Tuesday, April 25, 2023

 جمہوری نظام میں مسلمانوں کی قسطوں میں صفایا کے سوا کوئی کام ہونے والا نہیں ہے 

مسلمانوں کو اللہ نے خیر امت بناکر بھیجا ہے جب تک مسلمان برسر اقتدار رہیں گے تب تک مسلمان بلکہ پوری دنیا امن وعافیت سے رہے گی اگر مسلمان اقتدار میں نہ رہیں تو یہی حالت ہوگی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں 

آج مسلمانوں سے زیادہ عوام کے مسائل ہیں مثلا بھارت میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عصمت دری. ہر گھنٹے پر اٹھارہ لوگوں کی خودکشی. ہر بیس منٹ پر ایک کسان کی خود کشی. ہردن روزانہ پولس اسٹیشن میں پولس بربریت سے پانچ قتل. پچھلے چند سالوں سے اب تک بیس ہزار سے زیادہ ڈگری یافتہ طلبہ وطالبات نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود کشیاں کرچکے ہیں

بےروزگاری کی شرح اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے 


مسائل ومظالم جاننا چاہتے ہیں تو گوگل پر ncrb  لکھ کر تمام جرائم کی فہرست سنہ وار حاصل کرسکتے ہیں 

خلاصہ یہ کہ انسانوں کی بھلائی کا کام صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی شرعی نظام خ ل آ  فت سے جس کو اسلام دشمن انسان دشمن مفاد پرست کافروں نے 1924 کو تباہ کردیا تھا 

یہ نظام حضور صلعم کے ریاست مدینہ کے قیام سے لیکر 1924تک جاری رہا  اس دور میں پوری دنیا ہر قسم کے مسائل سے محفوظ رہی جیسے ہی کافروں نے  اس اسلامی نظام کو منہدم کردیا تو آج مسلمانوں کے ستاون ممالک ہونے کے باوجود ایک فلسطین شہر تو کیا ایک مسلمان کی جان کی حفاظت پر عمل تو دور فکر بھی ختم ہو چکی ہے 

آج مسلمان یتیم بے سہارا ہوچکا ہے اور خس و خاشاک وتنکے سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے 


آج ہمیں سب کچھ معلوم ہے مگر اسلامی سیاست معلوم نہیں ہے کہ حضور نبی اکرم صلعم نے کس طرح ریاست مدینہ بنایا اس کو گہرائی سے سمجھ کر اسی طریقہ کار اور نظام سے 

*بل نقذف بالحق علی الباطل* سے کام لینا ہوگا 

امام مالک رحمہ نے فرمایا *لن یصلح آخر ھذہ الامہ الا بماصلح بہ اولھا*


بے شمار علماء سے  میری بحث چلتی رہتی ہے کبھی وہ بہت طویل ودل آزار بھی بن جاتی ہے بعض عالم نما جہلاء دلائل سے بات کرنے کی بجائے اکابرپرستی کی دہائی دے کر اپنے دامن میں منہ چھپالینے کی کوشش کرتے ہیں مزید یہ کہ اکابر پرستی کی دہائی بھی اس انداز سے کرتے ہیں کہ ہم لوگ اکابرین کے دشمن ہیں یا باغی


 میرا دعوی یہی رہتا ہے کہ جمہوری نظام کفریہ نظام ہے جب تک کفر کو نہیں سمحھیںں گے اسلام کو کماحقہ نہیں سمجھ سکتے 

تو  جمہوری علماء جمہوری نظام کی تائید میں بلکہ کفر کی تائید میں میری بڑی شد ومد سے مخالفت کرتے ہیں 

مگر کبھی اسلامی سیاست اور کفریہ سیاست کو سمجھنے کی خواہش کرتے نہیں دکھائی دیتے بلکہ اس گمان میں جمے رہتے ہیں کہ انھیں جمہوریت میں کوئی کفر نہیں دکھائی دیتا ہے 


جب مرض ہی کی تشخیص نہ ہو تو علاج کبھی بھی ممکن نہیں  الا ماشاء اللہ 

الکشنوں سے امت کا آج تک بھلا نہیں ہوا اور نہ ہونے والا یہ الکشن جمہوری نظام کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس سے عوامی نمائندگاں کو چنا جاتا ہے اور منتخب نمائندے اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں قوم کے لئے نہیں اور اگر وہ قوم کی خدمت کرنا چاہیے تو بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس طاقت اومدت دونوں کی کمی رہتی ہے مدت

 پانچ سال سے زیادہ نہیں اور طاقت. پارلیمنٹ عدالت اپوزیشن میڈیا جیسے اداروں میں تقسیم ہے 

پھر بھلا اس نظام سے بھلائی کیونکر ممکن ہے 

فافھم 


عزیر احمد بنگلوری 

8553116065

Sunday, April 23, 2023

 جمہوری نظام میں مسلمانوں کی قسطوں میں صفایا کے سوا کوئی کام ہونے والا نہیں ہے 

مسلمانوں کو اللہ نے خیر امت بناکر بھیجا ہے جب تک مسلمان برسر اقتدار رہیں گے تب تک مسلمان بلکہ پوری دنیا امن وعافیت سے رہے گی اگر مسلمان اقتدار میں نہ رہیں تو یہی حالت ہوگی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں 

آج مسلمانوں سے زیادہ عوام کے مسائل ہیں مثلا بھارت میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عصمت دری. ہر گھنٹے پر اٹھارہ لوگوں کی خودکشی. ہر بیس منٹ پر ایک کسان کی خود کشی. ہردن روزانہ پولس اسٹیشن میں پولس بربریت سے پانچ قتل. پچھلے چند سالوں سے اب تک بیس ہزار سے زیادہ ڈگری یافتہ طلبہ وطالبات نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود کشیاں کرچکے ہیں

بےروزگاری کی شرح اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے 


مسائل ومظالم جاننا چاہتے ہیں تو گوگل پر ncrb  لکھ کر تمام جرائم کی فہرست سنہ وار حاصل کرسکتے ہیں 

خلاصہ یہ کہ انسانوں کی بھلائی کا کام صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی شرعی نظام خ ل آ  فت سے جس کو اسلام دشمن انسان دشمن مفاد پرست کافروں نے 1924 کو تباہ کردیا تھا 

یہ نظام حضور صلعم کے ریاست مدینہ کے قیام سے لیکر 1924تک جاری رہا  اس دور میں پوری دنیا ہر قسم کے مسائل سے محفوظ رہی جیسے ہی کافروں نے  اس اسلامی نظام کو منہدم کردیا تو آج مسلمانوں کے ستاون ممالک ہونے کے باوجود ایک فلسطین شہر تو کیا ایک مسلمان کی جان کی حفاظت پر عمل تو دور فکر بھی ختم ہو چکی ہے 

آج مسلمان یتیم بے سہارا ہوچکا ہے اور خس و خاشاک وتنکے سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے 


آج ہمیں سب کچھ معلوم ہے مگر اسلامی سیاست معلوم نہیں ہے کہ حضور نبی اکرم صلعم نے کس طرح ریاست مدینہ بنایا اس کو گہرائی سے سمجھ کر اسی طریقہ کار اور نظام سے 

*بل نقذف بالحق علی الباطل* سے کام لینا ہوگا 

امام مالک رحمہ نے فرمایا *لن یصلح آخر ھذہ الامہ الا بماصلح بہ اولھا*


بے شمار علماء سے  میری بحث چلتی رہتی ہے کبھی وہ بہت طویل ودل آزار بھی بن جاتی ہے  میرا دعوی یہی رہتا ہے کہ جمہوری نظام کفریہ نظام ہے جب تک کفر کو نہیں سمحھیںں گے اسلام کو کماحقہ نہیں سمجھ سکتے 

تو  جمہوری علماء جمہوری نظام کی تائید میں بلکہ کفر کی تائید میں میری بڑی شد ومد سے مخالفت کرتے ہیں 

مگر کبھی اسلامی سیاست اور کفریہ سیاست کو سمجھنے کی خواہش کرتے نہیں دکھائی دیتے بلکہ اس گمان میں جمے رہتے ہیں کہ انھیں جمہوریت میں کوئی کفر نہیں دکھائی دیتا ہے 


جب مرض ہی کی تشخیص نہ ہو تو علاج کبھی بھی ممکن نہیں  الا ماشاء اللہ 

الکشنوں سے امت کا آج تک بھلا نہیں ہوا اور نہ ہونے والا یہ الکشن جمہوری نظام کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس سے عوامی نمائندگاں کو چنا جاتا ہے اور منتخب نمائندے اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں قوم کے لئے نہیں اور اگر وہ قوم کی خدمت کرنا چاہیے تو بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس طاقت اومدت دونوں کی کمی رہتی ہے مدت

 پانچ سال سے زیادہ نہیں اور طاقت. پارلیمنٹ عدالت اپوزیشن میڈیا جیسے اداروں میں تقسیم ہے 

پھر بھلا اس نظام سے بھلائی کیونکر ممکن ہے 

فافھم 


عزیر احمد بنگلوری 

8553116065

Thursday, April 6, 2023

 اٹھارھواں پارہ




اس پارے میں تین حصے ہیں:


۱۔ سورۂ مؤمنون (مکمل)


۲۔ سورۂ نور (مکمل)


۳۔ سورۂ فرقان (ابتدائی حصہ)




(۱) سورۂ مؤمنون میں سات باتیں یہ ہیں:


۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات


۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل


۳۔ توحید


۴۔ انبیاء کے قصے


۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات


۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ


۷۔ قیامت




۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات:


(۱)ایمان ، (۲)نماز میں خشوع ، (۳)اعراض عن اللغو ، (۴)زکوۃ ، (۵)پاکدامنی ، (۶)امانت داری ، (۷)نمازوں کی حفاظت۔




۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل:


(۱)مٹی (۲)منی (۳)جما ہوا خون (۴)لوتھڑا (۵)ہڈی (۶)گوشت کا لباس (۷)انسان (۸)موت (۹)دوبارہ زندگی




۳۔ توحید:


آغازِ سورت میں توحید کے تین دلائل ہیں: (۱)آسمانوں کی تخلیق ، (۲)بارش اور غلہ جات ، (۳)چوپائے اور ان کے منافع۔




۴۔ انبیائے کرام کے قصے:


(۱) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی کا ذکر۔


(۲) حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا ذکر۔


(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کا تذکرہ۔




۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات:


(۱) اللہ سے ڈرتے ہیں ، (۲)اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، (۳)شرک اور ریا نہیں کرتے ، (۴)نیکیوں کے باوصف دل ہی دل میں ڈرتے ہیں کہ انھیں اللہ کے پاس جانا ہے۔




۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ:


ان کے انکار کرنے اور جھٹلانے کی نہ یہ وجہ ہے کہ آپ کوئی ایسی نئی بات لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیائے کرام لے کر نہ آئے ہوں ، نہ آپ کے اعلیٰ اخلاق ان لوگوں سے پوشیدہ ہیں ، اور نہ یہ سچ مچ آپ کو (معاذاللہ) مجنون سمجھتے ہیں اور نہ ان کے انکار کی یہ وجہ ہے آپ ان سے معاوضہ مانگ رہے ہیں۔ اصل وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ حق کی جو بات آپ لے کر آئے ہیں، وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہے ، اس لیے اسے جھٹلانے کے مختلف بہانے بناتے رہتے ہیں۔

۔ قیامت:


روزِ قیامت جس کے اعمال کا ترازو وزنی ہوگا وہ کامیاب ہے اور جس کے اعمال کا ترازو ہلکا ہوگا وہ ناکام ہے۔




(۲) سورۂ نور میں دو باتیں یہ ہیں:


۱۔ سولہ احکام و آداب


۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں




۱۔ سولہ احکام و آداب:


زانی اور زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں۔ (احادیث سے ثابت ہے کہ یہ حکم غیرشادی شدہ کے لیے ہے)


بدکار مرد یا عورت کو نکاح کے لیے پسند کرنا مسلمانوں پر حرام ہے۔


عاقل ، بالغ ، پاکدامن مرد یا عورت پر بغیر گواہوں کے زنا کی تہمت لگانے والے کی سزا اسی کوڑے ہیں۔


میاں بیوی کے لیے بجائے گواہوں کے لعان کا حکم ہے۔


جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقین نے بہتان لگایا جو کہ بہت بڑا بہتان تھا ، مسلمانوں کی روحانی ماں پر لگایا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے دس آیات میں اس واقعے کا ذکر فرمایا ہے ، ان آیات میں منافقین کی مذمت ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ آئندہ کبھی اس قسم کی بہتان تراشی میں حصے دار نہ بنیں اور حرمِ نبوت کی عفت و عصمت کا اعلان فرمایا گیا۔


کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کریں ، اجازت سے پہلے سلام بھی کرلینا چاہیے۔


آنکھوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔


نکاح کی ترغیب۔


جو غلام یا باندی کچھ روپیہ پیسہ ادا کرکے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کے ساتھ یہ معاہدہ کرلیا کریں۔


باندیوں کو اجرت کے بدلے زنا پر مجبور نہ کریں۔


چھوٹے بچوں اور گھر میں رہنے والے غلاموں اور باندیوں کو حکم ہے کہ اگر وہ نماز فجر سے پہلے ، دوپہر کے قیلولے کے وقت اور نماز عشاء کے بعد تمھارے خلوت والے کمرے میں داخل ہوں تو اجازت لے کر داخل ہوں ، کیونکہ ان تین اوقات میں عام طور پر عمومی استعمال کا لباس اتار کر نیند کا لباس پہن لیا جاتا ہے۔


بچے جب بالغ ہوجائیں تو دوسرے بالغ افراد کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جب بھی گھر میں آئیں تو اجازت لے کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی آمد کی اطلاع دے کر آئیں۔

وہ عورتیں جو بہت بوڑھی ہوجائیں اور نکاح کی عمر سے گزر جائیں اگر وہ پردے کے ظاہری کپڑے اتار دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔


گھر میں داخل ہوکر گھر والوں کو سلام کریں۔


اجازت کے بغیر اجتماعی مجلس سے نہ اٹھیں۔


اللہ کے رسول کو ایسے نہ پکاریں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔


۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں:




پہلی مثال میں مومن کے دل کے نور کو اس چراغ کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو صاف شفاف شیشے سے بنی ہوئی کسی قندیل میں ہو اور اس قندیل کو کسی طاقچے میں رکھ دیا جائے تاکہ اس کا نور معین جہت ہی میں رہے جہاں اس کی ضرورت ہے، اس چراغ میں جو تیل استعمال ہوا ہے وہ تیل زیتون کے مخصوص درخت سے حاصل شدہ ہے ، اس تیل میں ایسی چمک ہے کہ بغیر آگ دکھائے ہی چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی حال مومن کے دل کا ہے کہ وہ حصولِ علم سے قبل ہی ہدایت پر عمل پیرا ہوتا ہے پھر جب علم آجائے تو نور علی نور کی صورت ہوجاتی ہے۔




دوسری مثال اہل باطل کے اعمال کی ہے جنھیں وہ اچھا سمجھتے تھے، فرمایا کہ ان کی مثال سراب جیسی ہے، جیسے پیاسا شخص دور سے سراب کو پانی سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن جب قریب آتا ہے تو وہاں پانی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا ، یہی حال کافر کا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو نافع سمجھتا ہے، لیکن جب موت کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہوگا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کے اعمال غبار بن کر اڑچکے ہوں گے۔




تیسری مثال میں ان کے عقائد کو سمندر کی تہ بہ تہ تاریکیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ، جہاں انسان کو اور تو اور اپنا ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا، یہی حال کافر کا ہے جو کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں سرگرداں رہتا ہے۔

(۳) سورۂ فرقان کے ابتدائی حصے میں چار باتیں یہ ہیں:


(۱) توحید


(۲) قرآن کی حقانیت


(۳) رسالت


(۴) قیامت




(۱) توحید:


اللہ وہ ذات ہے جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ، نہ کوئی شریک ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کرکے اسے ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے۔




(۲) قرآن کی حقانیت:


کافروں کی قرآن کے بارے میں دو قسم کی غلط بیانیاں ذکر کی ہیں:


1۔ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا افتراء اور اپنی تخلیق ہے جس میں کچھ دوسرے لوگوں نے تعاون کیا ہے۔


2۔ یہ گزشتہ قوموں کے قصے اور کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوالی ہیں۔




(۳) رسالت:


کفار کا خیال تھا کہ رسول بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہوتا ہے اور اگر بالفرض انسانوں میں سے کسی کو نبوت و رسالت ملے بھی تو وہ دنیاوی اعتبار سے خوشحال لوگوں کو ملتی ہے ، کسی غریب اور یتیم کو ہرگز نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید واضح دلائل سے کی ہے۔




(۴) قیامت:


روزِ قیامت کافروں کے معبودانِ باطلہ سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو بہکایا تھا یا یہ راستے سے خود بھٹکے تھے؟ تو وہ اپنے عبادت گزاروں کو جھٹلادیں گے اور ان کی غفلت کا اقرار کریں گے ، پھر ان کافروں کو بڑے بھاری عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

 *مسلم لڑکیوں کو سناتن دھرم میں کیسے لایا جائے ؟*




جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہی ہیں کہ ہمارے آر ایس ایس سربراہ شری موہن بھاگوت جی نے ہر سال دس لاکھ مسلم لڑکیوں کو گھر واپسی کرنے کا ہدف طے کیا ہے ، جس کے تحت سبھی ہندو لڑکوں کو زیادہ سے زیادہ مسلم لڑکیوں کو اسلام سے چھٹکارا دلا کر ہندو دھرم میں لانا ہے ، جس کے لیے آپ سبھی کو پندرہ دن کی ٹریننگ دی جائے گی ، جس میں آپ کو بتایا جائے گا کہ کیسے مسلم لڑکیوں کو ان کا دھرم چھڑوا کر ہندو دھرم میں گھر واپسی کرنی ہے ؟ ہمارا مقصد صرف مسلم لڑکیوں کو ہی ہندو دھرم میں لانے کا ہے ؛ کیوں کہ ایک لڑکی آنے والی پیڑھی کو ہندو بنا سکتی ہے۔ ایک مسلم لڑکی مسلم بچے پیدا کرتی ہے ، اور جب وہ ہندو دھرم میں آ جائے گی تو اس سے پیدا ہونے والی ہر اولاد بھی ہندو ہی کہلائے گی۔

نیچے کچھ پوائنٹس دیے گئے ہیں جن کے ذریعے سے آپ مسلم لڑکی کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

1) جب بھی آپ کسی مسلم لڑکی سے ملیں تو اس کے نام کی تعریف کریں ، اور اس سے اس کے نام کا مطلب جاننے کی کوشش کریں۔ بعد میں اس کے نام کا مطلب کی تعریف کر دیں جس سے اس لڑکی کو لگے کہ واقعی میرا نام بہت اچھا ہے ، اور اس کی نظر میں آپ کا کردار ایک اچھے لڑکے کا بن جائے۔

2) ہمیشہ کوشش کریں جب بھی آپ آفس ، کالج ، شادی کے فنکشن یا کسی بھی ایسی جگہ پر ملیں جہاں مسلم لڑکیاں ہندو لڑکیوں کے ساتھ آتی ہیں تب کوشش کریں آپ ان سے ہاتھ ملانے کی۔ سب سے پہلے اپنا ہاتھ اپنی کسی ہندو لڑکی سے ملائیں بعد میں مسلم لڑکیوں سے ملائیں ؛ تاکہ وہ ہاتھ ملانے سے منع نہ کر سکیں۔

3) ہمیشہ کوشش کریں کہ آپ اس کے سامنے اس مسلم لڑکی کے دھرم کی بے ادبی نہ کریں ؛  بلکہ ہمیشہ اسلام دھرم کی تعریفیں کریں جس سے اس کو لگے کہ یہ مسلم دھرم کی عزت کرتا ہے۔ اس سے آپ کا کردار اس لڑکی کی نظر میں اور بھی اثر دار بن جائے گا۔

4) کچھ دن اس لڑکی کے دھرم کی تعریف کرنے کے بعد ہو سکے تو اس سے کہیں کہ میں اسلام اپنانا چاہتا ہوں ، آپ برائے مہربانی میری مدد کر دیں! مجھے بس کچھ اور جان کاری مل جائے تو میں اسلام اپنا لوں اور اس سے اس کا موبائل نمبر حاصل کر لیں۔ آپ کی ان باتوں کو سن کر وہ کبھی بھی آپ کو نمبر دینے سے منع نہیں کر پائے گی۔ دھیان رہے کبھی بھی کسی تیسرے انسان سے نمبر لے کر اس مسلم لڑکی کو مسج نہ کریں!

5) جب بھی آپ کسی بھی مسلم لڑکی سے ملیں اس کی تعریف کرنا نہ بھولیں اور ہو سکے تو اس سے کہیں کہ مجھے آپ کا پہناوا بہت اچھا لگتا ہے ، اور آپ حجاب میں بے حد خوب صورت لگتی ہیں ، اور میرے تخیل سے زیادہ آپ حجاب میں خوب صورت لگتی ہیں۔

6) ہمیشہ دھیان رکھیں جب بھی آپ کسی مسلم کو فون یا چیٹ پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وقت ایسا چنیں جو آپ کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکے۔ میرے تجربے سے رات کو ساڑھے نو کے بعد کا وقت سب سے زیادہ مطابقت اور بہتری رکھتا ہے ؛ کیوں کہ اس وقت تک مسلم خاندانوں میں لوگ نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر اپنے بستر پر چلے جاتے ہیں۔

7) ہمیشہ جب بھی بات کریں اور اسلام کی جان کاری لینا چاہیں تو اس لڑکی کو سب سے پہلے یہ بتا دو کہ میں ابھی اپنے تبدیلئ مذہب کی بات کو سب سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہوں ؛  کیوں کہ بہت سی مثالیں ہمارے پاس ایسی بھی ہیں کہ مسلم لڑکی کو مولانا یا اپنے کسی مسلم دوست سے بھی ملوایا ہے جس سے وہ مسلم لڑکی راستہ سے نکل گئی اور ہاتھ کچھ بھی نہیں لگ پایا۔ مطلب یہ کہ لڑکی سے سب سے پہلی شرط یہ ہی رکھیں کہ وہ یہ بات کسی سے شیئر نہ کرے جس سے آپ کو اس لڑکی کو ہندو دھرم میں لانے میں کوئی تیسرا انسان رکاوٹ نہ بنے۔

8) ہو سکے تو سب سے پہلا سوال اس لڑکی سے اس کے حجاب کے بارے میں کریں۔ اس کے بعد تین طلاق ، اس کے بعد ایک سے زیادہ شادی اور اتنے سارے بچوں کے بارے میں کریں اور پھر دھیرے دھیرے ان کو احساس دلائیں کہ آپ جینس اور ٹاپ کیوں نہیں پہن سکتیں ؟ آپ اپنے شوہر کی تلوار کے نیچے کیوں رہتی ہیں؟ جب کہ وہ آپ کو کبھی بھی تین طلاق دے سکتا ہے! آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ آپ کا شوہر اچانک سے دوسری تیسری بیوی لے آئے؟ آپ کے گھر میں اتنے بچے کیوں ہوتے ہیں ؟ کیا عورت اسلام میں صرف بچے پیدا کرنے کی مشین ہے؟ اس طرح کے سوال کریں اور پھر بعد میں دھیرے دھیرے ہندو دھرم کی اچھائیاں بتائیں۔ ان سوالوں سے وہ لڑکی سوچنے پر مجبور ہو جائے گی اور وہ ہندو دھرم کے بارے میں اچھا خیال رکھنا شروع کر دے گی۔

اس لڑکی کو باتوں باتوں میں احساس دلاتے رہیں کہ آپ اس کو پسند کرنے لگے ہیں۔ مثلاً، بیچ بیچ میں ایسا کہا جائے کہ کاش! میری بیوی بھی آپ کی طرح خوب صورت اور شان دار ہو۔ آپ مسلمانوں میں تہذیب بہت ہوتی ہے۔ کاش! مجھے بیوی بھی ایسی ہی مل جائے۔

9) ایک اچھا سا موقع دیکھ کر لڑکی کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کر دیں اور اس سے کہہ دیں کہ آپ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ شاید مجھے ہی آپ سے اتنی بات نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب آپ مجھے اچھی لگنے لگیں تو اس میں میری غلطی ہے، آپ کی نہیں. آپ میری طرف سے بے فکر رہیں میں کوئی غلط کام نہیں کروں گا۔

10) اگر لڑکی جواب نہ دے تو اس پر دباؤ نہ بنائیں ؛ بلکہ اس کو ایسا محسوس ہونے دیں کہ آپ اس سے پیار کرنے لگے ہیں اور سب سے بات کرنا بند کر دیں ؛ تاکہ اس کو احساس ہونا شروع ہو جائے کہ آپ سچ میں اس سے پیار کرنے لگے ہیں۔ بہت جلد وہ لڑکی بھی آپ سے اپنے پیار کا اظہار کر دے گی۔

11) اگر لڑکی بھی آپ سے پیار کا اظہار کر دے تو سب سے پہلی شرط لڑکی کو لگانے کو کہیں۔ دھیرے دھیرے کس اور بہت جلد جسمانی تعلقات بنا لیں۔ اتنا جلدی بھی نہ کریں کہ اس کو لگے کہ آپ صرف اس کا جسم حاصل کرنے کے لیے اس سے بات کر رہے تھے اور زیادہ وقت بھی برباد نہ کریں۔

12) اگر ہندو لڑکے جسمانی تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ٪90 فی صد اس کو ہندو بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں ؛ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کیس میں لڑکے جسمانی تعلقات بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے اس کیس میں لڑکی کے گھر والے اس لڑکی کو سمجھا بجھا کر، جینے مرنے کا واسطہ دے کر لڑکی کو لڑکا سے دور کر دیتے ہیں۔

مطلب یہ کہ جسمانی تعلق کے بعد لڑکی کو حمل ٹھہرنے کی زیادہ پروا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے خاندان سے زیادہ اپنے عاشق کو اہم سمجھنے لگتی ہے ؛ کیوں کہ اس طرح اس کو ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر اس نے اپنے جسمانی تعلق یا حمل کی بات اپنے گھر والوں کے سامنے رکھی تو اس کو جان کا خطرہ بن جائے گا۔ مطلب یہ کہ اس لڑکی کے پاس اپنے خاندان کو چھوڑ کر جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا ، اور وہ ہمیشہ عاشق کو چنتی ہے۔



اگر آپ کسی بھی مسلم لڑکی کو جانتے ہیں ، اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس کو ہندو دھرم میں گھر واپسی کرا سکتے ہیں تو اس کے لئے آپ ہماری 15 دن کی ٹریننگ لے سکتے ہیں ، جس میں آپ کو کیسے بات کرنی ہے ؟ کب بات کرنی ہے ؟ کیا بات کرنی ہے ؟ وغیرہ ، سبھی طرح کی رکاوٹوں کو آسان بنا دیا جائے گا ، اور آپ کو قانونی اور جسمانی مدد بھی فراہم کی جائے گی ، اور آپ کو گھر بسانے کے لیے پانچ لاکھ کی ایک مشت رقم سے مستفیض بھی کیا جائے گا۔

آج کے دور میں اس سے بڑھ کر دھرم کی پوجا کوئی نہیں ہے۔


شکریہ


کاپی -

اکھل بھارتیہ ہندو سماج

بجرنگ دل

ہندو سینا

ہندو یوا واہنی

آر ایس ایس

گو رکشک دل

سناتنی سنستھا

بھاجپا جنتا یوا مورچہ