Thursday, July 25, 2024

 انگریزوں کے ظلم و ستم پر مکالمہ:



**اسرار **: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیر بھائ ! کیسے ہو؟


**عزیر **: وعلیکم سلام اسرار بھائ  میں ٹھیک ہوں، آپ  کیسے ہو؟


**اسرار **: الحمدللہ، میں بھی ٹھیک ہوں۔ آج میں نے تاریخ کی کتاب میں انگریزوں کے دور کے بارے میں پڑھا اور ان کے ظلم و ستم کی کہانیاں سن کر بہت دکھ ہوا۔


**عزیر **: ہاں، انگریزوں کے دور میں ہمارے دادا پردادا  کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہماری زمینوں پر قبضہ کیا، ہمارے ساز و سامان  کو لوٹا اور ہماری تہذیب اور کلچر  کو نقصان پہنچایا۔


*اسرار*  صحیح بولے یارو 


اور سب سے بڑھ کر، ان ظالم انگریزوں نے عوام پر نۓ نۓ  ٹیکساں  لگا دۓ تھے  اور کسانوں کو بہت  مشکل میں ڈال دۓ تھے ٹیکس نہیں دۓ تو کیلوں کے بیلٹ سے مار مار کر گدھے پر چکر لگواتے تھے خونم خون کردیتے تھے 


**عزیر **: ہاؤ صحیح بولے ، اور تو اور میں پڑھا   جب لوگاں ان کے خلاف  احتجاج کرتے  تو ان پر سختی سے ظلم کرتے تھے ۔


اچھا آپکو  جَلیان والہ باغ کا واقعہ معلوم ہے ؟ 


**اسرار **: ہاؤ بھائ معلوم ہے 


، 1919 میں جنرل ڈائر نے احتجاج کرنے والے  بے گناہ لوگوں پر فائرنگ کرائی جس میں صرف دس منٹ میں 379 لوگ شہید ہو گئے۔ اور 1200 زخمی ہوگۓ تھے 


**عزیر **: اور انگریزاں   ہماری زبان اور ایجوکیشن سسٹم کو بھی بدل دۓ  تاکہ ہماری پہچان  ختم ہو جائے۔ اور ہم ہمیشہ کے لۓ انگریزوں کے ذہنی غلام بن جائیں 


**اسرار **:  افوووو صحیح بولے یارو  انہوں نے ہماری تعلیم کو ملازمت اور نوکری تک رکھدیا   اور اپنی زبان اور کلچر  کو ہم پر لاگو  کرنے کی کوشش کی۔


**عزیر **: اور سب سے زیادہ ظلم انہوں نے ہمارے بزرگوں پر کیا جو آزادی کے لیے کوششاں  کر رہے تھے۔ انہیں جیلوں میں بند کردۓ ، ان پر بہت  سختی  کرے  اور کئی لوگوں کو پھانسی دے دۓ  خالی ایک ایک جھاڑ پر پھانسی کے پھندے لگا دیتے اور کوئ ہندوستانی نظر آتا تو اسکو پکڑ کے جھاڑ پر لٹادیتے ہیں یا توپ کے سامنے کھڑا کرکے اڑا دیتے تھے 


**اسرار **: ہاں، ہمارے بہت سے قومی ہیروز نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ہم آزاد ہو سکیں۔ ان کی قربانیاں کبھی نہیں بھولنی چاہئیں۔


**عزیر **: بالکل صحیح بولے  ہمیں انگریزوں کے ظلم و ستم کو یاد رکھتے ہوئے اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔


**اسرار **: ہاں، ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔


**عزیر **: صحیح بولے، اور ہمیں اپنے دوستوں  کو بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کی کہانیاں سنانی چاہئیں تاکہ وہ بھی اپنی آزادی کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔


**اسرار **: بالکل! چلو، آج ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ہمیشہ آزاد اور خوشحال رکھے اور ہمیں اپنے ملک کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ اور اس ملک میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنے اسلامی کلچر کے ساتھ جینے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے 


**عزیر **: آمین! اللہ ہمیں اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔

 تحریک آزادی میں علماء کی قربانیوں پر مکالمہ:


**صادق  **: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انس بھائ  خیریت سے ہے 


*انس* وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہاں صادق بھائ الحمدللہ اللہ کا فضل ہے شکر ہے 


 *صادق* آپکو  معلوم ؟ 


کہ  آزادی کی جنگ  میں علماء  کیا کیا قربانیاں دۓ؟ 


**انس **: ! ہاؤ ، میرے کو  معلوم ہے کہ علماء نے جنگ آزادی  میں بہت قربانیاں دۓ 


**صادق **: بالکل صحیح! علماء نے لوگوں  کو بیدار کرنے اور آزادی کی تحریک کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 


**انس**: ہاں، خاص طور پر مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جیسے علماء نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے عوام میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔


**صادق **: اور مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کو بھولنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے تحریک خلافت اور تحریک آزادی میں اہم رول اداء کرے 


**انس **: جی ہاں، اور ان سب نے اپنی جان و مال کی قربانی دی۔ کئی علماء نے جیل کی مشکلات  بھی برداشت کیں۔


**صادق **: بالکل! مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی اور دیگر علماء نے بھی اپنی زندگیاں قوم کے لیے وقف کر دی تھیں۔ انگریز ظالم نے کبھی علماء کو جیل میں بند کیا کبھی پھانسی چڑھا دی کبھی گولیوں سے بھون دیا لیکن ہمارے علماء ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے 


**انس **:  سچ بولے اگر علماء نہ ہوتے تو ہمیں آج تک انگریزوں کا ظلم سہنا پڑتا 


 علماء ہی  نے عوام کو یہ بتایا کہ آزادی ایک شرعی اور اخلاقی حق ہے، جس کے لیے کوشش  کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی حکومت چھینی تھی اسی وجہ سے سب سے زیادہ اس آزادی کی خاطر لڑنے والے ہمارے علماء ہی تھے 


**صادق **: صحیح بولے بھائ ۔ علماء نے نہ صرف آزادی کی اہمیت کو بیان  کیا بلکہ عملی طور پر بھی میدان میں اتر کر قوم کی قیادت اور رہبری کی اور قوم کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے رہے 


**انس **: اور ان کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے وطن کی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ اور علماء کی قربانی اسی وجہ سے تھی کہ ہمارا مذہب انگریزوں سے محفوظ رہے ہمیں اپنے مذہب کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے وطن میں رہنا ہے 


**صادق **: بالکل درست! ہمیں اپنے علماء کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے 


**انس **: ہاں، اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علماء نے جس اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہی آج بھی ہمارے ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے 


**صادق  **: بالکل صحیح! چلو، آج ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہمیں اپنے علماء کی قربانیوں کا پاس رکھنا نصیب فرمائے۔





**انس  **: آمین! اللہ ہمیں اپنے علماء کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

 شاہ عبدالعزیز دہلوی اور تحریک آزادی پر مکالمہ:


**1 **: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھائ  :::::::کیا آپ  نے شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟


**2 **: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ! ہاں، بھائ :::: میں نے ان کا نام سنا ہے۔ وہ ایک بڑے عالم دین تھے، لیکن میں ان کے تحریک آزادی میں کردار کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا 


**1 **: شاہ عبدالعزیز دہلوی ایک بہت بڑے عالم دین اور قوم کا بھلا چاہنے والے تھے  ۔ وہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیٹے تھے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں زبردست کام کیا ہے 


**2 **: اچھا اچھا ایسا ؟ انگریزوں کے خلاف ایسا کیا کرے وہ ؟ ہم تو اب تک خالی گاندھی جی نہرو جی ابوالکلام آزاد کے بارے میں ہی سنے تھے 


**1**:  گاندھی جی وغیرہ نے بھی بہت اچھے کام کرے ہیں


 لیکن  سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے  فتویٰ دیا  تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، یعنی جنگ کی جگہ ہے، ان انگریزوں کو ہمارے دیش سے نکالنا ضروری ہے


 کیونکہ یہاں  نوسو 900 سال حمرانی کرنے والے مسلمانوں سے حکومت چھین لی گئ ہے 

اور اب انگریز مسلمان بادشاہ کو کٹھ پتلی بنا کر رکھے ہوۓ ہیں 

یہاں انگریزوں کا حکم چل رہا ہے مسجدیں گرادی جارہی ہیں دین اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے کمزوروں پر ظلم وستم کیا جارہا ہے شہری آزادی چھین لی گئ ہے سول لاء اور کریمنل لاء سب انگریزوں کے ہاتھ میں ہے 


 


**2 **: یہ تو بہت اہم بات ہے۔ اس فتویے کا کیا اثر ہوا؟


**1**: ان کے فتویٰ نے مسلمانوں کو متحد کیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ  میں شامل ہونے کے لیے حوصلہ دیا۔ ان کے شاگردوں نے بھی اس فتویٰ کو آگے بڑھایا اور شوق شہادت میں  آزادی کی کوشش کو تیز کردیا 


**2**: آپکی باتیں سن کر مجھے ایک شعر یاد آیا 


کہ 


وہ سنگِ گراں جو حائل ہے رستے سے ہٹا کر دم لیں گے

ہم راہِ حق کے راہرو ہیں منزل پہ ہی جا کر دم لیں گے

یہ بات عیاں ہے دُنیا پر ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں

یا بزمِ جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دم لیں گے 


**1**: ماشاءاللہ اچھا شعر ہے


آگے سنۓ شاہ صاحب کے شاگردوں میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جیسے مجاہدین شامل تھے۔ ان لوگوں نے عملی طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور تحریک آزادی کو مضبوط بنایا۔ 


  


**2 **: یہ واقعی بہت اچھی باتیں آپ سے سیکھنے کو ملی ہیں  ہمیں ان جیسے عظیم علماء  کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے۔


**1**: بالکل صحیح کہا۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے دین اور وطن کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے 


**2**: بالکل درست! چلو، آج ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے وطن کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں شاہ عبدالعزیز دہلوی جیسے عظیم علماء  کی قربانیوں کو یاد رکھنے والا بنائے۔


**1**: آمین! اللہ ہمیں اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔


**2 **: آمین!



یوم آزادی مبارک

 - **ٹیپو سلطان** (میسور کے حکمران)

- **وزیر** (ٹیپو سلطان کے مشیر)

 منظر:

(سرنگاپٹم کے قلعے کا دربار)


دربان :: 


باادب ہوشیار 


سرادر اعلی شیر میسور سلطنت خداداد کے حکمران شیر دل ٹیپو سلطان ولد حیدر علی تشریف لا رہے ہیں 


**وزیر**: (فکر مند لہجے میں)


 سلطان، انگریز کی فوج  ہمارے بارڈر  کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ ہمیں جنگ کی تیاری کرنی ہوگی۔


**ٹیپو سلطان**: (پرسکون مگر عزم سے بھرپور) وزیر صاحب، ہم نے کبھی غلامی قبول نہیں کی، نہ کریں گے۔ ہماری سرزمین کی حفاظت ہماری سب سے پہلی ذمہ داری ہے یہ انگریز کے برے ارادے کو میرے والد محترم نے پہلے ہی جان لیا تھا 


**وزیر**: (پریشانی کے ساتھ) لیکن ان کے پاس نۓ نۓ  ہتھیار اور بڑی فوج ہے، ہمیں کو چال چلنا چاہۓ 


**ٹیپو سلطان**: (مسکراتے ہوئے) ہم نے پہلے بھی ان کا مقابلہ کیا ہے اور اللہ کے فضل سے  کامیاب ہوئے ہیں۔ ہماری راکٹ ٹیکنالوجی ہمارے بہادروں اور ہماری  جنگی چال  سے دشمن خوفزدہ ہے 


۔ ہم دوبارہ اپنی سرزمین کی حفاظت کرسکتے ہیں 


**وزیر**: (حوصلہ پاتے ہوئے) آپ کی بادشاہت میں ہم کبھی نہیں ہاریں گے، سلطان!


**ٹیپو سلطان**: (پُرعزم لہجے میں) ہم جنگ کے میدان میں اپنی آزادی کے لیے لڑیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔


سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 


دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے 


 یاد رکھو، 


*شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے* 


اللہ ہمارا مددگار ہو

 تحریک آزادی میں حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے کردار پر مکالمہ:


**1**: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 


آپ  نے کبھی سنا ہے کہ حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے جنگ آزادی میں کیا کارنامہ کیا ؟ 


**2**: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


ہاں، میں نے ان کے بارے میں تھوڑا بہت سنا ہے۔ لیکن تفصیل سے نہیں معلوم۔ آپ کچھ بتا سکتے ہو ؟ 


**1 **: بالکل، حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ایک عظیم عالم دین تھے انہوں نے جنگ آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا  انہوں نے خلافت تحریک اور کانگریس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا 


**2**: واقعی؟ کیا انہوں نے بھی جیل کی مشکلات برداشت کیں؟


**1**: جی ہاں، حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے کئی بار جیل کا سامنا کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف ایک  کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور لوگوں کو آزادی حاصل کرنے کا شعور پیدا کیا جسکی وجہ سے انکو اور انکے استاذ محمود الحسن صاحب کو جیل میں ڈال دیا اور انگریز گرم گرم سلاخوں سے انکے استاذ کی پیٹھ کو داغتے تھے 


**2**: اللہ ہمارے ان علماء کو جزاۓ خیر عطاء فرمائے بہت زبردست قربانی دیکر ہمیں آزادی کی سانس عطاء فرمائ 


**1**ایک مرتبہ انگریز جج نے ان سے پوچھا کہ حسین احمد کیا تم نے فتوی دیا ہیکہ انگریز کی کمپنی میں نوکری کرنا حرام ہے ؟ 

حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ فتوی دیا تھا دیتا ہوں دونگا 


جج نے کہا کہ جانتے ہو اسکی سزا کیا ہے ؟ 


مولانا نے اپنے ہاتھ میں اپنا کفن اچھالتے ہوۓ کہا کہ مجھے معلوم ہیکہ اسکی سزا موت کا پھندا ہے اسی وجہ سے میں اپنے ساتھ اپنا کفن ساتھ لایا ہوں مجھے شھادت کے بعد انگریز کا کفن بھی پہننا منظور نہیں ہے  


**2**: ماشاءاللہ ماشاءاللہ کیا بات ہے بھائ 


اسکے بعد کیا ہوا ؟ 


**1**بس اسکے بعد پورے ملک میں آزادی کے دیوانے احتجاج کرنے لگے اور انگریز کو جھکنا پڑا 



2  اللہ ہمیں ہمارے شھیدوں کو فریڈم فائٹرز کو یاد رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے 

اور اس ملک میں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ جینے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے 


مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ  لوگ اسلام کی حفاظت کے خالی نعرے لگاتے ہیں لیکن عمل کے اعتبار سے بہت پیچھے رہتے ہیں اسلام کوئ الگ چیز نہیں کہ اسکی حفاظت کی جاۓ اسلام عمل کا نام ہے عمل کروگے تو ہم اور اسلام دونوں محفوظ ہوجائیں گے

 تحریک آزادی میں ہندو مسلم اتحاد پر مبنی مکالمہ 


### مکالمہ


**1:** السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 


بھائ آپ  نے تحریک آزادی میں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ یہ واقعی ایک دلچسپ موضوع ہے۔


**2:** وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہاں،  میں نے اس بارے میں کچھ پڑھا ہے۔ ہندو مسلم اتحاد تحریک آزادی کے دوران بہت اہم تھا، خاص طور پر جب انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے مل کر کام کیا۔


**:1** بالکل! انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل 1885ء میں ہوئی تھی، اور اس میں مختلف مذاہب اور طبقات کے لوگ شامل تھے۔ اس کے بعد مسلمانوں کی علیحدہ نمائندگی کے لیے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی 


**2:** مجھے یاد ہے کہ 1916ء میں لکھنؤ پیکٹ کے ذریعے انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے مشترکہ طور پر برطانوی سامراج کے خلاف کوششوں کو تیز کیا 


**1:** ہاں، لکھنؤ پیکٹ ایک اہم موڑ تھا۔ اس معاہدے نے دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کیا اور ملک کی حفاظت کے لۓ کندھے سے کندھا ملاکر ملک کی آزادی کی آواز اٹھائ 


**2:** جی ہاں  پھر خلافت تحریک بھی ایک اہم موقع تھا جب ہندو اور مسلمان مل کر برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے اس تحریک کی قیادت کی تھی 


کہا ماں نے محمد علی کی 

جان بیٹا خلافت پے دے دو 


**1:** جی بلکل درست فرمایا آپ نے 

ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہیکہ ہندو مسلم اتحاد کا مطلب ایک دوسرے کے مذہب کو قبول کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوۓ ملک کی آزادی کی کوشش کرنا تھا دونوں کا مقصد ملک کی حفاظت تھا نہ کہ ایک دوسرے کے مذہب کو قبول کرنا 


**2:** جی درست فرمایا آپ نے مجھے مولانا ابوالکلام آزاد بھی یاد ہیں، جو انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما تھے اور ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں کو اپنے مذہبی شناخت کو چھوڑنے کی بات نہیں کرتے تھے  انہوں نے مختلف مواقع پر دونوں مذاہب کے لوگوں کو ملک کی حفاظت کی خاطر  گاندھی جی وغیرہ کو ساتھ لیکر ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا 


**1:** جی ہاں، مولانا آزاد نے واقعی بہت کام کیا۔ انہوں نے کانگریس کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کو مضبوط بنایا 

جب ہندوستان پاکستان تقسیم ہوگیا اور لوگ ہندوستان چھوڑ کر جارہے تھے تو مولانا ابوالکلام آزاد لوگوں کو یہ کہتے ہوۓ روک رہے تھے 

کہ

اے میرے ہندوستانی بھائیو تم اپنے بڑوں کا بنایا ہوا تاج محل لال قلعہ قطب مینار جامع مسجد چھوڑ کر یہ ملک کن لوگوں کے حوالے کرکے جارہے ہو 



**2:** جی ہاں بہت افسوس کی بات ہیکہ ہمارا ملک تقسیم ہوا   لیکن ہم ہندوستانی مسلمانوں نے مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی بات سن کر اپنے مذہبی پہچان کے ساتھ  اپنے ہی ملک میں رہنے  کا فیصلہ کیا 


**1:** صحیح کہا، گاندھی جی کا نو وائلنس( no valence)کا اصول بھی مختلف مذاہب کے لوگوں کو متحد کرنے میں اہم تھا۔ ان کی قیادت میں کئی تحریکات چلائی گئیں جن میں ہندو اور مسلمان دونوں نے حصہ لیا۔


**2:** لیکن بعد میں تقسیم ہند کے وقت یہ اتحاد ٹوٹ گیا اور ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ یہ واقعی ایک افسوسناک واقعہ تھا۔


**1:** ہاں، وہ ایک مشکل وقت تھا۔ لیکن ہمیں تحریک آزادی کے دوران ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت اور ان کی مشترکہ قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے 


**ریحان:** بالکل، ہمیں ان کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے اور آج بھی اپنے ملک میں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے اور جو لوگ مذہب کی آڑ میں ہمارے ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ان سے اپنے ملک کی حفاظت کرنا ہے 


**1:** ہاں  ملک کی حفاظت کی خاطر  ظلم کے خلاف قومی  اتحاد ہی ہماری طاقت ہے اور ہمیں اس کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے 


---


ٹھیک ہے چلتے ہیں 

یوم آزادی مبارک

Friday, July 19, 2024

 *موجودہ دعوت و تبلیغ میں علماء کا سال لگا کر مدارس کی آٹھ سالہ محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے*

از:حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب دامت برکاتہم (ناظم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد وصدر رابطہ مدارس دارالعلوم دیوبند تلنگانہ ورکن شوری مظاھر علوم سہارنپور)

 

*برادران تبلیغ ، بالخصوص اُمراء جماعت دین کی خدمت کے لئے مدارس کی تعلیم کو کافی نہیں سمجھتے،* فراغت کے بعد کم از کم ایک سال ____اور اب تو دو دو تین تین سال لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں___جماعت میں لگانے کو فریضۂ اسلامی کے درجے میں ضروری مانتے ہیں، فراغت سے پہلے ہی اس کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں ، اس کو اور اس کے سر پرستوں کو مجبور کرتے ہیں کہ سال لگانے سے قبل کسی کام پرنہ لگے ، بل کہ کئی جگہوں پر تو سال لگائے بغیر کسی بھی دینی کام میں مشغول ہونے کو ناممکن سا بنا کے رکھ دیا گیا ہے، پھر چلو اس کو جماعت میں اس لئے نکالا جاتا کہ جہلاء عوام کو اس کے ذریعے سیکھنے سکھانے کا کوئی فائدہ ہو جائے گا تو پھر بھی اس کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا تھا *لیکن عملی صورت حال جو سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اس کے علم سے تو کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسے البتہ جاہل امیر کا پابند فرمان بنا کر دین اور علم دین کے جامع تصور اور عالم دین کی بنیادی ذمہ داریوں کا احساس اس کے دل سے نکال دیا جا تا اور اپنے اس روایتی کارِ دین کا کُل دین ہو نا گھٹی میں بٹھادیا جاتا ہے،* گویا مدارس کی آٹھ سالہ محنت پر ایک سال میں پانی پھیر دیا جاتا ہے، چناں چہ سال لگانے والے بعض علماء اگر قویُ الاستعداد ہوتے ہیں تو ضابطے کی خانہ پری کر کے لائن بدل لیتے ہیں اور اکثر جو غبی الاستعداد اور خود اعتمادی وسدادِ فکری سے عاری ہوتے ہیں وہ اسی غلوِّ عملی اور عصبیتِ جماعتی کے شکار ہوکر نہ صرف معاصر بل کہ اکابر کو بھی دین سے غافل اور نبیوں والے کام سے جاہل قرار دینے میں ذرا باک محسوس نہیں کرتے ، اپنے اساتذہ و مشائخ اور مدارس و خوانق پر تک زبان طعن و اعتراض در از کرنے سے نہیں شرماتے ، اپنی اس چلت پھرت اور اس کے ذریعہ ہونے والی عوامی خدمت و محنت ___جو اپنی جگہ ضروری بھی ہے___ ہی کو کارِ دین اور نبیوں والا کام جتلاتے رہتے ہیں، جب کہ کسی بھی ماثور و متوارث لائن سے دین کامل کی دعوت اور امت مسلمہ کی صلاح وفلاح کے لئے کی جانے والی کسی بھی سعی کو نبیوں والا کام کہا جاسکتا ہے

*(ماہنامہ اشرف الجرائد مئی 2023 ص 12 تفصیلی مضمون ضرور پڑھیں تبھی حقیقت سمجھ میں آئے گی)*



🌷*_حقیقت خرافات میں کھو گئی_*

 *_یہ امت اختلافات میں کھو گئی_*🌷



اِن حقائق کو لکھنے والے حضرت مفتی عبد القوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت ہے جو محتاج تعارف نہیں ۔

 حضرت اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں، دسیوں کتابوں، رسالوں کے مصنف ہونے، نیز بیسیوں نئے فضلاء کے لئے ایک بہترین رہبر ہونے، دورِجدید کے تقاضوں کے لحاظ پر تعلیمِ مکاتب کے لئے  نئے فضلاؤاساتذہ کے لئے تدریبات کی راہ سے ان میں صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے  معروف عالمی ادارہ کے رکنِ شورٰی بھی ہیں جس ادادہ نے صدہا عالمی شخصیات امت مسلمہ کو عطا کی ہیں۔

 یہ بات ذھن نشین ہونا چاہئیے کہ اتنی بڑی شخصیت اگر اپنوں کا کوئی گلا کر رہی ہے تو  ضرور کہیں تو جھول ہوگا، مزید براں حضرت کے  الفاظ کے چناؤ، عبارتوں کے انتخاب سے سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت یہ بات کسی طرح کے جذبات میں نہیں فرما رہے بلکہ یہ عبارات اس تبحرِ علمی کا اثر ہیں جو حضرت کو اپنے اکابر علماء اہل سنت والجماعت علماء دیوبند سے ورثہ میں ملا ہے۔

ان حقائق کو چشمِ رو سے پڑھ کر فھمِ قلب میں اتارتے جائیے اور سر دھنتے جائیے، گویا یہ عبارات  لکھنے والا  بزبانِ حال یہ شعر گنگنا رہا ہے کہ

 " اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات "۔


  اتنے سہل الفاظ کے ساتھ حقائق کو آشکار کرنے پر بھی اگر فضلاءِ جامعات کے اعلی اذہان کو یہ حقائق نا گوار معلوم ہوں تو اپنوں سے اپنوں کو جو غم ہوتا ہے حضرت کو وہی غم ہوگا کیونکہ حضرت کی طرف سے یہ باتیں عنادًا نہیں فرمائی جارہیں بلکہ اپنوں سے دین میں ہوجانے والی قطع و برید اور اپنوں کے دین کی اصلاح کی غرض سے فرمائی جا رہی ہیں۔ 


 وِمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ، فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْ فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ⭕

( سورہ توبہ : 122 ) (اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو متنبہ کریں، تاکہ وہ گناہوں

سے بچ کر رہیں۔)  ( ترجمہ از مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی ) 

اگر چہ یہ آیت جھاد بالسیف کے بارے میں نازل ہوئی ہے ،مگر عمومِ الفاظ کے لحاظ سے حضرت مفتی عبد القوی صاحب نے مذکورہ آیت کی عمل تفسیر پیش کی ہے ولہ الجزاء فی الدارین ۔


صرف حضرت مفتی عبد القوی صاحب نے اس طرح کے حقائق سے آگاہ نہیں فرمایا بلکہ برِّ صغیر(ھند و پاک) کی کئی بڑی معروفِ زمانہ شخصیات نے اس پر قلم اٹھایا ہے، اور ایسے متبحر علماء کی ایک بڑی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جنہوں نے مذکورہ حقائق بزبان قلم یا بزبانِ قال بیان فرمائیں ہیں، مشتے نمونہ از خروارے :  صاحبِ " غلو فی الدین " حضرت مفتی شعیب اللہ صاحب مفتاحی، مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی زید صاحب مظاھری، مفتی خضر محمود صاحب، 

ان علماء میں سے قریب قریب سبھی نے اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے یا آپ بیتی سنائی ہے۔

 ظاہر ہے اتنی عالمی شخصیات محض غلط بیانی پر مبنی باتیں تو امت کے سامنے نہیں فرما سکتیں، بلکہ حالات کی اچھی خاصی تحقیق کرکے ہی لکھ یا بول سکتی ہیں۔


اللہ تعالٰیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ھم سبھی کو  تمام تر حقائقِ دین سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔

آمین ۔


✍🏻:۔۔۔ العبد محمد عادل

Tuesday, July 16, 2024

 💖ایک بیوی والے بیچارے💝


 ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن اور جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی مایوسی بڑھ جاتی ہے، محنت کم ہو جاتی ہے، ہنسی اڑ جاتی ہے اور وہ شکوے اور شکایات کا گڑھ بن جاتا ہے یعنی ہر وقت شکوے شکایات ہی کرتا نظر آئے گا۔💖 

قاضی ابو مسعود کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو، اس کے لیے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں [کہ ہر وقت غصے کی حالت میں ہو گا اور غصے میں فیصلہ جائز نہیں]💖۔

 ابن خلدون کہتے ہیں کہ میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور وفکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔💝


ابن میسار کہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی کہ جس کی بیوی ایک ہو۔💝 

عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ مرد تو وہ ہیں کہ جن کی بیویاں ہوں۔ اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں۔ ابن یونس سے کہا گیا کہ 

🎚یہود و نصاری نے تعدد ازواج یعنی ایک زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑ دیا

۔ انہوں نے جواب دیا، اس لیے کہ اللہ عزوجل ۔۔۔۔  ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے🧡۔


ابو معروف کرخی سے سوال ہوا کہ آپ کی ان کے بارے کیا رائے ہیں جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں بلکہ مجنون ہیں۔ یہ ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کے زہد کو نہیں پہنچ سکے 💝

۔ ابن فیاض سے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں🧡

۔  والی کرک ابن اسحاق نے پورے شہر میں مال تقسیم کیا لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ اللہ عزوجل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے [کہ وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں]۔💖


ابن عطاء اللہ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہ کی سنت کو۔💝 حصری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا تو دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو، تین تین اور چار چار سے شادیاں کرو۔ اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔🍉 

تقی الدین مزنی سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلایا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو اگلے چاند سے پہلے تین ہزار شادیاں ہوئیں اور شہر میں کوئی کنواری، مطلقہ اور بیوہ نہ رھی ۔۔۔۔۔۔ سب کہہ دو سبحان اللّٰہ ۔۔۔


۔۔۔۔۔۔

Wednesday, July 10, 2024

 ،

 *✍🏻✍🏻..برطانیہ میں حکومت کے ہاتھ بدلتے ہی انکشافات ہونے لگے*

 رشی سنک کی شکست کے بعد مودی اور ان کے وزراء کا کالا دھن بے نقاب ہوگیا۔  مودی کے وزراء کا کالا دھن 14 سال میں سو گنا بڑھ گیا۔


 وکی لیکس نے برطانیہ کے خفیہ بینکوں میں کالا دھن رکھنے والے ہندوستانیوں کی پہلی فہرست جاری کی ہے۔

 پہلے 24 نام درج ذیل ہیں۔

 (ڈالر میں رقم)

 1 - نریندر مودی (56800000000000) 56.8 لاکھ کروڑ (LkCr) usd=Rs.4089 LkCr 


 2 - امیت شاہ

 (780000000000)0.78 LkCr USD، Rs 56 LkCr


 3 - اسمرتی زوبیان ایرانی۔

 (15800000000000) 15.8 LkCr USD، Rs1136 LkCr


 4 - راج ناتھ سنگھ

 (8200000000000) 8.2 LkCr USD، Rs 590 LkCr


 5 - جئے شاہ

 (15400000000000)15.40

 LkCr USD


 6 - انوراگ ٹھاکر (2890000000000) 2.89 LkCr USD، Rs208LkCr


 7 - نرملا سیتارامن 

 (900000000000) 0.9LkCr USD، Rs64.8LkCr


 8 - پیوش گوئل (1500000000000) 1.5 LkCr USD، Rs108LkCr


 9 - گریراج سنگھ (7500000000000)7.5LkCr USD، Rs540LkCr


 10 - اشونی ویشنو (2800000000000) 2.8LkCr USD، Rs201LkCr


 11 - جیوترادتیہ سندھیا (590000000000) 0.59LkC USD، Rs 42.4LkCr


 12 - ڈاکٹر منسکھ منڈاویہ (22000000000000) 22LkCr USD، Rs1584Lk


 13 - جگت پرکاش نڈا (7688800000000)7.6LkCr USD، Rs167.2LkCr


 14- شیراج سنگھ چوہان (58211400000000) 58.2LkCr USD، Rs 4190LkCr


 15- منوہر لال کھٹر 

 (1980000000000)1.9LkCr USD، Rs137LkCr


 16- کرن رجیجو (13580000000000) 13.6LkCr USD، Rs976LkCr


 17- جنرل وی کے سنگھ (820000000000) 0.82LkCr USD، Rs 59LkCr


 18- ارجن رام میگھوال (1450000000000) 1.45LkCr USD، Rs104LkCr


 19- میناکشی لیکھی (2890000000000)

 2.9LkCr USD، Rs209LkCr


 20 - کیشو پرساد موریہ (900000000000) 0.9LkCr USD، Rs64.8LkCr


 21- دیویندر فڈنویس (1500000000000) 1.5LkCr USD، Rs108LkCr


 22- یوگی آدتیہ ناتھ (3500000000000)3.5LkCr USD، Rs252LkCr


 24. سنجیو کمار بالیان (18900800000000) 18.9LkCr USD، Rs1360LkCr


 ٹھیک ہے!!!... اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مودی کے کوگروں نے پچھلے 10 سالوں میں ملک کو کتنا لوٹا۔


 تمام محب وطن حضرات اس پوسٹ کو ملکی مفاد میں آگے بڑھائیں۔

 براہ کرم بدعنوانی کے خلاف جنگ کی حمایت کریں۔ 

 اب تک کی خبریں

 سوئس بینکوں میں جمع بھارتی کالا دھن  358,679,863,300,000 (تقریباً 1.3 ٹریلین ڈالر)، 

 یہ رقم ان 2000 ہندوستانیوں کی ہے جنہوں نے ٹیکس میں چھوٹ کے لیے یہ رقم جمع کرائی ہے اور ہندوستان کو اگلے 100 سالوں کے لیے ایک ترقی یافتہ سپر پاور ملک بنانے کے لیے کافی ہے۔

 ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے میں اسے آپ کو فارورڈ کر رہا ہوں؟

 

 اگر آپ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو یہ پیغام 30 لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔

 آپ کو صرف ایک لنک جوڑنا ہے اور کچھ ہی دیر میں پورا ملک جڑ جائے گا۔

 *بس... تھوڑا سا آگے کیجیے، اس میں صرف 2-3 سیکنڈ لگیں گے*

Saturday, July 6, 2024

 *لڑکیوں کے نام:*

*یہ صحابیات رضی اللہ عنہن کے پیارے پیارے نام ہیں، ان ناموں کے مطابق اپنی بچیوں کے نام رکھیے اور انھیں عام کیجیے:*


آسِيَة. آمِنَة. أَثِيْلَة. أَرْوَى. أَسْمَاء. أُسَيرَة. أُمَامة. أَمَةُ الله. أُمَيْمَة. أُنَيْسَة. بُجَيْنة. بَرْزَة. بَرَكَة. بَرَّة. بُرَيْدَة. بَرِيْرَة. بَريْعَة. بُسْرَة. بُهَيْسَة. بُهَيَّة. بَيْضَاء. تَمَاضِر. تَمِيْمَة. تُوَيْلَة. ثُبَيْتَة. جَمِيْلة. جُمَيْمَة. جُوَيْرِيَة. حَبِيْبَة. حَرَمْلَة. حَزْمَة. حَسَّانة. حَسَنَة. حَفْصَة. حَلِيْمَة. حُمَيْمَة. حُمَيْنَة. حَوَّاء. خالِدَة. خَدِيْجَة. خُزَيْمَة. خَضْرة. خُلَيْدة. خُلَيْسَة. خَنْسَاء. خَوْلَة. خَيْرَة. دُرَّة.  رَائِعة. رُبَيِّع. رَزِيْنَة. رِفاعَة. رُفَيْدة. رُقَيْقَة. رُقَيَّة. رَمْلَة. رُمَيْثَة. رَوْضَة. رَيْحَانة. زَيْنَب. سائِبَة. سُعَاد. سَعْدَة. سَعْدَة. سُعَيْدَة. سُعَيْرَة. سَفَّانة. سُكَيْنَة. سَلَامَة. سَلْمٰى. سُمَيَّة. سُنْبُلَة. سُنَيْنَة. سَهْلَة. سُهَيْمَة. سَوْدَة. شُرْفَة. شُمَيْلَة. شَهِيْدَة. صَفِيَّة. عاتِكَة. عالِية. عائِشَة. عَذْبَة. عِصْمَة. عَفْرَاء. عُقَيْلَة. عُلَيَّة. عَمَارَة. عُمْرَة. عُمَيْرَة. عُوَيْمِرَة. غُزَيْلَة. غُفَيْرَة. فاخِتَة. فارِعَة. فاطِمَة. فَرْوَة. فُرَيْعَة. فِضَّة. قُرَّةُ الْعَيْن. قُرَيْبَة. كَرِيْمَة. لُبَابَة. لُبنٰى. لَيْلٰى. مَارِيَة. مُحِبَّة. مَرْضِيِّة. مَرْيَم. مَسَرَّة. مُطِيْعَة. مُلَيْكَة. مَيْمُوْنة. نائِلَة. نُسَيْبَة. نَفِيْسَة. نُوَيْلَة. هَالَة. هُزَيْلَة. يُسَيْرَة.


*یہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیارے پیارے نام ہیں، ان ناموں کے مطابق اپنے بچوں کے نام رکھیے اور انھیں عام کیجیے:*


*لڑکوں کے نام:*


أبو بكر. أَبُو عُبَيْدَةَ. أبو الدَّرْداء. أبو هريرة. أَبَان. أَبْجَر. إِبْرَاهِيم. أَبْزٰى. أَبْيَض. أَثْوَب. أَحْمَد. أَحْمَر. أَخْرَم. أَخْنَس. إِدْرِيس. أَرْبَد. أَرْقَم. أُسَامَة. إِسْحَاق. أَسَد. أَسْعَد. أَسْفَع. أَسْقَع. أَسْلَع. أَسْلَم. أَسْماء. إِسْمَاعِيل. أَسْمَر. أُسَيْد. أَشْرَف. أَشْعَث. أَشِيْم. أَصْيَد. أَغْلَب. أَفْلَح. أَقْرَع. أَقْرَم. أَقْمَر. أَكْبَر. أَكْثَم. أُكَيْمَة. أُمَيَّة. أَنْجَشَة. أَنَس. أُنَيْس. أُنَيف. أَوْس. أَوْسَط. أَوْفٰى. إِيَاد. إِياس. أَيْفَع. إِيمَاء. أَيْمَن. أَيُّوب. بُجَيْر. بَدر. بُدَيْل. بَرَاء. بُسْر. بُسْرَة. بِشْر. بَشِير. بَصْرَة. بَعْجَة. بِلَال. بَهْزاد. تَمَّام. تَمِيْم. ثابِت. ثَعْلَبَة. ثُمَامَة. ثَوْبَان. جَابِر. جَاهِمَة. جِبارة. جَبَلة. جُبَيْب. جُبَيْر. جَحْدَم. جِدَار. جُذْرَة. جَرَّاح. جَرْمُوز. جَرِير. جَعْدَة. جَعْفَر. جُلَيْبِيب. جُمْهَان. جُنَادَة. جُنْدَب. جَهْجَاه. جَهْدَمَة. حَابِس. حاتِم. حاجِب. حارِث. حارِثَة. حَازِم. حَاطِب. حامِد. حَبَّان. حَجَّاج. حُذَيْفة. حُذَيْم. حَسَّان. حَسَن. حُسَيْن. حُصَيْن. حَكِيم. حَمَّاد. حَمْزَة. حُمَيْد. حَنْظَلَة. حَوْشَب. حَيَّان. خَارِجَة. خَالِد. خَبَّاب. خَبِيب. خِدَاش. خِذَام. خُرَيْم. خُزَيْمَة. خَلَّاد. داود. دِحْيَة. دُكَيْن. ذَكْوَان. ذُؤَيْب. رَاشِد. رَافِع. رَبَاح. رَبِيع. رَبِيعة. رُحَيل. رَزِين. رُشَيْد. رِفَاعَة. رُكَانَة. رُوَيْفِع. زَاهِر. زُبَيْب. زُبَيْر. زُرَارَة. زُرْعَة. زَكَرِیّا. زُهَيْر. زِيَاد. زَيْد. سَارِيَة. سَالِم. سائِب. سُحَيْم. سَخْبَرَة. سُخْرُوْر. سِراج. سَعْد. سعيد. سُفْيَان. سلام. سَلْمان. سَلَمَة. سُلَيْك. سُلَيْل. سُلَيْم. سُلَيْمَان. سِمَاك. سَمُرَة. سِنَان. سَنْبَر. سُنَيْن. سَهْل. سُهَيْل. سَوَاد. سُوَيْد. سَيْف. شافِع. شُبْرُمة. شِبْل. شَدَّاد. شَرَاحِيل. شُرَحْبِيل. شَرِيق. شَرِيك. شُعَيب. شَقْرَان. شِهاب. صالح. صامِت. صَخْر. صَفْوَان. صُهَيْب. ضَحّاك. ضِمَام. ضَمْرَة. طارق. طاهر. طُفْيل. طلحة. طَيِّب. عاصم. عاقل. عامر. عائِذ. عُبادة. عَباس. عبد الله. عبدُ الجَبَّار. عبد الرحمن. عبد العزيز. عبد القيوم. عبد المَلِك. عبد الواحد. عُبَيْدِ الله. عُبَيْد. عُبَيْدة. عِتْبَان. عَتِيق. عُثْمَان. عُجَيْر. عَدَّاء. عَدَّاس. عَدِيّ. عِرْبَاض. عَرْفَجَة. عُرْوَة. عُرَيْب. عِصَام. عُصَيْمة. عَطَاء. عَطِيَّة. عَفَّان. عُفَيْر. عُفَيْف. عَفِيف. عُقْبَة. عَقِيل. عُكَّاشَة. عَكَّاف. عِكْرَاش. عِكْرِمَة. عُلْبَة. عَلْقَمَة. عَلِيّ. عَمَّار. عُمَارَة. عُمَر. عَمْرو. عِمْرَان. عُمَيْر. عَوَّام. عَوْسَجَة. عَوْف. عُوَيم. عُوَيْمِر. عِيَاذ. عِيَاض. عيسى. عُيَيْنة. غاضِرة. غَالِب. غَرَفَة. غُضَيْف. غَنّام. غني. غَيْلان. فَاكِه. فُجَيْع. فَرْوَة. فَضَالَة. فَضْل. فُضَيل. قَارِب. قَاسِم. قَبِيصَة. قَتَادَة. قُثَمُ. قُدَامَة. قَرَظَة. قُرَّة. قَسَامَة. قُطْبَة. قَلِيب. قُهَيْد. قَيْس. كَثِير. كُدَيْر. كَريم. كَعْب. كَيْسَان. لَبِيد. لقمان. مَازِن. مَاعِز. مَالِك. مُبَشِّر. مُجَاشِع. مُجَذَّر. مُجَزِّز. مُحَسِّن. مُحصِن. مُحَلِّم. مُحَمَّد. مَحْمُود. مُحَيْصة. مختار. مَخْرَمة. مِخْنَف. مُدْرَك. مِرَارَة. مَرْثَد. مَرْوان. مُسْتَوْرِد. مُسْرِع. مِسْطَح. مسعود. مُسْلِم. مَسْلَمَة. مِسْوَر. مِشْرَح. مُصْعَب. مُطِيع. مُعَاذ. مُعَاوِيَة. مَعْبَد. مُعْتَمِر. مَعْدَان. مَعْقِل. مُعَوَّذ. مُعَيْقِيب. مُغِيث. مُغِيرَة. مِقْدَاد. مِلْحَان. مُنْبَعِث. مُنَبِّه. مُنْذِر. مَنْصُور. منظور. مُنْكَدِر. مِنْهَال. مُنِيب. مهاجر. مِهْرَان. موسى. مَيْسَرَة. ميمون. نابِغَة. نَابِل. نَاجِيَة. نافع. نذير. نَصر. نُصَير. نَضر. نعمان. نُعَيْم. نُعَيْمان. نُمَير. نوح. نوفَل. هاشم. هِشَام. هِلال. 


لڑکوں  کے نام اور مطلب


آدم Adam گندمی

آصف Asif ایک درخت کا نام

آفاق Afaq آسمانی کنارے

آفتاب Aftab سورج

ابان Aban واضح، ظاہر

ابتسام Ibtisam مسکرا نا

ابتھاج Ibtihaj خوشی


ابراھیم Ibrahim خادم، قوموں کا باپ

ابراھیم Ibrahim خادم


ابو ذر Abu Zarr پھیلانا، بکھیرنا

ابو ھریرہ Abu Huraira بلی کے بچے والا

اثیر Aseer بلند

اجلال Ijlal بزرگ ہونا

اجمد Ajmad لازم، ٹھہرنا

اجمل Ajmal بہت خوبصورت

احتشام Ihtisham شان و شوکت

احسان Ihsan نیکی کرنا

احسان الٰہی Ihsan Ilahi اللہ کا احسان

احسن Ahsan بہت اچھا، عمدہ

احمد Ahmad زیادہ تعریف والا

احوص Ahwas محتاط، رفو کرنا

ادریس Idrees پڑھا ہوا


ادھم Adham سیاہ


ارتضٰی Irtaza پسندیدہ

ارجمند Arjumand قیمتی، پیارا

ارسلان Arsalan غلام، شیر

ارشاد Irshad راہنمائی

ارشد Arshad ہدایت یافتہ

ارقم Arqam تحریر، نشان والا

ارمغان Armaghan تحفہ، نذر

اریب Areeb عقل مند، عالم

ازرق Azraq نیلا

ازھر Azhar روشن

اسامہ Usama شیر، بلند

اسحاق Ishaq ہنسنے والا

اسد Asad شیر

اسرار Israr پوشیدہ، رازداری

اسعد Asad سعادت مند، خوش بخت


اسماعیل Ismail پکار

اسمر Asmar کہانی گو

اسید Usaid چھوٹا شیر


اشتیاق Ishtiaq شوق

اشراق Ishraq طلوع آفتاب کا وقت

اشرف Ashraf اعلیٰ، شریف

اشعث Ashas بکھرا ہوا

اشعر Ashar معلومات رکھنے والا، سمجھدار

اشفاق Ishfaq مہربانی کرنا

اشھب Ashhab سفید، چمکدار

اصغر Asghar چھوٹا

اصیل Aseel شام

اطہر Athar بہت پاک، صاف ستھرا


اظھر Azhar 

اعتصام Etisam مضبوطی سے پکڑنا

اعجاز Ejaz خوبی، کمال

اعظم Azam بہت بڑا

افتخار Iftikhar فخر

افراز Ifraz نمایاں کرنا، باہر نکالنا، بلند کرنا

افروز Afroz تابناک

افضال Afzaal مہربانی کرنا

افنان Afnan شاخیں

اقبال Iqbal متوجہ ہونا، اعتراف

اقرع Aqra کھٹکھٹانے والا، بہادر


اکرام Ikram مہربانی کرنا

اکرم Akram عزت دار، محترم

اکمال Ikmaal تکمیل، مکمل کرنا

اکمل Akmal مکمل

التمش Altamish فوج کا سردار

الطاف Altaf مہربانیاں

القاسم Alqasim تقسیم کرنے والا


الیاس Ilyas قائم و دائم

امتثال Imtisal اطاعت

امتنان Imtinan مشکور ہونا

امتیاز Imtiaz فرق، الگ

امین Amin امانت دار

انصر Ansar مدد کرنے والا

انضمام الحق Inzimamulhaq سچائی کا ملاپ، حق کا ادغام


انفاس Anfas سانس، نفیس چیزیں

انوار Anwar روشنیاں

انیس Anees پیارا


اوج Aoj بلندی، اونچائی

اویس Uwais بھیڑیا

ایّاز Ayyaz مسلم جرنیل محمود غزنوی کا غلام

ایثار Isar قربانی، ترجیح

ایوب Ayub رجوع کرنے والا


بازغ baazigh روشن

بازل Bazil جوان

باسط Basit وسیع

باسق Basiq اونچا، بلند

باقر Baqir بڑا عالم

بخت Bakht نصیب، قسمت

بختیار Bakhtyar خوش بخت، اچھی قسمت والا

بدر الزمان Badruzzaman معروف، زمانے کا چاند

بدیع Badee بنانے والا

براء Bara بری، آزاد

برھان Burhan روشن دلیل


بشارت Basharat خوش خبری

بشیر Bashir بشارت دینے والا

بشیر Bashir بشارت دینے والا

بکیر Bukair نیا، انوکھا

بہاؤ الدین Bahauddeen دین کی روشنی

بہرام Bahram ایک ستارہ

تابش Tabish چمک


تجمّل Tajammul زینت اختیار کرنا

تحسین Tahseen تعریف کرنا


تصدق Tasadduq قربان ہونا

تقیّ Taqi پرہیز گار

تمیم Tameem ارادہ کرنا، مضبوط، کامل

تنویر Tanveer روشن کرنا


توصیف Tauseef خوبی، بیان کرنا

توفیق Tofeeq موافقت

توقیر Tauqeer عزت کرنا، قوت دینا

ثاقب Saqib روشن

ثعلبہ Salabah لومڑی

ثقلین Saqalain جن و انسان، دو جہان

ثمال Samal کار گزار

ثمامہ Sumama اصلاح

ثمر Samar پھل

ثمین Sameen قیمتی

ثناء اللہ Sanaullah اللہ کی تعریف


جابر Jabir غالب، پر کرنے والا

جاحظ Jahiz بڑی اور ابھری آنکھ

جاذب Jazib پرکشش

جار اللہ Jarullah اللہ کی پناہ لینے والا


جالب Jalib حاصل کرنے والا

جاویدJaveed قائم، ہمیشہ

جبران Muslih مصلح

جبیر Jubair غالب، پر کرنا

جبیر Jubair پر کرنے والا، غالب

جریر Jarir کھینچنے والا

جسیم Jaseem وزنی جسم والا

جلال Jalal شان، دبدبہ


جمال Jamal حسن، خوبصورتی


جمیل Jamil حسین، خوبصورت

جندب Jundub مکڑی کی ایک قسم

جنید Junaid چھوٹا لشکر

جہانگیر Jahangir زمانے پر چھا جانے والا

جہاں زیب Jahanzaib زمانے کی خوبصورتی

جواد Jawad سخی

جواد Jawwad 

حاتم Hatim لازم، ضروری

حارث Haris زمین درست کرنے والا، محنتی

حازم Hazim محتاط

حاطب Hatib ایندھن جمع کرنے والا


حامد Hamid تعریف کرنے والا

حبیب Habib محبوب

حذافہ Huzafa سہولت

حذیفہ Huzaifa آسانی و آرام


حریث Hurais زمین سنوارنے والا


حزام Hizam احتیاط

حسام Husam تلوار


Hasan 

Husain


حفص Hafs شیر، گھر

حفیظ Hafeez محافظ، نگران

حکیم Hakeem حکمت والا

حمّاد Hammad تعریف کرنے والا

حماس Himas محافظ، بہادر

حمدان Hamdan تعریف والا

حمزہ Hamza شیر

حمود Hamood تعریف والا

حمید

حنان 

حنیف Hanif موّحد، علیحدہ

حیدر Haidar شیر، بہادر

خالد Khalid ہمیشہ

خالد Khalid ہمیشہ


خبّاب Khabbab بلند، تیز رفتار

خبیب Khubaib بلند، اونچا

خذیمہ Khuzaima ترتیب دینا

خرم Khurram خوش

خریم Khuraim 

خضر Khizar سرسبز

خطیب Khatib بات کرنے والا

خلاد Khallad سدا


خلیق Khaleeq اخلاق والا

خلیل Khalil دوست، ولی

خلیل Khalil دوست، ولی


خورشید Khurshid سورج، 

داؤد Daud عزیز 

دانش Danish عقل، شعور

دانیال Daniyal پیغمبر کا نام


دحیہ Dihya فوج کا سربراہ

دران Durran موتی

درید Duraid ایک جانور

درید Duraid اختتام، ایک جانور کا نام

دلاور Dilawar بہادر


ذبیح Zabeeh ذبح ہونے والا

ذکاء Zaka ذہانت

ذکوان Zakwan روشن

ذکی Zakiy ذہین

ذہیب Zuhaib سونے کا ٹکرا

ذوالفقار Zulfiqar مہروں والی تلوار

ذوالقرنین Zulqarnain دو حکومتوں والا

ذوالکفل Zulkifl ضامن

راحیل Raheel مسافر

راسخ Rasikh مضبوط، ماہر

راشد Rashid ہدایت یافتہ

راغب Raghib مائل

رافع Raafe اٹھانے والا


رباب Rubab ایک قسم کا ساز


ربیع Rabee بہادر

ربیعی Rabiee باغ والا، بہار 

رحیق Rahiq جنت میں ایک شراب کا نام

رزین Razeen مقیم، رہائش، 

رشید Rasheed شریف، ہدایت یافتہ

رشید Rasheed ہدایت یافتہ

رشید Rasheed شریف، بھلا مانس

رضوان Rizwan رضا، جنت کے دربان کا نام

رضی Razi 

رفیع Rafi اونچا، بلند

رفیق Rafiq ساتھی، دوست


رواحہ Rawaha سرور

روح الامین Ruhul Amin پاک روح

رومان Ruman وسط، درمیان

رویفع Ruwaifa بلند، شریف

ریاض Riaz باغیچے

ریحان Raihan خوشبو، نیاز بو

زؤیب Zuaib چلنا، نکلنا

زاھر Zahir چمکیلا

زاہد Zahid متقی، پرہیز گار

زاہیر Zaaheer کھلا ہوا

زبیر Zubair شیر، محرر

زخرف Zukhruf مزین، آراستہ

زرعہ Zurah کھیتی باڑی، 

زکریا Zakariya بھرنا، پر کرنا

زکی Zaki پاک و صاف

زمیر Zameer خوبصورت

زمیل Zameel ساتھی، دوست


زہیر Zuhair شگوفہ

زیب Zeb حسن، زینت

زید Zaid زائد

زیدون Zaidoon زائد، اضافہ

زیرک Zeerak ہوشیار

زین Zain زینت

سائق Saiq قائد

ساجد Sajid سجدہ کرنے والا

سادات Sadat سردار، آل رسول

سالک Salik چلنے والا، اختیار کرنے والا

سالم Salim صحیح



سحاب Sahaab بادل


سدید Sadid درست، مضبوط

سدیس Sudais چھٹا، لڑکپن

سراج Siraj چراغ

سراقہ Suraqa چھپی چیز


سرمد Sarmad ہمیشہ

سرور Sarwar سردار

سعود Saood سعادت مند، بلند

سعید Saeed خوش بخت



ہ

سلطان Sultan بادشاہ، دلیل


سلمان Salamat سلامت


سلیم Saleem سلامت، محفوظ

سلیم Saleem سلامت، محفوظ

سلیمان Sulaiman زینہ، سلامتی


سمیر Sameer قصہ گو


سنان Sinan نیزے کا بھالا


سہیل Suhail آسان، روشن ستارہ



سیف Saif تلوار

شارق Shariq طلوع ہونے والا

شازب Shazib تربیت یافتہ

شاکر Shakir قدر دان، شکر کرنے والا

شاھد Shahid گواہ، دیکھنے والا

شاھد Shahid گواہ

شاہ زیب Shahzeb شاہی حسن

شاہین Shaheen باز

شبرمہ Shubruma عطیہ، شیر کا بچہ

شبیب Shabeeb روشن، جوان

شبیر Shabbeer نیک، خوبصورت

شجاع Shuja بہادر

شرافت Sharafat بزرگی

شرید Shareed الگ تھلگ

شریع Shurai وضاحت کرنے والا

شریق Shareeq ظاہر، خوبصورت

شعیب Shuaib حصہ، جمع و تفریق

شفقت Shafqat مہربانی

شفیع Shafee سفارش کرنے والا

شفیع Shafee شفاعت کرنے والا

شفیق Shafeeq مہربان

شکیب Shakeeb صبر کرنے والا

شکیل Shakeel خوبصورت

شمّاس Shammaas خادم، روشن، چمکیلا

شمشاد Shamshad ایک درخت


شھاب Shihab شعلہ، گرم تارہ


شیث Shees کثرت

شیراز Shiraz سخت، فوجی


صائب Saaib درست

صابر Sabir صبر کرنے والا

صادق Sadiq سچا، راست گو

صادقین Sadiqeen سچے

صالح Salih نیک


صبغۃ اللہ Sibghatulla اللہ کا رنگ

صبیح Sabeeh صبح، روشن

صداقت Sadaqat سچائی

صدام Saddam ٹکرانے والا

صدیق Siddiq دوست

صدیق Siddeeq سچا

صدیق Sadeeq دوست

صغیر Saghir چھوٹا

صفدر Safdar بہادر،

صفوان Safwan صاف چٹان

صفی Safi منتخب


صھیب Suhaib سرخ، سیاہی مائل


ضحّاک Zahhak ہنسنے والا


ضمّاد Zammaad معالج، ایک دوا

ضماد Zimad معالج

ضمام Zimam ملنا

ضمیر Zumair پوشیدہ

ضمیر Zameer چھپا، مخفی

ضیاء Zia روشنی 

طارف Tarif عمدہ، تازہ

طارق Tariq چمکنے والا، روشن تارہ

طالب Talib طلب کرنے والا

طاہر Tahir پاک، صاف

طریق Tareeq خوبصورت

طریف Tareef عمدہ، کنارہ کش

طفیل Tufail پیارا بچہ، ذریعہ

طلال Talaal خوبصورت

طلیق Taleeq ہنس مکھ

طیب Tayyib پاک، اچھا

ظافر Zafir کامیاب

ظفر Zafar کامیابی

ظفیر Zafeer کامیاب

ظہور Zahoor نمایاں، نمودار

ظہیر Zaheer مدد گار، پشت پناہی کرنے والا

عائذ Aiz پناہ لینے والا

عابد Abid عبادت کرنے والا

عاتف Atif کاٹنے والا

عادل Adil انصاف کرنے والا


عاشر Ashir دسواں

عاصف Asif تند و تیز

عاصم Asim بچانے والا

عاصم Asim بچانے والا


عاطف Atif مہربان

عاقب Aqib آخری

عاقب Aqib آخری

عاقل Aqil عقل والا

عاکف Akif پابند

عامر Amir آباد کرنے والا

عبّاد Abbad عبادت گزار

عبد الاعلٰی Abdul Ala سب سے اونچی ذات والے کا بندہ

عبد الباقی Abdul Baqi سدا رہنے والے کا بندہ

عبد البصیر Abdul Basir ہمہ وقت دیکھنے والے کا بندہ

عبد التواب Abdut Tawwab توبہ قبول کرنے والے کا بندہ

عبد الجبار Abdul Jabbar زبردست ذات والے کا بندہ

عبد الجلیل Abdul Jalil جلالت، بزرگی والے کا بندہ

عبد الحسیب Abdul Hasib حساب لینے والے کا بندہ

عبد الحفیظ Abdul Hafeez حفاظت کرنے والے کا بندہ

عبد الحکم Abdul Hakam فیصلہ کرنے والے کا بندہ

عبد الحکیم Abdul Hakeem حکمت والے کا بندہ

عبد الحلیم Abdul Halim بردبار ذات والے کا بندہ

عبد الحمید Abdul Hameed تعریف والے کا بندہ

عبد الحنان Abdul Hannan مہربانی کرنے والے کا بندہ

عبد الحیی Abdul Hay ہمیشہ زندہ رہنے والے کا بندہ

عبد الخالق Abdul Khaliq پیدا کرنے والے کا بندہ

عبد الخبیر Abdul Khabir خبردار رہنے والے کا بندہ

عبد الدیان Abdud Dayyan بدلہ دینے والے کا بندہ

عبد الرؤوف Abdur Rauf شفقت کرنے والے کا بندہ

عبد الرب Abdur Rabb پالنے والے کا بندہ

عبد الرحمان Abdur Rahman رحم کرنے والے کا بندہ

عبد الرحیم Abdur Rahim رحم کرنے والے کا بندہ

عبد الرزاق Abdur Razzaq رزق دینے والے کا بندہ

عبد الرشید Abdur Rasheed راہنمائی کرنے والے کا بندہ

عبد الرقیب Abdur Raqib خیال رکھنے والے کا بندہ

عبد السبحان Abdus Subhan پاک ذات کا بندہ

عبد الستیر Abdus Sittir چھپانے والے کا بندہ

عبد السلام Abdus Salam سلامتی والے کا بندہ

عبد السمیع Abdus Sami سننے والے کا بندہ

عبد الشکور Abdush Shakur قدر دان کا بندہ

عبد الصبور Abdus


ولید Waleed پیارہ بچہ

وھّاج Wahhaj روشن

یاسر Yasir آسان

یاسین Yasin سورت کا نام

یامین Yameen برکت و قوت

یحیٰی Yahya زندہ رہنے والا

یسع Yasa فراخ، کشادہ


یعقوب Yaqub پیچھے آنے والا

یقظان Yaqzan بیدار، ہوشیار

یمان Yaman مبارک

یوسف Yusuf حسین، پاک باز

یوشع Yusha چڑھائی و بلندی

یونس Yunus 

عبد الصمد Abdus Samad بے نیاز کا بندہ

عبد العزیز Abdul Aziz غالب ذات کا بندہ

عبد العظیم Abdul Azeem بڑائی والے کا بندہ

عبد العلیم Abdul Aleem علم والے کا بندہ

عبد الغالب Abdul Ghalib غلبے والے کا بندہ

عبد الغفار Abdul Ghaffar بہت بخشنے والے کا بندہ

عبد الغفور Abdul Ghafur معاف کرنے والے کا بندہ

عبد الغنی Abdul Ghani بے حاجت ذات کا بندہ

عبد الفتّاح Abdul Fattah کھولنے والے کا بندہ

عبد القابض Abdul Qabiz قابض ذات کا بندہ

عبد القادر Abdul Qadir قدرت والے کا بندہ

عبد القدوس Abdul Quddoos پاک ذات کا بندہ

عبد القدیر Abdul Qadeer قدرت رکھنے والے کا بندہ

عبد القوی Abdul Qawi قوت والے کا بندہ

عبد القیّوم Abdul Qayyum قائم رہنے والے کا بندہ

عبد الکریم Abdul Karim کرم کرنے والے کا بندہ

عبد الکفیل Abdul Kafil کفالت کرنے والے کا بندہ

عبد اللطیف Abdul Latif مہربان ذات کا بندہ

عبد اللہ Abdullah اللہ کا بندہ

عبد اللہ Abdullah اللہ کا بندہ

عبد المؤمن Abdul Mumin امن دینے والے کا بندہ

عبد الماجد Abdul Majid بزرگ ذات کا بندہ

عبد المالک Abdul Malik مالک کا بندہ

عبد المتین Abdul Matin مضبوط ذات کا بندہ

عبد المجیب Abdul Mujib قبول کرنے والے کا بندہ

عبد المجید Abdul Majeed بزرگ ذات کا بندہ

عبد المصور Abdul Musawwir صورت بنانے والے کا بندہ


عبد المعید Abdul Mueed پناہ دینے والے کا بندہ

عبد المقتدر Abdul Muqtadir اقتدار والے کا بندہ

عبد المقیت Abdul Muqit روزی دینے والے کا بندہ

عبد الملک Abdul Malik مالک، بادشاہ کا بندہ

عبد المنان Abdul Mannan احسان کرنے والے کا بندہ

عبد المنعم Abdul Munim انعام کرنے والے کا بندہ

عبد المھیمن Abdul Muhaiman محافظ، نگہبان کا بندہ

عبد النصیر Abdun Naseer مددگار ذات کا بندہ

عبد الھادی Abdul Hadi ہدایت دینے والے کا بندہ

عبد الواجد Abdul Wajid حاصل کرنے والے کا بندہ

عبد الوارث Abdul Waris وارث بننے والے کا بندہ

عبد الوحید Abdul Waheed واحد ذات والے کا بندہ

عبد الودود Abdul Wadud محبت کرنے والے کا بندہ

عبد الوکیل Abdul Wakil کار ساز کا بندہ

عبد الولی Abdul Wali دوست بننے والی ذات کا بندہ

عبد الوھّاب Abdul Wahhab عطاء کرنے والے کا بندہ

عبدان Abdan عبادت گزار

عبید Ubaid عاجز بندہ

عبید اللہ Ubaidulla اللہ کا عاجز بندہ

عبیر Abeer ایک خوشبو، عبور

عتبان Itban ڈانٹنا

عتیق Ateeq آزاد

عجلان Ajlan جلد باز

عداس Adas نگران

عدن Adan جنت کا نام

عدنان Adnan ہمیشہ رہنے والا

عدی Adi 

عدیل Adeel منصف

عرباض Irbaz مضبوط

عرفان Irfan معرفت والا

عروہ Urwah کڑا

عزیر Uzair تعاون کرنا

عصیم Aseem محفوظ


عقیل Aqeel عقل مند

عکرمہ Ikrama کبوتر

علقمہ Alqamah لقمہ

علم الدین Alamuddeen دین کا جھنڈا

عماد الدین Imaduddeen دین کا ستون

عمران Imran آبادی

عمرو Amr آبادی

عمید Ameed سردار، ذمہ دار

عمیر Umair آباد کرنے والا

عمیس Umais طاقت ور

عمیس Amees طاقت ور

عنان Annaan تیز رفتار

عنان Anan لگام، بادل

عنایت Inayat عطیہ

عون Aon مدد

عویم Uwaim

عیاض Iyaz خلیفہ

عیسٰی Isa زندگی والا

عین الاسلام Ainulislam اسلام کا چشمہ


غالب Ghalib طاقتور، غالب

غضنفر Ghazanfar شیر

غفران Ghufran

فاخر Fakhir بہت قیمت والا

فاران Faran ایک پہاڑ کا نام

فاروق Farooq حق و باطل میں فرق

فاضل Fazil فضیلت والا


Faraz فراز 

فرحان Farhan خوش

فرزدق Farazdaq آٹے کا پیڑا

فرقان Furqan معجزہ، فرق کرنے والا

فرقد Farqad ستاروں کا مجموعہ

فرید Fareed انمول موتی


فضل Fazl رحمت، کرم

فضیل Fuzail فضل والا

فھد Fahad چیتا

فہیم Faheem سمجھ دار

فواد Fuad دل

فیاض Fayyaz سخی

فیروز Fairoz کامیاب

فیصل Faisal فیصلہ کرنے والا

فیض Faiz عطیہ، کرم

فیضان Faizan عطیہ، تحفہ

قاسم Qasim تقسیم کرنے والا

قتادہ Qatada منصوبہ، ایک درخت

قتیبہ Tutaibah پلان، مشہور سپہ سالار

قدامہ Quddama پیش، آگے

قدامہ Qudama پیشوا

قذافی Qazzafi جنگل کا باشندہ

قسیم Qaseem حصہ دار، تقسیم کرنے والا

قطب الدین Qutbuddeen دین کا محور

قعقاع Qaqa اسلحہ کی جھنکار

قمر Qamar چاند

قنوان Qinwan جوڑا

قیس Qais اندازہ

قیم Qayyim صحیح، قائم

کاشف Kashif کھولنے والا

کاظم Kazim برداشت کرنے والا

کامران Kamran 

کرز Kurz ذہین، شریف

کر


یب Kuraib گنے کی پوری، مشکل زدہ

کشاف Kashaaf کھولنے والا

کعب Kab اونچائی

کفایت Kifayat کافی

کفل Kifl حصہ


کلیم اللہ Kaleemullah اللہ سے بات کرنےوالا

گل بار Gulbar پھول برسانے والا

گل ریز Gulrez پھول بکھیرنے والا

گل زار Gulzar باغ

گل زیب Gulzeb خوبصورت پھول

گل فام Gulfam پھول کی نسل

گوہر Gohar موتی

لئیق Layeeq قابل، لائق


لبیق Labeeq دانا

لطف اللہ Lutfullah اللہ کی مہربانی

لقمان Luqman دانا، تجربہ کار

لوط Lut دلی محبت

لیاقت Liaqat قابلیت

لیث Lais شیر

ماجد Majid بزرگ

مالک Malik آقا

مامون Mamoon محفوظ

مامون Mamun محفوظ

مبارک Mubarak بابرکت

مبشر Mubashir خوشخبری دینے والا

مبشر Mubashir خوش خبری دینے والا

مبین Mubeen واضح

متین Matin مضبوط

مثنّی Musanna ملا ہوا

مجتبٰی Mujtaba چنا ہوا

مجدد Mujaddid تجدید کرنے والا

محبوب Mahboob پسندیدہ

محتشم Muhtashim شان و شوکت والا

محسن Mushin احسان کرنے والا


محمد Muhammad تعریف کیا ہوا۔

محمود Mahmud تعریف کیا گیا

محمود Mahmud تعریف کیا گیا


مخدوم Makhdoom قابل خدمت

مدثر Mudassir چادر اوڑھنے والا

مرتضٰی Murtaza پسندیدہ

مرثد Marsad معزز، ترتیب شدہ

مرجان Marjan قیمتی پتھر


مرشد Murshid راہ نما


مرغوب Marghoob پسندیدہ

مروان Marwan سخت چٹان

مزمل Muzzammil کپڑا اوڑھنے والا


مستحسن Mustahsan اچھا

مستطاب Mustatab عمدہ، مبارک

مستنصر Mustansir مدد حاصل کرنے والا

مسطح Mistah فصیح، سطح

مسعود Masood سعادت مند

مسکین Miskeen عاجز، انکساری اختیار کرنے والا

مسیّب Musayyab جاری، تارک

مشاہد Mushahid دیکھنے والا

مشرف Mushrif نگران

مشرف Musharraf مقبول

مصباح Misbah چراغ

مصدق Musaddiq تصدیق کرنے والا

مصطفٰی Mustafa چنا ہوا

مصعب Musab دشوار


مطیع اللہ Muteeullah اللہ تعالٰی کا فرمانبردار

مظفر Muzaffar کامیاب

مظہر Mazhar نمایاں

معاذ Muaz پناہ یافتہ

معاویہ Muawia چلّانے والا


معتصم Mutasim مضبوطی سے پکڑنے والا

معراج Miraj سیڑھی، بلندی

معظم Muazzam عظیم

معین Mueen مدد گار

مغیرہ Mughirah لوٹنے والا، حملہ آور

مقبول Maqbool پسندیدہ، معروف

مقداد Midad توڑنے کا آلہ

مقصود Maqsood مطلوب، مقصد

مقیم Muqim قائم رہنے والا، 

مکتوم Maktoom چھپا ہوا

مکحول Makhool سرمئی آنکھوں والا


منتقٰی Muntaqa منتخب

منذر Munzir ڈرانے والا

منصور Mansur مدد کیا ہوا

منصور Mansur مدد یافتہ

منضود Manzud 

منظور Manzoor قبول شدہ

منھاج Minhaj لائحہ عمل، طریقہ کار

منور Munawwar روشن

منیب Munib رجوع کرنے والا

منیر Munir روشن



مھران Mihran 

مہیر Maheer چاند

موسٰی Musa 

ناصح Nasih خیر خواہ، نصیحت کرنے والا

ناصر Nasir مددگار


نثار Nisar قربان

نجم Najam تارا، نرم پودا

نجیب Najeeb لائق، بہادر

ندیم Nadeem ساتھی

نذیر Nazir ڈرانے والا

نصر Nasr مدد

نصر اللہ Nasrulla اللہ کی مدد

نصیر Naseer مددگار

نعمان Numan سرخ پھول، نعمت والا

نعیم Nuaim نعمت والا

نقاش Naqqash نقش و نگار بنانے والا


نقیب Naqeeb سردار

نمر Namir چیتا

نمیر Numair صاف، چیتا

نہال Nihal خوش حال، تازہ

نوازش Nawazish مہربانی

نواس Nawas پر سکون مقام


نوح Nuh آرام، بلند

نور Noor روشنی


نوید Naveed خوش خبری


نیر Nayyar روشن

ہارون Haroon سردار، سالار، قوی

ہاشم Hashim سخی، توڑنے والا

ہشام hishaam بہت سخی

ہلال Hilal چاند

ہمام Hammam کر گزرنے والا

ہمایوhumayun مبارک، سلطان



ہود Hood توبہ کرنے والا

ہیثم Haisam شیر

واثق Wasiq اعتماد کرنے والا


واصف Wasif صفت کرنے والا

واصل Wasil ملانے والا

واقد Waqid روشن کرنے والا

وثیق Waseeq 

وجیہ Wajeeh روشن، خوبصورت

وحید Waheed یکتا، اکیلا

وسیم Waseem چاندی، خوبصورت

وثیق Waseeq قابل اعتماد، مضبوط


وقار Waqar عزت، جاہ و جلال

وقاص Waqqas جنگجو، توڑنے والا

وکیع Wakee مستحکم، مضبوط

ولید Waleed پیارا بچہ




آزفہ Azifa قریب ہی آنے والی

آفروزہ Aafroza چراغ کی 

آفریدہ Afrida قربان

آفریں Afreen خوشی، شاباش

آمنہ Amina امن والی

ادیبہ Adeeba ادب والی

اریبہ Ariba عقل مند، ماہر

اریکہ Arika خوبصورت تخت

ازکی Azka پاکیز

اسماء Asma بلند، علامت

اسماء Asma بلند

اسوہ Uswa نمونہ، مثال

افشاں Afshan بکھیرنا، ظاہر



انیسہ Anisa پیاری

انیقہ Aniqa نادر، عمدہ


ایمن Aiman بابرکت


بارزہ Bariza صاف، ظاہر

بازغہ Bazigha روشن

باسمہ Basimah 

بشرٰی Bushra بشارت


پروین Parveen ستاروں کا مجموعہ


تابندہ Tabinda قائم دائم


تحریم Tahrim حرام قرار دینا، عزت

تحسینہ Tahsina خوبی والی

تسنیم Tasnim جنت کا چشمہ


ثانیہ Sania دوسری

ثریا Surayya ستاروں کا جھرمٹ

ثمرہ Samra پھل

ثمرین Samreen 



جویریہ Juveria

حبیبہ Habiba پیاری

حرا Hira مشہور گہرا غار

حرملہ Harmala کندھوں کی چادر

حریم Hareem عزت والی


حسناء Hasna خوبصورت

حسنات Hasanaat نیکیاں


حسنٰی Husna اچھا، بہترین



حفصہ Hafsa شیرنی

حفیظہ Hafeeza محفوظ

حلیمہ Halima بردبار

حمامہ Hamama کبوتری، خوبصورت


حمراء Hamra سرخ


حمنہ Hamna سرخ انگور

حمیدہ Hameeda تعریف والی


حمیلہ Hameela صامن، تلوار کا دستہ

حمیمہ Hamima گہری دوست

حنا Hina مہندی

حولاء Hola تبدیلی

خالدہ Khalida ہمیشہ

خانم Khanum امیر زادی، بیگم


خدیجہ Khadija ناتمام


خنساء Khansa چھپنا، ہٹنا


خوشبو Khushbu مہک، خوشبو

خوشنودہ Khushnuda خوش

خولہ Kholah خادمہ

خیثمہ Khaisama سخت، مضبوط

خیرہ Khairah پسندیدہ


دانیہ Dania قریب

دجانہ Dujana بارش

در فشاں Durre Fashan بکھرے موتی


درخشاں Darakhshan نمایاں، روشن

دردانہ Durdana موتی کا دانہ


دلربا Dilruba دلفریب، دلکش

دمیدہ Damida کھلا پھول

دیبا Deeba باریک ریشم

ذکیہ Zakiyya لائق، ذہین

رائعہ Raia دلکش، عمدہ

رابیہ Rabia زبردست

راشدہ Rashida ہدایت یافتہ

راضیہ Razia خوش، راضی

رافعہ Rafia اونچی

رباب Rubab ساز

ربیبہ Rabiba پروردہ

ربیعہ Rabia بہار


رحیلہ Rahila مسافرہ

رخسانہ Rukhsana چمکی


رشیدہ Rasheeda بھلی مانس، سمجھدار



انہ Rizwana خوشی

رضیہ Razia پسندیدہ

رغیبہ Ragheeba پسندیدہ

رفاہت Rifahat عیش

رفعت Rifat بلندی

رفیعہ Rafia بلند

رقیہ Ruqayya ترقی

رکانہ Rukana مضبوط

رمثاء Ramsa خوبصورت

روبیہ Rubiya اچھی زندگی

ریحانہ Raihana نیاز بو


ذہینہ Zahina ذہین عورت

زارا Zara زیارت

زاھدہ Zahida پرہیز گار، خوددار، بے پرواہ


زبدہ Zubdah مکھن

زبیدہ Zubaida مکھن، بزرگ

زر فشاں Zare Fishan چمک دار

زرقاء Zarqa نیلی


زرینہ Zarina سونے کی چیز

زمھریر Zamharir ٹھنڈا سایہ

زنجبیل Zanjabil سونٹھ، خوشبودار بوٹی

زنیرہ Zanira مالا

زھراء Zahra پھول، چمکیلی

زھرہ Zuhra روشنی، چمک

زھیرہ Zuhaira روشن

زوبیا Zubia سخی


زیبا Zeba زینت

زینب Zainab ایک خوشبودار خوبصورت درخت



سائرہ Saira رواں، بہاؤ

ساجدہ Sajida جھکنے والی

سارہ Sara



سدرہ Sidra بیری کا درخت


سعدٰی Suda خوشبودار پودا

سعدیہ Sadia خوش بخت

سعیدہ Saeeda مبارک، خوش بخت


سفیرہ Safira نمائندہ

سفینہ Safina بحری جہاز

سکینہ Sakina سکون والی

سکینہ Sakina سکون والی

سلامہ Sulama سلامت

سلطانہ Sultana ملک

سلمٰی Salma سلامت

سلیمہ Salima سلامت

سمرہ Samra گندم گوں


سمیّہ Samiya بلند، ہم نام

سنا Sana چمک

سنبل Sunbul خوشبو دار گھاس، سٹہ

سندس Sundus ریشم کی قسم

سھلہ Sahla سہولت و آسانی

سھیلہ Suhaila آسان

سودہ Saoda


شاذمہ Shazima انوکھا چاند

شارقہ Shariqa روشن

شبانہ Shabana رات

شبنم Shabnam اوس، باریک کپڑا


شفیقہ Shafiqa مہربان


شقیقہ Shaqiqa شریک، سگی بہن

شکیبہ Shakiba صبر کرنے والی

شکیلہ Shakila حسین

شگفتہ Shagufta تازہ پھول

شمائلہ Shamaila اچھی عادات

شمسہ Shamsa سورج

شمع Shama چراغ

شمیلہ Shumaila اچھی عادت والی

شمیم Shamim مہک


شیریں Shireen میٹھی


شیماء Shaima خوشبو، خصلت

صائمہ Saima روزہ دار

صابرہ Sabira صبر کرنے والی


صبا Saba صبح

صباح Sabah صبح

صباحت Sabahat روشنی

صبیحہ Sabiha روشن، خوبصورت

صخرہ Sakhra چٹان

صدف Sadaf سیپی

صدیقہ Siddiqa سچی


صفیہ Safia منتخب


صوبیہ Sobia جزا، ڈھلی ہوئی


ضحٰی Zuha روشنی، صبح چاشت کا وقت

ضمرہ Zamrah ماہر، لطیف

ضمیرہ Zamira پوشیدہ

ضمیمہ Zamima ملایا ہوا، اضافہ


طاھرہ Tahira پاک صاف

طبیبہ Tabiba ڈاکٹر، نرس


طلعت Talat طلوع ہونا، نظارہ

طوبٰی Tuba مبارک، خوشی

طیبہ Taibah پاک، نیک، اچھی


ظریفہ Zarifa خوش طبعی

ظفرین Zafreen کامیاب

ظفیرہ Zafeera کامیاب

عائشہ Aisha زندگی والی

عاتقہ Atiqa آزاد کرنے والی

عاتکہ Atika شریف، لال سرخ

عارفہ Arifa جاننے والی

عاصفہ Asifa تند و تیز

عاصمہ Asima بچانے والی

عاقبہ Aqiba انجام

عاقلہ Aqila عقل والی

عالیہ Alia اونچی

عامرہ Amira آباد کرنے والی

عتیقہ Ateeqa آزاد


عجیلہ Ajeela جلدی کرنے والی

عدیلہ Adeela عدل کرنے والی، ہم رتبہ

عذرا Azra کنواری، نئی

عروبہ Aruba ہنسنے والی، محبت کرنے والی

عزیمہ Azeema عزم والی

عشبہ Ushba ایک قسم کی گھاس

عشرت Ishrat اچھی زندگی

عصماء Asma خوبصورت ہرن

عصیمہ Usaima محفوظ



عطیّہAtiyyah تحفہ

عظمٰی Uzma بڑی

عفت Iffat پاک دامنی

عفراء Afra سفید زمین


عفیفہ Afifa پاک باز

عقیلہ Aqila عقل والی


عمّارہ Ammara آبادی

عمیرہ Umaira آباد


عنبر Anbar ایک خوش

عندلیب Andaleeb بلبل

عنزہ Anaza نیزہ، ہرنی، 

عنم Anam لال سرخ

ظھیرہ Zaheera مددگار، پشت پناہی کرنے والی


غاشیہ Ghashia چھا جانے والی


غزالہ Ghazala ہرن

فائزہ Faiza کامیاب

فائقہ Faiqa اعلٰی، برتر

فاخرہ Fakhira قیمتی، فخر والی

فاطمہ Fatima دودھ چھڑانے والی

فاکھہ Fakiha میوہ، پھل

فراست Firasat عقلمندی

فرحانہ Farhana خوش

فرحت Farhat خوشی

فرحین Farheen خوش

فرخانہ Farkhana وسیع

فرخندہ Farkhanda کھلا ہوا پھو

فردا Farda آنے والا کل

فردوس Firdos جنت کے اعلٰی درجے کا نام

فرزانہ Farzana عقل مند

فروہ Farwa جلد

فریحہ Fariha فرحت والی، تازگی والی

فریدہ Farida انمول موتی

فریضہ Fariza ذمہ داری

فریعہ Faria حصہ، شاخ

فصیحہ Fasiha خوش بیان

فضالہ Fazala بقیہ، فضیلت والی

فضّہ Fizza چاندی

فضّہ Fizza چاندی

فضیلت Fazeelat خوبی

فقیھہ Faqiha سمجھ دار

فکیھہ Fakiha خوش طبع

فھمیدہ Fahmida معاملہ فہم، سمجھ دار


فھیمہ Fahima فہم والی، سمجھ والی

فوزیہ Fozia کامیاب

فیروزہ Feroza قیمتی پتھر

فیضہ Faiza فیض والی، نعمت والی

قانعہ Qania قناعت کرنے والی


قدسیہ Qudsia پاک

قرہ Qurra ٹھنڈک

قرۃ العین Qurratulain آنکھوں کی تھنڈک


قیصرہ Qaisara ملکہ، مہرانیکائنات 

کفیلہ Kafila ضامن، کفالت کرنے والی


کنیزہ Kaniza خادمہ، جوان


کوثر Kaosar جنت کی نہر

کوکب Kuokab تارا



گل حنا Gul Hina مہندی کا پھول

گل رخ Gul Rukh پھول جیسا چہرہ

گل شاد Gul Shad تازہ پھول

گل فشاں Gul Fashan کھلا پھول

گل نار Gul Nar انار کا پھول

لئیقہ Lyqa لائق


لبابہ Lubaba دانا

لبنٰی Lubna دودھ جیسی


لبیبہ Labiba عقل مند

لبیدہ Labida زیادہ


مادحہ Maadiha تعریف کرنےوالی

ماہ مبین Mahe Mubin واضح چاند

ماوٰی Mawa جنت کا نام

مبارکہ Mubaraka بابرکت

محسنہ Muhsina احسان کرنے والی

محمودہ Mahmuda قابل تعریف

مخدومہ Makhduma قابل خدمت

مدیحہ Madiha تعریف والی

مدیرہ Mudira منتظمہ

مرجانہ Marjana قیمتی پتھر

مرضیّہ Marzia پسندیدہ

مرغوبہ Marghuba پسندیدہ

مرینہ Marina اون، پشم

مسرّت Musarrat خوشی، راحت

مشاھدہ Mushahida دیکھنے والی

مشیّدہ Mushaiada مضبوط

مصباح Misbah چراغ

مصفّات Musaffat صاف، ستھری

مصفوفہ Masfufa قطار در قطار

مصفّی Musaffa صاف

مطیعہ Mutia اطاعت کرنے والی



مقدسہ Muqaddasa پاکیزہ


ملیحہ Maliha خوش طبعی

ممتاز Mumtaz اعلٰی

ممدوحہ Mamduha تعریف والی

منقبت Manqabat فضیلت، شان

منیبہ Muniba توجہ کرنے والی

منیحہ Maniha عطیہ، تحفہ

مھرین Mehreen خوبصورت

مھناز Mehnaz چاند کا نخرہ

مھیرہ Maheera آزاد، قیمتی، چاند

مہر النساء Mehrunnisa عورتوں کا سورج

مہر جبیں Mehr Jabeen سورج جیسی پیشانی

مہک Mehk خوشبو، عطر

مہوش Mehwish خوبصورت


میمونہ Maimuna برکت والی

نائلہ Naila مقصد حاصل کرنے والی

نابغہ Nabigha فصیح، ذہین

ناجیہ Najia نجات پانے والی

نادرہ Nadira انوکھی

ناز Naz نازک

نازیہ Nazia نخروں والی، ناز و


الی

ناصرہ Nasira تر و تازہ


ناصیہ Nasia پیشانی

ناظرہ Nazira دیکھنے والی

ناظمہ Nazima انتظام کرنے والی

ناعمہ Naima نرم، تر و تازہ

ناھیدہ Nahida ستارہ

نبیشہ Nubaisha نشیب و گہری

نبیلہ Nabila ذہین

نجوٰی Najwa سرگوشی

ندرت Nudrat عجیب

نزھت Nuzhat تفریح، خوشحالی

نسرین Nasreen سفید پھول


نصرت Nusrat مدد

نصوحا Nasuha خالص، خلوص

نضرت Nazrat تازگی


نعیمہ Naima نعمت والی

نفحت Nafhat خوشبو

نفیسہ Nafisa صاف ستھری

نقرہ Naqra چاندی

نکہت Nakhat خوشبو

نمرہ Namra چیتا

نمیرہ Numaira صاف، چیتا

نھدیہ Nahdiya نمایاں

نورین Noreen تازہ، روشن

نوشاد Noshad شادمان

نوشیبہ Nushaiba نئی، سفید

نوشین Nosheen میٹھا

نویدہ Naveeda اچھی خبر

نویرہ Nawira روشن

نویلہ Navila عطیہ

ہاجرہ Hajira ہجرت کرنے والی

ہادیہ Hadia راہنمائی کرنے والی

ہانی Haani خادمہ، 

ہما Huma ایک خیالی پرندے 

واثلہ Wasila جمع کرنے والی

واثلہ Wasila مضبوط رسی

واصلہ Wasila ملانے والی

واقدہ Waqida روشن کرنے والی

وبرہ Wabra اون، بلی نما جانور

وجیھہ Wajiha روشن چہرہ

وحیدہ Waheeda یکتا، اکیلی

وردہ Wardah گلاب کا پھول



وسیمہ Wasima چاندی


ولیجہ Walija دلی دوست

ولیدہ Waleeda کم سن

ومیزہ Wamiza تیار، متحرک

ب

یاسمین Yasmin ایک حسین

 "تبلیغی جماعت کی اس صدی کی جدوجہدکے 100سال"


حافظ سرفراز خان ترین


 تبلیغی جماعت کا آغاز نومبر 1926 (جما دی الاول 1345) میں ہوا۔ نومبر 2023 (جمادی الاول 1445) تک اسلامی کیلنڈر کے مطابق تبلیغی جماعت کے 100 سال مکمل ہوچکے ہیں لہذا اس حوالے سے تبلیغی جماعت کے قیام سے لیکر اب تک تک جدوجہد اور اس کے نظم کے حوالے سے چیدہ چیدہ معلومات قارئین کے استفادہ کے شائع کی جارہی ہیں۔


بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلویؒ


عالمی تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلوی بن مولانا محمد اسماعیل 1886 میں کاندھلہ، مظفر نگر، یوپی، انڈیا میں پیدا ہوئے۔

مولانا الیاس کا تعلق ایک نہایت متقی گھرانے سے تھا۔ مولانا الیاس کے والد مولانا محمد اسماعیل پیاسے مزدوروں کو پانی پلانے کے لیے سڑکوں پر انتظار کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ پھر 2 رکعت نماز پڑھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا۔ ایک دن اس کی ملاقات میوات کے کچھ مزدوروں سے ہوئی جو کام کی تلاش میں تھے۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس طرح کے کام سے کتنا کمائیں گے اور اتنی ہی رقم کی پیشکش کی کہ اگر وہ اس کے بجائے ان سے کلمہ اور نماز سیکھیں گے۔ وہ راضی ہو گئے اور تب سے تقریباً 10 میواتی طلباء ہر وقت ان کے ساتھ رہنے لگے اس طرح بنگلہ والی مسجد میں مدرسہ کا آغاز ہوا۔

مولانا الیاس ؒ کاپورا گھرانہ انتہائی متقی اور پرہیزگار تھا ان کے بھائی مولانا محمد نے اپنی وفات سے پہلے 16 سال تک ایک بھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی۔ وتر کی نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں وفات پائی۔مولانا الیاس کی والدہ بی صفیہ روزانہ 5000 مرتبہ درود شریف، 5000 مرتبہ اسم ذات اللہ، 5000 مرتبہ، بسم اللہ الرحمن الرحیم 1000 مرتبہ، حسبنا اللہ ونعم الوکیل 1000 مرتبہ، منزل اور متعدد دیگر ذکر روزانہ ہزار مرتبہ پڑھتی تھیں۔. رمضان کے دوران، اس سب سے بڑھ کر، وہ ہر روز پورے قرآن کے علاوہ مزید 10 پاروں کی تلاوت کرتی تھیں۔ اس طرح وہ رمضان المبارک میں 40 مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت مکمل کریں گی۔

مولانا الیاسؒ خود بھی بڑے پرہیزگار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر اوقات ذکر الٰہی میں گھنٹوں تنہائی میں رہتے تھے۔ جب وہ نظام الدین میں تھے تو بعض اوقات وہ عرب سرہ کے دروازے پر دوپہر تک گھنٹوں قیام کرتے تھے، جہاں اللہ کے عظیم ولی حضرت نظام الدین اولیاء عبادت کیا کرتے تھے۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

8 فروری 1918 – مولانا الیاس (32 سال) نے بنگلے والی مسجد میں رہائش اختیار کی۔ اس زمانے میں یہ صرف ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے اندر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ گھنے جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ نلکے کے پانی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور پانی کہیں اور سے لانا پڑتا تھا۔ وہاں صرف 4 سے 5 لوگ نماز پڑھتے تھے جو سب ان کے شاگرد تھے۔ مولانا الیاسؒ مسجد میں ذکر و اذکار میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔

مدرسہ میں کھانا اس قدر ناقص تھا کہ انہیں کئی بار بھوکا رہنا پڑا، لیکن مولانا الیاس نے خوش دلی سے یہ سب برداشت کیا۔ انتہائی غربت نے اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا کیونکہ جس چیز نے اسے پریشان کیا وہ فراوانی اور خوشحالی کا امکان تھا۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

1920ء – مولانا الیاس مسلمانوں کی عمومی جہالت اور بے دینی کو دیکھ کر پریشان ہوئے، یہاں تک کہ دارالعلوم کے طلبہ میں بھی۔ ایک دفعہ مولانا کے سامنے ایک نوجوان کو اس تعریف کے ساتھ پیش کیا گیا کہ اس نے میوات کے فلاں مکتب میں قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی ہے۔ مولانا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی داڑھی منڈوائی گئی ہے اور ان کی شکل وصورت اور لباس سے کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔

29 اپریل 1926 – مولانا الیاس (40 سال کی عمر میں) کئی علماء کرام کے ساتھ حج پر گئے۔

20 جولائی 1926 – مولانا الیاس کا حج گروپ اس دن ہندوستان واپس آنا تھا لیکن مولانا الیاس اس قدر پریشان اور بے چین تھے کہ انہیں مدینہ میں مزید قیام کرنے کی شدید خواہش محسوس ہوئی۔

1926 – ایک رات مدینہ کے مقدس شہر میں، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی کے اندر سو گئے۔ مولانا الیاس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہے ہیں کہ ”ہندوستان لوٹ جاؤ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تم سے کام لے گا”۔

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا فرماتے ہیں کہ ان کے رفقاء ہندوستان واپس لوٹ گئے لیکن ان کا دل واپسی کونہیں کررہا تھا انھوں نے اللہ والے سے اپنی بے چینی کاتذکرہ کیاتواس نے کہاکہ یہ تونہیں کہاگیا کہ تم کام کرو گے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ تم سے کام لیا جائے گااس اللہ والے کی بات سن کر ان کواطمینان ہوگیااور ہندوستان واپس آکر مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ سے دعوت والے کام اور اس کی محنت کے متعلق استفتاء کرکے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔1926 نومبر میں 40 سال کی عمر میں مولانا الیاس حج سے ہندوستان واپس آئے اور تبلیغی کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔

28 اپریل 1930 – مولانا الیاس نے دارالعلوم سہارنپور میں (پہلی بار) مدرسہ کے سالانہ پروگرام میں دعوت کی کوشش پیش کی۔

1932 – مولانا الیاس کے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کرنے کے 6 سال بعد پہلی جماعت قائم ہوئی۔ 2 جماعتیں یہ تھیں:

مولانا حافظ مقبول کی جماعت – کاندھلہ بھیجی گئی۔

مولانا داؤد میواتی کی جماعت – سہارنپور بھیجی گئی


تبلیغی جماعت کے 6 نکات

2 اگست 1934 – ایک مشورہ کیا گیا کہ یہ کوشش کیسے کی جائے۔ مولانا الیاس (48 سال) اور مولانا زکریا (46 سال) نے مشورہ کروایا۔ یہ وہ مشورہ ہے جس میں تبلیغ کے 6 نکات پر اتفاق کیا گیا تھا (واضح رہے کہ اصل میں مولانا الیاس کے 60 نکات تھے)۔ آج تک تبلیغ کے 6 نکات یہ ہیں:

کلمہ

نماز

علم و ذکر

اکرام مسلم

تصحیح نیت

دعوت و تبلیغ


8 نومبر 1939 – مولانا ہارون کاندھلوی بن مولانا یوسف بن مولانا الیاس (مولانا سعد کے والد) پیدا ہوئے۔

28 مئی 1941ء مولانا زکریا کے بیٹے مولانا طلحہ کی پیدائش ہوئی۔

1941 30 نومبر – میوات میں پہلا اجتماع منعقد ہوا جہاں 25,000 شرکاء آئے۔ مولانا احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ سمیت بہت سے علمائے کرام تشریف لائے


مستورات کی جماعت

1942 – پہلی مستورات (خواتین) جماعت قائم کی گئی جہاں مولانا داؤد میواتی امیر تھے۔ پہلے تو مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن سمیت کئی علمائے کرام ایسی جماعت سے متفق نہیں تھے۔ تاہم اس طرح کی جماعت کی وضاحت اور مکمل ترتیب (طریقہ) بتانے کے بعد انہوں نے اس کی مکمل تائید کی ہے۔


حاجی عبدالوہابؒ کی بستی نظام الدین اولیاء آمد:

جنوری 1944 میں حاجی عبدالوہاب (اس وقت 22 سال کی عمر کے تھے کہ) نظام الدین مرکز گئے اور دعوت کے کام میں شامل ہوئے۔ مولانا الیاس کے انتقال سے پہلے وہ 6 ماہ تک مولانا الیاس کی صحبت میں رہے۔


مولانامحمد الیاس کی بیماری اور ان کی نیابت کی فکر

1944 مئی تا جولائی – اس پورے مہینے میں مولانا الیاس کی بیماری دن بدن بڑھتی گئی۔

اس وقت کے بزرگوں اور ممتاز علما کے درمیان ایک مشترکہ فکر تھی، یعنی؛ مولانا الیاس کا انتقال ہوگیا تو ان کی وفات کے بعد دعوت و تبلیغ جماعت کی قیادت کون سنبھالے گا؟

ان راتوں میں تقریباً تمام نامور علماء جیسے؛ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ،شیخ ابوالحسن علی ندوی، مولانا شاہ عبدالقادر رائیپوری، مولانا ظفر احمد تھانوی، حافظ فخرالدین،صوفی مقبول احمد گنگوہی ، اور ان سے محبت کرنے والے دوسرے علماء، جو مولانا الیاس سے تبلیغی یا ذاتی طور پر رابطے میں تھے مسجد نظام الدین مرکز میں جمع ہوئے اور رات بسر کی۔

ان علماء کی نظر میں، دعوت و تبلیغ کی جماعت میں مولانا الیاس کی امارت کی جگہ لینے کے لیے سب سے موزوں ترین شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ ہیں۔مولانا محمد زکریا واحد شخص تھے جو علم، روحانیت، عمل، اعلیٰ درجے اور حکمت دونوں لحاظ سے مولانا الیاس کی جگہ جماعت دعوت اور تبلیغ کا امیر بنانے کے اہل تھے۔

اس کے بعد معزز علماء کرام شیخ الحدیث مولانا زکریا (46 سال) کے پاس آئے اور ان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا زکریا نے نرمی

سے انکار کیا اور جواب دیا کہ آپ کو اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا انتظام کر دے گا۔


مولانا یوسف کاندھلوی ؒ کی بطور جانشین نامزدگی:

11 جولائی 1944 – مولانا الیاس کے انتقال سے دو دن پہلے مولانا الیاس نے مولانا زکریا اور شیخ عبدالقادر رائے پوری کو مشاورت کے لیے بلایا۔ جمع ہونے کے بعد مشورے میں انہوں نے علمائے کرام اور مذہبی شخصیات کے سامنے کہا کہ ”فوراً ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو میری موت کے بعد میری جگہ لیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے سامنے بیعت کریں۔ میری پسند کے چھ لوگ ہیں۔ مولانا حافظ مقبول، مولانا داؤد میواتی، مولانا احتشام الحسن، مولانا یوسف کاندھلوی، مولانا انعام الحسن، مولانا سید ردو حسن بھوپالی۔ ذاتی طور پر، میں مولانا حافظ مقبول کو تجویز کرتا ہوں، کیونکہ وہ طویل عرصے سے ذکر اور اس کوشش دونوں میں شامل ہیں۔ دوسری طرف مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نے مولانا یوسف کو دعوت و تبلیغ کا اگلا امیر بنانے کی تجویز دی۔ جب یہ دونوں آپشن سامنے آئے تو مولانا الیاس نے کہا، ” میواتیوں کے ساتھ یوسف سے بہتر کون سلوک کر سکتا ہے؟” ان خیالات کی بنیاد پر، مولانا عبدالقادر رائے پوری نے بالآخر مولانا یوسف کو دعوت و تبلیغ کا امیر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مولانا یوسف کی عمر 27 سال تھی۔

مولانا الیاس نے کہا کہ اگر یہ واقعی آپ کا انتخاب ہے تو اللہ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے۔ پہلے میرے دل کو سکون نہیں تھا لیکن اب میری روح بہت پرسکون محسوس کر رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے جانے کے بعد یہ کام آگے بڑھتا رہے گا۔“

پھر مولانا محمد زکریا اور مولانا الیاس نے مولانا یوسف کو دیئے گئے کاغذ پر لکھا۔ ”میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ لوگوں سے بیعت کرو۔”

مولانا محمد الیاس نے مولانا یوسف کو تحریری طور پر بیعت کرنے کی اجازت دی۔

13 جولائی 1944 – مولانا الیاس بنگلہ والی مسجد میں انتقال کر گئے اور انہیں بنگلہ والی مسجد، نظام الدین کے کور کے باہر دفن کیا گیا۔ مولانا محمد یوسف کو دعوت و تبلیغ کے تمام اراکین کی مشاورت سے دعوت و تبلیغ کا دوسرا امیر مقرر کیا گیا اور حلف لیا۔ مولانا محمدزکریا نے رسمی طور پر مولانا محمد الیاس کی پگڑی مولانا یوسف کے سر پر رکھی۔ مولانا محمد یوسف کا پہلا بیان ایک درخت کے نیچے، بنگلہ والی مسجد، نظام الدین کے صحن میں تھا۔


"تبلیغی جماعت کی تاریخ"

تبلیغ میں مولانا یوسف کا دور:


1946 – مولانا یوسف نے پہلی جماعت کو سعودی عرب میں حج کے موسم میں خصوصی طور پر کام کرنے کے لیے بھیجا تھا۔

1946 – مولانا یوسف نے مولانا عبید اللہ بلیاوی کو مدینہ میں مقامی طور پر رہنے اور وہاں عربوں کے درمیان دعوت کا کام شروع کرنے کے لیے بھیجا۔ بعد میں مولانا سعید احمد خان ان کے جانشین ہوئے۔


مولانا سعید احمد خان

1947 – حاجی عبدالوہاب (اس وقت 25 سال) نے لاہور، پاکستان میں رائیونڈ مرکز میں رہائش اختیار کی۔

رائے ونڈ مرکز (تبلیغی جماعت کی تاریخ)


رائے ونڈ مرکز:

15 اگست 1947 ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ شروع ہوا۔ ہزاروں مسلمانوں نے خوف کے مارے اسلام چھوڑ دیا۔ کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ تمام مشائخ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ میوات کی ایک بڑی جماعت نے نظام الدین مرکز میں پناہ لی۔ حضرت جی مولانا یوسف، مولانا منظور نعمانی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، اور مولانا زکریا نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یا تو وہ رہیں یا مر جائیں۔ مولانا زکریا نے فتویٰ کونسل پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان نہ چھوڑنے کا فتویٰ جاری کرے۔ اگر یہ فتویٰ جاری نہ ہوتا تو شاید آج ہندوستان میں مسلمان نہ ہوتے۔

1947 اگست مولانا محمد یوسف نے مرتد بن جانے والے مسلمانوں کو واپس اسلام کی دعوت دینے کے لیے بہت سی سخت گیر جماعتیں بھیجیں۔ یہ جماعتیں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے تیار ہو گئیں۔

1947 15 ستمبر – مولانا یوسف کی اہلیہ کا نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران سجدہ کے دوران انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے مولانا ہارون کی عمر اس وقت صرف 8 سال تھی۔

26 دسمبر 1947 – پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کے بعد کراچی میں پہلا اجتماع ہوا۔

13 مارچ 1948 – پاکستان میں ایک اجتماع ہوا جس میں مولانا یوسف نے پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کے بعد پہلی بار شرکت کی۔ اس اجتماع کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا مرکز رائے ونڈ لاہور ہوگا۔

1949 – مولانا محمد زکریا نے کتاب فضائل صدقات مکمل کی۔

30 مارچ 1950 مولانا زبیر الحسن کاندھلوی بن مولانا انعام الحسن پیدا ہوئے۔

1954 11 جنوری – پہلا اجتماع ڈھاکہ، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے) میں منعقد ہوا۔ مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن نے اجتماع میں شرکت کی۔

10 اپریل 1954 – رائیونڈ میں پہلا اجتماع ہوا۔

1960 – مولانا یوسف نے حیات صحابہ کی پہلی کاپی شائع کی۔

16 اگست 1962ء مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کا انتقال ہوا۔ وہ نہ صرف ایک مشہور صوفی شیخ تھے بلکہ دہلی سے سعودی عرب جانے والی تیسری پیدل جماعت قافلہ کے امیر بھی تھے جہاں اس جماعت میں ایک نوجوان مولانا سعید احمد خان بھی تھے۔

 مولانا یوسف  1965 میں جمعہ کو 14.50 پر لاہور میں انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 48 سال تھی۔ مولانا انعام الحسن نے سورت یاسین کی تلاوت کی۔ مولانا یوسف آخری سانس تک شہادت کا ورد کرتے رہے۔ انہیں اپنے والد مولانا محمد الیاس کے مقام کے پاس دفن کیا گیا۔


مولانا انعام الحسن کا دور:

12 اپریل 1965 – ایک مشورہ مولانا محمد زکریا نے کروایا۔ اس مشورہ میں یہ طے پایا کہ مولانا انعام الحسن کو دعوت و تبلیغ کا تیسرا امیر مقرر کیا جانا ہے۔ مشورے کے نتائج کا اعلان مولانا فخرالدین دیوبندی نے مولانا عمر پالنپوری کے بیان (گفتگو) کے بعد کیا۔

مولانا ہارون نے بھی اس فیصلے کو خوشی سے قبول کیا – مولانا محمد یوسف ؒکے فرزند مولانا ہارون خود خوش تھے اور ان لوگوں کے اصرار سے متاثر نہیں ہوئے جو انہیں امیر بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مشورے کے فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مشورے کے فیصلے کو ماننے کی اہمیت پر بیانات بھی دیے اور جو بھی فیصلہ ہوا وہی صحیح ہے۔

3 اپریل 1965 – مولانا انعام الحسن کی بیعت شروع ہوئی۔ مولانا انعام الحسن کو دعوت و تبلیغ کا امیر منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بچپن سے لے کر وفات تک مولانا یوسف کے سب سے قریبی دوست تھے۔ اس کے علاوہ مولانا انعام الحسن بھی مولانا الیاس کے دست راست تھے۔ اور مولانا محمد الیاس رح سے تفصیلی سلوک طے کرکے خلافت بھی پائی تھی۔ اور وہ مولانا الیاس رحمہ اللہ کے نام سے ہی بیعت بھی لیا کرتے تھے۔ وہ مولانا الیاس کے ساتھ اپنے زیادہ تر دعوتی سفروں میں ساتھ رہے، اس طرح دعوت کے کاموں کو سمجھتے رہے۔

10 مئی 1965 – مولانا سعد کاندھلوی بن مولانا ہارون پیدا ہوئے۔

21 اگست 1967 – مولانا انعام الحسن نے دعوت و تبلیغ کے امیر مقرر ہونے کے بعد بیرون ملک اپنا پہلا دعوتی سفر کیا۔ یہ سری لنکا کا اجتماع تھا جو 26 سے 30 اگست کے درمیان کولمبو میں منعقد ہوا۔

1967 نومبر – پہلا ٹونگی اجتماع مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش کی تشکیل سے پہلے) میں منعقد ہوا۔

1969 – مولانا ابراہیم دیولہ 36 سال کی عمر میں اپنے 1 سالہ خروج کے لیے ترکی، اردن اور عراق گئے۔ خروج کی مدت 19 ماہ تک بڑھا دی گئی۔23 اپریل 1973 – مولانا محمدزکریا نے 75 سال کی عمر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

28 ستمبر 1973 – مولانا ہارون کاندھلوی بن مولانا یوسف (مولانا محمد سعد کے والد) 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے جب انہیں ایک بیماری نے لپیٹ میں لیا اور 13 دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ان کی نماز جنازہ  مولانا انعام الحسن نے پڑھائی۔ اس وقت ان کے بیٹے مولانا محمد سعد کی عمر 8 سال تھی۔

تا حیات مولانا عبید اللہ بلیاوی ، مولانا اظہار الحسن نانا جان اور مولانا انعام الحسن صاحب نے مولانا محمد سعد کاندھلوی کی احسن انداز میں تربیت فرمائی۔۔


9 اگست 1974 – مولانا زبیر (عمر 25) نے اللہ کی راہ میں ایک سال کا آغاز کیا۔

10 فروری 1978 – مولانا محمد زکریا (جو مدینہ میں مقیم ھو چکے تھے) نے باضابطہ طور پر مولانا زبیر کو اپنے طریقہ (چشتیہ ) میں بیعت کی اجازت دی۔ یہ تقریب مسجد نبوی کے سامنے منعقد ہوئی۔

مولانا زبیر نے 4 مشائخ سے طریقت کی اجازت حاصل کی ہے: (1) مولانا انعام الحسن، (2) مولانا زکریا، (3) مولانا سعید ابوالحسن علی ندوی، اور (4) مولانا افتخار۔ الحسن سے، آپ کی انتہائی پرہیزگاری کی وجہ سے اللہ نے عام مقبولیت نصیب فرما رکھی تھی،

27 جولائی 1980ء مولانا حافظ مقبول کا انتقال ہوا۔ وہ 1932 میں مولانا الیاس کی تشکیل کردہ پہلی جماعت کے امیر تھے اور ان کے جانشین (اگلے امیر) کے طور پر مولانا الیاس کا پسندیدہ انتخاب تھا۔ تاہم مولانا شاہ عبدالقادر رائیپوری نے مولانا یوسف کی امارت کا بجا فیصلہ کیا۔

24 مئی 1982 – مولانا زکریا کاندھلوی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا (84 سال کی عمر میں) انہیں قبر صحابہ میں ‘ جنت البقیع ‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے منہ سے آخری الفاظ تھے؛ ”اللہ… اللہ“۔ آپ کا انتقال مغرب سے پہلے 17:40 پر ہوا اور اسی دن عشاء کے بعد تدفین ہوئی۔


تبلیغی جماعت کی تاریخ

باقی قبرستان

4 نومبر 1983ء پاکستان میں رائے ونڈ اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام بزرگوں نے شرکت کی۔ اس اجتماع کے دوران تبلیغ کے لیے شوریٰ نظام رکھنے کا تصور سب سے پہلے مولانا انعام الحسن نے عالمی مشورے کے دوران پیش کیا تھا جو 12 نومبر کو ہونے والے اجتماع کے ایک ہفتہ بعد منعقد ہوا تھا۔

اس کے بعد سے مولانا انعام الحسن نے ہندوستان اور دنیا کے کئی حصوں میں تمام جگہوں پر شورٰی قائم کیں۔

20 مئی 1993 – مولانا انعام الحسن کی حالت بگڑ گئی۔ وہ مکہ میں گر گئے۔ 1990 کے بعد سے یہ ساتویں مرتبہ تھی کہ وہ گرے تھے۔

مئی 1993 – حج کے موسم میں مکہ میں مولانا انعام الحسن نے مفتی زین العابدین، مولانا سعید احمد خان، حاجی افضل، حاجی عبدالمقیت، حاجی عبدالوہاب اور کئی دوسرے بزرگوں سے گفتگو کی: ” آپ کو معلوم ہے کہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ میری بیماری کی وجہ سے بدتر ہے۔ یہ کام پہلے ہی پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اب میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے میں ایک شورٰی بنانا چاہتا ہوں جو دعوت کے کام میں مدد کرے۔ ”

14 جون 1993 – نظام الدین مرکز میں، تمام بزرگ مولانا انعام الحسن کے کمرے میں جمع ہوئے۔ وہ تھے: مولانا سعید احمد خان، مفتی زین العابدین، حاجی افضل، حاجی عبدالمقیت، حاجی عبدالوہاب، مولانا اظہار الحسن، مولانا عمر پالنپوری، اور مولانا زبیر۔اور مولانا محمد سعد کاندھلوی۔

حضرت مولانا انعام الحسن نے حاضرین سے فرمایا کہ اب میری صحت کا حال آپ کو معلوم ہے۔ میری صحت مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے جبکہ یہ کام بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ میں اب یہ کام خود سے نہیں سنبھال سکتا۔ ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔ پھر فرمایا: اب سے تم میری شوریٰ ہو۔ اور دو مزید شامل کرلیں۔ میانجی محراب اور مولانا محمد سعد کاندھلوی ۔ انشاء اللہ ان دس شورٰی ارکان سے یہ کام چلتا رہے گا۔


شوریٰ اس طرح قائم ہوئی: (1) مولانا سعید احمد خان، (2) مفتی زین العابدین، (3) حاجی افضل صاحب ، (4) حاجی عبدالمقیت، (5) حاجی عبدالوہاب، (6) مولانا اظہار الحسن، (7)۔) مولانامحمد عمر پالنپوری، (8) مولانا زبیر، (9) میاجی محراب میواتی، اور (10) مولانا محمد سعد۔


1993 مولاناانعام الحسن کے شورائی نظام اور فیصل کے تقرر کا آغاز

شوریٰ بننے کے بعد مولانا سعید احمد خان نے تمام مقررہ شوریٰ کے سامنے مولانا انعام الحسن سے پوچھا کہ جب آپ یہاں ہیں تو آپ ہمارے امیر اور فیصل ہیں۔ لیکن اگر آپ نہیں ہیں تو ہم فیصلہ کیسے بنائیں گے؟” مولانا انعام الحسن نے جواب دیا کہ آپ میں سے باری باری فیصل کا انتخاب کریں۔

ساری زندگی مولانا زبیر الحسن دائیں اور مولانا محمد سعد کاندھلوی حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کے ساتھ تمام سفروں میں شریک رھا کرتے تھے۔


پاکستان میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کی تقرری


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر اول الحاج شفیع محمدقریشی ؒ

قیام پاکستان کے بعد حضرت جی مولانا محمد یوسف کی طرف سے حاجی عبد الوہاب صاحب کی تشکیل پاکستان کے لیے کی گئی ہے دوتین سال بعد جب پاکستان میں دعوت کے کا کام کو استحکام مل گیا تو پرانے ساتھیوں کی مشاورت سے الحاج محمد شفیع قریشی صاحب کو چار دسمبر 1950 کو پاکستان میں تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا اور رائے ونڈ لاہور کو تبلیغی جماعت کا مرکز بنایا گیا۔ محمد شفیع قریشی متحدہ  ہندوستان میں 1904میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور مدرسہ عربیہ تبلیغی مرکز زکریا مسجد راولپنڈی سے متصل رہائش اختیار کرلی۔ آپ اکیس سال تک امیررہنے کے بعد 19 دسمبر 1971 کو پشاور میں ایک سہ روزہ تبلیغی اجتماع کے دوران انتقال فرماگئے اس وقت ان کی عمر67برس تھی۔


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر دوم الحاج محمد بشیرؒ

مولانا محمداحسان الحق رائے ونڈ کے والد اور حضرت جی مولانا محمد یوسف کے قریبی ساتھی الحاج محمد بشیر کو محمد شفیع قریشی صاحب کے بعد تبلیغی جماعت پاکستان کا امیر نامزد کیا گیا آپ اپنی وفات 9 جون 1992 تک تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر رہے۔


تبلیغی جماعت پاکستان کے امیرسوم حاجی عبدالوہابؒ صاحب

الحاج محمد بشیر صاحب کی وفات کے بعد حاجی عبدالوہاب صاحب کو تبلیغی جماعت پاکستان کا تیسرا امیر مقرر کیا گیا۔ حاجی صاحب کا تعلق پنجاب کے ضلع کرنال کے گاؤں راؤ گمتھلہ سے تھا آپ نے انبالہ سے میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے پہلے ایف ایس سی پری میڈیکل اور اس کے بعد بی اے کیا ۔ آپ یکم جنوری 1944 کو تبلیغی مرکز نظام الدین تشریف لے گئے اور پورے چھ ماہ مولانا محمد الیاس ؒکی صحبت میں گزارے اور اس چھ ماہ کی صحبت نے آپ کی زندگی پر وہ نقوش ثبت کیے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردی۔1954میں سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ میں شرکت کے لیے آمد کے موقع پر جب حضرت جی مولانا محمد یوسفؒ نے پاکستان میں دعوت تبلیغ کی محنت کے لیے موت پر بیعت لی توسب سے پہلے حاجی عبدالوہاب صاحب کھڑے ہوئے اور عہد کیا کہ اس کے بعد وہ دعوت والی محنت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کریں گے۔ 18 نومبر 2018 میں حاجی عبدالوہاب صاحب ؒرحلت فرماگئے حاجی صاحب کاجنازہ پاکستانی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا رائے ونڈ کے چاروں اطراف تیس چالیس کلومیٹر تک گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور ہر شخص کی خواہش تھی کہ کسی طرح حاجی عبدالوہاب صاحب کے جنازے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوجائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے جنازے میں پندرہ بیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی جبکہ پانچ چھ لاکھ افراد ٹریفک میں پھنسے ہونے کی وجہ سے جنازے میں شرکت سے محرو م رہ گئے۔


مولاناضیاء الحق نے ایک مرتبہ حاجی عبدالوہاب صاحب سے عرض کی کہ ہندوستان والے ہم سے پوچھتے ہیں کہ اگر حاجی صاحب کو کچھ ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ ہم نے عرض کی کہ ہماری ترتیب یہ ہے کہ حاجی صاحب نہ ہوں تو مولانا نذرالرحمان صاحب فیصلے فرماتے ہیں اور اگر وہ بھی موجود نہ ہوں تو مولانا احمد بٹلہ صاحب مشورے کو لیکر چلتے ہیں اور اگر وہ بھی موجود نہ ہوں تو مولانا خورشید صاحب امور مشورہ کو لیکر چلتے ہیں۔ اس پر حاجی عبدالوہاب صاحب نے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو۔ حاجی صاحب کا یہ فیصلہ شورٰی کے ارکان کو سنایا گیا تو سب اس پر متفق ہوگئے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Friday, July 5, 2024

 *امریکہ سے دارالعلوم تک*


*بنوکِ قلم ۔۔ محمد فیضان*


دیپک کمار *(American reporterman)* کے سفرنامے کو اس حقیر نے تحریر میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔!! 


میرا نام دیپک کمار ہے، میری جائےپیدائش ہندوستان کے صوبہ یوپی کی ایک قدیم شہر بنارس ہے، والدین نے ہوش سنبھالنے کے بعد ہی اپنے ہمراہ امریکہ لےکر چلے گئے تھے، اور ہمیشہ کیلئے امریکہ میں ہی سفٹ ہوگئے، چونکہ ماں باپ پڑھے لکھے بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے والدین نے ہماری تعلیم کا آغاز بھی امریکہ میں ہی کروادیا، پڑھائی کے چند سال گزرے تھے کہ مجھے وہاں کے ماحول سے مکمل واقفیت ہوگئی، اور ہم نے بڑا ہوکر کچھ بننے کا عزم بھی کرلیا، جب میں نے ہائی اسکول کے بعد کالج جوائن کیا تو میرے دماغ میں صحافت کا بھوت سوار ہوگیا، پھر میں نے صحافی بننے کا مکمل فیصلہ ہی کرلیا، پڑھائی کی تکمیل کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رنجہ کیا، تو بڑے بڑے ایسے شہسواروں سے ملاقات ہوئی، جو صحافت کے اعلی مقام پر فائز تھے، 

جاب جوائن کرنے کے چند سال بعد والدین نے دہلی کی ایک پڑھی لکھی لڑکی سے میری شادی کروادی، جو فی الحال میرے ساتھ ہی امریکہ کے کسی ہیڈ آفس کا جاب جوائن کرکے مجھ سے بھی اعلی تنخواہ کی مالکن بن ہوئی ہیں، ہماری تنخواہ بھی ہندوستانی روپئے کے اعتبار سے کروڑوں سے بھی اوپر ہیں، 

خیر میں اپنی بات کو طول نہ دیکر اصل سفرنامے کی طرف رجوع ہوتا ہوں، 

   چونکہ میں صحافت میں قدم جما چکا تھا، اس لئے ہر روز نئی اور عجیب و غریب خبروں پر مطلع ہوکر اسے شائع کرنا مشغلہ بن گیا تھا ۔

ابھی قریباً چار، پانچ سالوں سے ایک بات کانوں سے ٹکراکر بہت پریشان کرتی تھی، اور اس بابت ہمیشہ فکرمند رہا کرتا تھا، اور جب بھی اس طرف توجہ موڑتا، تو غصے کو تاب نہ لا پاتا، وہ بات یہی تھی، کہ ہمارے ہندوستان ہی میں دیوبند نامی ایک جگہ ہے، جہاں ایک بڑا سا دہشت گردوں کا اڈہ ہے، جہاں کے کارکنان نوجوانانِ مسلم کو تیار کرکے پوری دنیا میں جہاد کے نام پر دہشت پھیلانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں، اور ہر جگہ علمائے دیوبند اپنا رعب و دبدبہ بنانے میں کامیاب بھی ہیں، شہرِ دیوبند کے دور سے بھی کسی غیرمسلم کا گزر ہوجائے تو اسکی جان بچنا ناممکن ہوتا ہے، یعنی غیروں کو گاجر مولی کیطرح ریت دیا جاتا ہے، جسے امریکن میڈیا ہر روز اس بات کو ایک قاتلانہ چال سمجھ کر اچھالا کرتی تھی، ہمیں جو سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات تھی، وہ یہی کہ دہشت گردوں کا یہ اڈہ ہمارے آبائی وطن میں ہی کیوں،،؟ 

پھر میں نے آخری ایک سال سے اپنے دل میں یہ عزم کررہا تھا کہ ضرور اس کے خاتمے کا کوئی حل نکالوں گا، جس کیلئے ہمیں سب سے پہلے ہندوستان جاکر دیوبند کا مکمل جائزہ لینا ہوگا، پھر مشاہدے سے جو بات عمل میں آئیگی، اسے کر گزرنا ہوگا،،،

بالآخر اس ارادے کی تکمیل کیلئے میں نے امریکی حکومت سے چند ایام کی چھٹی لی، اور والدین کو بھی کسی طرح راضی کرلیا، چونکہ والدین بھی ہمارے اس ارادے کو سن کر سہم گئے تھے کہ شائد دوبارہ بچ کر واپس آئیگا بھی یا نہیں،  سر پر کفن باندھ کر، بہت خائف ہوکر ہندوستان کا رخ کرلیا، دہلی ایئرپورٹ پہونچتے ہی ہمارے لئے ہندوستانی حکومت کی جانب سے سیکیوریٹی فورس کا انتظام بھی کیا گیا، نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی میں چند روز اس وجہ سے مقیم رہنا پڑا کہ پتہ نہیں آگے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے،

دہلی میں تین روز قیام کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، لیکن آگے جو ہونے والا تھا اس سے بےحد خائف تھا، اور دیوبند سے دوبارہ بچ نکلنے کی کوئی ترکیب ڈھونڈ رہا تھا، لیکن یہاں پر دماغ اپنا کام کرنا بھی شائد چھوڑ دیا تھا، بالآخر میں نے مخصوص لباس کو ترک کرکے سادہ لباس زیبِ تن کیا اور سیکیوریٹی کو مطلع کئے بغیر دہلی ریلوئے اسٹیشن کیطرف نکل پڑا، اور دیوبند کیلئے ٹرین پکڑنے میں کامیاب ہوگیا، دہلی سے دیوبند تک سفر کا مکمل وقت خوف و حراس میں گزارا، کسی طرح میری ٹرین دیوبند اسٹیشن پر پہونچ گئی، میں ہانپتے کانپتے ٹرین سے نیچے اتر کر پلیٹفارم پر لگی کرسیوں پر بیٹھ گیا، اسٹیشن پر ہی مدرسے کے چند بچوں پر میری نظر پڑی، جسے دیکھ کر میری حالت خراب ہورہی تھی لیکن ہمت گوارہ نہ کیا کہ کسی کو اپنی طرف مخاطب کرکے کچھ معلومات حاصل کرسکوں، کافی دیر تک ٹوپی کرتا پہنے تمام لڑکوں کی حرکات پر نظر جمائے ہوئے تھا، آخرکار میں نے اپنی نششت سے دس قدم فاصلے پر بیٹھے ایک پنڈت کو دیکھا ، جو پاس بیٹھے مدرسے کے بچوں سے مذاق کر رہا تھا، اور اسی مذاق کے دوران پنڈت اس بچے سے پینے کو پانی طلب کرتا ہے، وہ لڑکا پنڈت کو پانی دیکر پھر مذاق میں محو ہوجاتا ہے،  جس نظارے کو دیکھ کر میرا دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے، اور حوصلے میں ایک نکھار پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر میں نے کسی دوسرے لڑکے کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دارالعلوم  میں  قاسم صاحب جو وہاں کے پرنسپل ہیں ان سے ملنا ہے، لڑکے نے نام کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو مولانا ابوالقاسم نعمانی ص ہیں، میں نے کہا، جو بھی ہیں ان سے ملنا ہے، اس لڑکے نے اپنا نام ناظر بتایا، میں نے سب سے پہلے اپنے والدین کو مطمئین کرنے کیلئے ناظر بھائی کے سامنے فون لگایا، میری والدہ میری فکر میں برا حال بنا رکھی تھی، میری گھروالی بھی رو رو کر بےحال تھی، میں انہیں اطمینان دلانے کیلئے ویڈیو کالنگ پر ناظر بھائی کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر بات کی، یہاں تک کہ ناظر بھائی نے بھی تسلی کے کچھ الفاظ میرے گھر والوں کیلئے صرف کئے، جس سے گھر والے کو تشفی ہوگئی،  

میں ناظر بھائی کے ہمراہ دیوبند اسٹیشن سے دارالعلوم کیلئے رکشہ لیا، پورا راستہ ناظر بھائی سے گفتگو ہوتی رہی، میں نے اپنے مقصد کو چھپائے ہوئے کچھ حقیقتوں سے ناظر بھائی کو آگاہ کیا، میں نے ناظر بھائی کی اندازِ گفتگو، اور خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوا، دارالعلوم پہونچ کر مہتمم صاحب کیطرف رخ کیا لیکن خبر ملی کہ وہ کہیں نکلے ہوئے ہیں، اس دوران ہم نے مدرسے کی چہاردیواری میں داخل ہوکر بچوں کا آپس میں مل جل کر رہنا، ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا، ایک ساتھ سونا دیکھ کر مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا اور بڑا پیار بھی آرہا تھا، چونکہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی باہمی محبت ایسا سلوک دیکھا تھا، جو میرے لئے ناقابلِ تردید حقیقت تھی، جس  نظارے کو دیکھ کر میری آنکھیں یقین نہیں کر رہی تھی، بلکہ مجبوراً دل کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ مدرسہ محض امن کا گہوراہ ہے، جہاں صرف محبت کا پیغام، اور اخلاقِ نبوی کی تعلیم دی جاتی ہے، اب میں ہر طرح کے خوف سے نجات پاچکا تھا، اور اپنے آپ کو مطمئین بھی کرلیا تھا، 

اس کے بعد دفترِ اہتمام میں تشریف لےگئے جہاں شعبہء کمپیوٹر کے چند افراد سے ملاقات ہوئی، جن سے انگریزی زبان میں کچھ گفتگو ہوئی، چونکہ بچپن سے امریکہ رہتے ہوئے مادری زبان پر قدرت نہ رکھ سکا تھا، گفتگو کے دوران ایسا لگ رہا تھا گویاں انکی زبان سے پھول برس رہے ہوں، بہت اخلاق مندی سے گفتگو ہوتی رہی، جس گفتگو میں دارالعلوم کا مقصدِ قیام، اور اسکی حقیقت پر مطلع ہوئے، پھر میں نے کچھ دیر کمپیوٹر پر  بیٹھنے کی اجازت طلب کی، کمپیوٹر پر بیٹھ کر  میں نے قریباً دو گھنٹے میں اسلام اور دارالعلوم کی مناسبت پر قریباً دو سو صفحات پر مشتمل ایک پی ڈی ایف بناکر محفوظ کرلیا،،،

اس کے بعد میں نے ناظر بھائی سے کسی ہوٹل چلنے کی درخواست کی، چونکہ دور اندیشی کی وجہ سے میری بھوک بھی مر چکی تھی، لیکن جب معاملہ برعکس دیکھا تو کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی، ناظر بھائی ہمیں چکن فرائی سینٹر لےگئے جہاں میں نے ناظر بھائی کیلئے الگ اور اپنے لئے الگ چکن فرائی کا آڈر دیا، مجھے بھوک شدید تھی اس لئے اپنےلئے زیادہ مقدار میں چکن فرائی طلب کیا، لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ مجھ سے کھایا نہیں گیا، اس لئے میں ویٹر سے اسے پھینکنے کو کہہ دیا، ناظر بھائی یہ سن کر فوراً بول پڑے، کہ دیپک بھائی کیوں پھینک رہے ہیں اسے، آپ مجھے دیدیں، میں نے ناظر بھائی کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا کہ ہمارے یہاں تو جس گلاس پر ہاتھ لگادیا جائے اس سے پانی پینا تو دور، کوئی دوسرا شخص ہاتھ تک لگانا گوارہ نہیں کرتا، اور تم لوگ ایک غیرمسلم کا جوٹھا تک کھانے کو تیار، اتنی محبت اور ایسی تعلیم،،؟ میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈباگئے، میں نے ناظر بھائی کو اپنے گلے سے لگالیا، اور پیار سے گندھے پر ہاتھ کی تھپکیاں دینے لگا، ناظر بھائی کہنے لگے، ہم جس رزق کو برباد کردیتے ہیں، اسی رزق کیلئے غریب کتنے آس لگائے، ترستے رہتے ہیں، لیکن وہ انسان  رزق کی قدر کو کیا جانے، جو ہمیشہ پیسوں سے کھیلا ہو، بلکہ رزق کی قدر تو کوئی ان سے پوچھے جن کے پاس کھانے کو ایک لقمہ بھی میسر نہیں ہوتے،

اس کے بعد ناظر بھائی ہمیں مہمان خانے تک ساتھ لائے اور آرام کرنے کو کہا، پھر کچھ ہی دیر بعد مہتمم صاحب کے آنے کی خبر ملی، مہمان خانے سے اٹیچ مہتمم صاحب کے روم میں جانے کی اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر میں اندر داخل ہوگیا، مہتمم صاحب خندہ پیشانی سے میرے استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے، اتنا حسین چہرہ جس  پر خوشیوں کے آثار نمایا تھے، دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوگیا، گفتگو میں بہت ہی مٹھاس تھی، مہتمم صاحب مجھے بیٹھنے کو کہہ کر خود گلاس میں پانی ڈھال کر مجھے پلائے، پھر چائے طلب کی گئی، مہتمم صاحب ناشتے پر بضد تھے، لیکن میں پہلے سے فارغ تھا، اسلئے چائے پر اتفاق کیا،  گفتگو میں بہت ساری حقیقتوں پر مطلع بھی ہوئے، اور ہم نے بھی اپنی سرگرمیاں بتائی، پھر ایک ارادہ بھی ظاہر کیا، کہ اگلی بار ہم اُن صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ یہاں آئیں گے جو اِس امن کے گہوارے کو دہشت گردوں کا اڈہ بتاکر لوگوں کی ذہنیت کو خراب کر رہے ہیں، اخیر میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت لیا کہ مہتمم صاحب، آج تک ہم نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا، لیکن سیرت و اخلاق میں، محمؑد کے جیسا کسی انسان کو نہیں پایا، اور میری آنکھوں نے آج تک کروڑوں انسانوں کو دیکھا، لیکن آپ جیسا خوبصورت، اور نورانی چہرہ کبھی نہیں دیکھا،، 

جتنی نفرت، اور ناپاک ارادے کے ساتھ ہم دیوبند آئے تھے، اس سے کہیں زیادہ محبت اور  پیار لیکر واپس ہورہے تھے گویا، محبت، اور خوشیوں کو اپنے دامن میں بھر کر واپس ہورہا تھا، 

پھر سب سے اخیر میں، جاتے جاتے ناظر بھائی کو ایک موبائیل گفٹ کرنا چاہا لیکن انہوں نے بھی سختی سے انکار کردیا، جس سے  یہ سبق ملا کہ، واقعی یہاں کوئی مطلب پرست نہیں، بلکہ صرف محبت ہی محبت ہے 


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

Monday, July 1, 2024

 *نئے تعزیری قوانین؛ ایک جھلک ایک گذارش*


🖋 *مفتی عبد القدیر شعیبی نظامی ایڈوکیٹ**

کرنول آندھرا پردیش 


آج یکم جولائی سے نئے تعزیری قوانین ملک میں نافذ ہوچکے ہیں، کل تک قتل کی واردات پر 302 کا مقدمہ چلتا تھا لیکن آج سے (1)103 کی دفعہ لگے گی، چور پہلے دفعہ 378 میں ماخوذ ہوتا تھا مگر اب اسے (1)303 میں پکڑا جائے گا، دھوکہ دہی کی تعریف پر مشتمل تعزیرات ہند کی دفعہ 420 اتنی مشہور ہوئی تھی کہ اردو محاورہ چار سو بیسی بھی زبان زد ہوگیا تھا لیکن اب اسے (4)318 سے بدلنا پڑے گا، خواتین کے ساتھ ہونے والی انتہائی گری ہوئی حرکت پہلے دفعہ 376 میں آتی تھی لیکن اس نوعیت کے بڑھتے جرائم کے پیش نظر نئے قانون میں اسے دفعہ 64 میں منتقل کرکے شروع میں ہی رکھ دیا گیا تاکہ وکیل، پولیس اور جج کو اتنے اوراق پلٹنے نہ پڑیں، شادی شدہ مرد کی نیندیں اڑا دینے والی  گھریلو تشدد پر مبنی بدنام زمانہ دفعہ 498A کو کثرت واقعات کی بنا پرہی شاید 85 پر کردیا گیا کہ آگے جانا نہ پڑے، چبوتروں اور چوراہوں پر جمع ہونے والے مجمع کو روکنے کے لئے پہلے 144 سیکشن لگتا تھا لیکن اب سے (4)189 کی پکار لگے گی، ہتک عزت کی مقدمہ بازی کو انگریزوں نے 499 میں بیان کیا تھا اب اسے 356 میں لکھ دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ...


گذشتہ برس 11 اگست کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں نئے قوانین پیش کئے تھے اور 21 دسمبر کو یہ باضابطہ منظور بھی ہوگئے تھے لیکن نفاذ کی تاریخ حکومت نے یکم جولائی طئے کی تھی، اوپر ذکر کردہ دفعات میں ہوئی تبدیلی کی ہلکی سی جھلک سے قارئین کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تبدیلی کس نوعیت کی زیادہ ہوئی ہوگی، تینوں قوانین یعنی تعزیراتِ ہند، ضابطہ فوجداری اور قانونِ شہادت کے ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کے دفعہ نمبرات کو بھی بدلا گیا ہے، کچھ دفعات کو حذف کردیا گیا اور کچھ نئی دفعات شامل کی گئی ہیں، تبدیلی میں یہ امر بھی شامل ہے کہ بعض جرائم کی تعریف اور ان کی سزا کی مدت و نوعیت میں بھی تغیر کیا گیا ہے، کچھ نئے جرائم بھی شامل کئے گئے ہیں جیسے دہشت گردی کی کوئی دفعہ پہلے تعزیراتِ ہند میں موجود نہیں تھی اب نئے قانون کی دفعہ 113 میں اسے جگہ دی گئی ہے...


جس دن سے یہ قوانین حکومت نے شائع کئے ہیں اسی دن سے ان تینوں قوانین کے مسودات راقم کے لیپ ٹاپ اسکرین پر موجود ہیں اور وقتا فوقتا مطالعہ بھی ہوتا رہا اور نئے پرانے قوانین کا موازنہ بھی، جیسے جیسے نفاذ کی تاریخ قریب آتی گئی اصحاب قلم نے اپنے آلاتِ تحریر سنبھالے اور مذکورہ قوانین پر سیر حاصل بحث کی، حکومت اور اس کے ہمنواؤں نے اس تبدیلی کو برطانوی استعمار کی نشانیوں کے خاتمہ سے تعبیر کیا ہے اور کررہے ہیں لیکن حقیقیت یہ ہے کہ اکثر دفعات تینوں قوانین کی من و عن ویسی ہی رکھی گئی ہیں بس نمبر بدلا گیا ہے، اس نمبر کی تبدیلی کو کامیابی مانا جائے تو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ یہ کامیابی کس قربانی کے بدلے حاصل ہورہی ہے، پولیس، وکلاء اور ججس تینوں محکموں کو اب از سر نو محنت کرنی پڑے گی، جو قوانین نوک زبان تھے انہیں زبان کی نوک سے کھرچ کر نئے ضابطوں کو زبان پر چڑھانا پڑے گا، وہ سینئر وکلاء جن کے دماغ میں جرم  کی نوعیت سن کر ہی تینوں قوانین کی نہ صرف متعلقہ دفعات آتی تھیں بلکہ ان کا توڑ کرنے والے سیکشنس بھی دماغ کے منظر پر ابھر آیا کرتے تھے اب انہیں اپنے ذہن کی اسکرین صاف کرکے اس تختی پر نئے نقش جمانے پڑیں گے...


سپریم کورٹ کی معروف اور قابل ایڈووکیٹ *اندرا جئے سنگھ* نے اس تبدیلی کو ایک بہت بڑی گندگی سے تعبیر کیا ہے، مشہور صحافی *کَرن تھاپر* کے ساتھ ہوا ان  کا تازہ انٹرویو *دی وائر* کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس میں انہوں نے نئے ضابطہ فوجداری کے نفاذ کے تعلق سے بہت گہری قانونی بات کہی ہے ، ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ *اگر کسی نے یکم جولائی سے پہلے کوئی جرم کیا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ اس کا مقدمہ انہی اصولوں پر چلایا جائے جو اصول اس کے جرم کرنے کے وقت نافذ تھے، اگر یکم جولائی سے پہلے والے جر م کو اگر نئے ضابطوں سے ہینڈل کیا جائے تو یہ ملزم کے ساتھ ناانصافی ہوگی،* انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ *اگر میں یکم جولائی سے پہلے کسی جرم کرنے والے کا دفاع کروں گی تو عدالت سے مطالبہ کروں گی پرانے قانون کے تحت ہی میرے مؤکل کی کاروائی چلائی جائے، ایسا اگر ہوا تو عدالتوں میں نئے اور پرانے قوانین ساتھ ساتھ چلانے پڑیں گے جو کہ مزیدالجھن کا باعث بنے گا،*  انہوں نے لاء منسٹر سے مطالبہ بھی کیا کہ نئے قوانین کے نفاذ کو مؤخر کرکے نئی پارلیمنٹ کو ان پر غور کرنے کا موقعہ دیا جائے...


ایک اور سینئر ایڈووکیٹ کولِن گونسالویز نے ان قوانین کو برطانوی قوانین سے بھی زیادہ بدتر قرار دیا ہے، بنگال کی بار کونسل نے آج یکم جولائی کو احتجاج کا اعلان کیا ہے کہ کوئی وکیل عدالتی  کاروائی میں شریک نہیں ہوگا، کچھ اور ریاستوں کی جانب سے بھی احتجاج کی خبریں ملنے پر پہلے تو بار کونسل آف انڈیا نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی قسم کے احتجاج سے دور رہیں پھر 27 جون کو ملک کی تمام ریاستی بار کونسلوں کو خط بھیج کر ریاستی بار کونسل کے صدر کو خود آنے یا کسی نمائندے کو بھیجنے کا مطالبہ کیا کہ چھ جون کو ان نئے قوانین کے سلسلہ میں ایک اہم میٹنگ رکھی جارہی ہے جس میں وکلاء برادری کے ان قوانین کو لیکر آرہے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا...


ان تینوں قوانین کی تبدیلی پر لکھنے والے اور بولنے والے بہت کچھ لکھ اور بول رہے ہیں، انگریزی اور اردو میں کئی قلمکاروں نے اس عنوان پر قلم اٹھایا ہےاور مختلف خدشات کا اظہار کیا ہے، کسی کے نزدیک لاء اینڈ آرڈر کے عملے کو اس سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات زیادہ اہم تھیں تو کسی نے دہشت گردی جیسے جرائم کے شامل کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، پولیس کے اختیارات کی توسیع پر بھی لوگ فکرمند ہیں کہ یہ محکمہ اب اور پاور فل ہوجائے گا، کسی نے اس نفاذ کو بی جے پی کی ضد قرار دیا ہے لیکن شاید ہی کسی نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد اب ہمارا کیا رد عمل اور کیا ذمہ داری ہونی چاہئے؟


کشمیر کی امتیازی شناخت ختم کئے جانے کا قضیہ ہو یا سی اے اے اور این آر سی کانفاذ، یکساں سول کوڈ کا مسئلہ ہو یا نئی تعلیمی پالیسی کا معاملہ، راقم کی ہمیشہ یہی درخواست رہی ہے کہ مسائل کی تنہا مخالفت مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اس کے مقابلہ کی اصل تیاری ہی اس کا مناسب حل ہے، یہ قوانین صرف مسلمانوں پر ہی نظر انداز نہیں ہوں گے بلکہ یہ تو ہر شہری کا مسئلہ ہے لیکن جہاں ہم میں سے کچھ لوگ فکر مند ہیں انہیں اپنی فکر کا زاویہ صحیح رخ پر موڑنا چاہئے، پہلے ہی ہم قانون کی درست اور لازمی معلومات سے بے بہرہ ہیں اور اس ناواقفیت کا نقصان بھی کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں، اب جب ملک میں جرم و شہادت کا قانون ہی یکسر تبدیل ہوگیا ہے تو ذمہ داری بنتی ہے کہ اس سلسلہ میں معلومات حاصل کی جائیں، ماقبل کی طرح امید ہے کہ ان قوانین کا اردو ترجمہ حکومت کی طرف سے ضرور شائع ہوگا لیکن صرف ترجمہ ہی کافی نہیں ہوگا ہمیں آگے بڑھ کر قوانین کی تفہیم و تشریح کرنے والی ٹیم کی بھی ضرورت پڑے گی ورنہ آئیں بائیں شائیں میں ہی وقت تمام ہوجائے گا، راقم اپنی حیثیت و بساط کے مطابق منصوبہ رکھتا ہے کہ ریاست کے وہ علماء جو قانون کے شعبہ میں آئے ہیں اور آرہے ہیں ان کے تعاون کے ساتھ بزبان اردو ضروری و لازمی قوانین کی تشریح و تعبیر قوم کے سامنے پیش ہوتی رہے تاکہ کم ازکم لاعلمی کسی نقصان کا سبب نہ بنے...


*مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:*


9440225496

abdulqadeeradvocate@gmail.com