Tuesday, December 26, 2023

 یہ وہ شخصیت ہے۔۔۔💖💖

جن کی تواضع کی سند علامہ محدث بنوری رحمۃ اللہ علیہ "مسکین ابن مسکین" فرما کر دیا کرتے تھے اور کبھی "الشیخ الشاب" فرما کر محبت کا اظہار کرتے تھے ۔

جب معارف السنن کا سیٹ بطور انعام دیا تو اس کی پہلی جلد پر جلی حروف میں لکھا

 "أقدم ھذا الکتاب باجزائه الستة إلى اخي في الله الأستاذ الزكي العالم الزكي الشاب التقى محمد تقي إعجابا بنبوغة فى كتابات مجلة الشهرية البلاغ خصوصاً في رده على كتاب خلافت و ملوكيت ردا بليغا ناجحاً حفظه ووفقه لامثال أمثاله وهو الموفق" 

جن کے بارے میں مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ :

" دیکھنا تقی ایک  دن مجھ سے بھی آگے نکل جائے گا"

جنہیں شیخ عبد الفتاح ابوغدہ " تفاحۃ الہند وباكستان " کے لقب سے یاد کرتے تھے

اور ایک مرتبہ ازراہ محبت فرمایا" لوکنت تفاحۃ لاکلتک "

جنہیں شیخ یوسف القرضاوي نے " الشیخ القاضي المحدث الفقيه الاريب الأديب الكامل " جیسے القابات سے نوازا ۔

شیخ یاسین الفادانی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام اسناد آپ کو دیکر آپ کے نام کتابی شکل میں شائع کی ہے جس کا نام " الفیض الرحمانی باجازۃ فضیلۃ الشيخ محمد تقی العثماني " ہے ۔

جس کے مقدمے میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

" حضرت الشیخ الأجل الابر الفائق في كل فن على أقرانه والسامي في أندية الخير على اخدانه محمد تقي العثماني "

جن کو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ :

" مجھے تو خود تمہیں خط لکھنے کو کھاج (خواہش) اٹھے "

جن کو مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:

" الولد سر لأبيه کا مقولہ آپ کے حق میں بالکل صحیح ثابت ہوا "

مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کاروان زندگی میں لکھتے ہیں" مولانا تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدر و منزلت ہے اس سے اُس کے احباب بخوبی واقف ہیں اور ان کو بھی غالباً اس کا احساس ہے "

شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ :

" آپ ہمارے پاکستان کے علی میاں (ابو الحسن علی ندوی) ہیں 

دار العلوم دیوبند میں آپ کے استقبالیہ جلسے میں منتظم نے کہا کہ :"مفتی صاحب پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ہیں" 

ایں سعادت بزور بازو نیست!

 *دیوبندیت میں تطہیر کی ضرورت!*

🖋️از قلم:- مولانا ⁩ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی حفظہ اللّٰہ تعالیٰ

....................................................

 *حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ مسلک دیوبند کی کسوٹی تھے،* آپ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ دیوبندیت میں تطہیر کی ضرورت ہے، دھیرے دھیرے بہت ساری بدعات و رسومات ہمارے یہاں بھی در آئی ہیں، آپ رحمہ اللہ بڑی شدت کے ساتھ دیوبندی حلقوں میں پائی جانے والی بدعات کا رد فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں کسی سے مرعوب ہونا یا کسی کی ملامت کی پرواہ کرنا آپ کے یہاں ناجائز تھا، یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ بڑی بڑی شخصیات کے یہاں بھی جب کوئی نامناسب بات نظر آئی تو آپ نے نکیر کرنے میں ذرہ برابر بھی توقف نہیں فرمایا۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

1۔شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ایک تفرد کی وجہ سے آپ کی اولاد کے یہاں *آج تک رمضان المبارک میں باجماعت تہجد کا رواج ہے،* بڑے بڑے حضرات مدنی خاندان کی رعایت میں خاموش تھے لیکن حضرت پالنپوری رحمہ اللہ نے بارہا برسر عام سخت نکیر فرمائی اور اسے بدعت قرار دیا۔

2۔دیوبندی حلقوں میں کسی بزرگ کے انتقال کے بعد *تعزیتی جلسوں کے عنوان سے پروگراموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا ہے* جس کے تکلفات دیکھ کر اس کے بدعت ہونے میں شبہ نہیں رہ جاتا، چونکہ بڑے بڑے حضرات ان تعزیتی نشستوں میں رونق افروز ہوتے ہیں اس لیے بہت سے مفتیوں کے لیے چاہتے ہوئے بھی ان پر نکیر کرنا آسان نہیں تھا، حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس رسم پر کھل کر تنقید کی اور صرف تنقید ہی نہیں مستقل رسالہ تصنیف فرماکر ان پروگراموں کی خرابیوں کو خوب واضح کردیا، جس وقت حضرت نے تعزیتی جلسوں کے خلاف فتویٰ دیا اس وقت دارالعلوم دیوبند کی بڑی بڑی شخصیات ایک دوسری بہت بڑی شخصیت کے تعزیتی اجلاس میں شریک تھیں۔ *اس فتوے کی وجہ سے بعض چھوٹوں کی جانب سے آپ کے خلاف طوفان بدتمیزی بھی برپا کیا گیا لیکن آپ پوری جراءت و استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔* 

3 *۔ختم بخاری* کے وقت دیوبندی مدارس میں پورے اہتمام و تداعی کے ساتھ جلسوں کا سلسلہ چلتا ہے اور ہرسال یہ جلسے نئے نئے تکلفات کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں؛ کچھ حد تک یہی سلسلہ دارالعلوم دیوبند میں بھی شروع ہوگیا تھا لیکن حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے شیخ الحدیث بنتے ہی اس سلسلے کو بالکلیہ موقوف فرمادیا اور اسے بند کرنے کے لیے حضرت نے اتنی شدت فرمائی کہ *جس سال آپ شیخ الحدیث بنے(وہ ہمارا بھی دورے کا سال تھا) کسی بھی طالب علم کو آخری دن تک پتہ نہیں لگنے دیا کہ بخاری کب مکمل ہوگی اور اسی حالت میں ایک روز اچانک ختم فرماکر دعا کرواکر چلے گئے۔* 

4۔چھتہ مسجد میں واقع جس *انار کے درخت کے نیچے  دارالعلوم دیوبند کی شروعات ہوئی* وہ درخت کافی عرصے تک رہا، دارالعلوم کے اساتذہ و طلباء اس درخت کا بیحد احترام کرتے تھے اور پھر عوام بھی اس کی زیارت کے لئے آنے لگے، قریب تھا کہ اس درخت کے تعلق سے عوام وخواص میں بہت سے توہمات جنم لے لیں؛ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس خطرے کو بروقت بھانپ لیا اور ذمہ داران دارالعلوم کے سامنے بیعت رضوان والے درخت کے *حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعے کاٹے جانے کی نظیر پیش فرماکر اس درخت کو بھی کٹوادیا۔* 

5۔کسی بزرگ کے خواب کی بنیاد پر دارالعلوم کے احاطہ *مولسری میں واقع کنویں کے پانی کو بڑی اہمیت دی جانے لگی تھی،* طلبہ کے ساتھ بہت سے اساتذہ بھی اس پانی کو بڑے اہتمام کے ساتھ نوش فرمایا کرتے تھے اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات عوام تک بھی پہنچ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ دارالعلوم کی زیارت کے لئے آنے والے تمام مہمان اس کنویں کا پانی ضرور نوش کرتے، بعض لوگوں نے اسے زمزم کا نام دینا بھی شروع کردیا تھا، یہ حالت دیکھ کر حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر اتنا جارحانہ رخ اختیار فرمایا کہ *پھر یہ کنواں اور اس کا پانی مذاق بن کر رہ گیا۔*

6۔قبرستان میں *بزرگوں کی قبروں پر کتبے لگانے کے آپ سخت خلاف تھے* اور مزار قاسمی میں لگائے ہوئے کتبوں پر سخت نکیر فرمایا کرتے تھے؛ یہی وجہ ہے آپ کی رحمہ اللہ کی قبر مبارک باوجودیکہ ایک عوامی قبرستان میں ہے لیکن آپ کے سخت موقف کی وجہ سے *کوئی کتبہ نہیں لگایا گیا۔* 

7۔کسی دور دراز جگہ انتقال کے بعد بزرگوں کی *نعش کو پورے اہتمام کے ساتھ وطن اصلی کی جانب منتقلی کے بھی آپ سخت خلاف تھے* اور اسے میت کی بے حرمتی سے تعبیر فرمایا کرتے تھے؛ اپنے بارے میں بھی حضرت نے یہی وصیت فرما رکھی تھی کہ مرنے کے بعد *میری بے حرمتی مت کرنا اور جہاں انتقال ہو وہیں دفن کردینا؛* چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق ہی آپ کو بمبئی میں دفنایا گیا۔

8۔بزرگوں کو عوامی قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے کسی *خاص جگہ ان کے مدرسے یا خانقاہ وغیرہ میں تدفین کے بھی آپ سخت خلاف تھے؛* چنانچہ آپ کے مزاج و خواہش کے مطابق آپ رحمہ اللہ کو بمبئی کے ایک عام قبرستان میں دفنایا گیا۔

9۔رائپور اور جھنجھانہ وغیرہ *میں بزرگوں کی قبروں کے پاس دریاں بچھائی جاتی ہیں* اور ہر کس و ناکس مراقبے کے عنوان سے وہاں *آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہتا ہے، اس طرح کی مراقبے* بازی پر آپ سخت نکیر فرمایا کرتے تھے اور اسے بریلویت کی جہالت اور قبر پرستی تک لیجانے والی رسم بد فرمایا کرتے تھے۔

10۔خلاصہ یہ کہ آپ رحمہ اللہ مسلک دیوبند میں تطہیر کے لیے حساس و بیچین تھے، *آپ کی زبانی بارہا سنا کہ "اب دیوبندیت اور بریلویت میں بالشت بھر کا فاصلہ بچا ہے"* آخر میں آپ" دیوبندیت کیا ہے؟" کے عنوان پر ایک مفصل تصنیف بھی رقم فرمانے والے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ کاش حضرت کی یہ تصنیف منظر عام پر آجاتی تو بہت سے دیوبندیت کے دعویداروں کو حقیقی دیوبندیت کا مفہوم سمجھ میں آجاتا۔ *فرحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ*

Friday, December 22, 2023

 میں دیوبندی اس وجہ سے ہوں 

قرات میں        عطاء اللہ شاہ بخاری

تصوف میں    امداللہ مہاجر مکی

مصنف میں      اشرف علی تھانوی

فتوے میں      رشید احمد گنگوہی

تبلیغ میں     الیاس کاندھلوی

جہاد میں     ملا عمر مجاہد

مجاہد آزادی  میں   محمودالحسن دیوبندی

مناظرے میں   قاسم نانوتوی 

دلائل میں     الیاس گھمن

وعظ ونصیحت میں   طارق جمیل

اسلامی بینکنگ  میں  تقی عثمانی 

تحریک ختم نبوت میں  یوسف بنوری

جرات و حوصلے میں  حسین احمد مدنی

یکجہتی میں  ارشد مدنی

فتح قادیانیت میں   مفتی محمود

سیاست میں   مولوی فضل الرحمان

سائنس میں   ثمیر الدین قاسمی

سادگی میں  انوار شاہ کاشمیری 

درس میں   مکی حجازی

اخلاق میں  ذوالفقارنقشبندی

فکر دین میں  یوسف کاندھلوی 

فاقے میں    جعفر تھانیسری 

کمانڈر میں   جلال الدین حقانی

درس حدیث میں  عبدالقادر رائے پوری

ہمہ تن اللہ کی میں جانے میں  میاں جی محراب

رعب و جلال میں  انور شاہ کاشمیری

شیخ العرب و عجم میں ابوالحسن علی میاں 

ادب، تاریخ، سیرت میں   سید سلیمان ندوی

فقہ، تفقہ، اجتہاد میں   قاضی مجاہد الاسلام قاسمی

تصوف، دانش وری، جرءت میں   سید محمد ولی رحمانی

اور نا جانے کتنے علماء ہے خاک سار کے ذہن میں جتنا تھا 


جنت البقیع  میں علمائے دیوبند

جنت المعلی  میں علمائے دیوبند

خلفائے راشدین کی اولاد میں علمائے دیوبند 

خاندان نبوی سے علمائے دیوبند

قدیم و جدید دور میں خانہ کعبہ کے غسل میں شامل علمائے دیوبند 

کعبہ میں داخل ہونے کی.سعادت علمائے دیوبند کو

ملک کی سب سے بڑی امداد باہمی وغریبوں  مسکینوں کی رہبر جمیعتہ العماء 

ملکی حکومت میں علمائے دیوبند 

اور


اس وقت پورے عالم اسلام میں دین کی عمدہ ترین محنت تبلیغی جماعت

Friday, December 15, 2023

تبلیغی جماعت

 مجلس علمیہ آندھرا پردیش کے اجلاس میں تبلیغی جماعت کے موجودہ اختلافات کے سلسلے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ


ہر زمانے میں علمائے حق کا یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ حق کی موافقت اور حمایت کی ہے، جب کہ غلط کو غلط کہنے میں بھی ذرا جھجھک محسوس نہیں کی۔لیکن اب بات جو سردست سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان حالات میں جب کہ ایک بڑی تنظیم کے احباب دو حصوں میں بٹ چکے ہیں، علماء کی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ دونوں کے درمیان اتفاق کی کوئی صورت نکالنے کی سعی کریں، یا کم از کم دونوں کو خود سے مربوط رکھ کر گمراہی سے بچانے کی پوری فکر کریں.


*”تبلیغی جماعت“ کا یہ کام نہ فرض ہے اور نہ واجب، بلکہ شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے بقول مستحب ہے، اگر علماء کسی ایک طرف فریق نہ بھی بنیں تو انہیں کوئی عذاب ہونے والا نہیں ہے، پھر سمجھ لیں کہ موافق ہونا اور فریق بننا دونوں میں فرق ہے، علماء کے ذہن میں یہ بات ضرور رہنی چاہیے کہ کس طرف خطائیں سرزد ہورہی ہیں،اور کون راہِ حق سے دور جارہا ہے، لیکن علماء کو ان کا فریق مخالف بھی نہیں بننا چاہیے، اس طرح علماء کے ہاتھوں سے ایک بڑا طبقہ چلا جائے گا، جب کہ امارت والوں کی طرف منسوب ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو صرف ذاتی اعتقاد کی بنا پر اُدھر کو ہوئی ہے، ورنہ حقیقتا ان کے عقائد کا ان عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اب بھی نفس تبلیغ کو اپنے پیش نظر رکھتے ہیں.*


رہی بات جماعت کے اصولوں میں ترمیم کو قبول کرنا، (مثلا چالیس دن کی جگہ اڑتالیس دن یا نوے دن کی جگہ چوراسی دن) تو یہ ایسا حرام کام نہیں ہے، جس کی بنا پر ان سے اعتزال کا حق علماء کو حاصل ہو، ہر ادارے میں نصاب کی تبدیلی ہوتی ہے، لیکن معیوب نہیں سمجھی جاتی، اگر تبلیغی جماعت میں یہ تبدیلی بعض قدامت پسند لوگوں کے نزدیک معیوب ہے بھی تو اس قدر نہیں جس کی بنا پر ان سے ترک تعلق کرلیا جائے۔


 *علماء کا مقام امارت اور شوری سے بلند ہونا چاہیے، موجودہ دعوت وتبلیغ کی محنت یہ دین کی ایک محنت ہے، سارا دین اس میں منحصر نہیں ہے، بلکہ دین کی اور بھی بہت سی محنتیں ہیں، بہت موٹی سی بات ہے کہ علمائے کرام کے لیے دیگر بڑی محنتیں بھی موجود ہیں، بلکہ علمائے کرام کا درجہ امارت اور شوری سے بہت بڑھ کر ہے، کسی ایک کا فریق بن کر دوسرے میں شامل ہونا واقعی علماء کے شایان شان نہیں ہے، علماء کو یکجٹ ہوکر عوامی کام


سے بلند ہونا چاہیے.*


 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام میں محنت کرنے والے علماء نے اس سے اوپر سوچنا بند کردیا ہے، بلکہ اکثر ائمہ تو تبلیغی جماعت کے احباب کے ہاتھ تلے کام کرتے ہیں، وہ جس کام کا حکم دیں گے یہ لوگ وہی کریں گے، اگر ان کے کام میں شریک ہوں گے تو انہیں امامت پر رکھا جائےگا، بصورت دیگر انہیں معزول کردیا جائے گا، کاش علماء متحد ہوکر اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر عوام کی سرپرستی فرماتے!!!


 *تبلیغی جماعت میں عوام کی کثر ت ہے، اس لیے علماء کی بے احترامی اور ان کے مقام سے نا واقفیت اس کا ایک عام مرض ہے، اس میں امارت وشوری کسی کی تخصیص نہیں ہے، اس لیے اس اختلاف کو تو بھی کچھ ہی سال گذرے ہیں، جب کہ ان کے اتحاد کے وقت بھی ائمہ پر ان کا تسلط بہت پہلے سے جاری تھا، جوامام ان کی حمایت میں ہو اور ان کے ساتھ جڑ کر کام کرے وہ اسی کو امام سمجھتے تھے، پھر یہ بات بھی اس میں بہت پہلے سے گردش کررہی ہے کہ اصل دین کا کام یہی دعوت کا ہے، جو لوگ پیسے لے کر دین کا کام کرتے ہیں وہ در حقیقت دین کا سودا کررہے ہیں۔بات شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کی ہے، ایک عالم صاحب نے حضرت کو خط لکھا کہ ہمارے علاقے میں علمائے کرام کی بے احترامی کے واقعات تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف سے پیش آرہے ہیں، بعض ائمہ معزول بھی کئے گئے، حضرت نے جواب دیا کہ چونکہ اس جماعت میں عوام کی کثرت ہے، اس لیے یہ تو ہونا ہی ہے، تمہاری کیا بات کرتے ہو، خود میں اور مولانا عبدالقادر رائے پوری (رحمہما اللہ) کچھ دن مرکز نظام الدین میں گزارتے ہیں، میں نے ایک دفعہ خود اپنے کانوں سے یہ بات سنی ہے کہ یہ دونوں بڈھے (بوڑھے) مرکز میں کھاپی کر سوتے رہتے ہیں اور دعوت کا کام نہیں کرتے!* 


*آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء وسیع ذہنی کے ساتھ ان معاملات پر غور فرمائیں، ایک محدود سوچ رکھنے والا ہی وقت کے فقیہ العصر پر معاملات سے نا واقفیت کا الزام لگاسکتا ہے، خدارا اپنی سوچ کو وسیع کریں، اپنے کام کے دائرے کی وسعت کو سمجھیں، تبلیغ میں محدود رہنا یہ عوام کا طریقہ ہے، نیز اسی میں ان کی عافیت ہے، لیکن علماء کے لیے یہ تنگ نظری سخت نقصان دہ ہے۔ فھل من مدکر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب

Friday, December 1, 2023

 *اسلامی تنخواہ کا معیار گراکر اسلام کی جڑوں کو کمزور کرنے کا ذمہ دار کون!*  

اکابر یا آج کل کے موٹے لوگ؟ ایک سوال۔


مدارس و مساجد میں مدرسین اور ائمہ کی قلت تنخواہ کا موجودہ فرسودہ نظام ہرگز ھمارے اکابر کا نہیں؛ بلکہ موجودہ مہتممین اور متولیین کا تھوپا ہوا نظام ہے. اور ھمارے مولوی بھی کم تنخواہوں پر گزارہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ھم بڑا نیک کام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف کم تنخواہوں کی وجہ سے وہ اپنے بال بچوں ماں باپ اور رشتہ داروں کے حقوق ضائع کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں چند ایک مخلصین کے اخلاص کے علاوہ باقی اکثریت مولوی مجبورا فقر کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور مہتمین اور متولین انھیں اخلاص کا لالی پاپ دیکر انکا مسلسل استحصال کرتے جارہے ہیں


 بالعموم لوگ قلت تنخواہ کے لیے اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں؛ پتہ نہیں کون سے اکابر تھے جو ہم مولویوں کی طرح اضطراری فقر کے شکار تھے، ہمارے اکابر تو بڑے خوش حال تھے؛ ہاں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ مال غنیمت اور غلاموں کی کثرت کے باوجود فقر اختیار فرماتے.

اختیاری فقر محمود ہے؛ جب کہ اضطراری فقر مذموم. کیا آپ نے نہیں پڑھا "كاد الفقر أن يكون كفرا".


سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے. اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی.

اب ایک متوسط بھینس کی قیمت چالیس پینتالیس ہزار روپے ہیں.


"دجالی فتنہ کے نمایاں خد وخال" (مصنف: حضرت گیلانی) کے مطابق شیخ الہند کی تنخواہ پچھتر روپے تھی.

پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا)


اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی.

اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا.

یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے حج فرض ہوجایا کرتے تھے.


حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھے.

اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا.


کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں.


اگر بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی تیس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد.

ایک ریسرچ کے مطابق 1970  سے 2015 کے دوران اسکول ٹیچروں کی تنخواہ 180 سے 320 فیصد اضافہ ہوا ہے.

اب بتائیں ۱۹۷۰ میں پڑھانے والے کسی عالم کی تنخواہ اور اس میں ۳۰۰ فیصد کا اضافہ کریں پھر دیکھیں کیا ۲۰ ہزار سے کم تنخواہ رہتی ہے اس وقت؟ وہ بھی  2015 تک کا ریسرچ. یعنی ۲۰ ہزار سے زائد تنخواہ 2015 میں ہونی چاہیے.


اس لیے اکابر کی طرف قلت تنخواہ کا انتساب بالکل درست نہیں ہے.


مھتمین اور متولین اس ظلم سے توبہ کریں اور مولویوں کو بھی چاہیے کہ وہ مظلوم نا بنیں رہیں خوشحالی کی طرف قدم اٹھائیں اپنے نسلوں کو فقر سے نکالیں

جو مدرسہ یا مسجد انہیں پوری تنخواہ نہیں دیتا اس سے فورا دوسری ھجرت کرجائیں جہاں آپکو اچھی تنخواہ ملے خوامخواہ اخلاص کی تاویلیں نا گھڑیں حتی کہ اگر آپکو مسجد مدرسہ چھوڑ کر کوئی اور اچھا کام ملے تو اپنی نسلوں کی خوشحالی کیلیے ضرور کیجیے یقین کیجیے اس سے آپکو کوئی گناہ نہیں ملے گا لیکن ہاں دنیا کے چکروں میں جانے سے پہلے ایک عزم ضرور کریں کہ آپ اپنے نماز روزہ  ایمانداری اور حسن معاملات کو درست رکھیں گے          🌴آپ کا مخلص 🌱 

۔۔             فقط۔ 

کاپی پیسٹ اور منقول شدہ