یہ جو تبلیغی جماعت کا نظام مدارس کے اندر رفتہ رفتہ مسلط کیا جا رہا ہے ، اس میں کچھ خیر نظر نہیں آتا ، اگر چہ جلد نہ سہی لیکن کبھی آگے چل کر غیر محسوس طریقے پر کسی بڑے شر و فتنے کا سبب ہو سکتا ہے ،
تبلیغی جماعت کا جب وجود ہوا تھا اس وقت بھی اس میں صرف خیر ہی کا پہلو غالب تھا ، لیکن چند سالوں میں ہی کتنی غلو آمیز اور افراط و تفریط کا شکار ہو گئی ہے ، اور کیا کیا ستم یہ لوگ اس جماعت کے نام پر ڈھا رہے ہیں ، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ،
جس اہلِ علم و عالم و ائمہ کے یہ قدم قدم پر اس کام میں بھی چلنے کے محتاج ہیں ، خود اپنے ایسے محسن کی بھی انھوں نے کیا درگت بنا رکھی ہے ، اس کا مشاہدہ آپ کئی بار کر چکے ہونگے ، اور کرتے بھی رہتے ہیں ،
تبلیغی جماعت کہ جس کا سارا نظام اور سارے کے سارے اعمال محض وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، لیکن اب ان تمام وسائل و ذرائع ہی کو اصل مقصود اور حکمِ شرعی سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے ، چلہ چار مہینہ میں اعتکاف سے زیادہ پابندیاں بیان کی جاتی ہیں ، اور ان پر عمل بھی کرایا جاتاہے ، اگر انتالیسویں دن کسی سبب سے گھر آ گئے تو بقیہ ایک دن بغیر گھر میں داخل ہوئے مسجد میں یہ چالیسواں دن پورا کیا جاتاہے ، مجال ہے جو اس درمیان ایک وقت کھانا ہی گھر پر جا کر کھالیں ، یہ ایک بار کا نہیں بارہا کا مشاہدہ ہے ،
موجودہ وقت میں تبلیغی نظام کا کوئی بھی عمل شرعی حدود میں نہیں ہے ، گشت.. ملاقات.. تعلیم.. سہ روزہ.. چلہ چار مہینہ وغیرہ کسی بھی عمل کو لے لیجیے.. بدعت کے دائرے میں آ چکا ہے ، اور افراط و تفریط اور غلو سے پاک نہیں ہے ،
اگر یقین نہ آئے جس دن چاہے تجربہ کر سکتے ہیں ،
یہ بھی پیش نظر رہے کہ اصل مقصود حکم شرعی اور عبادات ہیں ، اور وہ حکم شرعی اور وہ عبادات جن کی تحصیل کے لئے شریعت میں کوئی ایک طریقہ متعین نہیں ، مثلاً.. دین کی موٹی موٹی باتوں کا علم حاصل کرنا.. یہ حکمِ شرعی ہے اور ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ، لیکن بقدر ضرورت علمِ دین حاصل کرنے کا کوئی ایک طریقہ قیامت تک کے لئے متعین نہیں کیا گیا ، بلکہ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے کوئی.. کہیں بھی.. کسی بھی جگہ.. اور کسی بھی ذریعہ سے اتنا علم حاصل کر لیتا ہے تو فریضہ ادا ہوجاتا ہے ، اور ہر دور.. ہر زمانے.. اور وقت.. اور موجودہ زمانے کے اسباب و وسائل اختیار کرتے ہوئے علم دین حاصل کرسکتا ہے ،
اسی طرح دعوت و تبلیغ کا بھی اصل مقصد بقدر ضرورت علم کی تحصیل ہے ، یا تو سیکھنا ہے یا سکھانا ہے ، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لیکر علمِ دین کی تحصیل کا سلسلہ چلا آ رہا ہے ، وقت اور حالات کے مناسب شرعی حدود میں جس کو جس طرح موقع ہوا اس طریقے پر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس فریضے کو ادا کرتے آ رہے ہیں ، کسی نے آج تک کسی ایک طریقے پر اصرار نہیں کیا ، نہ اپنے طریقہ کے کسی نے فضائل گھڑے ، نہ کسی نے اپنا ایجاد کیا ہوا طریقہ سب سے بہتر اور سب پر لازم قرار دیا ،
اسی طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں بھی اپنے وقت اور حالات کے مناسب حال بڑی عمر کے لوگوں کے لئے علم دین حاصل کرنے کا ایک آئیڈیا آیا اس کا تجربہ کیا گیا ، تجربے سے وہ مفید معلوم ہوا ، تو بہت سے لوگوں نے حوصلہ افزائی کی ، اور عوام کو نفع و فائدہ پہونچا ، یہاں تک تو بات کسی حد تک درست ہے ،
لیکن یہ کہنا کہ اس میں سب کا لگنا ضروری ہے ، یہ سب پر فرض ہے ، اور جو طریقہ مولانا الیاس نے رائج کیا تھا بالکل اسی کے مطابق کرنا اور چلنا سب پر ضروری ہے ، اور اس کے کسی بھی اعمال میں رتی بھر تبدیلی یا کمی زیادتی کی گنجائش گوارا نہ کی جائے تو سمجھ لیجیے کہ اب یہ کسی مقصود کے لئے ذریعہ و وسیلہ نہیں رہا.. بلکہ اب خود اسی کو مقصود و حکم شرعی سمجھ لیا گیا ہے ،
تبلیغی جماعت کا ایک عمل گشت ہے ، اس کی بھی زیادہ سے زیادہ شریعت کے مطابق گنجائش ہو سکتی ہے ، بشرطیکہ شریعت کی خلاف ورزی کی کوئی بات لازم نہ آئے ، اس کے کچھ ارکان ہیں ، رہبر.. متکلم.. امیر.. استقبال.. دعا و ذکر.. تعلیم ، یہ تمام کے تمام ارکان محض وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور وقت حالات تقاضے کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص اپنے گرد و پیش کے تقاضے و مصلحت کے پیش نظر اس میں کوئی بھی مناسب تبدیلی یا کمی بیشی کر سکتا ہے ،
مثلاً.. کسی عالمِ دین کے دل میں خیال آیا کہ گشت کے مجموعے کو عوام نے فرض و واجب کا درجہ دے دیا ہے ، اور جو مروجہ طریقہ گشت کا چلا آ رہا ہے ، عوام صرف اسی طرح انجام دینا گشت سمجھتے ہیں ، ورنہ نہیں ، لاؤ اس گشت میں سے دعا و ذکر کے لئے کسی کو بٹھانا موقوف کر دیتے ہیں.. تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جائے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی..
تو اب یہ بتائیے کہ گشت میں سے اگر صرف دعا و ذکر کے لئے کسی کو نہیں بٹھایا تو شرعاً کونسا گناہ لازم آ جائے گا ، یا صرف ایک چیز کم کر دینے سے کیا نقصان لازم آجائےگا ، حالانکہ جب عوام اس کو درجہ سے بڑھا دیں تو تبدیلی یا کمی بیشی یا موقوف ہی کر دینا شرعاً لازم و ضروری ہے ، ان سب کے باوجود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا حالات ایسے ہیں کہ اس کو گوارا کیا جائے گا ، چاہے کتنے بڑے سے بڑا عالم اس کا مشورہ دیں ، کوئی اس کی جرأت کر کے دیکھے پھر دیکھئے کتنا بڑا بوال کھڑا ہوتا ہے ، یہی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اب اس کو محض وسیلہ و ذریعہ سمجھ کر نہیں کیا جا رہا ہے ، بلکہ وسائل و ذرائع ہی کو اصل مقصود سمجھ لیا گیا ہے ،
تو جب یہ خود شرعی حدود میں نہیں رہا ، اور غلو و افراط و تفریط اور بدعت کے دائرے میں آ گیا تو اب حتی المقدور اس سے بچنا اور بچانا حکمِ شرعی ہوگا ، یا خود بھی اسی میں شامل ہوجانا اور اسی کا حصہ بن جانا ،
یہی بات دینی مدارس کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ.. جب آپ خود علمِ دین تعلیم کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ، اور بقدرِ ضرورت اور فرض کفایہ سبھی طرح کے انتظامات بحمد اللہ آپ دے رہے ہیں ، اور مدارس کے نظام تعلیم و تربیت کا ہمیشہ ہمیش کے لئے کوئی لگا بندھا نظام بھی نہیں ہے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں نصاب بدلتا رہتا ہے ، خیر القرون سے لیکر آج مدارس کے کسی نظام اور کسی قانون کو لازم و ضروری نہیں سمجھا گیا جب جیسی تبدیلی اور جیسا موقع و موسم ہوتا ہے ، اپنا نظام اسی کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے ، کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ یہ نظام اتنے سالوں سے چل رہا ہے ، یہ نظام ان کا شروع کیا ہے ، اور نہ تو آج تک مدارس کے کسی بھی عمدہ سے عمدہ نظام کے کبھی فضائل سننے میں آئے ، نہ یہ کہتے دیکھا گیا ہمارا نظام ہی سب سے بہتر ہے اور سب پر اسی کی پیروی لازم ہے ، اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی کی ضرورت نہیں ،
تو پھر ان سب کے باوجود مدارس کے اندر بھی اس مروجہ تبلیغی جماعت کے نظام کو داخل کرنے کی آخر کیا مجبوری اور کیا ضرورت ہے ، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوگی کہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہے ، جس کمی کو پورا کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کے نظام کو مدارس داخل و لاگو کرنا ضروری ہے ،
بندہ کا ایک بار اتفاقاً مدارس کے طلبہ کے علاقائی جوڑ میں جانا ہوا ، وہاں باقاعدہ اس بات کی عوام کو تاکید کی جا رہی تھی کہ آپ مدارس میں جایا کریں وہاں کا جائزہ لیا کریں کہ وہاں فضائل و منتخب احادیث کی تعلیم کس وقت ہوتی ہے ، جا کر دیکھیں ، روزانہ کی ملاقات ہو رہی ہے یا نہیں ، مدرسہ کے ہفتہ واری گشت میں شرکت کریں ، ہفتہ واری جماعتیں پابندی سے نکل رہی ہیں یا نہیں ، اب دیکھئے بستی کے ایک عام آدمی کو یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ آپ مدارس کے اندر جاکر تبلیغی نظام کی خبر گیری لیں ، کیا یہ احساس کمتری نہیں ہے ، وہ طلبہ جو ایسے مدارس میں نشو و نما پا رہے ہیں کیا ان کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست نہیں ہوگی کہ ہمیں جو کچھ پڑھا پڑھایا جا رہا ہے یہ ناکافی ہے اور اس کی وہ حیثیت نہیں ہے جو تبلیغی جماعت کے نظام کی ہے ، اور اس میں سب کا لگنا ضروری ہے ، جیسا کہ دعوی کیا جاتاہے ،
جب کہ مدارس کے قیام کے بہت سے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بدعت و غلو آمیز باتوں اور افراط و تفریط سے دین کو پاک و صاف کرنا ہے ، پھر جب اہلِ مدارس ہی ایسی باتوں کو قبول کرلینگے جو افراط و تفریط پر مبنی اور بدعات کا پیش خیمہ ثابت سکتی ہیں تو پھر چلت پھرت والا مدرسہ ہی کافی ہے ، مدارس قائم کرنے ہی کی کیا ضرورت ہے ،
بندہ کے دل میں کافی عرصے سے جو بات تھی ذمہ داری سمجھتے ہوئے وہ سامنے رکھ دی ہے ، اپنی کسی بات پر اصرار نہیں ہے ، نہ کسی طرح کا کوئی دعوی ہے ،
لیکن جو افراط و تفریط میں مبتلا ہیں وہ تو حسبِ عادت سابقہ تبلیغ مخالف قرار دینگے ہی ، لیکن کیا کریں عند اللہ جوابدہی ایسی باتیں سامنے رکھنے پر مجبور کرتی ہیں ، قبول کرنے والے اور قدر دانوں کی بھی بڑی تعداد ہوتی ہے ، اگر چہ رد عمل میں بہت سے مسائل بھی کھڑے ہوتے رہتے ہیں ، لیکن .کیا کیا جائے ایسے مسائل سے ذمہ داری سے سبکدوشی تو نہیں حاصل ہوسکتی اپنا کام تو بہر حال انجام دینا ہی ہوگا ،
ہم نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا
اب جس کے جی میں آئے سو وہ پائے روشنی
اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
محمد فیاض