Tuesday, November 29, 2022

دریائے فرات کا خشک ہونا ہی ہرمجدون (دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ) کا ٹریگر پوائنٹ ہے بہرحال یہ ایک اندازہ ہے جوکہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے غلط بھی لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ دریائے فرات بہت تیزی کے ساتھ خشک ہو رہا ہے اور آپ لوگ تو جانتے ہو کہ اسکے بعد پھر کس چیز کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو ہر حال میں پورا ہوکر رہے گا بہرحال جو نہیں جانتے تو انکے لیے یہ حدیث پیش خدمت ہے عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو». وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا». (صحیح-متفق علیہ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔ اب اسکی کیا صورت ہوگی تو وہ اللہ اور اسکے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں کہ سونا ایک پہاڑ کی شکل میں نکلے گا اور لوگ اس کے حصول کے لیے باہم لڑیں گے کیونکہ یہ ایک فتنہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ ہم میں سے اس شخص کو جو اس وقت موجود ہو اس کے لینے سے منع کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت موجود ہوں ان میں سے کچھ لوگ اس حدیث کی تاویل کرلیں جیسا کہ فتنہ پرور علماء سوء کا حال سب جانتے ہی ہیں اور حديث کو اس کی حقیقی معنی سے پھیر کر کوئی اور معنی مراد ليں تاکہ اپنے لئے اس خزانے سے کچھ لينے کو جائز ٹھہرا سکیں۔ بعض عرب محققین کا کہنا ہے کہ اس خزانہ میں سے کچھ بھی لینا اس لئے ممنوع ہے کہ خاص طور پر اس خزانہ میں سے کچھ حاصل کرنا آفات اور بلاؤں کے اثر کرنے کا موجب ہوگا اور ایک طرح سے یہ بات قدرت الہٰی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ! نیز بعض حضرات نے یہ لکھا کہ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ وہ خزانہ مغضوب اور مکروہ مال کے حکم میں ہوگا جیسا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ قارون کا مغضوب خزانہ ہو لہٰذا اس خزانہ سے فائدہ حاصل کرنا حرام ہوگا ۔ ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
پیسے کے مختلف نام ہیں ! عبادت گاہ میں دیا جائے تو چندہ " مزار کے لیے دیا جائے تو نذرانہ ۔ اسکول میں ادا ہو تو " فیس " خریداری کرنی ہو تو " قیمت " شادی میں بیٹی کو دیا جائے تو " جہیز " ولیمہ پہ دلہا کو ملے تو " نیوتہ " بینک میں رکھا جائے تو " کیش " موبائل میں ڈلوایا جائے تو " بیلنس" معاہدہ کے وقت دیا جائے تو " بیعانہ " رمضان میں عید سے پہلے بانٹا جائے تو " فطرانہ " عید کے دن دیا جائے تو عیدی بچوں کو دیا جائے تو"جیب خرچ " غریب کو دیں تو " صدقہ و خیرات " امیر کو دیں تو " ہدیہ " دوست کو دیں تو " تحفہ"۔۔ حکومت کو دینا ہو تو "ٹیکس" عدالت میں ادا کیا جائے تو "جرمانہ" نوکری کے عوض ملے تو " تنخواہ" ریٹائر منٹ پہ ملے تو " پنشن " بینک سے لیں تو " سودی قرضہ " ۔ اسلامی معاون اداروں سے لو تو " بلا سود قرضہ " ویٹر کو دیں تو " بخشش و ٹپ " اور اغواکار کو دیں تو "تاوان" غلط کام کے عوض لیں یا دیں تو " رشوت " بدمعاش کو دیں تو " بھتہ " شوہر بیوی کو دے تو " نان نفقہ" اور اگر موت کے بعد بانٹا جائے تو " وراثت " کہلاتا ہے، دعاؤں کا طالب اعجاز احمد راہی برہان پور
عجیب بات! یہودیوں کے پروجیکٹ گریٹر اسر ائیل کا تو تواتر سے نام لیا جاتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے پروجیکٹ خلافت کا ذکر ہی نہیں ہوتا بلکہ کئیوں کےحلق میں اٹک کر رہ جاتا ہے جبکہ خلافت ہی اسرا ئیل کا راستہ روکے گی خدا کا کوئی نبی بھی آجائے اور اس دور میں کسی قانون کو غلط، باطل، حرام کہے، تب بھی نبی کی بات کوئی 'قانونی' حیثیت نہیں رکھتی. یعنی انبیاء ہوں تو وہ بھی محتاج ہیں اس نظام میں 'قانون' کے. نبی کو ثابت کرنا ہوگا کہ جس چیز کو وہ برا اور غلط کہہ رہا ہے وہ 'قانون' میں بھی برا ہے، نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا نے اپنے وحی، اپنی نازل ہونے والی کتاب میں اس کو غلط کہا ہے. یہ تو خیر 'سیاست میں مذہب کو استعمال کرنا' کہہ کر لبرلز کی طرف سے بھی رد کردیا جائے گا، لیکن نظام بھی نبی سے یہی کہے گا کہ آپ محترم ہیں، آپ کی باتیں اچھی ہیں، لیکن یہ اچھے برے سے نظام نہیں چلتے، نظام قانون سے چلتے ہیں، اور جس کو آپ برا کہہ رہے قانون اس کی اجازت دیتا ہے. باقی حکمت والے یہی مشورہ دیں گے کہ محترم نبی یہ باتیں کرنا چھوڑیں، پہلے عوام سے قانون سازی کا اختیار حاصل کریں. اگر آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کی لوگ حمایت کرجائیں، اکثریتی بنیاد پر قانون سازی کا اختیار لوگ آپ کو دے دیں تو آپ جس کو اچھا سمجھتے لاگو کردینا. اگر اس مشورے کو نبی قبول کرلے تو وہ کیا کررہا ہوگا؟ وہ agree کررہا ہوگا کہ قانون سازی اکثریتی خواہشات کے مطابق ہی ہوسکتی. جب یہ قبول کرلیا تو بات ہی ختم اور نبی بھی باقی کینڈیڈیٹ کی طرح ایک کینڈیڈیٹ رہ جاتا، وحی اور خدا کا حکم، سب الیکشم مہم کے نعرے بن جاتے جو اکثریتی سند سے قبل قانون نہ ہوتے۔ Jameel Behram طلب النصرہ کی فرضیت کے دلائل: جب حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات ہوئی تو آپ ؐ طائف تشریف لے گئے جہاں پر آپؐ نے بنی ثقیف کو اسلام کی دعوت دی اور قریش کے مقابلہ میں ان کی مدد طلب کی، مگر انھوں نے اس بات سے انکار کردیا اور غنڈوں کے ہاتھوں آپؐ کو پتھروں سے لہولہان کردیا جس سے آپ ؐ غمزدہ ہوئے۔ آپ ؐ نے بنو ثقیف سے کہا میرے آنے کا کسی سے ذکر نہ کرنا (خفیہ رکھنا)۔ (سیرت ابن ہشام) یہ اس وجہ سے تھا کہ قریش آپ ؐکی مخالفت نہ کریں۔(البدایہ والنہایہ)۔ ابن اسحاق ؒ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپؐ کا یہ قاعدہ تھا کہ جب حج کا موسم ہوتا یا مختلف تہوار منائے جاتے تو آپ ؐ قبائل کو دعوت فرماتے اور جب آپؐ سنتے کہ کوئی شریف یا سردار شخص مکہ میں آیا ہے، تواس سے مل کر اسے بھی دعوت اور ہدایت فرماتے کہ اے بنی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، تم کو اس بات کا حکم کرتا ہوں کہ تم سوا اللہ کے کسی چیز کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاکر میری تصدیق کرو اور مجھے تحفظ دو تاکہ میں اس بات کو ظاہروبیان کر سکوں جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔ حاکم اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ”جب اللہ نے اپنے رسول ﷺکو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپؐ میرے اور ابو بکر کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی“۔(البدایہ والنہایہ)۔ آپؐ نے بنی عامر ابن صعصعہ کو دعوت دی، ان میں ایک شخص نے کہا واللہ اگر میں اس جوان کو قریش سے لے لوں توپھر تمام عرب کو نگل جاؤں اور پھر اس نے آپؐ سے کہا کہ یہ بتلاؤ اگر ہم تمہارے تابع ہوں اور پھر خدا تم کو تمہارے مخالفین پر غالب کرے تو تمہارے بعد اقتدار ہمارا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ یہ بات اللہ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے دیگا۔ اس شخص نے کہا تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم تو تمہاری طرف ہوکر تمام عرب کے سامنے سینہ سپر کریں اور پھر تمہارے بعد اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے۔ غرضیکہ اس قبیلہ نے بھی انکار کردیا۔(سیرت ابن ہشام). آپؐ نے پھر بنی قیس ابن ثلعبہ اور بنی کعب ابن ربیعہ کو دعوت دی اور انسے ان کی تعداد اور ان کے تحفظ کے بارے میں پوچھا۔ (البدایہ والنہایہ)۔ حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ جب آپ ؐ نے بنی شیبان ابن ثلعبہ کو دعوت دی تو حضرت ابو بکرؓ نے اس قبیلہ سے ان کی تعداد اور تحفظ کے بارے میں پوچھا، نیز دشمنوں سے ان کی جنگی کیفیت پوچھی۔ اس کے ایک سردار نے جواب دیا کہ جنگ میں ہم سب سے غصیلے ہیں اور ہمیں اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنے جنگی سازوسامان پر ناز ہے۔ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کو عربوں کے خلاف تحفظ دینے پر تو راضی ہوگیا مگراہلِ فارس پر اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آپ ؐ نے اس پیشکش سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے دین کی صرف وہ لوگ خدمت کرسکتے ہیں جوکہ چاروں طرف سے اس کے گرد حلقہ ڈال سکیں۔ (البدایہ والنہایہ)۔ ’الروض الانف’میں ان قبائل کی کل تعداد 40 بتائی گئی ہے جن کے سامنے حضور ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے ان سے نصرت طلب کی۔ ان تمام احادیث سے کئی باتیں ثابت ہوتیں ہیں: 1) حضرت علی ؓ کا یہ کہنا کہ آپؐ کو اللہ کی طرف سے #حکم ہوا، طلب ِ نصرت کے وجوب کا قرینہ ہے۔ 2) آپؐ نے قریش کی مزاحمت کا خطرہ مول لیا اور اس امر کے لیے آپؐ کا خون بھی بہا، لیکن اس کے باوجود آپؐ اس کام پر ڈٹے رہے اور مختلف قبیلوں سے نصرت طلب کرنا نہ چھوڑا۔ یعنی #جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے# آپ ؐ کا طلب ِ نصرت کی سرگرمیوں کو مستقل طور پر سرانجام دینا جس کو ابن اسحاق نے آپؐ کا قاعدہ ہونا بتایا ہے، یہ بھی اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ہے۔ 3) رسول اللہ ﷺ کا قبائل سے تحفظ مانگنا تاکہ آپؐ اپنے مقصد کو ظاہر کرسکیں اور اس کے بعد مدنی دور میں آپؐ کا احکامِ الٰہی کو جاری کرنا، اس #مقصد کو ظاہر کرنے# کا بیان ہے۔ یعنی اس طلب ِ نصرت کی وجہ یہ تھی کہ اس تحفظ کے ذریعہ سے آپؐ شریعت ِ اسلامی کو لوگوں پر نافذ کر سکیں، جو کہ ایک فرض امر ہے۔ 4) بنی عامر ابن صعصعہ کا آپؐ سے یہ پوچھنا کہ آپؐ کے بعد یہ اقتدار کسے ملے گا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قبیلہ کو معلوم تھاکہ رسول اللہ ﷺ حکومت چاہتے ہیں۔ اس پر آپؐ کا یہ جواب کہ اقتدار دینا اللہ کی مرضی پر ہے، اس بات میں بھی اس اعتراف کا اشارہ ہے کہ آپؐ کے طلب ِ نصرت کا مقصد اقداروحکومت حاصل کرنا تھا (تاکہ اللہ کے پیغام کو ظاہر کیا جاسکے)۔ 5) آپؐ کا قبیلوں کی تعدادو تحفظ اور جنگی صلاحیتوں کی تفتیش کرنا اور تحفظ کے کامل نہ ہونے پر اس کا انکار کر دینا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طلب ِ نصرت محض ان لوگوں سے کرنا مقصود تھا جو درحقیقت اس بات کی صلاحیت رکھتے ہوں یعنی اہلِ قوت۔ بالآخر بنی اوس اور بنی خزرج آپ ؐ پر ایمان لائے، آپؐ سے تحفظ اور نصرت کا وعدہ کیا اور ان باتوں پر آپؐ کی بیعت کی: (بیعت ِ عقبہ ثانیہ) (الفاظ نوٹ کریں) "ہر حالت میں سننے اور اطاعت کی، خوشی اور غم میں، تنگی اور فراخی میں، کسی اہل شخص کی امارت کے تقرر پر اس سے جھگڑا نہ کرنے پر، جہاں ہوں سچ بات کہنے پر، اللہ کی اطاعت کرنے پر اور کسی کی ملامت سے نہ ڈرنے پر اور اس پر کہ اگر رسول اللہ ﷺ مدینہ آجائیں تو ان کی نصرت کرنے پر اور جیسے یہ لوگ اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اولاد کو بچاتے ہیں و یسے آپؐ کو بھی بچانے پر۔ پھر ان کے لیے جنت ہوگی۔" [زاد المعاد، سیرت ابن ہشام] یہ عقد مدینہ کے نمائندوں اور حضور ﷺ کے مابین ہوا جسے اصطلاحِ فقہ میں‘ بیعت ِ انعقاد ’کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں جو #ہر حال میں اطاعت# کرنے کا ذکر ہے اس سے اتھارٹی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کا اسلامی ریاست کے سربراہ(امام) ہونے کی حیثیت سے آپ ؐکی اطاعت۔ یہ بیعت نبوت پر نہیں تھی کیونکہ کئی لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود آپ ؐ کی بیعت نہیں کی اور اس امر پر رسول اللہ ﷺ کا سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بیعت امارت (اتھارٹی) کی بیعت تھی۔ علاوہ ازیں امراء کا تقرراسی شخص کے لیے ممکن ہے جس کے پاس یہ اقتدار(اتھارٹی) ہو، لہذا اس بات سے اتھارٹی مراد ہے۔ آپؐ کے فرمان ’‘اگر میں آجاؤں تو تم میری نصرت کرو’‘، اس سے مراد اسلامی ریاست کے عملی قیام کاوقت ہے۔ نیز اس بیعت کو بیعت ِ حرب سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس عقد میں ان تمام قوتوں (ہر سرخ و سیاہ) سے لڑنا بھی شامل ہے جوکہ اس نئی حالت (اسلامی ریاست کے قیام) کی مخالفت کریں گی جیسا کہ حقیقتاً ہوا. جب آپ ؐ،ہجرت کے حکم کے بعد، مدینہ تشریف لے گئے۔ یہاں پر آپؐ نے ایک اسلامی ریاست قائم کی، احکام شرعیہ جاری کیے اور کلمہ ِ حق کو بلند کرنے کے لیے دشمنانِ اسلام سے جہاد کیا۔ اس حدیث میں یہ جو کہا گیا کہ ’‘تم اللہ کی اطاعت کرو....پھر تمہارے لیے جنت ہے ’‘، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس اسلامی ریاست کی بنیاد #ایک فکر یعنی عقیدہ پر رکھی گئی نہ کہ قوانین پر#، کیونکہ اکثر احکام تو بعد میں نازل ہوئے۔ اس بیعت سے دو برس قبل حضور ﷺ نے حضرت مصعب ابن عمیرؓ کو مدینہ بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلام سمجھائیں۔ یہ سلسلہ اتنا کامیاب رہا کہ حضرت مصعب ؓابن عمیر فرماتے ہیں کہ مدینہ میں کوئی ایسا گھر نہیں بچا جہاں اسلام کی بات نہ ہو۔ سیرت ابن ہشام۔ لہذا انصار کی بیعت سے پہلے مدینہ میں اسلام کے حق میں رائے عامہ ہموار کر دی گئی تھی تاکہ وہاں بعد میں قائم ہونے والی ریاست کے لئے زمین زرخیز ہو۔ رائے عامہ قائم کرنے کی کامیابی کے بعد ہی رسول اللہ ﷺ اور انصار کے مابین عقد ہوا۔ یہیں سے معلوم ہوا کہ آج جو لوگ اسلامی ریاست کے لیے کوشاں ہیں انہیں پہلے قوم کو اس بات پر تیار کرنا پڑے گا اور بات محض اقتدار حاصل کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ آخر میں وضاحت کہ مدینہ کے انصار کی نصرت صرف حفاظت کیلئے نہیں تھی کہ وہ آپﷺ کو مکہ میں بھی بنی ہاشم کی جانب سے حاصل تھی، بلکہ یہ نصرت حفاظت اور اتھارٹی دونوں کیلئے تھی۔ اسی وجہ سے مدینہ میں شریعت کا نفاذ ممکن ہوا۔ ہاں یہ درست ہے کہ یہ حفاظت کی بیعت اولاً مدینہ کے اندر تک تھی اور اقدامی کاروائی اس میں شامل نہیں تھی اور یہ بعد میں سعد بن معاذ رض اور دیگر انصاری صحابہ کرام نے رسو ل اللہﷺ کو کنفرم کی کہ وہ چاہے انھیں برک المعاد لے جائیں وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جہاں کی پالیسیاں، قانون سب کے سب قرآن کی کھلم کھلا خلاف ہو، وہاں کا جرنیل حافظ تو کیا شیخ القرآن و الحدیث ہی کیوں نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ جمہوریت اور جمہوری لیڈر مکمل بےنقاب ہو گئے ہیں۔ تبدیلی کا راستہ جمہوریت نہیں بلکہ صرف خلافت کا قیام ہے ۔ جمہوریت میں تو محض امریکی مخالف بیان بازی تک ساڑھے سات مہینے نہیں چل پاتی تو حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی؟ یہ خلافت ہی تھی ، جس کے ایک والی کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ سالانہ 642000 سونے کے سکے خراج ادا کیا کرتا تھا۔ یہ خلافت ہی تھی جو محض ایک صدی قبل اپنی کمزور ترین حالت میں بھی عالمی طاقت تھا، اور جس سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کو اتحاد کرنا پڑتا تھا۔ یہ خلافت تھی جس نے صرف انیسویں صدی میں درجن سے زائد بار عالمی طاقتوں سے جنگ کی جبکہ آج کی سپر پاور ایک کمزور ترین اسلحے کی حامل ملک سے جنگ کا بوجھ بھی نہیں سہار پائی۔ اپنے عروج میں یہ خلافت پوری دنیا کیلئے علم و فنون، خوشحالی، امن و امان، تہذیب و ترقی کا گہوارا تھی جس کے زیر سایہ دنیا کی اقوام محفوظ تھی حتیٰ کہ جب یہودیوں کو اندلس سے نکالا گیا تو خلیفہ بایزید دوم نے ان کو پناہ دی۔

Saturday, November 26, 2022

طلب نصرت

Book 2: ساحل عدیم صاحب نے دعوی کیا ہے کہ عوام اسلام یا خلافت کے لیے تیار ہے ہی نہیں، ان کے بقول خلافت آگئی تو ہلچل مچ جانی ہے اور سب نے ملک چھوڑ کر بھاگ جانا ہے. یہ عجیب ذہنیت ہے کہ لوگ اللہ کے بابرکت احکامات کے لیے تیار نہیں اور اگر اسلام آیا تو ہلچل مچ جائے گی. یعنی ہم نے اسلام کو اتنا بوجھل، کھٹن، مشکل سمجھا ہے کہ عوام سانس نہیں لے سکے گی اور بغاوت کرجائے گی. وہی عوام جو عمران خان کی مہنگائی، نواز شریف کے قرضے، زرداری کی کرپشن اور مشرف کے ظلم کے تلے جی سکی وہ اسلام کے نظام کو قبول نہیں کرسکے گی؟ جس میں مہنگائی، سود، کرپشن اور ظلم کا خاتمہ ہوگا؟ جہاں انسان کی مال، جان، عزت محفوظ ہوگی؟ وہ خلافت جس میں ملک کی معیشت اسلام کے منصفانہ احکامات کے مطابق چلے، اربوں روپے آئی ایم ایف کو سود کی مد میں دینے کے بجائے عوام پر خرچ ہوں، تمام غیر شرعی ٹیکس (سیلز، انکم، پیٹرول وغیرہ) کا خاتمہ ہو، عدالتوں میں تاریخ کے بجائے قرآن و سنت سے انصاف ملے، نبی ص کے فرمان کے مطابق روٹی کپڑا مکان ملے... اس سے عوام بھاگے گی؟ اس سے تو منافق بھی نہیں بھاگتا، وہ بھی کفر کو دل میں چھپا کر اسلام احکامات سے ملنے والے دنیاوی فائدوں کو سمیٹتا ہے. Jameel Baloch بیت سے دوستوں نے کمنٹ میں اختلاف کیا، کچھ کا جواب دیا جا رہا ہے۔ 1) اکثر نے لکھا کہ آپ نے سمجھا نہیں ہے۔ ان کا کانٹیکس کچھ اور تھا۔ نہیں ایسا نہیں ہے انہوں نے مختلف جگہوں پر یہ بات کی ہے۔ کچھ دوستوں نے ان سے یہ براہ راست سوال کیا مختلف پروگرامز میں اور انہوں نے یہی جواب دیا۔ دین کے لیے کام کرنا اور اس کے لئے لوگوں کو تیار کرنا الگ پہلو ہے لیکن یہ سمجھنا کہ لوگ دین کے نفاذ کے ساتھ بھاگ جائیں گے بالکل غلط ہے اور اس کے لیے طالبان کی مثال دینا بھی درست نہیں ہے۔ ساحل عدیم صاحب کے نقطہ نظر کا مطلب پھر یہی ہوا کہ وہ بھی صرف ہاتھ کاٹنے جیسی شریعت کو ہی اسلام کا نفاذ سمجھتے ہیں اور اسی کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ باقی جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ لوگ ابھی مختلف گناہوں میں ملوث ہیں تو یہ نظام کے اثرات ہوتے ہیں اور نظام کے بدلنے کے ساتھ یہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ 2) کچھ نے تقسیم کی بات کر رہے ہیں آپ کو لوگوں کو جمع کرنا چاہیے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر ایک کمنٹ کر دینا جس میں کسی کی تضحیک نہیں کی گئی بلکہ مختلف نقطہ نظر رکھا گیا یہ تقسیم کرنا کیسے ہوا۔ کیا اب ہم مباحثہ اور مختلف نقطہ نظر رکھنا بھی بند کر دیں کہ اس سے کوئی تیسری عالمی جنگ ہو جائے گی۔ یہاں کسی کی ذاتیات پر کمنٹ نہیں کیا گیا بلکہ ایک سوچ کو واضح کیا گیا ہے۔ نہیں ساحل عدیم ثابت نے نازک ہیں کہ اس کمنٹ سے سے آپے سے باہر ہو جائیں گے۔۔۔سو پلیز۔۔چل۔ اگلی پوسٹ میں اعداد و شمار، دلائل اور تفصیلی آرگومنٹ سے پروف کیا گیا ہے کہ لوگ خلافت کے نظام کو محبت سے قبول کریں گے https://www.facebook.com/100014214546869/posts/pfbid02u2y3dpycSjJLsGK3Ro2Vbos5YTr5KdQJjTsGKJJv2pNdxgk6yACpJFU45qxBvb24l/?sfnsn=wiwspmo&mibextid=6aamW6 https://www.youtube.com/watch?v=VOYA59CsYvU طلب نصرہ کی وضاحت سیریز: نصرہ حاصل کرنے کے دو مقصد ہیں: اول: اپنی حفاظت کے لیے تاکہ وہ اپنے رب کا پیغام پہنچا سکیں دوئم: اسلام کو ریاست اور اختیار و اقتدار کی پوزیشن پر لانے کیلئے دلائل: پہلے مقصد کے دلائل: حاکم نے اپنی مستدرک میں جابررض سے حدیث روایت کی جو کہ شیخین (بخاری و مسلم)کی شرائط پر پورا اترتی ہے: ’’رسول اللہ ﷺلوگوں پر اپنے آپ کو پیش کرتے اور کہتے: کیا ایسا کوئی ہے جو مجھے اپنے لوگوں کے پاس لے جائے، یہ قریش مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں؟ سیرت ابنِ ہشام میں ابنِ اسحٰق سے مروی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ حج کے ایام میں عرب قبائل سے رابطہ کرتے ، انہیں اللہ کی جانب پکارتے اور نُصرۃ طلب کرتے، آپ انہیں بتاتے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے کہتے کہ وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی حفاظت کریں ،یہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے‘‘۔ مزید عند الطلب دوسرے مقصد کے دلائل: جہاں تک نُصرۃطلب کرنے کے دوسرے مقصد، یعنی اسلام کو ریاست اور اتھارٹی کی پوزیشن پر لانے کا تعلق ہے، تو یہ وہ ہے جس کے متعلق آپ ﷺنے بنی شعبان سے ان کے خیموں میں گفتگو کی اور ان سے نصرۃ طلب کی،لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ اسی طرح وہ گفتگو جو آپ انے بنی عامر بن صعصعہ اور بنی کندہ سے کی لیکن انھوں نے آپ کے بعد اقتدار کا مطالبہ کیا، نبی ﷺنے اس مشروط نُصرۃکو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ عقبہ کے مقام پر بیعتِ ثانیہ پر اختتام پذیر ہوا جہاں آپ کی جانب سے حفاظت طلب کرنے پراوس اور خزرج نے آپ کی خاطر جنگ کرنے کی بیعت کی۔ سیرت ابنِ ہشام میں زُہری سے روایت ہے: ’’ آپ ﷺبنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور انہیں اللہ عز و جل کی طرف دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو پیش کیا(یعنی نصرۃ طلب کی) ۔ تو ان میں سے ایک شخص جسے بیحرۃ بن فراس کہا جاتا تھا، نے کہا: اگر یہ شخص میری مٹھی میں آ جائے تو میں اس کے ذریعے پورے عرب کو کھا جاؤں۔ پھر اس نے آپ ﷺسے کہا: ’’ آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ’امر‘ (حکومت) پر آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ ’امر‘ (یعنی حکومت) ہمیں ملے گی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’امر‘ (حکمرانی) اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہے اسے سونپ دے۔ اس پر اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کے لئے عربوں کے تیروں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو حکمرانی ہمارے علاوہ کسی اور کو ملے؟! نہیں ہمیں آپ کے ’امر‘ کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ عرب خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺنصرۃ طلب کر کے درحقیقت کیا طلب فرما رہے ہیں، یعنی ایک اتھارٹی اور ریاست کے قیام کے لیے ایک مضبوط اور طاقتور قبیلے کی حمایت۔ وہ جانتے تھے کہ اس اتھارٹی کے خلاف پورا عرب اٹھ کھڑا ہوگا۔ نصرۃ دینے والے قبائل کورسول اللہ ﷺاور اس نوخیز ریاست کی حفاظت کے لئے پورے عرب کے خلاف لڑنا پڑیگا۔ اس قربانی کے بدلے بنو عامر اور بنی کندہ رسول اللہ ﷺ کے بعداپنے لیے حکومت اور سرداری کی ضمانت چاہتے تھے اور اسی شرط پر نصرۃ دینے کے لئے تیار تھے۔ یہ یثرب کے اوس و خزرج ہی تھے جنہوں نے بغیر کسی شرط کے محض اللہ کی رضا کے لئے آپ اکی حفاظت اور اسلام کے نفاذ کے لئے نصرۃ فراہم کی۔
تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں پہلا قانون فطرت: اگر کھیت میں” دانہ” نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے “گھاس پھوس” سے بھر دیتی ہے. اسی طرح اگر” دماغ” کو” اچھی فکروں” سے نہ بھرا جاۓ تو “کج فکری” اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف “الٹے سیدھے “خیالات آتے ہیں اور وہ “شیطان کا گھر” بن جاتا ہے۔ دوسرا قانون فطرت: جس کے پاس “جو کچھ” ہوتا ہے وہ” وہی کچھ” بانٹتا ہے۔ * خوش مزاج انسان “خوشیاں “بانٹتا ہے۔ * غمزدہ انسان “غم” بانٹتا ہے۔ * عالم “علم” بانٹتا ہے۔ * دیندار انسان “دین” بانٹتا ہے۔ * خوف زدہ انسان “خوف” بانٹتا ہے۔ تیسرا قانون فطرت: آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے “ہضم” کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ۔ ۔ ۔ * کھانا ہضم نہ ہونے پر” بیماریاں” پیدا ہوتی ہیں۔ * مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” ریاکاری” بڑھتی ہے۔ * بات ہضم نہ ہونے پر “چغلی” اور “غیبت” بڑھتی ہے۔ * تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں “غرور” میں اضافہ ہوتا ہے۔ * مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے “دشمنی” بڑھتی ہے۔ * غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں “مایوسی” بڑھتی ہے۔ * اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” خطرات” میں اضافہ ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک” با مقصد” اور “با اخلاق” زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں! نقل شدہ ۔

Friday, November 25, 2022

*گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ہونے تک شادی سے انکار کرتا رہا ایک دن اُس کے بھائی اسدالدین شیر کوہ نے اس سے کہا: بھائی تم شادی کیوں نہیں کرتے؟* *نجم الدین نے جواب دیا: میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتا.* *یہ سن کر اسدالدین نے کہا: میں آپکے لیے کس کا رشتہ مانگوں؟* *ملک شاہ بن سلطان محمد بن ملک شاہ سلجوقی کی بیٹی کا یا وزیر المک کی بیٹی کا....؟* *یہ سن کر نجم الدین بولا: وہ بھی میرے لائق نہیں* *اسدالدین دھک سے رہ گیا پھر کون آپکے لائق ہوگی؟* *نجم الدین نے جواب دیا: مجھے ایسی نیک بیوی چاہیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اُس سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو جس کی وہ بہترین تربیت کرے وہ شاہ سوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے-* *اسدالدین کو نجم الدین کی بات پسند نہ آئی اور اُس نے کہا: ایسی لڑکی آپکو کہاں ملے گی؟* *نجم الدین نے جواب دیا: نیت میں خلوص ہو تو الله تعالیٰ ضرور نصیب کرے گا-* *یہ سن کر اسد الدین خاموشی سے اُسے تکنے لگا-* *ایک دن نجم الدین مسجد میں تکریت کے ایک شیخ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی شیخ نےلڑکی سے بات کرنے کے لیے نجم الدین سے معذرت کی. نجم الدین سنتا رہا کہ شیخ لڑکی سے کیا کہ رہا ہے.* *شیخ نے لڑکی سے کہا: تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کر دیا جس کو میں نے بھیجا تھا؟* *اے ہمارے شیخ اور مفتی وہ لڑکا واقعی خوب صورت اور رتبے والا تھا مگر میرے لائق نہیں تھا-* *شیخ حیرت سے بولا: کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو ؟* *شیخ مجھے ایک ایسا لڑکا چاہیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اُس سے مجھے الله تعالیٰ ایک ایسا بیٹا دے جو شاہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے-* *نجم الدین حیران رہ گیا کیونکہ جو وہ سوچتا تھا وہی یہ لڑکی بھی سوچتی تھی-* *نجم الدین جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی بیٹیوں کے رشتے ٹھکرائے تھے شیخ سے کہا: اس لڑکی سے میری شادی کروا دیں-* *یہ محلے کے سب سے فقیر گھرانے کی لڑکی ہے-* *یہ سن کر نجم الدین نے کہا: میں یہی چاہتا ہوں* *پھر نجم الدین نے اس فقیر متقی لڑکی سے شادی کر لی اور اسی سے وہ شاہسوار پیدا ہوا جسے دنیا "سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ" کے نام سے جانتی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بھی آزاد کروایا-* *اور ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی قول، واقعہ، سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، آپکی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز بھی ثابت ہو سکتی ہے-* *پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائ کے لئے شیئر ضرور کریں-* *(شُکریہ، جزاک الله خیراً کثیرا)*

Wednesday, November 23, 2022

*جرمنی سے قطر … غلاظت سے طہارت تک* یہ جرمنی کا شہر کولون تھا جہاں 2006ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی رونقیں برپا تھیں۔ اس ورلڈ کپ کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے حُسنِ ذوق اور تسکینِ تعیش کے لئے دنیا بھر سے ہر رنگ، عمر، نسل اور جسمانی تناسب والی خواتین لائی گئیں۔ ان کی تعداد تقریباً چالیس ہزار تھی۔ ان سمگل شدہ جسم فروش عورتوں سے کولون شہر کے بیچوں بیچ ایک بارہ منزلہ قحبہ خانہ یا جسم فروشی کا اڈہ (Brothel) آباد کیا گیا، جس کا نام پاشچا (Pascha) تھا۔ اس قحبہ خانے کا شاندار افتتاح ورلڈ کپ کے آغاز والے دن 9 جون 2006ء کو کیا گیا۔ اس جسم فروشی کے پلازہ میں دنیا بھر کے ممالک سے 120 جسم فروش عورتیں لا کر بڑے بڑے شیشوں والے ہال میں سجائی گئیں۔ یہ صرف ایک شہر کے ایک اڈے کی بات ہے جبکہ پورے ملک میں چالیس ہزار سمگل شدہ عورتوں سے جرمنی کا ہر وہ شہر آباد کیا گیا جہاں فٹ بال ورلڈ کپ میں شریک بتیس ٹیمیں حصہ لینے جا رہی تھیں۔ ’’پاشچا‘‘ نے اپنے اس قحبہ خانے پر ان تمام ٹیموں کے ممالک کے پرچم بھی لگا رکھے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عورتوں کے ہمراہ ایک حجاب والی خاتون کا بھی پوسٹر چسپاں کیا تھا۔ اس کے خلاف ایک دن تیس کے قریب مسلمان نوجوان جو چاقوئوں اور ڈنڈوں سے مسلح تھے، احتجاج کرتے ہوئے آئے، جن سے خوفزدہ ہو کر قحبہ خانے کی انتظامیہ نے سعودی عرب اور ایران کے جھنڈوں کو سیاہ کر دیا کیونکہ ان پر کلمۂ طیبہ اور اللہ کا نام لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی حجاب والی عورت کا پوسٹر بھی اُتار دیا۔ جرمنی میں فٹ بال کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر جسم فروش عورتوں کی سمگلنگ کا خصوصی اہتمام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مہذب کہلانے والی مغربی دنیا جو انسانی سمگلنگ پر دیگر کمزور ممالک کا معاشی مقاطعہ تک کرتی ہے، وہ کیسے اپنی عیش پسندی اور جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے دنیا بھر کی عورتوں کو بلا کر ایک ماہ کے لئے بازار سجاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں کھیلوں کے عالمی مقابلوں اور جسم فروشی کے بازاروں کے تعلق پر لاتعداد علمی تحقیقات شروع ہوئیں، یہاں تک کہ امریکہ کی یونیورسٹی آف نبراسکا (Nebraska) نے اس باہمی تعلق پر ایک عالمی کانفرنس بلائی جس میں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی عالمی تعلقات کی کمیٹی کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس کا عنوان تھا: "Germany's World Cup Brothels: 40,000 Women and Children at Risk of Exploitation Through Trafficking." ’’جرمنی ورلڈ کپ کے جسم فروشی کے اڈے: چالیس ہزار عورتیں اور بچے انسانی سمگلنگ کی وجہ سے استحصال کے خطرے میں‘‘۔ اس کے علاوہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی (Northwestern University) کے سکول آف لاء کے سنجیدہ میگزین میں 2008ء میں اینی میری ٹیولا (Anne Marie Tavella)نے جرمنی کے اس فٹ بال ٹورنامنٹ میں جنسی سمگلنگ (Sex Trafficking) کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں کا جنسی سمگلنگ کے ساتھ تعلق کا جائزہ لیا اور وہ اس قدر بھیانک نتائج سامنے لائی کہ جن کے مطابق کھیلوں کے یہ بڑے بڑے معرکے جب کسی ملک میں سجائے جاتے ہیں تو جہاں ہوٹل اور ٹورازم انڈسٹری کی چاندی ہوتی ہے وہاں نہ صرف یہ کہ اس ملک میں موجود جسم فروش عورتوں کا کاروبار چمکتا ہے بلکہ دنیا بھر سے عورتوں کو وہاں لانے کے لئے جنسی سمگلنگ کا دھندہ بھی خوب چلتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا کہ یورپ کے پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں سارا سال دنیا بھر سے عورتیں جسم فروشی کے لئے سمگل کر کے لائی جاتی ہیں۔ صرف 1990ء میں تین لاکھ کم عمر بچیاں یورپ کے ممالک میں جسم فروشی کے لئے دیگر علاقوں سے سمگل کی گئیں۔ اسی رپورٹ نے بتایا کہ جرمنی میں ہر سال اوسطاً ایک ہزار لڑکیاں جسمانی تسکین کے لئے لائی جاتی ہیں۔ جرمنی میں جسم فروشی کے کاروبار سے سالانہ 19 ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ جرمنی کے اس ورلڈ کپ میں ان چالیس ہزار عورتوں کی آمد کی خبر نے دنیا کو چونکا دیا لیکن اس کے باوجود 2008ء میں چین میں اولمپک اور 2010ء میں جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ ہوا مگر ان دونوں مقابلوں میں بھی ویسے ہی بازار سجے، جسم فروشی ہوئی۔ لیکن اب اس کا ڈھنگ اور طور طریقہ ایسا کیا گیا کہ یہ میڈیا میں رپورٹ نہ ہو سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر کے تحقیقی مقالہ نگاروں نے 2006ء سے اب تک کھیلوں کے ہر بڑے ٹورنامنٹ میں اس غلاظت کے بارے میں باقاعدہ اعداد و شمار پیش کئے۔ قطر میں 2022ء کے ورلڈ کپ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس عالمی معرکے کیلئے یوں تو تیاری کئی سال سے جاری تھی اور لاتعداد پلازے اور ہوٹل تعمیر ہو رہے تھے، لیکن قطر کے حکمرانوں نے جس طرح 57 اسلامی ممالک میں ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت کو منوایا ہے اور جس طرح اس عالمی مقابلے کو شراب و شباب سے پاک کیا ہے اس کی مثال اسلامی دنیا میں نہیں ملتی۔ پڑوس میں دبئی ہے جس میں اگر ایسی کوئی تقریب نہ بھی ہو پھر بھی آپ کو وہاں ہر سامانِ تعیش میسر آئے گا، یہاں تک کہ ایئر پورٹ میں کھانوں کی سجی میز کے بیچوں بیچ ’’لحم الخنزیر‘‘ یعنی سؤر کا گوشت کی چِٹ بھی نظر آئے گی۔ اس کے بالکل برعکس قطر میں فٹ بال کے اس ٹورنامنٹ میں پہلا اہم حکم نامہ 13 اپریل 2022ء کو سکیورٹی کے سربراہ عبداللہ النصری نے اس وقت جاری کیا جب اسے کہا گیا کہ سٹیڈیم میں ایک سٹینڈ ہم جنس پرستوں (LGBT) کے لئے بھی مخصوص کیا جائے اور وہاں ان کا پرچم لہرایا جائے۔ النصری نے انکار کر دیا جس پر انگلینڈ کی مشہور ٹیم "Three Loins" نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ جس پر قطر کی حکومت نے جواب دیا کہ آپ نے اگر ہم جنس پرستی کا پرچار کرنا ہے تو اس معاشرے میں جا کر کریں جہاں یہ قابلِ قبول ہے۔ آپ قطر میں ایسا کر کے پورے معاشرے کی توہین نہیں کر سکتے۔ اگر کسی نے سٹیڈیم میں ہم جنس پرستی کا جھنڈا لانے کی کوشش کی تو ہم اس سے جھنڈا چھین لیں گے۔ کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ دیکھنے والے غصے میں اس پر حملہ نہ کر دیں۔ ٹورنامنٹ کے آغاز تک ’’فیفا‘‘ کے منتظمین اور قطر کی حکومت کے درمیان بحث چلتی رہی کہ ورلڈ کپ کے دوران شراب کی خریدوفروخت ہو سکتی ہے۔ لیکن کل قطر کی حکومت نے عین آغاز سے ایک دن پہلے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران جو مشروبات بھی بیچے جائیں گے ان میں ’’الکحل‘‘ نہیں ہو گی۔ یہ خبر اس وقت نشر ہوئی جب ہزاروں شائقین اپنی پروازوں کے ذریعے قطر پہنچ چکے تھے۔ میکسیکو کے سات نوجوان بیئر کے ڈبے پکڑ کر سٹیڈیم میں داخل ہوئے (جو وہ اپنے ساتھ میکسیکو سے لائے تھے) تو انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہزاروں بینر اور ٹینٹ جو بیئر بنانے والی مشہور کمپنی بڈوائزر (Budweiser) نے لگائے تھے، ختم کر دیئے گئے، حالانکہ یہ کمپنی ٹورنامنٹ کے سپانسروں میں شامل ہے اور ہر ٹورنامنٹ کے لئے ساڑھے سات کروڑ ڈالر دیتی ہے۔ ’’فیفا‘‘ کے منتظمین نے قطر کی حکومت کے سامنے سرِتسلیم خم کر لیا۔ قطر حکومت نے ان سے صرف اتنا ہی کہا کہ کیا تم دنیا کے کسی ملک میں کھلاڑیوں کو کوئی ایسی حرکت کرنے کی اجازت دو گے جو ان کے کلچر میں سب سے ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہو۔ ’’فیفا‘‘ نے جواب دیا، نہیں، تو قطری حکام نے ان سے کہا کہ ہمارے ہاں شراب اور جسم فروشی دونوں ناپسندیدہ ترین افعال ہیں۔ *تحریر : اوریا مقبول جان*

Thursday, November 17, 2022

نارکو ٹیسٹ

آفتاب پونا والا کے نارکو ٹیسٹ کیلئے دہلی عدالت نے دی اجازت! کیا ہے نارکو ٹیسٹ اور کیسے کیا جاتا ہے یہ؟ http://dhunt.in/FvKEj?s=a&uu=0x7c7d3b7915dc1490&ss=pd Source : "News18 اردو" via Dailyhunt

Wednesday, November 16, 2022

نورانی قاعدہ( پانچ حصے) مرتب:مفتی عبدالرحیم ناشر:معہدالعلوم الاسلامیہ پلمنیر(اے پی)9440066000 مبصر: ناصرالدین مظاہری قرآن کریم دنیامیں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ،قرآن کریم کومسلمان توپڑھتے ہی ہیں بہت سے ادیان ومذاہب میں بھی یہ کتاب جدیدتحقیقات کے لئے پڑھی جاتی ہے ،بہت سے لوگ مذہب اسلام میں کمیاں ،خامیاں اورتضادکی تلاش وجستجوکے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں،کچھ لوگ اسلام پرنقداورتنقیدکے لئے بھی پڑھتے ہیں ،بہرحال قرآن کریم توقرآن کریم ہے اس کاحق بھی ہے کہ سب سے زیادہ ہرزمان اورہرمکان میںپڑھا جائے کہ یہ کلام کلام الٰہی ہے لیکن قرآن کے علاوہ بھی ایک کتاب ایسی ہے جوشایدقرآن کریم کے بعدسب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اوریہ ہے ’’نورانی قاعدہ‘‘جی ہاں !نورانی قاعدہ ہرگھر،ہرمدرسہ،ہرمکتب ، ہرتعلیم گاہ اورہرمسجدمیں پڑھایاجاتاہے ،پڑھنے والے بچے ہوتے ہیں ،نورانی قاعدہ کوقرآن کریم کی کلیدبھی کہہ سکتے ہیں ،جس نے کسی ماہراستاذسے نورانی قاعدہ پڑھ لیااس کے لئے قرآن کریم کاپڑھنانہایت آسان ہوجاتاہے۔ نورانی قاعدہ حضرت مولانانورمحمدلدھیانویؒ کاترتیب دادہ ہے ،حضرت مولانانورمحمدلدھیانویؒ مظاہرعلوم کے فارغ وفاضل تھے۔آپ نے کئی کتابیں نورانی قاعدہ کے علاوہ لکھی ہیں لیکن جو شہرت اورمقبولیت نورانی قاعدہ کوحاصل ہوئی وہ کسی اورکونہیں ہوئی۔ دنیابھرکے ملکوں حتی ٰ کہ حرمین شریفین کے مکاتب میں بھی نورانی قاعدہ داخل نصاب ہے ۔ نورانی قاعدہ کوسہل سے سہل اورعمدہ سے عمدہ طرزپرپڑھانے کے لئے ہرزمانے میں محنت کی گئی ہے ،کوشش کی گئی ہے ،بچوں کی نفسیات کوسامنے رکھ کرمرتب کیاگیاہے،بچوں کامزاج ہوتاہے کہ وہ رنگ برنگی چیزوں کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں اسی لئے نورانی قاعدہ کونہایت ہی معیاری،دیدہ زیب اورعمدہ کتابت اورنقاشی کے ساتھ شائع کیاجاتارہاہے۔ ہردوئی میں محی السنہ حضرت مولاناابرارالحق علیہ الرحمہ کی کوشش سب سے زیادہ تواحیاء سنت پررہی لیکن ساتھ ہی نورانی قاعدہ پران کی توجہ اس قدررہی کہ ایک ماحول بن گیا،ہردوئی والے نورانی قاعدہ کی مانگ اورطلب بڑھ گئی ،دنیابھرمیں جس کسی ادارے سے حضرت رحمہ اللہ کے نورانی قاعدہ کوداخل نصاب کیااوران ہی کے مرتب فرمودہ اصولوں کے مطابق تعلیم دی بہت جلدبچوں کوکماحقہ قرآن کریم پڑھناآگیا۔حضرت کی کوشش تھی کہ نورانی قاعدہ کواستاذاس اندازمیں پڑھائے کہ بچے کے لئے مخارج اورقواعدکے مطابق قرآن کریم پڑھناآسان ہوجائے ۔اسی لئے حضرت نے نورانی قاعدہ کی تدریس کے لئے اپنے یہاں مستقل شعبہ قائم فرمایا،اس شعبہ میں عمروں کے تفاوت کے ساتھ بچے،جوان اوربوڑھے ذوق وشوق کے ساتھ نورانی قاعدہ پڑھنے کے لئے ہردوئی میں داخلہ لے کرمشق کرتے ہیں، کامیاب وقدرت حاصل ہوجانے پر وہاں سے سندبھی جاری کی جاتی ہے اوراسی سندکی بنیادپرمعیاری ادارے اپنے یہاں اساتذہ کاتقررکرتے ہیں۔ میرے سامنے نورانی قاعدہ کے نام سے پانچ حصوں پرمشتمل ایک مجموعہ رکھاہواہے جس کومفتی عبدالرحیم صاحب نے بڑے سلیقہ سے مرتب کیاہے ،پہلاحصہ مفردات پرمشتمل ہے باقی حصے مرکبات پرمشتمل ہیں ،کوشش کی ہے کہ نورانی قاعدہ میں مفردات اورمرکبات کوجلی ،مرغن وملون اورپرکشش لکھاجائے ،اسی طرح بچوں کی نفسیات کے مطابق ہرصفحہ نہایت ہی رنگین ونقشین اوردل نشین ہے ،ہرصفحہ پرمخارج کاضابطہ،لکھنے کاطریقہ،کئی مفردحروف میں سے کسی ایک حرف کی تعیین کرکے اس کو کسی خاص رنگ سے بھرنے کاامرکیاگیاہے ، ایک ہی صفحہ پرکئی حروف میں سے مطلوبہ حرف کی شناخت بچے کوکرنی ہوتی ہے،پھرمطلوبہ رنگ کی شناخت بھی بچے کوکرنی ہے،پھراس میں رنگ بھرنے کاکام کام بھی بچے کوکرناہے ،مخارج اورقاعدہ کے مطابق قراء ت بھی بچے کوکرنی ہے ،اچھی بات یہ ہے کہ انگریزی میں بھی اس حرف کا قاعدہ لکھاگیاہے تاکہ انگریزی سے بھی بچے کومناسبت ہوتی رہے۔ ہردوئی والے نورانی قاعدہ سے یہ قاعدہ اس لئے ممتازہے کہ اس کودینی وعصری دونوں مکاتب کے بچوں کوپڑھایاجاسکتاہے جب کہ ہردوئی والے قاعدے کوصرف دینی مکاتب میں ہی پڑھایاسکتاہے ،انگریزی مکاتب کے لئے اتنامفیدنہیں ہے جتنایہ ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس قاعدے کی ترتیب جدیداوراضافے میں بھی اس پہلوکومدنظررکھاہے چنانچہ خودہی لکھتے ہیں: ’’عرصۂ درازسے یہ تقاضامحسوس کررہاتھاکہ انگلش میڈیم اسلامک اسکولوں میں بھی نورانی قاعدہ داخل نصاب ہوجائے اس لئے کہ یہ ایک بابرکت انقلابی رسالہ ہے‘‘ اس قاعدہ کی ایک اورخوبی بھی ہے ،اس میں لکھے گئے تمام عربی کلمے اورجملے تاج کمپنی لاہورسے عکس لے کرغایت محنت کے بعدشامل کتاب کئے گئے ہیں تاکہ بچہ شروع سے ہی قرآن کریم کی کتابت اوررسم الخط سے واقف ہوسکے ۔اسی طرح حروف مفردہ کومرکب شکل میں یک حرفی ،دوحرفی، سہ حرفی اورچارحرفی تک لانے کااہتمام والتزام کیاہے مرتب کایہ تجربہ بچوں کے لئے بہت مفیدثابت ہواہے۔ میرے خیال سے اگربچوں کویہ خوبصورت نورانی قاعدہ پڑھایاجائے توبچوں کوزیادہ دلچسپی ہوگی۔حضرت مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی ؒکے خطوط ونقوش پرہی اس سلسلہ کی ترتیب عمل میں لائی گئی ہے۔

Sunday, November 13, 2022

استاد کا رتبہ بڑا ہے یا والد کا؟ مفتی تقی عثمانی صاحب ایک مرتبہ شیخ عبدالاحد ازہری جو مصر کے بہت اچھے فقیہ ہیں، میرے مہمان ہوئے. آپ نے حاضرین کے سامنے بہت ہی عمدہ انداز میں تلاوت کی۔ پھر گفتگو کا دور شروع ہوا۔ بات نکلی۔ کہ قرآن نازل ہوا عرب میں پڑھا گیا مصر میں اور سمجھا گیا ہند میں۔ اس پر انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ.. ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں حاضر تھا۔ کچھ محبت رکھنے والے علماء نے مجھے مسند پر بٹھا دیا۔ اور کہا ہمیں کچھ نصیحت کریں۔ بعد نصیحت کے سوال جواب کا دور شروع ہوا۔ کسی نے پوچھا استاذ کا رتبہ بڑا یا والدین کا؟؟ میں نے کہا کہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ استاذ کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ کیوں کہ والدین بچے کو نیچے(دنيا میں) لانے کو محنت کرتے ہیں اور استاذ بچے کو نیچے( دنیا) سے اوپر لے جانے کے لئے محنت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اس جواب پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا آپ کچھ سمجھا دیں۔ اس نے کہا۔ کہ صحابہ کے دور سے یہ ترتیب چلی آ رہی ہے۔(غالباً حضرت معاذ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا) کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ، پھر عمل صحابہ پھر اخیر میں قیاس ہے۔اور آپ نے پہلے ہی قیاس کو اٹھایا۔ حالانکہ والدین کا رتبہ منصوص علیہ ہے۔ اور آپ نے جو دلیل پیش کی وہ قیاس ہے۔ جب نص کسی چیز کی فضیلت میں وارد ہو جائے وہ ہر حال میں افضل ہی رہتی ہے۔تاآنکہ کوئی دوسری نص اس کے خلاف وارد ہو جائے ۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔۔۔ کہ واقعی اتنی زبردست چوک مجھ سے کیسے ہوگئی جب کہ اصول میں یہ بات ہے کہ کسی چیز کی فضیلت ،یا کسی چیز کے ثواب و عقاب کو ثابت کرنے کے لئے نص قطعی الثبوت چاہیے ۔ یا ایسا مضبوط باسند المتصل قول نبی چاہیے جو اس فضیلت یا ثواب و عقاب کے معاملہ میں صریح ہو، میں نے کہا واقعی میں غلطی پر تھا۔ کچھ اور فرمائیں۔ کہا کہ ایک باندی تھی۔ ابو لہب کی آزاد کردہ جن کا نام تھا "ثویبہ" جنہوں نے چند روز آپ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ ایک مرتبہ تشریف لائیں۔ تو آپ نے اپنی دستار مبارک ان کے راستہ میں بچھا دی۔ یہ درجہ دیا اس ذات کو جس نے چند روز دودھ پلایا۔ تو جنم دینے والی کا کیا حق ہوگا؟ اور دوسری طرف حضرت جبرئیل جو من وجہٍ آپ کے استاذ تھے۔ ان کی آمد پر اس قسم کی تکریم ثابت نہیں۔ میں نے کہا آپ کے جواب سے اطمینان ہوا۔ کلام الہی اور عمل نبی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ اٹھ کر چل دیئے ۔ میں نے کہا شاید کوئی فقیہ ہیں۔ اہلِ مجلس نے کہا کہ یہ ہندوستان کے ادارہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مفتی سعید احمد پالنپوری ہیں۔
فقہ و افتاء سے شغف رکھنے والوں کے لیے مفتی محمود حسن گنگوھی رحمہ اللہ کی ایک تجویز ••••••••••••••••••••••••••••••••••••••• حضرت مولانا محمد سلمان منصور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : احقر جب دارالعلوم دیوبند میں شعبہ افتاء کا طالب علم تھا تو استاد معظم فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز ارشاد فرمایا کہ آپ کے پاس فقہ کی کون کون سی کتابیں ہیں؟ احقر نے عرض کیا اس وقت فتاوی شامی (ردالمحتار علی الدرالمختار) فتاوی عالمگیری، اورالبحرالرائق ہیں۔ حضرت نے فرمایا:بہت اچھا ! جس مفتی کے پاس ذاتی کتابیں نہ ہوں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے میدان جنگ میں (بلا ہتھیارکا سپاہی)پھر فرمایا کہ نظر کی گہرائی کے لئے (فتاوی شامی) کا مطالعہ بہت مفید ہے، جب کہ حسن ترتیب کے اعتبار سے (بدائع الصنائع)کا کوئی جواب نہیں ہے،دلائل کے تتبع کے لئے (فتح القدیر) بے نظیرکتاب ہے، اورجزئیات تلاش کرنے کے لئے (البحر الرائق)اور (عالمگیری)وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے. (یادگارزمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ، ص۴۴٨) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعمانی فاؤنڈیشن اورنگ آباد۔

Friday, November 11, 2022

جمہوریت میں ہمیشہ اشرافیہ کے درمیان چپقلش اور مقابلہ بازی جاری رہتی ہے جس کا آج ہم بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں اشرافیہ کی یہ جنگ کبھی سیاسی جماعتوں کے مابین ہوتی ہے، تو کبھی سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کے درمیان۔ اس طرح یہ جنگ کبھی عدلیہ اور فوج کے درمیان ہوتی ہے یا کبھی سیاسی جماعتوں اور فوج کے مابین، اور ان تمام جھگڑوں کا نتیجہ ہمیشہ محض طاقت کی تقسیم کے نئے فارمولے پر ہی نکلتا ہے، جس میں قربانی کا بکرا عوام کو ہی بننا پڑتا ہے۔ جمہوریت نے کبھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں دیا، بلکہ اِس نے مخلص سیاسی کارکنان کی توانائیاں ہی ضائع کی ہیں۔ #Khilafah_NewState_NewPolitics #نئی_سیاست_نئی_ریاست_صرف_خلافت #Time4Khilafah #اب_وقت_خلافت_ہے_آیا #KhilafahEndsUSRaj #RejectDemocracyEstablishKhilafah #RejectIMF_EstablishKhilafah #Pakistan4Khilafah #KhilafahEconomics