Thursday, March 9, 2023

خالد سیف اللہ

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ


الحمد للہ آج مجھے دار العلوم گودھرا میں منعقد کی گئی ایک علمی نشست  میں شرکت کا موقع ملا 


جو خصوصا المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے فضلاء کے لئے حضرت الاستاذ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کی چاہت کی وجہ منعقد کی گئی تھی 


جس میں خود حضرت الاستاذ نے فضلاء معہد سے خطاب کیا 


خصوصا دو چار امور پر تفصیلی گفتگو فرمائی


مجھے مناسب معلوم ہوا کہ ان کا ایک اجمالی تذکرہ آپ ساتھیوں کے سامنے پیش کروں اور کچھ اہم باتیں بھی ذکر کروں


(۱) بیان جمعہ ( اس وقت امت میں کام کا سب سے مؤثر ذریعہ ) 

فرمایا کہ بیان جمعہ کے لئے مستقل تیاری کے ساتھ جاؤ۔ 

وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق بات کرو۔ 

اپنے علمی مقام سے نیچے آکر عوامی سطح پر بات کرو۔

تمام مضامین کو مرتب انداز میں بیان کرو

اس کے لئے سب سے پہلے موضوع کے مطابق آیات کا انتخاب

دوسرے نمبر پر احادیث رسول ﷺ کا انتخاب ( قولی بھی اور فعلی بھی )

تیسرے نمبر پر آثار صحابہ کو بھی ذکر کریں


اس سلسلہ میں ایک بات بڑی اہم بتلائی کہ ( بیانات میں بزرگان دین کے واقعات کم سے کم بیان کئے جائیں۔ ( اس لئے کہ یہ واقعات حجت نہیں ہے ) اس کے بجائے آثار صحابہ کے حوالے سے واقعات کو بیان کیا جائے۔ 


اس سلسلے میں حضرت نے ایک بہت ہی اہم اور مفید کتاب کی بھی رہبری فرمائی، وہ کتاب ہے ( نظرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول الکریم )


حضرت نے فرمایا کہ حج یا عمرہ کے موقع پر ایک مکتبہ میں اس کتاب کی قیمت معلوم کی مگر زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نہ خرید سکا 

مگر اتفاق سے وہی کتاب کسی عالم دین نے مجھے ہدیہ کی مجھے بہت خوشی ہوئی یہاں تک کہ آتے ہوئے سامان زیادہ ہوجانے کی وجہ سے میں نے بہت سی اپنی ذاتی خریدی ہوئی کتابیں وہاں چھوڑ دی اور یہ کتاب لیکر آیا 


اس کتاب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ : ہر ہر موضوع کے متعلق آیات کو جمع فرمایا ہے 

نیز لغوی تحقیق بھی فرمائی ہے

اس موضوع سے متعلق قولی اور فعلی معتبر احادیث اور آثار صحابہ کو بھی ذکر فرمایا ہے 

نیز بزرگان دین کے اقوال و افعال کو بھی اس میں بیان فرمایا ہے


(۲) حلقۂ درس قرآن ( جتنا ممکن ہو سکے درس قرآن کے حلقے لگاؤ لوگوں تک عام فہم انداز میں قرآن کا پیغام پہنچاؤ 

اس سلسلے میں استفادہ کے لئے دو تین اہم کتابوں کی رہبری فرمائی

* تفسیر المنیر ( ڈاکٹر وہبہ زحیلی )

* بیان القرآن ( حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه )

* قصص الانبیاء ( حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ ) ( قصوں کے اخیر میں نصائح و عبر ) کو خاص طور پر پڑھا جائے۔ 


(۳) حلقۂ درس حدیث  : اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے خصوصا خواتین کے لئے ہر ہر موضوع پر احادیث پیش کی جائے ، نیز زندگی کے ہر ہر شعبہ سے متعلق احادیث کو بیان کیا جائے اور انہیں سمجھایا جائے۔ 


(٤) درس مسائل : اس کا بھی اہتمام بے حد ضروری ہے ہفتہ واری ایک نشست کم از کم کی جائے آنے والے شرکاء سے متعلق مسائل پر گفتگو کی جائے اور ایک دن میں کسی بھی ایک ہی عنوان پر بات کی جائے اس عنوان سے متعلق جزئیات کے مطالعہ کے لئے فرمایا سب سے بہترین اگر کوئی کتاب ہو سکتی ہے تو وہ فتاویٰ عالمگیری ہے ( فرمایا : یہ جزئیات کا انسائیکلوپیڈیا ہے )


(۵) تصنیف و تألیف : اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : تصنیف و تألیف اس امت کا معجزہ ہے۔ کہ اپنی شریعت کے متعلق اس قدر لکھنے کی توفیق اللہ تعالی نے کسی اور امت کو نہیں عطاء فرمائی۔


(٦) خدمت خلق : ( یہ کام کئی ایک طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے  جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی سے متعلق رفاہی کام مقصود ہیں۔ 

من جملہ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ حضرت نے یہ بتلایا کہ ہمارے مسلم گھروں میں جو چیزوں ضرورت سے زائد ہیں انہیں ایک جگہ جمع کر کے غیر مسلم ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے جو چیز ان کے دلوں کو نرم کرے گی ۔ 


گویا کہ حضرت کا اشارہ اس بات کی طرف تھا


احسن الی الناس تستعبد قلوبھم

فانما استعبد الانسان احسان 


* مسجد درشن : کہ آؤ اور ہماری مسجد دیکھو یہاں کا نظم و نسق دیکھو ہمارا طریقہ نماز دیکھو 

کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز 

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز


کہ ہمارے یہاں اگر کوئی سب سے بڑا ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ ہے

اس کے بعد سبھی برابر کے ہیں پھر وہ امیر ہو کہ غریب 

جو پہلے آئے گا وہ آگے نماز پڑھے گا پھر اگر کو بڑا مالدار بھی آجائے تو وہ پیچھے ہی نماز پڑھے گا کہ جب سجدہ کرے تو اس کا سر کسی آگے والے غریب کے پیروں کے پاس ہوگا 

یہ ہے اسلام کی مساوات۔ 


* مدرسہ درشن : اس کے لئے بھی ہم غیر مسلموں کو بلائیں اور ہمارا نظام دکھ لائیں نیز ہمارا نظام تعلیم و تربیت بھی ہم انہیں بتلائیں 

یہ چیزیں ان کے دماغوں میں اٹھنے والے اعتراضات کو دور کرے گی اور آئندہ پیدا ہونے سے بھی روکے گی


(۷) مکتب کی تدریس : مکاتب کی اور مکتب کی تعلیم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : اس وقت مدارس سے زیادہ مکاتب کو اہمیت حاصل ہے ۔ 

کہ مدارس ایک اچھے مسلمان کو اور اچھا بناتے ہیں 

اور مکاتب اسلام کے عقائد اور بنیاد کی حفاظت کرتے ہیں

* نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں مکاتب کی اہمیت اور بھی بڑ جاتی ہے

نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ : ہمیں مکاتب میں کیا پڑھانا چاہئے اور کیسے پڑھانا چاہئے؟ 


(۸) حفظ کی تدریس : فرمایا کہ : حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ کچھ ضروری مسائل کی تعلیم بھی دی جانی چاہئے 

سیرت النبی ﷺ کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے 

نیز بچوں کے قصص الانبیاء کے آخری حصہ کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے 

( الحمد للہ حفظ سے متعلق یہ باتیں حضرت کی زبانی سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے مدرسہ رحمانیہ گول حوض میں ہمارے حفظ کے اساتذہ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی تعلیم کا بھی بہت اہتمام کرتے ہیں )


* عالمیت کی تدریس : اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ ھدایہ کے مطالعہ کے لئے سب سے بہتر کتاب البنایہ ہے 

مزید فرمایا کہ اصول فقہ پڑھانے والے اساتذہ کو علم اصول الفقہ للخلاف کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہئے بلکہ فرمایا کہ اب تو بعض مدارس میں اس کی باقاعدہ تدریس بھی ہونے لگی ( یہ بہت اہم کتاب ہے اس کی تدریس بھی بہت مفید ثابت ہوگی )


کتب حدیث کی تدریس پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ : حدیث پڑھانے میں نبی کریم ﷺ کو حنفی بنانے کی کوشش نہ کرو بلکہ احادیث کی تشریح اس طرح کرو کہ دوسرے فقہاء کی تنقیص نہ ہو اور ہمارے مسلک کی توضیح بھی بیان ہو جائے ( اس لئے کہ ہماری تقلید احتمال خطأ کے ساتھ ہے )



محمد حمدان تاجپوری

خادم مدرسہ رحمانیہ گول حوض احمدآباد

Tuesday, March 7, 2023

شب برات

 [3/7, 7:58 AM] Uzair Qasmi: پندرہویں شعبان کے روزہ کے بارہ میں اکابر کے فرمودات ، فتاوٰی اور معمولات ۔۔۔

از مولانا محمد فیاض خان سواتی

(۱) سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی حنفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’صبح شبِ برأت کے دن کا روزہ اور شش عید کا روزہ بھی مستحب ہے۔‘‘ (فتاویٰ عزیزی ص 502)

(۲) حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی حنفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’پندرہ تاریخ کو روزہ رکھیں۔‘‘ (وعظ ذم ہویٰ ص ۸ ملخصاً ، الابقاء شعبان 56 ھ)

(۳) مفتی اول دار العلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن حنفیؒ لکھتے ہیں کہ ’’پندرہویں تاریخ شعبان کا روزہ مستحب ہے ، اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ہے۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند ج 6 ص 500)

(۴) شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی حنفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’البتہ اگر ممکن ہو تو چودہ ، پندرہ شعبان کو نفلی روزے رکھے جائیں۔‘‘ (مکتوبات ج 4 ص 78)

(۵) حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی مہاجر مدنی حنفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ؐ ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے ، اسی لئے پندرہویں تاریخ کا روزہ بھی اس کے عموم میں داخل ہے۔‘‘ (تبلیغی اور اصلاحی مضامین ج 6 ص 100) مزید فرماتے ہیں ’’مومن بندوں کو چاہیے کہ پورے ماہ شعبان میں خوب زیادہ نفلی روزے رکھیں اور پندرہویں رات ذکر ، دعا اور نماز میں گزاریں اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھیں۔‘‘ (تحفہ خواتین ص 264)

(۶) حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی حنفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’شعبان کی پندرہویں کو روزہ رکھنے کا حکم حدیث میں موجود ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ ج 13ص 415)

(۷) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اس دن کا روزہ سنت ہے اس وجہ سے کہ یہ من جملہ ایام بیض میں سے ہے نہ کہ اپنی خصوصیت کیوجہ سے ۔‘‘ (الفتاویٰ الکبری الفقیہۃ ج 2 ص 80)

(۸) شیخ دردیر مالکیؒ فرماتے ہیں ’’شعبان کی پندرہویں تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔‘‘ (الشرح الصغیر للشیخ الدردیر لکتابہ اقرب المسالک ج 1 ص 692)

(۹) شیخ مرداوی حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ ’’شعبان کے روزوں میں پندرہویں شعبان کا روزہ زیادہ اہم ہے۔‘‘ (الانصاف ج3ص347)

(۱۰) حافظ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ ’’نصف شعبان کا روز منع نہیں ہے کیونکہ یہ ایام بیض کے روزوں میں سے ہے ، جو ہر مہینے رکھنا مستحب ہے ، اور خاص پندرہ شعبان کے روزے کے بارے میں حکم وارد ہوا ہے ، سنن ابن ماجہ میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت علیؓ سے نبی اکرمؐ کا فرمان موجود ہے کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو رات کو عبادت ادا کرو ، اور اگلے دن روزہ رکھو ، کیونکہ سورج غروب ہونے سے ، اللہ تعالٰی آسمان دنیا پر نزول فرمائے رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں ، ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اسے بخش دوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دوں ؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ؟ ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا، اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ اعلان صبح صادق تک جاری رہتا ہے۔‘‘ (لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف ص 136) (تلک عشرۃ کاملۃ)

فضیلۃ الشیخ العلامہ المحدث عبدالحفیظ ملک عبد الحق المکی الحنفی زید مجدہ لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے مشائخ ائمہ حدیث و فقہ محققین جن میں امام ربانی شیخ رشید احمد گنگوہی انصاری ، حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی ، امام عارف باللہ محمد اشرف علی تھانوی فاروقی ، شیخ الاسلام امام سید حسین احمد مدنی حسینی یہاں تک کہ ہمارے شیخ امام ربانی شیخ الحدیث عارف باللہ ، نمونہ ، برکۃ العصر علامہ محمد زکریا کاندھلوی صدیقی مدنی وغیرہم رحمہم اللہ ورضی اللہ عنہم اور ان کے عام تلامذہ سب متفق ہیں اس مبارک رات کو مختلف اقسام کی عبادات کیساتھ زندہ کرنے کے اہتمام پر ، ان میں سے جونسی عبادت کو بھی اختیار کرے اسی طرح پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا اور افضل یہ ہے کہ ایام بیض کے تین روزے رکھے۔‘‘ (فضائل لیلۃ النصف من شعبان ص 30)

میرے والد ماجد مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ اور عم مکرم امام اہل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ دونوں حضرات کی صحت نے جب تک اجازت دی انہوں نے پندرہویں شعبان کا روزہ مسلسل رکھا ، اس کا دورانیہ میرے محتاط اندازے کے مطابق ستر ستر سال سے زائد ہے ۔

اللہ رب العزت ہمیں بھی اس رات کی عبادات اور دن کے روزہ کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔ 

Jamia Nusrat Ul Uloom ج

[3/7, 2:52 PM] Uzair Qasmi: شب برأت: چار باتیں جان لیجیے 

     

       پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں: 


1  اس رات میں اللہ سبحانہ و تعالی جتنی توفيق دیں، اتنی گھر میں انفرادی عبادتیں کرنا.......... مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے، یہ انفرادی عمل ہے، اجتماعی عمل نہیں۔ 


2 اگلے دن روزہ رکھے، یہ روزہ مستحب ہے۔ 


3  اس رات میں اپنے لئے، اپنے مرحومین کےلئے، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کریں، اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے اس رات میں جو تماشے ہوتے ہیں، وہ سب غلط ہیں۔ 


4 جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے تو بخشش نہیں ہوگی۔ 


یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں، اور ضعیف حدیث کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بہت سے مسائل ہیں، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں، اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں، جیسے صلوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں، اور سب ضعیف ہیں، مگر سلف کے زمانے سے صلوۃ التسبیح کا رواج ہے.......... البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہو گا، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا، پس صلوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہو سکتا ہے، پس احادیث میں بیان کئے گئے(مذکورہ بالا) چاروں کام مستحب ہوں گے.......... شب برأت اور اسکے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں ہے

مفتی سعید احمد پالن پوری نور اللہ مرقدہ 

علمی خطبات

جلد: 2

صفحہ نمبر: 247


انتخاب: 

کشکول اردو 

موبائل ایپ ⬇

     

     https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender