Tuesday, November 19, 2024

 *کیا مسجدِ اقصٰی کا "سودا" ہو چکا ہے؟*

 """"""""""""""""""""""""""""""""""""

۱۵ نومبر ۲۰۲۴ء

خدا وہ دن نہ دکھلائے یہ خبر

 بجلی کی طرح عالمِ اسلام پر کوندے، مگر آثار و قرائن کچھ ایسے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔

. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  

حماس والے بے چین ہو رہے تھے کہ پڑوسی اور دیگر عرب برادر حکمرانوں کی فلسطینیوں کے ساتھ بےرخی و دوری اور غاصب صھیونیوں کے ساتھ کھلی قربت و دوستی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ قابض حکمرانوں کے وزراء بشمول صھیونی فورسیز،  مسلسل حرم شریف کے اندرون میں گھسنا، نمازیوں پر پابندی، انہیں دھکے مار مار کر نکالکنا، خواتین کے ساتھ بد سلوکی ایک عرصہ سے روز کا معمول بنتا جا رہا تھا۔ عرصۀ دراز سے مقیم مکینوں کو ان کے اپنے گھروں سے سامان سمیت نکال باہر کر کے صھیونیوں کو مسلسل لا لا کر بسایا جا رہا تھا۔ اور مخالفت کرنے والوں کو جیل پہونچایا جا رہا تھا۔ مزید اس طرح کے اشارے بھی مسلسل سیاسی افق پر آنے لگے ہیں۔  


متحدہ عرب امارات کے حکمران نے یکطرفہ معاھدہ کے ذریعہ مسجد اقصٰی اور اس سے ملحقہ 144 ایکڑ زمین مع تمام حقوق اسرائیل کے حوالے کر دیئے ۔ سابقہ بین الاقوامی معاہدہ میں اردن کی وزارت اوقاف کو اس حرم مقدس کانگران قرار دیا گیا تھا۔ (مڈل ایسٹ مونیٹر/

ستمبر 3, 2020).


نیتن یاہو کے اشارہ پر فلسطین کی سالانہ امداد کو پچھلے سال 198/33ملین امریکی ڈالر سے گھٹا کر 38.1 ملین کر دیا گیا۔ 


حکومت متحدہ عرب امارات نے 2010 کے بعد سے فلسطینی سفیر کا بائیکاٹ کر رکھا اور کسی بھی سرکاری تقریب میں سفیر کو مدعو نہیں کیا گیا۔ (الخلیج آن لائن) 

اپنے حقوق کی حفاظت اور حرم کی صیانت کے پیش نظر حماس نےغزہ پٹی میں مسلسل دن و رات جدوجہد، تیاری کرتے ہوۓ زیر زمین ایک وسیع و عریض سرنگوں کاجال بچھاتے ہوئے جدید ترین ہتھیار بشمول میزائلس، ڈرونس کا ذخیرہ جمع کر لیا اور 7 اکتوبر 2023ء کو غیر معمولی پلاننگ، رازداری، و شجاعت و تیزی سے دشمن میں گھس کر حملہ کر کے "طوفان الاقصٰی" برپا کیا،   ہزاروں کو اغواکرتے ہوئے درجنوں کو ختم کیا تھا۔ جوابی کاروائی کرتے ہوئے اسرائیل نے 14/نومبر 2024ء 404 ویں دن  مسلسل بمباری کےذریعہ  تقریباً 43,736 شہید، 1,03,000 زخمی کئے،  11,000 غائب اور زائد از پندرہ ملین کو غزہ سے نکال باہر کیا ہے۔  


در اصل 11/ ستمپر 2001ء یعنی "نائن الیوین"  کے واقعہ کے بعد مغرب کے عیسائی حکمرانوں نے عرب اور مسلم حکمرانوں پر نفسیاتی طور پر پوری طرح قابو بنائے رکھا اور 

سارے عالم میں جارح بنے رہے۔ 

مسلمانوں سے اپنی شناخت، انفرادیت، دین حق کو بھلا کر ان کے دم چھلے بنے رہنے کو کہا۔ 

 

صدرڈوناڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور صدارت (2017-2021) میں اپنے کٹر یہودی داماد جیرارڈ کوشنر کے ساتھ مل کر (2018) میں امریکی سفارت خانہ کو تیل ابیب سے بیت المقدس  کے قلب شہر میں منتقل کر دیا تھا اور جارحانہ طور پر قضیہ فلسطین سے نمٹنے کا عزم کیا۔ امریکہ نے اپنے طور پر اسلام کی دو قسمیں قائم کر دیں۔

(1) جارح، جہادی اسلام

اور (2) معتدل اسلام

مسلم ملکوں کے اتحاد OIC  کے سبھی رکن ممالک کو  جمع کر کے سپر پاور امریکہ نے معتدل اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی اور امن کے لئے کام کرنے، ترقی کی راہ اپنانے قائل کروایا۔ تینون بڑے مذہب کے پیروکاروں کی دین ابراہیمی سے وابستگی کی نسبت پر "معاہدۂ ابراہیمی" کے نام سے 2020 میں امن و ترقی کے لئے کام کرنے پر ان سے دستخط کروائے گئے۔ جبکہ فلسطینیوں کے منصفانہ حقوق کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی 2019 میں ایک حلفیہ اعلامیہ مکہ مکرمہ میں "مکہ ڈکلریشن" کے نام سے کروایا گیا۔ یوں یک طرفہ نظام عدل عالم میں  قائم کر دیا گیا ۔ صرف وعدے و قرار دادیں فلسطینیوں کے لئے قرار پائیں۔ عرب ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ انفرادی باہمی دوستی معاہدہ کرنے کے لئے دباؤ بنائے رکھا گیا۔ اس طرح چند ممالک نے دوستی کا معاہدہ بھی کر لیا۔ جہاں ایک طرف فلسطینی اسلامی مجاہدین غاصب صہیونی فوج کی تباہ کن بمباری کا جواب اپنے مزائلوں اور ڈرونس کے ذریعہ دے رہے تھے، دنیا کے امن پسند اقوام و ممالک بلا کسی تفریق مذہب و نسل،  مختلف ملکوں میں یونیورسٹیوں کے طلباء و ادارے، فلسطینیوں کی تائید میں اپنی اپنی آوازیں بلند کر رہے اور  مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے تھے، اہم یوروپی ممالک مثلاً آئرلینڈ، اسپین، بیلجیئم، سلووینیا، یوروپئین یونین وغیرہ نے تجارتی تعلقات ختم  کر دیئے تھے، وہیں پڑوسی عرب اور چند مسلم ملک اپنی تجارت کو فروغ دینے میں جٹے رہے۔ "مڈل ایسٹ مونیٹر" مؤرخہ 6/ نومبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق OIC (نام نہاد مسلم بلاک) کے 19 ممبر ملکوں نے گزشتہ نو مہینوں میں 2.3 بلئین ڈالر بقدر اشیاء اسرائیل کو فروخت کیا۔ اہم ملکوں میں بحرین(10گنا)، (مراقش 53%), مصر(52%), امارات(4%), ترکی(11%), البانیہ (5%) ازبیکستان(65%), نائجیریا (45%),  ,آزربائجان(34%), انڈونیشیا(25%) قابل ذکر ہیں۔ 


 قابل تشویش و افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بلاک کے برادر ملکوں نے ان مظلوم مسلم عوام کے ساتھ انتہائی بے مروتی بلکہ ظلم کا مظاہرہ کیا ہے۔  انگریزی پورٹل "مسلم مرر" میں شائع درج ذیل رپورٹ سے یہ واضح ہے : سابق "واشنگٹن پوسٹ" کے نمائندہ و معروف صحافی، 'بوب ووڈوارڈ' کی نئی کتاب ، "وار" میں لکھا ہے کہ *امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے باہمی بات چیت کے دوران بیشتر عرب قائدین نے 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حماس کے حملہ کے بعد حماس کو جلد از جلد ختم کرنے اور علاقہ کو ان کٹر عناصر سے پاک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔* ساتھ میں اپنے ملکوں میں ان واقعات پر ممکنہ عوامی رد عمل پر تشویش ظاہر کی تھی۔ اردن کے شاہ عبد الله دوم نے 13 اکتوبر کی ملاقات کے دوران بلنکن پر واضح کیا کہ ہم نے اسرائیل سے کہا تھا کہ *"حماس پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ ان کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے۔ انہیں مکمل شکست دینا ضروری ہے۔"* بند کمروں میں بات چیت میں کچھ ایسے ہی احساسات 14 اکتوبر کو امارات کے صدر، محمد بن زائد نے ظاہر کئے تھے۔ *سعودی وزیر خارجہ نے پرنس فیصل بن فرحان السعود نے بھی نتینیاہو کے احساسات کی تائید کرتے ہوئے حماس کو ایک "دہشت گرد" گروپ سے تعبیر کیا اور کہا کہ جنگ کے خاتمہ کی بعد تعمیر نو میں ہم ایک ڈالر بھی نہیں دیں گے۔ پرنس محمد بن سلمان اپنے 2030 ویژن پروجیکٹ کی کامیابی کے لئے اسرائیل سے نارمل تعلقات اور علاقہ میں امن کے قیام کو ضروری قرار دیا۔* کچھ ایسے ہی احساسات مصر کے حکمران فتاح السیسی، اور وہاں کے انٹیلیجینس چیف عباس کامل نے بھی ظاہر کئے۔ 


ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے آغاز ساتھ ہی آگے کے حالات وارادوں کا اندازہ ہو رہا ہے۔ صوبہ ارکنساس کے سابق گورنر، سخت گیر مائک ہوکابے جس نے سابق میں فلسطینیوں کے وجود ہی سے انکار کیا تھا، 13 نومبر کو اسرائیل میں بحیثیت امریکی سفیر تقرری کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہی بدنام زمانہ شخص ہے جس نے  فلسطینیوں کے بحیثیت قوم وجود ہی سے انکار کیا تھا۔ 


اسرائیل نے 12 نومبر 2024ء کو نئی قانون سازی کر کے ملزم فلسطینیوں کے اعزاء و اقارب کو بیس سال کیلئے ملک بدر کر دینے کا اعلان کیا ہے۔


اسرائیلی حکمراں، اپنے سخت گیر مخالف فلسطین قائدین کے مطالبہ پر، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی بہبود کے ذمہ دار ادارہ UNRWA کے دفتر کو ختم کر دینے کے بعد غزہ کے علاقہ میں غذائی اجناس و ادویہ کے داخلہ کو بند کر دیا ہے جس سے عوام فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔  


ایک اطلاع الجزیرہ کے حوالہ سے یہ آئی ہے کہ زائد از دس ہزار ترک فوجی اسرائیلی افواج کی صفوں میں موجود ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ان فورسز میں سے 4000 نے غزہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور ان میں سے 65 ہلاک ہوئے۔یاد رہے کہ صدر اردغان نے اس اہم معاملے کو دبانے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اپوزیشن نے اس مسئلہ کو سامنے لا کر حکمران کی اس منافقت کو دکھلا کر دنیا کے سامنے رسوا کر دیا ہے. (والله اعلم)

سید الیاس باشاہ// حیدرآباد


https://chat.whatsapp.com/EpsObFJ0nE65Uxqb1XTeXX

Friday, November 15, 2024

 کیا کبھی دریاؤں کی زندگی پر غور کیا؟

1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے۔۔۔(ماضی کو بھول کر آپ بھی مستقبل پر فوکس کریں)


2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سے اپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں

(مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے)۔


3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتے

(اسی طرح آپ کو دکھ سکھ کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ)۔


4۔ دریاؤں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔۔۔

(کسی کے سہارے کے بغیر اپنا کام  خود کریں)


5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔

 (علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں).


6۔ پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔۔۔

 (روڑے اٹکانے والوں کی پرواہ کیے بغیر آپ بھی اپنی زندگی رواں دواں رکھیں)۔


7۔ *ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔۔۔

 (آپ بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے تو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔!!!!)

Saturday, November 9, 2024


آپ کی ویڈیوکی لنک مجھے انڈیا کے ایک بہت بڑے اللہ والے نے ارسال کی تھیں اس وقت سے آج تک آپ کی ہر تازہ کاوش کو اول وہلہ میں دیکھنے اور سننے کا خوگر ہوں
آپ نے سسٹم سے جڑنے کی بات کی ہے اور ستاون مسلم ممالک کی پارلیمنٹ میں نوے فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں جو نبوی تعلیمات کے حامل ہیں  سب کے سب سسٹم کا اٹوٹ حصہ ہیں مگر کردار کافروں سے بھی بدتر ہے
اس کی وجہ ہی کفریہ سسٹم ہے
یہ ویڈیو آپ کے ذہن کو کھولنے اور تیز کرنے میں یقیناً مددگار ہوگا ان شاءاللہ

https://youtu.be/fKlTDqukz6w?si=VwURv9GKtwLma-Pl

Friday, November 8, 2024

 جب تک اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ نہ آجائے اس وقت تک مسلمانوں پر بلکہ سارے انسانوں پر مظالم کا سلسلہ جان مال عزت وآبرو ہر طرح سے جاری رہے گا 

کیونکہ انبیاء کی تعلیمات کی حامل قوم صرف مسلمان ہیں 

اقتدار سے موجودہ ستاون مسلم ممالک جیسا کفریہ اقتدار مراد نہیں ہے بلکہ وہ اقتدار مراد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور کے آخری سالوں میں طلب نصرت وھجرت کے بعد مدینے میں قائم کی تھیں

Saturday, November 2, 2024

 میں تکلم سیکھنے کا آسان طریقہ عربی 


(درس نظامی کے فضلاء کے لیے )


جہاد نعیم الہادی 


  ہمارے کئی ساتھی یہ سوال کرتے ہیں کہ عربی زبان کیسے سیکھیں؟ اس سوال کا میں کئی مرتبہ میسیج کے ذریعے جواب دے چکا ہوں، لیکن ہر کسی کو تفصیلی جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ مختصر تحریر لکھی جا رہی ہے تاکہ سب کو جامع جواب دیا جا سکے۔ 


 درسِ نظامی کے فاضل کی عربی زبان دانی


  سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ درسِ نظامی کے فاضل کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے عربی نہیں آتی۔ ہمارا خیال ہے کہ درسِ نظامی کا فاضل، خواہ کتنا کمزور ہو، عربی زبان ضرور جانتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن، حدیث اور کتابوں کے ترجمے کرنے کے دوران ہزاروں الفاظ اور سینکڑوں جملے اس کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ بوقت ضرورت ان الفاظ اور جملوں کا استحضار کیسے کیا جائے۔


  دوسری بات یہ ہے کہ ماہر استاذ کی رہنمائی بہت ضروری ہے لیکن اگر کسی کو استاذ میسر نہ ہو تو پھر اس طریقے پر عمل کریں فایدہ سے خالی نہیں ہوگا ان شاءاللہ تعالیٰ 


 عربی زبان سیکھنے کا طریقہ


ہم انتہائی مختصر طریقے سے یہ بتا رہے ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہیے:


1. کتاب سے زبان سیکھنے کا نظریہ ترک کریں:  

   عربی زبان سیکھنے کے لیے سب سے اہم چیز سننا اور اسے استعمال میں لانا ہے۔ اس لیے آج ہی سے عربی زبان سننے کے لیے روزانہ پندرہ منٹ مقرر کریں۔ کوئی ایسا پروگرام یا خطیب سنیں جس کی عربی آپ 70 سے 80 فیصد تک سمجھتے ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ مشکل مواد سننے کی طرف بڑھیں۔


2. حوارات یاد کریں: 

   ایک ایسی کتاب لیں جس میں عربی مکالمے (حوارات) موجود ہوں اور انہیں یاد کریں۔ کم از کم چالیس مکالمے یاد کرنا ضروری ہے تاکہ آپ ان کی مدد سے ابتدا کر سکیں۔ پھر آہستہ آہستہ ان مکالموں میں تبدیلیاں اور اضافے کریں، اور جملے بناتے رہیں۔


3. عربی بولنے والا ساتھی تلاش کریں: 

   کوئی ایسا دوست ہونا چاہیے جسے عربی زبان آتی ہو تاکہ آپ اس کے ساتھ تکلم کی مشق کر سکیں۔ بغیر ایسے ساتھی کے، عربی زبان سیکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔  

   

   اگر آپ کے پاس کوئی عربی جاننے والا ساتھی نہیں ہے، تو پھر کسی بہترین کتاب کو لیں اور اس کو بلند آواز سے پڑھیں۔ روزانہ تقریباً پندرہ منٹ تک بلند آواز میں کتاب کی عبارت پڑھیں۔ ان شاء اللہ، چالیس دن بعد آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ کی زبان میں روانی آ گئی ہے۔


خلاصہ


اگر آپ روزانہ 45 منٹ دیں:

- 15 منٹ مطالعے کے لیے

- 15 منٹ حوار یاد کرنے کے لیے

- 15 منٹ سننے کے لیے  

اور اگر پندرہ منٹ کسی کے ساتھ گفتگو کریں تو یہ ایک گھنٹہ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ، چالیس دن میں آپ کی عربی زبان میں روانی آ جائے گی۔


امید ہے کہ آپ اس طریقے پر عمل کر کے عربی زبان میں مہارت حاصل کریں گے۔

[02/11, 9:12 am] عزیر احمد مفتاحی وقاسمی بنگلور: *چالیس روزہ مضمون نگاری کورس*


جہاد نعیم الہادی


*اہم ہدایات*


سب سے پہلے آپ صحیح عربی بولنے کی مشق کریں۔ اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ رفقاء درس اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ عربی ہی میں بات کریں۔ اس طرح رفتہ رفتہ آپ کے اندر معانی کی صحیح تعبیر کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی، جو بعد میں انشاء و مضامین میں کام دے گی۔


قصے اور واقعات کو اپنی عبارت میں بیان کرنے کی کوشش کریں۔ 


جرائد، مجلات اور غیر درسی کتابوں میں بھی اچھے معلومات ہوتے ہیں۔ تاریخی کہانیاں، جغرافیائی معلومات، بزرگوں کے حالات، اسلاف کی سیرتیں اور دوسرے بہت سے مفید مضامین ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں جب آپ پڑھیں تو غور کے ساتھ پڑھیں اور ذہن میں محفوظ رکھنے کی کوشش کریں کہ یہی معلومات آپ کی انشاء کے لیے مواد ہوں گے اور مختلف موضوعات میں کام دیں گے۔


نظم و نثر کے اچھے ٹکڑے زبانی یاد کر لیجیے یا کم از کم اپنی کاپی پر نوٹ کر لیجیے۔ پھر ان کو ہضم کر کے موقع بہ موقع استعمال کیجیے۔ اس طرح فصیح عبارتوں سے آپ کو ایک لگاؤ ہو گا اور پھر رفتہ رفتہ ادب عربی کا صحیح ذوق اور انشاء کا ستھر ذوق پیدا ہو جائے گا۔


مشق کے لیے سب سے پہلے واقعات و حوادث کا انتخاب کیجیے، کیونکہ کسی خاص موضوع پر لکھنے کے مقابلے میں واقعات کو قلمبند کرنا آسان ہوتا ہے۔ 


ہمارے گرد و پیش دن رات پچاسوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ انہی میں سے کسی ایک واقعہ کو منتخب کر کے دو چار سطریں اس پر ضرور لکھیے۔ شادی بیاہ، بیماری، موت، جلسے اور اجتماعات، سفر اور تعلیمی ٹور وغیرہ جیسے مواقع میں اگر شرکت کا موقع ملے تو اسے قلمبند کرنے کی کوشش کیجیے۔

[02/11, 9:12 am] عزیر احمد مفتاحی وقاسمی بنگلور: عربی آسان ہے مگر۔۔۔۔


جہاد نعیم الہادی 


   جب میں نے عربی زبان سیکھنا شروع کی، تو ایک تلخ تجربے کا سامنا کرنا پڑا: جو جتنے زیادہ مشکل الفاظ استعمال کرتا اور جتنا پیچیدہ کلام کرتا، اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا کہ اسے بہت اچھی عربی آتی ہے۔ اور میں، جو ابتدا ہی سے ان مشکل اور غیر ضروری کلمات سے دور رہتا تھا، یہ سوچنے لگتا تھا کہ شاید میں عربی زبان نہیں سیکھ سکتا۔


   ایک مرتبہ پاکستان میں شائع ہونے والے ایک مجلے کا مطالعہ کر رہا تھا اور ساتھ میں جاحظ کی کتاب کتاب الحیوان بھی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ کتاب الحیوان تو مجھے سمجھ آ رہی تھی، لیکن اس مجلے کے مضامین مجھے سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ یہ حال ہی کی بات ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے امام کی بات تو سمجھ آ رہی ہے، لیکن عام ادیبوں کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔


  کئی ساتھی، مقالہ پڑھنے کے بعد، مجھ سے کہتے تھے: "ہم نے تمہارا مقالہ پوری طرح سمجھ لیا" (فَهِمْتُ مَقَالَكَ كَامِلًا)۔ ان کا مطلب یہ ہوتا کہ علمی معیار یا ادبی سطح میں کمی ہے۔ حالانکہ کسی چیز کا سمجھ میں آنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے! اس پر اللہ تعالیٰ حضرت ولی خان مظفر صاحب جیسے شخصیات کو جزائے خیر دے۔ ان کے ساتھ ملاقات کے دوران میں نے یقیناً یہ بات سیکھی کہ زبان بولنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسے مشکل بنا کر بولا جائے۔ حضرت ولی خان مظفر صاحب جب بولتے ہیں تو ان کے الفاظ عام فہم ہوتے ہیں، حالانکہ وہ ایسی زبان بھی بول سکتے ہیں جو سننے والوں میں سے کسی کو سمجھ نہ آئے۔


  عربی زبان اسلام کی زبان ہے، اور بطور مذہب کی زبان ہونے کے ناطے یہ مسلمانوں کی زبان بھی ہے۔ جس طرح اسلام ایک اعتدال اور آسانی والا دین ہے، اسی طرح عربی زبان کو بھی آسان بنا کر اعتدال کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں علمی رجحان یہ ہے کہ پیچیدہ الفاظ اور مشکل تعبیرات استعمال کی جاتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی سیکھنے والا سن کر ہی مایوس ہو جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ 


   ہر کوئی جانتا ہے کہ لکھنے کی زبان اور بولنے کی زبان الگ ہوتی ہے، اور پھر لکھنے میں بھی ادبی زبان اور علمی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ بول چال میں آسان سے آسان عربی استعمال کی جائے تاکہ سننے والا اسے سمجھ سکے۔ اور اگر ادبی زبان میں لکھنا ہو تو وہ ادبی زبان استعمال کی جائے جو ہمارے زمانے کی ہو۔ آج سے ایک ہزار یا سولہ سو سو سال پہلے کے زمانے کی عربی کے ذریعے آج کی قوم اور امت کو مخاطب کرنا درست نہیں ہے، یہ امت کے ساتھ ناانصافی اور اپنے ساتھ بھی ظلم ہے۔ اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن وہ الفاظ اور جملے پیچیدہ ہیں تو وہ سمجھنے والوں تک نہیں پہنچیں گے۔