Wednesday, October 25, 2023

 یہودیوں کی تاریخ 🧙‍♂️*

  *گزشتہ 1000 سال کی تاریخ*
  1080 میں فرانس سے فرار
  1098 میں *چیک ریپبلک* سے فرار
  1113 میں کیوان روس سے فرار
  1113 میں یہودیوں کا قتل عام
  1147 میں *فرانس* سے نکال دیا گیا۔
  1171 میں اٹلی سے فرار
  1188 میں *انگلینڈ* سے نکال دیا گیا۔
  1198 میں انگلینڈ سے فرار
  1290 میں *انگلینڈ* سے فرار
  1298 میں سوئٹزرلینڈ سے نکال دیا گیا (100 یہودیوں کو پھانسی دی گئی)
  1306 میں فرانس سے بے دخل کیے گئے 300 یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
  1360 میں ہنگری سے فرار
  1391 میں اسپین سے بے دخل کیا گیا (3000 یہودیوں کو پھانسی دی گئی، 5000 کو زندہ جلا دیا گیا) 1394 میں فرانس سے فرار
  1407 میں *پولینڈ* سے بے دخل کیا گیا۔
  1492: اسپین سے بے دخل (یہودیوں کے اسپین میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا)
  1492 میں *سسلی* سے بے دخل کیا گیا۔
  1495 میں *لیتھوانیا* سے نکال دیا گیا۔
  1496 *پرتگال سے خروج*
  1510 میں انگلینڈ سے فرار
  1516: پرتگال سے دوبارہ اخراج
  1516 میں سسلی میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو صرف یہودی بستیوں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
  1514 میں *آسٹریا* سے فرار
  1555 میں *پرتگال* سے نکال دیا گیا۔
  1555 میں روم میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو یہودی بستیوں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
  1567 میں *اٹلی* سے بے دخل کیا گیا۔
  1570 میں *جرمنی (برانڈنبرگ)* سے نکال دیا گیا۔
  1580 میں نوگوروڈ (اور ڈی ٹیریبل) سے بے دخل
  1592 میں فرانس سے نکال دیا گیا۔
  1616 میں *سوئٹزرلینڈ* سے نکال دیا گیا۔
  1629 میں اسپین اور پرتگال سے نکال دیا گیا (پلٹائیں IV)
  1634 میں *سوئٹزرلینڈ* سے نکال دیا گیا۔
  1655 میں *سوئٹزرلینڈ* سے دوبارہ بے دخل کیا گیا۔
  1660 میں *کیف* سے خروج
  1701 میں *سوئٹزرلینڈ* سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا (پلٹائیں V)
  1806 میں نپولین کا الٹی میٹم
  1828 میں *کیف* سے فرار
  1933 میں جرمنی سے بے دخلی اور نسل کشی۔
  14 مئی 1948 کو *فلسطین* نے اپنے ملک میں یہودیوں کو *پناہ* دی۔
  *(عرب تاریخی کتب کے ذریعہ شائع کردہ) اس کے علاوہ
سب سے پہلے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہودیوں کو شہر سے نکال دیا، اس لیے ان کا کہیں ٹھکانہ نہیں، جس کو حضور نے نکالا ہے اس کی کہیں پناہ نہیں ہے۔

  یہ یہودیوں کی تاریخ ہے۔  خود بھی پڑھیں اور دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کریں۔
                    ~‌⁩‌✧شکنجۂ یہود✧~👇
=====================
https://t.me/abuashraf9661

Thursday, October 19, 2023


فلسطین اور قدس سے ہمارا رشتہ 


محمد قمر الزماں ندوی 

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ


    اس وقت جب کہ فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ،ان کو زمیں بوس کیا جارہاہے ،غزہ کا ہر چہار جانب سے یہودی فوجوں نے محاصرہ کرلیا ہے،ان پر خطرناک قسم کے کیمیکل کے بم برسائے جارہے ہیں ،ان کے لئے پانی بجلی اور خوراک کو بند کردیا گیا ہے ، بچے بوڑھے عورتیں جوان سبھی بھوک پیاس دوا اور خوراک کے بغیر تڑپ رہے ہیں ،ایسے میں امت کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے،جو حماس اور فلسطین کو غلط ٹہرا رہا ہے ،حماس کو روافض کا ایجنٹ بتا رہا ہے اور امت مسلمہ میں تشکیک اور شبہات کا ماحول پیدا کررہا ہے ۔ یہ امت کا انتہائی خطرناک طبقہ ہے، جو ہمیشہ اپنے کچھ مفادات اور تحفظات کے لئے غیروں کا آلئہ کار بنتا ہے ۔۔

    حیرت ہے کہ اس میں ایک بڑی تعداد جبہ و دستار اور اونچی ٹوپی اور بڑی پگڑی والوں کی ہے ،جو مستقل اپنی فتنہ سامانی میں مشغول ہے اور امت مسلمہ میں تشکیک اور شبہات کے بیج بونے میں مشغول ہے ،تاکہ امت کنفیوز میں رہے ۔ 

    بہر حال امت کو حقیقت حال سے واقف کرانا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔۔ حماس کی حقیقت اور اس کی قربانیاں کیا ہیں اور کیا رہی ہیں؟ ، اس کا جاننا ضروری ہے۔ تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں ۔ لیکن اس سے پہلے مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس سے ہمارا ایمانی، قومی ،اخلاقی اور روحانی رشتہ کیا ہے ؟ اور اسرائیل کا وجود کتنا ناجائز اور غلط ہے؟ اس کی حقیقت اور تاریخ کو جاننا بہت

 ضروری ہے، امت مسلمہ کے ایک فرد کو اس مبارک جگہ، اور مبارک مسجد نیز قبلئہ اول کی تاریخ کو بتانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ...... حضرات ! 

     تین اہم مقامات مقدسہ ایسے ہیں ،جہاں بالقصد جانے کی ترغیب حدیث میں موجود ہے، ان میں ایک مسجد اقصیٰ بھی ہے ۔جو تمام مذاہب یہود و نصاری اور مسلمانوں کے نزدیک ارض مقدس ہے اور سبھی اس پر دعویدار ہیں ، لیکن حقیقت یہ کے اس کے اصل حقدار اور مستحق شرعی قانونی اخلاقی اور دستوری طور پر صرف  مسلمان ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ،یہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے ،قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کے بیان میں خاص طور پر اس مبارک مسجد کا اور اس کے ارد گرد کے بابرکت زمین ہونے کا ذکر موجود ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ قرآن و حدیث کے مطابق سفر معراج کے دوارن مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے اور روایت حدیث کے مطابق یہاں تمام انبیاء کرام کی امامت کی اور آگے آسمانوں کے سفر کے لیے روانہ ہوئے ۔ مسجد اقصیٰ کی ارد گرد کی سرزمین بابرکت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ، پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ بیت المقدس تک لے گیا، جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت سے نوازا ہے تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں ۔ بیشک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔۔فلسطین کی سرزمین کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔اسی لیے اس سرزمین کو انبیاء کرام کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ،یہاں جگہ جگہ انبیاء کرام کے نشانات موجود ہیں ۔اور گزشتہ قوموں کے اثرات و اثرات اور کھنڈرات پائے جاتے ہیں ۔۔

دوستو بزرگو اور بھائیو! لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     *فلسطین عالم اسلام کی سیاسی بے بسی ، اقتدار اعلی کی پامالی اور خون مسلم کی ارزانی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، آج جس طرح روس کے مقابل یوکرین کی پشت پناہی میں امریکہ اور یوروپ ایک ہو گیا ہے، اور جس طرح یوروپ اور امریکہ یوکرین کی بے دریغ مالی اور عسکری مدد کر رہے ہیں ، کیا اس کا دسواں حصہ بھی مسلم حکمرانوں نے فلسطین کی آزادی کے متوالوں اور شہیدان حریت کیلئے کیا ہے؟ جب کہ فسلطینیوں کی قربانی ہر لحاظ سے یوکرینیوں سے زیادہ ہے، لیکن جب کوئی خارجی سہارا نہ ہو ، مدد کیلئے ہاتھ آگے نہ بڑھتے ہوں تو پھر خالی ہاتھ اور خالی پیٹ جد و جہد کب تک جاری رہ سکتی ہے۔*

      *فلسطین کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے، یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ موجوده فلسطینی ان کنعانی عربوں کی ہی اولاد ہیں، جنہوں نے اس شہر کو آباد کیا تھا، اور ان کے حاکم نے حضرت ابراہیم کی دعوت توحید کی بھی حمایت کی تھی ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اس شہر کو اپنا مستقر بنایا، شب و روز گزرتے رہے، مختلف قومیں یہاں حکومت کرتی رہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں فلسطین اسلام کی پناہ میں آیا ، پھر مسلمانوں کی غفلت اور عیش کوشی کی پاداش میں اس پر عیسائیوں نے قبضہ کیا اور خون کے دریا بہائے ، سلطان صلاح الدین نے اسلامی غیرت سے کام لیا اور فلسطین کو بازیاب کیا، پھر ایک وقت آیا جب تاریخ کا پہیہ الٹا گھوما اور مسلمان یہاں سے بے دخل کر دیے گئے ۔*

     *شاطران یوروپ کی چال کہیں یا یہودیوں کی روایتی مکاری، فلسطین میں یہودیوں کو زبردستی بسانے کا کام شروع ہوا ، اور یہ کام یوروپ کی سر پرستی میں ہوا جس کی قیادت برطانیہ کر رہا تھا، فلسطینیوں کو وہاں سے زبردستی بھگایا گیا، ان پر آتشیں ہتھیاروں سے آباد کاروں نے حملے کئے، ان کی بستیاں نذر آتش کردی گئیں، اور بالآخر جب یہودیوں کی ایک معتد بہ تعداد فلسطین میں آباد ہوگئی تو فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کر کے ایک کو یہودی مملکت بنادیا گیا، اس ساری کارروائی میں نہ انصاف پیش نظر تھا، نہ انسانی ہمدردی ،صرف سیاست مد نظر تھی ، جس میں بقول اقبال: دین سے جدا ہونے کے بعد صرف چنگیزی باقی رہ جاتی ہے۔*

     *فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کی تائید میں بارہا یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ یہودیوں کی موعودہ سرزمین ہے، وہ یہاں سے بے دخل کیے گیے تھے؛ لہذ افلسطین پر پہلا حق یہودیوں کا ہے، اس کا بہتر جواب علامہ اقبال نے اس قطعہ میں دیا ہے :* 

ہے خاک فلسطین یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا 

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور 

قصہ نہیں ناریج کا یا شہد و رطب کا! 

    *حقیقت یہ ہے کہ آج تک اور آج بھی فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، اس کی پوری ذمہ داری یوروپ اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے، یوروپ نے بالخصوص برطانیہ نے یہودی مملکت قائم کی اور امریکہ نے سلامتی کونسل میں ہر مرتبہ یہودی مملکت کا دفاع کیا، حد یہ ہے کہ امریکہ نے اب تک سب سے زیادہ یہودی مملکت کے دفاع میں ہی اپنا ویٹو پاور استعمال کیا ہے، اس کے باوجود امریکہ اور یوروپ خود کو حقوق انسانی کا علمبر دار کہتے نہیں تھکتے مسلم ملکوں کو حقوق انسانی کی تاکید کرتے ہیں اور فلسطین کے معاملات پر آنکھیں موند لیتے ہیں، اقبال نے یوروپ اور امریکہ کی اس دوری کا کتنا بہتر نقشہ کھینچا ہے:*

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار 

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل 

 تدبير سے کھلتا نہیں یہ عقده دشوار

 ترکان جفا پیشہ کے پنجے نکل کر

 بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

     *آج بے حسی کا یہ عالم ہے کہ روزانہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی عورت مرد، بچے بوڑھے بھی کے قتل کی خبریں سنتے ہیں اور دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، اثر کیسے ہو، ایک تو حادثات اس طرح پے در پے واقع ہورہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا " کھا میں کدھر کی چوٹ بچا ئیں کدھر کی چوٹ دوسرے مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں ، اور تیسرے شاید اسلام جس طرح ہماری زندگی سے دور ہوتا جار ہا ہے اس سے ہمارے دل بھی سخت ہو گئے ہیں ، اب ہم پر مسلمانوں کی موت کا زیادہ اثر نہیں ہوتا، ضرورت ہے کہ ان حالات میں فلسطین کے نام اور کاز سے عوام کو باخبر رکھا جائے ؛ تا کہ لوگ فلسطین کے مسئلہ سے جڑے رہیں، بیگانہ نہ ہو جائیں ، ۔۔۔۔۔۔


ماخوذ از کتاب صدائے فلسطین از صابر حسین ندوی مقدمہ نگار حضرت 

خالد سیف اللہ رحمانی 

( ناظم اعلی : المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد )

۵ / رجب المرجب ۱۴۴۵ھ

 ۲٠۲۳/۰۱/۲۸ء


حضرات!!!!!!

ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ ۔۔۔۔۔۔


“اسرائیل کسی بھی اعتبار سے جائز حکومت نہیں ہے۔


اتنی بات واضح ہے کہ اسرائیل کی موجودہ نام نہاد حکومت ناجائز اور غیرقانونی ہے جس کا توڑ دینا ہی عدل پسند دنیا کا سب سے پہلا کام ہونا چاہیے، کیونکہ دوسروں کی تخریب پر اپنی تعمیر اٹھائی جانی ڈکیتی اور چوری کے سوا اور کیا لقب پاسکتاہے۔

برطانیہ نے چوروں کی طرح نقب زنی کی۔ 

امریکہ نے ڈکیتوں کی طرح مال اٹھایا۔ 

یہود نے تھانگیوں کی طرح اسے لے کر رکھ لیا۔ 

اور مجلس اقوام نے کفن چوروں کے انداز سے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی، تو کیاچوروں، ڈکیتوں، تھانگیوں اور کفن چوروں کے حاصل کردہ مال کو جائز مال کہا جا سکے گا؟ 

اگر دنیا کی کسی منصف عدالت میں اس واردات کا مقدمہ رکھا جائے تو کیا فرد جرم ان سب رہزنوں کے خلاف نہیں لگائی جائے گی؟ 

اور کیا وقت آنے پر یہ سب کے سب درجہ بدرجہ سزا کے مستحق نہ ہوں گے؟ 

اور کیا مال اصل مالک کے حوالہ کردیا جانا ہی قرین انصاف نہ ہو گا؟ 

بہرحال اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ یہ ناجائز مال زیادہ دیر تک غاصبوں کے قبضے میں نہیں رہے گا۔”

(بحوالہ: اسرائیل کتاب وسنت کی روشنی میں، قاری محمد طیب رحمہ اللہ، دارالکتاب دیوبند، 1989)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرات!!!!!!!!!!

،، مسجد اقصی اور فلسطین کا قضیہ اسلامی دنیا کے علماء ،مفکرین اور تحریکات کے لیے اوّل روز سے دلچسپی اور فکرمندی کا باعث رہا ہے۔ اس قضیے سے متعلق بیسویں صدی کے تمام ہی اسلامی مفکرین اور تمام ہی اسلامی تحریکات بہت ہی واضح موقف اور پوزیشن رکھتے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کا موقف بھی اس سلسلہ میں بہت ہی دوٹوک اور واضح تھا، مولانا مودودی نے “سانحہ مسجد اقصی” کے عنوان سے اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ اس مسئلہ پر تاریخی اور شرعی لحاظ سے گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے  موجودہ سیاسی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے مولانا مودودی نے مندرجہ ذیل چار حقائق بیان کیے ہیں:

* “اول: یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔

* دوم: یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈاک لیں اور اسلام کو دیس نکالا کر دیں۔

* سوم: یہ کہ اقوامِ متحدہ ریزولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔

* چہارم: یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے 22 سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔”

مولانا مودودی کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس مسئلہ کو محض اہل فلسطین یا اہل عرب کا مسئلہ مان لیا گیا تو پوزیشن کافی کمزور ہوجائے گی، اور اس مسئلہ کی نوعیت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، چنانچہ مولانا کا ماننا تھا کہ مسجد اقصی نہ تو صرف اہل فلسطین کا مسئلہ ہے اور نہ صرف عرب دنیا کے ممالک کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ پوری امت اور دنیا بھر میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اور پوری امت کو اس کے لیے مجتمع اور ایک آواز ہونا پڑے گا۔

مولانا مودودی مسجد اقصی کے خلاف صیہونی سازش کو یہودیوں کی بین الاقوامی سازش مانتے تھے، اور یہ بات بھی مانتے تھے کہ اس کے لیے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کو ایک موقف اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ مذکورہ چار حقائق کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صیہونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ستر، پچہتر کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی تیس-بتیس حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روئے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان ومال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔”

مولانا مودودیؒ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے، “اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے” یہ مولانا مودودی کا اسرائیلی ریاست سے متعلق دوٹوک موقف تھا۔ مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصی کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اور مسجد اقصی کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرالیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔

مولانا مودودی فلسطین کو واپس 1917ء یعنی اعلان بالفور سے پہلے کی پوزیشن پر دیکھنا چاہتے تھے، مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ اعلان بالفور کے بعد دنیا بھر سے فلسطین میں آنے والے یہودیوں کو وہاں سے واپس چلے جانا چاہیے،،۔۔۔۔۔۔

[[ھفت روزہ دعوت 15اکتوبر2023،،  شمارہ 40]]


     حضرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

    اب اس وقت جو کچھ ہورہا وہ بہت ہی خراب صورتحال اور ناگفتہ بہ حالات ہیں ، سچ یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے امریکہ اسرائیل اور اس کے مدد گار ممالک انسانیت اور آدمیت کے مقام سے گر چکے ہیں ، جانوروں کی سطح پر آچکے ہیں ۔ جانور بھی ان کی حرکتوں سے شرمسار ہوجائے ۔ ان کی حرکتوں سے ایسا لگتا ہی نہیں کہ ان کے اندر انسانیت کی کوئی نشانی اور رمق بھی موجود ہے ۔ نہتے فلسطینیوں پر جس درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں کم ملے گی ۔۔ لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک صرف مذمتی بیانات اور قرارداد پر اکتفا کر رہے ہیں اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف کوئی کارروائی اور اقدام کا فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں ۔۔ ہم کس قدر بے حس اور بزل ہوچکے ہیں دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے۔۔ آج اگر ہم سارے مسلمان متحد نہیں ہوئے ،سیسہ پلائی دیوار نہیں بنے اسرائیل اور امریکہ کو کمزور نہیں کیا، معاشی طور پر ان کو بے بس نہیں کیا ۔ان کو ان کی حرکتوں سے نہیں روکا، تو مستقبل میں مزید ہماری بربادی ہوگی ۔۔ اس لئے ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا، فیصلہ لینا ہوگا ،ظالموں کو ظلم سے روکنا ہوگا ، ان کے زہریلے ڈنک کو کاٹنا ہوگا ۔۔۔ خدا کرے یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائیں اور ہم حالات کا مقابلہ اور سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

6393915491

Thursday, October 5, 2023

 *حدیث کے نام پہ بولے جانے والے مشہور 106 جھوٹ*


ان اقوال کا تذکرہ "غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ" نامی کتاب میں ہے جو سات جلدوں میں ہے


اس کتاب کی تقریظ مولانا سلیم اللہ خان کی ہے اور تحقیق مفتی امیر طارق صاحب  کی ہے-  

ملاحظہ فرمائیں اور حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں- 


1: ایک بڑھیا نبی کریمﷺ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی من گھڑت روایت ہے-


2: حضرت بلالؓ شین کو سین پڑھا کرتے تھے اور انکو اذان دینے سے روکا گیا تو اس صبح سورج طلوع نہیں ہوا۔۔ دونوں روایات من گھڑت ہیں


3: اویس قرنی ؒ کا اپنے دانت مبارک توڑنے والی روایت من گھڑت ہے۔


4: حضرت عمر ؓ کے بیٹے کا زنا کرنے والا واقعہ بھی من گھڑت ہے۔ 


5: وطن کی محبت ایمان ہے۔۔۔ من گھڑت روایت ہے-


6: جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔۔

 من گھڑت روایت ہے


7: عالم کے پیچھے ایک نماز چار ہزار چار سو چالیس نمازوں کے برابر ہے۔۔۔روایت من گھڑت ہے


8: علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ عربی محاورہ ہے حدیث نہیں-


9: دوران نماز حضرت علی ؓ کے بدن سے تیر نکالنے والا مشہور قصہ، من گھڑت ہے


10: جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے۔ من گھڑت ہے۔


11: ہاروت و ماروت اور زہرہ کا قصہ من گھڑت ہے۔


 

12: ماہ صفر یا ماہ رمضان کی بشارت دینے پر جنت کی بشارت دینا غلط ہے ایسی کوئی حدیث نہیں۔ 


13: اگر جھک جانے میں عزت کم ہو تو قیامت کو مجھ سے لے لینا۔ من گھڑت ہے


14: میں ایک چھپا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا ۔۔ من گھڑت ہے


15: زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگی۔۔ من گھڑت ہے۔


16: حضرت بلال ؓ کا نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا ، پھر آذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا۔ (من گھڑت قصہ ہے)


17: آپ ﷺ کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے فرما دیجیۓ تاکہ میری امت کو دوسری امت کہ سامنے شرمندگی نا اٹھانا پڑے۔ (من گھڑت ہے)


18:  ہر نبی کو نبوت چالیس برس بعد ملی ہے۔ (من گھڑت ہے)


19: درود پڑھنے پر اللہ ستر ہزار پروں والا پرندہ پیدا کریں گے جس کی تسبیح کا اجر درود پڑھنے والے کو ملے گا۔ (من گھڑت ہے)


20: جو شخص آذان کہ وقت باتیں کرتا ہے اسے موت کہ وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔ (من گھڑت ہے)


21: اللہ تعالیٰ کا نبی کریم ﷺ کو معراج کہ موقعہ پر فرمانا کہ آپ ﷺ جوتوں سمیت عرش پر آجائیں۔ (من گھڑت ہے)


22: فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنے پر روزی میں وسعت، اہل خانہ کے مابین تنازع نا ہونا ، اور ایمان پر خاتمہ۔ (یہ فضائل بے اصل ہیں


23: روز محشر باری تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ کون ہے جو حساب دے حضرت صدیق اکبر ؓ کے سامنے آنے پر اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


24:  آپ ﷺ کے وصال کہ بعد جبریل علیہ السلام کا دنیا میں دس بار آنا اور دس چیزیں لے جانا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


25: بے پردہ عورت جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


26. آپ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے رب تعالیٰ میری نماز جنازہ پڑھیں گے (من گھڑت ہے)


27: نبی کریم ﷺ کی ولادت کے سال ہر حاملہ عورت کے گھر لڑکے کا پیدا ہونا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


28: حضرت بلال ؓ کا آپ ﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر جنت میں داخل ہونا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


29: آپ ﷺ کا ارشاد: مجھے موت کا اتنا بھروسہ بھی نہیں کہ ایک طرف سلام پھیروں تو دوسری طرف بھی پھیر سکوں گا یا نہیں۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


30: ابو جہل کہ ہاتھوں میں کنکریوں کا آپ ﷺ کی شہادت دینا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


31: دوران نماز والدین کی پکار پر نماز چھوڑ کر جانے والی روایت (شدید ضعیف، بیان نہیں کر سکتے)


32: مومن کے جھوٹے میں شفاء ہے (من گھڑت)


33: ابو بکرصدیق ؓ کا ٹاٹ کا لباس پہننا اور باری تعالیٰ کی جانب سے ان پر سلام (من گھڑت ہے)


34: آپ ﷺ کا سکرات میں جبریل سے کہنا کہ میری ساری امت کی سکرات کی  تکلیف مجھے دے دو۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


35: حضرت فاطمتہ الزہرہ کا ایک بال ننگا تھا تو سورج طلوع نہیں ہوا (بے اصل ہے)

36: روز قیامت ایک نیکی دینے پر دو افراد کا جنت میں جانا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے) 


37: جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستان سے چالیس دن تک اللہ عذاب کو دور کر دیتا ہے۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)


 38:  معراج کا خاص راز۔ حضرت عائشہ ؓ کا اپنے والد ابو بکر صدیق ؓ سے مشورہ کر کہ نبی کریم ﷺ سے معراج کی رات کی خاص باتوں میں سے ایک بات کا پوچھنا اور ابو بکر صدیق ؓ کو بتانا۔ جس کو سن کر وہ رو پڑے۔  (یہ روایت کسی مستند یا غیر مستند کتاب میں نہیں مل سکی)


39: ایک دفعہ نبی کریم ﷺ طواف فرما رہے تھے ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے پایا جس کی زبان پر یا کریم یا کریم کی صدا تھی۔ حضور ﷺ نے بھی پیچھے سے یا کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ جس پر اس نے آپ ﷺ سے فرمایا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ (یہ واقعہ بھی کسی مستند یا غیر مستند روایات میں موجود نہیں)


40: دو شخص حضرت عمر فاروقؓ کی مخفل میں داخل ہوئے اور ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ اس شخص نے اقرار کیا اور کچھ امانتیں واپس کرنے کے لیے تین دن کی مہلت مانگی جس پر ابوذر غفاری ؓ نے ان کی ضمانت دی۔۔۔۔۔ (کسی بھی مستند یا ضعیف مصدر میں اس پورے واقعہ کا کوئی حوالہ نا مل سکا)


41: کچرہ پھینکنے والی بڑھیا اور مکہ چھوڑ کر جانے والی بڑھیا، دونوں روایات من گھڑت ہیں اور وہ بڑھیا جس کی خدمت ابو بکر صدیق ؓ کئی سال کرتے رہے یہ روایت انتہائی ضعیف نا قابل بیان ہے۔


42: ایک شخص میں چار خامیاں تھی نبی کریم ﷺ کے کہنے پر اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے۔  (من گھڑت ہے)


43: ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم لے کر جائے گی۔ باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹے کو۔۔ (من گھڑت ہے)


44: جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کا نام برکت حاصل کرنے کے لئے محمد رکھے تو وہ بچہ اور اس کا والد دونوں جنت میں جائیں گے. (من گھڑت ہے)


45: اپنی اولاد کو رونے پر مت مارو کیوںکہ بچہ کا رونا چار مہینہ لا الہ الا اللہ ہے، اور چار مہینہ تک محمد رسول اللہ(ﷺ) ہے، اور چار مہینہ والدین کے لئے دعا ہے۔ (من گھڑت ہے)


46: بخیل جنت میں نہیں جائے گا اگرچہ وہ عابد ہو، اور سخی جہنم میں نہیں جائے گا اگر چہ وہ فاسق ہو۔ ( من گھڑت ہے)


47: ایک گھڑی غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ 


(یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت سری سقطیؒ کا کلام ہے)


48: حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے موسی جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو میرے اور آپ کے درمیان 70 ہزار پردے ہوتے ہیں لیکن امت محمدیہ جب افطار کے وقت دعا مانگے گی تو کوئی پردہ نہ ہوگا۔ (من گھڑت ہے)


49: شب قدر کے حوالے سے نوافل کی خاص تعداد یا خاص طریقے سے نماز پڑھنے والی روایات (من گھڑت ہیں) 


50: تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہو۔ (من گھڑت ہے)


51 : حضرت بلال نے اذان نہیں دی تو دن نہیں چڑھا یہ بھی من گھڑت ہے ،

52: ابو جہل کے دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت دینے کے لئے 100 سو مرتبہ جانا

 ( بے سند ہے آپ سے منسوب کر کے بیان نہیں کر سکتے)

53: طوفانی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلے والوں کو دعوت دینا ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)  

54: ایک آدمی کا راہ راست پر آجانا داعی کی نجات کے لئے کافی ہے ۔

( بے سند ہے بیان کرنا منع ہے) اس سے ملتی جلتی ایک روایت ہے وہ صحیح ہے 

55: حضرت ایوب کا اپنے جسم کے کیڑے کو یہ کہنا " اللہ کے رزق میں سے کھا ۔ 

( بیان نہیں کر سکتے مرفوعاً یہ روایت کہیں نہیں ملی) 

56: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بستر سمیٹ دو اب میرے آرام کے دن ختم ہو گئے۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 

57: نماز مومن کی معراج ہے

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 

58: صحابی کی داڑھی کے ایک ہی بال پر فرشتوں کا کھیلنا ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

59: مسجد سے بال کا نکالنا ایسے ہے جیسے مردار گدھے کا مسجد سے نکالنا ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

60: اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

61: جسے اللہ ستر مرتبہ محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسے اپنے راستے میں قبول کر لیتے ہیں ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

62: ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

63: ایک یہودی کا معراج کے واقعہ سے انکار پر پہلے عورت بن جانا دو بچے پیدا کرنے کے بعد  پھر مرد بن جانا ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

64: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طبیب کو یہ فرمانا: ہم ایسی قوم ہیں جو سخت بھوک کے علاؤہ نہیں کھاتے اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

65: سلمان علیہ السلام نے مخلوقات کی دعوت کے لئے کھانا تیار کیا جسے ایک مچھلی کھا گئی۔ 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

66: بے نمازی کی نحوست سے بچنے کے لئے گھر کے دروازے پر پردہ ڈالنا ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

67: بے نمازی کی نحوست چالیس گھروں تک جاتی ہے ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

68: جان بوجھ کر نماز چھوڑنے پر ایک حقب جہنم میں جلنا ۔

ایک حقب 80 سال کا ہے اس کا ہر سال تین ساٹھ دن کا ہے اور ہر دن دنیا کے دن کے ایک ہزار دن کے برابر ہے ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

69: ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ پیتا بچہ لے کر آئی اور کہا کہ اسے بھی جہاد میں لے جائیں ، لوگوں نے کہا یہ بچہ جہاد میں کیا کرے گا تو عورت نے کہا جب کوئی تیر آئے تو اسے آگے کر دینا ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

70: استنجاء بیٹھنے کا طریقہ یہودی نے سنا تو اس نے ایسا ہی کیا اس کے دشمن نے رسہ پھینک کر گلا گھونٹنا چاہا مگر سنت کے مطابق بیٹھنے سے بچ گیا تو وہ مسلمان ہو گیا ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

71: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کا تحفہ پیش کرنا ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)

72: حضرت بلال نے آپ سے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہدایت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اگر ہدایت آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو میری باری نجانے کب آتی ۔

(بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے )


73: حضرت بلال کی قسم پر سحری کے وقت کا ختم ہوجانا ۔

(بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 


74: جب کوئی مسجد میں ہوا خارج کرتا ہے تو فرشتہ اس ہوا کو منہ میں لے کر مسجد سے باہر خارج کر دیتا ہے ۔

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 


75:جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستان سے چالیس دن تک عذاب دور کر دیا جاتا ہے ۔

(بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 


76: حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے لئے قبر کا یہ کہنا کہ یہ حسب نسب کی جگہ نہیں ہے 

( بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے) 


77: بسم اللہ کہہ کر گھر میں جھاڑو لگانے پر بیت اللہ میں جھاڑو لگانے کا اجر ملتا ہے ۔

(بے سند ہے بیان نہیں کر سکتے)


78: حضور ﷺ  کا حضرت جابر کے بیٹوں کو زندہ کرنا، 

(بے سند جھوٹی روایت)


79: حضورﷺکا فرمان: مجھے موت کا اتنا بھروسہ نہیں کہ دوسری طرف سلام پھیرنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں.

(یہ من گھڑت روایت ہے.)


80: حضرت بلال, حضورﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں جائیں گے. 

(یہ بےسند روایت ہے)


81: بدن کے جس حصہ پہ استاد کی مار پڑتی ہے,جہنم کی آگ وہاں حرام ہو جاتی ہے"

( یہ من گھڑت روایت ہے)


82: حضور ﷺ کی ولادت کے سال اللہ تعالیٰ نے تمام حاملہ عورتوں کو بیٹوں سے نوازا

(. یہ روایت درست نہیں ہے۔)


83: مؤمن مسجد میں ایسے جیسے مچھلی پانی میں, اور منافق ایسے جیسے پرندہ پنجرے میں" 

یہ حدیث نہیں ہے۔


84: ایک صحابی کا حضورﷺ کے وصال پہ نابینا ہونے کی دعا کرنا, اور بینائی کا سلب ہوجانا. 

(یہ بےسند روایت ہے. )


85: حضرت بلال کا دمشق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کرنا پھر مدینہ آنا پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا ۔(یہ واقعہ فضائل اعمال میں بھی درج ہے)

(من گھڑت ہے) 


86:حضرت بلال کا امیہ کا غلام ہو کر آٹا پیسنا اور حضور ﷺ  کا مدد کرنا 

(من گھڑت قصہ۔)


87:بندے کا وضو کرنا اور کلمہ پڑھنا ، ہر قطرے کے بدلے فرشتہ کا پیدا ہونا اور قیامت تک کلمہ پڑھنا، یہ من گھڑت حدیث ہے۔


88:"قیامت کے دن ایک قبر سے 70 مردے اٹھیں گے" 

من گھڑت روایت ہے, کسی کتاب میں موجود نہیں ہے.


89: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے کر دے تاکہ میری امت کو دوسری امتوں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔


( من گھڑت ہے بیان نہیں کر سکتے) 


90:  حضرت فاطمہؓ کے ساتھ حضورﷺ کا تندور میں روٹی لگانا اور روٹی کا نا پکنا "

یہ بےسند روایت ہے, بیان نہیں کرنی چاہئے.


91: شب معراج, اللہ تعالیٰ کا حضورﷺ کو جوتوں سمیت عرش پہ بلانا"

یہ من گھڑت قصہ ہے, 


92 : ایک بوڑھے کے احترام میں حضرت علیؓ کا نماز کیلئے لیٹ ہوجانا"

یہ من گھڑت روایت ہے, اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔


93: تنگدستی کی شکایت پہ حضور ﷺ کا فرمان: نکاح کرو, یہاں تک کہ آپ نے اس کے چار نکاح کروا دیے

: یہ روایت درست نہیں ہے ۔


94: ہر نبی کو نبوت چالیس سال بعد ملی ۔

 یہ من گھڑت روایت ہے۔


95: حضرت انس کا تنور کی آگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رومال کی میل کچیل کو صاف کرنا اور رومال کا نہ جلنا ۔

( شدید ضعیف ہے بیان نہیں کر سکتے) 


96: عالِم کی موت, عالَم کی موت ہے.

یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے, بلکہ عربی مقولہ ہے۔


97: "دورانِ اذان گفتگو کرنے والے کو کلمہ نصیب نہیں ہوتا, یا ایمان ضائع ہونے کا خدشہ ہے"

یہ دونوں روایات من گھڑت ہیں۔


98 : 40 احادیث کو یاد کرنے والے کا حشر علماء و انبیاء کے ساتھ ہوگا"

یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں ہے۔


99: لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا"

یہ روایت من گھڑت ہے۔


100:  اللہ تعالیٰ بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے"

یہ بے اصل روایت ہے۔


101:  تکبیر اولٰی دنیا و مافیہا سے بہتر ہے"

یہ بے سند روایت ہے۔


102:  بے عمل عورت قیامت کے دن چار محرم مردوں کو جہنم میں لے کہ جائے گی"

 من گھڑت حدیث۔


103: حضور ﷺ کا مشرک مہمان کے پیشاب والے بستر کو اپنے ہاتھ سے دھونا"

 من گھڑت کہانی ہے, اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔


104:  ایک بدو کے حضور ﷺ سے 24 سوالات" کی طویل روایت, بے سند روایت ہے ۔


105: دور نبویؐ میں : ماں کی نافرمانی کی وجہ سے بیٹے کی حالت نزع میں کلمہ طیبہ سے محرومی کا طویل واقعہ.

 من گھڑت روایت ہے, بیان کرنا گناہ ہے۔


106: بچے کی بسم اللہ پڑھنے پر, بچے کی, اس کے والدین اور استاد کی بخشش کی روایت,

من گھڑت ہے۔


ماخوذ :  غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ ، مفتی طارق امیر خان جامعہ فاروقیہ کراچی 

ترتیب و تدوین:محمد توقیر طاہر 


نوٹ:


بیان کرنا موقوف رکھا جائے یعنی معتبر سند ملے بغیر ہر گز بیان نا کریں۔ ان روایات کی سند انتہائی جستجو کے باوجود نہیں ملی۔ لہذا حدیث رسول ﷺ میں اہتمام و احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ کسی مستند سند کی دستیابی تک ان کے بیان کرنے کو موقوف رکھا جائے۔


نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔


”مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ“․(۱)


ترجمہ:”جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ “


 ( صحیح بخاری 109) 


متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والا شخص جہنمی ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اپنی تقریروں، تحریروں اور عام گفتگو میں جھوٹی، بے اصل اور من گھڑت روایتیں کثرت سے بیان کرتے رہتے ہیں۔


 اور ہمارے عوام بنا تصدیق کیے ایسی روایات کو سوشل میڈیا پر آئے دن شیئر کرتے رہتے ہیں۔


ان بیشمار جھوٹی من گھڑت روایات میں سے یہاں آپ کے ساتھ چند مشہور روایات اور واقعات شیئر کی گئی ہیں جو ہمارے کم پڑھے لکھے خطیب حضرات بھی اکثر بیان کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اکثر یہ روایات گردش کرتی نظر آتی ہیں۔