Friday, June 30, 2023

 *عید الاضحی سے معیشت کو کتنا فائدہ؟*

*از: محمد اکرم خان قاسمی حمایت نگر*

عید الاضحی ایک ایسا تہوار ہے جس میں جانور، جانور کا چارہ،ٹرانسپورٹ،قربانی کے محنتانےکا پیسہ سب غریب دیسی طبقے کے لوگوں کے ہاتھ جاتا ہے۔

بکری پالن (مویشیوں کی پرورش) ملک کا سب سے غریب طبقہ اور گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگوں کا پیشہ ہے۔

یہ وہ FD ہے جو ہر عید الاضحی پر وہ لوگ کیش کرواتے ہیں،یہی اکلوتا بڑا تہوار ہے جہاں پیسہ بازار کے بجائے گاؤں کے غریب لوگوں کے پاس جاتا ہے۔

(ایک اندازے کے مطابق cr2000 دو ہزار کروڑ روپیے سے زاید پیسہ غریب کسان کے ہاتھ پہنچتا ہے جن میں اکثر غیر مسلم ہیں)

گاؤں میں غریبوں کے لیے بھیڑ، بکریاں ATM  کی طرح ہوتی ہے جنھیں وہ ضرورت کے وقت بیچ کر پیسہ کماسکتے ہیں۔

 اس عید پرغریبوں کی کمائی ہوتی ہے۔جس سے وہ پیسہ بچوں کی تعلیم یا خاندان کے کسی بیمار کے علاج(رسم ،شادی وغیرہ دیگر پروگراموں میں ) کام آتا ہے۔ورنہ دیگر تہواروں میں صرف بیوپاریوں کا فائدہ ہوتا ہے۔

اس تہوار کی مخالفت صرف بیوقوف لوگ کرتے ہیں جن کو گاؤں،کسان،کھیتی اور مویشی پالن اور ملک کی معیشت کی کوئی سمجھ نہیں۔جس ملک کی معیشت 50 فی صد کھیتی پر منحصر ہے۔

ہر گاؤں میں کئی خاندان ایسے ہوتے ہیں جن کا گذر بسر بھیڑ بکریوں پر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ عید لاٹری  (lottry)کا دن ہے۔

بقر عید ایک واحد تہوار ہے جس کا فائدہ کسی چینی کمپنی،MNC یا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نہیں پہنچتا بلکہ صرف اور صرف عام آدمی اور دیہی علاقے کی معیشت کو پہنچتا ہے۔

( Aneeta sanjeevانیتا  سنجیو کی وال سےترجمہ )

Monday, June 26, 2023

 😄* *نحوی دلہن کامبتداشوہر* 😄 

___________________

اہل مدارس کےلۓ۔


        فراغت کے بعد جب لڑکی مدرسہ سےاپنےگھر آئی ،تو چند دنوں بعد اس کی ماں نے پوچھا :


       "بیٹی !میں چاہتی ہوں کہ اب تیری شادی کر دی جائے _____بتا تجھے شوہر کیسا چاہیے____?"


 لڑکی بولی :


   "اماں ! میرا شوہر "مبتدا" ہوناچاہیۓ _____جب میں اس کی زندگی میں "خبر" بن کر جاؤں، تو ہماری زندگی کی "ترکیب" اسمیہ خبریہ" بن کر رہے ___"

 

   ماں حیرت سےمنہ تکنےلگی۔

     پھر مسکرا کر بولی:


" بیٹی ! تو اگر"فعل "بنےاور تیرا شوہر "فاعل" تو بھی تو زندگی کی "ترکیب" مکمل ہو جائے گی ____"


     بیٹی نے تَن کر کہا :


       "نہیں  اماں !   میرا شوہر مبتداہی ہونا چاہیے۔ جانتی ہو!

 جو مبتدا ہوتا ہے، وہ لفظی اور معنوی عوامل سے خالی ہوتا ہے ۔ میں نہیں چاہتی کہ میرا شوہر جسمانی اور مالی مشکلات کا شکار ہو  _____ شوہر اگر مبتداہوا، تو زمانے کے "جار"،"مجرور" اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے "


     ماں کو ہنسی آگئی۔ اس نے کہا:


   " میری نحوی بیٹی ! تو جس مبتدا کے فضائل بیان کر رہی ہے ،وہ کبھی کبھی "موخر" بھی ہوجاتا ہے ____فرض کرو تمہارے شوہر کی زندگی میں اگر تم سے پہلے ہی کوئی بیوی خبر بن کر آ چکی ہو ؟ تو پھر تیراشوہر  تیرے لیے "مبتدا موخر" ہی ثابت ہوگا ۔"


    بیٹی بولی :


"اماں ! میں نے اسی لئے تو مبتدا پسند کیا ہے۔ وہ موخر ہو یامقدم ،ہمیشہ مبتدا ہی ہوتا ہے_____ اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک فعل کاہمیشہ ایک ہی فاعل ہوتاہے ۔جبکہ ایک مبتدا اگر چاہے تو اس کی چار چارخبریں ہو سکتی ہیں۔


 بس  ماں !   دعا کرو کہ ہم دونوں جب شادی بعد "معطوف علیہ" بنیں۔ تو  خوشیوں کے"معطوفات" کم نہ ہوں______جب ہم شادی کےبعد"موصوف "بنیں۔ تو اولاد کی "صفت "ہمیشہ قائم رہے _____ساس جب "اعراب" بن کر سامنے آئے' تو میں "مبنی" کی طرح ڈٹی ر ہوں _____خود "غیر منصرف "

رہوں - مگر اپنی نند کو "منصرف" بنا کر رکھوں______"


ماں نےہاتھ اٹھاۓ، اورکہا:


 " مولا !میری "ذوالحال" بیٹی کو اپنی رحمت کے "حال" سے مالا مال فرما !

دنیا کے" نکرہ" سے بچا کر اپنی معرفت کا "معرفہ "بنا !

  فتنوں کے "ممیزات" کے بیچ 

اسے "تمیز "کی حیثیت عطا فرما!

 اگر ہم اس دنیا سے "محذوف "بھی ہو جائیں تو ہماری دعائیں ہماری بیٹی کی زندگی میں "ضمیر" کی طرح موجود رہیں ۔


         آمین یا رب العالمین

Friday, June 23, 2023

 علم میں اگر آپ پختگی چاہتے ہیں تو 4 کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ 4 صفات اپنے اندر پیدا کرلیں تو علم میں پختگی اور رسوخ آے گا ـ 


1۔ التقوى فيما بينه وبين الله


اللہ اور اپنے بیچ ایک ایسا تعلق قائم کریں جو تقوَی کی بنیاد پر ہو۔ علم کی پہلی اثاث تقوی ہے۔اگر دل میں تقوی آگیا تو اللہ فرقان عطا کردے گا۔


2- التواضع فيما بينه و بين الناس


اپنے اور لوگوں کے ساتھ جو تعلق ہے وہ عاجزی انکساری اور تواضع کی بنیاد پر ہو۔ لوگوں کے ساتھ محبت اور نرمی والا رویہ ہو نہ کہ کبر والا ـ


3۔ الزهد فيما بينه و بين الدنيا


دنیا سے بے رغبتی ہو۔ دنیا سے اتنا ہی تعلق ہو جتنا اس میں رہنے کے لئے ضروری ہو۔پریشانی اور توجہ کا مرکز صرف آخرت ہو ـ 


4۔ المجاهدة فيما بينه و بين نفسه

اپنے نفس کے ساتھ تعلق مجاہدہ والا ہو۔ اپنے نفس کو تھکانا ہوگا۔ علم جسم کی راحت کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ محنت کرنی ہے۔


اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ ان چار صفات کے ساتھ یہ جو چار تعلقات ہیں اس پر ہمیں استحکام نصیب فرمادے۔ تاکہ دنیا و آخرت ہماری بہتر ہو سکے۔

عمرے کاسفر

 [3/11/2022, 8:30 pm] Husband: اشعار 

مدینہ کوئی طاقت پیسہ اور عہدے کی بنیاد پر جا نہیں سکتا خالص قسمت کا فیصلہ ہے 

جسے چاہا درپہ بلالیا 



میں تو اس قابل نہ تھا 

خدام العلماء ویلفیئر فاؤنڈیشن 

تین خدمات 

ٹرسٹیوں کے نام 

لیگل ایڈوائزر جناب ایڈووکیٹ بشیر صاحب حج کے لئے نکلے تو چیرمن صاحب نے اسی وقت اعلان کردیا 

عحمرے وحج کی خدمات  

حفیظ اللہ شریف 

!!

پندرہ علماء حفاظ سرپرستان جامع مسجد میں عالیشان اعزازیہ پروگرام تھا 

نیز چیرمن صاحب علماء کے استقبال کیلئے اپنی فیملی کے ساتھ حرم میں حاضر تھے 

واپسی میں تینوں احباب چیرمن سرپرست اور ڈائریکٹر  استقبال کے لئے رات جاگتے رہے آخر تک انتظار میں رہے اور زائرین معتمرین کی گل پوشی کی اور مختصر پارٹی بھی کی 

مکہ ہوٹل تھوڑا دور تھا مدینہ میں جوھرۃ الرشید 

کمرے کی سہولیات 

ہوٹل کی خدمات 

کھانے کا نظام 

سفر میں امگریشن بورڈنگ پاس مرحلہ وار  سرکاری تحقیقات پر رہبری اور ذہن سازی جیسی قیمتی کام 

جنت الفردوس ٹورس پر یہ سہرا سجے گا 

ذمہ داران کا نام بنام 

دیگر ٹورس والوں پر زائرین ناراض تھے 

سیدھی بات 

تین مستورات کا کار سے ایرپورٹ 


ساتھیوں نے کئی کئی عمرے کئے

خصوصاً چیرمن صاحب اور ان کے والد سی عبدالعزیز صاحب 


زیارت میں تین اسفار 

ہر سفر میں دعا نعت حمد تاریخی واقعات

 ملاقاتیں 

رفاعی صاحب 

ترکی کے نقشبندی صاحب 

تقی عثمانی صاحب 

کعبہ کے خدام 

مدینہ کے خدام 

نیز ایک سمینار میں شرکت 

سمینار میں ال سعود کے کارناموں خصوصاً خادم الحرمین کی شہرت 

جبکہ ہر خادم الحرمین الشریفین   صرف حرم کا خادم نہیں نلکہ خادم اسلام ومسلمین خلفائے تھے 

اب خلافت ختم کردئے تو مسلمان یتیم وبے سہارا  مظلوم ہوگئے 

مدینے میں سب کی نسبتوں کے مد نظر خصوصاً حرم مدینہ اور روضہ رسول کی نسبت سے نعتیہ مشاعرہ رکھا گیا 

لگیج پر ایک انتباہ ضروری سامان مختصر کھجور پانی ضروری ہے 

مزہ کرکرا ہوگیا 

ہرجگہ کا مزہ الگ الگ تھا


مروہ کا لطیفہ


سب سے اہم یہ کہ عربی عالم عربی پولس عربی بولنے والے ہی کی زیادہ چلتی ہے 

عربی ہی کو ترجیح اور قدر زیادہ ہے 

مقامی لوگوں کی قدر زیادہ ہے بمقابلے غیر مقامی کے 


مروہ کا لطیفہ

سمینار میں پہلے دو تصویریں دکھائی 

14توسیعات میں 6 بتلائی 

چھ کو ایک بالشت اور باقی سب ال سعود کی تعریف 

زیارت کے موقع پر عشق رسول میں جو غلطیاں کرتے ہیں اس کو نمایاں کیا جاتا ہے 

داڑھی اور غیر مسنون شرطی اور خدام کو بھول جاتے ہیں 

جلالۃ الملک وخادم الحرمین کا فرق 

خلافت کے نہ ہونے سے یتیمی

موجودہ ال سعود سوشل اسلام کو بھی ختم کرنے پر کمربستہ ہو چکی ہے 

اسلامی ملک جانچنے کا معیار پانچ ہیں

میڈیا نے بھی ساری کارگزاری کی کوریج کرتی رہی

Tuesday, June 13, 2023

ابو جھل اسکول

 *"اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ابوجہل کوئی اسکول کھولتا تو آپکے خیال میں کتنے صحابہ اپنے بچے اسکے سکول میں داخل کرواتے؟*..... اور ایک ہم ہیں کہ ابوجہل کی فکر کو پروموٹ کرنے والے سکولوں میں شوق شوق سے جوق در جوق اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں."


یہ عام غلط فہمی ہے کہ بدر کے قیدی کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی"تعلیم" کا فدیہ لیا. انہوں نے علم نہیں دیا تھا، محض پڑھنا لکھنا سکھایا تھا.


" علم دینے" اور "پڑھانے لکھانے" کا فرق اس مثال سے سمجھیں کہ ایک غیر مسلم اگر کتے کے بارے میں "پڑھائے" گا تو یہ بتائے گا کہ لفظ کتا لکھنا کیسے ہے اور پڑھنا کیسے ہے، یعنی املاء اور ہجے وغیرہ. اور جب کتے کے بارے میں "علم" دے گا تو بتائے گا کہ کتا انسان کا دوست اور وفادار جانور ہے. اس سے محبت کرنی چاہیے اسے اپنے بستر میں بھی سلا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ.

جبکہ ایک دیندار مسلمان کتے کے بارے میں "پڑھائے" گا تو غیر مسلم کی طرح ہی، البتہ جب "علم" دے گا تو بتائے گا کہ کتا، انسان کی اور اسکی بھیڑ بکریوں کی حفاظت کے کام آتا ہے، شکار بھی کر سکتا ہے لیکن ہے یہ ناپاک جانور. اسے گھر کے اندر رکھنے سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر کسی برتن میں منہ مار دے تو سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے صاف کئیے بغیر پاک نہیں ہوتا... وغیرہ وغیرہ


یہی فرق ہے "تعلیم" کا ابوجہل کے اسکول میں اور کسی محمدی اسکول میں.


(ماخوذ از ورکشاپ برائے "والدین کی ذمہ داریاں"،)


┄┅════❁❁════┅┄۔

*📚 اردو نصیــحتیں🌹* 

┄┅════❁❁════┅┄۔


 *فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:*

https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/


 *ٹیـــلی گـــرام لنــــك:*

t.me/UrduNaseehaten


*واٹســپ کمیونٹی گــروپ:*

https://chat.whatsapp.com/IXlgJ1UbiNw71X7vtfG5NS

Sunday, June 11, 2023

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 


        "آج کی بات"



کلامِ حِجازی ... عیدِ قرباں

------

عیدِ قرباں دینِ حق کی شان ہے

عیدِ قرباں رب کا اک احسان ہے

عیدِ قرباں تسبیح و تہلیل ہے

رب کی تکبیروں کا یہ اعلان یے

حرم کی رنگیں اگر ہے داستان

عیدِ قرباں اُسکا تو عُنوان ہے

وہ خلیل اللہ کا مشکل امتحاں

محوِ حیرت آج بھی فاران ہے

رب پے قرباں مال بھی, اولاد بھی

یہ خلیل اللہ کا ایمان ہے

جس پہ جُھکتا ہے ذبیحُ اللہ کا سر

عیدِ قرباں رب کا وہ فرمان ہے

عیدِ قربان اُس سبق کا نام ہے

جس سبق کو بُھولنا کُفران ہے

ہر دفعہ یہ عیدِ قرباں کہہ گئی

راہِ براہیم کہاں آسان ہے

حُکمِ رب پے سر جُھکے اور سر کٹے

عیدِ قرباں حاصلِ قرآں ہےِ

عیدِ قرباں دیکھ کر اے مومنو

خاک مَلتا آج بھی شیطان ہے

عیدِ قرباں پر لہو بہتا یے جو

مغفرت کا وہ لہو سامان ہے

عیدِ قربان کا یہی ہے فلسفہ

رب کی خاطر جان تک قربان ہے

رُوحِ قربانی سے جو ہے بےخبر

وہ حِجازی کس قدر نادان ہے


          "صبح بخیر"


&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&

Monday, June 5, 2023

 HEALTH & MEDICAL NEWS IN URDUURDU ARTICLES

والدین ہوشیار باش! سوشل نیٹ ورکس بچوں اور نوعمر لڑکیوں کے...

Read More at https://waraquetaza.com/

Sunday, June 4, 2023

 *كثرت عمره افضل ہے يا كثرت طواف ؟*

سوال

۱۔ جب کوئی شخص عمرہ یاحج کرنے کیلئے چلا جائے کیا وہاں   پر بار بار عمرہ کرسکتا ہے   ؟  بار بار عمرہ کرنا افضل ہے یا طواف؟   


۲۔عمرہ نزدیک جگہ سے افضل ہے یا دور جگہ سے؟   مثال کے طور کوئی مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا   سے احرام باندھے اور کوئی شخص مدینہ منورہ سے احرام باندھے ۔


جواب

۱۔متعدد عمرے کرنا یا ایک عمرہ کرکے پھر حرم میں ہی رہتے ہوئے متعدد طواف کرنا دونوں جائزہیں۔ البتہ آفاقی شخص (یعنی جو میقات سے باہر رہنے والا ہو) کے لیے" کثرتِ عمرہ "افضل ہے ، اور مکی کے لیے  کثرتِ طواف  افضل ہے، اس لیے اگر زائر   حلّ تک جانے اور واپس آنے کے کرایہ اور حلق وغیرہ کے اخراجات کا متحمل ہو تو اسے حسبِ استطاعت عمرے کرنے چاہییں، اور اگر گنجائش نہ ہو تو کثرت سے طواف کرنے چاہییں۔ واضح رہے کہ یہ حکم صرف افضلیت کے اعتبار سے ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گنجائش کے باوجود عمرے کثرت سے نہیں کرتا، بلکہ حرم میں رہ کر طواف کرتاہے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی اور ضرورت (مثلاً: سفر میں کوئی مریض یا ضعیف ساتھ ہو جس کی خدمت میں رہنا ضروری ہو) کی وجہ سے اضافی عمرے نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔


پے در پے عمرہ کرنے کی   آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ترغیب دی ہے ،اوربعض صحابہ اور تابعین سے بھی اس کی ترغیب منقول ہے ،چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "پے در پے حج ،عمرہ کیا کرو کیوں کہ یہ فقر اور گناہوں کو ایسے ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی  لوہے اور سونے ،چاندی کے میل کو ختم کردیتی ہے" اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا  "(دوسرا)عمرہ (پہلے)عمرے تک کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے "،  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ\" وہ ایک عرصہ تک مکہ میں آکر رہے اور جب بھی ان کے بال بڑے ہوتے تھےوہ عمرہ کر لیا کرتے تھے  "


مناسك ملا علي القاري  میں  ہے:


"ولایکره الإکثار منها أي من العمرة في جمیع السنة، بل یستحب أي الإکثار منها، وأفضل مواقیتها لمن بمکة التنعیم والجعرانة، والأول أفضل عندنا ".


(مناسك ملا علي القاري، ۴۶۷)


۲۔  نیز  آفاقی شخص ایک عمرہ مکمل کرکے تمام ارکان سے فارغ ہونےکے بعد حدودِ حرم میں موجود ہو تو وہ مکی کے حکم میں ہوگا اور وہ \'حل \'میں (حدودِ حرم سے باہر اور میقات کے اندر) کسی بھی جگہ جاکر عمرہ کا احرام باندھ کر دوسرا عمرہ کرسکتا ہے، البتہ تنعیم (یعنی مسجد عائشہ) سے جاکر احرام باندھنا افضل اور بہتر ہے۔


در مختار میں ہے:


"والمیقات لمن بمکة یعني من بداخل الحرم للحج الحرم وللعمرة الحل ؛ لیتحقق نوع سفر، والتنعیم أفضل'․ (درمختار) وفي الشامية: 'والمراد بالمکي من کان داخل الحرم سواء کان بمکة أولا، وسواء کان من أهلها أو لا․"


(كتاب الحج، فصل في الاحرام وصفة المفرد بالحج، ص:158، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)


فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101214


دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

یہ جو تبلیغی جماعت کا نظام مدارس کے اندر رفتہ رفتہ مسلط کیا جا رہا ہے ، اس میں کچھ خیر نظر نہیں آتا ، اگر چہ جلد نہ سہی لیکن کبھی آگے چل کر غیر محسوس طریقے پر کسی بڑے شر و فتنے کا سبب ہو سکتا ہے ، 


تبلیغی جماعت کا جب وجود ہوا تھا اس وقت بھی اس میں صرف خیر ہی کا پہلو غالب تھا ، لیکن چند سالوں میں ہی کتنی غلو آمیز اور افراط و تفریط کا شکار ہو گئی ہے ، اور کیا کیا ستم یہ لوگ اس جماعت کے نام پر ڈھا رہے ہیں ، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، 

جس اہلِ علم و عالم و ائمہ کے یہ قدم قدم پر اس کام میں بھی چلنے کے محتاج ہیں ، خود اپنے ایسے محسن کی بھی انھوں نے کیا درگت بنا رکھی ہے ، اس کا مشاہدہ آپ کئی بار کر چکے ہونگے ، اور کرتے بھی رہتے ہیں ، 


تبلیغی جماعت کہ جس کا سارا نظام اور سارے کے سارے اعمال محض وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، لیکن اب ان تمام وسائل و ذرائع ہی کو اصل مقصود اور حکمِ شرعی سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے ، چلہ چار مہینہ میں اعتکاف سے زیادہ پابندیاں بیان کی جاتی ہیں ، اور ان پر عمل بھی کرایا جاتاہے ، اگر انتالیسویں دن کسی سبب سے گھر آ گئے تو بقیہ ایک دن بغیر گھر میں داخل ہوئے مسجد میں یہ چالیسواں دن پورا کیا جاتاہے ، مجال ہے جو اس درمیان ایک وقت کھانا ہی گھر پر جا کر کھالیں ، یہ ایک بار کا نہیں بارہا کا مشاہدہ ہے ،

 موجودہ وقت میں تبلیغی نظام کا کوئی بھی عمل شرعی حدود میں نہیں ہے ، گشت.. ملاقات.. تعلیم.. سہ روزہ.. چلہ چار مہینہ وغیرہ کسی بھی عمل کو لے لیجیے.. بدعت کے دائرے میں آ چکا ہے ، اور افراط و تفریط اور غلو سے پاک نہیں ہے ، 

اگر یقین نہ آئے جس دن چاہے تجربہ کر سکتے ہیں ، 


یہ بھی پیش نظر رہے کہ اصل مقصود حکم شرعی اور عبادات ہیں ، اور وہ حکم شرعی اور وہ عبادات جن کی تحصیل کے لئے شریعت میں کوئی ایک طریقہ متعین نہیں ، مثلاً.. دین کی موٹی موٹی باتوں کا علم حاصل کرنا.. یہ حکمِ شرعی ہے اور ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ، لیکن بقدر ضرورت علمِ دین حاصل کرنے کا کوئی ایک طریقہ قیامت تک کے لئے متعین نہیں کیا گیا ، بلکہ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے کوئی.. کہیں بھی.. کسی بھی جگہ.. اور کسی بھی ذریعہ سے اتنا علم حاصل کر لیتا ہے تو فریضہ ادا ہوجاتا ہے ، اور ہر دور.. ہر زمانے.. اور وقت.. اور موجودہ زمانے کے اسباب و وسائل اختیار کرتے ہوئے علم دین حاصل کرسکتا ہے ، 


اسی طرح دعوت و تبلیغ کا بھی اصل مقصد بقدر ضرورت علم کی تحصیل ہے ، یا تو سیکھنا ہے یا سکھانا ہے ، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لیکر علمِ دین کی تحصیل کا سلسلہ چلا آ رہا ہے ، وقت اور حالات کے مناسب شرعی حدود میں جس کو جس طرح موقع ہوا اس طریقے پر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس فریضے کو ادا کرتے آ رہے ہیں ، کسی نے آج تک کسی ایک طریقے پر اصرار نہیں کیا ، نہ اپنے طریقہ کے کسی نے فضائل گھڑے ، نہ کسی نے اپنا ایجاد کیا ہوا طریقہ سب سے بہتر اور سب پر لازم قرار دیا ،


اسی طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں بھی اپنے وقت اور حالات کے مناسب حال بڑی عمر کے لوگوں کے لئے علم دین حاصل کرنے کا ایک آئیڈیا آیا اس کا تجربہ کیا گیا ، تجربے سے وہ مفید معلوم ہوا ، تو بہت سے لوگوں نے حوصلہ افزائی کی ، اور عوام کو نفع و فائدہ پہونچا ، یہاں تک تو بات کسی حد تک درست ہے ، 

لیکن یہ کہنا کہ اس میں سب کا لگنا ضروری ہے ، یہ سب پر فرض ہے ، اور جو طریقہ مولانا الیاس نے رائج کیا تھا بالکل اسی کے مطابق کرنا اور چلنا سب پر ضروری ہے ، اور اس کے کسی بھی اعمال میں رتی بھر تبدیلی یا کمی زیادتی کی گنجائش گوارا نہ کی جائے تو سمجھ لیجیے کہ اب یہ کسی مقصود کے لئے ذریعہ و وسیلہ نہیں رہا.. بلکہ اب خود اسی کو مقصود و حکم شرعی سمجھ لیا گیا ہے ،

 

تبلیغی جماعت کا ایک عمل گشت ہے ، اس کی بھی زیادہ سے زیادہ شریعت کے مطابق گنجائش ہو سکتی ہے ، بشرطیکہ شریعت کی خلاف ورزی کی کوئی بات لازم نہ آئے ، اس کے کچھ ارکان ہیں ، رہبر.. متکلم.. امیر.. استقبال.. دعا و ذکر..  تعلیم ، یہ تمام کے تمام ارکان محض وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور وقت حالات تقاضے کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص اپنے گرد و پیش کے تقاضے و مصلحت کے پیش نظر اس میں کوئی بھی مناسب تبدیلی یا کمی بیشی کر سکتا ہے ، 

مثلاً.. کسی عالمِ دین کے دل میں خیال آیا کہ گشت کے مجموعے کو عوام نے فرض و واجب کا درجہ دے دیا ہے ، اور جو مروجہ طریقہ گشت کا چلا آ رہا ہے ، عوام صرف اسی طرح انجام دینا گشت سمجھتے ہیں ، ورنہ نہیں ، لاؤ اس گشت میں سے دعا و ذکر کے لئے کسی کو بٹھانا موقوف کر دیتے ہیں.. تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جائے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی..

 تو اب یہ بتائیے کہ گشت میں سے اگر صرف دعا و ذکر کے لئے کسی کو نہیں بٹھایا تو شرعاً کونسا گناہ لازم آ جائے گا ، یا صرف ایک چیز کم کر دینے سے کیا نقصان لازم آجائےگا ، حالانکہ جب عوام اس کو درجہ سے بڑھا دیں تو تبدیلی یا کمی بیشی یا موقوف ہی کر دینا شرعاً لازم و ضروری ہے ، ان سب کے باوجود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا حالات ایسے ہیں کہ اس کو گوارا کیا جائے گا ، چاہے کتنے بڑے سے بڑا عالم اس کا مشورہ دیں ، کوئی اس کی جرأت کر کے دیکھے پھر دیکھئے کتنا بڑا بوال کھڑا ہوتا ہے ، یہی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اب اس کو محض وسیلہ و ذریعہ سمجھ کر نہیں کیا جا رہا ہے ، بلکہ وسائل و ذرائع ہی کو اصل مقصود سمجھ لیا گیا ہے ،

 تو جب یہ خود شرعی حدود میں نہیں رہا ، اور غلو و افراط و تفریط اور بدعت کے دائرے میں آ گیا تو اب حتی المقدور اس سے بچنا اور بچانا حکمِ شرعی ہوگا ، یا خود بھی اسی میں شامل ہوجانا اور اسی کا حصہ بن جانا ،

یہی بات دینی مدارس کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ.. جب آپ خود علمِ دین تعلیم کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ، اور بقدرِ ضرورت اور فرض کفایہ سبھی طرح کے انتظامات بحمد اللہ آپ دے رہے ہیں ، اور مدارس کے نظام تعلیم و تربیت کا ہمیشہ ہمیش کے لئے کوئی لگا بندھا نظام بھی نہیں ہے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں نصاب بدلتا رہتا ہے ، خیر القرون سے لیکر آج مدارس کے کسی نظام اور کسی قانون کو لازم و ضروری نہیں سمجھا گیا جب جیسی تبدیلی اور جیسا موقع و موسم ہوتا ہے ، اپنا نظام اسی کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے ، کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ یہ نظام اتنے سالوں سے چل رہا ہے ، یہ نظام ان کا شروع کیا ہے ، اور نہ تو آج تک مدارس کے کسی بھی عمدہ سے عمدہ نظام کے کبھی فضائل سننے میں آئے ، نہ یہ کہتے دیکھا گیا ہمارا نظام ہی سب سے بہتر ہے اور سب پر اسی کی پیروی لازم ہے ، اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی کی ضرورت نہیں ،

 تو پھر ان سب کے باوجود مدارس کے اندر بھی اس مروجہ تبلیغی جماعت کے نظام کو داخل کرنے کی آخر کیا مجبوری اور کیا ضرورت ہے ، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوگی کہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہے ، جس کمی کو پورا کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کے نظام کو مدارس داخل و لاگو کرنا ضروری ہے ، 

بندہ کا ایک بار اتفاقاً مدارس کے طلبہ کے علاقائی جوڑ میں جانا ہوا ، وہاں باقاعدہ اس بات کی عوام کو تاکید کی جا رہی تھی کہ آپ مدارس میں جایا کریں وہاں کا جائزہ لیا کریں کہ وہاں فضائل و منتخب احادیث کی تعلیم کس وقت ہوتی ہے ، جا کر دیکھیں ، روزانہ کی ملاقات ہو رہی ہے یا نہیں ، مدرسہ کے ہفتہ واری گشت میں شرکت کریں ، ہفتہ واری جماعتیں پابندی سے نکل رہی ہیں یا نہیں ، اب دیکھئے بستی کے ایک عام آدمی کو یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ آپ مدارس کے اندر جاکر تبلیغی نظام کی خبر گیری لیں ، کیا یہ احساس کمتری نہیں ہے ، وہ طلبہ جو ایسے مدارس میں نشو و نما پا رہے ہیں کیا ان کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست نہیں ہوگی کہ ہمیں جو کچھ پڑھا پڑھایا جا رہا ہے یہ ناکافی ہے اور اس کی وہ حیثیت نہیں ہے جو تبلیغی جماعت کے نظام کی ہے ، اور اس میں سب کا لگنا ضروری ہے ، جیسا کہ دعوی کیا جاتاہے ، 

جب کہ مدارس کے قیام کے بہت سے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بدعت و غلو آمیز باتوں اور افراط و تفریط سے دین کو پاک و صاف کرنا ہے ، پھر جب اہلِ مدارس ہی ایسی باتوں کو قبول کرلینگے جو افراط و تفریط پر مبنی اور بدعات کا پیش خیمہ ثابت سکتی ہیں تو پھر چلت پھرت والا مدرسہ ہی کافی ہے ، مدارس قائم کرنے ہی کی کیا ضرورت ہے ، 

بندہ کے دل میں کافی عرصے سے جو بات تھی ذمہ داری سمجھتے ہوئے وہ سامنے رکھ دی ہے ، اپنی کسی بات پر اصرار نہیں ہے ، نہ کسی طرح کا کوئی دعوی ہے ، 

لیکن جو افراط و تفریط میں مبتلا ہیں وہ تو حسبِ عادت سابقہ تبلیغ مخالف قرار دینگے ہی ، لیکن کیا کریں عند اللہ جوابدہی ایسی باتیں سامنے رکھنے پر مجبور کرتی ہیں ، قبول کرنے والے اور قدر دانوں کی بھی بڑی تعداد ہوتی ہے ، اگر چہ رد عمل میں بہت سے مسائل بھی کھڑے ہوتے رہتے ہیں ، لیکن .کیا کیا جائے  ایسے مسائل سے ذمہ داری سے سبکدوشی تو نہیں حاصل ہوسکتی اپنا کام تو بہر حال انجام دینا ہی ہوگا ، 


ہم نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا 

اب جس کے جی میں آئے سو وہ پائے روشنی 


اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد

 نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد

محمد فیاض