Tuesday, January 31, 2023

#تبلیغی_جماعت کا مقصد بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے کام کا مقصد احیائے سنت ہے ۔ اس کام کا مقصد کام کرنے والے کی ذاتی اصلاح پہلے ہے ۔ غیر مسلموں کو براہ راست تبلیغ کرنا یہ اس کام کا مقصد نہیں ہے ۔ تبلیغی جماعت کا نام سن کر ذہن میں جو پہلا خاکہ آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جماعت غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کے لیے بنائی گئی ہے ۔ ہونا تو یہی چاہیے مگر اس کام کا اولین مقصد سب سے پہلے کام کرنے والے کی ذاتی اصلاح ہے کہ کام کرنے والے کا خود سب سے پہلے اللہ کی ذات عالی پر مضبوط یقین ہو ۔ اور کام کرنے والے کی اپنی ذاتی زندگی سب سے زیادہ سنتوں کی پابند ہو۔ اس کے بعد باقی مسلمانوں کی فکر کرنی ہے کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی ایمانی اور عملی حالت بہت کمزور ہے ۔ اس وقت مسلمان اجتماعی طور پر اللہ کی کھلی نافرمانیوں میں مبتلا ہیں ۔ مسلمانوں کے اعمال ایسے نہیں ہیں کہ وہ غیر مسلموں کو اپنے اعمال سے متاثر کر سکیں ۔ اس وقت اجتماعی طور پر مسلمانوں کے معاملات معاشرت اخلاق بگڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کے بد اعمال ہی غیر مسلموں کی ہدایت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ اس لیے مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایمان و یقین کی دعوت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ اس وقت غیر مسلموں کو براہ راست تبلیغ کی نہیں بلکہ ان کے لیے اللّٰہ سے رو رو کر ہدایت کی دعا کرنے کی ضرورت ۔ اپنے نیک اعمال سے ان تک عملی دعوت دینے کی ضرورت ہے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا ان کی طرف سے ملنے والی نفرت کو برداشت کرنا ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا تاکہ وہ اسلام سے متاثر ہوں یہ دعوت و تبلیغ کی محنت کا بنیادی مقصد ہے ۔
حضرت مفتی شفیع ؒصاحب کا تعلیمی تصور: حرا فاونڈیشن کے اجلاس میں حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کے صدارتی خطاب سے مستفاد مفتی صاحب کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ  1-تقسیم کے بعد مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے بجا طورپر یہ محسوس کیا تها کہ مسلمانوں کو ایک نئے نظام تعلیم کی ضرورت ہے. 2-انگریزی دور میں دینی وراثت کی حفاظت کے لئے جو نظام تعلیم قائم ہوئے پاکستان قائم ہوجانے کے بعد وہ اندیشہ باقی نہیں رہا تها جو انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے علوم اسلامی کو لاحق تها. 3-مفتی صاحب نے مسلمانوں کے قدیم اور جامع نظام تعلیم کا حوالہ دیا ہے اور اس کی طرف دهیرے دهیرے مراجعت کے عزم کا بهی اظہار کیا ہے. 4-حکومت پر عدم اطمینان  کی وجہ سے مدارس دینیہ کی اسی حال پر سرگرم رکهنے کا مشورہ دیا ہے. 5-عوامی نظام تعلیم کی مجموعی سطح اوربعد ازاں اختصاص اور دینی اور تمدنی علوم کے تفصیلی اداروں کا ایک ہلکا سا تصور بهی پیش فرمایا ہے. 6-عصری دانشگاهوں اور اس کی تقلیدی روش پر معقول سوالات اور تنقید بهی کی ہے. 7-الحرا فاونڈیشن اسکول کے اغراض ومقاصد بهی زیر بحث لائے گئے. مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے پاکستان کے تناظر میں ایک نئےنظام تعلیم کی جو بات کہی ہے وہ صد فی صد درست ہے .اور وہاں اس حوالہ سے آج تک بحث جاری ہے کہ ملک کا جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم جو ریاست کے نظریہ حیات ،اسلامی فلسفہ تعلیم اور قومی تمدنی ترقی کا ضامن ہو، کیا ہو سکتا ہے؟مگر پچهلے 70سالوں میں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں .تقریبا ہر حکومت نے اس سلسلہ میں قومی سطح پر تجاویز وسفارشات پیش کی اور وہ سب سرد بستوں میں منجمد ہو گئیں .آج بهی وہاں ذریعہ تعلیم کے سلسلہ میں کوئی واضح موقف سرکاری سطح پر طے نہیں کیا جاسکا.اسلامی ریاست میں آج بهی لارڈ میکالے کا نظام تعلیم جاری ہے. حیرت ہے !!!!!! ہندوستان ہی کی طرح وہاں بهی مدارس کچه جزوی مراعات کے سوا عوامی چندوں پر چل رہے ہیں.یہ خبر بهی حیرت انگیز ہے کہ حکومت ان مدارس کو اپنے لئے خطرہ قرار دیتی ہے.البتہ عوام کاتعاون اور ان کا سپورٹ برابر جاری ہے. اس حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کا حال تقریبا یکساں ہے .فرق صرف یہ ہے کہ ان کو ایک نئے نظام تعلیم کے قیام کا پورا اختیار حاصل ہونے کے باوجود نہ کرسکے اور ہندوستان میں مسلم قیادت مذہبی تعلیم کے لئے اپنے ادارے بنانے کی آزادی کو بامعنی بنانے کی طرف توجہ نہ کرسکے. مسلمانوں کے نظام تعلیم کے سلسلہ میں بحث کرنے والوں کو یہ نہیں بهولنا چاہئے کہ بر صغیر کے مسلمان اپنی مذہبی قیادت پر زیادہ اعتماد رکهتے ہیں .ان کو اللہ رسول اور آخرت زیادہ عزیز ہے خواہ غفلت اور لاوبالی پن میں وہ دین پر عمل پیرا دکهائی نہ دیتے ہوں .مگر اللہ اور رسول کے حوالے سے ہر ناگوار بات قبول کرنے کا مجموعی وصف ان میں موجود ہے. مذہبی قیادت نے مدارس قائم کئے تو عوام نے ان کا پورا تعاون کیا خواہ اپنے بچوں کو ان مدارس میں نہیں بهیجا .مگر مذہبی معاملات میں علماء پر اعتماد برقرار رہا . اسلامی تعلیمی تاریخ کا مطالعہ کیجئے ... تعلیم کا بوجه اکثر عوام نے اپنے کاندهے پر برداشت کیا ہے .ریاست نے امداد ضرور کی ہے مگر سرکاری سرپرستی میں ریاستی تعلیمی نظام بہت کم نظر آتا ہے . عوام کا رشتہ ، ریاست سےزیادہ علماء کے ساتھ طاقتور رہا ہے.ایسے واقعات آپ کو ضرور مل جائیں گے کہ بادشاہ کی تکریم کے لئے عوام اتنی بے قرار نہیں ہوئی ہوگی جتنی کسی صاحب علم وتقوی پر فریفتہ ہونے کے لئے پروانوں کی طرح امڈپڑی ہے.اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے بهی اور اس گئے گزرے دور میں بهی علم وتقوی کا سکہ عوام کے دلوں پر طاقت واقتدارکے اثرسے زیادہ پایا گیا ہے. اس لئے تعلیم کے سلسلہ میں علماء کی رائے ہی نےملت کو ماضی میں انگریزیت سے دور رکها تها اور آئندہ درست سمت پر بهی استوار کرے گی .اس لئے کون سا علم اللہ ورسول اور آخرت میں کامیاب کرسکتا ہے اور کون سی تعلیم اللہ رسول سے دور کر دے گی ؟ اس سوال کے جواب کے لئے امت کسی عصری درسگاه سے فارغ دانشور کی طرف رجوع نہیں کرے گی .اور علماء کا اس سلسلہ میں درست اور دوراندیشانہ فیصلہ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے. ملاحظہ فرمائیں ان سوالات کا جواب کس کے ذمہ ہے 1-علم نافع کون ساہے ؟  2-کون سے علم کی تحصیل کے لئے قرآن وحدیث میں فضائل وارد ہوئے ہیں ؟ 3-کون سا علم فرض ہے ؟اور اس کی تحصیل کے لئے قوم کو کن اداروں کی طرف رجوع کرنا چاہئے ؟ 4-  فرض علی الکفایہ میں کون کون سے علوم داخل ہیں ؟ اور ان کو مسلمان کہاں حاصل کر سکتے ہیں؟ 5-مدارس کا نظام تعلیم فرض عین کی تعلیم دے رہا ہے یا فرض کفایہ کی؟ 6-اسکولی تعلیم کے ذریعہ خدمت اسلام ومسلم کے کن شعبوں کی ضرورت پوری ہوگی ؟ 7-مسلمانوں کو بہتر تعلیم کے لئے کن اداروں کی طرف رجوع کرنا چاہئے ؟جو ان کی دینی اور تمدنی ضروریات میں ان کو خود کفیل بناسکتے ہیں !! یہ اور ان جیسے دسیوں سوال ہیں، جس میں علماء کے مجموعی موقف کے بغیر قوم درست سمت پر رواں دواں نہیں ہوسکتی.علی الانفراد دینی اور عصری تعلیم کے بے شمار ادارے قائم ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بهی ہوتے رہیں گے مگر سب کی حیثیت دیڑه اینٹ کی الگ مسجد کی ہوگی اس سے تعلیمی لحاظ سے مسلمانوں کی مجموعی حالت کبهی بدل نہیں سکتی اور نہ ہی ان کی زندگی کا کوئی واحد نصب العین متعیین ہوسکتاہے .اور بلاشبہ اسکی ذمہ داری صرف اور صرف مذہبی قیادت کے سر ہوگی. ابوحسان پوترک President: Olive Education &welfare society, pune

Monday, January 30, 2023

*انسانی زندگی پر نام کی تاثیر* سوال نام انسان کی زندگی پر اثر کرتا ہے یا نہیں؟ جواب ناموں کے اثرات انسان پر پڑسکتے ہیں، لہٰذا نام رکھنے کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ یا تو انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام، صحابیات مکرمات اور نیک مردوں یا عورتوں کے نام پر اولاد کا نام رکھا جائے یا اچھے معنیٰ پر مشتمل نام رکھا جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔ موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري (2/ 153): "أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رحمهة الله عليه - قَالَ لِرَجُلٍ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ جَمْرَةُ، قَالَ: ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ: ابن من؟ قَالَ: ابن الْحُرَقَةِ، قَالَ: أَيْنَ مَسْكَنُكَ؟ قَالَ: بِحَرَّةِ النَّارِ، قَالَ: بِأَيِّهَا؟ قَالَ: بِذَاتِ لَظًى، قَالَ عُمَرُ: أَدْرِكْ أَهْلَكَ فَقَدِ احْتَرَقُوا، قَالَ: فَكَانَ كَمَا قَالَ عُمَرُ". فقط والله اعلم فتوی نمبر : 144111200460 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
فلسطین پر اسرائیلی مظالم کا لا متناہی سلسلہ اور امریکہ کی جانبداری فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی داستان ایسا کرب ناک اور تکلیف دہ سلسلہ ہے جس میں اس بات کا فیصلہ کر پانا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس واقعہ پر زیادہ توجہ دی جائے اور اس کے تمام پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا جائے کیونکہ فلسطینی عوام کی زندگی کا ہر روز نہیں بلکہ ہر لمحہ اپنے وجود کی جنگ میں گزرتا ہے۔ غزہ اور ویسٹ بینک کوئی آزاد علاقہ نہیں ہے کہ جہاں آزادی کے ساتھ فلسطینی زندگی گزار سکیں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا کوئی پلان تیار کر سکیں۔ وہ تو ایک کھلے جیل میں جیتے ہیں جہاں پر اسرائیلی فوج، صہیونی نو آبادکار اور اسرائیل کی پولیس مشترک طور پر فلسطینیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اگر کسی نے ادنی درجہ میں بھی مزاحمت کی تو اسرائیلی بندوق کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ہر روز ہی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس برس اب تک 30 فلسطینی مارے جا چکے ہیں ل۔ لیکن 26 جنوری کو جنین میں فلسطینیوں کا جس وحشت ناکی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے وہ گزشتہ کئی برسوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔ جنین میں بسنے والے دس فلسطینیوں کے قتل کی ضرورت اسرائیل کو کیا پڑی تھی جب کہ وہاں کے حالات پہلے ہی سے مسلسل خراب چل رہے تھے اور ضرورت اس بات کی متقاضی تھی کہ مزید بحران سے اس معاشرہ کو بچایا جائے۔ لیکن شاید نتنیاہو کی قیادت میں تشکیل پانے والی اسرائیل کی حالیہ حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کے حلیفوں میں اسرائیل کی وہ مذہبی اور صہیونی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں جو اپنے تشدد آمیز افکار اور فلسطینیوں کے تئیں سخت موقف کے لئے معروف ہیں جن میں داخلی سیکورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر سر فہرست ہیں۔ جنین پر کئے گئے حملہ اور اس میں دس فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیلی فوج اور جنرل سیکورٹی سسٹم شاباک کا جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ گویر برانڈ اسرائیلی پالیسیاں فلسطینیوں پر نافذ کی جا رہی ہیں۔ بیان میں اسرائیلی ملٹری کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ جنین میں فوجی اور پولیس کارروائی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو پختہ معلومات حاصل ہوئی تھیں کہ “جہاد اسلامی” کے ایک سیل نے اسرائیل کے کسی شہر میں خطرناک مسلح حملہ کا پلان تیار کیا تھا۔ اسرائیلی دعوی کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے جنین کیمپ پر چھاپہ اس لئے نہیں مارا تھا کہ کسی کو قتل کرے بلکہ ان کا مقصد اس پلان کے سب سے بڑے منصوبہ ساز کو گرفتار کرنا تھا جس کا تعلق “جہاد اسلامی” سے بتایا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایسے کسی شخص کی کوئی پہچان یا اس سے متعلق تفصیلات کو پیش نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی حملہ کی مزید تفصیل جو اسرائیلی مصادر سے ملی ہے اس کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنین میں واقع اس عمارت کو اپنے حصار میں لیا تھا جس میں مبینہ طور پر مسلح افراد چھپے ہوئے تھے۔ اسرائیلی فورسز نے دو مسلح افراد کو عمارت سے بھاگتے ہوئے دیکھا اور ان پر گولیاں چلاکر انہیں ختم کر دیا۔ مسلح افراد میں سے ایک شخص جو اسرائیل کو مطلوب تھا اس نے خود کو اسرائیلی فوج کے حوالہ کر دیا اور اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج کے وہ افراد عمارت میں داخل ہوئے جو دھماکہ خیز مادوں کو تباہ کرنے کے ماہر ہیں کیونکہ ان کا مقصد ان دھماکہ خیز مادوں کو تباہ کرنا تھا جن کا استعمال مبینہ طور پر فلسطینی مسلحہ کار کرنے والے تھے۔ لیکن عمارت میں انہیں چوتھا مسلح شخص نظر آیا جس پر گولی چلائی گئی اور اس کو گرفتار کیا جا رہا تھا کہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز پر گولی باری ہونے لگی جس کے جواب اسرائیلی فورسز کو گولی چلانی پڑی اور اس کے نتیجہ میں کئی لوگ زخمی ہوگئے لیکن اسرائیلی فورسز میں سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اسرائیل کے ذریعہ پیش کردہ ان تفصیلات سے ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے گویا یہ ایک جائز اقدام تھا جس کا مقصد اسرائیل کے عوام کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن جنین قتل کی جو تفصیلات دیگر مصادر سے موصول ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فورسز کا مقصد مبینہ ملزمین کو گرفتا کرنا نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے انہیں قتل کرکے فلسطینیوں پر قائم خوف و ہراس کے ماحول کو مزید سخت بنانا تھا اور اسی لئے وہ دن کے بالکل آغاز میں ہی جنین کیمپ میں اس طرح داخل ہوئے گویا دودھ تقسیم کرنے والی عام سی گاڑی ہو۔ اس گاڑی میں سوار ہوکر وہ گھر میں گئے جہاں پر مبینہ فلسطینی مسلحین کے چھپے ہونے کا امکان تھا۔ اس سے قبل ایک ڈرون کے ذریعہ سے اس گھر پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ جب اسرائیلی فوج وہاں پہونچی تو جھڑپیں شروع ہوگئیں اور یہ جھڑپیں صرف گھر کے آس پاس تک محدود نہیں رہیں بلکہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیل گئیں۔ اس جھڑپ کے نتیجہ میں 10 فلسطینی جاں بحق ہوگئے جن میں ایک معمر فلسطینی خاتون بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ 20 دیگر زخمی بھی ہوئے جن میں سے چار کی حالت نازک ہے جیسا کہ فلسطینی وزارت صحت نے بتایا ہے۔ ایک فلسطینی نوجوان کو کیمپ کے باہر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کا دعوی کس قدر بے بنیاد ہے۔ اسرائیل کے دعوی کے بطلان کی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کوئی تنسیق اور کوآرڈینیشن کرنا ضروری نہیں سمجھا جب کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جو سیکورٹی معاہدہ تھا اس کے تحت ایسا کرنا ضروری تھا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس حملہ کے ردعمل کے طور پر اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی کوآرڈینیشن کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بات کا اعلان فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسی لمحہ سے یہ سمجھتی ہے کہ اب سیکورٹی کوآرڈینیشن کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ ساتھ ہی فلسطینی صدر محمود عباس نے جنین حملہ کے بعد یہ اعلان بھی کر دیا کہ اب فلسطینی عوام اسرائیلی دہشت گردی کا مقابلہ مزید شدت سے کریں۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک ذمہ دار اسٹیٹ کی طرح برتاؤ نہیں کرتا ہے بلکہ ایک غیر ذمہ دار مسلح جماعت کی ذہنیت سے کام کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطینیوں کی جان و مال کا شدید نقصان ہو رہا ہے بلکہ خود اسرائیل کے لوگ بھی امن و امان سے محروم ہو رہے ہیں اور پورا معاشرہ شدت پسندی کی سخت گرفت میں ہے۔ جنین جیسے اسرائیلی حملوں کے منفی نتائج کو اس اعتبار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس حملہ کے بعد ایک نو عمر فلسطینی نوجوان نے مشرقی یروشلم میں واقع ایک یہودی عبادت گاہ پر پستول سے حملہ کر دیا جس میں سات عبادت گزار مارے گئے اور کئی زخمی ہوگئے۔ گویا اسرائیل نے جو ہالیسیاں تیار کی ہیں ان کی روشنی میں ایسے معاشرہ کا تصور مفقود نظر آتا ہے جس کے تحت رواداری اور بقاء باہم کا مزاج پروان چڑھ سکے۔ خود اسرائیلی فورسز کے مطابق اس حملہ میں ملوث فلسطینی نوجوان جس کی عمر صرف 13 برس تھی اس کا تعلق کسی مسلح مزاحمتی گروپ سے نہیں تھا اور نہ ہی اس سے قبل وہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پایا گیا ہے۔ گویا عام انسان اور نوخیز عمر کے بچے بھی اسرائیلی پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور بے بسی اور غصہ کے اثرات سے مغلوب ہو کر وہ اس قسم کے اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سماجی اور سیاسی بحران کو ختم کرتی لیکن اس کے برعکس نتنیاہو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر اسرائیلی اب بندوق بردار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے اور قتل و تشدد کی فضا میں مزید اضافہ ہوگا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن اسرائیل، مصر اور فلسطین کے دورہ پر ہیں اور جس کا اعلان امریکہ نے جنین قتل کے واقعہ سے چند گھنٹے قبل ہی کیا تھا۔ یہ دورہ 29 جنوری سے لے کر 31 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس سے قبل سی آئی اے کے سربراہ نتنیاہو سے مل کر اور بات چیت کر کے جا چکے ہیں اور اگلے مہینہ نتنیاہو کے امریکہ دورہ کی تیاریوں پر گفتگو کئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ نے مشرقی یروشلم میں ہوئے حملہ کی مذمت تو کی لیکن جنین میں قتل ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں انصاف کی دو بات کہنے کے بجائے بائڈن نے اسرائیل کی سیکورٹی کی ضمانت پر لکچر دے ڈالا۔ یورپین یونین نے بھی آخری حربہ کے طور پر مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کی حمایت اسرائیل کو دے ڈالی۔ موجودہ دور کی عالمی قیادت کا یہ کھلا تضاد ہی فلسطین کے مسائل کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ زبانی طور پر گرچہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں بائڈن کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اسرائیل کی نو آبادکاریوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے۔ ڈاکٹر محمد ضیاءاللہ

Thursday, January 26, 2023

جمہوریت کفر ہے اسلام سے متصادم نظام ہے اور مغرب کا بنایا ہوا ہے اور غلام ملکوں پر اور سارے ممالک پر جبرا ظلما مسلط کیا ہوا نظام ہے شیخ السلام تقی عثمانی دامت برکاتھم پاکستان کے موجودہ نظام میں حاکمیت اللہ کی مانتے ہیں پھر ایک منفرد دستور کی بھی بات کرتے ہیں تعجب ہے! قران وسنت کے خلا ف قانون نہیں بنایاجائے گا یہ جملہ ہی بتارہا ہے کہ حاکمیت اللہ کی نہیں ہے اور قوانین قران وسنت کے خلاف ہیں ان کو بدل سکتے ہیں یہ جملہ بھی دلالت کررہا ہے کہ کفریہ قوانین کا آئین ہے نیز آگے فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کو بدلنے کے طریقے کے مُطابق کام نہیں کیا آگے فرماتے ہیں شریعت کے نفاذ میں پیش رفت کمزور رہی یہ سب خود کہہ رہے ہیں پھر بھی زعم ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے جبکہ پاکستانی جمہوری وکفریہ ریاست ہے جہاں پر دوتہائی لوگ متفق ہو کر جو چاہےقوانین بناسکتے ہیں قیامت تک بھی آپ جمہوری نظام میں شریعت نافذ نہیں کرسکتے یہ جمہوری ملا اسلامی نظام سے نابلد اور ناواقف ہیں خ لاف ت ہی اسلامی نظام ہے جو حضور وصحابہ نے دیا اور جس نے پوری دنیا پر تیرہ سو سال تک اپنا لوہا بنوایا جس کو انگریزوں نے ہزار سازشوں سے 1924 کو ختم کیا اور سوسال تک اس پر پابندی بھی لگادی

Wednesday, January 25, 2023

بنگلور کی اقرأ انٹرنیشنل اسکول نے تاریخ رقم کردی* از : سید عبد المنتقم رشادی گیارہ سال قبل بلند مقاصد اور توکل علی اللہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرہ سے شروع کی گئی اقرأ انٹرنیشنل اسکول آج برٹش نصاب تعلیم کی ایک مثالی اسکول بن چکی ہے اور ایک چھوٹا سا پودہ آج تناور اور پھل دار درخت میں تبدیل ہوچکا ہے. اقرأ انٹرنیشنل اسکول مسلم انتظامیہ کے ماتحت چلنے والی ایک ایسی ماڈل اور ماڈرن انگلش پرائیویٹ اسکول ہے جہاں معیاری تعلیم کے ساتھ انگریزی میں دینی تعلیم اور حفظ قرآن کو بھی یکساں اہمیت حاصل ہے اقرأ انٹرنیشنل اسکول میں صاحبِ ثروت اور مڈل کلاس فیملی کے بچے ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یہاں کے معلم و معلمات پورے اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں 24 جنوری بروزِ منگل اقرأ انٹرنیشنل اسکول کے آنول ڈے کے موقع پر چودہ خوش نصیب حافظِ قرآن بچوں کی شاندار دستار بندی عمل میں لائی گئی جن میں آٹھ لڑکے حافظ قرآن بنے تو چھ لڑکیاں بھی حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوئی. ایسا حسین منظر آج تک آنکھوں نے کسی مدرسہ کی دستاربندی میں نہ دیکھا ہوگا کہ ایک طرف اسکول کی انتظامیہ حافظ قرآن طلبہ و طالبات کی خمار پوشی کے ذریعے اعزاز اور حوصلہ افزائی فرما رہے ہو تو دوسری طرف ان حافظِ قرآن بچوں نے اپنے والدین کو اسٹیج پر بلاکر عزت افزائی کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے انکو سر کا تاج پہنارہے ہو. جذبات سے بھرپور اس قابلِ دید منظر کو دیکھ کر والدین کی آنکھیں نم ہوگئی اور خوشی سے آنسو جھلک پڑے. میدانِ حشر میں حافظِ قرآن کے والدین کو ہیرے موتیوں کا تاج پہنائے جانے کا ان بچوں نے ایک عملی تصور پیش کرکے تمام ناظرین کے ایمان کو تر و تازہ اور قرآن سے قریب کردیا اور ہر ایک کے دل میں یہ تمنا جاگنے لگی کہ میرا بچہ بھی ایک انجینئر کے ساتھ حافظ قرآن بھی ہو، ڈاکٹر کے ساتھ عالمِ دین بھی ہو اور انگریزی کا ماہرِ زبان ہونے کے ساتھ قارئ قرآن بھی ہو. پچھلے دو دنوں سے یوروپ کے ایک ملک سِوِڈین میں قرآن کے نسخہ کو جلانے کی مذموم حرکت اخبار کی سرخی اور ہر چینل کی بریکنگ نیوز بن چکی ہے تو دوسری طرف اقرأ انٹرنیشنل اسکول کے یہ حافظ قرآن بچے ساری قوم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آؤ یہاں قرآن کا زندہ معجزہ دیکھو. آج اسکول میں پڑھنے والی مسلم بیٹیوں کو بے حجاب کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں تو دوسری طرف اقرأ انٹرنیشنل سکول کی با حجاب طالبات نے سائنس و دیگر مضامین میں اور انگلش لب و لہجہ میں تقریری صلاحیتوں کا لوہا منواکر یہ ثابت کر رہی ہیں کہ حجاب ہماری ترقی کی راہ میں ہرگز حائل نہیں. ایک عرصہ قبل اسکولوں میں دینی تعلیم کو ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے پڑھانے کا بلکل رجحان نہیں تھا لیکن مارل سائنس کو ایک لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھانے کی اجازت تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کے علماء نے مسلم منیجمنٹ اسکولز میں دینی تعلیم کے نصاب کو متعارف کرانے کی بھرپور کوشش فرمائی لیکن اسکے باوجود اکثر اسکولوں میں دینی تعلیم کی حیثیت ایک خانہ پُری سے زیادہ کچھ نہیں اور اسکول کی انتظامیہ، طلبہ اور والدین کی نظروں میں دینیات پڑھانے والے اساتذہ سے زیادہ انگریزی، سائنس وغیرہ کے ٹیچرز کی اہمیت زیادہ رہی ہے لیکن اسکے برخلاف اقرأ انٹرنیشنل اسکول نے طلبہ و والدین کی نظروں میں علماء و حفاظ کا مقام بلند کردیا اور انکی عزت و آبرو میں اضافہ کردیا. یہاں علماء اور عصری علوم کے ٹیچرز ایک سکے کے دو رخ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں اور دونوں کا ھدف ایک ہے کہ دنیاوی تعلیم میں سرخروئی ہماری زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے تو دینی تعلیم کا حصول ہمارا مقصدِ حیات ہے. اقرأ انٹرنیشنل اسکول کی اس تیز رفتار ترقی کا راز یقیناً اس اسکول کے بانی و چیرمین جناب نذیر احمد صاحب اور انکے اہلِ خانہ کی سوچ و فکر، عزائم و کاوشوں اور بہترین منصوبہ بندی و پلاننگ کا نتیجہ ہے اور مولانا قاری محمد اقبال رشادی صاحب امام مسجدِ عیدگاہ بلال کی طلبہ پر خاص توجہات اور ذاتی دلچسپی کا ثمرہ ہے. اسی طرح لائقِ صد تحسین ہیں مولانا اکرم ندوی صاحب اور حافظ صبیح انور صاحب جو روزِ اول سے ادارہ کو اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے چلے آئے ہیں. قابلِ تعریف اور مبارک بادی کے حقدار ہیں یہاں کے علماء، أساتذہ و معلمات جو بچوں کی تعلیم و تربیت و شخصیت سازی میں دل و جان سے مصروف نظر آتے ہیں. اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے یہاں کے طلبہ و طالبات اور انکے والدین کو جو اقرأ انٹرنیشنل اسکول کی فکر سے متأثر ہوکر اور اس ادارہ کا انتخاب فرماکر اسکی ترقی میں اہم کردار ادا فرمایا. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو نظرِ بد اور حاسدین کے حسد اور ہر قسم کی سازشوں سے حفاظت فرماکر مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب کا ذریعہ بنادیں. سید عبد المنتقم رشادی. [1/26, 7:26 AM] HIFZUR RAHMN SB GP: ماشاءاللہ ہر اسکول میں اگر عصری علوم کیساتھ دینی علوم کے حصول کا بھی موقع فراہم کیا جائے تو بہت اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ اقراء انٹر نیشنل اسکول انتظامیہ عصری علوم کیساتھ جہاں چودہ حفاظ کی دستاربندی کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے وہیں ایک گستاخ صحابہ بدنام زمانہ سلمان رشدی کے چیلے کو مہمان بناکر اور پورے شہر میں انتشار کا سبب بنانے کی بناء پر قابل مذمت ہے۔ جو لوگ بھی سلمان نقوی کو بلانے اور لاکھ گزارشیں کرنے کے باوجود اسکو خالی ہاتھ واپس بھیجنے کیلئے رضامند نہیں ہوئے اور اپنی ضد و ہٹ دھرمی پر قائم رہے انہوں نے بھی یہ ثبوت دیدیا کہ تم کو صحابہ پسند ہم کو انکا دشمن پسند۔ سلمان نقوی کو پورے ملک میں کہیں بھی بلاکر عزت افزائی کرنیوالے یا تقریریں کروانے والے شیعی اور دین دار انجمن ذہنیت اور لامذہبیت کے حامی تصور کئے جائینگے۔ لہذا ایسے جمہور سے کٹے ہوئے گستاخ صحابہ کو کہیں بھی بلاکر اپنے نام کیساتھ دشمن صحابہ کی نسبت نہ جوڑیں۔ میدان محشر میں جب صحابہ اللہ کی عدالت میں سلمان نقوی سے جرح کرینگے کہ بتا ہم نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تو ہمیں منافق باغی طاغی درباری ملا اور پتہ نہیں کیا کیا کہا کرتا تو کیا جواب دینگے۔ اور جب ہماری طرف بھی رخ کرینگے اور کہیں گے او ظالمو نام و نمود کے بھوکے درندو بتاؤ ہم نے تمہیں کیا تکلیف دی تھی کہ تم بھی ہمارے تئیں بغض رکھ کر ہمیں گالیاں دینے والے ملا اجہل سے پینگیں بڑھارہے تھے چلو اللہ کی عدالت میں ہمیں ظالم طاغی باغی منافق درباری ملا ثابت کرو تو کیا بنے گا تمہارا۔ جبکہ صحابہ کے ہی حق میں خود سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہونگے تو بتاؤ تمہارے اور تمہارے آقاؤں کے بارے میں اللہ کی عدالت سے کیا فیصلہ ہوگا۔ خدارا ہر زمانے کے سواد اعظم اور جمہور سے ہٹ کر کر اپنی دنیا و آخرت تباہ نہ کریں۔ دنیا بہرصورت چھوٹ جانے والی ہے اور یہاں کی شہرت دولت و عزت سب ختم ہوجانے والی ہے۔ اہل اللہ و صاحب دل اکابر سے منسوب ہوکر اپنے قلوب کی اصلاح کرکے آخرت بنانے کی فکر کریں یہی سمجھدار کیلئے زیادہ مناسب ہے۔ اور ایسے بھٹکے ہوئے متکبر گھمنڈی ملا کے جال میں نہ پڑیں۔ [1/26, 7:47 AM] +91 88618 47269: اقرأ انٹر نیشنل اسکول کے نام کھلا خط جناب بی ڈی اے نذیر صاحب ! اللہ آپ کی خدمات کو عزت کی نظر سے دیکھے اور مزید خدمات اخلاص کے ساتھ لیتا رہے !! آپ اس واقعہ کو ہرگز بھلا نہیں سکتے کہ کئی سال پہلے گستاخ صحابہ کو دعوت دینے اور شہر میں انتشار کا سبب بننے اور بنانے کی پاداش میں علماء کی ایک مجلس میں ایک بڑے معتبر عالم دین کی طرف سے آپ کو ذلت کے ساتھ باہر کا راستہ دکھایا گیا تھا ! پھر بھی آپ نے وہ غلطی دہرائی اور آپ کو اس کا احساس تک نہیں ہوا!! تعجب ہیکہ آپ دعوت و تبلیغ کا مزاج بھی رکھتے ہیں علماء دوستی کے دعویدار بھی ہیں اور پھر آپ کی جانب سے یہ حرکت کہ ایک “متفق علیہ گستاخ صحابہ” کو آپ گھاس ڈالتے نظر آتے ہیں ؟ آپ کا مقصد اللہ بہتر جانتے ہیں ویسے نظر تو یہ آتا ہے ہیکہ آپ کو علماء کا آپس میں بھڑنا ، انتشار ہوتا ہوا دیکھنا ، صحابہ کی شان میں گستاخی ہوتے ہوئے بسہولت ہضم کرجانا ، جانے یا انجانے میں پسندیدہ معلوم ہوتا ہے ! آپ کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور اپنا ایجوکیٹیڈ کیرئیر اس طرح کے دھبوں سے پاک رکھنا چاہیے ! علماء حق کا ساتھ دیجیے اور ان کی رائے کا احترام کیجیے دنیا وآخرت کا یوں خسارہ اپنے سر نہ لیجئے !!! کاش اقرأ انٹر نیشنل سکول کے وہ حفاظ و علماء جو وہاں تدریس پر مامور ہیں اس پر آواز اٹھاتے اور جناب مذکور کے اس اقدام پر عمل کرنے سے انہیں روکتے؛ کہ یہ ان کا فرض منصبی تھا !! اگر یہ علماء جناب مذکور سے یک زبان یہ کہتے کہ “اگر وہ شخص یہاں آتا ہے جو صحابہ کا گستاخ ہے تو ہم لوگ آپ کے یہاں خدمت کرنے سے عاجز ہیں آپ کسی اور کا انتظام کر لیجئے” !! تو بی ڈی اے نذیر صاحب آپ کی حق پرستی کے آگے مجبور ہوتے اور یوں آپ حضرات حق پرست علما میں قابل مبارکباد ہوتے ؛لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا ! اللہ معاف فرمائے !! اور ارباب سکول کو دین کی صحیح سمجھ دے یاد رہے کہ دین کا ایک جسم ہے اور ایک روح ،آپ کے یہاں جسم تو بڑا ہٹا کٹا توانا ہے ماشاء اللہ لیکن آپ حضرات کی ان لغزشوں سے دین کی روح سخت متاثر ہے ! وما علینا الا البلاغ !! امین افسر قاسمی [1/26, 8:02 AM] HIFZUR RAHMN SB GP: افففففففففففففففف یااللہ یہ پہلے بھی اسی طرح کی ضد و ہٹ دھرمی کرچکے ہیں۔؟؟؟ پھر تو یہ سوائے شرارت کے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے دوبارہ اس بدنام زمانہ کو بلاکر پورے شہر کے علماء کو چڑھایا اور للکارا ہے۔ آپ نے درست کہا کہ انکو علماء کا آپس میں لڑنا بھڑنا اچھا لگتا ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے ایک بدنام زمانہ مختلف فیہ شیعیت و قادیانیت زدہ لڑاکو شیطان کو مدعو کرکے انتشار کا سامان فراہم کیا ہے۔ وہاں پڑھانے والے تمام علماء و حفاظ میں کچھ دینی غیرت باقی ہے تو سب کو احتجاجا مستعفی ہوجانا چاہیئے۔ اور شہر کے مقتدر علماء کرام بھی کچھ اس طرح کو پیغام جاری فرمادیتے تو بہت اچھا ہوتا۔ کہ ایسے ملعونوں کو بلانے والوں اور پناہ دینے والوں کا بائیکاٹ کیا جائیگا۔ ایسے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کے مستقبل پر نظر ثانی کریں۔

Tuesday, January 24, 2023

*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم* *سلمان ندوی کے عقائد* سلمان ندوی کے چند گمراہ کن عقائد و نظریات کا مختصر خلاصہ جو اس کی کتب اور تقریروں سے ظاہر و باہر ہے درج ذیل ہے۔ عقیدہ نمبر 1۔ خلافت ہتھیانے کے چکر میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے آخری وقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کھل کر مخالفت کی۔ ملخصاً (علماء اہلسنت سے چند سوالات صفحہ 11) عقیدہ نمبر 2 ثقیفہ بنو ساعدہ کے وقت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کو دھوکا دیا اور انھیں بتائے بغیر ہی خود جاکر خلافت کی بیعت کرلی۔ ملخصاً (علماء اہلسنت سے چند سوالات صفحہ 12) عقیدہ نمبر 3 تمام صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت (وصیت خلافت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر فرمائی تھی۔ کما زعم سلمان) کو ٹھکرادیا۔ ملخصاً (علماء اہلسنت سے چند سوالات صفحہ 10) عقیدہ نمبر 4 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے حقدار حضرت ابوبکر و عمر نہیں؛ حضرت علی تھے۔ ملخصاً (علماء اہلسنت سے چند سوالات صفحہ 10,11,12) عقیدہ نمبر 5 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر نہیں؛ حضرت علی تھے۔ ملخصاً (تہذیب علوم الحدیث صفحہ 282) عقیدہ نمبر 6 حضرت علی کے خلاف خروج کرنے والے تمام صحابہ فاسق اور مردود الروایہ والشہادہ ہیں۔ ملخصاً (لفظ صحابہ کے بارے میں غلط فہمیاں صفحہ 18) عقیدہ نمبر7۔ حضرت علی کے خلاف قتال کرنے والے تمام صحابہ باغی طاغی، عاصی، مجرم، قاتل، ظالم اور فاسق ہیں۔ (متعدد تقریروں میں یہ بات ریکارڈ ہے) عقیدہ نمبر 8 چند سابقین اولین اور چند خواص صحابہ کے علاوہ باقی سارے صحابہ مشکوک منافق تھے۔ ملخصاً (اللہ کے بے لاگ قوانین اور فیصلے صفحہ 31 تا 50) عقیدہ نمبر 9۔ صحابہ کی بہت بڑی تعداد کافر و مرتد اور بڑے بڑے جرائم کی مرتکب تھی۔ ملخصاً (تہذیب علوم الحدیث صفحہ 269) عقیدہ نمبر 10 ہر صحابی کی عدالت اسی طرح چیک کی جائے گی جس طرح بعد کے لوگوں کی کی جاتی ہے۔ ملخصاً (لفظ صحابہ کے بارے میں غلط فہمیاں صفحہ 17,18) تلک عشرۃ کاملۃ یہ سلمان زندیق کے کی گمراہیوں کا مختصر سا خاکہ ہے، یہ باتیں جناب کی کتب میں مع شئ زائد موجود ہیں۔ یہ ہم نے صرف نمونہ دکھایا ہے ورنہ اگر ان کی کتب اور تقریروں کی روشنی میں ان کے گمراہ کن نظریات کا احاطہ کیا جائے تو تعداد سینکڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔ کیا کوئی مسلمان ان مذکورہ گمراہیوں کی موجودگی میں سلمان ندوی کی گمراہی میں ذرا بھی شک کرسکتا ہے؟ لعنت اللہ علی شرہ ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
*محترمی ومکرمی جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب /حفظکم اللہ ورعاکم/ اللهم آمين* دعا ہے کہ آپ مع اہلِ خانہ بخیر وعافیت ہوں۔ کل بروز جمعہ بعد نمازِ عصر مسجد بیٹھے آپ کی یاد آنے لگی ، اور تقلّباتِ زمانہ نے آنکھیں اشکبار کیں ، پھر خلوصِ دل سے تڑپ تڑپ کر ؛ رو رو کر آپ کے لیۓ دعائیں کیں ۔ میں حرم شریف سے یہ تحریر آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں ، اس امید میں کہ شاید آپ اس پر سنجيده غور فرمائیں ، *لعل الله يحدث بعد ذلك أمراً.* اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس علمی عبقریت ، جن وہبی کمالات ، اور جس محبوبیت ومقبولیت سے نوازا تھا اس کی مثال شاذ و نادر ہی ہوگی ، آپ کے اقبال کا ایک ایسا دور تھا کہ آپ کا طُوطی بولتا تھا ، آپ دلوں پر حکمرانی کرتے تھے ، آپ کے زورِ خطابت سے عوام وخواص مسحور رہتے تھے ، آپ کی قوتِ گویائی پر عش عش کرتے تھے ، آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مختلف اجلاس میں لاکھوں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے تھے ، آپ کا ایک طویل عرصۂ حیات عظیم محبوبیت ومقبولیت کا گذرا ہے۔ پھر آپ پر ادبار کا ایک ایسا دور آیا کہ آپ کی ساری عزّت وعظمت ورفعت خاک و راکھ ہوگئی ، اور آپ ابھی تک اپنے سارے علمی کمالات وفضائل اور سارے دنیوی اسباب ووسائل کے باوجود ایک عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں ، آخر اس المیہ کے کیا اسباب و وجوہات ہیں ! اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اللہ کی ابدی توفیق ؛ تأييد وتسديد اور علماءِ صالحین واولیاءِ ربّانیّین کی دعائیں ہمیشہ شاملِ حال نہ ہوں تو انسان اپنے سارے علمی کمالات وفضائل ، شہرت ودولت ، اور سارے دنیوی اسباب ووسائل کے باوجود بے راہ ہوجاتا ہے ، اور صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے ، اور ذلّت ورسوائی کے ساتھ عبرت وحسرت کا نشان بن جاتا ہے۔ *إذا لم يكن عونٌ من الله للفتى* *فأولّ ما يجني عليه اجتهاده* مولانا محترم : آپ روز بروز جس راستے پر بھاگ رہے ہیں وہ گہری کھائیوں والا راستہ ہے ، خدارا آپ اپنے روشن وتابناک ماضی کی طرف پلٹیں ، اپنے اوپر رحم کریں ، اللہ کے ولی اپنے والدِ محترم - رحمہ اللہ - کی روح پر ، ملّتِ اسلامیہ ہندیہ پر ترس کھائیں ، مولانا محترم ! آپ کی سمجھ میں آۓ یا نہ آۓ ؛ للّه للّه للّه پلٹ کر آئیں ، اپنے تمام علمی وفکری اجتہادات وتفرّدات کو بالاۓ طاق رکھ کر اپنے کو مخدومِ ملّتِ اسلامیہ ہندیہ اور خود آپ کے محبوب خالِ معظّم ومکرّم حضرت مولانا محمد رابع صاحب - حفظہ اللہ ورعاہ - کے تابع کریں ، اپنے مقام ومرتبہ اور اپنی عظیم‌ نسبتوں کو پہچانیں ، اپنے شاندار ماضی کو دیکھیں ، علماءِ صالحین واولیاءِ ربّانیّین سے وابستہ ہوں ، آپ کو درگاہوں کے چکّر کاٹتے اور در بہ در پھرتے ، اور ایروں غیروں اوباشوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے بہت دِلی دُکھ ہی نہیں بلکہ آنکھیں بے ساختہ اشکبار ہو جاتی ہیں ، اللہ کے واسطہ آپ پلٹ کر واپس آئیں ، اپنے محترم ومکرم ومخدوم ماموں اور بڑوں اور اپنوں سے وابستہ ہوجائیں ، اسی میں آپ کی دینی ودنیوی واخروی سعادت ، اور دارین میں آپ کی عزّت وعظمت ورفعت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس ادبار کے دور سے نکال کر آپ کے حق میں دنیا وآخرت میں خیرِ عظیم کا سبب بناۓ ، آپ کے ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ کو معاف فرمائے ، اور آپ کو اس قعرِ مذلّت سے اٹھا کر پھر اوجِ عزّت وعظمت ورفعت تک ، اور ثریٰ سے ثریّا تک پہونچا دے ، اللهم آمين *آپ کا محبّ ومخلص :* *عبيد الله محي الدين اسحاقي ندوي* *المسجد الحرام. مكة المكرمة*. 1444/6/28 21/1/2023
انتہائی ایمان افروز تحریر ۔ خود لازمی پڑھیں اور ھر مسلمان اسکو کاپی کر کے اپنی وال پر شئیر کرے ۔ 💫 *حضورنبی کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کیے؟* 💫 ایک پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی ﷺ کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی... اس نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ آج رات میں دوبارہ مسلمان ھوا ھوں میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گئے تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ میں نے بتایا اسلام ۔ ہمارے نبی ﷺ کا نام پوچھا میں نے حضرت محمد ﷺ بتایا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور ﷺ کے بارے میں (معاذاللہ ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور ﷺکے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔ آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔ جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔ غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور ﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔ اس لئیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں ۔ میں ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور ﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کررہا ہوں۔ اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم ﷺکا تعارف کراتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں: ◀️ (1) میرے پیارے نبی ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟ سب خاموش رھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔ ◀️ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ◀️ (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ◀️ (4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے - ◀️ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے پیش نظر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور ﷺ نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا. ◀️ (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہوکر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔ ◀️ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم ﷺ سے کرا دیا ۔ ◀️ (8) اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ ◀️ (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔ ◀️ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور ﷺ کے متبنی(منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا. ◀️ (11) اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔ آپ ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں اور کوئی بدبخت حضور ﷺ کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔ *🌹جزی الله عنا سيدنا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بما هو اهله🌹* کم سے کم اسکو اپنے ہر گروپ وہاٹساپ فیس بک اور تمام کونٹیکٹ بک پر شیر کرکے اپنی ذمہ داری نبھائیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )

Monday, January 23, 2023

*🔴 جناب سلمان ندوی باغیانِ دین اور ایمان فروشوں کے ساتھ...!* *✍️سید حسن ذیشان قادری قاسمی* *(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)* جناب سلمان ندوی صاحب نے کل شہر حیدرآباد میں صدیق دیندار انجمن (جو قادیانیوں کا ایک فرقہ ہے) والوں سے کسی مقام پر یا کسی کے دفتر پر ملاقات کی ہے اور خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے انکی لہلہاتی تصویریں سوشل میڈیا پر شاهدِ حقیقت بنی ہوئی ہیں۔ ویسے انکی بہت ساری باتیں انکے گزشتہ بیانات اور انکی شائع شدہ اپنی کتاب کی روشنی میں انھیں کہیں سے کہیں پہنچا چکی ہیں۔ ”اتی الرجل حتف انفہ“ کا مصداق ہے اور ”ضل فلان بسیف لسانہ“ کا مظہر ہیں۔ احقر کا مزاج قلم کی جارحیت کبھی نہیں رہا ہے، مگر اب چونکہ جناب نے سرخ لکیر بھی پار کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا ہم بحیثیت ایک مسلمان اور باعتبار فردِ اہل سنت ان سے پوری طرح اپنی بیزاری اور برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب تک وہ صراحتاً توبہ نہیں کرتے ہم اس وقت تک کوئی کھلا لفظ لکھنے سے احتیاطاً زبان تو روک لیتے ہیں اور یہ فیصلہ اربابِ فتوی اور حضراتِ اصحابِ تحقیق وقضاء کے حوالے کرتے ہیں، مگر سلف وخلف کے بتائے ہوئے واضح اصولوں کی روشنی میں اتنا اظہار کرنا اپنی حمیتِ اِیمانی کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ مرتدین سے ہاتھ ملانے کے بعد اب مزید کیا رہ جاتاہے؟ اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنھما جیسی معتمد ترین اور اساسِ دین ہستیوں کو غاصبینِ خلافت کہنے کے بعد جناب سلمان صاحب کا اس دین سے کیا تعلق رہ جاتا ہے؟ جسے لیکر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور جنکو حضراتِ صحابہ نے امت تک پہنچایا ہے۔ جناب کا کوئی اور نظریہ یا انکی خود ساختہ فکر یا انکا برپا کیا ہوا کوئی نیا مذہب تو ہوسکتا ہے مگر شریعتِ مصطفےٰ سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا انکے ہر طرح کے بیانات اور تمام ملی وقومی سرگرمیوں سے اجتناب ازحد ضروری ہے، اب کسی طرح کا نرم گوشہ اختیار کرنا دینِ مصطفےٰ کے ساتھ کھلی مداہنت ہوگی، البتہ انکے لئے ہمدردانہ طور پر دعائے ھدایت کرتے رہنا چاہئے۔ https://markaztahaffuzeislamhind.blogspot.com/2023/01/blog-post.html *⬅️ جاری کردہ : مرکز تحفظ اسلام ہند* #SalmanNadwiExposed #SalmanNadwi #Khatmenabuwat #AzmateSahaba #NamooseSahaba #MTIH #TIMS

Sunday, January 22, 2023

$$$ مرکز تبلیغ نظام الدین دھلی دعوائے نبوت و مہدویت کی چوکھٹ پر؟ $$$ مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی ھماری دعوت کا قبلہ ھے۔ یہ مرکز تبلیغ قیامت تک قبلہ رھیگا۔ مرکز نظام الدین میں بڑی بڑی سانسیں پیٹ بھر بھر کر لیا کرو تاکہ یہاں کی نورانیت جسم کے اندر خوب پہنچ سکے۔ جس سے ایمان مضبوط ھو۔ بنگلہ والی مسجد کی کوئی خدمت معمولی نہ سمجھو حقیر نہ سمجھو۔ یہ مسجد ایسی ھے جتنی چاھے نیکیاں کمالے حج کو جاکر اتنی نیکیاں نہیں کما سکتا۔ یہاں اللہ کی طرف سے خدمت ایسی کی جاتی ھے جیسے ڈاکٹر گولیاں تقسیم کرتا ھے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد مقدس و متبرک مقام مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد ھے۔ مسجد اقصیٰ اب دعوت کا مرکز باقی نہیں رھا یہاں سے دعوت کا کام نہیں ھورھا ھے دین کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فیصلہ ھے۔ میں سارے عالم کا امیر ھوں نہیں مانتے تو جھنم میں جاؤ۔ ھم تو اللہ اور بندے کے درمیان واسطہ ھیں کیا معمولی بات ھے یہ ؟ اللہ ھدایت دینے پر قدرت رکھتا تو نبیوں کو کیوں بھیجتا۔ سارے عالم کے مسائل اسی مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی سے ھی رجوع ھونگے۔ عالم کے سارے مسائل یہیں مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی سے ھی طئے ھونگے۔ سارے عالم کو یہیں سے رجوع کرنا ھے یہ اللہ کی طرف سے طئے شدہ بات ھے۔ مشورے کہیں ھوں اور مرکز کیہں ھو یہ ھو نہیں سکتا۔ معجزہ نبیوں کے ساتھ خاص نہیں ھے دعوت کے ساتھ خاص ھے۔ دعوت کا کام کرتے رھو کرتے رھو کرتے رھو اللہ تم سے وہ کام لینگے جو نبیوں سے بھی نہیں لیا۔ ملائکہ انبیاء اور صحابہ سے بڑھ کر افضل ایمان ھمکو دیا گیا ھے۔ مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی کو چھوڑنا مسجد نبوی کو چھوڑنے کے برابر ھے۔ مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی کو چھوڑ کر واپس چلے جانا ارتداد ھے۔ مجھے معلوم ھے میں تو اللہ کی طرف سے بول رھا ھوں یہ بات خدا کی قسم کھا کر کہتا ھوں ملائکہ نے تمھارے ساتھ کام کیا ھے یہ پکی بات ھے۔ جتنی نصرتیں صحابہ کی ھوئی ھیں اس سے زیادہ نصرتیں مومن کی ھونے والی ھیں۔ مذکورہ سارے ملفوظات مولوی سعد کاندھلوی کے بیانات۔ کلمہ کی دعوت۔ اعمال دعوت۔ تحفہ دعوت و تبلیغ اور مسجد کی آبادی کی محنت سے ماخوذ ھیں۔ مذکورہ ملفوظات سے اندازہ ھوتا ھے کہ مرکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی اور مولوی سعد کاندھلوی کا اللہ تعالیٰ سے راست تعلق ھے۔ ( نقلِ کفر کفر نہ باشد ) توبہ استغفار کے ساتھ لکھ رھا ھوں۔ جس طرح نبیوں کا تعلق راست اللہ تعالیٰ سے ھوتا ھے۔ ھم کلامی۔ وحی۔ کبھی الھامات خواب وغیرہ کے ذریعہ سے۔ لیکن مولوی سعد کاندھلوی کے لیئے ذرائع بھی نہیں ھیں قسمیہ کہتے ھیں کہ ( میں اللہ کی طرف سے بول رھا ھوں پکی بات ھے ) گویا اللہ سے بات ھو ئی اور میں بول رھا ھوں۔ امام مہدی علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی روایتیں اللہ تعالیٰ سے ھم کلامی کی شاید ھی منقول ھوں ۔ سعدیانی جماعت کی جانب سے یہ باتیں بھی چلائی جاتی رھی ھیں کہ امام مہدی عنقریب 2023ء یا 2024ء آجائنگے مھدویت کا اعلان ھو جائیگا۔ سعدیانیوں کو کسطرح علم ھوا مقررہ سال کا ؟... کیا مولوی سعد صاحب نے اندرونی خفیہ طریقہ سے کہدیاھے؟ سعدیانی جمعہ کے خطبوں بیانات میں کہتے ھیں کہ مو لوی سعد صاحب ھی اپنے ھاتھ سے دجال کو مارینگے۔ سعدیانیوں کی گفتگو میں یہ بات پھیلائی جارھی ھے کہ مولوی سعد صاحب ھی امام مہدی ھیں۔ خود بخود اسطرح کی باتیں کسطرح چلتی ھیں جب تک کسی کی طرف سے چلائی نہ جائیں؟ اور امیرکبیر کی جانب سے کوئی تردید بھی نہیں۔ چنانچہ ظاھر ھو رھا ھے کہ " ھے کچھ بات جس کی پردہ داری ھے۔" گویا کہ کیا خوب چلمن سے لگے بیٹھے ھیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ غلام احمد قادیانی اور شکیل بن حنیف کی طرح بیوقوف اور احمق نہیں کہ دعویٰ نبوت و مہدویت کرکے بدنام ھوجائیں اور اپنی تحریک کو یک دم ختم کرلیں۔ سعدیانی جماعت مزکز تبلیغ بنگلہ والی مسجد دھلی کو نبوت اور مہدویت کی با برکت و باعظمت چوکھٹ ضرور بنا چکی ھے۔ گوھر شاھیت۔ شکیلیت۔ اور قادیانیت سے کہیں زیادی سعدانیت خطرناک ھے کیونکہ ان تینوں نے دعویٰ مسیحیت و مھدویت کرکے ظاھر ھو چکے ھیں ان سے بچا جاسکتا ھے لیکن سعدانیت سے بچنا ناممکن ھی نہیں محال ھے جب تک کہ اللہ تعالیٰ حفاظت نہ فرمائیں ۔ من یھداللہ فھو المھتد ومن یضلل فلن تجد لہ ولیا مرشدا صدق اللہ العلی العظیم
*عثمانی ترکیوں کی بے مثل و بے نظیر عادات👇* *(1) قہوہ اور پانی:* جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے، اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے۔ *(2) گھر کے باہر پھول:* اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید۔ *(3) ہتھوڑا:* گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے، ایک بڑا ایک چھوٹا، اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔ *(4) صدقہ:* عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا، کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا۔ *(5) تریسٹھ سال:* اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں، اللّٰه اللّٰه کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا، کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی، یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے.

Friday, January 20, 2023

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں، ایک عربی واقعہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئےحاضر ہوا، قابلیت پوچھی گئی، کہا: سیاسی ہوں۔۔۔۔۔عربی میں سیاسی: افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا دیا چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا کہا: نسلی نہیں ہے بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا اس نے بتایا: گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے سیاسی کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا؟ کہا: جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے کھاتا ہے، جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ہے بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا، سیاسی کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی کہا: طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، ساس کو بلا بیجھا، معاملہ اس کے گوش گذار کیا، ساس نے کہا: حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہوگئی تھی، چنانچہ ہم نے بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم رکھنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔ بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا: تم کو کیسے علم ہوا؟ کہا اس کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بدتر ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا اور بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا. کچھ وقت گزرا، مصاحب کو بلایا، اپنے بارے دریافت کیا مصاحب نے کہا: جان کی امان! بادشاہ نے وعدہ کیا مصاحب نے کہا: نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے بادشاہ کو تاؤ آگیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا سیدھا والدہ کے محل پہنچا۔۔۔والدہ نے کہا: یہ سچ ہے۔۔۔۔تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا! بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا: تمہیں کیسے علم ہوا؟ اس نے کہا: بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ھیں تو ہیرے موتی، جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں ۔۔۔۔ یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں؛ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل: خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں منقول ۔ ۔ ۔ https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducale

Tuesday, January 17, 2023

[1/18, 8:37 AM] Jnr Rafiq Jab Sb: مدارس اسلامیہ کی خدمت میں! عمیر انس سبھی مدارس میں ان کی فقہ کی کتابوں میں کتاب البیوع کے عنوان سے آداب اور احکام تجارت پڑھائے جاتے ہیں لیکن کوئی طالب علم فراغت کے بعد بمشکل ہی موجودہ تجارت کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سبھی مدارس میں اعلیٰ درجے کا عربی ادب پڑھایا جاتا ہے لیکن پورے ہندوستان میں عربی صحافت کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔یہاں تک کہ بیشتر فارغین مدارس ڈھنگ سے عربی زبان بولنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اسلامی احکام، تفسیر، احادیث اور اسلامی علوم کی تاریخ کی اہم کتابیں مدارس کے نصاب میں شامل ہیں لیکن گزشتہ پچیس سالوں میں اسلامی علوم کی تحقیق پر جتنی مشہور اور معروف کتابیں شائع ہوئی ہیں بیشتر غیر مسلم یا جدید تعلیم یافتہ مسلمان اسکالرز کی تصنیف شدہ ہیں۔ آج کل درجہ پنجم کے دس سال کے بچے بہترین انگریزی بولتے ہیں لیکن پانچ سال تک محض قرآن پاک حفظ کرنے والے اسی قرآن پاک کے ایک لفظ کا ترجمہ نہیں کر سکتے اور اس بات پر مدارس کو کوئی غم ہے نہ ملال۔ مدارس سے جو اساتذہ یونیورسٹیوں میں اسلامی اسٹڈیز یا عربی اردو پڑھانے کے لیے منتخب ہوتے ہیں، وہ بھی اپنی تعیناتی کے بعد پڑھنا لکھنا بند کردیتے ہیں اور ان کے شعبے بالکل ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے ان کے مدرسے تھے، تملق خوشامد پسندی کا ماحول، سکھانے اور سیکھنے سے زیادہ مرید اور مرشد کا رشتہ بنانے پر توجہ ہوتی ہے۔ سوال اور تنقید سے وہ بالکل ویسے ہی بیزار ہوتے ہیں جیسے مدارس اسلامیہ میں ہوتے ہیں۔اور اگر آپ یہ پوچھیں کہ گزشتہ پچیس سالوں میں کون سے نئے محدثین اور مفسرین اور ماہرین فقہ پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو بڑی مایوسی ہوگی۔ جن زمانوں میں مدارس فقر اور تنگ دستی میں تھے تو نیک درمیان علامہ انور شاہ کشمیری جیسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے جن کی تحقیقات عالم عرب کی جماعت میں شامل درس ہوئیں اور جب مدارس کا روشن دور آیا تو بجائے بہتر ہونے کے محدثین اور مفسرین کی تعداد گھٹنے لگی۔ یہ گفتگو اس لیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ مدارس میں اصلاح کا اصل مقصد اور طریقہ کیا ہے۔ مدارس میں سائنس، ریاضیات اور کمپیوٹر کی تعلیم سے جدید کاری کا صرف ایک پہلو ہے۔ میرا تو بنیادی سوال ابھی یہ ہے کہ کیا مدارس خود ان موضوعات اور مضامین میں مہارت اور لیاقت دینے میں کامیاب ہیں جن مضامین کو حرز جاں رکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ مدارس اسلامیہ دین اسلام کی ابتدائی اور تعارفی سطح کی تعلیم کا ذریعہ محض رہ گئے ہیں، ان سے یہ امید کرنا کہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور معیاروں والے اسکالرز اور محققین تیار کریں یہ توقع غیر حقیقی ہے۔ مدارس میں تعلیم کے علاوہ دوسرا کام تربیت کا ہے یعنی مدارس کے فارغین بلند اخلاقی اقدار کا عملی مظاہرہ کریں اور اسلامی اقدار کا نمونہ پیش کریں۔اس معاملے میں بھی مدارس اپنے آپ سے دعویٰ تو کرسکتے ہیں کہ وہ تربیت دینے میں کامیاب ہیں لیکن مدارس کے باہر جن جگہوں پر ان کے اخلاق اور اقدار کا امتحان ہوتا ہے، وہاں ان کے مظاہرے کا کوئی غیر جانب دارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے۔ یہ بات تو بہر حال قابل ستائش ہے کہ اخلاقی زوال کے اس دور میں فارغین مدارس باقی تمام نوجوانوں میں زیادہ محفوظ بھی ہیں اور زیادہ محتاط بھی ہیں۔لیکن یہ دفاعی تربیت ہے۔ فارغین مدارس کو خود کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ خود کو زیادہ بہتر انسان بنانے اور زیادہ سیکھنے کے لائق بھی بنانا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں مثلاً فارغین مدارس کا نئی صلاحیتوں کو سیکھنے میں، نئی زبانیں سیکھنے میں، تکنیکی چیزیں سیکھنے میں، زندگی کی جد وجہد میں کام آنے والی نئی مہارتوں کو سیکھنے میں ان کا رجحان باقی طلبا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہاں تک کہ تحریر اور تقریر کے میدان میں بھی فارغین مدارس کی بنیادی تربیت کم پڑھے لکھے عوام کے لیے خطبات سے آگے کی نہیں ہے، غالباً مدارس کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اب ہندوستان میں عمومی تعلیم بہت بہتر ہے اور عوامی میڈیا پہلے سے کہیں طاقتور ہے اور اس لیے عوامی ذہن زیادہ مشکل سوالات اور زیادہ پیچیدہ مسائل میں اُلجھا ہوا ہے اور ان مسائل میں تحریری اور تقریری صلاحیتوں کا معیار مناظرہ والی تقاریر سے زیادہ بہتر ہونا چاہیے۔ تربیت کا دوسرا پہلو جذبات اور مزاج کا ہے۔ فارغین مدارس میں ایک عام برائی یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے ساتھ احترام سے پیش آنے اور خاص طور پر جو لوگ مدارس کے پس منظر سے نہیں ہیں، ان کے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتے۔غیر مدارس کے اسکالرز اور ماہرین سے سیکھنے اور سمجھنے میں اب کو غیر معمولی تکلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر علی گڑھ، جامعہ اور جے این یو میں مدارس کے بہت طلبا ہیں لیکن بیشتر آپس میں ہی اور اپنے عربی اردو کے شعبوں کے ساتھیوں اور اساتذہ کے درمیان ہی رہتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں ہر شعبہ کے ماہرین ہوتے ہیں اور وہاں سیکھنے کا خوب موقع ہوتا ہے لیکن مدارس کے فارغین یونیورسٹی کے ماحول اور اس کے مواقع سے استفادہ کرنے میں بڑی حد تک پیچھے ہیں۔لیکن جن طلبا نے دلچسپی دکھائی، انہیں غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے۔ وہاں رہنے کی وجہ سے جدید مسائل کا فہم زیادہ آسان ہوتا ہے لیکن ان میں ان مسائل پر ہونے والے مباحث میں شرکت کرنے کی دلچسپی نہیں دکھائی دیتی، کتنے اہم اہم سمینار اور ڈسکشن ہوتے ہیں لیکن مدارس سے آنے والے طلبا ان میں شریک نہیں ہوتے۔کتنے تحریری مواقع آتے ہیں، وہاں وہ حصہ نہیں لیتے۔فوٹوگرافی، ڈرامہ، میوزک وغیرہ کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں لیکن ان مواقع میں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ مدارس کے طلبا کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس صلاحیت نہیں ہے، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں صلاحیتوں کو سیکھنے کی شدید خواہش نہیں پائی جاتی اور یہ بات مدارس کے لیے سب سے بڑی تشویش کا سبب اور مدارس میں اصلاح کا بنیادی موضوع ہونا چاہیے۔ اس میں مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ہماری تربیت ایسی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو تیار کر رہے ہیں جو خود پسندی کے مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کمتر دیکھنے کا شدید جذبہ ان کے اندر کیسی تربیت کا نتیجہ ہے، یہ سمجھنا بہت مشکل ہے۔ سیکھنے کے جذبے سے خالی ہونا یہ عجیب بات ہے۔ یہ ساری باتیں تربیتی نظام کا حصہ ہیں اور اسی لیے میرا خیال ہے کہ مدارس کا تربیتی نظام فوری اصلاح کا محتاج ہے۔ اسی لیے اس مضمون کا مقصد بحث کرنا نہیں ہے کہ کون سے نئے موضوعات شامل نصاب ہوں یا نہ ہوں بلکہ یہ ہے کہ جو نصاب ہے، اسی میں آپ کتنا کامیاب ہیں۔ اگر کوئی اصلاحی مشورہ غور میں لایا جا سکتا ہے تو وہ ترکی کا اسلامی تعلیم کا نیا ماڈل ہے۔ انہوں نے جس خوبصورتی کے ساتھ اسلامی نصاب کو یونیورسٹی اور اسکولوں کا حصہ بنا دیا ہے، وہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ اس تبدیلی کے بعد روایتی مدارس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً وہاں کے اسکولوں میں دینیات کی کتابیں دیکھیں، شاندار پیشکش ہے اور آسان ترین طریقوں سے پیش کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اسکولوں میں دینیات کی جو کتابیں رائج ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی ہندوستانی مسلمان اکیسویں صدی میں داخل ہی نہیں ہوئے ہیں۔ طلبا کے ساتھ یہ ناانصافی ختم ہونی چاہیے۔ تمام اسلامی کتابوں کو کیاازسرنو بہتر ڈیزائن نہیں کیا جا سکتا۔ جو پیسہ مدارس اپنے ناظمین کی بلا تحقیق کتابوں کو شائع کرنے میں لگاتے ہیں، وہ سرمایہ وہ اپنے نصاب کو آسان اور خوبصورت بنانے میں لگاتے تو زیادہ بہتر تھا۔ اس بات میں مدارس کو کیا پریشانی ہے کہ وہ اپنے موجودہ نصاب میں شامل تمام اصطلاحات کو انگریزی میں یا ہندی میں یا علاقائی زبانوں بھی شائع کریں تاکہ طلبا انہیں مدارس کے باہر جانے پر آسانی سے سمجھ سکیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جن علماء نے موجودہ کتابوں کو اپنے زمانے کے سب سے شاندار ڈیزائن میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی، آج وہ اپنی کتابوں کو دیکھ کر ہماری بیوقوفی اور پسماندگی پر ہنس رہے ہوتے۔این سی ای آر ٹی کی کتابیں دیکھیں، کیا اسلامی کتابوں کو اس طرح کی پیش کش میں شائع کرنا مناسب نہیں ہوگا؟ کلاس رومز کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانا کیا مناسب نہیں ہوگا؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حفظ قرآن بغیر عربی زبان کی تعلیم سے سوائے استثنائی حالات کے کیسے جائز ہے؟ بغیر عربی زبان سکھائے حفظ قرآن کے مدارس صرف انہی شرطوں پر جائز ہیں جہاں عربی زبان کی تعلیم دینا ممکن نہیں ہے لیکن جن اداروں میں عربی زبان کے ماہرین موجود ہیں اور وہاں حفظ قرآن کی تکمیل بغیر عربی زبان کی کم از کم بنیادی تعلیم جس وہ تلاوت کا مفہوم سمجھ سکیں، شرط ہے۔ اسی طرح سے صرف مکمل حفظ قرآن کے انتظام کرنا بھی ضروریات کے خلاف ہے۔ ہونا یہ چاہیے معاشرے میں جو جتنا حفظ کرنا چاہتا ہو، اتنے قرآن کے حفظ کا انتظام ہونا چاہیے۔ پندرہ، دس اور پانچ پاروں کے حفظ کرنے کی خواہش رکھنے والے ہزاروں ہیں لیکن ان کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ بالکل اسی طرح یہ بات بھی نا قابل فہم ہے کہ مدارس صرف عالمیت اور فضیلت کے کورسز فراہم کریں، انہیں موجودہ حالات کے مطابق چھ مہینے سے لے کر دو سال تک کے مختصر کورسز کا بھی آغاز کرنا چاہیے۔ آپ عالم اور فاضل کے لیے اپنا طویل کورس ضرور جاری رکھیں لیکن بیس کروڑ کی آبادی میں ہزاروں ایسے جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو ایک مختصر مدت دین سیکھنے کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ اسی طرح ان کے لیے انگلش میڈیم مدارس کھولنا وقت کی بڑی ضرورت ہے، سبھی مغربی ممالک میں انگلش میڈیم مدارس کھولے جا چکے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں بھی انگلش میڈیم عالمیت اور فضیلت اور افتا کی تعلیم کا آغاز ہو۔جیسا کہ عرض کیا گیا اس مضمون میں مدارس کے موجودہ نصاب کے دائرے میں رہتے ہوئے اصلاح اور بہتری کی تجاویز پیش کی گئی ہیں جو ارباب مدارس کے پیش خدمت ہیں! (مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔) dr.umairanas@gmail.com   [1/18, 9:48 AM] Uzair Qasmi: اس بندے کا نمبر ہو تو بھیجئے اس کی تحریر سے سیکولر لبرل نظام کی چھاپ دکھائی دیتی ہے مسلمانوں کی خلافت 1924 تک رہی پورے 1300 سال تک مسلم لیڈر شپ مسلم فوج مسلم اسکالرز نمبر ون رہے ہیں موجودہ تمام ایجادات کے بانی اور اس کو وجود بخشنے والے. مسلمان ہی تھے آج یوروپ سیکولر ملحدین کا غلبہ ہے تو کہہ رہے ہو مسلمان غالب کیوں نہیں اور مدارس کو نشانہ بنارہے ہو لکھنے والا تو کالج میں ہے اس نے کونسا تیر مارلیا بتائیے تو صحیح ؟؟؟؟؟؟ اعتراض کے سوا اس نے کچھ کام کیا ؟؟؟؟

Sunday, January 15, 2023

*📖ادیان کی جنگ* *دین اسلام یا دین جمہوریت؟* 🖋️ حضرت مولانا عاصم عمر صاحب https://matboaatedawat.com/?p=1709

Wednesday, January 11, 2023

الحاد و دہریت کے اسباب ڈاکٹر حسیب احمد حسیب اس تحریر میں مسلم معاشروں اور افراد کے الحاد و دہریت کی طرف جانے کی چند بنیادی وجوہات نقل کی گئی ہیں : 1۔ مادیت پرستی۔ 2۔ تشکیک۔ 3۔ روایت کا انکار۔ 4۔ دینی مصادر پر بد اعتمادی۔ 5۔ علماء سے نفرت۔ 6۔ سلف کے منہج سے دوری۔ 7۔ روحانیت کا انکار۔ 8۔ عقل پرستی۔ 9۔ بے دینوں کی محافل میں شرکت۔ 10۔ مساجد سے دوری۔ 11۔ مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری۔ 12۔ اللّٰہ کے ذکر سے دوری۔ 13۔ دینی جماعتوں سے نفرت۔ 14۔ مغربی طرز زندگی سے متاثر ہونا۔ 15۔ اسلامی نظام حیات پر بد اعتمادی۔ 16۔ حرام کو حلال سمجھ لینا۔ 17۔ شہوت پرستی۔ 18۔ فلموں ڈراموں اور سوشل میڈیا کے فتنے میں مبتلاء ہونا۔ 19۔ تجدد پسندی۔ 20۔ انکار حدیث۔ 21۔ اسلامی نظام سیاست کا انکار۔ 22۔ غیر اسلامی نظاموں کو قبول کرنا۔ 23۔ خلافت راشدہ یا کسی ایک خلیفہ کا انکار۔ 24۔ اہل بیت سے نفرت (ناصبیت)۔ 25۔ صحابہ رض سے نفرت (رافضیت)۔ 26۔ باطنیت۔ 27۔ تقارب ادیان۔ 28۔ زر پرستی۔ 29۔ شہرت کی طلب۔ 30۔ دین دشمن شخصیات کا تاثر۔ 31۔ فلسفی بننے کا شوق۔ 32۔ ادیب بننے کا شوق۔ 33۔ سائنس پرستی۔ 34۔ دین کی سائنسی تعبیرات کرنے کی کوشش۔ 36۔ مخلوط نظام تعلیم۔ 37۔ بے دین نصاب تعلیم۔ 38۔ مابعدالطبیعیات کا انکار یعنی معجزات و کرامات وغیرہ۔ 39۔ روزمرہ کی سنتوں کو ادنی سمجھ کر ان کا انکار۔ 40۔ شعائر اللہ اور دینی علامات کی بابت لطیفے یا مذاق۔ 41۔ بغیر علم کے مناظرے و مباحثے۔ 42۔ بغیر علم کے الحادی مواد کا پڑھنا۔ 43۔ روایتی تفسیر ، شروحات حدیث اور فقہ کا انکار۔ 44۔ متشابہات میں پڑنا۔ 45۔ دجالیت و دیگر علامات و اشارات کی بحث میں بہت زیادہ مبتلاء ہونا۔ 46۔ قوم پرستی ، وطن پرستی ، لسانیت پرستی۔ 47۔ ذات و صفات الہٰی کی بحث میں پڑنا ، تجسیم ، حلول و تناسخ۔ 48۔ بغیر کسی تخصص کے ملحدوں سے مناظرے۔ 49۔ عوام اور علماء میں دوری۔ 50۔ کسی بھی دینی اجتماعیت کے بغیر رہنا۔ 51۔ گھروں میں دینی ماحول کا نہ ہونا۔ ▪️▪️▪️

Sunday, January 8, 2023

*تلاش گمشدہ* انتہائی افسوس سے اطلاع دی جاتی ھے کہ* ”خلوص“* گم ہو گیا ہے۔ اس کی عمر کئی سو سال ہے۔ بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو گیا ہے۔ گھر میں موجود *”خودغرضی“* کے ساتھ ان بن ہو جانے پر ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ اُس کے بارے میں گمان ہے کہ انسانوں کے جنگل نے اسے نگل لیا ہے۔ اس کا چھوٹا لاڈلا بھائی *”اخوت“* اور بہن *”حب الوطنی“* سخت پریشان ہیں۔ اس کے دوست *”محبت“* اور *”مہربانی“* بھی اس کی تلاش میں نکلےہوۓ ہیں۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کے دشمن *”شرپسند“* نے *”تعصب“* اور *”ہوس“* کے ساتھ مل کر تباہی مچا رکھی ہے۔ اس کی جڑواں بہن *”شرافت“* کا اس کے فراق کی وجہ سے انتقال ہو چکا ہے۔ *”شرافت“* کے غم میں *”حیا“* بھی چل بسی ہے. اس کا بڑا بھائی *”انصاف“* اس کی جدائی میں رو رو کر اندھا ہو چکا ہے۔ اس کے والد محترم *”معاشرہ“* کو سخت فکر لاحق ہے۔ اس کی والدہ *”انسانیت“* شدید بیمار ہے۔ آخری بار اپنے جگرگوشہ *”خلوص“* کو دیکھنا چاہتی ہے۔ جس کوملے وہ اسے *”انسانوں“* کے پاس پہنچا دے ورنہ *”انسانیت“* دم توڑ دے گی

Saturday, January 7, 2023

*Who Killed Karkare ?* *#The_real_Face_of_terrorism_in_India.* *S.M. MUSHRIF (Former I.G. Police, Maharashtra)* *#The_Nexus_between_the_Brahminists_and_the_IB_Smooth_takeover_IB_by_RSS* *The Intelligence Bureau has been the premier intelligence agency of the Government of India.* Nay, it has been the eyes and ears of the government. Hence, from the very beginning, Brahminists started infiltrating into the organization, & within ten years of Independence acquired near *full control over the IB.* This is a classic example of how a communal organisation can systematically take over a government organisation if it has grit and wit. How they did it makes an interesting reading. *There are two types of officers and employees in the IB; some are permanent and some, especially those at the middle and higher levels, are on deputation from the states. Initially, the Brahminists got entry into the IB and occupied most of the important posts in the permanent staff. At the same time Brahminist organizations, like RSS, started directing the young, smart and dynamic Brahminist IPS officers from various states to go on deputation to IB.* Marathi fortnightly Bahujan Sangharsh (30th April 2007) reported that, After the RSS loyalists having, thus, acquired higher positions in the IB, they also started a system of marking “suitable” officers and picking them up, with the result that some pro RSS IPS officers went to IB in the prime of their careers and remained there for 15 to 20 years, some even remained in the IB throughout their careers. Mr. V. G. Vaidya from Maharashtra remained in IB till his retirement and reached the highest post of *DIB (Director of intelligence Bureau) and, interestingly when he was the IB Chief, his real brother M. G. Vaidya was the RSS Chief of Maharashtra State...if the list of IPS officers on deputation to IB from various states is scanned carefully, it will be seen that most of them were either *RSS* loyalists or had close connections with the RSS and were either directed by RSS to join *IB or RAW* or were picked up by their brethren in these organizations to carry out the agenda of RSS . For the sake record, some Non RSS officers were also taken on deputation in the IB, but they were invariably given unimportant jobs. *#How_the_IB_controlled_the_central_and_state_governments_and_other_authorities.* The daily routine of the *Prime Minister* of India normally starts with a *15-20 minutes* briefing by *the Director, IB during which the PM is apprised of the important* *developments which took place in the country during the last 24 hours,* and is also given a *forecast of the future developments based on the social, political, communal, & international intelligence obtained by the IB through its sources.* The *DIB* also brief the *Home Minister* on a daily basis. The *Defence* and the *Foreign affairs Ministers* are briefed occasionally whenever there are important inputs pertaining to their ministers.
*جمہوریت اقبال کی نظر میں* مسلمانوں کی عصری تاریخ میں اقبال جمہوریت پر گفتگو کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اگرچہ اقبال کی اردو کلیات میں جمہوریت پر نو‘ دس شعر ہی موجود ہیں، مگر ان نو دس شعروں میں بھی اقبال نے جمہوریت کی مبادیات کو سمیٹ لیا ہے۔ اقبال نے اپنے شعروں میں جمہوریت پر چار بڑے اعتراضات کیے ہیں۔ ان کا پہلا اعتراض مغربی دانشور اسٹینڈل کے حوالے سے یہ ہے: جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت ایک معیاری یا Qualitative نظام نہیں ہے، بلکہ ایک مقداری یا Quantitative نظام ہے۔ اس طرح گویا جمہوریت نے پوری انسانی تاریخ کی نفی کردی ہے۔ انسان کی پوری فکری تاریخ معیاری نظام بندی کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی معنویت، اس کا حسن و جمال، اس کی پائیداری، اس کی افادیت معیار سے ہے، مقدار سے نہیں۔ چنانچہ جمہوریت نے گاڑی کے آگے گھوڑا باندھنے کے بجائے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دی ہے۔ جمہوریت کے مقداری پہلو کے اطلاق سے امام غزالیؒ اور ایک جاہل برابر ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کا مزید غضب یہ ہے کہ وہ کم تر سے ’’برتر‘‘ کا انتخاب کراتی ہے، حالانکہ اصولی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے کم تر، برتر کے انتخاب کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اقبال نے جمہوریت پر دوسرا بنیادی اعتراض یہ کیا ہے کہ ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت کے ’’نیا نظام‘‘ ہونے کا دعویٰ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’بادشاہت‘‘ جمہوریت کا لباس پہن کر آگئی۔ فی زمانہ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اکثر وبیشتر فیصلے امریکہ کے عوام نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے یا پینٹاگون، امریکہ کا ایوانِِ صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ یہ ادارے ’’خواص الخواص‘‘ کی علامت ہیں، یہ الگ بات کہ اُن کی آراء کو عوام کی آراء اور اُن کے فیصلوں کو عوام کے فیصلے کہا جاتا ہے۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن بھارت کے حکمرانوں کی تاریخ کا نصف حصہ نہرو خاندان کی ’’میراث‘‘ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کہنے کو عوامی جماعت ہے لیکن اس پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا قبضہ ہے۔ باقی ماندہ بھارتی سیاست پر جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے۔ اقبال نے جمہوریت پر تیسرا بنیادی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے: تُو نے دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر چنگیز خان جارحیت اور خون آشامی کی بڑی علامت ہے، لیکن چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا علَم بردار ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مساوات اور بھائی چارے کے تصورات پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت نے آزادی کا نعرہ لگا کر درجنوں اقوام کی آزادی سلب کی۔ اس نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرکے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ رقم کی۔ اس نے مساوات کا پرچم اٹھا کر عدم مساوات، اور بھائی چارے کی مالا جپتے ہوئے انسانی تعلقات کو روندا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چنگیز خان کی پوزیشن جمہوریت اور اس کے علَمب رداروں سے بہتر ہے، اس لیے کہ چنگیز خان کے قول و فعل میں ہولناک تضاد تو موجود نہیں۔ اقبال کا جمہوریت پر چوتھا بنیادی اعتراض یہ ہے: دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مغربی جمہوریت عہدِ حاضر میں انسانی آزادی کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن وہ ایک سطح پر عوام کی پست خواہشات کی خدائی کا اعلان ہے، دوسری سطح پر وہ اکثریت کے جبر کا مظہر ہے، اور یہ دونوں استبداد کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو مغربی جمہوریت ’’نفسِ امارہ‘‘ کی علامت ہے، اور اسلامی نظام ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت۔ جمہوریت نفسِ امارہ سے آغاز کرتی ہے، اس کے دائرے میں سفر کرتی ہے اور اسی کے دائرے میں اس کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام کے دائرے میں حکمران خود بھی نفسِ مطمئنہ کی علامت ہیں اور وہ مسلم عوام کو بھی نفسِ امارہ کے چنگل سے نکال کر انہیں نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ اور پھر نفسِ مطمئنہ کی مزید برتر صورتوں کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی نظام فرد کو ’’بندگی‘‘ کی سطح پر پہنچاتا ہے اور اس کی بندگی کو کامل تر بنا کر اُسے اس کے خالق اور تمام انسانوں کے قریب تر کرتا ہے۔ اس کے برعکس جمہوریت فرد کو اُس کی پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی سطح پر پہنچاتی ہے، اور وہ پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی نفسیات کو ایک نظام بنادیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی نظام کا بنیادی تصور لا الٰہ الا اللہ ہے، اور جمہوریت کا بنیادی تصور لا الٰہ الا انسان ہے۔ جمہوریت کی تعریف ’’عوام کا نظام، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘ کا اصل پیغام یہی ہے۔ عصرِ جدید میں علماء کی عظیم اکثریت نے جمہوریت کی اس فلسفیانہ بنیاد کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کا سب سے بڑا مظہر پاکستان اور اس کا ’’اسلامی آئین‘‘ ہے، لیکن 1973ء سے اب تک کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زندان ہے، اور یہ صورت جمہوریت کے مجموعی کلچر اور مزاج کے عین مطابق ہے۔

Wednesday, January 4, 2023

ہلدوانی، اتراکھنڈ: مسلم بستی کی پیش گفتہ تباہی محمد علم اللہ، نئی دہلی ذرا تصور کریں جہاں آپ برسوں سے رہ رہے ہوں، جہاں آپ کا اور آپ کے پرکھوں کا جنم ہوا ہو، جہاں آپ نے اپنی اماں اور دادی کی لوریاں سنی ہو، جہاں آپ نے کھیلا کودا اور موج مستی کی ہو، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ہوں؛ اچانک کوئی آئے اور کہے کہ اب یہ جگہ آپ کی نہیں ہے، اتنے دنوں کے اندر آپ یہ گھر خالی کر دیں بصورت دیگر ہم اس پر بلڈوزر چلا دیں گے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ آپ جس کرب، جس درد اور جس بے چینی میں مبتلا ہوں گے کیا اس کو لفظوں کا روپ دیا جا سکتا ہے؟ کیا اس دکھ کو لکھا جا سکتا ہے؟ کیا اس کی عکاسی کی جا سکتی ہے؟ شاید نہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی، ونبھول پورہ واقع غفور بستی کے لوگ اسی کیفیت سے دو چار ہیں، جہاں ایک دو نہیں تقریباً 4365 مکانوں کو انتظامیہ نے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کوئی نئی بستی نہیں ہے بلکہ ان کے پاس آزادی سے قبل کے کاغذات ہیں۔ ہم کچھ صحافی دوستوں کو اس کی اطلاع ملی تو گزشتہ روز جب کہ سورج ابھی نکل رہا تھا وہاں کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے وہاں پہنچے تو خواتین کی دعائیہ محفل جاری تھی اور جہاں ہزاروں خواتین شریک تھیں؛ ایک خاتون زار و قطار رو رو کر دعائیں کرا رہی تھی، خدایا، تو رحمان ہے، ہم کمزور ہیں، خدایا ان آشیانوں کو ڈوبنے سے بچا لے، یا اللہ ان بچوں کو بے گھر ہونے سے بچا لے، یا خدایا جن گھروں کو ہم نے تنکا چن چن کر بنایا ہے ان کی حفاظت فرما۔ یہ دعائیہ محفل کچھ اس قدر سوز و گداز اور ماتم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ہم بھی اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکے۔ یہاں پر ہم نے گلی گلی گھوما، چائے خانوں، مندروں، مسجدوں کا دورہ کیا، ہر جگہ اداسی پھیلی ہوئی تھی، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تو ضرور تھے، لیکن ان سب کے چہروں پر اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ بچے جنھیں عموماً بے فکر کہا گیا ہے اور جن کے دن کھیلنے کودنے اور گھومنے پھرنے کے ہوتے ہیں، اداس بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پوری بستی میں اداس دیویوں نے ڈیرا ڈال دیا ہے اور اپنی اپنی جادو سے ساری خوشیوں کو نگل گئی ہیں۔ کالج اور اسکولوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں جن کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے ہوتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے رات بھر وہ سوئے نہیں ہیں اور پوری رات روتے گزاری ہے۔ کئی گلیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم ایک بڑے میاں کے پاس پہنچے جو مسجد کے سامنے ایک چوکی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بتایا کہ ہم دلی سے آئے ہیں اور ہمیں بتائیں کہ قصہ کیا ہے۔ تو ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی اکٹھا ہو گئے، سب اپنی اپنی کہانیاں سنانے لگے، ہم نے پوچھا کیا آپ لوگوں کے پاس کاغذات ہیں کہ یہ زمینیں آپ ہی کی ہیں تو ان میں سے کئی نوجوان اور بوڑھے لپک کر تیزی سے اپنے گھروں کے جانب دوڑے، کسی کے ہاتھوں میں فائلیں تو کسی کے ہاتھوں میں پلاسٹک کے جھولے تھے وہ سب ایک ایک کر کے دکھانے لگے، یہ دیکھیے یہ ہمارے پردادا نے آزادی سے پہلے خریدا تھا، یہ دیکھیے یہ 1920 کی فائل ہے، یہ 1947 سے پہلے کے کاغذات ہیں، یہ اس وقت کے کاغذات ہیں جب ہند و پاک کا بٹوارہ ہو گیا تو بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، اس کو فلاں نے خریدا تھا، اس کے بعد فلاں نے خریدا اور اس کے بعد ہمارے فلاں دادا نے یہ زمین نیلامی میں حکومت سے خریدی۔ ایک بڑے میاں سے ہم نے یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں پوچھا، حالانکہ علاقہ کی حالت خود بتا رہی تھی کہ حکومت اس پر کتنی توجہ دیتی ہے، جگہ جگہ گندگی کے انبار، دور تک بدبو پھیلی ہوئی، کھلی نالیاں اور سیورج بدبداتے ہوئے۔ یہیں پر کھلے میں ہوٹل اور کباب اور بریانی کی دکانیں۔ بڑے میاں نے بتایا کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ روزانہ مزدوری کر کے پیٹ پالنے والے لوگ ہیں، اکا دکا لوگ سرکاری نوکریوں میں ہیں۔ پوری بستی مسلمانوں کی ہے لیکن پڑھائی لکھائی کا رجحان کم ہے۔ میڈیکل اسٹور چلانے والے بزرگ محمد نعیم افسردہ لہجہ میں کہتے ہیں، پچانوے فیصد یہاں مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن ان میں تعلیم کا فقدان ہے، اپنے حقوق کے بارے میں بھی لوگ باشعور نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس علاقے کو ٹارگٹ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ لوگ آواز بھی نہیں اٹھا سکیں گے، اس لیے انھیں کچل دو۔ صلاح الدین انصاری گزشتہ پچاس سالوں سے اس علاقہ کے مکین ہیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا قصہ ہے ذرا تفصیل سے بتائیں۔ انھوں نے ایک سرد آہ بھری، اپنی لنگی کو سمیٹتے ہوئے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنا شروع کیا؛ ہمارے پاس تو سارے کاغذات ہیں، 1940 سے ہم ٹیکس دے رہے ہیں۔ انھوں نے ایک پرانے کاغذوں کا بنڈل کھولا اور دکھانے لگے، یہ دیکھیے پیڑھی در پیڑھی ایک ایک کاغذات ہم نے رکھا ہوا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جن کے پاس کاغذ ہے یا جن کے پاس نہیں ہے سب ایک ہی کٹہرے میں آ گئے ہیں۔ سرکار نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ وہ کہتے ہیں، یہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر یہ ریلوے کی زمین ہے جیسا کہ ریلوے والوں کا دعویٰ ہے تو اتنے دنوں تک حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی، یہاں حکومت نے اتنا انوسٹ کیونکر کیا، حکومت ہم سے ٹیکس کیوں وصول کرتی رہی، یہاں بجلی پانی کا انتظام کیسے ہوا؟ حکومت نے اسکول اور کالجز کیسے کھولے؟ ریاستی حکومت کو اس معاملہ پر سامنے آنا چاہیے مگر وہاں مکمل خاموشی کا راج ہے۔ ایک اور بڑے میاں سے ہم نے ان کی کتھا جاننا چاہی، یہ پیشے سے وکیل تھے اور اس معاملے میں بھی انھوں نے سپریم کورٹ میں معاملہ دائر کر رکھا ہے۔ ہم نے پوچھا گھروں کے علاوہ اور کیا کیا اس کی زد میں آ رہا ہے تو انھوں نے بتایا؛ اس علاقہ میں تقریباً دو انٹر کالج ہیں، دس مساجد ہیں، دو مندر ہے، پانچ مدرسے ہیں، دو بینک ہیں، چار سرکاری اسکول جبکہ دس سے بارہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔ پوری دنیا کی حکومت اپنے باشندوں کی خیر خواہی اور ترقی کے بارے میں سوچتی ہیں لیکن ہندوستان کی واحد حکومت ہے جو اپنے ہی قائم کیے اداروں، بستی اور گھروں کو منہدم کرتی ہے۔ یہ یقیناً تشویش ناک بات ہے اور ہم اخیر تک اس کے لیے لڑتے رہیں گے خواہ اس کے لیے ہمیں اپنی جان کیوں نہ گنوانی پڑ جائے۔ ایک اور بزرگ وکیل ایم یوسف سے ہم نے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ شہر کی 70 فیصد زمینیں نزولی ہیں۔ نزولی وہ زمین ہوتی ہے جو گورنمنٹ کی ہوتی ہے لیکن عام پبلک استعمال کر سکتی ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لینے کی مجاز ہوتی ہے۔ بعض دفعہ حکومت اسکیم کے تحت رجسٹری کی آفر بھی کرتی ہے۔ 2006 میں ریلوے نے چھ ایکڑ زمین کے بارے میں مقدمہ کیا۔ پھر 2016 میں 29 ایکڑ کا دعویٰ کیا اور اب 78 ایکڑ کا دعویٰ کر رہا ہے۔ پہلے دو دفعہ کورٹ سے اسٹے مل چکا ہے، لیکن اب کورٹ نے مخالف فیصلہ کیا ہے اور کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے، جب کہ زمین کے 900 معاملات کورٹ میں التوا کا شکار ہیں لیکن اس معاملے میں کورٹ کا رویہ افسوس ناک رہا۔ ان کا کہنا تھا اس پورے معاملہ میں ابھی تک یہی واضح نہیں کہ ریلوے کی زمین کتنی ہے اور نزولی کتنی ہے۔ وہ بتاتے ہیں یہ معاملہ پورا فرقہ پرستی کا ہے کیونکہ لال نشان انہیں علاقوں میں لگایا گیا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ ہلدوانی سے پہلے بڑا اسٹیشن لال کنواں ہے، وہاں سے اگر صفائی ہو تو سارے علاقے ہندوؤں کے زد میں آئیں گے، اسی طرح ہلدوانی سے 6 کلومیٹر اوپر کاٹھ گودام ہے وہاں ہندو آباد ہیں لیکن کارروائی مسلمانوں کے دو کلومیٹر علاقے میں کی جا رہی ہے۔ ان علاقوں میں 3 گرلز کالج، ایک کالج، دو ٹیوب ویل، دس مساجد اور دو مندر ہیں۔ متعدد پرائیویٹ اسکول اور کالجز الگ سے ہیں۔ پھر ریلوے کوئی ایسا پروجیکٹ بھی نہیں دکھا رہا کہ جس کے لئے وہ اپنی زمینوں کو واگزار کرانا چاہ رہا ہے۔ ریلوے پھاٹک پر مائیک لگا کر ایک ہفتہ میں علاقہ خالی کرنے اعلان مسلسل کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اس بارے میں حکومتی عہدے داران سے بھی بات کی، آکاش پانڈے، نگر نگم سے وابستہ افسر سے جب ہم نے صورت حال دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ اس پورے معاملہ میں اب وہ کوئی بھی رائے دینا نہیں چاہتے کیونکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور عدالت نے بھی کہہ دیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو خالی کر دیں تو ہم تو عدالت کے ماتحت ہیں، اس پر ہم مزید کیا کہہ سکتے ہیں۔ شام ہو چلی تھی، ہم لوگوں کو دلی بھی لوٹنا تھا سو ہم بہت سارے سوالات ذہن میں لیے بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی کی طرف چل دیے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی بہت سارے سوالات ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔ کیا سچ مچ مسلمان اس ملک میں اجنبی بن گئے ہیں، کیا اتنی قربانیاں دینے کے بعد آج بھی انھیں اسی طرح نشانہ بنایا جاتا رہے گا؟ بہت سے سوالات تھے، مگر ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔