جمہوری نظام میں مسلمانوں کی قسطوں میں صفایا کے سوا کوئی کام ہونے والا نہیں ہے
مسلمانوں کو اللہ نے خیر امت بناکر بھیجا ہے جب تک مسلمان برسر اقتدار رہیں گے تب تک مسلمان بلکہ پوری دنیا امن وعافیت سے رہے گی اگر مسلمان اقتدار میں نہ رہیں تو یہی حالت ہوگی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
آج مسلمانوں سے زیادہ عوام کے مسائل ہیں مثلا بھارت میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عصمت دری. ہر گھنٹے پر اٹھارہ لوگوں کی خودکشی. ہر بیس منٹ پر ایک کسان کی خود کشی. ہردن روزانہ پولس اسٹیشن میں پولس بربریت سے پانچ قتل. پچھلے چند سالوں سے اب تک بیس ہزار سے زیادہ ڈگری یافتہ طلبہ وطالبات نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود کشیاں کرچکے ہیں
بےروزگاری کی شرح اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے
مسائل ومظالم جاننا چاہتے ہیں تو گوگل پر ncrb لکھ کر تمام جرائم کی فہرست سنہ وار حاصل کرسکتے ہیں
خلاصہ یہ کہ انسانوں کی بھلائی کا کام صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی شرعی نظام خ ل آ فت سے جس کو اسلام دشمن انسان دشمن مفاد پرست کافروں نے 1924 کو تباہ کردیا تھا
یہ نظام حضور صلعم کے ریاست مدینہ کے قیام سے لیکر 1924تک جاری رہا اس دور میں پوری دنیا ہر قسم کے مسائل سے محفوظ رہی جیسے ہی کافروں نے اس اسلامی نظام کو منہدم کردیا تو آج مسلمانوں کے ستاون ممالک ہونے کے باوجود ایک فلسطین شہر تو کیا ایک مسلمان کی جان کی حفاظت پر عمل تو دور فکر بھی ختم ہو چکی ہے
آج مسلمان یتیم بے سہارا ہوچکا ہے اور خس و خاشاک وتنکے سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے
آج ہمیں سب کچھ معلوم ہے مگر اسلامی سیاست معلوم نہیں ہے کہ حضور نبی اکرم صلعم نے کس طرح ریاست مدینہ بنایا اس کو گہرائی سے سمجھ کر اسی طریقہ کار اور نظام سے
*بل نقذف بالحق علی الباطل* سے کام لینا ہوگا
امام مالک رحمہ نے فرمایا *لن یصلح آخر ھذہ الامہ الا بماصلح بہ اولھا*
بے شمار علماء سے میری بحث چلتی رہتی ہے کبھی وہ بہت طویل ودل آزار بھی بن جاتی ہے بعض عالم نما جہلاء دلائل سے بات کرنے کی بجائے اکابرپرستی کی دہائی دے کر اپنے دامن میں منہ چھپالینے کی کوشش کرتے ہیں مزید یہ کہ اکابر پرستی کی دہائی بھی اس انداز سے کرتے ہیں کہ ہم لوگ اکابرین کے دشمن ہیں یا باغی
میرا دعوی یہی رہتا ہے کہ جمہوری نظام کفریہ نظام ہے جب تک کفر کو نہیں سمحھیںں گے اسلام کو کماحقہ نہیں سمجھ سکتے
تو جمہوری علماء جمہوری نظام کی تائید میں بلکہ کفر کی تائید میں میری بڑی شد ومد سے مخالفت کرتے ہیں
مگر کبھی اسلامی سیاست اور کفریہ سیاست کو سمجھنے کی خواہش کرتے نہیں دکھائی دیتے بلکہ اس گمان میں جمے رہتے ہیں کہ انھیں جمہوریت میں کوئی کفر نہیں دکھائی دیتا ہے
جب مرض ہی کی تشخیص نہ ہو تو علاج کبھی بھی ممکن نہیں الا ماشاء اللہ
الکشنوں سے امت کا آج تک بھلا نہیں ہوا اور نہ ہونے والا یہ الکشن جمہوری نظام کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس سے عوامی نمائندگاں کو چنا جاتا ہے اور منتخب نمائندے اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں قوم کے لئے نہیں اور اگر وہ قوم کی خدمت کرنا چاہیے تو بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس طاقت اومدت دونوں کی کمی رہتی ہے مدت
پانچ سال سے زیادہ نہیں اور طاقت. پارلیمنٹ عدالت اپوزیشن میڈیا جیسے اداروں میں تقسیم ہے
پھر بھلا اس نظام سے بھلائی کیونکر ممکن ہے
فافھم
عزیر احمد بنگلوری
8553116065