیکن حکومت اس خوف کا شکار تھی کہ کہیں صبح یہ خبر سننے کے بعد لوگ بغاوت نہ کر دیں، چنانچہ رات کے اندھیرے میں ہی اس معاملے کو نپٹانا ضروری تھا۔ خلیفہ کو بعجلت کار میں بٹھا کر نزدیکی شہر ’چاتالجا‘ پہنچایا گیا اور وہاں سے شام کو بذریعہ ریل گاڑی سوئٹزرلینڈ روانہ کر دیا گیا۔
لیکن شاید خلیفہ کے لیے سوئٹزرلینڈ بھی جائے پناہ نہیں تھی۔ ریل گاڑی سوئٹزرلینڈ پہنچی تو 600 سال تک یورپ و ایشیا پر راج کرنے والے خاندان کے وارث اور دس کروڑ مسلمانوں کے رہنما خلیفہ عبدالمجید کو سرحد پر اس وجہ سے روک دیا گیا کہ جس شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اسے سوئٹزر لینڈ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔سوئس قانون کے مطابق کسی مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم کچھ مذاکرات کے بعد اور عہد رفتہ کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے خلیفہ کو عارضی طور پر داخلے کی اجازت دے دی گئی لیکن یہ شرط رکھی گئی کہ خلیفہ کی ازدواجی حالت کے بارے میں بعد ازاں تحقیقات کی جائیں گی۔
یہ سب کیسے ہوا، آئیے تاریخ کی راہداریوں سے دیکھتے ہیں۔
لارڈ پیٹرک کنروس اپنی کتاب ’اتا ترک: ری برتھ آف اے نیشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ترکی میں برسراقتدار قوم پرستوں اور ان کے رہنما مصطفیٰ کمال کی عثمانی بادشاہت اور خلافت کے ساتھ مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے فاش شکست کھائی تو فاتح اتحادیوں نے اس کے بچے کھچے حصوں کی بندر بانٹ شروع کردی۔ سات سال کی مسلسل جنگ کے بعد ترک قوم میں کسی مزاحمت کے لیے سکت باقی نہیں تھی۔ایسے حالات میں جبکہ سلطان عبدالوحید اور اس کی حکومت سارا کچھ اتحادیوں کے حوالے کر کے دامن جھاڑ چکے تھے، ترک فوج میں کچھ عناصر ایسے تھے جو اتنی آسانی سے ملک ہاتھ سے دینے پر راضی نہیں تھے۔چنانچہ ملک کے اندرورنی علاقوں میں کئی چھوٹے بڑے لشکر وجود میں آ گئے جو اتحادیوں کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان لشکروں کو درپردہ چند جرنیلوں کی حمایت حاصل تھی جو انہیں سرکار کے خلاف تحفظ فراہم کرتے تھے۔
انہیں میں ایک جرنیل مصطفیٰ کمال بھی تھا جو جنگ عظیم کے دوران ایک ہیرو کے طور پر ابھرا تھا۔ وہ اب سلطان کے اے ڈی سی کے عہدے پر فائض تھا اگرچہ درپردہ اس کی ہمدردیاں مزاحمتی فوج کے ساتھ تھیں۔یہ مصطفیٰ کمال کی زندگی میں بے عملی کا زمانہ تھا۔ وہ انگریزوں کی نظر میں مشتبہ ہو چکے تھے۔ اس کا نام ان افراد کی لسٹ میں شامل تھا جنہیں انگریز گرفتار کر کے مالٹا کی طرف جلا وطن کرنا چاہتے تھے۔
دوسری طرف ملازمت میں بھی وہ ’افسر بکار خاص‘ بن چکے تھے۔ کنروس کے بقول ’’وہ بہت اداس تھے اور بیمار رہتے تھے۔ ان کے چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں اور بال سفید ہو گئے تھے۔ان کے پاس پیسوں کی کمی رہتی تھی۔ اس کا لباس کچھ بوسیدہ تھا اور اس کے جوتے ایڑی سے گھس گئے تھے۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور وہ ترکوں اور انگریزوں، دونوں کی نظر میں مشتبہ ہو چکے تھے۔وہ سڑکوں پر بلا وجہ گھومتے یا کافی ہاؤس میں بیٹھے رہتے۔ وہ دکھی اور نڈھال تھے۔ انہیں نہ کوئی امید تھی نہ کوئی منصوبہ تھا۔‘انسان کا وقت برا ہو تو صحیح فیصلے بھی غلط ثابت پڑتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سلطان عبدالوحید کے ساتھ بھی ہوا۔
سلطان نے اپنی حکومت اور اتحادی قوتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ملک کے طول و عرض میں چلنے والی ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے کسی افسر کو وہاں بھیجا جائے جو مقامی سطح پر ان مزاحمتی قوتوں کے ساتھ نپٹ سکے۔
لارڈ پیٹرک نے لکھا ہے کہ اس اہم مہم کے لیے جب نام طلب کیے گئے تو کسی نے مصطفیٰ کمال کا نام تجویز کر دیا۔ حکومت کو ان پر اعتبار نہیں تھا اس لیے کچھ دنوں تک یہ کشمکش چلتی رہی کہ انہیں گرفتار کر کے جلاوطن کیا جائے یا گورنر بنا دیا جائے۔
کابینہ میں یہ معاملہ پیش ہوا تو شیخ الاسلام نے بھی اس بنا پر اس کی مخالفت کی کہ مصطفیٰ کمال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافت کو منسوخ کر دیں گے اور مذہب پر پابندی لگا دیں گے۔
تاہم کابینہ نے 30 اپریل، 1919 کو اسے گورنری کا پروانہ دے کر شورش زدہ علاقے میں بھیج دیا۔ اس فیصلے کا نتیجہ وہی ہوا جو ہو سکتا تھا۔
مصطفیٰ کمال نے اناطولیہ پہنچ کر تمام مزاحمتی گروہوں کو اپنی قیادت میں اکٹھا کیا اور جنگ آزادی کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے قریہ قریہ گھوم کر جلسے کیے اور عوام کو اپنی حمایت پر آمادہ کیا۔ دریں اثناحکومت کو کمال کی ان سرگرمیوں کی خبر ملی تو اس کی تقرری کو منسوخ کر دیا گیا اور فوج کو حکم دیا گیا کہ اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ فوج کا ہر جوان اب مصطفیٰ کمال کو ہی اپنا قائد سمجھتا تھا۔
لارڈ ایورسلی نے ’دا ٹرکش ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ دوسری طرف اپریل 1920 میں سان ریمو کے مقام پر اتحادیوں اور سلطان کے نمائندوں کی کانفرنس ہوئی جس میں شام کا علاقہ فرانس جبکہ عراق و فلسطین کا علاقہ برطانیہ کو دے دیا گیا۔
ترکوں کے مرکز اناطولیہ (موجودہ ترکی) کے حصے بخرے کر کے اسے یونانیوں، اطالویوں اور آرمینیوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس معاہدے پراگست 1920 میں اتحادیوں اور عثمانی سلطان کے وزیر اعظم داماد فرید پاشا نے دستخط کیے اور یہ معاہدہ سیورے کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ معاہدہ عملی طور پر ترکی کے لیے موت کا پروانہ تھا لیکن سلطان نے اسے قبول کر لیا۔ برطانیہ کے وزیر جنگ ونسٹن چرچل کے بقول اس معاہدہ نے ’نفرت کی اس آگ پر، جو مغربی دنیا نے اپنے رویےسے ترکی میں بھڑکائی تھی، تیل کا کام کیا۔‘
یوں مصطفیٰ کمال کو اتحادیوںاور سلطان کی فوج کے خلاف مزاحمت کے لیے وسیع تر عوامی حمایت میسر آ گئی اور اس نے پے در پے مہمات کے بعد پہلے سلطانی فوج کو شکست دی اور اس کے بعد یونانیوں کو شرمناک ہزیمت کا چہرہ دکھا دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے اقدامات کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے انقرہ میں اپنی نئی قوم پرست پارلیمنٹ کا افتتاح کر دیا۔ ملکی سطح پر تو یہ قیادت پہلے ہی مقبول تھی، اب بین الاقوامی سطح پر بھی اسے تسلیم کیا جانے لگا تھا۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پڑدادا کا قتل
جنگی و سفارتی محاذ پر مصطفیٰ کمال کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں ان کے بعد وہ عملی طور پر ترک ریاست کا سربراہ بن چکا تھا۔ عوام سلطان عبدالوحید ششم کو مکمل طور پر فراموش کر چکے تھے۔
آخر صورت یہ ہو گئی کہ قسطنطنیہ میں بھی سلطان کا اقتدار برائے نام رہ گیا۔ قوم پرستوں نے شہر کی انتظامیہ اپنے ہاتھ میں لے کر خود فیصلے کرنے شروع کر دیے۔
انقلاب سے بغاوت کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر سزائیں دی جانے لگیں۔ موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا پڑدادا علی کمال سلطان کی کابینہ میں وزیر داخلہ رہ چکا تھا اور اس نے اپنے دور میں مصطفیٰ کمال کو واجب القتل قرار دیا تھا۔
اسے قوم پرستوں کی پولیس نے گرفتار کر لیا لیکن جب اسے جیل لے جایا جا رہا تھا تو ایک ہجوم نے راستے میں حملہ کر کے اسے سنگسار کر دیا۔
علی کمال نے بطور ایک شاعر اور صحافی اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ ایک دفعہ سوئٹزرلینڈ میں سفر کرتے ہوئے جھیل لوسرن کے کنارے ایک ہوٹل میں اس کی ملاقات ایک برطانوی خاتون ونیفریڈ برون جانسن (Winifred Brun Johnson) سے ہوئی اور دونوں میں عہد و پیمان ہو گئے۔
ونیفریڈ علی کمال سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس شادی کو لے کر مذہبی مشکلات سے آگاہ تھے اور اسی لیے ہچکچا رہے تھے۔ تاہم اگلے سال ان کی سوئٹزرلینڈ میں دوبارہ ملاقات ہوئی اور انہوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ایسا قاضی کہاں سے ملے جو ایک مسلمان اور عیسائی کی شادی کروانے پر راضی ہو۔ کچھ تردد کے بعد یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اور لندن کے ایک چرچ میں ان کی شادی ہو گئی۔ یہ واقعہ 1903 کا ہے۔
شادی کے بعد علی کمال کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو چند مہینے سے زیادہ نہ جی سکا۔ اس کے بعد ایک بیٹی سلمیٰ اور ایک بیٹا عثمان علی پیدا ہوئے۔
عثمان علی کی پیدائش کے بعد ونیفریڈ بھی زیادہ نہ جی سکیں اور علی کمال بھی مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ وہ بچوں کو ان کی نانی مارگریٹ جانسن کے پاس لندن چھوڑ کر خود استنبول آ گئے۔
نانی نے ہی بچوں کی پرورش کی اور چھوٹے عثمان علی کا نام عثمان علی کمال سے بدل کر ولفریڈ جانسن کر دیا۔ ولفریڈ نے بچپن کسمپرسی میں گزارا، لیکن بڑا ہو کر وہ برطانوی فضائیہ میں شامل ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم میں بطور پائلٹ شامل رہا۔
اس کا بیٹا سٹینلے جانسن سیاست میں متحرک ہوا اور یوروپین پارلیمنٹ کا حصہ بنا۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اس سٹینلے جانسن کا بیٹا ہے۔
اس کے بعد سلطان کو احساس ہو گیا کہ قسطنطنیہ میں ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہوں نے آخری موقعے پر کئی طریقوں سے قوم پرستوں کے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔
اسی دوران سلطان کی برائے نام حکومت کو ختم کرنے کے لیے مصطفیٰ کمال کے ہاتھ ایک بہانہ آ گیا۔
ہوا یوں کہ اتحادیوں کی جانب سے لوزین میں ایک امن کانفرنس منعقد کی گئی جس میں شرکت کے لیے حسب دستور سلطان کی حکومت اور نئی حکومت کو الگ الگ دعوت نامے بھیجے گئے۔
قوم پرستوں نے اس واقعے پر بہت شور مچایا کہ سلطان کی وجہ سے ترک حکومت اور قوم میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ اسمبلی میں تقریریں کی گئیں کہ اگر سلطان کی جانب سے اپنے نمائندوں کو الگ سے بھیجا گیا تو یہ غداری کے مترادف ہو گا۔ اب لوہا گرم تھا اور سلطنت کے خاتمے کے لیے نفسیاتی لمحہ آ پہنچا تھا۔
برنارڈ لیوس کے مطابق یکم نومبر 1922 کو مصطفیٰ کمال کی اسمبلی میں ایک قانون پیش کیا گیا جس کی رو سے سلطنت اور خلافت کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اس قانون میں قرار دیا گیا تھا کہ سلطنت کو ختم کر دیا جائے گا جو کہ دنیاوی اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ خلافت کو برقرار رکھا جائے گا جو کہ روحانی اقتدار کی نمائندہ ہے۔ اس مقصد کے لیے خلافت کسی ایسے شہزادے کو دی جائے گی جس کا منصب مذہبی ہو گا اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
علما کی جانب سے اس قانون کی سخت مخالفت کی گئی لیکن مصطفیٰ کمال نے بڑی پرزور تقریر کی اور حزب اختلاف کو چپ کروانے کے لیے طاقت کے استعمال کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
اس کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر اسمبلی کے ارکان اور دیگر احباب اگر قدرتی طریقے سے نظر ڈالیں تو میرا خیال ہے کہ وہ مجھ سے اتفاق کریں گے۔ اگر وہ اتفاق نہیں کریں گے تو سچائی جلد ہی ظاہر ہو جائے گی لیکن اس عمل میں شاید کچھ سر اُڑیں گے۔‘
نتیجہ یہ ہوا کہ اسمبلی میں موجود علما نے فوراً اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی اور یہ قانون منظور کر لیا گیا۔ کمال کے بقول ’یوں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس کی تجہیز و تکفین بھی مکمل ہو گئی۔‘
کنروس کے بقول اس دوران سلطان اپنے محل میں ہی رہا جبکہ اس کا بہت سا عملہ اسے چھوڑ گیا تھا۔ کمال نے اسے بزور قوت اس لیے معزول نہیں کیا تھا کہ اسے عوام کی برہمی کا اندیشہ تھا۔
چند دن بعد سلطان نے برطانوی سفیر رمبولڈ کو طلب کیا اور اس سے اپنی امداد کی یقین دہانی چاہی۔ رمبولڈ نے اسے بتایا کہ اب برطانیہ صرف انقرہ کی حکومت سے ہی معاملہ کر سکتا ہے۔ تاہم اس نے وعدہ کیا کہ سلطان کی زندگی کو ہر صورت تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
دس نومبر کو سلطان جمعہ کی نماز کے لیے مسجد گئے تو امام نے اپنے خطبے میں عظیم بادشاہ اور شاہی خاندان کا نام نہیں لیا بلکہ صرف امیر المومنین کا اور خلیفہ کا ذکر کیا۔ اس نماز کے فوراً ہی بعد سلطان نے برطانوی سفیر کو پیغام بھجوایا کہ ان کی جان خطرے میں ہے اور انہیں یہاں سے فوراً نکال لیا جائے۔
چنانچہ 11 نومبر کو علی الصبح سلطان وحید الدین ششم انگریزوں کی دو ایمبولینس کاروں کے ذریعے، جن پر ریڈ کراس کا نشان بنا ہوا تھا، اپنے خزانے اور نو افراد پر مشتمل عملے کے ہمراہ ایک برطانوی جنگی جہاز تک پہنچا اور پھر اس جہاز کے ذریعے مالٹا روانہ ہو گئے۔
وہ اپنی پانچ بیویوں کو قصر یلدیز میں ہی چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے انگریزوں سے درخواست کی کہ انہیں بعد میں اس کے پاس پہنچا دیا جائے۔ قوم پرستوں نے سلطان کے از خود فرار پر خوشی کا اظہار کیا۔
نئے غیر سیاسی خلیفہ کا انتخاب
سلطان کے فرار کے بعد 16 نومبر 1922 کو گرینڈ نیشنل اسمبلی نے اس کے کزن اور ولی عہد عبدالمجید کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ ان کی عمر 54 سال تھی اور ان کے لبرل خیالات کی وجہ سے انہیں سلطان نے سیاست سے الگ کر دیا ہوا تھا۔
عبدالمجید نے اسمبلی کی طے کردہ شرائط کے مطابق یہ منصب قبول کر لیا۔ اسے اس موقعے پر پیغمبرِ اسلام کی عبا اور دیگر متبرک اشیا دی گئیں لیکن تلوار اسے نہیں دی گئی جو خلیفہ کے دنیاوی اقتدار کی علامت تھی۔
ترکی پر ایک شرابی حکومت کر رہا ہے
ترک مورخ خالدہ ادیب نے ’دا ٹرکش اورڈیل‘ میں لکھا ہے کہ مصطفیٰ کمال اعلانیہ طور پر شراب پیتے تھے۔ جب غیر ملکی اخباروں نے ان کی شراب نوشی کے بارے میں لکھا تو انہیں نے ان کی تائید کی اور کہا کہ اگر ایسی باتیں نہ لکھی جائیں تو لوگ مجھے سمجھ ہی نہیں سکتے۔
جب ایک مرتبہ وہ سمرنا (ازمیر) کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا شراب پی رہے تھے تو گورنر نے کھڑکیوں سے پردے گرانے کا حکم دیا۔
اس پر کمال نے احتجاج کیا اور کہا کہ ’اگر تم نے ایسا کیا تو لوگ سمجھیں گے کہ ہم میز پر عورتوں کو نچا رہے ہیں۔ انہیں دیکھنے دو کہ ہم صرف شراب ہی پی رہے ہیں۔‘
ایک فرانسیسی اخبار نویس نے لکھا کہ ’ترکی پر ایک شرابی، ایک بہرہ (وزیر اعظم عصمت انونو) اور تین سو گونگے (ارکان اسمبلی) حکومت کر رہے ہیں۔‘
اس پر کمال نے جواب دیا، ’تمہیں غلطی ہوئی ہے، ترکی پر صرف ایک شرابی حکومت کر رہا ہے۔‘
مصطفیٰ کمال کی یہی باتیں اس کے سیاسی مخالفین کا ہتھیار تھیں۔ ان کا یہ طرزِ زندگی ان کے خلاف پراپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بہت دیر سے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ مصطفیٰ کمال اسلام کو تباہ کرنے اور خلیفہ کو نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کئی دفعہ اپنے اس ارادے کا اظہار سر عام کر بھی دیا تھا۔
نئے خلیفہ کی دلچسپیاں
ادھر نو منتخب خلیفہ عبدالمجید کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کو باغبانی اور مصوری کا شوق تھا اور ان کا زیادہ وقت انہی دو مشغلوں کی نذرہو تا تھا۔
ان کی طبیعت میں سازش کا عنصر نہیں تھا اور وہ ایک سیدھے سادے، دیانت دار، مسکین اور شریف شخص تھے۔ انہوں نے جوانی سے ہی اپنے محل میں بڑی سادہ زندگی بسر کی تھی لیکن اب جب انہیں خلیفۃ المسلمین منتخب کیا گیا تو انہیں نے اس منصب کو بھی دیانت داری سے نبھانے کی کوشش کی۔
اس سے قبل خلیفہ گھوڑا گاڑی استعمال کرتے تھے لیکن وہ سلطان محمد فاتح کی طرح سفید گھوڑے پر سوار ہو کر نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے، پیچھے حفاظتی دستہ ہوتا اور راستے میں لوگ اسے دیکھ کر تالیاں بجاتے۔
اگرچہ عبدالمجید کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے لیکن ان کی شخصیت نے کمال کے تمام تر سیاسی مخالفین کے لیے مقناطیس کا کام کیا اور وہ سب ایک کےبعد ایک اس کے گرد جمع ہو گئے۔
سلطنت عثمانیہ کا تمام ملبہ یعنی پرانے وزرا، علما، سیاسی قائدین اور فوجی جرنیل اس کے پاس اکٹھے ہو رہے تھے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ گذشتہ دستور کے موافق خلیفہ کو آئینی صدر بنایا جائے اور خود اس کے تحت حکومت قائم کی جائے۔
ایچ سی آرمسٹرانگ نے کمال اتا ترک کی سوانح میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی شخصیت اب مصطفیٰ کمال کے اقتدار کے لیے خطرہ بن چکی تھی اور مصطفیٰ کمال نے وہی کیا جو کوئی بھی اچھا ڈکٹیٹر ایسی صورت حال میں کر سکتا ہے۔ وہ خلیفہ کو راستے سے ہٹانے کا موقع ڈھونڈنے لگے۔
ہندوستان کی تحریک خلافت: آغا خان اور سید امیر علی کا خط
دریں اثنا ہندوستان میں مصطفیٰ کمال کا طوطی بول رہا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان اسے پورے مشرق کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ ترکی واحد مشرقی ملک تھا جو اتحادیوں کے مقابل ڈٹ گیا تھا اور ان کی قیادت مصطفیٰ کمال کے ہاتھ میں تھی۔
ہندوستان سے لگاتار خطوط بھیج کر مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھیوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا جاتا تھا۔
اس زمانے میں ہندوستان بالخصوص پنجاب کے ہر گھر میں مصطفیٰ کمال جانا پہچانا نام بن گیا تھا اور ان کی بڑی بڑی تصویریں ہر دکان پر آویزاں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے غریب مسلمان مصطفیٰ کمال کی جدوجہد کے لیے چندہ بھی جمع کر رہے تھے۔
آرمسٹرانگ کے مطابق ہندوستان سے کل سوا لاکھ پاؤنڈ کی رقم بطور چندہ بھیجی گئی۔ اس میں سے کچھ رقم سے ترک فوج کو تنخواہیں دی گئیں جبکہ زیادہ تر رقم انقرہ میں نئی پارلیمنٹ کی تعمیر اور پہلے قومی بینک کے قیام پر خرچ ہوئی۔
لیکن مصطفیٰ کمال کی جانب سے خلافت پر پابندی کی افواہیں گرم ہوئیں تو ہندوستانی مسلمانوں کے دو زعما یعنی آغا خان سوم اور سید امیر علی نے ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے ایک احتجاجی خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس خط میں مطالبہ کیا گیا کہ خلیفہ کے رتبے کا لحاظ کیا جائے۔ یہ خط قسطنطنیہ کے اخبارات کو بھی بھیج دیا گیا۔ شومئی قسمت کہ انقرہ کی حکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی یہ خط اخبارات میں شائع ہو گیا۔
مصطفیٰ کمال کو موقع مل گیا۔ انہوں نے آغا خان کے حالات نکال کر دیکھے۔ وہ ایک معتبر ہندوستانی مسلمان تھے جو انگلستان میں رہتے تھے۔
انہوں نے ریس کے گھوڑے پال رکھے تھے۔ وہ انگریزوں کا لباس پہنتے تھے اور انگریزوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ چنانچہ مصطفیٰ کمال نے اعلان کر دیا کہ وہ انگریزوں کے خاص ایجنٹ ہیں اور انہی کی ایما پر برطانیہ ترکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
اب اس خط کو بنیاد بنا کر ایجی ٹیشن کو ہوا دینا اتاترک کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چنانچہ یہ بیانیہ تیار کیا گیا کہ انگریز چونکہ یونان کے ذریعے ترکی کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اس لیے اب وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازش کر رہے ہیں۔
آغا خان کا ٹریک ریکارڈ بھی اس سلسلے میں خاصا مددگار ثابت ہوا۔ جنگ کے دوران بطور مذہبی پیشوا آغا خان نے انگریزوں کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کر رکھا تھا جس کی ہندوستان بھر میں بڑی شہرت ہوئی تھی۔
پیسہ اخبار کی ایک خبر کے مطابق آغا خان کی جماعت نے ملتان میں انگریزوں کے ساتھ وفاداری کی قرارداد بھی پاس کی تھی۔
آرمسٹرانگ کے مطابق مصطفیٰ کمال کو موقع مل چکا تھا۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے پہلے فرانس کے ایک جریدے میں خلافت کے غیر ضروری ہونے کی خبر شائع کی گئی۔
کمال نے اس جریدے کو انٹرویو میں لفظوں کی فسوں کاری دکھاتے ہوئے کہا کہ ’خلافت کا مطلب انتظامیہ یا حکومت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب جبکہ ایک اور انتظامیہ اور حکومت وجود میں آگئی ہے تو اس منصب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ خلافت کا پورے عالم اسلام پر کبھی بھی اختیار و اقتدار قائم نہیں ہوا تھا جیسا کہ پاپائیت کا دنیائے کیتھولک پر رہا تھا۔‘
آغا خان کا خط چھاپنے والے اخباروں پر مقدمے چلائے گئے اور بقیہ اخبارات کو سخت ہدایت کی گئی کہ وہ ایسے ہی خطوط پر پراپیگنڈہ کریں۔
اسی پراپیگنڈے کو بنیاد بنا کر تین مارچ کو اسمبلی کی چوتھی سالگرہ والے دن ایک قانون منظور کیا گیا اور اسی رات اس قانون کے ذریعے خلیفہ کو ملک بدر کر دیا گیا۔
خلیفہ اور عثمانی خاندان کے ہر فرد کی ترکی میں رہائش پر پابندی لگا دی گئی۔ خلیفہ نے اپنی بقیہ عمر فرانس میں مصوری اور موسیقی کے سہارے گزار دی۔ شروع میں ان کے پاس کوئی رقم نہ ہوتی تھی اور سر پر چھت بھی بڑی مشکل سے میسر تھی۔
1944 میں جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوئی تو ترکی میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔ ان کی باقیات کو فرانس کی ایک مسجد میں ہی محفوظ کر دیا گیا۔ یوں اسلام کی آخری اور شاید سب سے عظیم خلافت اپنے اختتام کو پہنچی۔
Friday, August 26, 2022
موسیقی*موسیقی سے حفظ قرآن تک!!*
یہ مائیک جانکی (Maik Jahnke) ہیں۔ یعنی جرمنی کے مائیکل جیکسن۔ بوب موسیقی کا بے تاج بادشاہ۔ جرمن تاریخ میں جن کے گانوں کی البم نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے۔ خود ہی گانے لکھتے اور خود ہی گاتے۔ شہرت، عزت، دولت اور مقبولیت ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ مگر اچانک ایک خواب نے ان کی کایا پلٹ دی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلام قبول کرکے صوفی بن گئے اور اب قرآن کریم حفظ کرنے کی کوشش میں مصروف۔
مائیک جانکی نے جب موسیقی کو خیرباد کہہ کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو ان کے پرستاروں پر گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ ایک انٹرویو میں وہ خود بتاتے ہیں کہ میں ایک متوسط درجے کی جرمن فیملی میں پیدا ہوا۔ مجھے اسکول کے زمانے سے موسیقی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ میں خود ہی پیسے جمع کرکے آلاتِ موسیقی خریدنے لگا۔ پھر میں نے خود ہی گیت لکھنے اور گانے شروع کئے۔ کچھ عرصے بعد مجھے کافی مقبولیت ملی تو ایک پارٹنر کے ساتھ مل کر ہم نے میوزک کمپنی کھول لی۔ جلد ہی ہمیں ایک کنٹرٹ بھی مل گیا۔ اس کے بعد تو گویا تانتا بندھ گیا۔ بعد ازاں ہم نے ایک البم ریلیز کی جو جرمن تاریخ کی مشہور ترین المبز میں سے ایک ثابت ہوئی۔ اس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ہم نے جرمنی کے ہر شہر میں کنسرٹس کئے۔ جبکہ MTv پر بھی ہمارے پروگرام ہوتے رہے۔
زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ پیسے کی ریل پیل تھی۔ شہرت و مقبولیت میں اوج ثریا پر پہنچا ہوا تھا۔ اس دوران ایک حادثہ ہوا۔ میں اپنے اسٹوڈیو کی طرف جا رہا تھا کہ میری کار خوف ناک ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی۔ اس حادثے میں، میں اگرچہ بری طرح زخمی ہوا، لیکن جان بچ گئی۔ حادثے کے بعد میں نے اپنی زندگی پر نظر ثانی کی کہ کیا صحیح سمت اور درست ڈگر پر چل رہا ہوں۔ خدا کی ذات پر مجھے شروع سے ایمان تھا۔ میں اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ لیکن آفشیلی میں کسی مذہب سے وابستہ نہیں تھا۔ حادثے کے بعد میں نے خدا کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا شروع کر دیا۔ بلکہ میری تحریروں کا محور بھی اب اسی کی ذات پاک تھی۔ میں نے اسے کئی خطوط لکھے اور جواب کا متنظر رہا۔ بہرحال اس حادثے نے مجھے اپنے بارے میں متفکر کر دیا۔ اس دوران ایک عجیب خواب دیکھا۔ اسی خواب نے میری کایا پلٹ دی اور میں مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔
ایک رات انہی تفکرات میں مجھے نیند نہیں آئی۔ میں اپنی بالکونی پر جا کر کھڑا ہوگیا اور آسمان اور چاند کو دیکھنے اور خدا کے بارے میں سوچنے لگا۔ ’’یہ سب کس مقصد کے لئے بنا ہے۔ اس کائنات اور میری تخلیق کا کوئی مقصد تو ہوگا۔‘‘ دیر تک میں اسی پر سوچتا رہا۔ اس کے بعد دیر سے سو گیا۔ پھر ایک خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑے شہر کے قریب کھڑا ہوں، جہاں گھوڑے اور اونٹ سواری کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ کوئی کار یا جدید سواری نہیں۔ اس شہر کے چاروں اطراف ایک فصیل ہے۔ میں اسی فصیل کے باہر صحرا میں ہوں۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہینڈسم آدمی میری طرف آتا ہے۔ جس کے بال کالے اور ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لاٹھی سے ریت پر ’’سبحان اللہ‘‘ لکھ دیا۔ یہ ایک ایسا کلام تھا، جسے میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ کیونکہ اس وقت عربی سے کوئی شدبد نہیں تھی۔ میں آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے تک چیختا چلاتا اور روتا رہا۔
اس دوران میرے پاس کسی کا فون آیا۔ میں نے کالر سے معذرت کی کہ میں اس وقت بات چیت نہیں کر سکتا۔ میں نے ایسا عجیب خواب دیکھا ہے۔ اس کے بعد میں نے کئی دوستوں اور جاننے والوں کے سامنے یہ خواب بیان کیا کہ اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے۔ کسی نے کہا کہ اس خواب میں تمہیں اسلام کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ یہ بات دل کو بھی لگی۔ اس کے بعد میں نے اسلام کے بارے میں مطالعہ شروع کر دیا۔ تھوڑے ہی دن بعد رب نے اسلام کیلئے میرا سینہ کھول دیا اور میں جرمنی کے شہر Aachen کے سب سے بڑے اسلامک سینٹر جا کر کلمہ شہادت پڑھ لیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد مسلمان مجھے گلے لگانے لگے اور بڑی محبت کا اظہار کیا تو میرے دل کے تمام داغ دھل گئے اور غبار چھٹ گیا۔
اب میں اپنے ماضی کو یاد کرتا ہوں۔ میں موسیقی کا اسٹار تھا۔ میرے پاس ڈالروں کی بہتات تھی۔ سب کچھ تھا۔ لیکن ان چیزوں نے مجھے کوئی فائدہ نہیں دیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد ہی حقیقی سکون اور اطمینان نصیب ہوا۔ میں اسلام کی نعمت سے نوازنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں اور ان لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں، جنہوں نے درست سمت کی طرف میری رہنمائی کی۔ اب میں ڈیڑھ ارب مسلم کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ میرے اربوں بھائی بہن ہیں۔ اس سے پہلے میں تنہا تھا۔ اب میں قرآن کریم حفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ قبول اسلام کے بعد میرا طرز عمل و فکر یکسر بدل گیا ہے۔ اسلام نے مجھے ایک اچھا انسان بنا دیا ہے۔ میری تمنا ہے کہ تمام غیر مسلم بھی اسلام کے بارے میں ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ اپنے مقصد تخلیق کے بارے میں سوچیں۔ اگر وہ درست سمت میں مثبت انداز سے فکر کریں گے تو وہ ضرور اسلام قبول کریں گے۔
انگریزی سے ترجمہ: ضیاء چترالی
Tuesday, August 23, 2022
Fggghپـانـچ جامـع تـفـاسـیر
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اپنی مشہور تصنیف علوم القرآن میں لکھتے ہیں:
یہ پانچ تفاسیر [ یعنی تفسیر کبیر،تفسیر ابن کثیر،تفسیر قرطبی، تفسیر روح المعانی اور تفسیر کشاف] احقر کے ناچیز ذوق کے مطابق ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف انہی پر اکتفا کرلے تو ان شاءاللہ تعالٰی مجموعی حیثیت سے اسے دوسری تفاسیر سے بے نیاز کردیں گی ـ یہ احقر کی ذاتی رائے تھی، بعد میں اپنے مخدوم بزرگ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب مد ظلہم العالی کے ایک مقالے سے اس کی تقریباﹰ حرف بحرف تایید ہوگئی، فـ للہ الحمد. موصوف اپنے گراں قدر مقالے یتیمـته البیان میں تحریر فرماتے ہیں:
چونکہ عمرِ عزیز کم ہے، آفات زمانہ زیادہ اور ہمارے دور میں ہمتیں پست، اور عزائم کمزور ہوگئے ہیں.... اس لیے میں اپنے طالب علم بھائیوں کو چار ایسی تفاسیر کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اُن پر قناعت کرنا چاہے تو وہ ان شاءاللہ تعالٰی کافی ہوں گی ـ
❶. ایک تفسیر ابن کثیر .... جس کے بارے میں ہمارے استاد ( حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ تعالٰی) فرماتے تھے:
اگر کوئی کتاب کسی دوسری کتاب سے بے نیاز کرسکتی ہے تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے ـ جو تفسیر ابن جریر سے بے نیاز کر دیتی ہے ـ
❷ دوسری تفسیر کبیر امام رازی جس کے بارے میں ہمارے استاد فرماتے تھے قرآن کریم کے مشکلات میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی رحمہ اللہ تعالٰی نے تعرض نہ کیا ہو، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکلات کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہو جائے اور اس کے بارے میں جو کہا گیا ہےفـيه كل شئ إلا التفسیر یہ تو خواہ مخواہ اس کی جلالتِ قدر کو کم کر کے دکھانا ہے اور شاید یہ کسی ایسے شخص کا قول ہے جس پر روایات کا غلبہ تھا اور قرآن کریم کے لطائف و علوم کی طرف توجہ نہ تھی ـ
❸. تیسری تفسیر روح المعانی جو میرے نزدیک قرآن کریم کی ایسی تفسیر ہے جیسے صحیح بخاری رحمہ اللہ تعالٰی کی شرح فتح الباری، الا یہ کہ فتح الباری ایک کلامِ مخلوق کی شرح ہے، اس لیے اس نے شرح بخاری کا جو قرضہ امت پر تھا اسے چکا دیا ہے اور اللہ تعالٰی کا کلام اس سے بلند و برتر ہے کہ کوئی بشر اس کا حق ادا کرسکے ـ
❹. چوتھی تفسیر ابی السعود ہے، جس میں نظم قرآنی کو بہترین عبارت میں بیان کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے اور وہ بسا اوقات زمخشری کی کشاف سے بے نیاز کردیتی ہےـ
کتاب : تحریر کیسے سیکھیں؟
(صفحہ نمبر 270)
مصنف : مفتی ابو لبابہ شاہ منصور
۔
۔
۔
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender
Sunday, August 21, 2022
نصاب تعلیم کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگی
انقلاب نئی دہلی ، ۲۱ / اگست ۲۰۲۲
( محمد خالد اعظمی، شبلی نیشنل کالج ، اعظم گڑھ)
موجودہ دور میں تعلیم کا مقصد ہر انسان کیلئے صرف یہی رہ گیاہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنی ان خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اہلیت حاصل کرلے جو اسے ایک اچھی نوکری ، زیادہ پیسہ کمانے کا ہنر اور معاشرتی زندگی میں ایک باوقار اور با صلاحیت انسان کے طور پر متعارف کرا سکیں۔ اس وقت تعلیم کی تمام تر جہات کو ہنر مندی اور پیداواری صلاحیت کے ارتقاء سے جوڑ کر پورے نظام تعلیم کو ایک ایسے تجارتی شعبہ میں بدل دیا گیا ہے جس میں تعلیمی ادارہ ، سرپرست اور طالب علم کے ساتھ دیگر سبھی حصہ داروں کا مطمح نظر اس ایک نقطہ پر آکر مل جاتا ہے کہ شعبۂ تعلیم میں سرمایہ کاری کے ذریعہ ایسے با صلاحیت اور باکمال اشخاص تیار کئے جائیں جو میدان عمل میں بے حساب پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہوں اور موجودہ وقت میں اچھی ملازمت و پر تعیش زندگی کا حصول ہی تعلیم کا مقصد رہ گیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ روایتی طریقۂ تعلیم، جس میں اسباق پڑھنے، یاد کرنے اور پھر انہیں اسباق کے امتحان سے درجات پاس کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا طریقہ ، اب موجودہ وقت میں قابل عمل نہیں رہ گیا ہے بلکہ ہر قسم کے تعلیمی ادارے، خواہ وہ روایتی نظریاتی طرز فکر کے حامل ہوں یا جدید پیشہ ورانہ نصاب پڑھاتے ہوں ہر ایک میں تعلیم کا عملی و سائنسی طرز تدریس زیادہ مقبول ہوتا جا رہاہے جہاں طالب علموں کو اپنے اسباق سے متعلق نظریا ت و مسائل کے اثبات یا انکار کیلئے مختلف وضاحتی نمونوں سے عملی مشق کرائی جاتی ہے ۔ اس طرز تدریس سے انکے اندر ایک مخصوص طرح کا تجزیاتی ذہن اور تنقیدی سوچ پروان چڑھتی ہے جو تعلیم کے بعد کی عملی زندگی میں مسائل کے ادراک اور ان کے حل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
موجودہ دور نت نئی تبدیلیوں کا دور ہے جس میں روزمرہ کی ضروریات خورد و نوش سے لیکر اشیاء تعیش ،ملبوسات ،سماجی و معاشی خدمات ہر مہینے اور ہر سال ایک نیا رنگ و روپ لیکر بازار میں آجاتی ہیں اور عام انسان ان تبدیلیوں کا اس حد تک خوگر ہو چکا ہے کہ ہر نیا برانڈ اور نیا ماڈل اس کی بنیادی ضرورت بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر مصنوعات و خدمات کی پیداوار کیلئے ایسے ہی ہنر مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمہ وقت کچھ نیا کر سکتے ہوں، تعبیر و تعمیر میں جدت اور اختراعی ذہانت کے ذریعہ نت نئی مصنوعات بازار میں لا سکیں اور اپنی کمپنی یا ادارے کیلئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے مواقع پیدا کرسکیں ۔ ایسے ذہین افراد کیلئے ملازمت کا حصول یا پیسے کمانے کے بہترین مواقع ہر جگہ بہ آسانی دستیاب ہیں اور ایسے لوگ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ زمانے میں مشہور اور کامیاب کالجز و یونیورسٹیز میں اسی بات کو مدنظر رکھ کر نصاب اور طریقۂ تدریس کا انتخاب ہوتا ہے کہ ان کے طلبہ کے اندر اسی طرح کی صلاحیت پروان چڑھ سکے جس سے وہ عوام کی پسند و ناپسند کے مطابق ان کی ضرورتوں کا ادراک اور اسی کے مطابق ان کی تکمیل کر سکیں ۔ تعلیم کے میدان میں کا میابی اور ناکامی کا دارومدار ہی اب اس بات پر ہے کہ آپ اپنے خیالات و کمالات سے دوسروں کو کتنا متاثر کرسکتے ہیں یا ان کی زندگی کو مزید آرام دہ بنانے کا کون سا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ تعلیم کے نت نئے منصوبے مرتب ہوتے رہتے ہیں لیکن تعلیم کے بنیادی مقصد کے تئیں ابھی حکومت سے لیکر عوام تک سبھی مختلف طرح کے شبہات کا شکار اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ہمارے ملک میں والدین سے لیکر طلبہ اور تعلیمی ماہرین تک صرف مخصوص امتحانات کے ذریعہ ڈگری حاصل کر لینے کو ہی تعلیم کا بنیادی مقصد سمجھتے ہیں جس میں تعلیم کی ہر سطح پر صرف دئے ہوئے منظور شدہ اسباق کو پڑھنے، یاد کرنے اور امتحانات میں اپنی یادداشت کے بل پر رٹے رٹائے جوابات لکھ کر ڈگری حاصل کر لینا ہی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیز تک میں طلبہ صرف امتحان پاس کر لینے کو ہی اپنی تمام تعلیمی تگ و دو کا ماحصل سمجھتے ہیں، لیکن ان امتحانات کے ذریعہ زمانے کی ضرورتوں کے مطابق ہنر مندی اور صلاحیت کا حصول ، تجزیاتی سوچ کی وسعت اور تعمیری ذہن کے ارتقاء کو صحیح طور پر ناپنے کا نہ کوئی پیمانہ یونیورسٹیز کے پاس ہے اور نہ ہی طلبہ یا والدین اس سلسلے میں زیادہ فکر مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بس اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرلینا، ڈگری اور میڈل حاصل کر لینا ہی گویا علم و تعلیم کا بنیادی مقصدہوگیاہے ۔
نئی تعلیمی پالیسی میں حکومت نے موجودہ نظام تعلیم میں چند بنیادی تبدیلیاں کر کے گویا یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ نیا منصوبہ ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی سمت میں اگلا قدم ہے لیکن صرف پالیسی بنا دینے یا ایک عمدہ ڈرا فٹ تیار کردینے سے مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ملک میں پرائمری سے لیکر ثانوی اور اعلی تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ جس زبوں حالی اور کسمپرسی کا شکار ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ دیہی علاقے جہاں آج بھی ملک کی ستر فیصد آبادی قیام پذیر ہے وہاں حکومتی امداد یافتہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو ازسر نر تعمیر اور مستحکم کئے بنا کسی طرح کی بنیادی تبدیلی کا امکان بہت کم ہے۔ تعلیم اور تحقیق کیلئے بنیادی سہولیات کی بے حد کمی، کتب خانہ میں نئی کتابیں، رسائل و جرائد کیلئے وسائل اور مسائل، تجربہ گاہ کیلئے جدید سائنسی آلات کا فقدان، غیر نصابی سرگرمیوں ، دماغی ورزش اور طلبہ میں تخلیقی صلاحیت کو فروغ دینے کیلئے مناسب ماحول کی عدم دستیابی وغیرہ ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کا تعلق موجودہ زمینی حقائق سے ہے اور انکے حل کیلئے جب تک مناسب عملی اقدامات حکومتی سطح پر نہیں کئے جاتے تو صرف نئی تعلیمی پالیسی کے ڈرا فٹ سے صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے ۔
نئی تعلیمی پالیسی کا ڈرا فٹ وزارت سے پاس ہونے کے ساتھ ہی حکومت نے تعلیمی اداروں کو اسکے نفاذ کی پابند ی کیلئے احکامات جاری کر دیئے ہیں، بنا اس بات کو سمجھے کہ اس راہ میں حائل عملی اور زمینی مشکلات کا سدباب کیسے ہو سکتا ہے۔ کلاس میں حاضری کی پابندی، سمسٹر امتحانات، کلاس میں طلبہ کی کثیر تعدا د اور استاد و طالب علم کا غیر عملی تناسب ، کاپیوں اور اسائنمنٹ وغیرہ کے جانچنے اور وقت کی پابندی کے ساتھ رزلٹ بنانے کی راہ میں حائل مشکلات کا ادراک سرکار اور افسران کو بالکل نہیں ہے اور نہ اسے حل کرنے کیلئے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کی راہ میں کوئی عملی قدم سرکار اٹھانا چاہتی ہے۔ ہر سطح پر ہنر مندی اور روزگار کی صلاحیت کے فروغ کیلئے اضافی مضامین پڑھانے کے احکامات جاری کر دئے گئے ہیں لیکن انکے لئے اضافی سہولیات، تربیتی اساتذہ اور مناسب اوزاروں وغیرہ کی فراہمی کیلئے مناسب مالی وسائل کی فراہمی پر حکومت بالکل خاموش ہے ۔ اس طرح کے ماحول میں ذہنی و تخلیقی صلاحیت کے ساتھ طلبہ میں تنقیدی سوچ کا فروغ بے وقت کی راگنی جیسا محسوس ہوتا ہے۔ عصری ضروریات کے لحاظ سے نصاب تیار کرنا ایک بات ہے لیکن اس نصاب کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اسکے ذریعہ طلبہ میں تخلیقی و تعمیری صلاحیت پیدا کرنا بالکل دوسری بات ہے ۔ سرکار نے نصاب تو تیار کرلیا لیکن اسکے نفاذ کی راہ میں ہائل عملی مشکلات کے حل کیلئے اسکے پاس کوئی طریقۂ کار نہیں ہے۔ تعلیمی ادارے اگر ان سب سہولیات کو اپنے ذرائع سے پورا کرینگے تو طلبہ اور سرپرستوں کے اوپر اضافی مالی بوجھ ناگزیر ہے اور ملک کے موجودہ معاشی حالت نیز غربت و بے روزگاری کی مار جھیل رہے عوام کی بڑی تعداد تعلیم کیلئے اس اضافی بوجھ کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں حکومت کیلئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ طلبہ اور نوجوانوں کو با صلاحیت اور ہنر مند بنانے کیلئے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے اور ایسا ماحول تیار کرے جس سے ان کالجوں اور یونیورسٹیز سے ایسے طلبہ نکل سکیں جنہیں زمانے کےساتھ چلنے کا ہنر آتا ہو ۔
GjhhkkkVideo Description:*اسرائیل کا مشہور Rabbi Amnon Yitzhak جیسے ہمارے ہاں امام کعبہ کو اہمیت حاصل ہے، ویسے ہی اکثر یہودی اسے اہمیت دیتے ہیں۔ وہ دھڑلے سے 2030 تک کا پلان بتا رہا ہے کہ کیسے وہ پوری دنیا پر حکومت کریں گے؟ کیسے آبادی، مُلک، کاروبار اور موسم کنٹرول ہوں گے؟ یہ ہربل طریقہ علاج کو ختم کریں گے. ایسا ہو گا یا نہیں یہ صرف اللّٰہ کو معلوم ہے لیکن انہوں نے تیاری مکمل کر لی ہے اور ہم صبح و شام صرف عارضی دنیا کا معاش اکٹھا کرنے میں پاگل پن کی حد تک مصروف ہیں!*👈🏻 آہ! کہ ہمارے اکثر عُلماء کرام جن کا اصل فرض تھا وہ اپنے *اپنے مَسلک، فرقوں، مزاروں، اماموں، بزرگوں اور بابوں کے ماضی کے صدیوں پرانے قصے اور کہانیاں سچ ثابت کرنے، اپنی انا کی تسکین اور اپنا پیٹ اور جیب* بھرنے میں مصروف👈🏻 بدقسمتی سے ہم مسلمانوں کے اکثر اساتذہ *صرف نمبر گیمز کھیلنے، پوزیشن حاصل کرنے اور تعداد پوری کرنے، دیگر ایکٹیویٹیز اور ٹیوشن پڑھانے* میں مصروف👈🏻 مسلمان نوجوانوں اور بچوں کی اکثریت *پَب جی، نیو ایئر نائٹ، شاپنگ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، ٹک ٹاک، سیلفیوں، ویڈیوز، کنجر خانے، مہندی، جہیز، ڈانس، پارٹیز، دنیوی پڑھائی، کریئر، جاب، کاروبار، فری لانسنگ، شراب، جوے، نشے، لڑائی، چوری، قتل، جلسوں، فضول گپوں اور بسنت میلے* منانے میں مصروف👈🏻 بوڑھے مسلمانوں کی اکثریت *اپنے بال کالے کر کے صبح و شام اپنے جوانی کے فضول قصے سنانے، گھٹیا سیاسی تبصروں اور اپنی پارٹی کی وکالت کرنے، اپنے مکان اور کاروبار کو وُسعت دینے میں مصروف اور کچھ تو بس نماز، روزے، حج عمرے اور ذکر کو دین سمجھ کر* کم عقلی میں مرنے کا انتظار کر رہے ہیں👈🏻 مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں اپنے *جھوٹ، غیبت، چغلیوں، حسد، شاپنگ، فیشن، میک اپ کرنے اور کروانے، واٹس ایپ پر گھٹیا سٹیٹس لگانے، فیس بُک اور ٹِک ٹاک پر فحاشی پھیلانے، پارکس، شاپنگ اور بازاروں میں بے پردہ نیم برہنہ تنگ لباس پہن کر گھومنے، ساس بہو، طلاق، خلع کے غلیظ ڈرامیں، فلمیں کرنے اور دیکھنے* میں مصروف💔 آہ! ہم اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول چکے ہیں! ہم بھول گئے کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے! ہمیں کیسے فضول اور لایعنی کاموں میں الجھا رکھا ہے۔ یہودی اور نصرانی ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے! اکثریت اُمت مسلمہ کو نہ ہمیشہ رہنے والی آخرت کی فکر، نہ دجال کے فتنوں کا علم، نہ امام مہدی اور عیسٰی علیہ السلام کے لشکر کی پہچان اور جن کو معلوم ہے وہ بے خبر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے صبح و شام قرآن مجید کے مطابق دیکھنے کے باوجود اندھے، سننے کے باوجود بہرے اور بولنے کے باوجود گونگے ہیں کہ ہماری نہ آخرت کی تیاری اور نہ ہی جنگ عظیم کی تیاری۔ *ہم کیسی نسل چھوڑ کر مریں گے کہ جو لالچ اور ہوس کی اندھی نہ دنیا میں ترقی کر رہی ہے، نہ ہی آخرت بنا رہی ہے اور نہ ہی اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا رہی ہے۔* ہو گا وہی جو اللّٰہ چاہے گا لیکن اس میں ہمارا کیا کردار رہا؟ اللّٰہ نے ہمیں اپنا نائب بنایا، ہم آخری اُمت ہیں اور ہمارے اوپر دین کی زمہ داریاں ہیں جو ہم میں سے اکثر نہیں نبھا رہے۔ ابھی بھی وقت ہے! *یہ ہرگز مت سمجھنا کہ صرف فلسطین، عراق، افغانستان، شام، برما، یمن اور کشمیر ہی ٹارگٹ پر ہیں، مجھ اور آپ سمیت پوری اُمّتِ مُسلِمہ ٹارگٹ پر ہے!*🚨 نوٹ: تلخ مگر حقیقت باتیں اکثریت کو مدنظر رکھ کر رقم کی گئی ہیں، جاگو اور جگاؤ!اللّٰہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کے ایمان، جان، مال اور عزت کی حفاظت فرمائے، دجال کے فتنوں اور اسلام دشمنوں کی چالوں سے بچائے۔آمین!#Dajjal #Agenda21 #NWO #HerbalTreatment #Freedom #Armagedon #ThirdWorldWar #CashlessSociety #NewYearsEve2021 #Messiah *چند اہم تجاویز*01- ہر جمعہ سورت الکھف ترجمہ سے پڑھیں02- صبح و شام کے نبوی اذکار یاد کر کے معمول بنائیں03- امام مہدی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، دجال، جوج ماجوج کے بارے میں صحیح احادیث کا مطالعہ کریں، خود اور اپنے اردگرد آگاہی پھیلائیں04- اپنا بنک اکاؤنٹ اسلامی بنکاری نظام میں کرنٹ کھلوائیں05- تمام امت مسلمہ کے لیئے دعا کرتے رہیں
Friday, August 19, 2022
*لکھنے والے نے کمال کر دیا*
دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو 1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آ پشن نہیں ہوتا تھا۔
پھر جب موبائلز میں sms یعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3G یعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
اور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور مویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4G یعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیا۔۔۔
اور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5G کی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔
آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں ۔۔۔ الغرض موبائل پر ایک وقت میں مثلا 10 کام بھی کر رہے ہوں۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی کوئی کال آئے گی موبائل فوراً سے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں۔ اور وہ اپنے اصل اور بنیادی کام کی خاطر باقی سارے کام ایکدم روک لیتا ہے۔
اور ایک انسان جسے اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور ساری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے سجا دیا، وہ اللہ کی کال پر دن میں کتنی بار اپنے کام روک کر مسجد جاتا ہے؟مسجد جانا تو درکنار اب اللہ کی کال یعنی اذان پر ہم اپنی گفتگو بھی روکنا مناسب نہیں سمجھتے۔
کاش ہم موبائل سے اتنا سا ہی سبق سیکھ لیں جسے ہم نے خود ایجاد کیا اور ایک لمحہ بھی خود سے جدا نہیں کرتے کہ دنیا کے سب ہی کام کرو مگر اپنی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت کبھی نہ بھولو۔ اذان ہوتے ہی سب کچھ روک کر مسجد چلو اور اللہ کی کال پر لبیک کہو۔“.
م،ق
محکوم قوم، تعلیم اور آزادی
سائرہ رباب
فرارے اپنی مشہور کتاب "pedagogy of the oppressed" میں لکھتا ہے کہ کیسے سوسائٹی میں دو گروہ طاقتور اور محکوم تشکیل پاتے ہیں۔ اور طاقتور کیسے نظام تعلیم کو استحصالی سسٹم اور اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استمال کرتا ہے۔ اور کیسے لوگوں کو غلام بنا کر رکھتا ہے۔
چوں کہ استحصالی طبقہ تعداد میں قلیل ہوتا ہے تو اپنی تعداد سے کئی گنا زیادہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو متحد نہ ہونے دیا جائے اور ہر سطح پر بانٹ دیا جائے۔
دوسرا ان کو تقدیر کے جبر پر یقین دلایا جائے (جس کا سب سے مضبوط ذریعہ مذہب کا سیاسی استعمال ہے) ۔ طاقتور سسٹم اور حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتا ہے، اس لئے لوگوں کے سامنے اس جھوٹ پر مبنی سسٹم اور حالات کو اٹل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حالات و واقعات کا ایک جامد تصور پیش کیا جاتا ہے جس کے مطابق حالات اور چیزوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
طاقتور خود کو انسان دوست ثابت کرنے کے لئے خیرات کرے گا۔ لوگوں کی توجہ ظلم و ناانصافی سے ہٹانے کے لئے مذہب اور دیومالائی، تصوراتی چیزوں کا سہارا لے گا۔ پھر بھی لوگوں کی توجہ نہ ہٹے تو روزگار، کامیابی کے طریقے، ویلفیئر کے منصوبوں کا نام لے کر لوگوں کو بیوقوف بناۓ گا، پَر سسٹم جو مظلوم کے ہر مسئلے کی وجہ ہے اس کو بدلنے کی بات کبھی نہیں کرے گا۔
تعلیم مظلوم قوم کو شعور دیتی ہے، تعلیم مظلوم قوم کے لئے پناہ کا راستہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کونسی تعلیم ؟وہ تعلیم جو نوآبادیاتی نظام تعلیم محکوم قوموں کو فراہم کرتا ہے، اسے “بینکنگ نظام تعلیم” کہتے ہے، اس کا مقصد افراد کی موجودہ سسٹم سے مطابقت پیدا کرنا ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے اس سسٹم کے ساتھ مطابقت پیدا (conform) کریں اور چیزوں کو من و عن تسلیم کریں۔ پیداوار کے لئے جو روبوٹ چاہیں، وہ تیار ہوں۔ اس تعلیم کے تحت مظلوم قوموں کے شعوری و تنقیدی رویوں کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ محکوم اقوام میں سوال پیدا کرنے کی قابلیت ختم کر دی جاتی ہے، جس میں استاد تو عالم اور برتر مگر طلباء جاہل اور کمتر قرار دیے جاتے ہیں استاد کا کام جامد انفارمیشن کو طلبہ کے ذہنوں تک ٹرانسفر کرنا ہے جہاں وہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، مسخ کی گئی حقیقتوں کو بکھری ہوئی حالت (Fragmented) میں ذہنوں میں ذخیرہ کر لیں۔ وہ ان ٹکڑوں میں بٹے ہوئے حصوں کو جوڑ کر پوری تصویر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ حالات و واقعات کو بڑے منظر (scenario) میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ درست سماجی، معاشی اور سیاسی حقائق سے بے خبر رہتا ہے۔ اسے معلومات یا معلوماتی تبادلہ کہہ سکتے ہے لیکن یہ تعلیم نہیں۔ یہ نظام محکومی کو برقرار رکھنے کے لئے ایک جال ہے۔ یہ نظام غلام کو اپنے حالات میں خوش رہنے اور انہیں قدرت سے جدا کرنے کے مترادف ہے۔ فرارے اپنے کتاب تعلیم اور مظلوم عوام میں کہتا ہے کہ اس نظام میں انسان اور قدرت کو ایک "دو فرعی تقسیم" Dichotomy کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں انسان کا تقدیر اور اپنے حالات کی تبدیلی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ انسان کی تمام بدحالی کا ذمہ دار تقدیر کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نظام انسان کو فطرت سے تعلق پر مبنی زندگی (Biophilic) سے محبت کرنے کے بجائے (مُردہ اور بے جان سے تعلق پر مبنی) Necrophilic موت سے محبت کرنے کے راہ پر گامزن کرتا ہے۔ غلام اپنے ساتھ ہونے والے زیادتیوں کو تقدیر کے ذمہ ڈال کر موت کا انتظار کرتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کو مشینوں میں تبدیل کرتا ہے۔
اس نظام کا نعم البدل Problem Based Education ہے، جو حاکم قوموں کا نظام تعلیم ہے جس میں اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کو ایک مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں انسان اپنے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور انسان ہی حالات کو بدل سکتا ہے۔ اس میں انسان تقدیر کا شکار مجبور ہستی نہیں بلکہ وہ اپنی تقدیر اور حالات کا خود تخلیق کار ہے۔ وہ اپنی حالت اور سماجی و معاشی حالتوں کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ استاد اور طالب علم کے فرق کے بغیر شعوری حکمت عملی کے تحت تعلیم کا ایسا نظام بنانا کہ جس میں استاد اور طالب علم دونوں ہی ایک دوسرے سے سیکھتے ہے۔ اس میں معلومات کے تبادلے کے بجائے تنقیدی اور شعوری حکمت عملی کے ذریعے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ غلام کا دماغ بھی سوال کرنے کے لیے ہے۔ محکوم بھی چیزوں کو سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کونٹکسٹ میں دیکھنے لگتا ہے۔ ٹکڑوں کو جوڑ کر بگ پکچر دیکھ سکتا ہے۔ اس کی استدلالی اور تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ کونسیپٹ کو سمجھ کر اس کا اطلاق عملی زندگی میں کر سکتا ہے۔ اس کو چیزوں کو قبول کرنے کی بجاۓ سوال کرنا سکھاتا ہے۔ سوال کرنا تنقیدی شعور کو نکھارتا ہے اور انسان کو اس غیر انسانی ماحول سے نجات دلا سکتا ہے۔ وہ غیر انسانی ماحول جس سے ظالم و مظلوم دونوں مبتلا ہے۔ مظلوم ہی جدوجہد کے ذریعے خود کو اور ظالم کو اس غیر انسانی عمل سے نکال سکتا ہے۔ مگر کیا مظلوم جو ظالم کے ظلم و جبر کا شکار ہے کیا وہ اس تنقیدی و شعوری حکمت عملی کے ساتھ اپنے لوگوں کو تعلیم دے سکتا ہے؟ فرارے کے مطابق ایک غلام کو اپنے عوام کو شعوری تعلیم دینا غلامی سے نجات کیلئے ضروری ہے۔ غلام قوم کو وہ ذرائع تلاش کرنے ہوں گے جس سے وہ اپنے قوم کو شعوری و تنقیدی حکمت عملی کے تحت تعلیم دے سکے۔
آذادی کیا ہے ؟ وہ اس تنقیدی و شعوری حکمت عملی کے دوران ایک Phase ہے جس کے تحت غلام قوم اپنے ریاست خود چلاتی ہے۔شعوری حکمت عملی کا عمل اس کے بعد بھی چلتا رہتا ہے۔ شعوری حکمت عملی انسان کو شعوری طور پر آذاد کرتی ہے۔ کالونیل ریاست زمین کو colonized کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے استحصال سے غلام قوم کی ذہینت کو بھی colonised کرتی ہے۔زمینی قبضے کو چھڑوانے سے ذیادہ مشکل ذہنی آزادی Decolonization ہے۔ نوآبادیاتی نظام محکوم کی نفسیات پر حاوی ہو کر اسے ذہنی غلام بنا دیتا ہے۔ محکوم آزادی کے جدوجہد میں شامل ہونے کو باوجود ظالم کو idealize کرتا ہے۔ وہ آقا کے خلاف جنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مرعوب ہوتا ہے۔ وہ اس استحصالی سماج کی اقدار کو اپنے اندر جذب بھی کر چکا ہوتا ہے اور اسی نظر سے چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے۔ اگر اس کو یہ غلامی نظر آنے بھی لگے تو وہ ایک خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ مزاحمت یا آزادی کی جدوجہد کہیں اس کو مشکل میں نہ ڈال دے، کہیں وہ نوکری اور روزگار سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔۔ اور اس کے لئے اجتمائی جدوجہد اور شعور ضروری ہے۔ اپنے آقا کو آئیڈیلائز کرنے کی وجہ سے اگر اسے اپنے آقا کے مقابلے میں چھوٹی سے بھی طاقت مل جائے تو وہ آقا سے ذیادہ ظالم بن جاتا ہے، جس کی طرف البرٹ کامیو اور جارج اوریل نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اس ذہینت کے ساتھ بننے والی نئی حکومت نئے آقا ہی بنا سکتی ہے اور عام عوام پھر سے محکوم بنا دیے جاتے ہے۔شعوری حکمت عملی انسان کو آزاد کرتی ہے اور وہ تحریک آزادی میں ایک Pseudo participant کے بجائے آزادی کا ایک سچا سپاہی بن جاتا ہے۔ آزادی انسان کی کائنات کے ساتھ محبت کا نام ہے۔ اگر ذہنوں کو آزاد نہ کیا جائے تو زمینی آزادی بے معنی بن کر رہ جاتی ہے۔
Tuesday, August 16, 2022
حب الوطن :
حب الوطن جاء في نصوص شرعية كثيرة في ديننا الإسلامي؛منها:
١-قوله تعالى:"ولو أنا كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم ولو أنهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيرا لهم وأشدَّ تثبيتاً"سورة النساء:٦٨ قال العلامة الدكتور وهبة الزحيلي في تفسيره الوسيط؛٣٤٢/١:"وفي قوله تعالى:"أو اخرجوا من دياركم"إشارة صريحة إلى تعلق النفوس البشرية ببلادها؛وإلى أن حب الوطن متمكن في النفوس ومتعلقة به؛لأن الله سبحانه جعل الخروج من الديار والأوطان معادلاً ومقارناً قتل النفس؛فكلا الأمرين عزيز؛ولا يفرط أغلب الناس بذرة من تراب الوطن مهما تعرضوا للمشاق والمتاعب والمضايقات لكن هناك شيئاً أسمى وأخلد وأعظم من حب الأوطان وقتل الأنفس ألا وهو المحافظة على العقيدة والإيمان؛وامتثال أوامر الرحمان؛فإذا حدث تصادم أو تعارض بين ما يقتضي البقاء في الوطن؛وبين التخلي عن أوامر الله؛والعجز عن إقامة وتطبيق شعائر الله كان تقديم ما يؤدي للحفاظ على الشعائر وأمور الدين أولى وأوجب".
٢-وقوله تعالى في قصة شعيب عليه السلام مع قومه:"قال الملأ الذين استكبروا من قومه لنخرجنك يا شعيب والذين ءامنوا معك من قريتنا أو لتعودن في ملتنا قال أو لو كنا كارهين"سورة الأعراف:٨٨ أي:أتأمروننا أن نعود في ملتكم وتهددوننا بالنفي من وطننا؛والإخراج من ديارنا إن لم نفعل؛ولو كنا كارهين لكلٍّ من الأمرين؟ .
٣-وقوله تعالى:"وما كان المؤمنون لينفروا كآفة فلولا نفر من كل فرقة منهم طآئفة ليتفقهوا في الدين ولينذروا قومهم إذا رجعوا إليهم لعلهم يحذرون"سورة التوبة:١٢٢؛٤-وقوله تعالى:"إن الذي فرض عليك القرآن لرآدك إلى معاد قل ربي أعلم من جاء بالهدى ومَن هو في ضلال مبين"سورة القصص:٨٥ وفي تفسير الآية إشارة إلى أن حب الوطن من الإيمان ؛٥-وجاء في صحيح الإمام البخاري؛٢٩/٣ من حديث أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم من سفرٍ؛فنظر إلى جُدُرات المدينة أوضع راحلته وإن كان على دآبةٍ حَرَّكها من حُبِّها "؛قال الحافظ ابن حجر العسقلاني -رحمه الله تعالى-في كتابه فتح الباري شرح صحيح البخاري؛٦٢١/٣:"وفي الحديث دلالة على فضل المدينة وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه "٦-وجاء في صحيح الإمام البخاري؛7/١؛والإمام مسلم في صحيحه؛١٣٩/١:"من حديث أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها في قصة ورقة مع النبي صلى الله عليه وسلم رضي الله عنها فقال:"يا ليتني أكون حياً حين يخرجك قومك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"أوْ مخرجيَّ هم؟قال:"نعم لم يأت رجلٌ بمثل ما جئتَ به قطُّ إلا عُودِيَ"؛٧-وجاء في صحيح الإمام البخاري؛٧٧/٥؛والإمام مسلم في صحيحه؛ ٥٤٦/١ من حديث عائشة رضي الله عنها قالت:فجئتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال:"اللهم حبِّبْ إلينا المدينة كَحُبِّنا مكةَ...".
كتبها الدكتور منير حسين أحمد مقشر اليمني نزيل دولة إندونيسيا الإسلامية :
♻️تاریخ تحریک آزادی ہند♻️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
#تحریک_آزادی #تاریخ_آزادی #تاریخ_ہند #جنگ_آزادی ❍ t.me/darulmusannifeen ❍
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
01- ہندوستان کی جنگ آزادی اور علماء لدھیانہ
➙ t.me/darulmusannifeen/17469
02- تحریک ریشمی رومال ایک تعارف
➙ t.me/darulmusannifeen/17471
03- ریشمی رومال تحریک اور شیخ الہند
➙ t.me/darulmusannifeen/17473
04- حضرت شیخ الاسلام اور تحریک پاکستان
➙ t.me/darulmusannifeen/17475
05- شاہ ولی اللہ و انکی سیاسی تحریک
➙ t.me/darulmusannifeen/17477
06- تحریک شیخ الہند (ریشمی خطوط)
➙ t.me/darulmusannifeen/17479
07- تحریک ریشمی رومال نمبر/الجمعیۃ
➙ t.me/darulmusannifeen/17481
08- تحریک آزادی میں علمائے دیوبند
➙ t.me/darulmusannifeen/17483
09- مولانا اشرف علی تھانوی و تحریک آزادی
➙ t.me/darulmusannifeen/17485
10- آزادی ہند/ابوالکلام آزادؒ
➙ t.me/darulmusannifeen/17487
11- تحریک آزادی میں علماء کا کردار
➙ t.me/darulmusannifeen/17489
12- تحریک آزدی ہند میں مسلم علماء و عوام
➙ t.me/darulmusannifeen/17491
13- جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
➙ t.me/darulmusannifeen/17493
14- تحریک آزادی/ابوالکلام
➙ t.me/darulmusannifeen/17495
15- بزرگان دارالعلوم دیوبند کی سیاسی خدمات
➙ t.me/darulmusannifeen/17497
16- الجمعیۃ کا جمہوریت نمبر
➙ t.me/darulmusannifeen/17499
17- بزم شبلی کا یوم جمہوریہ نمبر
➙ t.me/darulmusannifeen/17501
18- آزادی سے جمہوریت تک
➙ t.me/darulmusannifeen/17503
19- آزادی کی نظمیں
➙ t.me/darulmusannifeen/17505
20- خطبات آزادی وطن ② جلد
➙ t.me/darulmusannifeen/17507
21- آزادی ہند میں مسلمانوں کا کردار
➙ t.me/darulmusannifeen/17510
22- تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ
➙ t.me/darulmusannifeen/17512
23- تحریک آزادی اور اصلاح عوام میں ۔۔۔
➙ t.me/darulmusannifeen/17514
24- تاریخ تحریک آزادی ہند
➙ t.me/darulmusannifeen/17516
25- تاریخ جنگ آزادی ہند ۱۸۵۷
➙ t.me/darulmusannifeen/17518
26- الثورۃ الہندیہ (باغی ہندوستان)
➙ t.me/darulmusannifeen/17520
27- میدان شاملی و تھانہ بھون اور ۔۔۔
➙ t.me/darulmusannifeen/17522
28- برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا
➙ t.me/darulmusannifeen/17525
29- آزادی کا سفر اور جمعیۃ علماء ہند
➙ t.me/darulmusannifeen/17527
30- ہندوستان سے کچھ صاف باتیں
➙ t.me/darulmusannifeen/17529
31- آزادئ ہند/جعفری
➙ t.me/darulmusannifeen/17531
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟
مقبول احمد سلفی
لوگوں میں مشہور ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس لئے ایمان کا تقاضہ ہے کہ وطن سے محبت کی جائے اور جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ وطن مخالفت ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح ہے : "حب الوطن من الإيمان "۔اس کا معنی ہے کہ وطن سے محبت کرنا ایمان میں سے ہے یعنی ایمان کا حصہ ہے ۔
یہ حدیث عوام میں کثرت سے پھیلی ہے اور عوام اس حدیث کو صحیح سمجھتی ہے جبکہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں ہے ۔اس حدیث پہ محدثین کے چند احکام درج کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ حدیث ہے یا بناوٹی بات ؟
(1) صغانی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (موضوعات الصغانی: 53)
(2) سخاوی نے کہا کہ میں اس حدیث پر مطلع نہیں ہوں ۔ (المقاصد الحسنۃ : 218)
(3) سیوطی نے بھی وہی کہا جو سخاوی نے کہا۔( الدرر المنتثرۃ : 65)
(4) ملا علی قاری نے کہا کہ کہا گیاہے اس کی کوئی اصل نہیں یا اس کی اصل موضوع ہونا ہے ۔(الاسرار المرفوعۃ : 189)
(5) محمدبن محمد الغزی نے کہا یہ حدیث ہی نہیں ہے ۔(اتقان مایحسن: 1/222)
(6) زرقانی نے کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا۔(مختصر المقاصد: 361)
(7) وداعی نے کہا کہ یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔(الفتاوی الحدیثیۃ: 1/56)
(8) محمد جاراللہ الصعدی نے کہا کہ ایسی حدیث نہیں آئی ہے ۔(النوافح العطرۃ:120)
(9) شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ یہ مشہور ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(شرح النزھۃ لابن عثیمین :55)
(10) شیخ البانی رحمہ اللہ کا بھی حکم ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : 36)
اس حدیث پہ اتنی لمبی بحث لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگ یہ بات جان لیں کہ وطن سے محبت کرنا ایمان نہیں ہے ، اگر کوئی وطن کے لئے جان دیتا ہے تو ایمان واسلام کے لئے نہیں جان دیتاہے وہ محض وطن کے لئے جان دیتا ہے ۔ اس لئے وطن کے لئے جان دینے والوں کو وطن پر قربان ہونے والا یا وطن کے لئے جان دینے والا کہیں گے مگر انہیں شہید نہیں کہیں گے ۔
ہاں وطن سے محبت فطری چیز ہے ، جو جہاں پیدا ہوتا ہے فطرتا اس سے محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت جائز ہے ۔ نبی ﷺ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اور آپ نے محبت کا اظہار بھی فرمایاہے، آپ دعا کرتے تھے :
اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:5654)
ترجمہ: ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
مکہ سے محبت پر آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے :
قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ لمكَّةَ ما أطيبَكِ من بلدٍ وأحبَّكِ إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرجوني منكِ ما سَكَنتُ غيرَكِ(صحيح الترمذي:3926)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔
اسی طرح آپ ﷺ مدینہ سےبھی بیحد محبت کرتے تھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ سفر سے واپس ہوتے اور مدینہ نظر آنے لگتا تو مدینہ سے محبت میں سواری تیز کردیتے چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا قَدِمَ مِن سفرٍ ، فأَبْصَرَ درجاتِ المدينةِ ، أَوْضَعَ ناقتَه ، وإن كانت دابَّةً حرَّكَها .(صحيح البخاري:1802)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔
آگے ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
وفي الحديث دلالة على فضل المدينة ، وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه . (فتح الباری)
ترجمہ : یہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح یہ وطن سے محبت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے ۔
گویا یہاں اس بات کی صراحت ہوجاتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ اور مدینہ سے بیحد محبت تھی ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مکہ سے نبی ﷺ کی محبت اس لئے تھی کہ مکہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے ،اس لئے نہیں کہ یہ آپ کا وطن تھا۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ وطن ہونے اور اللہ کو محبوب ہونےیعنی دونوں حیثیت سے محبوب تھاکیونکہ دلائل سے دونوں قسم کی محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان کو جیسے اپنی جان سے محبت ہے ، اپنے مال سے محبت ہے اسی طرح اس جگہ سے محبت ہوتی ہے جہاں پیدا ہوتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ اس محبت میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اس محبت کا تعلق فطرت ہے ۔ ہاں یہ فطری محبت ،اللہ اور اس کے رسول یا ان کے احکام کی محبت پر غالب آجائے تو اس پہ سخت وعید ہے ۔
Monday, August 15, 2022
بڑے حضرت ابو السعود
گحححح[8/16, 7:09 AM] +91 94485 83259: *امیرشریعت رئیسُ العلماء استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح*
بانی ومہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
----------------------------------------------------------
مختصر تذکرہ قسط 1
قارئین بڑےحضرت مولاناشاہ مفتی ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح کے دادا تمل ناڈو کی ایک بستی مِیلَ پَالَیَمْ کے رہنے والے تھے اللہ نے اس گاؤں میں کچھ عجیب تاثیر رکھی ہے یہاں کےاکثر وبیشتر باشندے حافظ قرآن ہیں، یہ گاؤں بڑےحضرت رح کا اصل آبائی وطن ہے، بڑے حضرت کے خادم خاص حضرت مولاناسیف الدین صاحب رشادی رح فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بڑےحضرت سے پوچھاتھا کہ حضرت میل پالیم میں مسلمانوں کے بہت سارےخاندان ہیں اور مختلف حیثیتوں والے ہیں آپ کے دادا کس خاندان کےتھے، بڑےحضرت رح نے فرمایا کہ ہم لوگ چَتر خاندان کےہیں، چَتر کا لفظ تمل زبان میں دو معنوں کےلئے بولاجاتاہے، ایک بادشاہ کےلئے اور دوسرا حکیم کےلئے، خیر دونوں ہی معنوں کے اعتبار سے معلوم ہوتاہےکہ بڑےحضرت رح کانسبتی سلسلہ طبقات اشرفیہ اور اونچی حیثیت والے گھرانے سے ملتاہے، حضرت مولانا غیاث احمدصاحب رشادی صدر صفابیت المال حیدرآباد فرماتےہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑےحضرت رح کے خاندان کو علم نبوت کےلئے مخصوص کیاہے جہاں تک میری نظر ہے میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ اس خاندان کی قابلیت ومقبولیت کےپس منظر میں شیخ الملت حضرت علامہ ضیاءالدین احمد امانی رح کی دعاؤں اورخلوص مضمر ہے گلشن سعودی کا ہرگل دلنواز نظارہ اور خوشگوار مہک میں ممتاز ہے، کوئی شیخ الحدیث وفقیہ ملت ہے، تو کوئی قاری خوش الحان ہے، کوئی محقق ومفسر ہےتو کوئی ادیبِ وقت، حضرت مولانامفتی سیداحمداللہ صاحب بختیاری استاذ تفسیر وحدیث دارالعلوم حیدرآباد فرماتےہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مولانا سید شاہ صبغتہ اللہ صاحب بختیاری رح اپنی مجلس میں مناقب ابوالسعود بیان فرمارہے تھے جنوبی ہند میں علمی اور دینی خدمات موضوع تھا اس ضمن میں فرمایا کہ بڑےحضرت رح کے والد محترم عمدہ حافظ تھے توکسی نے مجلس میں کہا مفتی اشرف علی صاحب اور ان کےصاجزادہ سلمہ بھی حافظ ہیں اس پر مولانا سید شاہ صبغتہ اللہ بختیاری رح نے فرمایا کہ ابن خلدون نے لکھاہے کہ کسی خاندان میں علم اور دولت اگر چار نسلوں تک محفوظ رہ جائےتو پھر اس پر زوال نہیں آتا، حضرت مولاناخالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم فرماتےہیں کہ میں نے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رح کو بار ہا کہتےہوے سنا کہ ہندوستان میں مجھے سب سے زیادہ حضرت مولانا ابوالسعود احمد صاحب کےخاندان پر رشک آتاہے کہ آپ اور آپ کے تمام بھائی بھی عالم تمام صاجزادے بھی عالم اور سب کے سب صرف عالم ہی نہیں بلکہ علم وفضل میں امتیازی حیثیت کے حامل، (جاری)
---------------------------------------------------------
آپ کے دعاؤں کاطالب
محمدشفیع اللہ یرکوٹال ہندوپور
آندھراپردیش الہند
رابطہ نمبر7013271076
[8/16, 7:10 AM] +91 94485 83259: *امیرشریعت رئیسُ العلماء استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح*
بانی ومہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
----------------------------------------------------------
مختصر تذکرہ قسط 2
قارئین بڑے حضرت مولانا شاہ مفتی ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح کا دنیا میں وجود اللہ والوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے بڑے حضرت کے والد محترم حضرت حافظ عبدالستار صاحب رح جید حافظ قرآن وعاشق قرآن تھے مسجد بڑی میٹ مدراس میں ہرسال تراویح سناتےتھے اور سماعت کا فریضہ والی کامل خدا رسیدہ بزرگ مدرسہ اسلامیہ محفوظ خان باغ کے بانی حضرت مولانا حافظ نوراللہ صاحب رح انجام دیتےتھے، ان دونوں بزرگوں کی ملاقات رمضان المبارک میں ہی ہوتی تھی، ایک سال 27 ویں شب میں تراویح کے بعد حضرت حافظ عبدالستار صاحب نے اپنے سامع حضرت مولانا حافظ نوراللہ صاحب سے کہا، حضرت دعافرما دیجئے اللہ رب العزت نرینہ اولاد عطافرمائے تو حضرت مولانا حافظ نوراللہ صاحب نے جوابًا فرمایا اس شرط کے ساتھ دعا کروں گا کہ وعدہ کرو اللہ بیٹا دےگاتو اس کو حافظ قرآن بنانا، یہ گفتگو کہاں ہورہی ہے، رمضان المبارک کی 27 ویں شب میں مسجد کی محراب میں، خیر یقینًا ان بزرگ نے دعا فرمائی ہوگی کہ ایک والی کامل قطب وابدال کی شکل میں بڑے حضرت رح کا دنیا میں وجود ہوا، حسب وعدہ حضرت حافظ عبدالستار صاحب رح نے اپنے فرزند بڑے حضرت کو سب سے پہلے حافظ قرآن بنایا خود بڑے حضرت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورانِ تعلیم گھریلو حالات کی وجہ سے ترک تعلیم کرکے امامت کرنے کا خیال آیا مگر والد محترم نے سختی سے منع کردیا، اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمی کے مطابق آپ کے والدمحترم رح کو بدلہ دیں اگر وہ آپ کی ہمت افزائی نہ کرتے تو امت ایک بافیض شخصیت کے نفع سے محروم ہوجاتی،خیر جب پہلی بار بڑے حضرت مدراس تشریف لے گئے تو بڑےحضرت کے والدمحترم نے بڑے حضرت کو حکم دیا کہ مدراس جارہےہو تو مدرسہ اسلامیہ میں حضرت مولانا حافظ نوراللہ صاحب کی خدمت میں حاضری دینا، حافظ صاحب اس شان کے بزرگ تھے کہ بغیر کسی تعارف کے نورانی چہرہ دیکھ کر فرمادیا کہ تم حافظ عبدالستار صاحب کے بیٹے ابوالسعود ہو، قارئین بڑے حضرت رح کی ولادت سرزمین ہند کی ریاست تمل ناڈو کے علم دوست اور علماء پسند ضلع ویلور کے شہر بلنچپور میں 11ربیع الاول 1329ھ مطابق 1912 کو پیر کے دن ہوئی آپ جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ پورا گھرانا علمی گھرانا تھا، آپ کے والد جید حافظ اور دونوں تایا اور دونوں چچا عالم وحافظ تھے حتیٰ کہ آپ کے گھرانے کی بہت سی عورتیں بھی حافظ تھیں، آپ کے جدامجد مولاناحافظ ابراھیم صاحب اور آپ والد محترم حضرت حافظ عبدالستار صاحب کو بانی مدرسہ باقیات الصالحات شمس العلماء حضرت شاہ عبدالوہاب صاحب سے نہایت قریبی تعلقات تھے، آپ کے والد محترم بانی مدرسہ باقیات کے تلمیذ خاص ومحّب صادق تھے، (جاری)
---------------------------------------------------------
آپ کے دعاؤں کاطالب
محمدشفیع اللہ یرکوٹال ہندوپور
آندھراپردیش الہند
رابطہ نمبر7013271076
[8/16, 7:11 AM] +91 94485 83259: *امیرشریعت رئیسُ العلماء استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح*
بانی ومہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
----------------------------------------------------------
مختصر تذکرہ قسط 3
قارئین بڑے حضرت مولانا شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح کی ولادت سرزمین ہند کی ریاست تمل ناڈو کے علم دوست اور علماء پسند ضلع ویلور کے شہر بلنجپور میں 11 ربیع الاول 1329ھ مطابق 1912ء کو پیر کے دن ہوئی آپ کانام ابوالسعود تخلص احمد لقب رئیس العلماء تھا، قارئین بڑے حضرت نے حفظ قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم حضرت حافظ عبدالستار صاحب سے پڑھیں پھر پندرہ سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کےلئے سن 1346ھ مطابق 1927ء کو شہرآفاق دینی درس گاہ باقیات الصالحات ویلور میں داخلہ لیا، قارئین جامعہ باقیات الصالحات کو جنوبِ ہند میں وہی حیثیت حاصل ہے جو شمالی ہند میں دارالعلوم دیوبند کو حاصل رہی ہے اسے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح کے خلیفہ اجل اعلیٰ حضرت شمس العلماء مولانا عبدالوہاب صاحب ویلوری رح نے قائم کیاتھا، بڑے حضرت کو باقیات الصالحات میں اپنے دور کے جن علمائے حق سے استفادہ کا موقعہ ملا، ان میں مفتی اعظم حضرت مولاناشیخ آدم صاحب رح، شیخ الحدیث مولانا حسن باشا صاحب ویلوری رح، مولاناسید محمد سعید صاحب رح، مولاناسید عبدالجبار صاحب رح،شیخ الملت مولاناضیاءالدین امانی صاحب رح اور مولانا عبدالصمد صاحب رح کی تربیت کا آپ پر گہرا اثر رہا، بانی باقیات الصالحات اعلیٰ حضرت شمس العلماء مولانا عبدالوہاب صاحب ویلوری رح سے کم عمری کی وجہ سے آپ کو استفادہ کاموقعہ نہیں ملا، البتہ آپ کی زیارت کا شرف حاصل رہا، خیر بڑے حضرت نے باقیات الصالحات میں محنت ولگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور مولوی عالمیت تک کی تمام جماعتوں کے امتحانات میں ہمیشہ اول نمبر پر کامیابی حاصل کی اور دورانِ تعلیم آپ کو تمام اساتذہ کرام کا اعتماد ان کی دعائیں حاصل رہیں، بڑے حضرت نے باقیات الصالحات کے طالبِ علمی کے دور میں ہی مدراس یونیور سٹی کے افضل العلماء اور منشی فاضل امتحانات میں ممتاز کامیابی حاصل کرچکے تھے، آپ کا سن فراغت 1352 مطابق 1933ء ہے، بڑے حضرت مولانا شاہ مفتی ابوالسعود احمدصاحب باقوی رح سرچشمہ علم وعمل مدرسہ جامعہ باقیات الصالحات ویلور کے فیض یافتہ ایک جید عالم باعمل کامیاب فرزندانِ باقیات میں سے ایک ہیں،(جاری)
---------------------------------------------------------
آپ کے دعاؤں کاطالب
محمدشفیع اللہ یرکوٹال ہندوپور
آندھراپردیش الہند
رابطہ نمبر7013271076
[8/16, 7:11 AM] +91 94485 83259: *امیرشریعت رئیسُ العلماء استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح*
بانی ومہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
----------------------------------------------------------
مختصر تذکرہ قسط 4
قارئین کسی نے بالکل سچ کہا اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتناہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دباؤں گے، قارئین بڑے حضرت مولانا شاہ مفتی ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح کے طالب علمی کا دور ویلور میں موجود مدرسہ جامعہ باقیات الصالحات میں گزرا، ویلور تمل ناڈو کاایک تاریخی شہر ہے سلطنت خداداد کے روح رواں شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان شہید رح کی شہادت کے فورًا بعد آپ کے روحانی فرزندوں کو زنجیروں میں قید کرکے ویلور کے قلعے میں مقید کردیاگیاتھا، جیل سے چھوٹنے کےبعد جیسےہی انہیں موقعہ ملا انگریزوں کے خلاف ان سب نے جنگ شروع کردی، جسے کرسچین جرنیلوں فورًا کچل دیا اور فرزندان ٹیپو کو کلکتہ میں قید کردیا، اس طرح انگریزوں کے خلاف پانچویں جنگ ویلور میں لڑی گئی، ویلور انگریز جرنیلوں کا کنٹونمنٹ یعنی معسکر رہا، مسلمانوں کے خلاف وہ غیرمسلموں کو ورغلاتے رہے تاکہ ٹیپو سلطان کے روحانی فرزندوں کو وہاں جگہ بنانے کا موقع نہ مل سکے، اس کے علاوہ کرسچین کی مشہور ومعروف مشنری ہاسپیٹل سی یم سی بھی معنی خیز طور پر وہیں قائم کیا گیا ہے، جو غیر مسلموں کے اندر عیسائیت کی اشاعت میں بھرپور کردار ادا کرہاہے، عیسائیت کے مبلغین ویلور جیسے حساس شہر کو عیسائیت کی تبلیغ کےلئے منتخب کیا تھا، اس علاقے میں عیسائیت کے مبلغوں کی سر گرمیاں محض غیر مسلموں تک محدود نہیں تھیں، بلکہ وہ لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ دین اسلام سے بس تھوڑا سا علم رکھنے والے مسلمانوں میں گھس کر عیسائیت کی تبلیغ کرنے لگےتھے، ایسے فتنوں کے دور میں وہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح کے خلیفہ اجل اعلیٰ حضرت شمس العلماء مولانا عبدالوہاب صاحب رح کی آمد ہوئی اور ان کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ باقیات الصالحات سے قدرت نے دین اسلام کے مرد مجاہدوں وروحانی فرزندوں کو بڑے حضرت مولانا شاہ مفتی ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح کی شکل میں پیدا کردیا، بڑے حضرت اپنے طالب علمی کے دور میں ہی ویلور میں اُبھر نے والے کئی فتنوں کو دیکھتے رہے اپنی فراغت کے بعد بڑے حضرت نے جو کام سب سے پہلے شروع کیا وہ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ ہے(جاری)
---------------------------------------------------------
آپ کے دعاؤں کاطالب
محمدشفیع اللہ یرکوٹال ہندوپور
آندھراپردیش الہند
رابطہ نمبر7013271076
[8/16, 7:16 AM] +91 97389 66093: *امیرشریعت رئیسُ العلماء استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح*
بانی ومہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور
----------------------------------------------------------
مختصر تذکرہ قسط 5
قارئین بڑے حضرت مولانا شاہ مفتی ابوالسعود احمد صاحب باقوی رح مدرسہ جامعہ باقیات الصالحات سے فارغ التحصیل ہونے کےبعد میدان عمل میں قدم رکھنے کا موقع آیاتو آپ نے دین کو دنیا پر ترجیح دی، چونکہ آپ مدراس یونیورسٹی کے افضل العلماء اور منشی فاضل کے امتحانات میں ممتاز کامیابی حاصل کی تھی، اس لئے آپ کو سرکاری ملازمت کےلئے بھی دعوت دی گئی، مگر آپ نے اس کے مقابلے میں اسلامیہ ہائی اسکول میل وشارم میں مدرس دینیات بننا پسند کیا، جہاں آپ سترہ سال دینیات وعربی کا درس دیتے رہے، اس طویل عرصہ میں بڑے حضرت نے حتی المقدور دینی خدمات انجام دیں،قارئین بڑے حضرت کو عربی فارسی اردو کے علاوہ انگریزی اور ٹمل زبان پر بھی یکساں قدرت حاصل تھی، آپ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کےبھی ماہر تھے،آپ تمام زبانوں کو اللہ کی تخلیق سمجھتے اور اس کے حاصل کرنے کی بھی تلقین کرتے، چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ میں انگریزی زبان اور کوئی بھی زبان کیوں نہ ہو سیکھنے کامخالف اور اس کی افادیت کا منکر نہیں ہوں مگر تعلیم کو ذریعہ معاش بنانے کا سخت مخالف ہوں،غیروں میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے بھی ان زبانوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے، جب تک آپ اسلامیہ ہائی اسکول وشارم میں بحیثیت استاذ بر سرِ ملازمت رہے، طلبہ کو سر پر انگریزی بال رکھنے نہیں دیا، نیز غیر شرعی لباس کی بھی چھوٹ نہیں دی،سینکڑوں طلبہ نے آپ سے استفادہ کیا، قارئین قیام وشارم کے دوران بڑے حضرت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو بھی راہ ہدایت پر لانے کےسلسلے میں ہمیشہ متفکر رہا کرتے تھے، کیونکہ آپ اپنے طالبِ علمی کے زمانے میں ویلور میں اُبھر نے والے کئی فتنوں کو دیکھ چکے تھے(جاری)
---------------------------------------------------------
آپ کے دعاؤں کاطالب
محمدشفیع اللہ یرکوٹال ہندوپور
آندھراپردیش الہند
رابطہ نمبر7013271076
Sunday, August 14, 2022
قاسمی میڈیا
ہندوستان کے قومی ترانے “جن گن من” کے تعلق سے دینی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ یوں تو پہلے بھی کبھی کبھار لوگ اس ترانے کے مفہوم، اور اس کے پڑھنے کی شرعی حیثیت کے تعلق سے سوال کیا کرتے تھے، لیکن اس سال پندرہ اگست کے موقع پر یوپی کی زعفرانی حکومت نے جب سے اہل مدارس کی حب الوطنی جانچنے کے لیے مدارس میں قومی ترانہ گانے کا سرکیولر جاری کیا ہے، اس بحث نے شدت پکڑلی ہے۔ دو روز سے سوشل میڈیا پر ہندوستان کے ایک موقر سلفی ادارے جامعہ سلفیہ کا فتوی بھی گردش کررہا ہے جس میں اس ترانے کے شرکیہ ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم نے اس ترانہ ہندی کے تعلق سے کچھ تاریخی حقائق کنگھالنے کی کوشش کی ہے۔
آزادی کے بعد جب قومی ترانے کے تعلق سے بحث شروع ہوئی تو وندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیے جانے کی پر زور مہم چلائی گئی، لیکن مسلمانوں کے اعتراض کی بناء پر اس کو خارج کردیا گیا۔ علامہ اقبال کا “سارے جہاں سے اچھا” بھی زیر غور آیا لیکن علامہ کے معمار پاکستان اور دو قومی نظریہ کے حامی ہونے کی وجہ سے ان کا ترانہ اپنی ظاہری وباطنی خوبصورتی کے باوجود ملک کا ترانہ نہ بن سکا۔ بالآخر 24 جنوری 1950 کی قانون ساز اسمبلی میں ہندوستان کے پہلے صدر راجندر پرساد نے بیان دیتے ہوے جن گن من کو قومی ترانہ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ “اگر ضرورت پڑے تو حکومت اس ترانے میں حذف و اصافہ بھی کرسکتی ہے”۔ اس طرح ملک کو رابندر ناتھ ٹیگور کا تخلیق کردہ قومی ترانہ ملا۔
Advertisements
REPORT THIS AD
ٹیگور کا یہ ترانہ سب سے پہلے 27 دسمبر 1911 کو انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس وقت برطانوی بادشاہ جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر تھا، لہذا اجلاس کی اسی نشست میں بادشاہ کے لیے استقبالیہ تجویز بھی منظور ہوئی۔ 28 دسمبر کو برطانیہ کے اخبار “اسٹیٹس مین” نے یہ خبر لگائی کہ “بادشاہ کے استقبال میں بنگلہ شاعر ٹیگور نے استقبالیہ نظم کہی” برطانوی استعمار کے زیر اثر چلنے والے دیگر اخبارات نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹیگور بھی “استعمار حامی” ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی خود ہندؤں میں یہ بحث وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہے۔ ماضی قریب میں کلیان سنگھ اور جسٹس کاٹجو اس موضوع کو ہوا دے چکے ہیں۔
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ برطانوی اخبارات نے اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوے اس دجل وفریب سے کام لیا جس کا ہم آج ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بادشاہ کے استقبال میں جو گانا پڑھا گیا تھا وہ ہندی میں رامبوج چودھری نے لکھا تھا، اس کے پہلے شعر کا آغاز “وہ بادشاہ ہمارا” سے ہوتا ہے۔ (امرتا بازار پتریکا، 28 دسمبر1911)
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ترانہ شرکیہ کلمات پر مبنی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود ٹیگور کا مذہبی رجحان کیا تھا۔ اگر ٹیگور مشرک تھا تو یہ ترانہ بھی بے شک مشرکانہ ہے، لیکن ٹیگور کے لٹریچر میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ پروفیسر جان واٹسن نے اپنی کتاب “ٹیگور کے مذہبی نظریات’ میں ایک خط نقل کیا ہے جس میں ٹیگور لکھتے ہیں: “نہ میں کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہی میں کسی خاص عقیدے پر کاربند ہوں، میں اتنا جانتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے بنایا ہے اس نے اپنے کو میرا بنالیا ہے” جان واٹسن لکھتے ہیں کہ “ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے محبت تھی”۔ مورخین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے۔ البتہ وہ اسی فلسفے سے متاثر تھے جس سے ہمارے بہت سے غالی صوفیاء بھی متاثر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل تھے جو بے نیاز ہو، زمان ومکان سے وراء ہو اور کائنات کا تنہا خالق وہادی ہو۔ البتہ وہ وحدت الوجود کے عقیدے سے سخت متاثر تھے۔ اس عقیدے پر خود ہمارے یہاں صدیوں بحث ہوئی ہے، لیکن اکابر دیوبند نے دونوں جانب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے سکوت کو ترجیح دی ہے۔
ٹیگور فلسفیانہ تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے مذہب اور خدا کے تعلق سے منقول بہت سے اقوال سے ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ اسی تصوف سے ماخوذ تھے۔ غالی صوفیاء کے یہاں ایک موضوع حدیث کا بڑا رواج رہا ہے: “كنت كنزا مخفيا…” میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے لہذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا”۔ ٹیگور نے اس سے ملتی جلتی ہی ایک بات کہی ہے کہ: ” خدا نے تخلیق کے ذریعے اپنے کو جانا”۔ ایک دوسرے موقع پر وہ کہتے ہیں کہ “اصل عبادت اس کے سامنے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے”۔
ٹیگور کے ترانہ سے متعلق تنازعہ ان کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا، جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ نے یہ ترانہ شاہ جارج پنجم کے لیے لکھا ہے، انھوں نے جواب دیا کہ: “میں صرف اپنی ہی بے عزتی کرتا اگر میں بادشاہ کی تعریف کرتا، یہ میری حماقت ہوتی اگر میں جارج کو – چہارم ہو کہ پنجم- خدائے صمد (کہ جس نے ہمیشہ اپنے طالبوں کی راہنمائی کی ہے) قرار دیتا”۔ اس اقتباس سے اندازہ ہوا کہ نہ تو ٹیگور نے وہ ترانہ شاہ جارج کے لیے لکھا تھا اور نہی بھارت ماتا نامی کسی معبود کے لیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹیگور کا خدا کے بارے میں کیا تصور تھا۔ اب آئیے “امریتا بازار پتریکا” کی 28 دسمبر 1911 کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے: “کانگریس کی کارروائی کا آغاز بنگلہ میں لکھی حمد سے ہوا”۔
اس پورے پس منظر اور شاعر کے مذہبی رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوے اب آپ ترانہ ہندی کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
“اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے تیری جئے ہو
تیرا نام ہی، پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا عللاقوں کے دلوں میں بلند ہے
دراوڈ، اتکل اور بنگال میں بھی
تیرا ہی نام وندھیہ اور ہمالہ کی پہاڑیوں میں گونجتا ہے
جمنا اور گنگا کے پانی میں یہی رواں دواں ہے
مذکورہ علاقے تیرا ہی نام گنگناتے ہیں
اور تجھ سے ہی دعائیں مانگتے ہیں
وہ صرف عظیم فتوحات کے نغمے گاتے ہیں
ان لوگوں کی نجات تیرے ہی ہاتھوں ہے
اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے
تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو”
جن حضرات نے اس ترانے کی حرمت پر فتویٰ دیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کے پیش نظر وہی وحدت الوجود والی بحث ہے جس کے نتیجے میں کتنوں ہی کو مشرک قرار دیا گیا اور کتنے ہی لوگوں کو ظاہر پرست، اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیگور نے “بھارت ماتا” کی تعریف کی ہے تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹیگور کے نزدیک ایسے کسی معبود کا وجود نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہندوتوا پسند عناصر کو اس ترانے سے اسی لیے چڑ ہے کہ ٹیگور نے ان اشعار کے ذریعے ان کے عقیدے کی ریتیلی عمارت منہدم کردی ہے۔ لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمارے کچھ علما اس ترانے کو تبدیل کرنے کے لیے آواز اٹھارہے ہیں، یہ حضرات نادانستہ طور پر ان شدت پسند عناصر کے لیے کمک ثابت ہورہے ہیں۔ اگر یہ ترانہ ہندی تبدیل ہوتا ہے تو پھر وندے ماترم کو قومی ترانہ کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیے۔ صدر جمہوریہ راجندر پرساد نے جس تقریر میں جن گن من کو قومی ترانہ کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا تھا اسی تقریر میں وندے ماترم کے بارے میں بھی کہا تھا کہ “اس ترانے نے آزادی کی شمع جلائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے اس گانے کو بھی اس کا حق دیا جائے گا” اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ قومی ترانہ کی جگہ “سارے جہاں سے اچھا” قبول کرلیا جائے گا یہ اس کی سب سے بڑی
Saturday, August 13, 2022
چطگ“بھارت بھاگیہ ودھاتا” :مفتی یاسر ندیم الواجدی
“بھارت بھاگیہ ودھاتا”
یاسر ندیم الواجدی
قاسمی میڈیا
ہندوستان کے قومی ترانے “جن گن من” کے تعلق سے دینی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ یوں تو پہلے بھی کبھی کبھار لوگ اس ترانے کے مفہوم، اور اس کے پڑھنے کی شرعی حیثیت کے تعلق سے سوال کیا کرتے تھے، لیکن اس سال پندرہ اگست کے موقع پر یوپی کی زعفرانی حکومت نے جب سے اہل مدارس کی حب الوطنی جانچنے کے لیے مدارس میں قومی ترانہ گانے کا سرکیولر جاری کیا ہے، اس بحث نے شدت پکڑلی ہے۔ دو روز سے سوشل میڈیا پر ہندوستان کے ایک موقر سلفی ادارے جامعہ سلفیہ کا فتوی بھی گردش کررہا ہے جس میں اس ترانے کے شرکیہ ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم نے اس ترانہ ہندی کے تعلق سے کچھ تاریخی حقائق کنگھالنے کی کوشش کی ہے۔
آزادی کے بعد جب قومی ترانے کے تعلق سے بحث شروع ہوئی تو وندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیے جانے کی پر زور مہم چلائی گئی، لیکن مسلمانوں کے اعتراض کی بناء پر اس کو خارج کردیا گیا۔ علامہ اقبال کا “سارے جہاں سے اچھا” بھی زیر غور آیا لیکن علامہ کے معمار پاکستان اور دو قومی نظریہ کے حامی ہونے کی وجہ سے ان کا ترانہ اپنی ظاہری وباطنی خوبصورتی کے باوجود ملک کا ترانہ نہ بن سکا۔ بالآخر 24 جنوری 1950 کی قانون ساز اسمبلی میں ہندوستان کے پہلے صدر راجندر پرساد نے بیان دیتے ہوے جن گن من کو قومی ترانہ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ “اگر ضرورت پڑے تو حکومت اس ترانے میں حذف و اصافہ بھی کرسکتی ہے”۔ اس طرح ملک کو رابندر ناتھ ٹیگور کا تخلیق کردہ قومی ترانہ ملا۔
ٹیگور کا یہ ترانہ سب سے پہلے 27 دسمبر 1911 کو انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس وقت برطانوی بادشاہ جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر تھا، لہذا اجلاس کی اسی نشست میں بادشاہ کے لیے استقبالیہ تجویز بھی منظور ہوئی۔ 28 دسمبر کو برطانیہ کے اخبار “اسٹیٹس مین” نے یہ خبر لگائی کہ “بادشاہ کے استقبال میں بنگلہ شاعر ٹیگور نے استقبالیہ نظم کہی” برطانوی استعمار کے زیر اثر چلنے والے دیگر اخبارات نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹیگور بھی “استعمار حامی” ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی خود ہندؤں میں یہ بحث وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہے۔ ماضی قریب میں کلیان سنگھ اور جسٹس کاٹجو اس موضوع کو ہوا دے چکے ہیں۔
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ برطانوی اخبارات نے اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوے اس دجل وفریب سے کام لیا جس کا ہم آج ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بادشاہ کے استقبال میں جو گانا پڑھا گیا تھا وہ ہندی میں رامبوج چودھری نے لکھا تھا، اس کے پہلے شعر کا آغاز “وہ بادشاہ ہمارا” سے ہوتا ہے۔ (امرتا بازار پتریکا، 28 دسمبر1911)
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ترانہ شرکیہ کلمات پر مبنی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود ٹیگور کا مذہبی رجحان کیا تھا۔ اگر ٹیگور مشرک تھا تو یہ ترانہ بھی بے شک مشرکانہ ہے، لیکن ٹیگور کے لٹریچر میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ پروفیسر جان واٹسن نے اپنی کتاب “ٹیگور کے مذہبی نظریات’ میں ایک خط نقل کیا ہے جس میں ٹیگور لکھتے ہیں: “نہ میں کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہی میں کسی خاص عقیدے پر کاربند ہوں، میں اتنا جانتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے بنایا ہے اس نے اپنے کو میرا بنالیا ہے” جان واٹسن لکھتے ہیں کہ “ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے محبت تھی”۔ مورخین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے۔ البتہ وہ اسی فلسفے سے متاثر تھے جس سے ہمارے بہت سے غالی صوفیاء بھی متاثر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل تھے جو بے نیاز ہو، زمان ومکان سے وراء ہو اور کائنات کا تنہا خالق وہادی ہو۔ البتہ وہ وحدت الوجود کے عقیدے سے سخت متاثر تھے۔ اس عقیدے پر خود ہمارے یہاں صدیوں بحث ہوئی ہے، لیکن اکابر دیوبند نے دونوں جانب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے سکوت کو ترجیح دی ہے۔
ٹیگور فلسفیانہ تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے مذہب اور خدا کے تعلق سے منقول بہت سے اقوال سے ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ اسی تصوف سے ماخوذ تھے۔ غالی صوفیاء کے یہاں ایک موضوع حدیث کا بڑا رواج رہا ہے: “كنت كنزا مخفيا…” میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے لہذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا”۔ ٹیگور نے اس سے ملتی جلتی ہی ایک بات کہی ہے کہ: ” خدا نے تخلیق کے ذریعے اپنے کو جانا”۔ ایک دوسرے موقع پر وہ کہتے ہیں کہ “اصل عبادت اس کے سامنے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے”۔
ٹیگور کے ترانہ سے متعلق تنازعہ ان کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا، جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ نے یہ ترانہ شاہ جارج پنجم کے لیے لکھا ہے، انھوں نے جواب دیا کہ: “میں صرف اپنی ہی بے عزتی کرتا اگر میں بادشاہ کی تعریف کرتا، یہ میری حماقت ہوتی اگر میں جارج کو – چہارم ہو کہ پنجم- خدائے صمد (کہ جس نے ہمیشہ اپنے طالبوں کی راہنمائی کی ہے) قرار دیتا”۔ اس اقتباس سے اندازہ ہوا کہ نہ تو ٹیگور نے وہ ترانہ شاہ جارج کے لیے لکھا تھا اور نہی بھارت ماتا نامی کسی معبود کے لیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹیگور کا خدا کے بارے میں کیا تصور تھا۔ اب آئیے “امریتا بازار پتریکا” کی 28 دسمبر 1911 کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے: “کانگریس کی کارروائی کا آغاز بنگلہ میں لکھی حمد سے ہوا”۔
اس پورے پس منظر اور شاعر کے مذہبی رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوے اب آپ ترانہ ہندی کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
“اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے تیری جئے ہو
تیرا نام ہی، پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا عللاقوں کے دلوں میں بلند ہے
دراوڈ، اتکل اور بنگال میں بھی
تیرا ہی نام وندھیہ اور ہمالہ کی پہاڑیوں میں گونجتا ہے
جمنا اور گنگا کے پانی میں یہی رواں دواں ہے
مذکورہ علاقے تیرا ہی نام گنگناتے ہیں
اور تجھ سے ہی دعائیں مانگتے ہیں
وہ صرف عظیم فتوحات کے نغمے گاتے ہیں
ان لوگوں کی نجات تیرے ہی ہاتھوں ہے
اے! بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے
تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو”
جن حضرات نے اس ترانے کی حرمت پر فتویٰ دیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کے پیش نظر وہی وحدت الوجود والی بحث ہے جس کے نتیجے میں کتنوں ہی کو مشرک قرار دیا گیا اور کتنے ہی لوگوں کو ظاہر پرست، اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیگور نے “بھارت ماتا” کی تعریف کی ہے تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹیگور کے نزدیک ایسے کسی معبود کا وجود نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہندوتوا پسند عناصر کو اس ترانے سے اسی لیے چڑ ہے کہ ٹیگور نے ان اشعار کے ذریعے ان کے عقیدے کی ریتیلی عمارت منہدم کردی ہے۔ لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمارے کچھ علما اس ترانے کو تبدیل کرنے کے لیے آواز اٹھارہے ہیں، یہ حضرات نادانستہ طور پر ان شدت پسند عناصر کے لیے کمک ثابت ہورہے ہیں۔ اگر یہ ترانہ ہندی تبدیل ہوتا ہے تو پھر وندے ماترم کو قومی ترانہ کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیے۔ صدر جمہوریہ راجندر پرساد نے جس تقریر میں جن گن من کو قومی ترانہ کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا تھا اسی تقریر میں وندے ماترم کے بارے میں بھی کہا تھا کہ “اس ترانے نے آزادی کی شمع جلائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے اس گانے کو بھی اس کا حق دیا جائے گا” اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ قومی ترانہ کی جگہ “سارے جہاں سے اچھا” قبول کرلیا جائے گا یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔
Thursday, August 11, 2022
Gh💫 چور اور قاضی کا دلچسپ علمی مکالمہ ...
امام جوزی رحمہ اللہ نے ترکی کے مشہور شہر انطاکیہ کے قاضی کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔ چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے، میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں، لہذا مجھ پر رحم کر۔
چور نے کہا : الحمد للہ ! آج اللہ تعالی نے مجھے لوٹنے کیلئے کسی مفلس، قلاش اور فقیر و نادار شخص کی بجائے ایک صاحب ثروت شخص کو میرے قابو میں دیا ہے، جسے میں لوٹ بھی لوں تو وہ واپس شہر جا کر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے۔ (یوں میرے دل پر بوجھ نہیں ہوگا)
قاضی نے کہا : خدا کے بندے تو نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میرا طریقہ ہے۔ پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت۔
تو اے چور ! ڈاکے ڈالنا اور لوگوں کو راستے میں لوٹنا یہ بدعت ہے نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور دین نہیں۔ میں آپ کا خیر خواہ ہوں آپ کو چوری سے منع کرتا ہوں کہ مبادا نبی کریم ﷺ کی اس لعنت والی وعید میں آپ شامل نہ ہوجائیں۔
چور نے کہا :میری جان! یہ حدیث مرسل ہے (جو شوافع کے ہاں حجت نہیں) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو آپ کا اس ’’چور‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل ’’قلاش‘‘ ہو، فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دیئے ہو ں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟ ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپ کا مال بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا۔ نیز علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔ اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزر رہا ہوں، لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کر دو۔
قاضی نے کہا : اچھا اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے کھیتوں میں جانے دو، وہاں میرے خادم نے آج جو اناج بیچا ہوگا اس کا مال میں ان سے لے کر واپس آکر آپ کے حوالے کر دیتا ہوں۔
چور نے کہا : ہرگز نہیں آپ کی حالت اس وقت پرندے کی مانند ہے، جو ایک دفعہ پنجرے سے نکل گیا پھر اسے پکڑنا مشکل ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس لوٹیں گے۔
قاضی نے کہا : میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ انشاءاللہ میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
چور نے کہا : مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ یمین المکرہ لاتلزم (مجبور کی قسم کا اعتبار نہیں) اسی طرح قرآن مجید میں بھی ہے اِلٌا مَن اَکرہَ وَ قلبہ مُطمَئنٌ بالایمان مجبور آدمی زبان سے کلمۂ کفر بول سکتا ہے تو مجبوری کی حالت میں جب کلمۂ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے، لہذا فضول بحث سے پرہیز کریں اور جو کچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔
قاضی اس پر لاجواب ہوگیا اور اپنی سواری، مال، کپڑے سوائے شلوار کے اس کے حوالے کردیا۔
چور نے کہا : شلوار بھی اتار کر دیں۔
قاضی نے کہا : اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں۔ قرآن کریم میں بھی ہے خذو زینتکم عند کل مسجد (اعراف، ۳۱) اور اس آیت کا معنی تفاسیر میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ نماز کے وقت کپڑے پہنے رکھو۔
نیز شلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔
چور نے کہا : اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی، وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے، وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ
العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم
ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو۔
نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں، مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے، بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں۔
اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سنداً درست نہیں، اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہیں۔ خود بے پردہ نہیں ہو رہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کر رہا ہوں۔ لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہا ہوں اس پر عمل کریں۔
قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے، ہم تو جھگ مار رہے ہیں۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
اور یوں چور سب کچھ لے کر فرار ہوگیا۔
(کتاب الاذکیا، لابن الجوزی، ص ۳۸۹)
Wednesday, August 10, 2022
تشیع ایک اہل تشیع اپنے مسلک کے اعتبار سے بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے پاس کافی معلومات بھی تھیں۔ اس کے بقول میرے ان سوالات کا جواب کسی مولوی کے پاس نہیں ہے۔
میں نے اس سے جب ملاقات کی تو اس کی ہر ہر ادا سے گویا علماء سے حتیٰ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی نفرت و حقارت کی جھلک واضح تھی۔
میرے استاد محترم نے میزبان ہونے کی حیثیت سے بڑے اخلاق سے بٹھایا۔تھوڑی دیر حال احوال دریافت کرنے کے بعد گفتگو شروع ہو گئی۔
اس کا پہلا سوال ہی بزعم خود بڑا جاندار تھا اور وہ یہ کہ تم ابوبکر کو نبی کا خلیفہ کیوں مانتے ہو؟۔ ہم تو ابوبکر کو خلیفہ رسول اسلیئے نہیں مانتے کہ انہوں نے سیَّدہ کائنات، خاتون جنت کو ان کاحق نہیں دیا تھا۔بلکہ ان کا حق غصب کر لیا تھا۔
میں نے کہا ذرا کھل کر بولیں جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں۔ اور اس حق کی وضاحت کر دیں کہ وہ حق کیا تھا؟۔
کہنے لگا وہ، باغ فدک؛ جو حضور ﷺ نے وراثت میں چھوڑا تھا۔ وہ حضور ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ کو ملنا تھا۔لیکن وہ باغ انہیں ابوبکر نے نہیں دیا تھا۔
یہ صرف میرا دعویٰ ہی نہیں بلکہ میرے پاس اس دعوے ہر مسلک کی کتابوں سے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں جنہیں آپ کا کوئی عالم جھٹلا نہیں سکتا۔
یہ بات اس نے بڑے پر اعتماد اور مضبوط انداز میں کہی۔
مزید اس نے کہا کہ میری بات کے ثبوت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ باغ فدک؛ آج بھی سعودی حکومت کے زیر تصرف ہے۔ اور وہ حکومتی مصارف کیلئے وقف ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج تک آل رسول کو ان کا حق نہیں ملا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں جنہوں نے آل رسول کے ساتھ یہ کیا ہو ہم انہیں کیسےخلیفہ رسول تسلیم کر لیں؟
میں نے اس کی گفتگو بڑے تحمل سے سنی۔ اور اس کا اعتراض سن کر میں نے پوچھا کہ آپ کا سوال مکمل ہو گیا یا کچھ باقی ہے؟
وہ کہنے لگا میرا سوال مکمل ہو گیا ہے اب آپ جواب دیں۔
میں نے عرض کیا کہ آپ نبی کریم ﷺ کے بعد پہلا خلیفہ کن کو مانتے ہو؟
وہ کہنے لگا ہم مولیٰ علی کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔
میں نے کہا کہ عوام و خواص کے جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ خلیفة المسلمین کی ذمہ داری ہوتی ہے کسی اور کی نہیں۔مجھے آپ پر تعجب ہو رہا ہے کہ آپ خلیفہ بلا فصل تو سیَّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مان رہے ہیں اور اعتراض سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کر رہے ہیں۔ یا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ مانو پھر آپ کا ان پر اعتراض کرنے کا کسی حد تک جواز بھی بنتا ہے ورنہ جن کو آپ پہلا خلیفہ مانتے ہو یہ اعتراض بھی انہی پر کر سکتے ہو کہ آپ کی خلافت کے زمانے میں خاتون جنت رضی اللہ عنہا کا حق کیوں مارا گیا؟
میری بات سن کر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا مگر ساتھ ہی اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا جی بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مولیٰ علی کی خلافت ظاہری آپ کے خلفاء ثلاثہ کے بعد شروع ہوتی ہے اس سے پہلے تو ہم ان کی خلافت کو غصب مانتے ہیں یعنی آپ کے خلفائے ثلاثہ نے مولیٰ علی کی خلافت کو ظاہری طور پر غصب کیا ہوا تھا۔ اسلیئے مولیٰ علی تو اس وقت مجبور تھے وہ یہ حق کیسے دے سکتے تھے؟۔
اس کی یہ تاویل سن کر میں نے کہا عزیزم ! میرے تعجب میں آپ نے مزید اضافہ کر دیا ہے ایک طرف تو آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ مولیٰ علی مشکل کشا ہیں۔ عجیب بات ہے کہ انہیں کے گھر کی ایک کے بعد دوسری مشکل آپ نے ذکر کر دی یعنی ان کی زوجہ محترمہ کاحق مارا گیا لیکن وہ مجبور تھے اور وہ مشکل کشا ہونے کے باوجود ان کی مشکل کشائی نہ کر سکے۔ پھر ان کا اپنا حق (خلافت) غصب ہوا لیکن وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی نہ کر سکے۔ یا تو ان کی مشکل کشائی کا انکار کر دو اور اگر انہیں مشکل کشا مانتے ہو تو یہ من گھڑت باتیں کہنا چھوڑ دو کہ طاقتوروں نے ان کے حقوق غصب کر لیئے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض و المحال آپ کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اصحاب ثلاثہ نے ان کی خلافت غصب کر لی تھی، اب سوال یہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد جب أمیر المؤمنين علی رضی اللہ عنہ کو ظاہری خلافت مل گئی اور ان کی شہادت کے بعد انہی کے صاحبزادے سیَّدنا حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کیا اس وقت انہوں نے باغ فدک لے لیا تھا؟
جب آپ کےبقول وہ خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں غصب کیا گیا تھا، اب تو انہی کی حکومت تھی جن کا حق غصب کیا گیا۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت ہونے کے باوجود اس حق کو کیوں چھوڑ دیا تھا؟۔ آج بھی آپ کے بقول وہ سعودی حکومت کے زیر اثر ہے تو بھائی وہ باغ جن کا حق تھا جب انہوں نے چھوڑ دیا ہے تو آپ بھی اب مہربانی کر کے ان قِصُّوں کو چھوڑ دیں اور اگر آپ کا اعتراض سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ہے کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟ تو یہی اعتراض آپ کا أمیر المؤمنين علی رضی اللہ عنہ پر بھی ہو گا کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟؟؟
میری بات سن کہ وہ کچھ سوچنے لگا مگر میں نے اسی لمحہ اس پر ایک اور سوال کر دیا کہ آپ یہ بتائیں کہ وراثت صرف اولاد کو ہی ملتی ہے یا بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے؟
کہنے لگا۔۔۔ بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے۔
میں نے کہا پھر آپ کا اعتراض صرف سیَّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے کیوں ہے؟ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے آپ نے کیوں نہیں کہا کہ انہیں بھی وراثت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات میں سیَّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیَّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور أمیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیَّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپ نے خلفاء رسول پر یہ الزام دھرنے سے پہلے کبھی نہیں سوچا کہ اگر انہوں نے نبی ﷺ کی صاحبزادی کو حضور ﷺ کی وراثت نہیں دی تو اپنی صاحبزادیوں کو بھی تو اس سے محروم رکھا ہے۔
میری گفتگو سن کر اب وہ مکمل خاموش تھا۔ ساتھ ہی وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا بھی معلوم ہوا۔
میں نے اسے پھر متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ عزیزم ! کب تک ان پاک ہستیوں کے بارے بدگمانی پیدا کرنے والی بے سر و پا جھوٹی باتوں کی وجہ سے حقائق سے آنکھیں بند کر کے رکھو گے؟۔
اب میں تمہیں وہ حقیقت ہی بتا دوں جس کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ کی وراثت آپ ﷺ کے کسی وارث کو نہیں دی گئی۔ وہ خود جناب رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے؛ *{نحن معشر الانبیاء لانرث ولا نورث، ما ترکنا صدقة؛}* یعنی ہم انبیاء دنیا کی وراثت میں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے۔ ہم جو مال و جائیداد چھوڑتے ہیں وہ امت پر صدقہ ہوتا ہے۔
میں نے اسے کہا عزیزم! یہ وہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے أمیر المؤمنین ابوبکر سے لے کر سیَّدنا علی اور سیَّدنا حسن رضی اللہ عنہم تک کسی بھی خلیفہ نے؛ باغ فدک؛ آل رسول کاحق نہیں سمجھا جسے لے کر آج آپ ان کےدرمیان نفرتیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نوجوان اب میری گفتگو سن کر پریشان اور نادم محسوس ہونے لگا۔ پھر انتہائی عاجزی سے اس نے مجھے دیکھا اور گویا ہوا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ آج سے میں اس طرح کے اعتراضات کرنے سے توبہ کرتا ہوں۔ اب میں رب تعالیٰ سے بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اپنی سوچ کو مثبت بناوں گا۔
میں نے اس نوجوان کو مبارک دی اور ایک محبت سے بھرپور معانقہ و مصافحہ ہوا۔
پھر وہ نوجوان شکریہ ادا کرتے ہوئے چلا گیا۔
والسلام ۔۔۔۔
یہ جو تحریر آپ نے پڑھ لی ہے میرے بہن بھاٸیوں، یہ ایک لاجواب اور ہزاروں کتابوں سے زیادہ پُر مغز مدلل مضمون ہے براہ کرم اس کو اتنا پھیلا دیجٸے کہ حق وسچ ہر ایرے غیرے پر بھی واضح ہو جاٸیں۔ لہذا آپ کی ایک کوشش دوسرے کی رہنمائی کا باعث بن سکتی ہے!!!
اسلام اور معاشرہ کے ساتھ منسلک رہیں...
نقل شدہ
Tuesday, August 9, 2022
72شہدائے کربلا
1 حضرت امام حسین بن علی
2 حضرت عباس بن علی
3 حضرت علی اکبر بن حسین
4 حضرت علی اصغر بن حسین
5 حضرت عبداللہ بن علی
6 حضرت جعفر بن علی
7 حضرت عثمان بن علی
8 حضرت ابوبکر بن علی
9 حضرت ابوبکر بن حسن بن علی
10 حضرت قاسم بن حسن بن علی
11 حضرت عبداللہ بن حسن
12 حضرت عون بن عبداللہ بن جعفر
13 حضرت محمد بن عبداللہ بن جعفر
14 حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل
15 حضرت محمد بن مسلم
16 حضرت محمد بن سعید بن عقیل
17 حضرت عبدالرحمن بن عقیل
18 حضرت جعفر بن عقیل
19 حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی
20حضرت أنس بن حارث اسدی
21 حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی
22 حضرت قیس بن عشر اسدی.
23 حضرت ابو ثمامہ بن عبداللہ
24 حضرت بریر ہمدانی
25 حضرت ہنزلہ بن اسد
26 حضرت عابس شاکری
27 حضرت عبدالرحمن رہبی
28 حضرت سیف بن حارث
29 حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانی.
30 حضرت جندا بن حارث
31 حضرت شوذب بن عبداللہ
32 حضرت نافع بن حلال
33 حضرت حجاج بن مسروق مؤذن
34 حضرت عمر بن کرضہ
35 حضرت عبدالرحمن بن عبد رب
36 حضرت جندا بن کعب
37 حضرت عامر بن جندا
38 حضرت نعیم بن عجلان
39 حضرت سعد بن حارث
40 حضرت زہیر بن قین
41 حضرت سلمان بن مضارب
42 حضرت سعید بن عمر
43 حضرت عبداللہ بن بشیر
44 حضرت وھب کلبی
45 حضرت حرب بن عمر-شیخ الاسلام قیس
46 حضرت ظہیر بن عامر
47 حضرت بشیر بن عامر
48 حضرت عبداللہ ارواح غفاری
49 حضرت جون غلام ابوذر غفاری
50 حضرت عبداللہ بن امیر
51 حضرت عبداللہ بن یزید
52 حضرت سلیم بن امیر
53 حضرت قاسم بن حبیب
54 حضرت زید بن سلیم
55 حضرت نعمان بن عمر
56 حضرت یزید بن سبیت
57 حضرت عامر بن مسلم
58 حضرت سیف بن مالک
59 حضرت جابر بن حجاج
60 حضرت مسعود بن حجاج
61 حضرت عبدالرحمن بن مسعود
62 حضرت بیکر بن حئ
63 حضرت عمار بن حسن تائی
64حضرت زرغامہ بن مالک
65 حضرت کینانہ بن عتیق
66 حضرت عقبہ بن سولت
67 حضرت حر بن یزید تمیمی
68 حضرت عقبہ بن سولت
69 حضرت حبلہ بن علی شیبنی
70 حضرت کنب بن عمر.
71 حضرت عبداللہ بن یکتیر
72 حضرت اسلم غلام ای ترکی
رضوان الله تعالى عليه اجمعين
Monday, August 8, 2022
دیوبندیت میں تطہیر کی ضرورت
تحریر : ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ مسلک دیوبند کی کسوٹی تھے، آپ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ دیوبندیت میں تطہیر کی ضرورت ہے، دھیرے دھیرے بہت ساری بدعات و رسومات ہمارے یہاں بھی در آئی ہیں، آپ رحمہ اللہ بڑی شدت کے ساتھ دیوبندی حلقوں میں پائی جانے والی بدعات کا رد فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں کسی سے مرعوب ہونا یا کسی کی ملامت کی پرواہ کرنا آپ کے یہاں ناجائز تھا، یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ بڑی بڑی شخصیات کے یہاں بھی جب کوئی نامناسب بات نظر آئی تو آپ نے نکیر کرنے میں ذرہ برابر بھی توقف نہیں فرمایا۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ایک تفرد کی وجہ سے آپ کی اولاد کے یہاں آج تک رمضان المبارک میں باجماعت تہجد کا رواج ہے، بڑے بڑے حضرات مدنی خاندان کی رعایت میں خاموش تھے لیکن حضرت پالنپوری رحمہ اللہ نے بارہا برسر عام سخت نکیر فرمائی اور اسے بدعت قرار دیا۔
دیوبندی حلقوں میں کسی بزرگ کے انتقال کے بعد تعزیتی جلسوں کے عنوان سے پروگراموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کے تکلفات دیکھ کر اس کے بدعت ہونے میں شبہ نہیں رہ جاتا، چونکہ بڑے بڑے حضرات ان تعزیتی نشستوں میں رونق افروز ہوتے ہیں اس لیے بہت سے مفتیوں کے لیے چاہتے ہوئے بھی ان پر نکیر کرنا آسان نہیں تھا، حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس رسم پر کھل کر تنقید کی اور صرف تنقید ہی نہیں مستقل رسالہ تصنیف فرماکر ان پروگراموں کی خرابیوں کو خوب واضح کردیا، جس وقت حضرت نے تعزیتی جلسوں کے خلاف فتویٰ دیا اس وقت دارالعلوم دیوبند کی بڑی بڑی شخصیات ایک دوسری بہت بڑی شخصیت کے تعزیتی اجلاس میں شریک تھیں۔ اس فتوے کی وجہ سے بعض چھوٹوں کی جانب سے آپ کے خلاف طوفان بدتمیزی بھی برپا کیا گیا لیکن آپ پوری جراءت و استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
ختم بخاری کے وقت دیوبندی مدارس میں پورے اہتمام و تداعی کے ساتھ جلسوں کا سلسلہ چلتا ہے اور ہرسال یہ جلسے نئے نئے تکلفات کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں؛ کچھ حد تک یہی سلسلہ دارالعلوم دیوبند میں بھی شروع ہوگیا تھا لیکن حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے شیخ الحدیث بنتے ہی اس سلسلے کو بالکلیہ موقوف فرمادیا اور اسے بند کرنے کے لیے حضرت نے اتنی شدت فرمائی کہ جس سال آپ شیخ الحدیث بنے(وہ ہمارا بھی دورے کا سال تھا) کسی بھی طالب علم کو آخری دن تک پتہ نہیں لگنے دیا کہ بخاری کب مکمل ہوگی اور اسی حالت میں ایک روز اچانک ختم فرماکر دعا کرواکر چلے گئے۔
چھتہ مسجد میں واقع جس انار کے درخت کے نیچے دارالعلوم دیوبند کی شروعات ہوئی وہ درخت کافی عرصے تک رہا، دارالعلوم کے اساتذہ و طلباء اس درخت کا بیحد احترام کرتے تھے اور پھر عوام بھی اس کی زیارت کے لئے آنے لگے، قریب تھا کہ اس درخت کے تعلق سے عوام وخواص میں بہت سے توہمات جنم لے لیں؛ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس خطرے کو بروقت بھانپ لیا اور ذمہ داران دارالعلوم کے سامنے بیعت رضوان والے درخت کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعے کاٹے جانے کی نظیر پیش فرماکر اس درخت کو بھی کٹوادیا۔
کسی بزرگ کے خواب کی بنیاد پر دارالعلوم کے احاطہ مولسری میں واقع کنویں کے پانی کو بڑی اہمیت دی جانے لگی تھی، طلبہ کے ساتھ بہت سے اساتذہ بھی اس پانی کو بڑے اہتمام کے ساتھ نوش فرمایا کرتے تھے اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات عوام تک بھی پہنچ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ دارالعلوم کی زیارت کے لئے آنے والے تمام مہمان اس کنویں کا پانی ضرور نوش کرتے، بعض لوگوں نے اسے زمزم کا نام دینا بھی شروع کردیا تھا، یہ حالت دیکھ کر حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر اتنا جارحانہ رخ اختیار فرمایا کہ پھر یہ کنواں اور اس کا پانی مذاق بن کر رہ گیا
قبرستان میں بزرگوں کی قبروں پر کتبے لگانے کے آپ سخت خلاف تھے اور مزار قاسمی میں لگائے ہوئے کتبوں پر سخت نکیر فرمایا کرتے تھے؛ یہی وجہ ہے آپ کی رحمہ اللہ کی قبر مبارک باوجودیکہ ایک عوامی قبرستان میں ہے لیکن آپ کے سخت موقف کی وجہ سے کوئی کتبہ نہیں لگایا گیا۔
کسی دور دراز جگہ انتقال کے بعد بزرگوں کی نعش کو پورے اہتمام کے ساتھ وطن اصلی کی جانب منتقلی کے بھی آپ سخت خلاف تھے اور اسے میت کی بے حرمتی سے تعبیر فرمایا کرتے تھے؛ اپنے بارے میں بھی حضرت نے یہی وصیت فرما رکھی تھی کہ مرنے کے بعد میری بے حرمتی مت کرنا اور جہاں انتقال ہو وہیں دفن کردینا؛ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق ہی آپ کو بمبئی میں دفنایا گیا۔
بزرگوں کو عوامی قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے کسی خاص جگہ ان کے مدرسے یا خانقاہ وغیرہ میں تدفین کے بھی آپ سخت خلاف تھے؛ چنانچہ آپ کے مزاج و خواہش کے مطابق آپ رحمہ اللہ کو بمبئی کے ایک عام قبرستان میں دفنایا گیا۔
رائپور اور جھنجھانہ وغیرہ میں بزرگوں کی قبروں کے پاس دریاں بچھائی جاتی ہیں اور ہر کس و ناکس مراقبے کے عنوان سے وہاں آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہتا ہے، اس طرح کی مراقبے بازی پر آپ سخت نکیر فرمایا کرتے تھے اور اسے بریلویت کی جہالت اور قبر پرستی تک لیجانے والی رسم بد فرمایا کرتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ آپ رحمہ اللہ مسلک دیوبند میں تطہیر کے لیے حساس و بیچین تھے، آپ کی زبانی بارہا سنا کہ "اب دیوبندیت اور بریلویت میں بالشت بھر کا فاصلہ بچا ہے” آخر میں آپ” دیوبندیت کیا ہے؟” کے عنوان پر ایک مفصل تصنیف بھی رقم فرمانے والے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ کاش حضرت کی یہ تصنیف منظر عام پر آجاتی تو بہت سے دیوبندیت کے دعویداروں کو حقیقی دیوبندیت کا مفہوم سمجھ میں آجاتا۔
Sunday, August 7, 2022
*بہت اہم پیغام‼️*
*شیعہ سیدنا علی ؓ کی اولاد میں سے فقط سیدنا حسین ؓ سے ھی کیوں تعظیم کرتے ہیں؟*
کیا آپ نے خجود سے کھبی یہ سوال کیا ھے؟
کیا کھبی آپ کو شیعوں کے اس فعل پہ تعجب ھوا؟
اس بارے میں ایسی معلومات آپ کے سامنے رکھ رھے ہیں کہ آپ دنگ رہ جائیں گے، مسلم دنیا کیلئے یہ کسی جھٹکے سے کم نہیں، اور بالخصوص عرب کے شیعوں کیلئے حیران کن ۔
سوال کا جواب دینے سے پہلے سیدنا علی ؓ کی اولاد کے بارے میں جاننا ضروری ھے_
سیدنا علی ؓ کے بیٹوں کے نام :
1 🔴 حسن بن علي بن أبي طالب
2 🔴 حسين بن علي بن أبي طالب
3 🔴 محسن بن علي بن أبي طالب
4 🔴 عباس بن علي بن أبي طالب
5 🔴 هلال بن علي بن أبي طالب
6 🔴 عبدالله بن علي بن أبي طالب
7 🔴 جعفر بن علي بن أبي طالب
8 🔴 عثمان بن علي بن أبي طالب
9 🔴 عبيدالله بن علي بن أبي طالب
10🔴 أبو بكر بن علي بن أبي طالب
11🔴 عمر بن علي بن أبي طالب
کیا آپ نے شیعہ کتب میں (یا حسن) لکھا دیکھا؟ یا (یا محسن) (یاھلال)؟ کبھی علی ؓ کا ماتم حسین کی طرح کیا ھو؟ ہرگز نہیں۔!!! کیا وہ اھل بیت نہیں؟؟
کیوں صرف (یا حسین) ھی پکار کر پیٹا جاتا ھے؟ اور کیوں حسین سے ھی مدد مانگی جاتی ھے؟
جبکہ یہ بھی علم میں ھے کہ حسن اور حسین دونوں بھائی ہیں ان کی ماں فاطمہ زھرا ؓ ھیں اور انکے والد علی بن ابی طالب ؓ ہیں اور سب اہل بیت میں سے ہیں۔
اور خاص طور پر اہم بات کہ سانحہ کربلہ میں حسین ابن علی کے ساتھ ساتھ
عثمان ابن علی بن طالب
ابوبکر ابن علی بن طالب
عمر ابن علی بن طالب
بھی شہید ہوئے تھے لیکن غم حسین میں ماتم کرنے والوں کو ان سے کوئی غرض نہیں :
اس سے پہلے اس سوال کا جواب دوں، پہلے چونکا دینے والی معلومات بھی لے لو :
کیا تم جانتے ھو شیعوں کے 12 امام صرف حسین کی نسل سے ہیں؟
اور شیعہ حسین ؓ کا احترام حسن ؓ اور سیدنا علی ؓ کی بقیہ اولاد سے زیادہ کرتے ہیں کیونکہ حسین کی شادی فارسی ایرانی عورت سے ہوئی جو ایران کے بادشاہ (یزدگرد) کی بیٹی تھی جس کا نام شہربانو تھا، مسلمانوں نے فارسی ریاست کے زوال کے بعد کسری کے بادشاہ کو قتل کر دیا اور اسکی بیٹیوں کو گرفتار کر لیا تھا۔
تو پھر خلیفہ عمر ؓ نے کسری کی بیٹیوں میں ایک بیٹی (شہر بانو) حسین کو دے دی اور حسین نے اس سے شادی کر لی اور یہی وہ سبب ھے جسکی بنیاد پہ شیعہ حسین سے اور دیگر ائمہ سے زیادہ محبت کرتے ہیں کیونکہ یہ سارے شہر بانو کی اولاد میں سے ہیں اور اہل فارس ہیں اور شیعوں کا یہ کہنا غلط ھے کہ وہ اہل بیت سے محبت عرب کی بنیاد پہ کرتے ہیں، نہیں (بلکہ یہاں معاملہ اہل فارس کا ھے!)
اور صحیح بات یہ ہے کہ شیعہ اس اہل بیت سے محبت کرتے ہیں جو کسری کی اولاد میں سے اور ان 12 ائمہ سے محبت کرتے ہیں جو سب کے سب فارسی عورت کی نسل سے ہیں اور وہ اس حسین سے محبت کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے دادا ہیں، نہ کہ حسین کے نانا نبی ﷺ ہیں۔
امام ابن کثیر نے البدائیہ جلد 9 سن 61 ہجری میں سیدنا حسین کے ترجمہ میں کہا ابن خلقان نے کہا ام سلمہ ایران کے مجوسی بادشاہ (یزدگرد) کی بیٹی تھی جو فارس کا آخری بادشاہ تھا زمخشری نے کہا (یزدگرد) کی تین بیٹیاں تھیں (جو سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں قیدی بنائی گئیں)
جن میں سے ایک عبداللہ بن عمر کو ملیں جس سے بیٹا پیدا ہوا جسکا نام سالم تھا۔
دوسری محمد بن ابو بکر ؓ کو ملی جس سے قاسم بیٹا پیدا ہوا۔
تیسری حسین بن علی ؓ کو ملی جس سے زین العابدین پیدا ہوئے۔ اور یہ سب آپس میں خالہ زاد ٹھرے۔
اور شیعہ جن ائمہ کی تکریم کرتے ہیں اور جنھیں انبیاء سے اعلٰی درجہ دیتے ہیں اور انہیں معصوم جانتے ہیں یہ سب صرف حسین کی اس بیوی سے ہیں جو فارسیہ تھیں۔
اور شیعہ حسین ؓ اور 12 ائمہ سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان میں فارسی خون و پسینہ شامل ہے اور وہ کسری کے مالک ہیں۔
(اٹھو مسلمانو!) لوگوں پر یہ اجاگر کرو کہ شعیہ اہل بیت کسری سے محبت کرتے ہیں نہ کہ اہل بیت النبی ﷺ سے۔
Saturday, August 6, 2022
لوگ علماء کی بات کیوں نہیں سنتے؟
ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ لوگ علماء کی بات کیوں نہیں سنتے ان کے پیچھے کیوں نہیں جاتے؟
جواب:
علماء نے مسلمانوں کو جتنا اسلام سکھایا ہے اتنے میں ان کی بات سنتے ہیں ان کے پیچھے جاتے ہیں جیسے نماز روزہ وضع قطع لباس کھانا پینا حتی کہ حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے علماء کے کہنے پر روزہ رکھتے ہیں اور عید مناتے ہیں مگر علماء نے مسلمانوں کو اسلامی سیاست نہیں سکھائی ہے اس لیے لوگ سیاست میں علماء کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ غیر علماء سیاست دانوں کے پیچھے جاتے ہیں۔
علماء نے مسلمانوں کو یہ نہیں بتایا ہے اسلام میں حکمران کس طرح منتخب ہوتا ہے اس کے لیے شرائط کیا ہیں؟
علماء مسلمانوں کو یہ نہیں بتایا ہے کہ خلافت نماز کی طرح فرض ہے اور اس کے بغیر حدود اللہ کا قیام ممکن نہیں۔
علماء نے یہ نہیں بتایا ہے کہ مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ مسئلہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے جو کہ جمہوریت کی وجہ سے ہے۔
علماء نے یہ نہیں بتایا ہے کہ عوامی اثاثوں کی پرئیوٹائزیشن حرام ہے اس سے غریب غریب تر اور مالدار مالدارترین بن جاتا ہے۔
علماء یہ نہیں بتاتے ہیں کہ کون کونسے ٹیکس حرام ہیں جمہوریت تو ٹیکسز کے ذریعے غریبوں کے جیب سے مال نکال کر مالداروں کی تجوری میں ڈالتی ہے۔
علماء یہ نہیں بتاتے کہ جمہوریت کفر اور ظالمانہ نظام ہے جس میں مالدارلوگ پارلیمنٹ میں اپنے مفادات کے مطابق قوانین بنا کر غریبوں کو لوٹتے ہیں۔
علماء نے یہ نہیں بتاتے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضے لینا حرام ہے اور یہ ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔
علماء یہ نہیں بتاتے کہ حکمرانوں کے لیے تیل گیس بجلی جیسی چیزوں میں منافع کمانا حرام ہے۔
علماء یہ نہیں بتاتے کہ حکمران کا کام کفار کی خدمت اور صلیبیوں کی مدد نہیں اسلام کا نفاذ مسلمانوں کی خدمت ہے۔
پھر وہ مسلمانوں سے یہ شکایت کیسے کر سکتے ہیں کہ عوام علماء کے ساتھ نہیں!!
Thursday, August 4, 2022
Wednesday, August 3, 2022
جو چیز انسان کو باقی تمام مخلوقات سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے وہ انسان کے اندر تفکیر کی صلاحیت ہے، یعنی سوچنا سمجھنا ہی انسان کو 'انسان' بناتا ہے۔
پھر یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے منفرد اور ممتاز بناتی۔ جو انسان خالق کی اس نعمت سے مستفید ہوتا ہے یعنی اس کو نکھارتا ہے اور صحیح استعمال کرتا وہ ایسے فرد سے الگ نظر آتا ہے جو اس کا احسن استعمال نہیں کرتا۔
اس لیے جب بھی دو انسانوں کو دیکھا جائے گا تو اس کی بنیاد اس کی قومیت، زبان، رنگت، وطنیت، مال وغیرہ نہیں بلکہ اس کا نظریہ، عقیدہ، فکر اور اس کے ثمرات، یعنی اعمال ہونے چاہیے۔
اسی لیے رسول اللہ ص کے فرمان کا مفہوم ہے کہ 'اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔' (صحیح مسلم)
اس کے بجائے انسانوں کو رنگ، نسل، وطن، زبان کی بنیاد پر پرکھنا بیوقوفی ہے۔ یہ تو جانور ہوتے جو اس طرح گروہ بندیاں کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے ان کو 'عقل' سے نہیں نوازا.. اور کچھ لوگ انسانوں کو جانوروں کی سطح پر لانا چاہتے، بلکہ اسی کو کامیابی کا راستہ سمجھتے۔
ہم تو عمر رض کو بھی منافقت کی چادر اوڑ کر یاد کرتے ہیں.
عمر رض نے تو سوسائٹی کے ٹرینڈ کو رد کرتے ہوئے اسلام قبول کیا جبکہ آج ہمیں کہا جاتا ہے معاشرے کے ساتھ چلو؟
عمر رض نے جب اسلام قبول کیا تو خود جاکر ابو جہل کے در پر دستک دی. آج کوئی حق کا برملا اعلان کردے تو ہم اس کو دین کی *حکمت* سے نابلد کہتے ہیں.
عمر رض نے اسلام قبول کیا تو بتوں کا اور مشرکین کے طریقوں کا رد کیا. آج اگر کوئی مغرب سے آئی جمہوریت، بینکنگ اور سرمایاداریت کا انکار کرے تو ہم اس کو جذباتی اور فقہ کی لچک سے نابلد قرار دیتے ہیں.
عمر رض کے اسلام کے بعد چند درجن مسلمانوں نے ان کی قیادت میں دار الارقم سے کعبے تک ریلی نکالی. آج ہم کہتے ہیں کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ چھپ کر گھروں میں بیٹھ جاو.
عمر رض نے جب اسلام قبول کیا تو پھر اس کے ہوکر رہ گئے،ان کے لیے اللہ کی شریعت مشعل راہ بن گئی جبکہ آج ہم شریعت کے کھلے عام خلاف ورزی کو وقت کا تقاضہ قرار دیتے ہیں.
بات تلخ ہے مگر عمر رض کا اسلام کچھ اور تھا ہمارا اسلام کچھ اور ہے. ان کا دین مکمل تھا، شریعت اٹل تھی، خلافت فرض تھی. ہمارے یہاں دین اتنا کھوکلا ہے کہ اس کو جمہوریت کے سیاسی نظام اور سرمایاداریت کے معاشی نظام سے مکمل کرنا پڑتا ہے.
عمر کا اسلام غلبہ چاہتا تھا جبکہ ہمارا اسلام محکومیت میں جینے کےاسلوب سمجھاتا ہے. ان کا اسلام بتاتا دنیا کیسے چلانی ہے جبکہ ہمارا اسلام دنیا سے پوچھتا ہے کہ خود کو کیسے تبدیل کرنا ہے، کہاں جمہوریت کی گنجائس نکالنی ہے اور کہاں سودی بینکنگ کی.
عمر رض سے محبت اور عقیدت کے کھوکلے نعروں کی بھلا کیا اہمیت جب ہم ان کے نقوش پا کو مشعل راہ ہی نہیں سمجھتے.
Jameel Behram
Subscribe to:
Comments (Atom)