*کیا مسجدِ اقصٰی کا "سودا" ہو چکا ہے؟*
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
۱۵ نومبر ۲۰۲۴ء
خدا وہ دن نہ دکھلائے یہ خبر
بجلی کی طرح عالمِ اسلام پر کوندے، مگر آثار و قرائن کچھ ایسے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
حماس والے بے چین ہو رہے تھے کہ پڑوسی اور دیگر عرب برادر حکمرانوں کی فلسطینیوں کے ساتھ بےرخی و دوری اور غاصب صھیونیوں کے ساتھ کھلی قربت و دوستی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ قابض حکمرانوں کے وزراء بشمول صھیونی فورسیز، مسلسل حرم شریف کے اندرون میں گھسنا، نمازیوں پر پابندی، انہیں دھکے مار مار کر نکالکنا، خواتین کے ساتھ بد سلوکی ایک عرصہ سے روز کا معمول بنتا جا رہا تھا۔ عرصۀ دراز سے مقیم مکینوں کو ان کے اپنے گھروں سے سامان سمیت نکال باہر کر کے صھیونیوں کو مسلسل لا لا کر بسایا جا رہا تھا۔ اور مخالفت کرنے والوں کو جیل پہونچایا جا رہا تھا۔ مزید اس طرح کے اشارے بھی مسلسل سیاسی افق پر آنے لگے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے حکمران نے یکطرفہ معاھدہ کے ذریعہ مسجد اقصٰی اور اس سے ملحقہ 144 ایکڑ زمین مع تمام حقوق اسرائیل کے حوالے کر دیئے ۔ سابقہ بین الاقوامی معاہدہ میں اردن کی وزارت اوقاف کو اس حرم مقدس کانگران قرار دیا گیا تھا۔ (مڈل ایسٹ مونیٹر/
ستمبر 3, 2020).
نیتن یاہو کے اشارہ پر فلسطین کی سالانہ امداد کو پچھلے سال 198/33ملین امریکی ڈالر سے گھٹا کر 38.1 ملین کر دیا گیا۔
حکومت متحدہ عرب امارات نے 2010 کے بعد سے فلسطینی سفیر کا بائیکاٹ کر رکھا اور کسی بھی سرکاری تقریب میں سفیر کو مدعو نہیں کیا گیا۔ (الخلیج آن لائن)
اپنے حقوق کی حفاظت اور حرم کی صیانت کے پیش نظر حماس نےغزہ پٹی میں مسلسل دن و رات جدوجہد، تیاری کرتے ہوۓ زیر زمین ایک وسیع و عریض سرنگوں کاجال بچھاتے ہوئے جدید ترین ہتھیار بشمول میزائلس، ڈرونس کا ذخیرہ جمع کر لیا اور 7 اکتوبر 2023ء کو غیر معمولی پلاننگ، رازداری، و شجاعت و تیزی سے دشمن میں گھس کر حملہ کر کے "طوفان الاقصٰی" برپا کیا، ہزاروں کو اغواکرتے ہوئے درجنوں کو ختم کیا تھا۔ جوابی کاروائی کرتے ہوئے اسرائیل نے 14/نومبر 2024ء 404 ویں دن مسلسل بمباری کےذریعہ تقریباً 43,736 شہید، 1,03,000 زخمی کئے، 11,000 غائب اور زائد از پندرہ ملین کو غزہ سے نکال باہر کیا ہے۔
در اصل 11/ ستمپر 2001ء یعنی "نائن الیوین" کے واقعہ کے بعد مغرب کے عیسائی حکمرانوں نے عرب اور مسلم حکمرانوں پر نفسیاتی طور پر پوری طرح قابو بنائے رکھا اور
سارے عالم میں جارح بنے رہے۔
مسلمانوں سے اپنی شناخت، انفرادیت، دین حق کو بھلا کر ان کے دم چھلے بنے رہنے کو کہا۔
صدرڈوناڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور صدارت (2017-2021) میں اپنے کٹر یہودی داماد جیرارڈ کوشنر کے ساتھ مل کر (2018) میں امریکی سفارت خانہ کو تیل ابیب سے بیت المقدس کے قلب شہر میں منتقل کر دیا تھا اور جارحانہ طور پر قضیہ فلسطین سے نمٹنے کا عزم کیا۔ امریکہ نے اپنے طور پر اسلام کی دو قسمیں قائم کر دیں۔
(1) جارح، جہادی اسلام
اور (2) معتدل اسلام
مسلم ملکوں کے اتحاد OIC کے سبھی رکن ممالک کو جمع کر کے سپر پاور امریکہ نے معتدل اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی اور امن کے لئے کام کرنے، ترقی کی راہ اپنانے قائل کروایا۔ تینون بڑے مذہب کے پیروکاروں کی دین ابراہیمی سے وابستگی کی نسبت پر "معاہدۂ ابراہیمی" کے نام سے 2020 میں امن و ترقی کے لئے کام کرنے پر ان سے دستخط کروائے گئے۔ جبکہ فلسطینیوں کے منصفانہ حقوق کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی 2019 میں ایک حلفیہ اعلامیہ مکہ مکرمہ میں "مکہ ڈکلریشن" کے نام سے کروایا گیا۔ یوں یک طرفہ نظام عدل عالم میں قائم کر دیا گیا ۔ صرف وعدے و قرار دادیں فلسطینیوں کے لئے قرار پائیں۔ عرب ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ انفرادی باہمی دوستی معاہدہ کرنے کے لئے دباؤ بنائے رکھا گیا۔ اس طرح چند ممالک نے دوستی کا معاہدہ بھی کر لیا۔ جہاں ایک طرف فلسطینی اسلامی مجاہدین غاصب صہیونی فوج کی تباہ کن بمباری کا جواب اپنے مزائلوں اور ڈرونس کے ذریعہ دے رہے تھے، دنیا کے امن پسند اقوام و ممالک بلا کسی تفریق مذہب و نسل، مختلف ملکوں میں یونیورسٹیوں کے طلباء و ادارے، فلسطینیوں کی تائید میں اپنی اپنی آوازیں بلند کر رہے اور مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے تھے، اہم یوروپی ممالک مثلاً آئرلینڈ، اسپین، بیلجیئم، سلووینیا، یوروپئین یونین وغیرہ نے تجارتی تعلقات ختم کر دیئے تھے، وہیں پڑوسی عرب اور چند مسلم ملک اپنی تجارت کو فروغ دینے میں جٹے رہے۔ "مڈل ایسٹ مونیٹر" مؤرخہ 6/ نومبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق OIC (نام نہاد مسلم بلاک) کے 19 ممبر ملکوں نے گزشتہ نو مہینوں میں 2.3 بلئین ڈالر بقدر اشیاء اسرائیل کو فروخت کیا۔ اہم ملکوں میں بحرین(10گنا)، (مراقش 53%), مصر(52%), امارات(4%), ترکی(11%), البانیہ (5%) ازبیکستان(65%), نائجیریا (45%), ,آزربائجان(34%), انڈونیشیا(25%) قابل ذکر ہیں۔
قابل تشویش و افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بلاک کے برادر ملکوں نے ان مظلوم مسلم عوام کے ساتھ انتہائی بے مروتی بلکہ ظلم کا مظاہرہ کیا ہے۔ انگریزی پورٹل "مسلم مرر" میں شائع درج ذیل رپورٹ سے یہ واضح ہے : سابق "واشنگٹن پوسٹ" کے نمائندہ و معروف صحافی، 'بوب ووڈوارڈ' کی نئی کتاب ، "وار" میں لکھا ہے کہ *امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے باہمی بات چیت کے دوران بیشتر عرب قائدین نے 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حماس کے حملہ کے بعد حماس کو جلد از جلد ختم کرنے اور علاقہ کو ان کٹر عناصر سے پاک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔* ساتھ میں اپنے ملکوں میں ان واقعات پر ممکنہ عوامی رد عمل پر تشویش ظاہر کی تھی۔ اردن کے شاہ عبد الله دوم نے 13 اکتوبر کی ملاقات کے دوران بلنکن پر واضح کیا کہ ہم نے اسرائیل سے کہا تھا کہ *"حماس پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ ان کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے۔ انہیں مکمل شکست دینا ضروری ہے۔"* بند کمروں میں بات چیت میں کچھ ایسے ہی احساسات 14 اکتوبر کو امارات کے صدر، محمد بن زائد نے ظاہر کئے تھے۔ *سعودی وزیر خارجہ نے پرنس فیصل بن فرحان السعود نے بھی نتینیاہو کے احساسات کی تائید کرتے ہوئے حماس کو ایک "دہشت گرد" گروپ سے تعبیر کیا اور کہا کہ جنگ کے خاتمہ کی بعد تعمیر نو میں ہم ایک ڈالر بھی نہیں دیں گے۔ پرنس محمد بن سلمان اپنے 2030 ویژن پروجیکٹ کی کامیابی کے لئے اسرائیل سے نارمل تعلقات اور علاقہ میں امن کے قیام کو ضروری قرار دیا۔* کچھ ایسے ہی احساسات مصر کے حکمران فتاح السیسی، اور وہاں کے انٹیلیجینس چیف عباس کامل نے بھی ظاہر کئے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے آغاز ساتھ ہی آگے کے حالات وارادوں کا اندازہ ہو رہا ہے۔ صوبہ ارکنساس کے سابق گورنر، سخت گیر مائک ہوکابے جس نے سابق میں فلسطینیوں کے وجود ہی سے انکار کیا تھا، 13 نومبر کو اسرائیل میں بحیثیت امریکی سفیر تقرری کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہی بدنام زمانہ شخص ہے جس نے فلسطینیوں کے بحیثیت قوم وجود ہی سے انکار کیا تھا۔
اسرائیل نے 12 نومبر 2024ء کو نئی قانون سازی کر کے ملزم فلسطینیوں کے اعزاء و اقارب کو بیس سال کیلئے ملک بدر کر دینے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی حکمراں، اپنے سخت گیر مخالف فلسطین قائدین کے مطالبہ پر، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی بہبود کے ذمہ دار ادارہ UNRWA کے دفتر کو ختم کر دینے کے بعد غزہ کے علاقہ میں غذائی اجناس و ادویہ کے داخلہ کو بند کر دیا ہے جس سے عوام فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
ایک اطلاع الجزیرہ کے حوالہ سے یہ آئی ہے کہ زائد از دس ہزار ترک فوجی اسرائیلی افواج کی صفوں میں موجود ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ان فورسز میں سے 4000 نے غزہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور ان میں سے 65 ہلاک ہوئے۔یاد رہے کہ صدر اردغان نے اس اہم معاملے کو دبانے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اپوزیشن نے اس مسئلہ کو سامنے لا کر حکمران کی اس منافقت کو دکھلا کر دنیا کے سامنے رسوا کر دیا ہے. (والله اعلم)
سید الیاس باشاہ// حیدرآباد
https://chat.whatsapp.com/EpsObFJ0nE65Uxqb1XTeXX