Friday, June 28, 2024

 https://whatsapp.com/channel/0029VaDtDo1F6sn3Csjlrv0A


*دار العلوم دیوبند کا پہلا کارخانۂ تجارت، اس کے افراد اور برکات*

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ دار العلوم دیوبند سے 1882ء ،یا1883ء میں فارغ ہوگیے، فراغت کے دوسرے سال 1884ء میں حضرت حج پرتشریف لے گئے؛ کیوں کہ آپ پر حج فرض ہوگیاتھا۔۔۔اِس بات کا ذکر کرتے ہوے عصر حاضر کے عظیم محقق ، اکابر و اہلِ علم کی امانتوں کے لاثانی امین، حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی زیدمجدہ رقم فرماتے ہیں:


اُس وقت حضرت مولانا نے مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کے سلسلۂ کاروبار و تجارت (Private Limited Company) میں جو حصہ(Share) لے رکھے تھے، اس کی رقم منافع کے ساتھ واپس ملی تھی، جس کی وجہ سے حضرت مولانا پر حج فرض ہوگیا تھا، اور مولانا اپنے والد کے مشورے سے شوال1301ھ(جولائی1884ء) میں سفر حج کے لیے حاضر ہوئے۔۔۔۔۔

(حاشیہ) میں  لکھتے ہیں:

کیسی حسرت وافسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی دینی، علمی، ملی ، تاریخی ضروری حصوں سے بھی تقریباً بے خبر ہیں۔ مدرسہ دیوبند(دارالعلوم) کا "کارخانۂ تجارت" بھی ان ہی افسوس ناک اوراق میں سے ایک ہے، جو نذرِ خزاں ہوکر کالعدم ہوگیا۔۔۔۔۔جب مدرسہ دیوبند قائم ہوا، اس کے دو تین سال بعد اربابِ مدرسہ نے یہ خیال کیا کہ ہمارے ان مدرسوں سے جو طلباء فارغ ہوں گے، اور جو لوگ یہاں رہ کر خدمات انجام دیں ، ان کے لیے اچھے معاشی وسائل اور بہتر زندگی کزارنے کے انتظامات ہونے چاہئیں۔۔۔۔اس مقصد کے لیے دار العلوم کے اربابِ انتظام نے ایک بڑا سلسلۂ تجارت ، یا پرائیوٹ لمٹیدکمپنی (Private Limited Company)قائم کی ،  جس کا ایک حصہ اس وقت سو(100) روپئے کاتھا۔۔۔دارالعلوم ومظاہرالعلوم کے اکثراساتذہ وعلماء, مولانا مظہر نانوتوی ،حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری، اور دیوبند کے اکثر اساتذہ غالباً مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور مولانا سید احمد دہلوی بھی اِس کے  حصہ دار (Shareholder) تھے۔۔۔اس کمپنی ،  یا کارخانۂ تجارت کا سرمایہ بڑھتے بڑھتے پچاس ہزار روپئے تک پہنچ گیا تھا، مگر پھر اس کو دیوالیہ (Bankrupt) دِکھاکر اچانک ختم کردیا گیا۔۔ ۔۔بہرحال یہ ایک قابلِ توجہ اور پرسوز تاریخ ہے، جس سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ:

* ترکِ دنیا، ان مشائخ کا معمول نہیں تھا، وہ دنیاکے ضروری وسائل کی فراہمی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

* دوسرے اگر یہ سلسلہ جاری رہتا، تو شاید دیوبند و سہارنپور کے اکثر وابستگان ، خوش حال ہوتے۔۔اور بعد کے علماء بھی اسی راستے پر چلتے ، سفر کرتے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجاتے۔

* تیسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ:  آج تک کسی نے اس پر تفصیل سے نہیں لکھا،کہ ہم کہاں سے چلے تھے اورکہاں پہنچے؟۔

ضرورت ہے کہ کوئی نوجوان فاضل اس "کارخانۂ تجارت" پر توجہ کریں اور اس کے تمام پہلو سامنے لائیں۔[ تعارف و تاثرات در بوادر النوادر ، جدید مکمل :52/1 ]


 *نوٹ* یہ خاک سار عرض گزار ہے کہ: حضرت زید مجدہ کی اس تحریر سے کئی افادات صاف نظر آتے ہیں، مثلاً : 

* قیام دارالعلوم کی اولیں خدمات، یا فرائض و واجبات میں صرف تعلیمی وتحقیقی ، یاسیاسی و ملی امور ہی نہیں؛ معاشی ومالی امور بھی نہ صرف شامل تھے، بل کہ کافی اونچی سطح پر زیر عمل تھے۔۔ اورکیوں کہ نہ ہو جب کہ مذکورہ امورکے لیے بھی یہ قیام، بقاء اور تحفظ کی بنیاد ہے۔

* طلبہ و مدرسین کی ضروریات و سہولیات کے لیے صرف اہلِ خیر سے تعاون(چندہ) کی شکل نہ تھی، بل کہ اپنی ضروریات از خود پوری کرنے لیے تجارت و کاروبار کا باقاعدہ ایک نظامِ کار تھا۔ 

* مضمون میں جن اکابر کا نام ، بہ طور خاص لیا گیا ہے، وہ زاہدین ، قناعت پسند اوروم تارکین دنیا سے مشہور تھے ، مگر پھر بھی وہ مالی و معاشی ضرورت و اہمیت سے بے خبرنہ تھے ، بل کہ ایک کمپنی کے حصہ دار یعنی (shareholders) تھے۔۔۔یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کمپنی کے مؤید، یا منتظم، یا نگران، یا معاون، یا عملاً داعی و محرک ، یا کسی طور مفید و مستفید تھے۔۔۔۔ گویا یہ سلف صالحین و اہلِ دل تمام خیر الدارین جامع تھے۔ 

* اُس کارخانے کو دیوالیہ دِکھا کر بند کرنے کی وجہ ، غالباً انگریزی حکومت  اور سیاسی وجوہات، رہی ہوں گی۔۔۔ورنہ مقصدِ خیر کے لیے اہلِ دل و اہلِ علم اکابر کا جاری کردہ نظامِ خیر [ افادیت کے با وصف ] کیوں کر بند کر دیا جاتا۔ 

* آج سے ایک سو چالیس سال پہلے ایک   حصہ [share]  100روپئے کا تھا۔اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پوری کمپنی کی (Value) یعنی اہمیت کتنی بڑی رہی ہوگی۔۔۔ اس میں مظاہر العلوم اور دار العلوم کے اکثر اساتذہ حصے دار تھے، تو ہمارے اکابر مالی لحاظ سے بسا خوش حال ہونے کے ساتھ کس درجے بلند زاھد تھے ہوں گے! ( مال کے بغیر، غربت کی حالت کا زھد بھی کامل زھد ہے۔۔۔۔ مگر مال و ودولت کے ساتھ اکمل زھد ہے) 

* ایک حصہ ۱۰۰ کا اور نفع اتنا زیادہ۔  دوسرے حصے دار افراد کو بھی اتنا، یا اس سے زیادہ ، یا اس کے قریب ، یا اچھا خاصا نفع حاصل ہوا ہوگا۔۔۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ: اس کمپنی کی افادیت کتنی عظیم رہی ہوگی؟!.۔۔ 


*نوٹ:* یہاں ایک سوال و اشکال اٹھتا، بل کہ اٹھایا جاتا ہے کہ:جب ایسا ہے، تو پھر کیوں اُس کے بعد، اور آج اہل مدارس اور علماء اِس جانب توجہ نہیں کرتے؟ ....اس کی بھی اپنی صحیح معقول وجوہات ہیں۔جس پر آئندہ کبھی-ان شاء الله- کلام کیا جائے گا۔۔۔۔۔ سردست دعائیں کریں کہ اے خیر کے خالق و مالک, ہمارے رب کریم! ہم کو ہم دارین خیر سے مالا مال کر دے۔فقط

محمد یاسین خان، بنگلور

۱۹/۱۲/۱۴۴۵ھ = 2024/6/26ء

Tuesday, June 25, 2024

 *البانی کی اسلاف پر زبان درازیاں :*


اقتباس : النعمان سوشل میڈیا سروسز 


البانی بے سندے شخص نے کبار اہل علم جیسے امام ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ، امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ، امام ذهبی شافعی رحمہ اللہ، امام حافظ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ، امام صنعانی رحمہ اللہ پر خطا کا الزام لگایا ہے اور ذہبی رحمہ اللہ اور امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ پر تناقض و تعصب و جہالت جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے


*قارئین کرام !* البانی اپنے دعوی اتباع سلف میں کتنا سچا تھا اور اسلاف کا دامن تھامنے اور خود کو سلفی کہنے میں کتنا حق بجانب تھا آئیے ہم آپ کو تصویر کا صحیح رخ دکھاتے ہیں


 *لیجیئے !* یہ ہیں دسویں صدی کے مجدّد ، ایک ہزار سے زائد کتب کی تصنیفات کا شرف پانے والے، دو لاکھ احادیث کے حافظ، امام جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابوبکر السیوطی علیہ رحمۃ جن کی جلالت شان مسلمہ ہے ۔ ان کے بارے میں البانی صاحب کی "بازاری زبان" ملاحظہ فرمائیں اور اسکی اسلاف سے عقیدت کو داد دیں : 


*(1)* قلت : فیا للعجب للسیوطی کیف لم یخجل من تسوید کتابه " جامع الصغیر " بھذا الحدیث ۔۔؟ 

*ترجمہ :* حیرت ہے سیوطی پر اسے ذرا شرم نہیں آئی کس طرح اپنی کتاب کو اس حدیث سے سیاہ کر ڈالا

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 3 ص 479)


*(2)* وجعجع حوله السیوطی فی " اللآلی " دون طائل ۔ 

اس حدیث کے دوران سیوطی نے بے فائدہ" ٹر ٹر" کی ہے

 جعجع کا معنی ہے : اونٹ کی آواز بھینسے کی آواز بکرے کی آواز ۔ (ہمارے اردو محاورے میں کسی کی آواز کو جانور کی آواز سے تشبیہ دینے کیلئے" ٹر ٹر" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لہذا یہی ترجمہ بنتا ہے)

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 4 189)


*(3)* 《والحدیث مما سود به السیوطی جامعه الصغیر۔ 》

اور یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے سیوطی نے اپنی جامع الصغیر کو سیاہ کر ڈالا ۔ 

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 3 ص 360 ) 


*(4)* 《 ثم ان السیوطی تناقض》 ۔

پھر سیوطی نے متضاد بیان دیا۔ 

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ج 4 ص 386)


" مجھے حیرت ہے کہ وہ شخص جو خود شیشے کے محل میں بیٹھا ہو اس کو کیسے جرائت ہوئی کہ ایک مضبوط قلعے پر سنگباری کرے جس جناب پر تناقضات کی کتب لکھی پڑی ہیں وہ چلا ہے دوسروں پر تناقض کے فتوے لگانے ویل اللالبانی 


*البانی کی زبان درازی سے امام ذھبی شافعی رحمہ اللہ بھی محفوظ نہ رہ سکے :*


ايسے عظیم محقق کے متعلق جنکی کتابی انکی گہری تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ البانی کے الفاظ سنیں ۔ اور اندازہ لگائیں۔ کہ یہ شخص تکبر کے کسی اسٹیج پر تھا اور اسلاف کے متعلق کتنا بد گمان تھا اور امت اسلامیہ کو شک کا انجکشن لگا کر کس دوراہے پر چھوڑ گیا۔ آج امت اسلامیہ میں اسلاف سے بداعتمادی کی جو فضا نظر آرہی ہے وہ البانی کی انہیں "شکی عبارات " کیوجہ سے ہے۔ اب دل تھام کر" تہذیب التہذیب میزان الاعتدال، تذکرة الحفاظ اور تاریخ الاسلام "جیسی محققانہ تصانیف کے مصنف پر کسے گئے جملے سنیں۔


   " ایک حدیث جسکو امام حاکم ، علامہ ذھبی اور امام بیہقی نے صحیح کہا ہے۔ اس پر اپنی تحقیق جھاڑ کر امام ذہبی کو کم نظر، غیر محقق اور متضاد بیان دینے والا کہہ ڈالا۔ وہ بھی صرف ایک حدیث کے متعلق نہیں بلکہ خود البانی کی زبان میں بہت ساری احادیث میں ۔


 في غاية المرام ص 35 [ قلت : فلِمَ إذن وافق الحاكم على تصحيح إسناده؟ وكم لهُ أي( الذهبي ) من مثل هذهِ الموافقات الصادرة عن قلة نظرٍ وتحقيق ]


 اور دوسری کتاب السلسلة الضعیفة میں تو حد ہی کر دی۔

  في " ضعيفته "( 4 / 422 ) بحوالہ قاموس شتائم البانی

 " فتأمل مبلغ تناقض الذهبي ! لتحرص على العلم الصحيح وتنجو من تقليد الرجال۔


 " آه " البانی صاحب کہتے ہیں ۔ غور کرو ذہبی کے متضاد بیانی کی حد میں  تاکہ تم صحیح علم کے متلاشی بن جاؤ اور لوگوں کی تقلید سے چھٹکارا پالو.

 معلوم ہوا کہ جناب کی نظر میں ذہبی متضاد بیان دینےوالے بھی ہیں صحیح علم سے خالی بھی ہیں اور لوگوں کی تقلید کا شکار بھی ہیں۔


*امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ پر زبان درازی:*


《ولذلك فقد أخطأ الحاكم خطأ فاحشا》

(ضعيفته ج3 ص 458)

اور سی وجہ سے امام حاکم نے فحش غلطی کی ہے 


البانی نے امام حاکم پر بھی تناقض کا الزام لگایا ہے

《قلت : ومن تناقض الحاكم في المستدرك》

(كتاب التوسل صفحة 106)


*امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پر طعن :*


《وتناقض رأي ابن حجر فيه ، ففي " التهذيب " يرجح قول أبي حاتم إنه تابعي ، وفي التقريب يجزم بأنه صحابي صغير له رؤية ، وليس يخفى على طالب العلم أن هذا التناقض من مثل هذا الحافظ ما هو إلا لانه》

(ضعيفته ج 3 ص 266)

ابن حجر کی رائے میں تناقض ہے ،تہذیب میں ابن حاتم کےبقول تابعی کو راجح کہتے ہیں جبکہ تقریب میں جزم کے ساتھ انکو چھوٹے صحابی کہتے ہیں اور انہوں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا ہے۔اور کسی طالب علم پر مخفی نہیں ہیکہ یہ تناقض ہے ایسے حافظ سے تین جلیل القدر آئمہ امام حاکم ،امام ذہبی اور امام منذری رحمھم اللہ پر البانی کا طنز اور طعن:


《وقال الحاكم: صحيح الإسناد ووافقه الذهبي وأقره المنذري في"الترغيب" وكل ذلك من إهمال التحقيق والاستسلام للتقليد, وإلا فكيف يمكن للمحقق أن يصحح مثل هذا الإسناد》

 (ضعيفته 3 / 416) 


امام حاکم نے اسکو صحیح الاسناد کہا ، ذہبی نے اسکی موافقت کی اور منذری نے اسکو برقرار رکھا یہ سارا 1۔تحقیق کو چھوڑنے 

2۔اپنے آپ کو تقلید کے حوالے کرنے کی وجہ سے ہے

3۔محقق کیلئے کیسے ممکن ہے کہ اس جیسی سند کو صحیح قرار دے


*امام مناوی رحمہ اللہ پر تعصب اور تناقض کا الزام :*


《 بل هو من تعصب المناوي علیہ 》 

(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة جلد 2 ، صفحه 345)


《 وإن من عجائب المناوي التي لا أعرف لها وجها أنه في كثير من الاحيان يناقض نفسه۔》


(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة جلد 4 ، صفحه : 34)



*البانی کا امام ابن جوزی رحمہ اللہ پر تناقض کا الزام :*


ولذلك فقد أساء ابن الجوزي بإيراده لحديثه في " الموضوعات " ! على أنه قد تناقض ، فقد أورده أيضا في " الواهيات " يعني الاحاديث الواهية غير الموضوعة

(صحيحته ، الجزء 1 ، صفحة 193)


*شیخ البانی کی امام سبکی شافعی رحمہ اللہ پر زبان درازی :*


《ثم تعقبه السبكي نحو ما سبق من تعقب الحافظ لابن طاهر ، ولكنه دافع عنه بوازع من التعصب المذهبي ، لا فائدة كبرى من نقل كلامه وبيان ما فيه من التعصب》

(ضعيفته : ج2 ص 285)


البانی کی اپنی زبان درازیاں اس قدر ہوں ، وہاں دوسری طرف وہ معاصر اہل حق علماء سے اپنے لیئے لمبے چوڑے القابات مانگے ، نہایت بے شرمی کی بات ہے۔


*(محسنِ غیرمقلدیت بیدروس)*

Thursday, June 13, 2024

 *ایک ہی شادی کرنے والے صحابہؓ !!*


کسی نے پوچھا کہ ایسے کسی صحابی کا نام بتائیں جنہوں نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہو؟ 

 تلاش بسیار کے باوجود دماغ کے گوگل سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 

مجبورا کتبِ سیرِ صحابہ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

مگر وہاں بھی ورق گردانی کا سلسلہ طویل تر ہوتا چلا گیا، لیکن کسی ایک بھی ایسے صحابی کا نام سامنے نہیں آیا، جس نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد طویل زندگی پائی ہو اور ایک ہی شادی پر اکتفا کیا ہو۔ 

البتہ ایسے کئی اصحابِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نظر سے گزرے، جنہوں نے پہلی شادی کی اور کچھ عرصے بعد راہِ خدا میں شہید ہوگئے یا قبل از نکاح ہی وہ جام شہادت نوش کر گئے۔ 


*پھر کافی جستجو کے بعد "طویل زندگی پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے صرف ایک ہستی ایسی ملی، جن کی صرف ایک بیوی ہونے پر مؤرخین نے اتفاق کیا ہے اور وہ ہیں اِس امت کے درویش حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ۔* (نام: جندب بن جنادہ) جن کی وفات تک حضرت ام ذر رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی بیوی نہیں تھی" 

ان کا مسلک ہی جمہور صحابہ کرام سے نرالا اور فقر و زہد اور ترکِ دنیا پر مبنی تھا۔ 

تاہم "بعض مورخین نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی خاتون سے شادی نہیں کی تھی" 

(البدایہ والنہایہ۔ اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ)


ان دو حضرات کے علاوہ ایسے کسی اور صحابی کا نام آپ کو معلوم ہو تو مطلع فرمایئے گا۔ جزاکم اللہ......


آج بھی عرب ممالک میں ایک بیوی پر اکتفاء کرنے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی دو تین شادیاں معمول کا حصہ ہیں۔ 

*غالبا برصغیر کے مسلمانوں میں ایک سے زائد بیوی کو معیوب سمجھنے کی سوچ ہندوؤں کے کلچر سے ملی ہے۔۔۔*


*یہ تحریر مفتی محمد قاسم اوجھاری کی وال سے لی گئی ہے* 


*ایک بیوی والوں کی خدمت میں؛ یہ مزاح نہیں بہت گہرا سچ ہے۔*


*ابن عباد کہتے ہیں کہ میں کئی ایک ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ لوگوں کے حالات زندگی مرتب کرتے ہیں*

 تو جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تو وہ یوں لکھتے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا اور اس کے نیچے فلاں فلاں تھی یعنی اس کی بیویاں 

*[مات وكانت تحته فلانة وفلانة]۔* 

لیکن جب کسی ایسے شخص کے حالات لکھتے کہ جس کی ایک ہی بیوی ہوتی تھی تو یوں لکھتے تھے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا اور اس کے اوپر فلاں تھی یعنی بیوی 

*[مات وترك فوقه فلانة]۔* 


اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں ایک بیوی عام ہو جائے وہ عورتوں کا معاشرہ ہے، مردوں کا نہیں، بنایا ہوا بھی اور چلایا ہوا بھی۔


*ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن اور جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی مایوسی بڑھ جاتی ہے، محنت کم ہو جاتی ہے، ہنسی اڑ جاتی ہے اور وہ شکوے اور شکایات کا گڑھ بن جاتا ہے یعنی ہر وقت شکوے شکایات ہی کرتا نظر آئے گا۔* 

*قاضی ابو مسعود کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو، اس کے لیے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں [کہ ہر وقت غصے کی حالت میں ہو گا اور غصے میں فیصلہ جائز نہیں]۔* 

*ابن خلدون کہتے ہیں کہ میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور وفکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔*


*ابن میسار کہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی کہ جس کی بیوی ایک ہو۔* 


*عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ مرد تو وہ ہیں کہ جن کی بیویاں ہوں۔ اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں۔*

*ابن یونس سے کہا گیا کہ یہود و نصاری نے تعدد ازواج یعنی ایک زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ انہوں نے جواب دیا، اس لیے کہ اللہ عزوجل ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے۔*


*ابو معروف کرخی سے سوال ہوا کہ آپ کی ان کے بارے کیا رائے ہیں جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں بلکہ مجنون ہیں۔ یہ ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کے زہد کو نہیں پہنچ سکے۔*

*ابن فیاض سے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں۔* 

*والی کرک ابن اسحاق نے پورے شہر میں مال تقسیم کیا لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ اللہ عزوجل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے [کہ وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں]۔*


*ابن عطاء اللہ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہ کی سنت کو۔* *حصری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا تو دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو، تین تین اور چار چار سے شادیاں کرو۔ اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔* 

*تقی الدین مزنی سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلایا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟*

*پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو اگلے چاند سے پہلے تین ہزار شادیاں ہوئیں اور شہر میں کوئی کنواری، مطلقہ اور بیوہ نہ رہی۔*

(رائٹر : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)