Wednesday, December 10, 2025

 *علم النحو کی کہانی* پڑھیں اور اپنی نحو تازہ کریں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


گاٶں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا ۔اس کا نام  "لفظ"  تھا۔ اس کے  دو  بھائی تھے ۔

 ایک  کا نام  موضوع اور  دوسرے کا نام  مہمل ۔ 

   موضوع  بہت ہوشیار لڑکا  تھا۔  ہر چیز  کا معنی  بتاتا ۔  سمجھ میں آجاتا تھا۔

 اور مہمل ، وہ تو پاگل تھا۔ہر چیز الٹی بتاتا، جس کا کوئی مطلب نہ نکلتا ۔

 موضوع کے دو بیٹے تھے ۔

 ایک کا نام مفرد تھا ، دوسرے کا نام  مرکب۔  مفرد اکیلا اکیلا پھرتا تھا جب کہ مرکب سب کے ساتھ مل کر چلتا تھا ۔ 

مرکب کے بھی دو دوست تھے۔  ایک کا نام مرکب ناقص ، دوسرے کا نام مرکب  تام تھا۔

مرکب ناقص بڑا نالائق لڑکا تھا۔ ہمیشہ ادھوری بات کرتا۔ کسی کی سمجھ میں اس کی کوئی بات نہیں آتی تھی ۔

 مرکب تام بھائی بہت اچھا لڑکا تھا  ایسی صاف بات کرتا  کہ پاگل بھی سمجھ جاتا۔ وہ ہر چیز کی خبر دیتا۔  سچ میں جھوٹ  ملا کر بات کرتا۔  اس لیے وہ خود کو وزیر نحو کہا کرتا۔


پھر یوں ہوا کہ اچانک  گاؤں میں  ایک یتیم لڑکا آگیا, جس کا نام "کلمہ" تھا , جس کے ساتھ تین لوگ اور بھی تھے .

 ان کا نام اسم، فعل، اور حرف تھا۔

 اسم بیچارہ , بہت  امیر تھا ،اپنا سب کام خود کرتا۔ کسی سے کچھ  مدد  نہ لیتا۔

  فعل ہمیشہ کنجوسی سے  اپنا کام خود کرتا۔ دوسروں کو بھی لے کر آتا ۔اکیلا آتے ہوئے ڈرتا کہ کہیں کوئی کام غلط نہ ہو جائے۔

حرف بہت غریب تھا۔  نہ کھانے کےلیے کچھ اور نہ پہننے پہنانے کے لیے۔

 کچھ اسم سے ، کچھ فعل سے مدد لےکر اپنی گزر اوقات کرلیتا ، لیکن بعض اوقات ایسے کرتب دکھاتا کہ سارے گاؤں والے عش عش کر اٹھتے۔

لبھائی اسم کی دو بیویاں تھیں۔

 اک کا نام معرفہ تھا۔ دوسری کا نام نکرہ۔

 معرفہ آنٹی ہمیشہ خود کو خاص  سمجھتی تھیں۔مشہور و معروف تھیں۔ سب انہیں جانتے تھے۔

 نکرہ آنٹی بہت سادہ سی رہتیں۔عام سی خاتون تھیں۔ انکساری اتنی کہ خود کو کچھ نہیں سمجھتیں۔

 آنٹی معرفہ  کے سات  بچے تھے۔ 

  تین لڑکیاں اور چار لڑکے۔

 بچوں کے نام تھے ، ضمیر، علَم ، اشارہ ، موصول ، معرٗف باللام، معرف بالاضافة ، معرف بالنداء.

بھائی ضمیر ، وہ تو بس سارا دن ہی ،تو تو ،  میں میں ، وہ وہ کرتا رہتا۔


بھائی علَم ،  اپنے آپ کو  خاص سمجھتا۔ اپنے خاص نام پر فخر جتاتا۔

 کہتا :  میرے جیسا  کوئی نہیں۔

بھائی اشارہ ،  وہ تو بس دوسروں پر بلا وجہ انگلی اٹھا اٹھا کر  الزام تراشی کرتا رہتا ۔ اس کے بغیر اسے سکون ہی نہیں ملتا۔

بھائی موصول،  ہمیشہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر کام کرتا۔

معرف باللام بہن ، محترمہ اتنی  نخریلی ہیں کہ بس ان کی ہمیشہ گھر میں لڑائی ہی رہتی ہے۔  ضد ہے کہ میرے شروع میں الف لام لگاؤ کیوں کہ وہ میری تب جان ہے۔

معرف بالاضافة بہن ، بہت ہوشیار لڑکی ہے ، اپنے خاص نام کو اپنے خاص پسندیدہ کھانے سے جوڑتی ہے تاکہ کوئی کھا نہ جاۓ۔

معرف بالنداء بہن ، بہت ضدی  لڑکی ہے۔ اس سے سب بہت تنگ ہیں۔ کہتی ہے:  میں اپنا کام سب کچھ خود کروں گی۔ کسی کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

ندا بہن کے دو پکے دوست  تھے۔

 ایک کا نام مذکر ، دوسرے کا نام مونث  تھا۔

 مذکر میں لڑکی کی کوئی علامت نہ تھی۔ 

 کہتا : میں میل ہوں۔میں لڑکا ہوں۔  

مؤنث کہتی :  میں لڑکی ہوں۔  مجھے کبھی کوئی غلطی سے بھی لڑکا نہ کہنا۔ میں بہت خطرناک ہوں۔

مؤنث  کی 3 بیٹیاں ہیں۔ 

 جن کے نام 

گول ة ، الف مقصورہ اور الف ممدودہ ہیں۔

گول ة بہن، ایک  ضدی لڑکی ہے ،  جو کہتی ہے میری خوب صورت چاند سی گول شکل کبھی نہ بگاڑنا۔

 الف ممدودہ بہن ، اونچی پوری دراز قد ہمدرد لڑکی ہے ، تنہا باہر نہیں نکلتی۔ باجی  ھمزہ کو بھی اپنے ساتھ لیکر آتی ہے۔ خوش گلو اور بلند آہنگ ہے۔

 الف مقصورہ بہن، 

توبہ توبہ  وہ تو  باجی ھمزہ سے حسد کرتی ہے۔ ساتھ تو دور کی بات ہے ، کبھی اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتی۔

 مؤنث  کے دو سہیلیاں ہیں۔ 

 

 ایک کا نام آنٹی مؤنث حقیقی تو دوسری کا نام آنٹی مؤنث  لفظی ہے۔

آنٹی مؤنث  حقیقی  ہمیشہ اپنا مقابلہ مرد کے ساتھ کرتی ہیں۔ 

آنٹی مؤنث لفظی ، بہت نرم و نازک ہیں۔ لو بلڈ پریشر LOW BP   کی مریضہ ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ مرد کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے آنٹی مونث حقیقی ، اسے چھوڑ کر  واحد کے  گھر چلی گئیں۔

 واحد ہمیشہ اکیلا رہتا۔اس کا کوئی ساتھ نہیں دیتا تھا۔

 واحد کے دو بھائی ہیں۔ ایک کا نام  تثنیہ بھائی ہے، دوست مثنی بھائی کہتے ہیں۔ 

 دوسرےکا نام  جمع بھائی ہے۔ 

بھائی مثنی کہتے ہیں: میں تو صرف دو کے ساتھ رہوں گا۔ کسی تیسرے کے ساتھ مجھےکبھی گوارا نہیں۔

 بھائی جمع توبہ توبہ ! 

وہ تو سارا دن دوست بناتا رہتا ہے۔کم از کم تین ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ جمع سے گھر والے تنگ ہیں۔ جمع بیچارے کو گھر سے نکال دیا گیا ، وہ  اپنے دوست  جمع سالم اور جمع مکسر کے پاس گیا۔


جمع سالم ، ہمدرد  انسان ہیں شریف ۔کسی کو نہیں چھیڑتے۔اپنی  پیٹھ پر اون ، این ، آت کا بوجھ لاد لیتے ہیں۔

لیکن جمع مکسر ضدی بھی ہیں اور شعلہ مزاج بھی۔ پیسے نہیں ملتے ، یا کھانا نہیں ملتا  تو گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈانٹے تو کہتے ہیں : میں جدت پسند ہوں۔ نئی نئی چیزیں بناتا ہوں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسی لگی نحوی کہانی آپکو ضرور اپنی راۓ کا اظہار فرمائیں

اگر اچھی لگی تو ضرور آگے بھی شیئر کرتے جائیں جزاکم اللہ خیرا

Saturday, November 8, 2025

مکتب کے اساتذہ

 خلاصۂ بیان حضرت *مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم* 


 *مکاتب کے اساتذہ کے لیے انتہائی قیمتی اور ضروری باتیں* 


 🌹مثال بنو ۔۔مسئلہ نہ بنو 

بعض اساتذہ مثال ہوتے ہیں اور بعض مسئلہ ہوتے ہیں،انہیں سنبھالنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے مکتب یا مدرسہ پر آنچ آتے رہتی ہے اسے حل کرنا پڑتا ہے ایسے نہ بنو ۔۔۔بلکہ ایسے بنو کہ لوگ اور طلبہ خود مثال دیں ۔۔۔آگے چل کر وہ آپ کی طرح بننے کی فکر کریں

🌹جو طلبہ آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں وہ معصوم و بے گناہ ہیں،شرم کیوں نہیں آتی استاذ کو،خود گنہگار ہے اور بےگناہ طلبہ کو مارتا ہے 

🌹مکتب کے طلبہ کو ڈاڑھی ٹوپی والے حلیہ سے متوحش نہ کرو (وحشت اور دوری پیدا نہ کرو)

🌹کمزور طلبہ کا نام لے کر تنہائی میں دعا کرو ۔۔۔اس میں بڑی طاقت ہے 

🌹بچوں کو سزا دیتے وقت ایسی کیفیت ہونے چاہیے جیسے ماں کی اولاد کو سزا دیتے وقت ہوتی ہے 

ماں کی سزا کیسی ہوتی ہے ؟۔۔۔وہ بچوں کو سزا دیتی ہے لیکن تنہائی میں روتی ہے 

ایسے ہی استاذ کو مشفق ہونا چاہیے 

🌹سخت سے سخت بات میٹھے میں لہجے کہی جاسکتی ہے ۔۔۔

کوئ شہد بیچنے والا بدزبان تھا تو اس کا شہد نہیں بکا، اور ایک سرکہ بیچنے والا شیریں زبان تھا ۔اس کا سرکہ بک گیا، اس لیے طلبہ سے نرم لہجے میں بات کریں ۔

🌹ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا فلاں نے مجھ سے پڑھا ۔۔۔۔لیکن ہم سے متنفر ہوکر کس نے دین و تعلیم کو چھوڑا یہ میدان محشر میں معلوم ہوگا، اس لیے خدارا کسی بچے کی تعلیم چھوٹنے یا یہ لائن چھوٹنے کاسبب نہ بنو ۔

🌹جو استاد اپنی محنت کو تن خواہ میں تول رہا ہے اس نے اپنی محنت کو ذلیل کردیا،

کیسے خیال آیا کہ یہ دنیا میری اس محنت کا بدلہ دے گی ۔۔ یہ دنیا والے ایک مرتبہ کہے گئے سبحان اللہ کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں کہ اس کا بدلہ پوری دنیاو مافیہا سے زیادہ ہے ، اس لیے اہل دنیا سے اپنی محنت کے بدلہ کی امید نہ لگائیں ، بلکہ اس خدمت کا بدلہ آخرت کے لیے چھوڑ رکھیں 

🌹ملازم بن کر چلنے والا انقلابی نہیں بن سکتا۔اس لیے اللّٰہ سے معاملات کرکے کام کیجیے 

🌹تحفیظ سے زیادہ تفہیم کی ضرورت ہے(رٹانے سے زیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے)

میمورائز سے زیادہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔کلمہ رٹائیں ۔۔۔مگر اس کو سمجھائیں بھی 

ایمان مفصل سمجھائیں 

چہل حدیث سمجھائیں 

🌹 محیی السنہ (حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ)کی لکھی ہوئی کتاب *چار امام*  کو مطالعہ میں رکھیں۔اس سے ائمہ عظام کی وقعت دل میں بیٹھے گی اور طلبہ کو بھی بتا سکیں گے، 

🌹یہ پڑھنے پڑھانے کا دینی ماحول جو ملاہے وہ بڑی نعمت ہے 

کیوں کہ اس ماحول نے اختیاری نہ سہی اضطراری طور پر کتنے سارے گناہوں سے بچارکھا ہے ۔۔۔؟؟ 

اس لیے بنے ہوئے ماحول کی قدر کریں ۔

مدرسہ نہ ہو تو کون فقہ وفتاویٰ کاکام کرے گا۔

جمعہ نہ ہوتو کتاب کون پڑھتا ہے ؟

فجر کی امامت نہ ہو تو کتنے علماء وحفاظ کی فجر باجماعت ہوتی ہے ؟

اس لیے ماحول کی قدر کرلو ۔۔۔

🌹 ایک جگہ ہم لوگ نیم پاگلوں کے اسکول گئے ایک جگہ نابیناؤں کے اسکول کا دورہ کرنے کی توفیق ہوئ وہاں جانے پر بچے ڈر گئے ٹیچرز سے لپٹ گئے،وہاں کے اساتذہ نے کہا کہ ہم ان کے کپڑے صاف کرتے ہیں،ان کی ہر بات سنتے ہیں،اور ان کے ماحول میں ڈھل کر انہیں پڑھاتے ہیں،ایسے بےشمار  اسکول ہیں، 

پڑھانے والے انہیں پڑھارہے ہیں ہمارے شاگردان سے گئے گزرے تو نہیں ہیں، 

لوگ معذوروں کو،اجڈ لوگوں کو، دیہاتیوں کو اندھوں کو پڑھا سکتے ہیں میں اچھے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاسکتا؟

اس لیے ہر بچہ آپ کے پاس آنے والا قیمتی ہے اسے پڑھانے کی پوری کوشش کریں 

🌹آج اساتذہ کو تنخواہ کی کمی کا غم ہے ،اپنی صفات کی کمی کا غم نہیں،ضرورتوں کا غم زیادہ ہے،جب کہ اس سے زیادہ ذمہ داریوں کا غم ہونا چاہیے

🌹فضولیات سے بچ جائیں گے تو ضروریات پوری کرنے کے اسباب و ذرائع مل جائیں گے۔

🌹 آج تنظیموں کے اختلاف اور بے کار کے جھگڑوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے جو عالم چالیس سال ، تیس سال سے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس کی برائیاں بیان کرنے انہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ،

یاد رکھو ! اس آدمی کی بدبختی آگئی ۔جو اپنے بڑوں کے عیوب کے پیچھے لگ گیا ۔۔۔

اس لیے بڑوں کے عیوب یا ان کی برائیوں کے پیچھے مت پڑو، 

🌹 تن خواہ کی کمی کی وجہ سے بعض علماء وحفاظ اس لائن کو چھوڑ دیتے ہیں ، سن لیجیے ! دینی ماحول وخدمات سے نکلنا آسان ہے ، لگنا مشکل ہے ، اس لیے اس لائن کو مت چھوڑیں 

🌹یہ تصور رہے کہ اگر مجھے مسجد سے نکالا گیا تو وہ صدر نے یا کمیٹی نے نہیں نکالا میری تنہائیوں  نے نکالا ۔میری بداعمالیوں نے نکالا، 

🌹اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا  اس آیت کے مطابق کیا ہم دنیا ہی میں اپنے نیکیوں وخدمات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ؟

صحابہ و اکابر نے دنیا کی خدمات کے معاوضے دنیا ہی میں ادا کردئے  کہ کہیں یہ دنیا ہی میں بدلہ نہ دے دیا گیا ہو،

حضرت ابوبکر نے بیت المال کو اپنے وظائف لوٹادئے ، مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم کی ساری تن خواہ واپس کردی ،

 اس لیے اپنے دنیاوی خدمات کابدلہ آخرت میں اللہ سے لینا ہے ، کیوں کہ 

اللہ کا قانون ہے کہ جو ان کے لیے،ان کی رضامندی کی خاطر دنیا چھوڑتا ہے ، اسے خوب دیتے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو چھوڑا تو اللہ نے جوانی کے ساتھ واپس کیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

🌹فرصت میں فساد ہے۔  اس لیے فرصت میں نہ رہیں ، نہ اپنے طلبہ کو فرصت میں رہنے دیں ۔

🌹 اپنے گھر سے محنت کریں ، آپ کے مکتب کا سب سے پہلا شاگرد آپ کی بیوی ہے، اپنے گھر پر پہلے محنت کرو ،

مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے اسفار و خدمات سے زیادہ ان کی معاشرت(گھریلو زندگی) نے حیرت زدہ کیا ۔۔۔بیوی کو حافظ بنایا ۔۔۔بچوں کو حافظ بنایاگھر ہی میں  ، ایک ایک 

بچے کی شادی کرتے سال بھر ساتھ رکھتے پھر سامنے ہی کسی گھر میں منتقل کردیتے اور  فرماتے ! ہم مرے نہیں ہیں سامنے رہو اور زندگی گزارنا سیکھو ، کچھ کمی بیشی ہوگی ہم پوری کریں گے، 

اس لیے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کریں ، 

🌹ہم مال کی کمی کا روناروتے  رہتے ہیں، اور اس کی چکر میں بہت اہم اور ضروری چیزیں اپنی زندگی کی چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کیا انسان مال کی کمی ہے تو مطالعہ نہیں کرسکتا؟

مال کی کمی ہے تو شیخ سے رابطہ نہیں کرسکتا؟ مال کی مکی ہے تو بیوی کو نہیں پڑھا سکتا؟ کیا مال کی کمی ان چیزوں میں مانع ہوسکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔اس لیے مال کی کمی کا بہانہ بنا کر اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں ، 


🌹بچوں کے ایمان کی فکروں کے سلسلے میں مفتی سلمان بجنوری صاحب نے بڑی بات کہ دی _____ کہ زمانہ ایسا آچکا ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد بچوں کو کلمہ پڑھانا پڑے گا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے موت کے وقت اپنے چار بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ بچوں میں اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان تمہارے پاس گروی رکھ کر جارہا ہوں ۔۔۔قیامت کے دن پوچھوں گا۔ آج یقیناً یہی حالات آچکے ہیں ، اس لیے مکاتب کے اساتذہ کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے ، 


🌹اس زمانے کے بچے جوانی سے پہلے بوڑھے ہورہے ہیں ، موبائل نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، 

اس لیے بچوں کے اخلاقیات بھی سنواریں ۔۔ان کی تنہائیوں کو پاک کرنے کی کو شش کریں

اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین 


ابو احسان ذکی 

خادم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

Sunday, November 2, 2025

 😜امراء القیس کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی🥲


اِذَا  ما تَرَسْنا   لِدِیدَارِکُم

جَلَسْنا  بِسَایَۃِ   دِیْوارِکُم


وحُبِّی  لَکُم لَیْسَ  اَفْسَانۃً

خَجْل و خُوَار بینَ بازارِکُم


جَزاءُ الوَفادارِی ھل ھکذا؟

گَرَجْتُم بَرَسْتُم علی یارِکُم

😂😝😝

Wednesday, October 29, 2025

 وقف: غربت مٹانے کا ایک ذریعہ

چشم کشا حقائق پر مشتمل، غربت کا آسان حل

کیا آپ جانتے ہیں کہ:

دنیا میں 79 کروڑ 50 لاکھ افراد روزانہ بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دنیا میں 3 ہزار بچے خوراک کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو بمشکل روٹی میسر آ پاتی ہے۔دنیا میں 80 کروڑ انسانوں کو وقتاً فوقتاً بھوکا سونا پڑتا ہے۔دنیا میں 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پوری دنیا میں ایک کروڑ 4 لاکھ افرادگھر سے بے گھر زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں کل 2 ارب 20 کروڑ بچے ہیں، جن میں سے ایک ارب غربت و افلاس کی آغوش میں زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں 30 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔پسماندہ براعظم افریقہ کے 22 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

لاطینی امریکا کے 4 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے براعظم ایشیا اور بحرالکاہل کے 55 کروڑ 30 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں 2 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آپ کے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں 60 افراد ہر ماہ غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ صرف افغانستان میں 50 لاکھ یتیم بچے ہیں۔ 

افغانستان کے دار الحکومت کابل میں 75 ہزار بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ مسلم ملک عراق میں جنگ کی وجہ سے مصر میں پناہ لینے والے عراقی 13 لاکھ ہیں۔ عراق کے 8 لاکھ باشندے اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شام میں جنگ کی وجہ سے ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندے 20 لاکھ ہیں۔

ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ کچھ اعداد و شمار کافی ہیں۔ جس سے دنیا کی صورت حال، عالم اسلام کی صورت حال، پھر ہمارے براعظم اور ہمارے پڑوس کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ اعداد و شمار انور یوسف صاحب کے 2 نومبر کے روزنامہ اسلام کے کالم سے لیے گئے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں اپنی خیبر کی زمین اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تم اصل زمین کو وقف کر دو اور اس سے جو کچھ پیدا ہو، اسے بطور صدقہ تقسیم کر دو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ اللہ کی راہ میں دے دیا، یعنی وقف کر دیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اسے کسی کی میراث قرار دی جائے۔یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح میں موجود ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ معلوم ہوتا ہے۔ زمین اضافی ملی تو فوراً اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبے کے ساتھ حاضر ہو گئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کی جانب رہنمائی فرما دی تاکہ اس کے اثرات دور رس ہو جائیں۔ تم یہ زمین وقف کر دو، باقی پیداوار اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی رہے گی۔ اس طرح اس کا معاشرے پر دیر تک اثر پڑتا رہے گا اور تمہارا ثواب بھی جاری رہے گا۔

اس وقت دنیا سسک رہی ہے۔ مالدار مال بنانے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ غریب غربت، ناداری اور پریشانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جس کی ایک جھلک شروع میں آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ صورت حال انفرادی سطح پر بھی ہے اور ملکوں کی سطح پر بھی۔اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر امت کو ان مشکل حالات سے نکالنے کی کوشش ضرور کریں۔ کوشش کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ہم امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے لیے دعا ضرور کریں۔ اللہ تعالی نے ہمیں سکون و عافیت دی، اس کی قدر کریں۔ اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار رہیں۔ جتنی ہو سکیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں۔

حضرت عمر کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کا مشورہ عنایت فرمایا۔ یہ مشورہ آج بھی ہمارے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے راہیں فراہم کر سکتا ہے۔ تو آئیے! دیکھتے ہیں کہ وقف سے کیا مراد ہے؟ وقف کیوں کیا جاتا ہے؟ وقف کس چیز کا کیا جا سکتا ہے؟ وقف کے دنیاوی فوائد کیا ہیں؟ وقف کے آخرت میں فوائد کیا ہیں؟ وقف کس مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت ہم وقف کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ 

وقف کیا ہے؟

وقف سے مراد کسی چیز کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد بندوں کے لیے قرار دینا۔ جیسے کوئی زمین یا مکان وقف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکان یا دکان اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی گئی۔ اب اس کے فوائد جیسے زمین کی صورت میں اس کا استعمال یا پیداوار اور گھر کی صورت میں اس کی رہائش کا حق دار وہ ہو گا جس کے بارے میں وقف کرنے والا کہے۔ جیسے میں اپنا گھر غریبوں کے لیے وقف کر دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر تو اللہ تعالی کی ملکیت میں چلا گیا۔ باقی اس میں رہائش یا رہائش کے ذریعے ہونے والی کمائی غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔

وقف کی ضرورت

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جس میں کوئی رقم کسی کو دیے دینے سے لے کر کسی کو کوئی سہولت فراہم کرنا سب شامل ہیں اور اخلاص کے بقدر اس پر اجر اللہ تعالی کی جانب سے ملے گا۔ بعض اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ ایسا کوئی صدقہ کیا جائے جس کا اجر مستقل ملتا رہے۔ ایسی صورت میں شریعت صدقہ کرنے کا طریقہ بتا تی ہے۔ جس میں اصل چیز اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اس کے فوائد متعینہ لوگوں کو ملتے رہتے ہیں اور وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔

وقف کس چیز کا کیا جائے؟

اصولاً تو صرف جائیداد اور زمین کو ہی وقف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وقف میں اصل کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد کو لوگوں کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ یہ بات جائیداد وغیرہ میں تو پائی جاتی ہے۔ جبکہ باقی چیزیں بہت جلد استعمال سے خراب یا ختم ہو جاتی ہیں۔ البتہ جائیداد کے ساتھ دیگر اشیا بھی وقف کی جا سکتی ہیں، جیسے: زمین وقف کی تو اس کے ساتھ ٹریکٹر، ٹیوب ویل بھی وقف کر دے تا کہ پیداوار میں سہولت رہے۔ الگ سے اخراجات نہ کرنے پڑیں۔

وقف کے مقاصد

وقف کسی گناہ کے کام کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ باقی کسی نیک مقصد کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے! وقف سے فائدہ اٹھانے والا مسلمان یا غیر مسلم دونوں ہو سکتے ہیں، لہذا وقف اگر عام رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے۔ جیسے پانی کا کنواں کھدوایا، کوئی باغ وقف کیا تو جس طرح مسلمان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، غیر مسلم بھی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح وقف کرنا درست ہے۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ انسان ہی کسی وقف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ٹرسٹ جانوروں کی فلاح کے لیے ہو سکتا ہے، لیکن وقف صرف جانوروں، کتے، بلی وغیرہ کی فلاح بہبود کے لیے نہیں ہو سکتا۔

وقف کے اُخروی فوائد

وقف کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔ مرنے والے کے مر جانے کے بعد بھی اس کا نامہ اعمال میں ثواب چلتا رہتا ہے۔ اسی بات کی طرف ایک حدیث میں اشارہ فرمایا گیا کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جس نے کوئی نہر کھدوائی ہو یا نیک اولاد چھوڑی ہو یا کسی نیک کام کی بنیاد رکھی ہو توا س کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ وقف بھی انہی اعمال میں سے ہے، جس میں انسان کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ تو ہم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا ثواب چلتا رہے تو وقف اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

وقف کے دنیاوی فوائد

ایک ہے صدقہ یا خیرات کرنا۔ اس سے غریب کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے، لیکن ایسا کوئی قدم اٹھانا جس سے معاشرے کی فلاح و بہبود میں تیزی سے اضافہ ہو تو اس کے لیے وقف ایک مثالی ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت معاشی مسائل میں سرفہرست غربت ہے۔ جس کی ایک جھلک ہم نے مضمون کے شروع میں آپ کے سامنے پیش کی۔ وقف کو استعمال کر کے غربت کا بہترین حل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسے وقف بنائے جا سکتے ہیں جو معاشرے سے ہی عطیات وصول کریں اور براہ راست غریبوں پر خرچ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقف کی بنیاد پر ایسے ادارے بنائے جا سکتے ہیں، جو معاشرے میں ٹیکنکل تعلیم فراہم کریں۔ ٹیکنکل تعلیم سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے، ہنر مندی سکھانے والے ادارے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں اور بہت سے ادارے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد کام شروع کریں گے، لیکن یہ ادارے معاشرے کے مالدار افراد کی توجہ حاصل کر کے دولت کے بہاؤ کو ناصرف غریبوں کی طرف کریں گے، بلکہ اس طریقے سے کریں گے کہ دولت کا استعمال بہت بہتر انداز میں ہو گا اور بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل حل ہوتے جائیں گے۔

آج ہم حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرتی۔ غریبوں کا خیال نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو غریبوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ بے روزگار لوگوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ کفالت عامہ کا نظام تھا، لیکن وقف ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر حکومت کے بھی ہم اپنے معاشرے کو بنا سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے وقف کے بارے میں چند بنیادی باتیں رکھی ہیں، تفصیلات اہل علم سے معلوم کر یں۔ ہمیں ہمت کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔

اسلامی معاشیات

مولانا شیخ نعمان

شریعہ ڈپارٹمنٹ، بینک اسلامی

.............

Wednesday, September 17, 2025

 *عرب اسپرنگ ۔سری لنکا.بنگلہ دیش ۔نیپال اور فرانس ہنگامہ آرائیاں*



جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے


جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 

دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکا ن نہیں ہے 

 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا

 ایک بدعتی شاعر کی شہر دیوبند پر تنقید اور

 مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ کی طرف سے اس کے شعر کا جواب۔


                تنقید 


دغا کی "دال" ہے یاجوج کی ہے "یا" اس میں

وطن فروشی کا "واؤ" بدی کی "با" اس میں


جو ان کے "نون" میں نار جحیم غلطاں ہے

تو اس کی "دال" سے دہقانیت نمایاں ہے


ملے یہ حرف تو بے چارہ *دیوبند* بنا

برے خمیر سے یہ شہر نا پسند بنا


           *جواب تنقید*

از۔ مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ


دعا کی "دال" کو کہتے ہو تم دغا کی ہے

علاجِ چشم کراؤ بڑی خطا کی ہے


یہ " دال" دولت دنیا و دیں سے ہے معمور

دماغ و دیدہ دل اس سے ہوگئے پرنور


غضب ہے " یا " تمہیں یاجوج کی نظر آئی

ضرور ڈوب گئی ہے تمہاری بینائی


نظر جماؤ کہ یاد خدا کی " یا " ہے یہ

یقین و یثرب و یمن و صفا کی " یا" ہے یہ


کہا جو " واؤ " کو تم نے وطن فروشی کا

ثبوت دے دیا اپنی گناہ کوشی کا


ادب کرو کہ وضو کا وفا کا " واؤ " ہے یہ

وقار و وعظ و وصال خدا کا " واؤ " ہے یہ


بدی کی " با " جسے کہتے ہو تم شرارت سے

وہ ہے بہشت بریں برکت و بہار کی " بے "


جو تم نے " نون " میں نار جحیم ہی دیکھی

تو کیا قصور تمہاری تو عاقبت ہے یہی


سنو کہ " نون " ہے نزہت و نفاست کا

نماز و نعمت و نیکی کا نور و نعمت کا


جو تم نے " دال " میں دہقانیت کی بو سونگھی

تو سمجھو اپنی غلاظت ہی ہو بہو سونگھی


ارے یہ " دال " دیانت کی دوستی کی ہے

درود کی ہے دوا کی ہے دل کشی کی ہے

بڑے ہی پاک عناصر سے دیوبند بنا

عدو کی جان جلی شہر دل پسند بنا

Tuesday, September 9, 2025

 جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے  اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا

Monday, July 21, 2025

 *بابُ ما جاء فی مذاہبِ بریانیہ*


(ہند و پاک کی بریانیوں کا ثقافتی و فقہی تجزیہ)

از: جامع الفتاوی و البریانیات



مقدمہ: بریانی صرف ایک کھانا نہیں، بلکہ ایک تہذیب ہے۔

یہ چاول اور گوشت کا وہ مقدس نکاح ہے، جس میں مصالحہ جات قاضی کا کردار ادا کرتے ہیں، یخنی خطبۂ نکاح ہے، اور دم پر رکھنا عقدِ دائمی کی علامت!


لیکن صد حیف! اس مقدس رشتہ میں آلو داخل کرکے کلکتہ والوں نے ایسا ظلم کیا ہے، جسے فقہائے بریانیہ کی زبان میں "نکاحِ فسخ شدہ بالمکر" کہا جائے گا۔



باب اول: فقہائے بریانیہ کے مختلف مکاتبِ فکر


*1. دہلوی فقہائے بریانیہ*


دہلی کی بریانی کو شائستگی، تہذیب اور امتیازی لطافت کا درجہ حاصل ہے۔

حضرت کریم ہوٹل (نزد جامع مسجد) کے ہاں بریانی وہ نازک طعام ہے جو نہ شور میں غرق ہوتی ہے، نہ مصالحے میں ڈوبی ہوتی ہے، بلکہ ہر دانہ توازن کا مظہر ہوتا ہے۔


یہاں بریانی گویا ایک غزل ہے،


چاول: قافیے

گوشت: ردیف

خوشبو: بحرِ رمل


فقہائے دہلی فرماتے ہیں:

"اذا حضرت البریانی فی دہلی، فہٰذا مجلسِ ادب لا مائدۃِ طعام!"




*2. لکھنؤی فقہائے بریانیہ (مکتبِ نَوَابی)*


بریانی یہاں ریشمی تہذیب کی علامت ہے۔

چاہے حقیقی دونگا بریانی ہو یا ٹونٹی دار یخنی، لکھنؤ میں بریانی پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ فنِ خورد و نوش کا ایک کلاسیکی باب ہے۔


ہر چاول: حرفِ تہذیب

ہر بوٹی: ایک قرینہ

ہر خوشبو: مصرعِ موقوف


یہ وہ ذائقہ ہے جو واجد علی شاہ کے شاہی باورچی خانوں سے چل کر آج بھی پرانے لکھنؤ کی گلیوں میں زندہ ہے۔


اودھ کی مشہور بریانی اور باورچی:

ادریس بریانی ( پاٹہ نالہ چوک) جس کا ہر نوالہ گویا "نوابی سلام" ہے


مبین بریانی (اکبری گیٹ)  جہاں یخنی بھی گویا غالب کی غزل ہے


للا بریانی (چونپٹیوں مارکیٹ)  جس کی دم دار تہیں لکھنؤ کی تہذیبی تہیں ہیں


ابصار بھائی: جن کا ہاتھ یخنی میں ڈوبا ہو، تو گویا فتوٰی میں عطر ہو


پوسو بھائی:جو بریانی کو خطِ نسخ میں لکھتے ہیں: واضح، خوش خط، لازوال!


لکھنؤ کے فقہاء کا اجماعی فتویٰ:

 "ہٰذہ بریانی علٰی میزانِ شرعی!"




*3. حیدرآبادی مکتبِ بریانیہ*


یہاں بریانی مسلکِ تند و تیز پر قائم ہے۔

اتنا مرچ، اتنا زور، اور اتنی خوشبو کہ:

پہلا لقمہ: استغفار

دوسرا لقمہ: توبہ

تیسرا لقمہ: "سبحان اللہ! یہی جنت ہے!"


چاہے شاہ غوث ہوٹل ہو، بسم اللہ ہوٹل یا پارک حیات 

یہ سب شعلہ بیان ذاکرین کی تقریریں محسوس ہوتی ہیں۔


احنافِ حیدرآباد کا قول:

 "بلا مرچ بریانی کالصلاۃ بلا تکبیر!"



*4. کلکتوی مکتب (جس پر نکیر واجب ہے)*


یہاں فقہی انحراف کی انتہا ہو چکی ہے۔

آلو کو بریانی میں داخل کر کے جو فتنہ و بدعت برپا کی گئی، وہ فقہائے ذائقہ کے نزدیک ایسا ہے جیسے نماز میں پتنگ اڑانا۔


مشہور بدعاتی نام:

آرسلان بریانی

زمزم بریانی

زہرا بریانی

حاجی صاحب بریانی


یہ محض بدعت نہیں بلکہ:

 "مکروہِ تحریمی مع الفسادِ الذوقی!"


آلو، جس کا اصل مقام ترکاری، شوربے یا بگھارے بیگن میں ہے، اسے بریانی میں داخل کرنا:

 "تحریفِ ترکیبِ الٰہی"


فقہائے دہلی و لکھنؤ کا اجماعی فتویٰ:

 "من جعل البطاطا فی البریانی، فلیس من اہلِ الذوق، و کان علیہ کفارۃُ صحنٍ کامل!"




*5. کراچی فقہائے بریانیہ*


کراچی کی بریانی اجتہادِ جری کا شاہکار ہے۔

یہاں کی اقسام مثلاً:


نورانی بریانی

نانبائی بریانی

فرحت بریانی

جعل بریانی


سب ایسی ہیں کہ مصالحہ جگر کو جھنجھوڑتا ہے، اور گوشت ایسا نرم کہ فقہائے مالکیہ بھی عش عش کر اٹھیں۔


کراچی کی بریانی اگر بغیر کباب ہو، تو یہ:


"قصر فی الفتوٰی" ہے!



*باب دوم: تہذیبی تسلسل*


شہر بریانی کی تعبیر


دہلی بریانی ایک شعر ہے

لکھنؤ بریانی ایک ادب ہے

حیدرآباد بریانی ایک خطابت ہے

کراچی بریانی ایک مزاحمت ہے

کلکتہ بریانی کا جنازہ ہے (آلو کی صورت میں)



*باب سوم: ردِ بدعتِ آلو*


لکھنؤی ادب فرماتا ہے:


جس بریانی میں نزاکت نہ ہو،

جس میں یخنی کا ذوق نہ ہو،

جہاں گوشت و چاول ہم آہنگ نہ ہوں

وہ طعام نہیں، فقط تغافل ہے!


جہاں دہلی بریانی کو غزل کہتی ہے، وہیں لکھنؤ کہتا ہے:


بریانی ایک رباعیِ ذائقہ ہے


1. پہلا مصرع: خوشبو

2. دوسرا مصرع: یخنی

3. تیسرا مصرع: گوشت

4. چوتھا مصرع: چاول کی تہ


یہ رباعی جب دم پر آئے، تو دل بھی دم بخود ہو جائے!

بریانی کو ویسے کھایا جائے، جیسے غالب کا دیوان پڑھا جاتا ہے 

آہستہ، انہماک سے، چاول چبائے نہیں جاتے، محسوس کیے جاتے ہیں۔



*اقوالِ فقہائے ذوق*


ابنِ دہلی:

من زاد فی البریانی مالا یلزم، فذوقہ ناقص و فہمہ فاسد!"




امامِ کریم ہوٹل:

آلو بریانی نہیں، فتنے کی ابتدا ہے!"




احنافِ حیدرآباد:

بریانی میں آلو ڈالنا ایسا ہے جیسے خطبۂ جمعہ میں لطیفہ سنانا!"



*خاتمہ*

بریانی ذائقے کی عبادت ہے۔

اسے آلو، کشمش، یا بد ذوق ہاتھوں کی تحریف سے محفوظ رکھنا فقہاءِ بریانیہ پر فرضِ کفایہ ہے۔

 فمن أراد أن یدخل الآلو فی البریانی، فلیخرج من دارِ ذوق، و لیدخل دارِ شبہات!



اللہم احفظ لنا بریانیاتنا، کما حفظت القرآن من تحریف الرافضۃ... آمین!

Sunday, June 22, 2025

بریلوی سے تین سوال

 *میرے استاذ محترم مفتی یوسف صاحب تاولی حفظہ اللہ نے دوران درس ایک واقعہ سنایا بغور پڑھیں* 

ایک مرتبہ میرا صابر کلیریؒ کے مزار پر جانا ہوا وہاں متولی حضرات کو جب پتہ چلا دیوبند سے ایک بہت بڑے مفتی صاحب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے میرا پر جوش استقبال کیا، حضرت کی قبر پر گیا ایصال ثواب کر کے جب واپس ہونے لگا تو متولی صاحب نے بڑی عاجزی و انکساری اور احترام کے ساتھ درخواست کی حضرت برکتًا ہمارے دسترخوان پر تشریف لے آئیں، میں نے بخوشی قبول کیا، 

حضرت نے آگے فرمایا جب میں آنے لگا تو میں نے ان متولی صاحب سے تین سوال کئے، 

سوال نمبر: ۱۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی؟    

ان صاحب نے جواب دیا جی بالکل اور جنکا یہ عقیدہ نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ 

سوال نمبر: ۲۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی؟ 

ان صاحب نے پھر وہی جواب دیا، 

سوال نمبر: ۳۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل قیامت کے دن اپنے امتیوں کے لئے سفارش کرینگے؟ 

ان صاحب نے بڑی تاکید کے ساتھ وہی جواب دیا، 


آگے حضرت فرماتے ہیں میں نے ان سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عالم الغیب ہیں پھر وحی کی کیا ضرورت تھی؟،

آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو حاضر و ناظر ہیں پھر معراج کی کیا ضرورت تھی؟، 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خود مختار ہیں تو پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے؟، 

حضرت نے فرمایا وہ شخص ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 

یہ تین عقائد ایسے ہیں جن میں بریلوی حضرات نے بہت ہی زیادہ افراط سے کام لیا ہے،

اور ہمارے بزرگوں نے ان کے غلط عقائد کو چٹکیوں میں تار تار کر دیا۔


عبدالماجد قاسمی

 اسلامی تنخواہ کا معیار گرا کر اسلام کی جڑوں کو کمزور کرنے کا ذمہ دار کون؟


❗ اکابر یا آج کے "موٹے لوگ"؟


🔍 سوال:


کیا واقعی ہمارے اکابر قلیل تنخواہوں پر زندہ رہتے تھے؟

کیا وہ بھی ہم مولویوں کی طرح اضطراری فقر کے مارے تھے؟

کیا قلتِ رزق کو نیکی اور اخلاص کی علامت سمجھنا واقعی درست ہے؟


آئیے! پہلے ان مثالوں کو غور سے پڑھتے ہیں جنہیں غلط طور پر "اخلاص کی دلیل" بنا کر پیش کیا جاتا ہے — مگر حقیقت بالکل برعکس ہے:


📚 اکابر کی تنخواہیں — حقائق اور تقابلی جائزہ


▶ حضرت قاسم نانوتویؒ


> سوانح قاسمی کے مطابق آپ آٹھ/دس روپے اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے۔ اس وقت اتنے میں ایک بھینس خریدی جا سکتی تھی۔

آج کے حساب سے یہ تنخواہ 45,000 سے زائد بنتی ہے۔



▶ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ


> حضرت گیلانیؒ کی کتاب کے مطابق آپ کی تنخواہ 75 روپے ماہانہ تھی۔

50 میں گھر چلاتے، 25 دارالعلوم کو واپس کرتے۔

اس وقت 75 روپے میں ایک مہنگی زمین کا پلاٹ خریدا جا سکتا تھا۔


▶ حضرت اشرف علی تھانویؒ


> علیحدگی کے وقت تنخواہ 50 روپے تھی۔

جب 500 روپے جمع ہو گئے تو فرمایا: “اب مجھ پر حج فرض ہو گیا ہے۔”

یعنی 10 ماہ کی تنخواہ سے حج ممکن تھا۔ آج حج کے لیے کم از کم 5 لاکھ درکار ہیں۔ کیا کسی مولوی کی سالانہ تنخواہ 5 لاکھ ہے؟



▶ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ


> تنخواہ 250 روپے، اور حج پر صرف 1500 روپے خرچ ہوا۔

یعنی 6 ماہ کی تنخواہ میں حج مکمل۔


⚖ اب آئیں موجودہ حقیقت کی طرف


آج ایک متوسط بھینس 45,000 سے 80,000 روپے میں ملتی ہے


حج کا خرچ 5 سے 8 لاکھ روپے


کرایے کا مکان کم از کم 10,000 – 15,000 روپے ماہانہ


دوا، بجلی، کپڑے، اسکول، کھانا — سب پر مہنگائی قیامت کی حد کو چھو رہی ہے


مگر…!


❌ امام کی تنخواہ: 5,000 – 10,000


❌ مدرس کی تنخواہ: 4,000 – 8,000


❌ مؤذن کی تنخواہ: 3,000 – 6,000


کیا یہ اسلامی ہے؟ کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہ شریعت کا تقاضا ہے؟



❗ مسئلہ کہاں ہے؟


"اکابر" نے تنخواہیں نہیں گھٹائیں


اکابر کے دور میں:


تنخواہیں وقت کے معیار کے مطابق تھیں


اخلاص، خوش حالی کے ساتھ تھا


فقر "اختیاری" تھا، "اضطراری" نہیں


"تنظیم" کمزور تھی، مگر "نظام" قوی تھا



🧱 آج کا نظام؟


مہنگی مسجدیں، سستا امام


عظیم الشان مدرسے، محتاج معلم


لاکھوں کے چندے، ہزاروں کی اجرت


ٹرسٹی و مہتمم کروڑ پتی، مدرس فاقہ کش


یہ نظام نہ دینی ہے، نہ اسلامی، نہ انسانی۔


🧨 خطرناک خام خیالی:


> "کم تنخواہ پر بھی صبر کرنا نیکی ہے۔


❌ نہیں! اگر تمہاری تنخواہ اتنی ہے کہ تم ماں باپ، بیوی بچوں، بیٹیوں اور اپنے جسم کے بھی حقوق ادا نہ کر سکو تو تم اللہ کی نظر میں کامیاب نہیں، مجرم ہو:


> "کاد الفقر أن یکون کفرا"

(فقر انسان کو کفر کے قریب کر دیتا ہے)



🧠 ایک سادہ حساب لگائیں:


اگر 1970 میں ایک عالم کی تنخواہ 500 روپے تھی:


اور مہنگائی 300% بڑھی


تو آج اس کی تنخواہ ہونی چاہیے 15,000 روپے سے زائد


مگر مدارس آج بھی 6,000 – 8,000 دیتے ہیں



کیا یہ اسلامی ادارہ ہے یا استحصالی نظام؟


📣 مولوی بھائیو! بیدار ہو جاؤ!


> "اخلاص کا لالی پاپ" کھا کر اپنی نسلوں کو فقر میں نہ دھکیلیں

دین کی خدمت ضرور کرو، مگر ذلیل ہو کر نہیں

اگر کوئی مسجد یا مدرسہ تمہیں وقت کے مطابق تنخواہ نہیں دیتا —

تو چھوڑ دو! ہجرت کرو! دوسرا ذریعہ تلاش کرو۔


> ✔ کوئی گناہ نہیں

✔ کوئی عیب نہیں

✔ اگر تم رزقِ حلال کے لیے دکان چلاتے ہو، آن لائن پڑھاتے ہو، قرآن کا کورس چلاتے ہو —

یہ بھی عبادت ہے، اگر نیت پاک ہو!


📢 اب اپیل ہے:


🕌 مہتممین و متولیین سے:


1. اگر آپ تنخواہ نہیں بڑھا سکتے، تو نظام کسی اہل کے سپرد کر دیں


2. اللہ کے بندو! مسجد سونے سے نہ بنے، انسانوں کی خدمت سے بنتی ہے


3. کمیٹی بدلو، نظام بدلو، یا خود کو بدل دو


4. جو شخص اس ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، وہ گناہگار ہے


🤲 اختتامی پیغام:


> یا اللہ!

امت کو فقر کے شکنجوں سے نکال

اماموں، مؤذنوں، معلموں کو عزت و آرام دے

اور ہمارے اداروں میں وہ روشنی بھر دے

جس سے دین کے اصل خادم پھر سے چراغ بنیں، اور امت کو اندھیروں سے نکالیں

آمین یا رب العالمین۔

امریکہ بمباری ممالک

 *امریکہ : انصاف کے نام پر ظلم اور دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر دہشت گردی کا بے تاج بادشاہ* 


یہ ان ممالک کی فہرست ھے، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا نے بمباری کی ھے :


1. جاپان: 6 اور 9 اگست 1945


2. کوریا اور چین: 1950–1953 (جنگِ کوریا)


3. گواتی مالا: 1954، 1960، 1967–1969


4. انڈونیشیا: 1958


5. کیوبا: 1959–1961


6. کانگو: 1964


7. لاؤس: 1964–1973


8. ویتنام: 1961–1973


9. کمبوڈیا: 1969–1970


10. گریناڈا: 1983


11. لبنان: 1983، 1984

 (لبنان اور شام میں اہداف پر حملے)


12. لیبیا: 1986، 2011، 2015


13. ایل سلواڈور: 1980


14. نکاراگوا: 1980


15. ایران: 1987


16. پاناما: 1989


17. عراق: 1991 

(خلیجی جنگ)، 1991–2003 (امریکی و برطانوی حملے)، 2003–2015


18. کویت: 1991


19. صومالیہ: 1993، 2007–2008، 2011


20. بوسنیا: 1994، 1995


21. سوڈان: 1998


22. افغانستان: 1998،

 2001–2015


23. یوگوسلاویہ: 1999


24. یمن: 2002، 2009، 2011


25. پاکستان: 2007–2015


26. شام: 2014–2015


ایران : 2025 


یہ فہرست 26 ممالک پر مشتمل ھے جن کو امریکہ نے انصاف کے نام پر ظلم اور ہر قسم کی زیادتی کا نشانہ بنایا.


*مندرجہ بالا ممالک کے ساتھ انصاف کا گلا گھونٹنے کے ساتھ ساتھ پچاسوں سال سے اسرائیل کے ذریعے فلسطین پر جو مظالم ڈھائے جا رھے ہیں اس میں امریکہ، برطانیہ وغیرہ کا اسرائیل کو بھرپور اور عملی تعاون اور سرپرستی حاصل ھے*. 


مہذب دنیا کے سامنے یہ ایک بہت بڑا سوال ھے کہ اس طرح کے مظالم کے خلاف آواز کب اٹھائی جائے گی یا پھر مان لیا جائے کہ دنیا ابھی انصاف کے اصولوں اور طور طریقوں سے ناآشنا ھے.

والسلام

محمد خالد

22 جون 2025

Friday, June 20, 2025

ناشطہ

 *حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، "ناشطہ" اور ایک بنگالی طالب علم*


ڈاکٹر تابش مہدی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں، ہمارے بزرگ دوست مفتی عبدالرٔوف  منصف مبارک پوری مرحوم نے اپنے دور طالب علمی کا ایک واقعہ ایک سے زائد بار سنایا تھا۔ بتایا کہ دارالعلوم دیوبند میں چوں کہ ناشتے کا نظم کبھی نہیں رہا ہے، جو طلبہ ناشتہ کرنا چاہتے ہیں، وہ  اپنے اپنے طور پر ناشتے کا نظم کرتے ہیں اور جن طلبہ کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی وہ صرف دوپہر اور رات کے کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کے ایک بنگالی ساتھی نے مہتمم صاحب کے نام درخواست لکھی۔ اُس کا مضمون کچھ اس طرح تھا:

حضرت ! میں بنگال کا ایک طالب علم ہوں دارالعلوم میں موقوف علیہ میں زیر تعلیم ہوں، دارالعلوم میں ناشتے کا کوئی انتظام نہیں ہے، میری حیثیت ایسی نہیں ہے کہ میں اپنے طور پر صبح کے ناشتے کا نظم کر سکوں، گھر میں رات کی روکھی سوکھی روٹی کھا کر کام چلاتا رہا ہوں، مدرسے میں اچھے نمبر حاصل کرتا رہا ہوں، الحمدللہ دارالعلوم میں بھی میری تعلیمی حالت اچھی ہے، اچھے نمبر لاتا ہوں، ساتھیوں سے مقابلہ رہتا ہے، لیکن دو پہر تک بغیر کچھ کھائے پیے پڑھنا میرے لیے بے حد مشکل ہے، اس کا اثر میری تعلیم پر بھی پڑ سکتا ہے، اگر حضرت والا میرے لیے ناشتے کا کوئی انتظام فرما دیں تو بڑی نوازش ہوگی، تعلیم کی تکمیل بھی ہو جائے گی اور میرے نمبرات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔“

اس مضمون کی درخواست وہ طالب علم دفتر اہتمام کے منشی کو دے کر آ گیا حضرت مہتمم صاحب تشریف لائے، درخواست دیکھی تو مسکرائے اور کسی چپراسی کے ذریعے سے اُس طالب علم کو بلوایا، وہ آیا اور سلام کر کے کھڑا رہا، حضرت قاری صاحب نے کچھ دیر بعد سر اٹھایا۔ پوچھا: درخواست آپ کی ہے؟ اس نے کہا: جی حضرت! حضرت قاری صاحب نے فرمایا: آپ کی صلاحیت اور استعداد کا عالم یہ ہے کہ آپ ناشتہ "ط" سے لکھتے ہیں "ناشطہ" ۔ لیکن رعایت اتنی بڑی چاہتے ہیں کہ دارالعلوم کے قانون اور ضابطے  کے علی الرغم آپ کے ساتھ خصوصی معاملہ کیا جائے، حضرت قاری صاحب کی یہ تنقیدی گفتگو سن کر وہ طالب علم فورا کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مخاطب ہوا اور کہا: حضرت! آپ ناشتہ "ت" سے لکھتے ہیں؟ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد بولا صحیح لفظ تو "ناشطہ" ہی ہے، یہ نشاط پیدا کرتا ہے، صبح کا یہ ناشطہ، دن بھر انسان کو چاق و چوبند اور پھرتیلا رکھتا ہے، اگر ناشتہ "ت" سے عام ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہئے، قاری صاحب نے خفیف مسکراہٹ کے بعد اسے رخصت کیا اور منشی دفتر سے کہا: منشی جی! اگر چہ دارالعلوم میں ناشتہ کا نظم نہیں ہے، لیکن اس طالب علم کو اس کی حاضر دماغی اور ذہانت کے پیش نظر میرے حساب میں ناشتہ کی بہ قدر رقم ہر ماہ دی جاتی رہے۔

Monday, June 16, 2025

اسلامی ممالک کونسے ؟

 جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے یہ جاننے کے لیے ایک تحقیق کی کہ اسلامی ممالک واقعی کیسے ہیں۔


جب اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سے ممالک اسلام کے ریاستی اور معاشرتی اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ جو ممالک اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں، وہ واقعی مسلمان ممالک نہیں ہیں۔


تحقیق سے یہ بات سامنے آئی


نیوزی لینڈ دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔


اس کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور کینیڈا ساتویں نمبر پر ہے۔


جبکہ


ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں اور بحرین 64ویں نمبر پر ہے۔


اور چونکا دینے والی بات یہ ہے۔


سعودی عرب 131 ویں نمبر پر ہے۔


یہاں تک کہ بنگلہ دیش سعودی عرب سے بھی نیچے آتا ہے۔


یہ تحقیق گلوبل اکانومی جرنل میں شائع ہوئی۔


تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے۔


مسلمان نماز، روزے، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی اور لباس پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں،


لیکن ریاستی، سماجی اور کاروباری زندگی میں اسلام کے احکام پر عمل نہ کریں۔


مسلم دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی تقاریر، واعظ اور نصیحتیں سنی جاتی ہیں،


لیکن آج تک کوئی مسلمان ملک دنیا کا بہترین ملک نہیں بن سکا۔


ایک سادہ حساب کے مطابق،


مسلمانوں نے گزشتہ 60 سالوں میں تقریباً 3000 جمعہ کے خطبے سنے ہیں،


لیکن سماجی نظام اور انصاف میں اب بھی پیچھے ہیں۔


ایک چینی تاجر نے ایک بار کہا:


’’مسلم تاجر ہمارے پاس آتے ہیں اور دوسرے درجے کی جعلی اشیاء کا آرڈر دیتے ہیں اور ہم سے کہتے ہیں کہ اس پر کسی مشہور کمپنی کا لیبل چسپاں کریں۔


لیکن جب ہم انہیں کھانا پیش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں - 'یہ حلال نہیں ہے، میں اسے نہیں کھاؤں گا۔'


تو سوال یہ ہے کہ کیا جعلی اشیاء بنانا حلال ہے؟


ایک جاپانی نو مسلم کہتا ہے:


’’میں نے مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلامی احکام پر عمل کرتے دیکھا ہے،


اور میں نے مشرقی ممالک میں اسلام کو دیکھا ہے، لیکن مسلمان نہیں۔


الحمدللہ میں اس فرق کو پہچان کر اسلام قبول کر چکا ہوں۔


✅ اسلام صرف نماز اور روزے کا نام نہیں ہے،


لیکن یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے


جس کی جھلک ہمارے باہمی رویے، معاشرے، کاروبار اور انصاف میں بھی ہونی چاہیے۔


اگر کوئی شخص کثرت سے نماز پڑھے اور اس کی پیشانی پر نشان ہو۔


اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک متقی ہے۔


یہ ایک دکھاوا بھی ہو سکتا ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"حقیقی مسکین وہ ہیں جو قیامت کے دن روزہ، نماز، حج اور صدقہ لے کر آئیں گے۔"

لیکن انہوں نے دوسروں پر ظلم کیا ہوگا

کسی کی عزت پر حملہ ہوا ہو گا

کسی کا مال ہتھیا لیا ہو گا

پھر ان کی تمام نیکیاں دوسروں کو دے دی جائیں گی۔

اور آخر میں جب کچھ نہیں بچا،

پھر دوسروں کے گناہ ان پر مسلط کر دیے جائیں گے اور انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"


👉 اسلام دو حصوں میں ہے:


1. ایک ہے - "ایمان"، یعنی زبان سے کلمہ کہنا۔



2. اور دوسرا ہے - "احسان"، یعنی برتاؤ، طرز عمل اور سماجی ذمہ داریوں کی پابندی۔

جب تک دونوں پر اکٹھے عمل نہیں کیا جائے گا اسلام نامکمل رہے گا۔

اور یہ ادھورا پن آج ہر مسلمان ملک میں نظر آرہا ہے۔




🧭 ذاتی عبادات - جیسے روزہ، نماز - اللہ اور اس کی رعایا کے درمیان معاملہ ہے،


لیکن سماجی انصاف، کسی کے حقوق کی ادائیگی، بے ایمانی سے بچنا - معاشرے کے لیے انصاف کا معاملہ ہے۔


اگر مسلمان اپنی ذاتی زندگی اور سماجی رویے میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔


پھر مسلم معاشرہ کرپٹ ہو جائے گا


اور مستقبل ذلت آمیز ہو گا۔


لارڈ برنارڈ شا نے ایک بار کہا تھا:


🔸 "اسلام بہترین مذہب ہے اور مسلمان بدترین پیروکار۔"


📿 اللہ ہمیں سچا مسلمان بنائے نہ کہ صرف اسلام کو پہچاننے والا۔


لیکن جو اس پر عمل کرتے ہیں - آمین۔ 🤲

Saturday, June 14, 2025

 *چار باتوں کو اپنالو، بہترین مسلمان بن جاؤگے*


ہمارے بزرگ ولی کامل حضرت مولانا مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب حفظہ اللہ خلیفہ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ فرماتے ہیں "چار باتوں کو اپنالو، بہترین مسلمان بن جاؤگے"

1️⃣:توحید کی آڑ میں انبیاء و اولیاءاللہ کی توہین (کرنے) سے بچو! 

بعض لوگوں کو مسئلہ توحید سمجھ نہی آتا وہ توحید کے خودساختہ نشے اور توحید کی اپنی عقل سے مأخوذ تشریح میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کے انبیاء کرام کے معجزات بھی انہیں شرک لگنے لگتے ہیں۔

اہل سنت والجماعت کے عقائد سے ہی منحرف ہوجاتے ہیں اولیاء اللہ کی کرامات کے یکسر منکر ہی ہوجاتے ہیں۔۔

اس معاملے میں اعتدال اور فہم وفراست کی ضرورت ہے۔

2️⃣: عقیدت و محبت کی آڑ میں شرک و بدعت (میں مبتلا ہونے) سے بچو! 

بعض لوگ انبیاء اور اولیاء کرام کی محبت میں اتنا غلو کرجاتے ہیں کے (العیاذ باللہ) شرک تک پہنچ جاتے ہیں۔

(اللہ رب العزت ایسی اندھی محبت سے ہمیں محفوظ رکھے) 

یہاں پر بھی اعتدال کے دائرہ میں رہنا ضروری ہے۔

3️⃣: تحقیق کی آڑ میں اسلاف پر تنقید(کرنے) سے بچو! 

بعض لوگ عربی سے معمولی آشنائی پاکر تفسیر اور احادیث کی تشریح کرنے لگ جاتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اسلاف امت پر طعن وتنقید کے نشتر چلانے لگتے ہیں۔۔۔

کچھ اس حدتک آگے بڑھ جاتے ہیں کے صحابہؓ پر بھی ذاتی رائے پیش کرکے توہین و تنقیص کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔

پھر نتیجہ توہین انبیاء اور توہین رب کی صورت بھی برآمد ہوجاتا ہے(اعاذنااللہ من ذلک) ۔

اپنی تحقیق کو حرف آخر سمجھ کر سلف صالحین اور اکابرین امت پر طعنہ زنی سے بہتر ہیکہ بندہ جاہل بن کر تقلید علماء کرے اور اپنی آخرت محفوظ بنائے۔

4️⃣: دین کے لئے برسرپیکار مختلف شعبوں میں باہمی تقابل (مقابلہ بازی) سے بچو! 

بعض لوگ اپنی جماعت یا ترتیب سے متعلق اس حدتک غلو کرجاتے ہیں کہ دوسروں پر تنقید کئے بغیر انہیں چارہ کار نہی ہوتا۔

حالانکہ تبلیغی جماعت، دینی مدارس، مجاہدین، خانقاہ، تعلیمی مکاتب اور مختلف شعبہ جات /جماعتوں سے وابستہ علماء کرام اپنی اپنی جگہ دین کا کام ہی کررہے ہیں لہٰذا اس میں تقابل کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔

 سور کیوں پیدا کیا گیا

ہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے


یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے۔

کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔

اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے  پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تاکہ پیسے بھی کمائے جا سکیں۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کامیاب رہا۔

شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر  contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔

چونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔ 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔

اس کے بعد وہ سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان *حقائق کو پہچان لیا اور PIG FAT لکھنے کے بجائےانہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا

P

1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ  کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے...؟تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال  اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔

اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔!

آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیااستعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی  رہے۔ اس طرح  انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS  کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں، 


ان مصنوعات میں

دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں

کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات شامل ہیں چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔

 سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے۔

لہذا  تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری  کرتے وقت ان کے content کی فہرست کو لازمی  چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہو تو پھر اس سے یقینی طور پر بچیں،کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔

 E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E905


ڈاکٹر ایم امجد خان

میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ


👈براہ کرم اس وقت تک شیئر کرتے رہیں جب تک کہ وہ بلائنس آف مسملز ورلڈ وائڈ پر نہ آجائیں


 یاد رھے کہ شیئرنگ صدقة جاريه میں گردانی جا سکتی ھے.

Thursday, June 12, 2025

 سعودی فتویٰ ہاؤس نے محمد بن سلمان کی درخواست کے برعکس مذاہب کے اتحاد کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا اور اس کی دعوت دینے والوں کو کفر کا مرتکب قرار دیا۔


سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی نے “مذاہب کے اتحاد” اور “ابراہیمی ہاؤس” کے متعلق پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے درج ذیل فتویٰ جاری کیا:


مستقل فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ - فتویٰ نمبر 19402


“تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو اُن پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں، اور ان کے اہلِ بیت و صحابہ اور جو ان کے طریقے پر چلتے رہے قیامت تک۔ بعد ازاں…”


مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء نے ان سوالات اور میڈیا میں شائع مضامین کا جائزہ لیا جو مذاہب کے اتحاد (اسلام، یہودیت، اور عیسائیت) کے بارے میں پیش کیے گئے، جن میں یہ تجویز دی گئی کہ ایک ہی جگہ مسجد، چرچ، اور مندر بنائے جائیں یا قرآن، تورات، اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کیا جائے۔ اس مسئلے پر غور کے بعد کمیٹی نے درج ذیل فیصلہ کیا:


Fatwa no:19402


 1. پہلا نقطہ:


اسلامی عقیدے کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین حق نہیں ہے، اور یہ آخری دین ہے جو تمام سابقہ مذاہب اور شریعتوں کو منسوخ کر چکا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:


“بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔”


 2. دوسرا نقطہ:


قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے اور اس نے تورات، زبور، انجیل اور دیگر کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔


 3. تیسرا نقطہ:


تورات اور انجیل کے منسوخ ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں تحریف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات میں ذکر ہے۔


 4. چوتھا نقطہ:


حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔


 5. پانچواں نقطہ:


جو کوئی اسلام قبول نہ کرے، خواہ وہ یہودی، عیسائی یا کوئی اور ہو، وہ کافر ہے اور اللہ کا دشمن ہے، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ جہنم کا مستحق ہے۔


 6. چھٹا نقطہ:


مذاہب کے اتحاد کی دعوت ایک فتنہ انگیز اور مکارانہ سازش ہے جس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا اور مسلمانوں کو مرتد کرنا ہے۔


 7. ساتواں نقطہ:


اس دعوت کا ایک اثر یہ ہوگا کہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کا کفار کے ساتھ بیزاری کا رویہ ختم ہو جائے گا، جس سے جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی جدوجہد بھی ختم ہو جائے گی۔


 8. آٹھواں نقطہ:


اگر کوئی مسلمان اس دعوت کو فروغ دے تو وہ دینِ اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ دعوت اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔


 9. نواں نقطہ:


 • مسلمان کے لیے اس دعوت کی حمایت کرنا، اس کے سیمینارز میں شرکت کرنا یا اس کے خیالات کو پھیلانا جائز نہیں۔


 • قرآن، تورات اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کرنا یا مسجد، چرچ اور مندر کو ایک جگہ بنانا ناجائز ہے، کیونکہ یہ اسلام کی برتری کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔


مستقل فتویٰ کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء


“اللہ اس فیصلے کو کمیٹی کے لیے اجر کا ذریعہ بنائے، آمین۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔”


اس پیغام کو آگے بڑھائیں اور آپ کو ان لوگوں میں شمار کیا جائے گا جو اس گمراہ کن نظریے کے سب سے پہلے انکار اور رد کرنے والے ہیں، اور بطور داعی، معلم، طالب علم اور اجر کے متلاشی اس پیغام کا حصہ بنیں ۔۔

Tuesday, May 20, 2025

 As per Kanth Raj Report Muslim community has 100 casts in Karnataka.


MUSLIM

ATARI/ATTARI MUSLIM

ATHARI MUSLIM

BAGBAN/BAGHBAN/BHAGABAN

BAGWAN

BAIG MUSLIM

BANGADIWALA MUSLIM

BANGI MUSLIM

BOHARA

BOHRA

BORA

BYARI

BYARI MUSLIM

CHAPPARBAND

CHAPPERBANDA

DAKHANI MUSLIM

DARJI MUSLIM

DARVESU

DARVESU MUSLIM

DAVERAWALE MUSLIM

DHOBI MUSLIM

DUDEKULA

FAKIR MUSLIM

FULL MALI MUSLIM

GAVANDI MUSLIM

GHYARE MUSLIM

GOULI MUSLIM

GOUNDI MUSLIM

GOVANDI MUSLIM

HAJJAM/HAJAM MUSLIM

HUTGAR/HUTKAR MUSLIM

IRANI

IRANI MUSLIM

JATGIR MUSLIM

JATHAGARA/ JATHAGERA

JATIGAR

JOHARI MUSLIM

JULOHI/JULAHI MUSLIM

KALAIGAR MUSLIM

KASAI MUSLIM

KASBAN MUSLIM

KASBIN MUSLIM

KASSAB MUSLIM

KHADIM MUSLIM

KHAKAR MUSLIM

KHALIFA MUSLIM

KHASAB MUSLIM

LABBE MUSLIM

LADAF

LADAF MUSLIM

LUHAR MUSLIM

MAPILLA MUSLIM

MAPLA/MAPILLA

MEHDAVIYA MUSLIM

 MEMON MUSLIM

MOGHAL MUSLIM

MOMIN MUSLIM

MOUZAN MUSLIM

MUJAVAR MUSLIM

MULLA MUSLIM

MULLAN

MUTAWALI MUSLIM

NADAF

NADAF MUSLIM

NALABANDA MUSLIM

 NAVAYAT

NAVAYAT MUSLIM

OTARI MUSLIM

PATTEGAR MUSLIM

PATHAN MUSLIM

PATVEKARI MUSLIM

PEER/PIR MUSLIM

PENDAR MUSLIM

PENDARA / PENDARI

 PESH-IMAM MUSLIM

PHOOLARI/ PHULARI MUSLIM

PHOOL MALI MUSLIM

PHUL MALI MUSLIM

PINDARI

PINJAR/PINJARA MUSLIM

PINJARA

PINJARI

PINJARI MUSLIM

QAZI MUSLIM

QURAISHI/ QURESHI MUSLIM

RANGREZ MUSLIM

SAJJADAS MUSLIM

SALFI MUSLIM

SATANI MUSLIM

SHAIK MUSLIM

SHIKALGAR / SHIKKALIGAR/MUSLIM

SHIYA MUSLIM

SIKKALIGARA MUSLIM

SIPAAYI MUSLIM

SONAR MUSLIM

SUNAR MUSLIM

SUNNI MUSLIM

SYED MUSLIM 

TAKANKAR MUSLIM

TELI MUSLIM

Wednesday, May 7, 2025

 جاوید احمد غامدی صاحب اور استعماری جدیدیت


✍️ از: نادر عقیل انصاری


احقر 86ء میں جاوید غامدی صاحب سے متعارف ہوا، اور تقریباً بیس برس مختلف حیثیتوں میں المورد اور اس کی فکر سے وابستہ رہا۔ میں اس دوران المورد کا صدر رہا، ماہنامہ اشراق اور انگریزی ماہنامے ’’رینی ساں‘‘ کا مدیر رہا، اور المورد میں پڑھا بھی اور پڑھایا بھی۔ اس تمام مدت کے دوران غور و فکر اور مطالعہ جاری رکھا۔ غالباً 2005 کے قریب مجھے اس فرقے سے دینی و فکری اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ غامدی صاحب کے کام میں بعض بنیادی دینی اور علمی سقم ہیں۔ جاوید غامدی صاحب اور المورد کے رفقاء کے ساتھ بہت گفتگوئیں ہوئیں، مذاکرے اور مباحثے ہوئے، حتیٰ کہ تحریری تبادلہ بھی ہوا، جو سنہ 2010ء تک جاری رہا، جس میں درجنوں خطوط کا تبادلہ ہوا۔ لیکن اس تبادلے سے اس فرقے کے بارے میں میرے نتائجِ فکر کی تصدیق ہی ہوئی۔ میری بعض تحریروں سے کچھ قارئین کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ جاوید غامدی صاحب سے میرے اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ منکرِحدیث ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ منکرِحدیث تو وہ ہیں ہی، لیکن ان کی اصل غلطی یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ دین کی تمام نصوصِ مطہرہ کو مغربیت کی گاڑی میں جوتنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس اعتبار سے انکارِ حدیث انہیں موافق آیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی تعبیر پر بھی استعماری جدیدیت کی حاکمیت قائم کرنے کی سعی کی ہے۔ قرآن مجید کی متجددانہ اور استعماری تعبیر اور انکارِ حدیث مقاصد نہیں، ذرائع ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ جدیدیت کا تہذیبی، علمی، اور فکری حملہ ہے، جس کے آگے غامدی صاحب دانستہ یا نادانستہ سپر ڈال چکے ہیں۔ وہ مغربی فکر سے کوئی زیادہ واقف نہیں ہیں، لیکن اس کا جو مبتدیانہ فہم رکھتے ہیں، اس کی وجہ سے – اور اس سے زیادہ مغربی تہذیب کے اقتدار اور غلبہ کی وسعت و گیرائی اور اس کی چکاچوند کے آگے فکری بےبسی کی وجہ سے – اسلام کو مغربی تہذیب کا محتاج تسلیم کر چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دینی نصوص کو اس مقصد میں پوری طرح کھپا دیا ہے۔ مئے فرنگ کے ایک دو گھونٹ لے کر ہی ان کے علم و فکر شل ہو گئے، اور یہ شطحات ان کی زبان سے اسی عالمِ سکر میں صادر ہوئی ہیں: ’’اب جہاد لاعلائے کلمۃ الحق حرام ہے‘‘، ’’ہمارے دور میں جزیے کا نفاذ غیراسلامی ہے‘‘، قبائلی مسلمانوں کی طاقت ختم کرکے انہیں تحلیل کردینا چاہئے، زکوٰۃ کا نصاب مقرر کرنے کا حق حکومت کو ہے‘‘، ’’توہین رسالت اور ارتداد کی کوئی سزا نہیں‘‘، ’’جمہوریت عین اسلام ہے‘‘، ’’شادی شدہ زانی و زانیہ کےلیے رجم کی سزا غیراسلامی ہے‘‘، ’’قومی ریاست کوئی کفر نہیں‘‘! جو اہل علم ان کی دینی آراء سے واقف ہیں وہ اس کی تصدیق کریں گے کہ اپنے تفردات اور اپنی تمام ما بہ الامتیاز آراء کے نتیجے میں، انہوں نے جدیدیت کے کسی نہ کسی پہلو کو ’’قرآنی سند‘‘ مہیا کرنے کی کوشش کی ہے، اور ’’حسنِ اتفاق‘‘ سے، ان کے ’’اجتہادات‘‘ کا وزن ہر مرتبہ جدیدیت ہی کے حق میں پڑا ہے! مسلمانوں کا ایک کھاتاپیتا اور مغربی تعلیم یافتہ طبقہ عملاً جدیدیت کی ثقافت کو اختیار کر چکا ہے، اور مدت سے اپنے اس ’’تہذیبی ارتداد‘‘ پر احساسِ جرم کا شکار چلا آتا ہے۔ غامدی صاحب نے اس تہذیبی ارتداد کو ’’دینی نصوص‘‘ سے مستحکم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اُن جیسے متجددین کے کام کے نتیجے میں اس طبقے کا یہ احساسِ زیاں رفتہ رفتہ رفع ہو رہا ہے۔ اس طبقے میں ان کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے۔ بےشک، جدید اسلام کا ایک بڑا therapeutic کردار ہے، یعنی جدید اسلام دراصل ماڈرن مسلمان کے guilt کی دوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ دوا جرم کو نہیں، احساسِ جرم کو مٹاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں مجرم کو اور بھی زیادہ جری اور بےباک بنا دیتی ہے۔

جاوید غامدی صاحب کے کام سے واضح ہے کہ مغربی تہذیب کا ایک لولا لنگڑا ڈسکورس ہی ان کے نزدیک ’’خالص‘‘ اسلام قرار پایا ہے۔ جیسے ہی سمجھ میں آیا کہ غامدی صاحب جدید اسلام کی اُسی روایت کے مقلد ہیں، جس کی نیو، استعمار کے زیراثر، سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد قادیانی، اور مولوی چراغ علی وغیرہ نے رکھی تھی، میں ان کی فکر سے بیزار ہو گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عمر کا ایک حصہ اس کی نذر کیا اور بہتوں کو یہی پیغام پہنچایا۔ مجھ جیسے گنہ گار اور بےمایہ مسلمان سے، الحاد و زندقے کی ترویج میں شرکت کا یہ اضافی بوجھ کہاں اٹھایا جاتا ہے؟ الا یہ کہ میں استغفار کروں اور اس کے ازالے کی کوشش کروں؟ اس مبتدع فکر سے رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں، اور قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی میرے لیے استغفار فرمائیں۔ سنہ 2005ء سے قبل کی تمام تحریروں اور تقریروں سے رجوع کا یہ اظہار جتنے زیادہ وسیع دائرے تک پہنچ سکے گا، میرے لیے وجہِ تسلی ہو گا۔ ۔ ۔

Sunday, April 27, 2025

 *وقف زمینوں کا سب سے بڑا گھوٹالہ بھوپال میں ہوا ہے۔* جہاں وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق بھوپال میں 125 قبرستان ہیں؛ لیکن اب صرف 24 قبرستان ہی بچے ہیں۔ اس مہا گھوٹالے کا پردہ فاش کرتے ہوئے آج سے ٹھیک دو سال پہلے 26 اپریل 2023ء کو ”دینک بھاسکر“ نے ایک بہت ہی سنسنی خیز رپورٹ شائع کی تھی؛ جس میں اس نے لکھا تھا: *”یا خدا! چوری ہوگئے بھوپال کے 101 قبرستان“*

 اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وقف قبرستان کی زمین پر کہیں سرکاری دفتر بنے ہوئے ہیں تو کہیں پوری کالونی بسا دی گئی ہے۔

 دینک بھاسکر نے اپنی اس سنسنی خیز رپورٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی تھی، جس میں اس نے میپ کے ذریعے بتایا تھا کہ وقف کی زمین پر ہوم گارڈ آفس، مہیلا تھانہ، پولیس کنٹرول روم، ٹریفک تھانہ اور اور ٹریفک پارک بنے ہوئے ہیں۔

بطورِ حوالہ ”دینک بھاسکر“ کے مذکورہ رپورٹ کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے؛ تاکہ سَند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔


*———————————————*

*آن لائن نیوز اردو* گروپ جوائن کریں۔👇 

https://chat.whatsapp.com/Lc5OIqaYAvOESEvqqmfhKC

Saturday, April 26, 2025

 *ایک دھماکہ خیز انکشاف — اور ایک صدمہ انگیز فیصلہ۔* 


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ بیان نے مسلم دنیا کے دل چیر دیے۔ اُنہوں نے کہا:


"عراقی سیاستدانوں نے جن بھاری رقوم کو امریکی بینکوں میں جمع کر رکھا تھا، اب وہ رقوم امریکی عوام کی ملکیت ہوں گی۔ یہ قیمت ہے اُن جانوں کی، جو امریکی فوجیوں نے عراق میں قربان کیں۔"


یہ جملے صرف ایک اعلان نہیں تھے—

یہ ایک تاریخی فیصلے کا کربناک آغاز تھے۔


امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مبینہ فہرست کے مطابق:



نوری المالکی: 66 ارب ڈالر

عدنان الاسدی: 25 ارب ڈالر

صالح المطلق: 28 ارب ڈالر

باقر الزبیدی: 30 ارب ڈالر

بہاء الاعرجی: 37 ارب ڈالر

محمد الدراجي: 19 ارب ڈالر

ہوشیار زیباری: 21 ارب ڈالر

مسعود بارزانی: 59 ارب ڈالر

سلیم الجبوری: 15 ارب ڈالر

سعدون الدلیمی: 18 ارب ڈالر

فاروق الاعرجی: 16 ارب ڈالر

عادل عبدالمہدی: 31 ارب ڈالر

اسامہ النجیفی: 28 ارب ڈالر

حیدر العبادی: 17 ارب ڈالر

محمد الکربولی: 20 ارب ڈالر

احمد نوری المالکی: 14 ارب ڈالر

طارق نجم: 7 ارب ڈالر

علی العلاق: 19 ارب ڈالر

علی الیاسری: 12 ارب ڈالر

حسن العنبری: 7 ارب ڈالر

ایاد علاوی: 44 ارب ڈالر

جلال طالبانی: 35 ارب ڈالر

رافع العیساوی: 29 ارب ڈالر


کل رقم: 597 ارب ڈالر


یہ وہ رقم ہے جسے غریب عراقی بچوں کا دودھ، بیواؤں کے آنسو، اور لاشوں کے انبار ترس رہے تھے۔ اور آج انہی رقوم کو ایک اجنبی "حق" کے نام پر چھین لیا گیا۔


یہ خبر صرف عراق تک محدود نہ رہی۔ سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین کے حکمرانوں کے ایوان لرز گئے۔ اُن کی نیندیں اڑ گئیں۔ بینکنگ سسٹم سے رقوم نکالنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے — نقصان ہو یا نہ ہو، دولت کو بچانے کی آخری کوشش جاری ہے۔


یہ زلزلہ سوئٹزرلینڈ کی گہرائیوں تک پہنچا، جہاں رازداری کا قلعہ اب پگھلتے ہوئے برف کی مانند ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی چادر تار تار ہو چکی ہے۔


مسلم شریف کی وہ پیشگوئی ایک پھر زندہ ہو گئی ۔۔


عربی متن:

 *قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«يُوشِكُ أَنْ يُحْصَرَ فَيْءُ الشَّأْمِ، وَفَيْءُ الْعِرَاقِ، وَفَيْءُ مِصْرَ، فَتَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى، تَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى، تَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى»* 


ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عنقریب شام، عراق اور مصر کی فَے (یعنی مال و غلہ) بند ہو جائے گی، اور تم وہیں لوٹ جاؤ گے جہاں سے تم پہلے آئے تھے، وہیں لوٹ جاؤ گے، وہیں لوٹ جاؤ گے۔"


حوالہ:

صحیح مسلم، کتاب الفتن، حدیث نمبر: 2887


 اور وہ پابندیاں پھر سے زندہ ہو چکی ہیں۔ یہ تاریخ کا تسلسل ہے — 1990 کی معاشی تباہی آج 2025 میں ایک اور رنگ میں پلٹ آئی ہے۔


اب یہ صرف بینکنگ کا مسئلہ نہیں… یہ پوری امت کی غیرت کا سوال ہے۔

یہ فیصلہ صرف دولت کا نہیں… یہ فیصلہ شہداء کے لہو، یتیموں کے آنسو، اور مسلمانوں کی بے بسی پر مہر لگانے والا فیصلہ ہے۔


ہم خاموش نہ رہیں!

ہماری آواز غزہ سے لے کر بغداد، دمشق سے لے کر مکہ تک گونجنی چاہیے۔


ہمیں اپنی نسلوں کے لیے سچ بولنا ہوگا، چاہے وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔

Wednesday, April 23, 2025

 مطالعے کے حوالے سے 35 رہنما نکات


الیکس ویکوسکی


ترجمہ: نایاب حسن 


1)  مطالعے کا سب سے مشکل حصہ اسے شروع کرنا ہے۔

2)  بورنگ کتابوں کو چھوڑ کر شان دار کتابوں کے مطالعے کو ترجیح دیں۔

3)  ایک کتاب کے مطالعے سے آپ کی زندگی نہیں بدل سکتی؛ لیکن روزانہ کا مطالعہ  سب کچھ بدل سکتا ہے۔

4)  نئی کتابیں کم پڑھیں، کلاسیکی کتابیں زیادہ پڑھیں۔

5)  اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ہے، تو ذرا دیکھیں کہ آپ موبائل فون کے ساتھ چوبیس گھنٹے میں کتنا وقت گزارتے ہیں۔

6)  آج کے زمانے میں ہر قسم کا پڑھنا مطالعہ ہی شمار کیا جاتا ہے..... مطبوعہ کتابیں، ای بکس، اور آڈیو بکس میں سے جو آپ کو بہتر لگے ، اس کا انتخاب کریں۔

7)  مطالعے کے لیے آپ کو کتنی کتابیں ملتی ہیں یہ اہم نہیں ہے، کتنی کتابیں آپ حاصل کرتے ہیں، یہ اہم ہے۔

8)  اپنے فون کو سائلنٹ موڈ پر رکھیں؛ بلکہ مطالعے سے پہلے اسے دوسرے کمرے میں چھوڑ دیں،ایسے میں کتاب میں آپ کا انہماک 10 گنا بڑھ جائے گا۔

9)  اچھی کتابیں ایک بار  پڑھیں، عظیم کتابیں مکرر پڑھیں اور عدیم النظیر کتابیں دوبارہ خریدیں۔

10) آپ پہلے قاری بن کر کتابیں پڑھنا شروع نہیں کرسکتے،کتابیں پڑھنا شروع کریں گے پھر قاری بنیں گے۔

11) کسی خاص کتاب کو نہ پڑھنا، سرے سے مطالعہ چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

12) اگر کسی کتاب نے آپ کی زندگی بدل دی ہے، تو ہر سال کم از کم ایک بار اسے پڑھنے کا عہد کریں۔

13) جن کتابوں کا مطالعہ پرلطف نہ ہو، انھیں واپس کردیں، کسی کو ہدیہ کردیں ،کسی دوسری کتاب سے تبادلہ کرلیں۔

14) تیزرفتار مطالعے کا مطلب یہ ہے کہ آپ معمول سے دوگنی رفتار سے مطالعہ کریں؛ تاکہ پڑھی گئی کم سے کم آدھی چیزیں آپ کو یاد رہ جائیں ۔

15)  مطالعے کے لیے بہترین مقامات ہوائی جہاز، سمندر کا کنارہ اور پارک ہیں۔

16)  ایک قاری کو کو اپنے لیے خود کتابیں منتخب کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے، نہ یہ کہ دوسرے مثلا والدین اور اساتذہ اس کے لیے کتابوں کا انتخاب کریں ۔

17) کسی کتاب کی تلخیص پڑھ کر یہ سوچنا کہ آپ نے پوری کتاب پڑھ اور سمجھ لی ، ایسا ہی ہے جیسے کسی فلم کا ٹریلر دیکھ کر یہ سوچنا کہ آپ نے پوری فلم دیکھ اور سمجھ لی۔

18) سرعتِ مطالعہ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس کتاب کو آپ تیزی سے پڑھ سکتے ہیں،وہ عموماً قابلِ مطالعہ ہی نہیں ہوتی ۔ بہترین کتابیں تیزی سے نہیں پڑھی جاسکتیں؛ کیونکہ وہ آپ کو ہر سطر پر ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

19) مطالعے کا مقصد پڑھے ہوئے کو عملی زندگی میں برپا کرنا ہے، محض ذہن میں جمع کرنا نہیں۔ معلومات کو ذہن نشیں کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنا بند کریں اور اس کی بجاے حاصل شدہ معلومات کو عملی طور پر برتنے کی کوشش کریں۔

20) اگر آپ اپنے کو مطالعے کاعادی بنانا چاہتے ہیں، تو ابتداءاً ہر روز صرف 2 منٹ پڑھنے کا ہدف مقرر کریں۔ یہ اتنا معمولی ہدف ہے کہ اسے حاصل نہ کرسکنے کے لیے کوئی معقول عذر پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔

21) مطالعے کے بعد کتاب کا خلاصہ لکھنے والے کو محض اسے پڑھنے والے سے 10 گنا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

22) اگر آپ کسی کتاب کے مطالعے کے بعد اپنے طرز عمل یا سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں محسوس کرتے ، تو یا تو کتاب بوگس تھی یا آپ نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔

23) آپ نے اگر کوئی کتاب خریدی ہے، تو  فرض نہیں ہے کہ آپ اس کا مطالعہ بھی کریں۔

24) جو شخص سال میں سو سے زائد کتابیں پڑھتا ہے، تو یا تو تصنیف، تدریس، پوڈ کاسٹنگ،  تخلیق کے ذریعے اسے مطالعے کا صلہ ملتا ہے یا پھر وہ فکشن کا قاری ہے۔

25) کوئی بھی آدمی ایک ہی کتاب کو دو بار نہیں پڑھتا؛ کیونکہ وہ پہلے والی کتاب نہیں رہتی اور وہ شخص پہلے والا قاری نہیں رہتا۔

26) کتابیں سرمایہ کاری ہیں، صرفہ نہیں۔ 10 ڈالر کی کتاب کے مطالعے سے آپ ایک لاکھ  یا ایک کروڑ ڈالر کمانے کی راہ بھی پا سکتے ہیں۔(اس حوالے سے وارن بفیٹ کا مضمونThe Intelligent Investor پڑھا جاسکتا ہے)

27) مطالعے کا ماحول مطالعے کی ترغیب سے زیادہ اہم ہے۔ لائبریری میں اوسط درجے کی کتاب کا مطالعہ راک کنسرٹ میں کسی بے مثال کتاب کے مطالعے کے بالمقابل زیادہ بہتر اور آسان ہے۔

28) جہاں بھی جائیں ایک کتاب اپنے ساتھ رکھیں، نہ معلوم کب اور کہاں آپ کو مطالعے کا وقت مل جائے۔

29) کسی کتاب کے مطالعے میں دل نہیں لگ رہا،تو کم ازکم تین بار اسے پڑھنے کی کوشش کریں، تب بھی وہ آپ کا دل نہ جیت سکے،تو اسے ایک طرف رکھنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کریں۔

30) آج کل مطالعے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے فون میں  کوئی ای بک یا آڈیو بک ڈاؤن لوڈ کرکے رکھیں؛ تاکہ اگر کسی وقت مطالعے کا جی چاہے اور آپ کے پاس کوئی مطبوعہ کتاب نہ ہو، تو ایک متبادل پاس موجود ہو۔

31) کسی مصنف/تخلیق کار کی سب سے زیادہ تعریف جو ہوسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ اسے دکھاسکیں کہ آپ نے اس کی کتاب کے مطالعے کے دوران اس میں کہیں کچھ لکھا ہے، کسی حصے کو ہائی لائٹ کیا ہے، کسی اقتباس کو جذب کیا ہے ۔ اگر آپ اسے کتاب جوں کی توں دکھائیں گے، تو وہ سوچے گا کہ آپ نے اسے شاید پڑھا ہی نہیں۔

32) مختصر ضخامت کی کتابوں کے مطالعے میں زیادہ وقت صرف کریں، کہ بعض مختصر ترین کتابوں سے گہرے اسباق حاصل ہوتے ہیں۔

33) سدابہار موضوعات پر سدابہار کتابیں پڑھیں، جدید موضوعات پر نئی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

34) کتابیں زندگی کا سب سے اعلیٰ جگاڑ ہیں: دس ڈالر میں اور 10 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں آپ 10 سال کا علم و حکمت حاصل کر سکتے ہیں۔

35) (اگر آپ مطالعہ نہیں کرتے تو) آپ کے لیے مطالعہ شروع کرنے کا پہلا بہترین وقت 10 سال پہلے تھا اوردوسرا بہترین وقت آج ہے۔


(مضمون نگار مشہور بلاگر ہیں، سوشل میڈیا( ٹوئٹر، یوٹیوب وغیرہ) پر Alex & Books کے نام سے انگریزی زبان میں کتابوں پر تبصرے ، مطالعے کے حاصلات اور کتب بینی کے حوالے سے ترغیبی مواد نشر کرتے رہتے ہیں)

Friday, April 18, 2025

 *ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر ، جو مسلمانوں کی بے چارگی اور بے بسی کا رونا حقیقی طور رو رہی ہے* ۔

*ضرور پڑھیے اور غور کیجئے کہ ہم کہاں پہونچ چکے ہیں یا ہمیں کہاں پہونچا دیا گیا ہے* ۔


*علی سہراب* کے ٹوئیٹر پیج سے ماخوذ ہندی کا ترجمہ ۔

۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوک سبھا میں نئے وقف قانون کو بنانے والے تقریباً تمام ارکانِ پارلیمان ہندو تھے۔

راجیہ سبھا سے بھی اس نئے قانون کو پاس کرنے والوں میں بیشتر ہندو تھے۔

نئے آئینی وقف ایکٹ کے خلاف عدلیہ میں مقدمہ لڑنے والے تمام بڑے وکلا بھی ہندو تھے۔

اسی ایکٹ کے دفاع میں، قانون ساز ادارے کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے بھی ہندو تھے۔

چیف جسٹس آف انڈیا (CJI) بھی ہندو ہیں۔

نئے وقف قانون پر ٹیلی ویژن چینلوں پر بحث و مباحثہ کرنے والے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی ہندو ہیں۔


کچھ لوگ اسے "گنگا جمنی تہذیب" کہہ کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں،

لیکن درحقیقت یہ تصویر بھارت میں مسلمانوں کی دگرگوں حالت اور ان کی بے بسی کو نمایاں کر رہی ہے۔


سوچئے،

مسلمانوں کی زمینیں،

مسلمانوں کی مساجد،

مسلمانوں کی درگاہیں،

مسلمانوں کے مدارس،

مسلمانوں کے عیدگاہ،

مسلمانوں کے قبرستان،

مسلمانوں کے امام باڑے —

سب کچھ نشانے پر ہے۔

اور مسلمان خود اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اپنی ہی زمین، اپنی ہی عبادت گاہوں اور اپنے ہی اداروں کے تحفظ کے لیے عدالت میں کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہے۔


یہ صرف اقتصادی یا سیاسی کمزوری نہیں ہے،

یہ ایک گہری نفسیاتی گراوٹ ہے۔


گزشتہ ستر برسوں میں آئینی نظام کے ذریعے،

مسلمانوں کا اجتماعی ذہنی استحصال اس قدر منظم اور بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے کہ

آج مسلمان اپنے دکھ درد کو زبان پر لانے کی سکت بھی کھو بیٹھے ہیں۔


آج اگر کوئی مسلمان اپنے حق کی بات کرتا ہے،

تو اس پر آئینی نظام کے تحت مقدمات دائر کر دیے جاتے ہیں،

عدلیہ کے ذریعے "عدالتی حراست" کے نام پر جیل بھیج دیا جاتا ہے،

سالہا سال ضمانت نہیں ملتی،

سماعتیں نہیں ہوتیں،

اور اس کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں عدالتوں کی دہلیز پر بوڑھے ہو جاتے ہیں۔


ذرا غور کیجیے:

ملک کی سب سے بڑی عدالت میں

ایک پوری قوم اپنی فریاد سنانے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

مسلمانوں پر اتنا ظلم ڈھایا گیا ہے کہ

ہماری تکلیفوں کی زبان بھی گنگ ہو چکی ہے۔


ستر برس کے آئینی جبر کے نتیجے میں

مسلمانوں کو بے زبان اور بے حس بنا دیا گیا ہے۔

یہ یقیناً باعثِ شرم ہے۔

مگر افسوس کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے اس اجتماعی استحصال پر بھی

مکارانہ انداز میں جشن مناتے نظر آتے ہیں۔


#جمہوریت

https://whatsapp.com/channel/0029Vb3oUyD65yDCXjFotZ0W

Tuesday, April 15, 2025

 *اسرائیل اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟ ؟؟؟*🤔😢

  

ایک شخص "Gree Ac" کی ٹھنڈک سے سو کرصبح "Seiko-5" کے الارم سے اٹھتا ھے "Colgate" سے برش کرتا ہے "Gellet" سے شیو کرکے "Lux" صابن اور "Dove" شیمپو سے نہاتا ہے اور نہانے کے بعد "Levis" کی پینٹ "POLO" شرٹ اور "GUCCI" کے شوز "Jocky" کے socks پہن لیتا ہے چہرے پر "Nevia" کریم لگا کر "Nestlé food" سے ناشتہ کرنے کے بعد "Rayban" کا چشمہ لگا کر "HONDA" کی گاڑی میں بیٹھ کر کام پر چلا جاتا ہے۔

راستے میں ایک جگہ سگنل بند ھوتا ہے وہ جییب سے

"آئی فون 11" نکالتا ہے اور "زونگ" پر 4G internet چلانا شروع کر دیتا ہے اتنے میں سبز بتی جلتی ہے آفس پہنچ کر "HP" کے کمپیوٹر میں کام میں مشغول ھو جاتا ہے کافی دیر کام کرنے کے بعد اسے بھوک محسوس ھوتی ہے تو "McDonald's " سے کھانا اور ساتھ میں "Nestlé " کا پانی بھی منگواتا ہے۔

کھانے کے بعد "Nescaffe" کی کافی پیتا ہے اور پھر تھوڑا آرام کرنے چلا جاتا ہے کچھ آرام کے بعد  "Red Bull" پیتا ھے اور دوبارہ کام میں مشغول ھو جاتا ہے تھوڑا بوریت محسوس ھونے پہ جیب سے Apple کے "i-pods"نکال کے انڈین گانے سنتا ھے ساتھ ھی  "TCS" سے ایک پارسل بیرون ملک بھیجواتا ھے اور "PANASONIC" کے لینڈ لائن سے اطلاع کرتا ھے۔ اور "PARKER" کے Pen سے ایک نوٹ لکھتا ھے۔کچھ دیر بعد "ROLEX" کی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ واپسی کا وقت ہو گیا ہے تو وہ دوبارہ "HONDA" کی گاڑی اسٹارٹ کرتا ہے اور گھر کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔

کچھ ہی لمحے بعد "Shell" کا پیٹرول پمپ آ جاتا ہے وہاں سے ٹنکی فل کرواتا ہے اور "HYPER STAR" کا رخ کر لیتا ہے  سٹور سے بچوں کے لئے "میگی" اور "کنور" کے نوڈلز "CADBARY" KIT KAT" اور "SNIKERS" اور "Nestle" کے مہنگے جوس وغیرہ خرید لیتا ہے سپر سٹور کے ساتھ ہی "PIZZA HUTT" سے وہ بیوی بچوں کے لئے پیزا اور "KFC" سے برگرز کی ڈیل بھی خرید لیتا ہے۔

گھر جا کر کھانا کھانے کے بعد سب گھر والے "SONY" کے Led پر مشہور زمانہ " NewsChannel " پر مایوسی والی خبریں سن رہے ھوتے ہیں اور ہاتھ میں "Coke" کے گلاس پکڑے ھوتے ہیں کہ خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینوں بمباری کی یہ سن کر وہ آگ بگولہ ھو جاتا ہے اور اونچی آواز میں بولتا ہے !!! 

اسرائیل اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟😢😢😢

*اللہ کے واسطے، یہودیوں کی ان ⬆️ چیزوں کا بائیکاٹ کریں.*😢😢😢

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے.

........ - - - - - - -.......... 

اس میسج کو اپنی براڈ کاسٹ (Broadcast) کے ذریعے زیادہ سے ذیادہ شئیر کریں.

اور اگر شئیر نہ ہو تو کاپی پیسٹ کر کے دوسروں کو سینڈ کریں. اور ہمارے اس پیغام کو وائرل کرنے میں ہمارا ساتھ دیں. 

اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اس عظیم کام کو پھیلانے کا اجر عطا فرمائے.آمین آمین

Monday, April 14, 2025

 *🎯 کامیاب تدریس کے رہنما اصول*


*ہر مدرس، معلم، استاذ، اور مربی مرد اور عورت کے لئے رہنما ہدایات !*


✍️ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد  رفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ 

صدر جامعہ دارالعلوم کراچی


(1) اخلاص و للہیت۔ 

(2) طلبہ سے گہری ہمدردی اور محبت و شفقت۔ 

(3) ان کے علم و کردار کو بنانے کی دھن۔ 

(4) درس کی پورے اہتمام سے تیاری۔ 

(5) رجوع الیٰ اللہ اور دعا کا اہتمام۔ 

(6) طلبہ میں متعلقہ فن کی دلچسپی پیدا کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی اہمیت و افادیت کو راسخ کرنا، استاذ کے لیے کلیدِ کامیابی ہے۔ 

(7) ہر طالب علم پر اُس کی ذہنی سطح اور نفسیاتی کمزوریوں اور خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی توجہ دینا ۔

(8) حوصلہ افزائی:

ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، مگر انداز اس طرح اختیار کیا جائے کہ کمزور طلبہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، کمزور طالب علم کو کبھی بے وقوف اور غبی جیسے الفاظ نہ کہے جائیں کہ ان سے اُس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، ایسے طلبہ کا کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

(9) جو طالب علم اچھا سوال کرے، اُسے سراہا جائے اور سب طلبہ کو سنوایا جائے۔ 

(10) ایک ایک بات کو مختلف اسالیب اور مثالوں سے سمجھایا جائے تاکہ ہر طالب علم کو اُس کی ذہنی سطح کے مطابق راہنمائی مل سکے، ذی استعداد طلبہ مشکل بات کو اصطلاحی الفاظ سے بآسانی سمجھ جاتے ہیں، جبکہ کمزور طلبہ کو وہی بات سمجھانے کے لیے عام فہم الفاظ اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے، صرف کتاب میں درج شدہ مثالوں پر اکتفا نہ کیا جائے، اپنی طرف سے نئی مثالیں پیش کی جائیں اور پھر طلبہ سے نئی مثالیں پوچھی جائیں۔ 

(11) استاذ کو درس کے لئے مطالعہ اور تحقیق تو اپنی اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیئے، لیکن درس میں صرف اتنا بتانا چاہیئے جتنے کی انہیں ضرورت ہے، اپنی ساری معلومات اور تحقیقات کو انڈیل دینا، ان کے ساتھ اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 

(12) مطالعہ کے دوران سبق کا تجزیہ کرلیا جائے تو استاذ کے لئے تفہیم اور طلبہ کے لئے اُس کا فہم آسان ہوجاتا ہے، پھر جب تک سبق کا پہلا جزء اچھی طرح سب طلبہ نہ سمجھ جائیں، اگلا جزء شروع نہ کیا جائے، مثلاً جب تک طلبہ کو صورتِ مسئلہ اچھی طرح نہ سمجھادی جائے اُس وقت تک اُس میں علماء کا اختلاف نہ بیان کیا جائے اور جب تک یہ اختلاف ان کے ذہن نشین نہ ہوجائے، دلائل شروع نہ کیے جائیں، جب تک پہلی دلیل پوری طرح ان کے سمجھ میں نہ آئے دوسری دلیل شروع نہ کی جائے۔ جب تک کسی دلیل کا ایک جواب واضح طور پر نہ سمجھادیا جائے، دوسرا بیان نہ کیا جائے۔ وغیر ذلک۔ 

(13) ابتدائی درجات میں تحریری اور زبانی مشق زیادہ سے زیادہ کرائی جائے، خصوصاً نحو، صرف اور ادب میں اس کا خیال رکھا جائے۔ 

(14) یہ اطمینان کرنے کے لئے کہ سب طلبہ سبق میں دلچسپی لے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں، درس کے دوران اور درس کے اختتام پر استاذ کو چاہیئے کہ اُن سے سوالات کرتا رہے، خصوصاً کمزور طلبہ سے کہ وہ کیا سمجھے؟ 

(15) کوشش ہونی چاہیئے کہ عبارت پڑھنے کا موقع ہر طالب علم کو ملے، ایسا نہ ہو کہ پورے سال صرف چند طلبہ تو عبارت پڑھیں، باقی محروم رہیں، اس کے لئے یا تو باری مقرر کردی جائے، لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ہر روز استاذ ہی عبارت پڑھنے والے کا انتخاب کرے۔ 

(16) طلبہ کو درس سے پہلے مطالعہ کا اور درس کے بعد کسی وقت تکرار کا پابند کیا جائے۔ 

(17) درس سے دلچسپی پیدا کرنا:

جب کوئی مشکل بحث آئے یا طلبہ کی اکتاہٹ کا اندیشہ ہو تو طبیعتوں میں نشاط پیدا کرنے کے لئے کوئی دلچسپ چٹکلا، لطیفہ، مختصر قصہ یا دلچسپ شعر سنادیا جائے۔ 

(18) طلبہ کے ساتھ نہ حد سے زیادہ بے تکلفی ہو کہ وہ گستاخ بن جائیں، نہ اتنی سنجیدگی یا رعب کہ وہ ضروری سوال کرنے سے بھی جھجکنے لگیں۔

(19) طلبہ کو صرف کتاب پڑھانا مقصود نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ متعلقہ فن سے مناسبت اور اس کا ملکہ بیدار کرنے کی بھی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ 

(20) انداز تخاطب میں شائستگی۔ 

(21) اپنا عملی نمونہ فن تدریس بہت نازک اور محنت طلب فن ہے اور اس کی جزئیات بے شمار ہیں، اس میں قدم قدم پر اپنی اپج اور اجتہادی صلاحیت سے کام لے کر نت نئی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں، ہر طالب علم کے لیے بسا اوقات الگ طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کسی خاص لگے بندھے طریقے کا استاذ کو پابند کرنا، نہ مناسب ہے نہ ممکن، ہر موقع کے لئے اُسے خود ہی طریقہ ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ 


البتہ مذکورہ بالا جن امور کا ذکر میں نے کیا ہے، وہ اصولی درجے کے ہیں اور ہر کامیابی چاہنے والے استاذ کے لئے ان شاء اللہ مفید ہیں۔

       

▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬

🩶      ✍🏻ㅤ     📩       📤 

ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ    ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ  

https://chat.whatsapp.com/L5Knnewebr62tLt0z6EpZs

▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬

 *‏🌋30 سال سے امریکہ اور اسرائیل ایران کو دھمکیاں ہی دیتے آرہے ہیں، پتہ ھے کیوں؟*


 *وجوھات جانیں:*


"Yedioth Ahronoth ,یدعوت احرنوتھ"

نامی عبری اخبار لکھتا ھے کہ ایران اسرائیل ظاھری دشمنیاں دکھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ اسرائیلی 30 بلین کی سرمایہ کاری ایرانی سر زمین پے ھو رہی ھے۔۔! 

‏🌋اخبار کیمطابق علی الاقل 200 اسرائیلی کمپنیوں کیساتھ ایران کے مضبوط تجارتی روابط ہیں جن میں سے اکثر تیل کمپنیاں ہیں جو ایران کے اندر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

اسرائیل میں ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا 20 لاکھ کے قریب ھے جو کہ ایران میں موجود انکے سب سے بڑے دیدیا شوفط نامی حاخام مرجع جو کہ ایرانی حکمرانوں خاص کر جعفری وغیرہ کے مقرب ھے، سے تعلیمات لیتے ہیں۔

اور ان لوگوں کو اسرائیلی فوجی قیادت، سیاست اور عام تجارتی کنٹریکٹنگ میں بھت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ھے۔


🌋تہران میں یہودی معبد خانوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ھے جبکہ صرف تہران میں سنیوں کی تعداد 15 لاکھ ھونے کے باوجود ایک بھی سنی مسجد نھیں۔!!

امریکہ اور اسرائیل کے اندر ایران اور یہودی حاخامات (مذھبی پیشواوں) کے درمیان

رابطوں کا گرو ایک اوریل داویدی سال نامی حاخام ھے جوکہ ایرانی ھے۔

کینڈا بریطانیہ فرانس میں موجود یہودیوں میں سے 17000 ایرانی یہودیوں کے پاس تیل کمپنیوں کی نہ صرف ملکیت اور شئیرز ھیں بلکہ ان میں سے لوگ ھاؤس آف لارڈز (House of Lords) کے ممبرز بھی ہیں۔


🌋ایران امریکہ میں موجود اپنے یہودیوں کی وساطت سے وھاں موجود یہودی لوبیز کے ذریعہ امریکی ممکنہ کسی بھی حملے سے اسکو باز رکھتی ھے جسکے مقابل میں ایران یہودی کمپنیز کو مشترکہ تعاون فراہم کرتی ھے۔

امریکہ میں موجود یہودیوں میں سے 12 ھزار ایرانی ہیں جو کہ یہودی لوبیز میں نہ صرف بھت اثر و نفوذ رکھتے ہیں بلکہ بھت سے لوگ کانگریس اور سینٹ کے ممبرز بھی ہیں۔

خاص ایرانی یہودیوں کیلئے اسرائیل کے اندر ریڈیو سٹیشنز ہیں جن میں سے ایک "radis" راڈیس" نامی مشہور ریڈیو سٹیشن ھے بلکہ انکے ھاں اور بھی ایرانی تعاون سے اس طرح کے ریڈیو سٹیشنز قائم کئے جاچکے ہیں۔


🌋اسرائیل کے بعد ایران میں سب سے زیادہ 30 لاکھ یہودی آباد ہیں جنکی رشتہ داریاں ابھی تک اسرائیلی یہودیوں سے قائم و دائم ہیں۔

اسرائیل میں یہودی بڑے بڑے حاخامات ایرانی شھر اصفھان کے یہود میں سے ہیں جنکو ٹھیک ٹھاک مذھبی اور فوجی اثر و رسوخ حاصل ھے جو کہ اصفہان معبد خانوں کے تھرو ایران سے تعلقات رکھتے ہیں۔


🌋اسرائیلی وزیر دفاع شاءول موفاز ایرانی یہودی ھے جسکا تعلق اصفھان شھر سے ھے جو کہ اسرائیلی فوج کے اندر ایرانی ایٹمی پروگرام پر حملوں کی سخت مخالفین میں سے ایک ھے، سابق اسرائیلی صدر، موشیہ کاتسف کا تعلق بھی اصفھان سے ہی تھا اسی وجہ سے احمدی نجاد خامنائی اور پاسدارانِ انقلاب کے رہنماؤں کیساتھ اسکے مضبوط مراسیم تھے۔

انکے مطابق یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین علیہ السلام کا آخری آرام گاہ ایران میں ھے 

اسی وجہ سے یہودی القدس شھر کی طرح ایران کیساتھ بھی ٹوٹ کے محبت کرتے اور چاھتے ہیں دنیا بھر سے یہودی لوگ وھاں زیارت یا حج په جاتے ہیں۔


🌋یہودی فلسطین سے بھی زیادہ ایران کا احترام اس لئے بھی کرتے ہیں 

کیونکہ یزدجرد کی بیوی شوشندخت کا تعلق ایران سے تھا اور وہ خبیث قسم کی یہودیہ عورت تھی۔

یہودیوں کے لئے ایران سائرس کی زمین ہے کیونکہ وھاں "استرومردخاي" مقدس "دانیال" حبقوق" وغیرہ مدفون ہیں جو کہ یہودیوں کے مطابق انبیاء اور مقدس لوگ ہیں۔

‏🌋اسرائیل حسن نصر اللہ کو اب تک کیوں قتل نھیں کر رہی؟؟ حالانکہ لبنان بلکہ اسکے گھر کے اوپر فضاوں میں انکے جنگی طیارے گھوم رھے ھوتے ہیں جبکہ فلسطین میں اپنے مخالفین کو چن چن کے شھید کر دیا جاتا ھے مساجد تک کو نھیں چھوڑتے۔

ایران اسرائیل کیساتھ دشمنی کا ڈھونک رچا کر کس طرح عرب ممالک کو دھوکہ دے رھا

 حالانکہ ایران کے اندر یہودی 200 کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں فوقیت دی جا رہی ھے ۔۔!!


🌃اور آخر میں:

کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے دو تہائی حصہ ایرانی یہودیوں پر مشتمل ہیں؟؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی بستیوں میں بسنے والوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ایرانی یہودیوں کی ھے ؟؟

یہ تمام معلومات جاننے کے بعد آپ کو یہ حدیث اچھی طرح سے سمجھ میں آجائیگی:

رواه مسلم.﴾

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اصفھان کے 70 ھزار یہودی دجال کی پیروی کریں گےان پر طیالسہ ( یعنی سبز و سیاہ رنگ کے چوغہ نما لباس)" ھونگے (مسلم شریف)

اسرائیل اور ایران کے ٹوپی ڈرامے ، کیا امریکا ایران پر حملے کرے گا ؟


🌋12000ایرانی یہودی امریکہ میں یہودی لابی کا کانگریس اور سینیٹ میں دستہ تشکیل دیتے ہیں۔ 


اسرائیل میں موجود بڑے یہودی عالم ایرانی ہیں جن کا تعلق اصفہان سے ہے۔اسرائیل کے سابق صدر موشے کاٹسو اورسابق اسرائیلی وزیر دفاع شاؤول موفاز ایرانی یہودی ہیں جو اصفہان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر کس چالاکی کے ساتھ دونوں نے مسلم امت کو بیوقوف بنایا ہوا ہے!

Saturday, April 12, 2025

پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہ

مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کو مناظرے مباہلے کا چیلنج


حضرت مولانا محمد عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ

خطیب لال مسجد و مہتمم جامعہ حفصہ اسلام آباد پاکستان


https://www.facebook.com/share/v/17vCiYV16w/

[12/04, 3:43 pm] عزیر احمد قاسمی: کابل میں TTP سے مذاکرات کی کہانی

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی زبانی

پاکستان میں مسلح کاروائیاں حرام اور بغاوت ہیں


https://www.youtube.com/live/7FK0M5PzDZo?feature=share

Sunday, April 6, 2025

 1400 سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو صحیح 28 نشانیاں بیان کی تھیں وہ سچ ہوئیں

اس کو پڑھنے کی امید ہے۔


1: مرد کم اور عورتیں زیادہ ہوں گی۔


2: لوگ موسیقی کی شکل میں قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔


3: مال کی محبت کی وجہ سے بیوی بھی شوہر کے ساتھ کاروبار میں حصہ لے گی


4: ہر کوئی اپنے آپ کو موٹا اور مضبوط بنانا چاہتا ہے۔


5: نماز اور زندگی میں لوگوں کا سکون ختم ہو جائے گا۔


6: سود کا کاروبار عام ہو جائے گا۔


7. منافق پیدا ہونگے آبادان میں لوگ عبادت کریں گے منافقت اور شہرت پانے کے لیے


8: فتنے بڑھیں گے اور دینی علم میں کمی آئے گی۔


9: لوگ قرآن کو تنخواہ کا ذریعہ بنائیں گے


10: جھوٹ عام ہو جائے گا اور لوگ جھوٹ کی گواہی دیں گے۔


11: لوگ صحیح احادیث کا انکار کریں گے اور غلط احادیث بیان کریں گے۔


12: مسلمان امیر ہو جائیں گے لیکن مذہبی پیشوا نئے ہو جائیں گے


13:کفر آسان ہوگا انسان صبح مسلمان اور شام کو کافر اور شام کو مسلمان اور صبح کافر 


14: آنے والی ہر نسل پچھلی نسل سے بدتر ہوگی۔


15: لوگ اسلام پر چلنے والوں پر حیران رہ جائیں گے اور وہ نئی چیزیں دیکھیں گے۔


16: قتل و غارت بڑھتے جائیں گے قاتل اور مقتول کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں کیوں قتل کرتا ہوں اور کیوں مارا جارہا ہوں


17 کافر مسلمانوں پر غالب آئیں گے مسلمان زیادہ ہوں گے لیکن غلام ہوں گے کیونکہ وہ دنیا سے پیار کریں گے اور موت سے ڈریں گے


18: مذہب پر عمل اس آگ کے تارکول کی طرح ہوگا جو چھڑی میں پھنسا ہوا ہے۔


19: گناہ کرنا بہت آسان ہوگا اور گناہ کو گناہ قبول نہیں کیا جائے گا۔


20: دنیا کے امیر ترین لوگ کنجوس ہوں گے۔


21: عمر سے برکت ختم ہو جائے گی، سال مہینوں کی طرح، مہینہ ہفتوں کی طرح، ہفتہ دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر جائے گا۔


22: مسلمان ہر عمل میں کافروں کی پیروی اور اطاعت کریں گے۔


23: عرب کی مٹی وسیع ہوگی اور مدینہ کی آبادی بڑھ جائے گی


24: لوگ زکوٰۃ لینے کے اہل نہیں ہوں گے اور پھر بھی زکوٰۃ مانگیں گے۔


25 عورتیں سجتی ہونگی پھر بھی ننگی ہونگی مطلب کپڑے اتنے نازک ہوں گے کہ جسم کی طرح نظر آئیں گے


26: زنا آسان ہوگا اور زنا کے اسباب میں اضافہ ہوگا۔


27: جہالت عام ہو جائے گی، لوگوں کو دنیا کا علم ہو جائے گا، مگر جہالت کی وجہ سے دینی علم سے جاہل ہوں گے۔


28: بے حیا عورتوں اور آلات موسیقی میں اضافہ ہوگا۔


اگر آپ نے مکمل پڑھ لیا ہے تو دوسروں کو بھی شئیر کریں جزاکم اللہ خیر !!!      *https://chat.whatsapp.com/ENdLdhmSoDI4gpPosnyYar*

آج کل فیس بک پر بعض 'قلم کار' غزہ کے نام پر مسلسل ماتم کناں ہیں۔ ان کی تحریریں غم کے اظہار سے بڑھ کر مایوسی، بےبسی اور ناامیدی کو ہوا دے رہی ہیں، گویا سب کچھ ختم ہو چکا ہو۔


فلاحی اداروں اور طبی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق، غزہ میں اب تک تقریباً 70 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں۔ اگر اس تعداد کو دوگنا بھی کر لیں تو یہ 1 لاکھ 40 ہزار بنتی ہے۔ جبکہ غزہ کی کل آبادی 22 لاکھ ہے۔ بعض تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا غزہ نیست و نابود ہو چکا ہے، جو حقیقت سے بعید ہے۔


یہ جذباتی شور مچانے والے اکثر وہی ہیں جو یا تو تاریخ سے ناواقف ہیں یا دانستہ طور پر اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے ہیں کہ صرف آپریشن پولو (1948) میں، ریاست حیدرآباد میں ہزاروں مسلمان شہید کیے گئے تھے؟(حیدرآباد کو بھارت میں شامل کرنے کے لیے آپریشن)  کیا اس کے بعد حیدرآباد کے مسلمان مٹ گئے؟ جموں میں بھی ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، لیکن آج اُن شہادتوں کا کوئی ماتم نہیں کرتا۔ کیوں؟


حقیقت یہ ہے کہ فیس بک پر ایک شخص مایوس کن پوسٹ لکھتا ہے اور پھر سینکڑوں لوگ بغیر سوچے سمجھے اسے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس منظم ماتم کی قیادت وہی نام نہاد 'سیلیبریٹی رائٹرز' کر رہے ہیں جو قوم کو غیر شعوری طور پر بے عملی اور خود ترسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔


یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شہادتیں جنگ کا فطری حصہ ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا— ان سب جنگوں میں لاکھوں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب سوشل میڈیا نہیں تھا؛ لوگ بےخبر تھے۔ آج میڈیا ہے، لیکن شعور کا فقدان ویسا ہی ہے۔


غزہ کا قتل عام نہ پہلا ہے، نہ آخری۔ بوسنیا، الجزائر، چیچنیا، فلسطین— ہر صفحے پر امت کے خون کی تحریر موجود ہے۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو وہ ساری قربانیاں کامیاب رہی ہیں۔


لیکن سوال یہ ہے: ہم نے اس کے جواب میں کیا کیا؟ کیا ہم نے کبھی ان حالات کے دفاع کی تیاری کی؟


اور یہ جو آئے دن عالم اسلام، خصوصاً عرب حکومتو کو گالیاں دی جاتی ہیں، تو یہ بھی غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ روزانہ غزہ میں جو لاکھوں ڈالر کی امداد پہنچتی ہے، وہ کہاں سے آتی ہے؟ اور جو عرب ممالک فلسطینیوں کو شہریت نہیں دیتے، وہ بھی کسی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت ہے تاکہ فلسطینیوں کا وجود کبھی مٹنے نہ پائے اور ان کی جدوجہد باقی رہے۔


اب ذرا اپنا حال دیکھیں: ہندوستانی مسلمان خود مظالم کا شکار ہے، لیکن حکومت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے بھی گریز کرتا ہے— اور بعض اوقات یہی احتیاط حکمت کا تقاضا بھی ہوتی ہے۔ تو پھر ہم دوسروں سے کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ براہِ راست جنگ میں کود پڑیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان حکومتوں کی خاموش حمایت کے بغیر غزہ کی مزاحمت برسوں سے جاری ہی نہ رہ سکتی۔


یاد رکھیں: جنگ طویل ہے، لیکن مایوسی اختیار کرنا شکست کی پہلی سیڑھی ہے۔ غازی یا تو فاتح ہوتا ہے یا شہید۔ ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ہوگا، اپنے حال کو سمجھنا ہوگا، اور قوم وملت کے مستقبل کی ترقی کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔


بالفرض آج سرحدیں کھل جائیں، تو کیا ہم میں سے کوئی میدان میں جانے کو تیار ہے؟ کون ہے جو دنیا کی آسائشیں چھوڑ کرقوم وملت کے نام پرگھر سے نکلے گا؟


سوچئے— صرف غصہ نہ کریں، صرف پوسٹ نہ لکھیں۔ خود کو تیار کریں، مضبوط بنائیں، اور امت کے لیے واقعی کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔


یہ پیغام اُن سب کے لیے ہے جو ناامیدی پھیلا رہے ہیں۔ ہمت، حکمت اور حوصلہ— یہی آج کا اصل تقاضا ہے


محمد خلیق رحمانی

 تاریخ دہرا رہی ہے!


ان دنوں سوشل میڈیا پر بخارا اور سمرقند کی وہ تاریخ گردش کر رہی ہے

جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے حکومت نے بتدریج وقف املاک پر قبضہ جما لیا۔


مگر افسوس… یہ قصہ صرف بخارا یا سمرقند کا نہیں، بلکہ ہر اُس قوم کا ہے:

جو غفلت کی چادر اوڑھ کر سو جائے،

بدنظمی کو اپنی زندگی کا معمول بنا لے،

اختلاف کو اپنی شناخت سمجھ لے،

کمزوری کو اپنی تقدیر مان لے،

جو ماضی کے زخموں سے سبق نہ لے،

اور مستقبل کی تیاری کے بجائے حال کے سائے میں سکون تلاش کرے،

جو دشمن کی چالاکیوں کو اصلاحات کا نام دے کر قبول کرے،

اور اپنے دینی اداروں کے زوال پر صرف ماتم پر اکتفا کرے۔


ایسی قوموں کے لیے تاریخ صرف عبرت نہیں رہتی،

بلکہ بار بار دہرا دیا جانے والا انجام بن جاتی ہے۔


یہ تباہی کسی اچانک زلزلے یا جنگ کا نتیجہ نہیں تھی،

بلکہ یہ ایک منظم، قانونی زبان میں لپٹی ہوئی

حکومت کی جانب سے مرحلہ وار منصوبہ بندی تھی —

بالکل ویسی ہی جیسی آج بھارت میں وقف کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔


تاریخ سے نظریں چُرانا؟ یا سچ کا سامنا؟


کچھ لوگ کہتے ہیں ایسی باتیں مت پھیلاؤ، عوام کو مت بتاؤ، اس سے ہمیں خود نقصان ہوگا۔


مگر المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے نظریں چُرانا تو ہماری عادت بن چکی ہے۔


ہم نے اپنی اسلامی تاریخ کو یا تو درخورِ اعتنا نہ سمجھا،

یا اسے قصے کہانیوں کی طرح سنا اور بھلا دیا۔


لیکن افسوس، وہی تاریخ جن سے ہم شرمندہ یا لاتعلق ہیں،

وہی دوسرے قومیں اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھاتی ہیں،

ان پر مقالے اور تھیسس لکھتی ہیں،

ان سے سیکھتی ہیں،

اور انہی تجربات سے بچاؤ کی راہیں نکالتی ہیں۔


ہم تاریخ سے منہ موڑتے رہے،

اور وہ تاریخ ہمیں مڑ کر کاٹتی رہی۔



---


❖ 1920 کی دہائی میں سوویت ترکستان میں کیا ہوا تھا؟

❖ اور آج 2025 کے ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟

❖ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بخارا اور دہلی میں فرق صرف تاریخ کا ہے، ذہنیت کا نہیں۔



---


سوویت ماڈل – آج کا بھارتی ایڈیشن؟


1. وقف پر قبضہ – ریاستی نگرانی کی آڑ میں چوری


▪️ 28 دسمبر 1922 کو جمہوریہ ترکستان کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک فرمان جاری کیا:

▪️ مذہبی اداروں سے وقف املاک کی ملکیت چھین لی گئی

▪️ ان کا انتظام محکمہ تعلیم کو سونپا گیا

▪️ مقامی سرکاری افسران کو متولی بنانے کا اختیار دے دیا گیا


▪️ آج بھارت میں وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعے:

▪️ وقف بورڈ کے اختیارات ختم کیے جا رہے ہیں

▪️ ریاست کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ وقف کی حیثیت طے کرے یا ختم کرے


جس طرح سوویت حکومت نے “انتظامی بہتری” کا بہانہ بنایا،

ویسے ہی آج “قانونی شفافیت” کا پردہ ڈال کر

وقف کو ریاستی جائیداد میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔



---


2. شرعی عدالتوں کا خاتمہ – عدالتی آزادی کی تذلیل


▪️ 1923 میں سوویت حکومت نے شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو

▪️ باطل قرار دینے کا اختیار عوامی عدالتوں کو دے دیا

▪️ 1926 تک تمام شرعی عدالتیں قانوناً ختم کر دی گئیں

▪️ 1927 میں سوویت یونین نے حکم جاری کیا کہ آئندہ کوئی

▪️ نئی اسلامی عدالت قائم نہیں ہو سکتی


▪️ آج بھارت میں:

▪️ مسلم پرسنل لا

▪️ طلاق

▪️ وراثت

▪️ اور خاندانی معاملات کو

▪️ یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) کی زد میں لایا جا رہا ہے


یہ وہی حکمتِ عملی ہے:

شریعت کے دائرے کو محدود کرو،

عوامی قانون کے تابع بنا دو،

اور آخرکار شریعت کو قانونی نظام سے بے دخل کر دو۔



---

. دینی تعلیم کا گلا گھونٹنا – بنیاد پرستی کے نام پر


زار روس کے دورِ حکومت (1910–1917) میں مسلمانوں کے لیے

تعلیم کا کوئی مؤثر ریاستی انتظام نہ تھا۔


صرف 97 سرکاری اسکول موجود تھے

(3,000 سے بھی کم طلبہ کی گنجائش)۔


مسلمانوں نے اپنی محنت سے

7,290 مکاتب اور 375 مدارس قائم کیے،

جن میں 69,864 بچوں اور 9,627 طلبہ کو تعلیم دی جا رہی تھی۔


یہ اعداد و شمار امتِ مسلمہ کی اجتماعی غیرت کی عکاسی تھے،

مگر جب "ریاست اور مذہب کی علیحدگی" کا نظریہ نافذ ہوا،

تو تعلیم سے دین کا اخراج کر دیا گیا۔


1930 تک دینی مدارس کی مالی بنیاد ختم کر دی گئی،

بخارا کا مشہور مدرسہ "میر عرب" بند کر کے عجائب گھر بنا دیا گیا۔



---


آج بھارت میں:


▪️ مدارس کے سروے ہو رہے ہیں

▪️ مکاتب کو "غیر منظور شدہ" قرار دینے کی تیاری

▪️ مدرسہ بورڈز کو ختم کرنے کے مطالبات

▪️ دینی شناخت رکھنے والے نوجوانوں کو "شدت پسند" کہا جا رہا ہے


یہ وہی زبان ہے جو اسٹالن کے دور میں استعمال کی گئی تھی۔



---


تاریخ کے دھارے کو پہچانیے


سوویت یونین نے یہ سب ایک دن میں نہیں کیا۔

یہ عمل 1922 سے 1937 تک پھیلا رہا:


▪️ قدم بہ قدم

▪️ خاموشی سے

▪️ قانونی پردوں میں

▪️ "اصلاحات" کے نعروں میں


سوویت ترتیب: 1922 – وقف کا خاتمہ 1923 – شرعی عدالتوں کی بے توقیری 1926 – عدالتوں کی بندش 1927 – اسلامی عدالتی نظام پر پابندی 1930 – دینی تعلیم کا معاشی قتل 1937 – علما کی گرفتاری، مدارس کی بندش، بخارا کا علمی جنازہ


بھارت کی ترتیب: 2019 – شہریت کا مسئلہ، NRC 2020 – دینی تعلیمی اداروں کی نگرانی 2022 – وقف بورڈز کی جانچ پڑتال 2023 – UCC پر بحث 2024 – وقف ترمیمی بل کل؟ – شریعت، مکاتب، مدارس… سب سوالیہ نشان؟



---


یہ بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صرف سوویت ماڈل کی پیروی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی کمیونسٹ ردِعمل کے ساتھ ساتھ تعصب اور ذاتی مفاد پر بھی مبنی ہے۔


ان وقف املاک سے بھارت کے سرمایہ دار طبقے، سیاسی حلقے، اور ریاستی مفاد پرستوں کو کتنا مالی فائدہ ہوگا، اس کا صحیح اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔


یہ زمینیں، جو غریبوں، مسافروں، یتیموں اور دینی اداروں کے لیے وقف تھیں، اب ان کی نظر میں صرف ریاستی خزانے یا پرائیویٹ منافع کا ذریعہ بن گئی ہیں۔



---


اب کیا کرنا ہے؟ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے دینی و اجتماعی نظام کو مؤثر، منظم اور پائیدار بنائیں۔ نیت کے ساتھ اب مہارت، نظم و ضبط، اور فکری وحدت بھی درکار ہے۔


ہمیں اپنے اداروں کو محض چلانے کے قابل نہیں، بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا — چاہے وہ وقف ہو، مکتب ہو یا پرسنل لا۔


یاد رکھیں: جہاں کہیں بھی ہماری جانب سے غفلت، بدنظمی یا کمزوری دکھائی دی، ریاست اسے فوراً اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرے گی۔



---


✅ اقدامات:


1. شفاف اور مضبوط ادارہ جاتی نظام قائم کریں – کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کو خود بے نقاب کریں – اعتماد بحال کریں، ورنہ دوسروں کو دروازہ کھلا چھوڑیں گے



2. علمی، قانونی اور سماجی سطح پر متحد ہوں – علما، وکلاء، مفکرین، منتظمین کو ایک فورم پر لائیں – فکری ہم آہنگی اور عملی منصوبہ بندی کے بغیر مزاحمت بیکار ہے



3. باشعور نسل تیار کریں، محض جذباتی نہیں – بخارا اور سمرقند کے اہل ایمان نے، جب ریاستی جبر کی انتہا ہو گئی، تو انہوں نے خفیہ طور پر نسلاً بعد نسل ایمان کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔ – وہ تعداد میں تھوڑے تھے، مگر اخلاص، صبر اور حکمت نے انھیں باقی رکھا۔ – آج ہماری تعداد کروڑوں میں ہے، مگر اگر حالات مزید بگڑے، تو ہمیں بھی انہی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ – ہمیں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو صرف جوش نہیں، گہری نظر، گہرا علم، اور گہری تدبیری صلاحیت رکھتی ہو۔ – علم کو "دینی" اور "دنیاوی" کے خانوں میں بانٹنے کے بجائے، علمِ نافع اور غیر نافع کے اصول پر دیکھیں۔ – ہر میدانِ علم میں مسلمان آگے بڑھیں — چاہے فقہ ہو یا فلسفہ، سائنس ہو یا سیاست، عدالت ہو یا معیشت۔ – عوام سے لے کر خواص تک، ہر شخص کی بصیرت گہری، نگاہ دور رس، اور ذہن حکمت شعار ہونا چاہیے۔



4. پیغام ہر طبقے اور مذہب تک پہنچائیں – غیر مسلم بھائیوں تک واضح کریں: یہ صرف مسلمانوں کا نہیں – بلکہ اقلیتوں، دستور اور آزادی کا مسئلہ ہے – آج اگر ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، کل وہی آپ کے ساتھ ہو سکتا ہے



5. مساجد، مکاتب، مدارس اور شریعت کا تحفظ – یہ صرف عبادت کے مراکز نہیں، بلکہ ملت کی شناخت کی دیواریں ہیں – اگر یہ گرا دی گئیں، تو صرف اینٹیں نہیں، پہچان مٹ جائے گی



6. اہلِ علم کی قیادت کا انتظار کریں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں – ہمارے درمیان ایسے جید علما اور اربابِ بصیرت موجود ہیں – جو اس معاملے کی گہرائی، پیچیدگی اور نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں – لہٰذا جذبات میں بہنے کے بجائے ان کی رہنمائی کا انتظار کریں – اور جب وہ کوئی موقف یا لائحہ عمل پیش کریں – تو پورے اعتماد اور اتحاد کے ساتھ ان کا ساتھ دیں – ہر عامی اور ہر خواص کی ذمہ داری ہے – کہ وہ اسے صرف دینی مسئلہ نہیں، بلکہ اپنا فرض سمجھے – اور اس کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے





---


اگرچہ آج کا سکہ اکثریت کا ہے، فضا مایوس کن ہے، مگر ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش ترک نہیں کرنی۔ یہی شعور، یہی مسلسل مزاحمت، ہماری اصل طاقت ہے۔


کسی بھی ظالم حکومت کو دوام حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اُس کا زوال بھی قریب آ جاتا ہے۔


تخت و تاج کی چمک دھمک، قانون کی آڑ میں کیے گئے فیصلے، اور طاقت کے سائے — سب وقتی ہوتے ہیں۔


دنیا نے فرعونوں، نمرودوں، چنگیزوں اور جدید آمریتوں کا انجام بھی دیکھ لیا ہے۔


جبر و استبداد کا نظام کچھ وقت کے لیے تو چلتا ہے، مگر آخرکار حق کی روشنی ہی اندھیروں کو چیرتی ہے۔


لہٰذا مایوسی نہیں، حکمت، صبر، اور مسلسل جدوجہد ہی ہماری اصل طاقت ہے۔


اور وہ دن ضرور آئے گا، جب یہ اندھیرے چھٹیں گے، اور ہم اپنے وجود، وقار اور ایمان کے ساتھ سرفراز ہوں گے۔


نوید اختر 

شیلانگ، میگھالیہ

Email- distinctmufti@gmail.com