السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ آج مجھے دار العلوم گودھرا میں منعقد کی گئی ایک علمی نشست میں شرکت کا موقع ملا
جو خصوصا المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے فضلاء کے لئے حضرت الاستاذ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کی چاہت کی وجہ منعقد کی گئی تھی
جس میں خود حضرت الاستاذ نے فضلاء معہد سے خطاب کیا
خصوصا دو چار امور پر تفصیلی گفتگو فرمائی
مجھے مناسب معلوم ہوا کہ ان کا ایک اجمالی تذکرہ آپ ساتھیوں کے سامنے پیش کروں اور کچھ اہم باتیں بھی ذکر کروں
(۱) بیان جمعہ ( اس وقت امت میں کام کا سب سے مؤثر ذریعہ )
فرمایا کہ بیان جمعہ کے لئے مستقل تیاری کے ساتھ جاؤ۔
وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق بات کرو۔
اپنے علمی مقام سے نیچے آکر عوامی سطح پر بات کرو۔
تمام مضامین کو مرتب انداز میں بیان کرو
اس کے لئے سب سے پہلے موضوع کے مطابق آیات کا انتخاب
دوسرے نمبر پر احادیث رسول ﷺ کا انتخاب ( قولی بھی اور فعلی بھی )
تیسرے نمبر پر آثار صحابہ کو بھی ذکر کریں
اس سلسلہ میں ایک بات بڑی اہم بتلائی کہ ( بیانات میں بزرگان دین کے واقعات کم سے کم بیان کئے جائیں۔ ( اس لئے کہ یہ واقعات حجت نہیں ہے ) اس کے بجائے آثار صحابہ کے حوالے سے واقعات کو بیان کیا جائے۔
اس سلسلے میں حضرت نے ایک بہت ہی اہم اور مفید کتاب کی بھی رہبری فرمائی، وہ کتاب ہے ( نظرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول الکریم )
حضرت نے فرمایا کہ حج یا عمرہ کے موقع پر ایک مکتبہ میں اس کتاب کی قیمت معلوم کی مگر زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نہ خرید سکا
مگر اتفاق سے وہی کتاب کسی عالم دین نے مجھے ہدیہ کی مجھے بہت خوشی ہوئی یہاں تک کہ آتے ہوئے سامان زیادہ ہوجانے کی وجہ سے میں نے بہت سی اپنی ذاتی خریدی ہوئی کتابیں وہاں چھوڑ دی اور یہ کتاب لیکر آیا
اس کتاب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ : ہر ہر موضوع کے متعلق آیات کو جمع فرمایا ہے
نیز لغوی تحقیق بھی فرمائی ہے
اس موضوع سے متعلق قولی اور فعلی معتبر احادیث اور آثار صحابہ کو بھی ذکر فرمایا ہے
نیز بزرگان دین کے اقوال و افعال کو بھی اس میں بیان فرمایا ہے
(۲) حلقۂ درس قرآن ( جتنا ممکن ہو سکے درس قرآن کے حلقے لگاؤ لوگوں تک عام فہم انداز میں قرآن کا پیغام پہنچاؤ
اس سلسلے میں استفادہ کے لئے دو تین اہم کتابوں کی رہبری فرمائی
* تفسیر المنیر ( ڈاکٹر وہبہ زحیلی )
* بیان القرآن ( حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه )
* قصص الانبیاء ( حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ ) ( قصوں کے اخیر میں نصائح و عبر ) کو خاص طور پر پڑھا جائے۔
(۳) حلقۂ درس حدیث : اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے خصوصا خواتین کے لئے ہر ہر موضوع پر احادیث پیش کی جائے ، نیز زندگی کے ہر ہر شعبہ سے متعلق احادیث کو بیان کیا جائے اور انہیں سمجھایا جائے۔
(٤) درس مسائل : اس کا بھی اہتمام بے حد ضروری ہے ہفتہ واری ایک نشست کم از کم کی جائے آنے والے شرکاء سے متعلق مسائل پر گفتگو کی جائے اور ایک دن میں کسی بھی ایک ہی عنوان پر بات کی جائے اس عنوان سے متعلق جزئیات کے مطالعہ کے لئے فرمایا سب سے بہترین اگر کوئی کتاب ہو سکتی ہے تو وہ فتاویٰ عالمگیری ہے ( فرمایا : یہ جزئیات کا انسائیکلوپیڈیا ہے )
(۵) تصنیف و تألیف : اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : تصنیف و تألیف اس امت کا معجزہ ہے۔ کہ اپنی شریعت کے متعلق اس قدر لکھنے کی توفیق اللہ تعالی نے کسی اور امت کو نہیں عطاء فرمائی۔
(٦) خدمت خلق : ( یہ کام کئی ایک طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی سے متعلق رفاہی کام مقصود ہیں۔
من جملہ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ حضرت نے یہ بتلایا کہ ہمارے مسلم گھروں میں جو چیزوں ضرورت سے زائد ہیں انہیں ایک جگہ جمع کر کے غیر مسلم ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے جو چیز ان کے دلوں کو نرم کرے گی ۔
گویا کہ حضرت کا اشارہ اس بات کی طرف تھا
احسن الی الناس تستعبد قلوبھم
فانما استعبد الانسان احسان
* مسجد درشن : کہ آؤ اور ہماری مسجد دیکھو یہاں کا نظم و نسق دیکھو ہمارا طریقہ نماز دیکھو
کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کہ ہمارے یہاں اگر کوئی سب سے بڑا ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ ہے
اس کے بعد سبھی برابر کے ہیں پھر وہ امیر ہو کہ غریب
جو پہلے آئے گا وہ آگے نماز پڑھے گا پھر اگر کو بڑا مالدار بھی آجائے تو وہ پیچھے ہی نماز پڑھے گا کہ جب سجدہ کرے تو اس کا سر کسی آگے والے غریب کے پیروں کے پاس ہوگا
یہ ہے اسلام کی مساوات۔
* مدرسہ درشن : اس کے لئے بھی ہم غیر مسلموں کو بلائیں اور ہمارا نظام دکھ لائیں نیز ہمارا نظام تعلیم و تربیت بھی ہم انہیں بتلائیں
یہ چیزیں ان کے دماغوں میں اٹھنے والے اعتراضات کو دور کرے گی اور آئندہ پیدا ہونے سے بھی روکے گی
(۷) مکتب کی تدریس : مکاتب کی اور مکتب کی تعلیم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : اس وقت مدارس سے زیادہ مکاتب کو اہمیت حاصل ہے ۔
کہ مدارس ایک اچھے مسلمان کو اور اچھا بناتے ہیں
اور مکاتب اسلام کے عقائد اور بنیاد کی حفاظت کرتے ہیں
* نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں مکاتب کی اہمیت اور بھی بڑ جاتی ہے
نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ : ہمیں مکاتب میں کیا پڑھانا چاہئے اور کیسے پڑھانا چاہئے؟
(۸) حفظ کی تدریس : فرمایا کہ : حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ کچھ ضروری مسائل کی تعلیم بھی دی جانی چاہئے
سیرت النبی ﷺ کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے
نیز بچوں کے قصص الانبیاء کے آخری حصہ کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے
( الحمد للہ حفظ سے متعلق یہ باتیں حضرت کی زبانی سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے مدرسہ رحمانیہ گول حوض میں ہمارے حفظ کے اساتذہ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی تعلیم کا بھی بہت اہتمام کرتے ہیں )
* عالمیت کی تدریس : اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ ھدایہ کے مطالعہ کے لئے سب سے بہتر کتاب البنایہ ہے
مزید فرمایا کہ اصول فقہ پڑھانے والے اساتذہ کو علم اصول الفقہ للخلاف کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہئے بلکہ فرمایا کہ اب تو بعض مدارس میں اس کی باقاعدہ تدریس بھی ہونے لگی ( یہ بہت اہم کتاب ہے اس کی تدریس بھی بہت مفید ثابت ہوگی )
کتب حدیث کی تدریس پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ : حدیث پڑھانے میں نبی کریم ﷺ کو حنفی بنانے کی کوشش نہ کرو بلکہ احادیث کی تشریح اس طرح کرو کہ دوسرے فقہاء کی تنقیص نہ ہو اور ہمارے مسلک کی توضیح بھی بیان ہو جائے ( اس لئے کہ ہماری تقلید احتمال خطأ کے ساتھ ہے )
محمد حمدان تاجپوری
خادم مدرسہ رحمانیہ گول حوض احمدآباد