Sunday, April 27, 2025

 *وقف زمینوں کا سب سے بڑا گھوٹالہ بھوپال میں ہوا ہے۔* جہاں وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق بھوپال میں 125 قبرستان ہیں؛ لیکن اب صرف 24 قبرستان ہی بچے ہیں۔ اس مہا گھوٹالے کا پردہ فاش کرتے ہوئے آج سے ٹھیک دو سال پہلے 26 اپریل 2023ء کو ”دینک بھاسکر“ نے ایک بہت ہی سنسنی خیز رپورٹ شائع کی تھی؛ جس میں اس نے لکھا تھا: *”یا خدا! چوری ہوگئے بھوپال کے 101 قبرستان“*

 اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وقف قبرستان کی زمین پر کہیں سرکاری دفتر بنے ہوئے ہیں تو کہیں پوری کالونی بسا دی گئی ہے۔

 دینک بھاسکر نے اپنی اس سنسنی خیز رپورٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی تھی، جس میں اس نے میپ کے ذریعے بتایا تھا کہ وقف کی زمین پر ہوم گارڈ آفس، مہیلا تھانہ، پولیس کنٹرول روم، ٹریفک تھانہ اور اور ٹریفک پارک بنے ہوئے ہیں۔

بطورِ حوالہ ”دینک بھاسکر“ کے مذکورہ رپورٹ کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے؛ تاکہ سَند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔


*———————————————*

*آن لائن نیوز اردو* گروپ جوائن کریں۔👇 

https://chat.whatsapp.com/Lc5OIqaYAvOESEvqqmfhKC

Saturday, April 26, 2025

 *ایک دھماکہ خیز انکشاف — اور ایک صدمہ انگیز فیصلہ۔* 


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ بیان نے مسلم دنیا کے دل چیر دیے۔ اُنہوں نے کہا:


"عراقی سیاستدانوں نے جن بھاری رقوم کو امریکی بینکوں میں جمع کر رکھا تھا، اب وہ رقوم امریکی عوام کی ملکیت ہوں گی۔ یہ قیمت ہے اُن جانوں کی، جو امریکی فوجیوں نے عراق میں قربان کیں۔"


یہ جملے صرف ایک اعلان نہیں تھے—

یہ ایک تاریخی فیصلے کا کربناک آغاز تھے۔


امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مبینہ فہرست کے مطابق:



نوری المالکی: 66 ارب ڈالر

عدنان الاسدی: 25 ارب ڈالر

صالح المطلق: 28 ارب ڈالر

باقر الزبیدی: 30 ارب ڈالر

بہاء الاعرجی: 37 ارب ڈالر

محمد الدراجي: 19 ارب ڈالر

ہوشیار زیباری: 21 ارب ڈالر

مسعود بارزانی: 59 ارب ڈالر

سلیم الجبوری: 15 ارب ڈالر

سعدون الدلیمی: 18 ارب ڈالر

فاروق الاعرجی: 16 ارب ڈالر

عادل عبدالمہدی: 31 ارب ڈالر

اسامہ النجیفی: 28 ارب ڈالر

حیدر العبادی: 17 ارب ڈالر

محمد الکربولی: 20 ارب ڈالر

احمد نوری المالکی: 14 ارب ڈالر

طارق نجم: 7 ارب ڈالر

علی العلاق: 19 ارب ڈالر

علی الیاسری: 12 ارب ڈالر

حسن العنبری: 7 ارب ڈالر

ایاد علاوی: 44 ارب ڈالر

جلال طالبانی: 35 ارب ڈالر

رافع العیساوی: 29 ارب ڈالر


کل رقم: 597 ارب ڈالر


یہ وہ رقم ہے جسے غریب عراقی بچوں کا دودھ، بیواؤں کے آنسو، اور لاشوں کے انبار ترس رہے تھے۔ اور آج انہی رقوم کو ایک اجنبی "حق" کے نام پر چھین لیا گیا۔


یہ خبر صرف عراق تک محدود نہ رہی۔ سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین کے حکمرانوں کے ایوان لرز گئے۔ اُن کی نیندیں اڑ گئیں۔ بینکنگ سسٹم سے رقوم نکالنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے — نقصان ہو یا نہ ہو، دولت کو بچانے کی آخری کوشش جاری ہے۔


یہ زلزلہ سوئٹزرلینڈ کی گہرائیوں تک پہنچا، جہاں رازداری کا قلعہ اب پگھلتے ہوئے برف کی مانند ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی چادر تار تار ہو چکی ہے۔


مسلم شریف کی وہ پیشگوئی ایک پھر زندہ ہو گئی ۔۔


عربی متن:

 *قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«يُوشِكُ أَنْ يُحْصَرَ فَيْءُ الشَّأْمِ، وَفَيْءُ الْعِرَاقِ، وَفَيْءُ مِصْرَ، فَتَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى، تَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى، تَرُدُّونَ إِلَى مَوَاضِعِكُمُ الْأُولَى»* 


ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عنقریب شام، عراق اور مصر کی فَے (یعنی مال و غلہ) بند ہو جائے گی، اور تم وہیں لوٹ جاؤ گے جہاں سے تم پہلے آئے تھے، وہیں لوٹ جاؤ گے، وہیں لوٹ جاؤ گے۔"


حوالہ:

صحیح مسلم، کتاب الفتن، حدیث نمبر: 2887


 اور وہ پابندیاں پھر سے زندہ ہو چکی ہیں۔ یہ تاریخ کا تسلسل ہے — 1990 کی معاشی تباہی آج 2025 میں ایک اور رنگ میں پلٹ آئی ہے۔


اب یہ صرف بینکنگ کا مسئلہ نہیں… یہ پوری امت کی غیرت کا سوال ہے۔

یہ فیصلہ صرف دولت کا نہیں… یہ فیصلہ شہداء کے لہو، یتیموں کے آنسو، اور مسلمانوں کی بے بسی پر مہر لگانے والا فیصلہ ہے۔


ہم خاموش نہ رہیں!

ہماری آواز غزہ سے لے کر بغداد، دمشق سے لے کر مکہ تک گونجنی چاہیے۔


ہمیں اپنی نسلوں کے لیے سچ بولنا ہوگا، چاہے وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔

Wednesday, April 23, 2025

 مطالعے کے حوالے سے 35 رہنما نکات


الیکس ویکوسکی


ترجمہ: نایاب حسن 


1)  مطالعے کا سب سے مشکل حصہ اسے شروع کرنا ہے۔

2)  بورنگ کتابوں کو چھوڑ کر شان دار کتابوں کے مطالعے کو ترجیح دیں۔

3)  ایک کتاب کے مطالعے سے آپ کی زندگی نہیں بدل سکتی؛ لیکن روزانہ کا مطالعہ  سب کچھ بدل سکتا ہے۔

4)  نئی کتابیں کم پڑھیں، کلاسیکی کتابیں زیادہ پڑھیں۔

5)  اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ہے، تو ذرا دیکھیں کہ آپ موبائل فون کے ساتھ چوبیس گھنٹے میں کتنا وقت گزارتے ہیں۔

6)  آج کے زمانے میں ہر قسم کا پڑھنا مطالعہ ہی شمار کیا جاتا ہے..... مطبوعہ کتابیں، ای بکس، اور آڈیو بکس میں سے جو آپ کو بہتر لگے ، اس کا انتخاب کریں۔

7)  مطالعے کے لیے آپ کو کتنی کتابیں ملتی ہیں یہ اہم نہیں ہے، کتنی کتابیں آپ حاصل کرتے ہیں، یہ اہم ہے۔

8)  اپنے فون کو سائلنٹ موڈ پر رکھیں؛ بلکہ مطالعے سے پہلے اسے دوسرے کمرے میں چھوڑ دیں،ایسے میں کتاب میں آپ کا انہماک 10 گنا بڑھ جائے گا۔

9)  اچھی کتابیں ایک بار  پڑھیں، عظیم کتابیں مکرر پڑھیں اور عدیم النظیر کتابیں دوبارہ خریدیں۔

10) آپ پہلے قاری بن کر کتابیں پڑھنا شروع نہیں کرسکتے،کتابیں پڑھنا شروع کریں گے پھر قاری بنیں گے۔

11) کسی خاص کتاب کو نہ پڑھنا، سرے سے مطالعہ چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

12) اگر کسی کتاب نے آپ کی زندگی بدل دی ہے، تو ہر سال کم از کم ایک بار اسے پڑھنے کا عہد کریں۔

13) جن کتابوں کا مطالعہ پرلطف نہ ہو، انھیں واپس کردیں، کسی کو ہدیہ کردیں ،کسی دوسری کتاب سے تبادلہ کرلیں۔

14) تیزرفتار مطالعے کا مطلب یہ ہے کہ آپ معمول سے دوگنی رفتار سے مطالعہ کریں؛ تاکہ پڑھی گئی کم سے کم آدھی چیزیں آپ کو یاد رہ جائیں ۔

15)  مطالعے کے لیے بہترین مقامات ہوائی جہاز، سمندر کا کنارہ اور پارک ہیں۔

16)  ایک قاری کو کو اپنے لیے خود کتابیں منتخب کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے، نہ یہ کہ دوسرے مثلا والدین اور اساتذہ اس کے لیے کتابوں کا انتخاب کریں ۔

17) کسی کتاب کی تلخیص پڑھ کر یہ سوچنا کہ آپ نے پوری کتاب پڑھ اور سمجھ لی ، ایسا ہی ہے جیسے کسی فلم کا ٹریلر دیکھ کر یہ سوچنا کہ آپ نے پوری فلم دیکھ اور سمجھ لی۔

18) سرعتِ مطالعہ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس کتاب کو آپ تیزی سے پڑھ سکتے ہیں،وہ عموماً قابلِ مطالعہ ہی نہیں ہوتی ۔ بہترین کتابیں تیزی سے نہیں پڑھی جاسکتیں؛ کیونکہ وہ آپ کو ہر سطر پر ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

19) مطالعے کا مقصد پڑھے ہوئے کو عملی زندگی میں برپا کرنا ہے، محض ذہن میں جمع کرنا نہیں۔ معلومات کو ذہن نشیں کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنا بند کریں اور اس کی بجاے حاصل شدہ معلومات کو عملی طور پر برتنے کی کوشش کریں۔

20) اگر آپ اپنے کو مطالعے کاعادی بنانا چاہتے ہیں، تو ابتداءاً ہر روز صرف 2 منٹ پڑھنے کا ہدف مقرر کریں۔ یہ اتنا معمولی ہدف ہے کہ اسے حاصل نہ کرسکنے کے لیے کوئی معقول عذر پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔

21) مطالعے کے بعد کتاب کا خلاصہ لکھنے والے کو محض اسے پڑھنے والے سے 10 گنا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

22) اگر آپ کسی کتاب کے مطالعے کے بعد اپنے طرز عمل یا سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں محسوس کرتے ، تو یا تو کتاب بوگس تھی یا آپ نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔

23) آپ نے اگر کوئی کتاب خریدی ہے، تو  فرض نہیں ہے کہ آپ اس کا مطالعہ بھی کریں۔

24) جو شخص سال میں سو سے زائد کتابیں پڑھتا ہے، تو یا تو تصنیف، تدریس، پوڈ کاسٹنگ،  تخلیق کے ذریعے اسے مطالعے کا صلہ ملتا ہے یا پھر وہ فکشن کا قاری ہے۔

25) کوئی بھی آدمی ایک ہی کتاب کو دو بار نہیں پڑھتا؛ کیونکہ وہ پہلے والی کتاب نہیں رہتی اور وہ شخص پہلے والا قاری نہیں رہتا۔

26) کتابیں سرمایہ کاری ہیں، صرفہ نہیں۔ 10 ڈالر کی کتاب کے مطالعے سے آپ ایک لاکھ  یا ایک کروڑ ڈالر کمانے کی راہ بھی پا سکتے ہیں۔(اس حوالے سے وارن بفیٹ کا مضمونThe Intelligent Investor پڑھا جاسکتا ہے)

27) مطالعے کا ماحول مطالعے کی ترغیب سے زیادہ اہم ہے۔ لائبریری میں اوسط درجے کی کتاب کا مطالعہ راک کنسرٹ میں کسی بے مثال کتاب کے مطالعے کے بالمقابل زیادہ بہتر اور آسان ہے۔

28) جہاں بھی جائیں ایک کتاب اپنے ساتھ رکھیں، نہ معلوم کب اور کہاں آپ کو مطالعے کا وقت مل جائے۔

29) کسی کتاب کے مطالعے میں دل نہیں لگ رہا،تو کم ازکم تین بار اسے پڑھنے کی کوشش کریں، تب بھی وہ آپ کا دل نہ جیت سکے،تو اسے ایک طرف رکھنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کریں۔

30) آج کل مطالعے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے فون میں  کوئی ای بک یا آڈیو بک ڈاؤن لوڈ کرکے رکھیں؛ تاکہ اگر کسی وقت مطالعے کا جی چاہے اور آپ کے پاس کوئی مطبوعہ کتاب نہ ہو، تو ایک متبادل پاس موجود ہو۔

31) کسی مصنف/تخلیق کار کی سب سے زیادہ تعریف جو ہوسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ اسے دکھاسکیں کہ آپ نے اس کی کتاب کے مطالعے کے دوران اس میں کہیں کچھ لکھا ہے، کسی حصے کو ہائی لائٹ کیا ہے، کسی اقتباس کو جذب کیا ہے ۔ اگر آپ اسے کتاب جوں کی توں دکھائیں گے، تو وہ سوچے گا کہ آپ نے اسے شاید پڑھا ہی نہیں۔

32) مختصر ضخامت کی کتابوں کے مطالعے میں زیادہ وقت صرف کریں، کہ بعض مختصر ترین کتابوں سے گہرے اسباق حاصل ہوتے ہیں۔

33) سدابہار موضوعات پر سدابہار کتابیں پڑھیں، جدید موضوعات پر نئی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

34) کتابیں زندگی کا سب سے اعلیٰ جگاڑ ہیں: دس ڈالر میں اور 10 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں آپ 10 سال کا علم و حکمت حاصل کر سکتے ہیں۔

35) (اگر آپ مطالعہ نہیں کرتے تو) آپ کے لیے مطالعہ شروع کرنے کا پہلا بہترین وقت 10 سال پہلے تھا اوردوسرا بہترین وقت آج ہے۔


(مضمون نگار مشہور بلاگر ہیں، سوشل میڈیا( ٹوئٹر، یوٹیوب وغیرہ) پر Alex & Books کے نام سے انگریزی زبان میں کتابوں پر تبصرے ، مطالعے کے حاصلات اور کتب بینی کے حوالے سے ترغیبی مواد نشر کرتے رہتے ہیں)

Friday, April 18, 2025

 *ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر ، جو مسلمانوں کی بے چارگی اور بے بسی کا رونا حقیقی طور رو رہی ہے* ۔

*ضرور پڑھیے اور غور کیجئے کہ ہم کہاں پہونچ چکے ہیں یا ہمیں کہاں پہونچا دیا گیا ہے* ۔


*علی سہراب* کے ٹوئیٹر پیج سے ماخوذ ہندی کا ترجمہ ۔

۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوک سبھا میں نئے وقف قانون کو بنانے والے تقریباً تمام ارکانِ پارلیمان ہندو تھے۔

راجیہ سبھا سے بھی اس نئے قانون کو پاس کرنے والوں میں بیشتر ہندو تھے۔

نئے آئینی وقف ایکٹ کے خلاف عدلیہ میں مقدمہ لڑنے والے تمام بڑے وکلا بھی ہندو تھے۔

اسی ایکٹ کے دفاع میں، قانون ساز ادارے کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے بھی ہندو تھے۔

چیف جسٹس آف انڈیا (CJI) بھی ہندو ہیں۔

نئے وقف قانون پر ٹیلی ویژن چینلوں پر بحث و مباحثہ کرنے والے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی ہندو ہیں۔


کچھ لوگ اسے "گنگا جمنی تہذیب" کہہ کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں،

لیکن درحقیقت یہ تصویر بھارت میں مسلمانوں کی دگرگوں حالت اور ان کی بے بسی کو نمایاں کر رہی ہے۔


سوچئے،

مسلمانوں کی زمینیں،

مسلمانوں کی مساجد،

مسلمانوں کی درگاہیں،

مسلمانوں کے مدارس،

مسلمانوں کے عیدگاہ،

مسلمانوں کے قبرستان،

مسلمانوں کے امام باڑے —

سب کچھ نشانے پر ہے۔

اور مسلمان خود اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اپنی ہی زمین، اپنی ہی عبادت گاہوں اور اپنے ہی اداروں کے تحفظ کے لیے عدالت میں کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہے۔


یہ صرف اقتصادی یا سیاسی کمزوری نہیں ہے،

یہ ایک گہری نفسیاتی گراوٹ ہے۔


گزشتہ ستر برسوں میں آئینی نظام کے ذریعے،

مسلمانوں کا اجتماعی ذہنی استحصال اس قدر منظم اور بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے کہ

آج مسلمان اپنے دکھ درد کو زبان پر لانے کی سکت بھی کھو بیٹھے ہیں۔


آج اگر کوئی مسلمان اپنے حق کی بات کرتا ہے،

تو اس پر آئینی نظام کے تحت مقدمات دائر کر دیے جاتے ہیں،

عدلیہ کے ذریعے "عدالتی حراست" کے نام پر جیل بھیج دیا جاتا ہے،

سالہا سال ضمانت نہیں ملتی،

سماعتیں نہیں ہوتیں،

اور اس کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں عدالتوں کی دہلیز پر بوڑھے ہو جاتے ہیں۔


ذرا غور کیجیے:

ملک کی سب سے بڑی عدالت میں

ایک پوری قوم اپنی فریاد سنانے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

مسلمانوں پر اتنا ظلم ڈھایا گیا ہے کہ

ہماری تکلیفوں کی زبان بھی گنگ ہو چکی ہے۔


ستر برس کے آئینی جبر کے نتیجے میں

مسلمانوں کو بے زبان اور بے حس بنا دیا گیا ہے۔

یہ یقیناً باعثِ شرم ہے۔

مگر افسوس کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے اس اجتماعی استحصال پر بھی

مکارانہ انداز میں جشن مناتے نظر آتے ہیں۔


#جمہوریت

https://whatsapp.com/channel/0029Vb3oUyD65yDCXjFotZ0W

Tuesday, April 15, 2025

 *اسرائیل اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟ ؟؟؟*🤔😢

  

ایک شخص "Gree Ac" کی ٹھنڈک سے سو کرصبح "Seiko-5" کے الارم سے اٹھتا ھے "Colgate" سے برش کرتا ہے "Gellet" سے شیو کرکے "Lux" صابن اور "Dove" شیمپو سے نہاتا ہے اور نہانے کے بعد "Levis" کی پینٹ "POLO" شرٹ اور "GUCCI" کے شوز "Jocky" کے socks پہن لیتا ہے چہرے پر "Nevia" کریم لگا کر "Nestlé food" سے ناشتہ کرنے کے بعد "Rayban" کا چشمہ لگا کر "HONDA" کی گاڑی میں بیٹھ کر کام پر چلا جاتا ہے۔

راستے میں ایک جگہ سگنل بند ھوتا ہے وہ جییب سے

"آئی فون 11" نکالتا ہے اور "زونگ" پر 4G internet چلانا شروع کر دیتا ہے اتنے میں سبز بتی جلتی ہے آفس پہنچ کر "HP" کے کمپیوٹر میں کام میں مشغول ھو جاتا ہے کافی دیر کام کرنے کے بعد اسے بھوک محسوس ھوتی ہے تو "McDonald's " سے کھانا اور ساتھ میں "Nestlé " کا پانی بھی منگواتا ہے۔

کھانے کے بعد "Nescaffe" کی کافی پیتا ہے اور پھر تھوڑا آرام کرنے چلا جاتا ہے کچھ آرام کے بعد  "Red Bull" پیتا ھے اور دوبارہ کام میں مشغول ھو جاتا ہے تھوڑا بوریت محسوس ھونے پہ جیب سے Apple کے "i-pods"نکال کے انڈین گانے سنتا ھے ساتھ ھی  "TCS" سے ایک پارسل بیرون ملک بھیجواتا ھے اور "PANASONIC" کے لینڈ لائن سے اطلاع کرتا ھے۔ اور "PARKER" کے Pen سے ایک نوٹ لکھتا ھے۔کچھ دیر بعد "ROLEX" کی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ واپسی کا وقت ہو گیا ہے تو وہ دوبارہ "HONDA" کی گاڑی اسٹارٹ کرتا ہے اور گھر کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔

کچھ ہی لمحے بعد "Shell" کا پیٹرول پمپ آ جاتا ہے وہاں سے ٹنکی فل کرواتا ہے اور "HYPER STAR" کا رخ کر لیتا ہے  سٹور سے بچوں کے لئے "میگی" اور "کنور" کے نوڈلز "CADBARY" KIT KAT" اور "SNIKERS" اور "Nestle" کے مہنگے جوس وغیرہ خرید لیتا ہے سپر سٹور کے ساتھ ہی "PIZZA HUTT" سے وہ بیوی بچوں کے لئے پیزا اور "KFC" سے برگرز کی ڈیل بھی خرید لیتا ہے۔

گھر جا کر کھانا کھانے کے بعد سب گھر والے "SONY" کے Led پر مشہور زمانہ " NewsChannel " پر مایوسی والی خبریں سن رہے ھوتے ہیں اور ہاتھ میں "Coke" کے گلاس پکڑے ھوتے ہیں کہ خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینوں بمباری کی یہ سن کر وہ آگ بگولہ ھو جاتا ہے اور اونچی آواز میں بولتا ہے !!! 

اسرائیل اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟😢😢😢

*اللہ کے واسطے، یہودیوں کی ان ⬆️ چیزوں کا بائیکاٹ کریں.*😢😢😢

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے.

........ - - - - - - -.......... 

اس میسج کو اپنی براڈ کاسٹ (Broadcast) کے ذریعے زیادہ سے ذیادہ شئیر کریں.

اور اگر شئیر نہ ہو تو کاپی پیسٹ کر کے دوسروں کو سینڈ کریں. اور ہمارے اس پیغام کو وائرل کرنے میں ہمارا ساتھ دیں. 

اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اس عظیم کام کو پھیلانے کا اجر عطا فرمائے.آمین آمین

Monday, April 14, 2025

 *🎯 کامیاب تدریس کے رہنما اصول*


*ہر مدرس، معلم، استاذ، اور مربی مرد اور عورت کے لئے رہنما ہدایات !*


✍️ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد  رفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ 

صدر جامعہ دارالعلوم کراچی


(1) اخلاص و للہیت۔ 

(2) طلبہ سے گہری ہمدردی اور محبت و شفقت۔ 

(3) ان کے علم و کردار کو بنانے کی دھن۔ 

(4) درس کی پورے اہتمام سے تیاری۔ 

(5) رجوع الیٰ اللہ اور دعا کا اہتمام۔ 

(6) طلبہ میں متعلقہ فن کی دلچسپی پیدا کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی اہمیت و افادیت کو راسخ کرنا، استاذ کے لیے کلیدِ کامیابی ہے۔ 

(7) ہر طالب علم پر اُس کی ذہنی سطح اور نفسیاتی کمزوریوں اور خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی توجہ دینا ۔

(8) حوصلہ افزائی:

ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، مگر انداز اس طرح اختیار کیا جائے کہ کمزور طلبہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، کمزور طالب علم کو کبھی بے وقوف اور غبی جیسے الفاظ نہ کہے جائیں کہ ان سے اُس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، ایسے طلبہ کا کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

(9) جو طالب علم اچھا سوال کرے، اُسے سراہا جائے اور سب طلبہ کو سنوایا جائے۔ 

(10) ایک ایک بات کو مختلف اسالیب اور مثالوں سے سمجھایا جائے تاکہ ہر طالب علم کو اُس کی ذہنی سطح کے مطابق راہنمائی مل سکے، ذی استعداد طلبہ مشکل بات کو اصطلاحی الفاظ سے بآسانی سمجھ جاتے ہیں، جبکہ کمزور طلبہ کو وہی بات سمجھانے کے لیے عام فہم الفاظ اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے، صرف کتاب میں درج شدہ مثالوں پر اکتفا نہ کیا جائے، اپنی طرف سے نئی مثالیں پیش کی جائیں اور پھر طلبہ سے نئی مثالیں پوچھی جائیں۔ 

(11) استاذ کو درس کے لئے مطالعہ اور تحقیق تو اپنی اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیئے، لیکن درس میں صرف اتنا بتانا چاہیئے جتنے کی انہیں ضرورت ہے، اپنی ساری معلومات اور تحقیقات کو انڈیل دینا، ان کے ساتھ اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 

(12) مطالعہ کے دوران سبق کا تجزیہ کرلیا جائے تو استاذ کے لئے تفہیم اور طلبہ کے لئے اُس کا فہم آسان ہوجاتا ہے، پھر جب تک سبق کا پہلا جزء اچھی طرح سب طلبہ نہ سمجھ جائیں، اگلا جزء شروع نہ کیا جائے، مثلاً جب تک طلبہ کو صورتِ مسئلہ اچھی طرح نہ سمجھادی جائے اُس وقت تک اُس میں علماء کا اختلاف نہ بیان کیا جائے اور جب تک یہ اختلاف ان کے ذہن نشین نہ ہوجائے، دلائل شروع نہ کیے جائیں، جب تک پہلی دلیل پوری طرح ان کے سمجھ میں نہ آئے دوسری دلیل شروع نہ کی جائے۔ جب تک کسی دلیل کا ایک جواب واضح طور پر نہ سمجھادیا جائے، دوسرا بیان نہ کیا جائے۔ وغیر ذلک۔ 

(13) ابتدائی درجات میں تحریری اور زبانی مشق زیادہ سے زیادہ کرائی جائے، خصوصاً نحو، صرف اور ادب میں اس کا خیال رکھا جائے۔ 

(14) یہ اطمینان کرنے کے لئے کہ سب طلبہ سبق میں دلچسپی لے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں، درس کے دوران اور درس کے اختتام پر استاذ کو چاہیئے کہ اُن سے سوالات کرتا رہے، خصوصاً کمزور طلبہ سے کہ وہ کیا سمجھے؟ 

(15) کوشش ہونی چاہیئے کہ عبارت پڑھنے کا موقع ہر طالب علم کو ملے، ایسا نہ ہو کہ پورے سال صرف چند طلبہ تو عبارت پڑھیں، باقی محروم رہیں، اس کے لئے یا تو باری مقرر کردی جائے، لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ہر روز استاذ ہی عبارت پڑھنے والے کا انتخاب کرے۔ 

(16) طلبہ کو درس سے پہلے مطالعہ کا اور درس کے بعد کسی وقت تکرار کا پابند کیا جائے۔ 

(17) درس سے دلچسپی پیدا کرنا:

جب کوئی مشکل بحث آئے یا طلبہ کی اکتاہٹ کا اندیشہ ہو تو طبیعتوں میں نشاط پیدا کرنے کے لئے کوئی دلچسپ چٹکلا، لطیفہ، مختصر قصہ یا دلچسپ شعر سنادیا جائے۔ 

(18) طلبہ کے ساتھ نہ حد سے زیادہ بے تکلفی ہو کہ وہ گستاخ بن جائیں، نہ اتنی سنجیدگی یا رعب کہ وہ ضروری سوال کرنے سے بھی جھجکنے لگیں۔

(19) طلبہ کو صرف کتاب پڑھانا مقصود نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ متعلقہ فن سے مناسبت اور اس کا ملکہ بیدار کرنے کی بھی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ 

(20) انداز تخاطب میں شائستگی۔ 

(21) اپنا عملی نمونہ فن تدریس بہت نازک اور محنت طلب فن ہے اور اس کی جزئیات بے شمار ہیں، اس میں قدم قدم پر اپنی اپج اور اجتہادی صلاحیت سے کام لے کر نت نئی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں، ہر طالب علم کے لیے بسا اوقات الگ طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کسی خاص لگے بندھے طریقے کا استاذ کو پابند کرنا، نہ مناسب ہے نہ ممکن، ہر موقع کے لئے اُسے خود ہی طریقہ ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ 


البتہ مذکورہ بالا جن امور کا ذکر میں نے کیا ہے، وہ اصولی درجے کے ہیں اور ہر کامیابی چاہنے والے استاذ کے لئے ان شاء اللہ مفید ہیں۔

       

▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬

🩶      ✍🏻ㅤ     📩       📤 

ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ    ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ  

https://chat.whatsapp.com/L5Knnewebr62tLt0z6EpZs

▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬

 *‏🌋30 سال سے امریکہ اور اسرائیل ایران کو دھمکیاں ہی دیتے آرہے ہیں، پتہ ھے کیوں؟*


 *وجوھات جانیں:*


"Yedioth Ahronoth ,یدعوت احرنوتھ"

نامی عبری اخبار لکھتا ھے کہ ایران اسرائیل ظاھری دشمنیاں دکھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ اسرائیلی 30 بلین کی سرمایہ کاری ایرانی سر زمین پے ھو رہی ھے۔۔! 

‏🌋اخبار کیمطابق علی الاقل 200 اسرائیلی کمپنیوں کیساتھ ایران کے مضبوط تجارتی روابط ہیں جن میں سے اکثر تیل کمپنیاں ہیں جو ایران کے اندر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

اسرائیل میں ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا 20 لاکھ کے قریب ھے جو کہ ایران میں موجود انکے سب سے بڑے دیدیا شوفط نامی حاخام مرجع جو کہ ایرانی حکمرانوں خاص کر جعفری وغیرہ کے مقرب ھے، سے تعلیمات لیتے ہیں۔

اور ان لوگوں کو اسرائیلی فوجی قیادت، سیاست اور عام تجارتی کنٹریکٹنگ میں بھت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ھے۔


🌋تہران میں یہودی معبد خانوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ھے جبکہ صرف تہران میں سنیوں کی تعداد 15 لاکھ ھونے کے باوجود ایک بھی سنی مسجد نھیں۔!!

امریکہ اور اسرائیل کے اندر ایران اور یہودی حاخامات (مذھبی پیشواوں) کے درمیان

رابطوں کا گرو ایک اوریل داویدی سال نامی حاخام ھے جوکہ ایرانی ھے۔

کینڈا بریطانیہ فرانس میں موجود یہودیوں میں سے 17000 ایرانی یہودیوں کے پاس تیل کمپنیوں کی نہ صرف ملکیت اور شئیرز ھیں بلکہ ان میں سے لوگ ھاؤس آف لارڈز (House of Lords) کے ممبرز بھی ہیں۔


🌋ایران امریکہ میں موجود اپنے یہودیوں کی وساطت سے وھاں موجود یہودی لوبیز کے ذریعہ امریکی ممکنہ کسی بھی حملے سے اسکو باز رکھتی ھے جسکے مقابل میں ایران یہودی کمپنیز کو مشترکہ تعاون فراہم کرتی ھے۔

امریکہ میں موجود یہودیوں میں سے 12 ھزار ایرانی ہیں جو کہ یہودی لوبیز میں نہ صرف بھت اثر و نفوذ رکھتے ہیں بلکہ بھت سے لوگ کانگریس اور سینٹ کے ممبرز بھی ہیں۔

خاص ایرانی یہودیوں کیلئے اسرائیل کے اندر ریڈیو سٹیشنز ہیں جن میں سے ایک "radis" راڈیس" نامی مشہور ریڈیو سٹیشن ھے بلکہ انکے ھاں اور بھی ایرانی تعاون سے اس طرح کے ریڈیو سٹیشنز قائم کئے جاچکے ہیں۔


🌋اسرائیل کے بعد ایران میں سب سے زیادہ 30 لاکھ یہودی آباد ہیں جنکی رشتہ داریاں ابھی تک اسرائیلی یہودیوں سے قائم و دائم ہیں۔

اسرائیل میں یہودی بڑے بڑے حاخامات ایرانی شھر اصفھان کے یہود میں سے ہیں جنکو ٹھیک ٹھاک مذھبی اور فوجی اثر و رسوخ حاصل ھے جو کہ اصفہان معبد خانوں کے تھرو ایران سے تعلقات رکھتے ہیں۔


🌋اسرائیلی وزیر دفاع شاءول موفاز ایرانی یہودی ھے جسکا تعلق اصفھان شھر سے ھے جو کہ اسرائیلی فوج کے اندر ایرانی ایٹمی پروگرام پر حملوں کی سخت مخالفین میں سے ایک ھے، سابق اسرائیلی صدر، موشیہ کاتسف کا تعلق بھی اصفھان سے ہی تھا اسی وجہ سے احمدی نجاد خامنائی اور پاسدارانِ انقلاب کے رہنماؤں کیساتھ اسکے مضبوط مراسیم تھے۔

انکے مطابق یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین علیہ السلام کا آخری آرام گاہ ایران میں ھے 

اسی وجہ سے یہودی القدس شھر کی طرح ایران کیساتھ بھی ٹوٹ کے محبت کرتے اور چاھتے ہیں دنیا بھر سے یہودی لوگ وھاں زیارت یا حج په جاتے ہیں۔


🌋یہودی فلسطین سے بھی زیادہ ایران کا احترام اس لئے بھی کرتے ہیں 

کیونکہ یزدجرد کی بیوی شوشندخت کا تعلق ایران سے تھا اور وہ خبیث قسم کی یہودیہ عورت تھی۔

یہودیوں کے لئے ایران سائرس کی زمین ہے کیونکہ وھاں "استرومردخاي" مقدس "دانیال" حبقوق" وغیرہ مدفون ہیں جو کہ یہودیوں کے مطابق انبیاء اور مقدس لوگ ہیں۔

‏🌋اسرائیل حسن نصر اللہ کو اب تک کیوں قتل نھیں کر رہی؟؟ حالانکہ لبنان بلکہ اسکے گھر کے اوپر فضاوں میں انکے جنگی طیارے گھوم رھے ھوتے ہیں جبکہ فلسطین میں اپنے مخالفین کو چن چن کے شھید کر دیا جاتا ھے مساجد تک کو نھیں چھوڑتے۔

ایران اسرائیل کیساتھ دشمنی کا ڈھونک رچا کر کس طرح عرب ممالک کو دھوکہ دے رھا

 حالانکہ ایران کے اندر یہودی 200 کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں فوقیت دی جا رہی ھے ۔۔!!


🌃اور آخر میں:

کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے دو تہائی حصہ ایرانی یہودیوں پر مشتمل ہیں؟؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی بستیوں میں بسنے والوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ایرانی یہودیوں کی ھے ؟؟

یہ تمام معلومات جاننے کے بعد آپ کو یہ حدیث اچھی طرح سے سمجھ میں آجائیگی:

رواه مسلم.﴾

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اصفھان کے 70 ھزار یہودی دجال کی پیروی کریں گےان پر طیالسہ ( یعنی سبز و سیاہ رنگ کے چوغہ نما لباس)" ھونگے (مسلم شریف)

اسرائیل اور ایران کے ٹوپی ڈرامے ، کیا امریکا ایران پر حملے کرے گا ؟


🌋12000ایرانی یہودی امریکہ میں یہودی لابی کا کانگریس اور سینیٹ میں دستہ تشکیل دیتے ہیں۔ 


اسرائیل میں موجود بڑے یہودی عالم ایرانی ہیں جن کا تعلق اصفہان سے ہے۔اسرائیل کے سابق صدر موشے کاٹسو اورسابق اسرائیلی وزیر دفاع شاؤول موفاز ایرانی یہودی ہیں جو اصفہان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر کس چالاکی کے ساتھ دونوں نے مسلم امت کو بیوقوف بنایا ہوا ہے!

Saturday, April 12, 2025

پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہ

مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کو مناظرے مباہلے کا چیلنج


حضرت مولانا محمد عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ

خطیب لال مسجد و مہتمم جامعہ حفصہ اسلام آباد پاکستان


https://www.facebook.com/share/v/17vCiYV16w/

[12/04, 3:43 pm] عزیر احمد قاسمی: کابل میں TTP سے مذاکرات کی کہانی

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی زبانی

پاکستان میں مسلح کاروائیاں حرام اور بغاوت ہیں


https://www.youtube.com/live/7FK0M5PzDZo?feature=share

Sunday, April 6, 2025

 1400 سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو صحیح 28 نشانیاں بیان کی تھیں وہ سچ ہوئیں

اس کو پڑھنے کی امید ہے۔


1: مرد کم اور عورتیں زیادہ ہوں گی۔


2: لوگ موسیقی کی شکل میں قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔


3: مال کی محبت کی وجہ سے بیوی بھی شوہر کے ساتھ کاروبار میں حصہ لے گی


4: ہر کوئی اپنے آپ کو موٹا اور مضبوط بنانا چاہتا ہے۔


5: نماز اور زندگی میں لوگوں کا سکون ختم ہو جائے گا۔


6: سود کا کاروبار عام ہو جائے گا۔


7. منافق پیدا ہونگے آبادان میں لوگ عبادت کریں گے منافقت اور شہرت پانے کے لیے


8: فتنے بڑھیں گے اور دینی علم میں کمی آئے گی۔


9: لوگ قرآن کو تنخواہ کا ذریعہ بنائیں گے


10: جھوٹ عام ہو جائے گا اور لوگ جھوٹ کی گواہی دیں گے۔


11: لوگ صحیح احادیث کا انکار کریں گے اور غلط احادیث بیان کریں گے۔


12: مسلمان امیر ہو جائیں گے لیکن مذہبی پیشوا نئے ہو جائیں گے


13:کفر آسان ہوگا انسان صبح مسلمان اور شام کو کافر اور شام کو مسلمان اور صبح کافر 


14: آنے والی ہر نسل پچھلی نسل سے بدتر ہوگی۔


15: لوگ اسلام پر چلنے والوں پر حیران رہ جائیں گے اور وہ نئی چیزیں دیکھیں گے۔


16: قتل و غارت بڑھتے جائیں گے قاتل اور مقتول کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں کیوں قتل کرتا ہوں اور کیوں مارا جارہا ہوں


17 کافر مسلمانوں پر غالب آئیں گے مسلمان زیادہ ہوں گے لیکن غلام ہوں گے کیونکہ وہ دنیا سے پیار کریں گے اور موت سے ڈریں گے


18: مذہب پر عمل اس آگ کے تارکول کی طرح ہوگا جو چھڑی میں پھنسا ہوا ہے۔


19: گناہ کرنا بہت آسان ہوگا اور گناہ کو گناہ قبول نہیں کیا جائے گا۔


20: دنیا کے امیر ترین لوگ کنجوس ہوں گے۔


21: عمر سے برکت ختم ہو جائے گی، سال مہینوں کی طرح، مہینہ ہفتوں کی طرح، ہفتہ دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر جائے گا۔


22: مسلمان ہر عمل میں کافروں کی پیروی اور اطاعت کریں گے۔


23: عرب کی مٹی وسیع ہوگی اور مدینہ کی آبادی بڑھ جائے گی


24: لوگ زکوٰۃ لینے کے اہل نہیں ہوں گے اور پھر بھی زکوٰۃ مانگیں گے۔


25 عورتیں سجتی ہونگی پھر بھی ننگی ہونگی مطلب کپڑے اتنے نازک ہوں گے کہ جسم کی طرح نظر آئیں گے


26: زنا آسان ہوگا اور زنا کے اسباب میں اضافہ ہوگا۔


27: جہالت عام ہو جائے گی، لوگوں کو دنیا کا علم ہو جائے گا، مگر جہالت کی وجہ سے دینی علم سے جاہل ہوں گے۔


28: بے حیا عورتوں اور آلات موسیقی میں اضافہ ہوگا۔


اگر آپ نے مکمل پڑھ لیا ہے تو دوسروں کو بھی شئیر کریں جزاکم اللہ خیر !!!      *https://chat.whatsapp.com/ENdLdhmSoDI4gpPosnyYar*

آج کل فیس بک پر بعض 'قلم کار' غزہ کے نام پر مسلسل ماتم کناں ہیں۔ ان کی تحریریں غم کے اظہار سے بڑھ کر مایوسی، بےبسی اور ناامیدی کو ہوا دے رہی ہیں، گویا سب کچھ ختم ہو چکا ہو۔


فلاحی اداروں اور طبی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق، غزہ میں اب تک تقریباً 70 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں۔ اگر اس تعداد کو دوگنا بھی کر لیں تو یہ 1 لاکھ 40 ہزار بنتی ہے۔ جبکہ غزہ کی کل آبادی 22 لاکھ ہے۔ بعض تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا غزہ نیست و نابود ہو چکا ہے، جو حقیقت سے بعید ہے۔


یہ جذباتی شور مچانے والے اکثر وہی ہیں جو یا تو تاریخ سے ناواقف ہیں یا دانستہ طور پر اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے ہیں کہ صرف آپریشن پولو (1948) میں، ریاست حیدرآباد میں ہزاروں مسلمان شہید کیے گئے تھے؟(حیدرآباد کو بھارت میں شامل کرنے کے لیے آپریشن)  کیا اس کے بعد حیدرآباد کے مسلمان مٹ گئے؟ جموں میں بھی ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، لیکن آج اُن شہادتوں کا کوئی ماتم نہیں کرتا۔ کیوں؟


حقیقت یہ ہے کہ فیس بک پر ایک شخص مایوس کن پوسٹ لکھتا ہے اور پھر سینکڑوں لوگ بغیر سوچے سمجھے اسے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس منظم ماتم کی قیادت وہی نام نہاد 'سیلیبریٹی رائٹرز' کر رہے ہیں جو قوم کو غیر شعوری طور پر بے عملی اور خود ترسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔


یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شہادتیں جنگ کا فطری حصہ ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا— ان سب جنگوں میں لاکھوں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب سوشل میڈیا نہیں تھا؛ لوگ بےخبر تھے۔ آج میڈیا ہے، لیکن شعور کا فقدان ویسا ہی ہے۔


غزہ کا قتل عام نہ پہلا ہے، نہ آخری۔ بوسنیا، الجزائر، چیچنیا، فلسطین— ہر صفحے پر امت کے خون کی تحریر موجود ہے۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو وہ ساری قربانیاں کامیاب رہی ہیں۔


لیکن سوال یہ ہے: ہم نے اس کے جواب میں کیا کیا؟ کیا ہم نے کبھی ان حالات کے دفاع کی تیاری کی؟


اور یہ جو آئے دن عالم اسلام، خصوصاً عرب حکومتو کو گالیاں دی جاتی ہیں، تو یہ بھی غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ روزانہ غزہ میں جو لاکھوں ڈالر کی امداد پہنچتی ہے، وہ کہاں سے آتی ہے؟ اور جو عرب ممالک فلسطینیوں کو شہریت نہیں دیتے، وہ بھی کسی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت ہے تاکہ فلسطینیوں کا وجود کبھی مٹنے نہ پائے اور ان کی جدوجہد باقی رہے۔


اب ذرا اپنا حال دیکھیں: ہندوستانی مسلمان خود مظالم کا شکار ہے، لیکن حکومت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے بھی گریز کرتا ہے— اور بعض اوقات یہی احتیاط حکمت کا تقاضا بھی ہوتی ہے۔ تو پھر ہم دوسروں سے کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ براہِ راست جنگ میں کود پڑیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان حکومتوں کی خاموش حمایت کے بغیر غزہ کی مزاحمت برسوں سے جاری ہی نہ رہ سکتی۔


یاد رکھیں: جنگ طویل ہے، لیکن مایوسی اختیار کرنا شکست کی پہلی سیڑھی ہے۔ غازی یا تو فاتح ہوتا ہے یا شہید۔ ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ہوگا، اپنے حال کو سمجھنا ہوگا، اور قوم وملت کے مستقبل کی ترقی کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔


بالفرض آج سرحدیں کھل جائیں، تو کیا ہم میں سے کوئی میدان میں جانے کو تیار ہے؟ کون ہے جو دنیا کی آسائشیں چھوڑ کرقوم وملت کے نام پرگھر سے نکلے گا؟


سوچئے— صرف غصہ نہ کریں، صرف پوسٹ نہ لکھیں۔ خود کو تیار کریں، مضبوط بنائیں، اور امت کے لیے واقعی کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔


یہ پیغام اُن سب کے لیے ہے جو ناامیدی پھیلا رہے ہیں۔ ہمت، حکمت اور حوصلہ— یہی آج کا اصل تقاضا ہے


محمد خلیق رحمانی

 تاریخ دہرا رہی ہے!


ان دنوں سوشل میڈیا پر بخارا اور سمرقند کی وہ تاریخ گردش کر رہی ہے

جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے حکومت نے بتدریج وقف املاک پر قبضہ جما لیا۔


مگر افسوس… یہ قصہ صرف بخارا یا سمرقند کا نہیں، بلکہ ہر اُس قوم کا ہے:

جو غفلت کی چادر اوڑھ کر سو جائے،

بدنظمی کو اپنی زندگی کا معمول بنا لے،

اختلاف کو اپنی شناخت سمجھ لے،

کمزوری کو اپنی تقدیر مان لے،

جو ماضی کے زخموں سے سبق نہ لے،

اور مستقبل کی تیاری کے بجائے حال کے سائے میں سکون تلاش کرے،

جو دشمن کی چالاکیوں کو اصلاحات کا نام دے کر قبول کرے،

اور اپنے دینی اداروں کے زوال پر صرف ماتم پر اکتفا کرے۔


ایسی قوموں کے لیے تاریخ صرف عبرت نہیں رہتی،

بلکہ بار بار دہرا دیا جانے والا انجام بن جاتی ہے۔


یہ تباہی کسی اچانک زلزلے یا جنگ کا نتیجہ نہیں تھی،

بلکہ یہ ایک منظم، قانونی زبان میں لپٹی ہوئی

حکومت کی جانب سے مرحلہ وار منصوبہ بندی تھی —

بالکل ویسی ہی جیسی آج بھارت میں وقف کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔


تاریخ سے نظریں چُرانا؟ یا سچ کا سامنا؟


کچھ لوگ کہتے ہیں ایسی باتیں مت پھیلاؤ، عوام کو مت بتاؤ، اس سے ہمیں خود نقصان ہوگا۔


مگر المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے نظریں چُرانا تو ہماری عادت بن چکی ہے۔


ہم نے اپنی اسلامی تاریخ کو یا تو درخورِ اعتنا نہ سمجھا،

یا اسے قصے کہانیوں کی طرح سنا اور بھلا دیا۔


لیکن افسوس، وہی تاریخ جن سے ہم شرمندہ یا لاتعلق ہیں،

وہی دوسرے قومیں اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھاتی ہیں،

ان پر مقالے اور تھیسس لکھتی ہیں،

ان سے سیکھتی ہیں،

اور انہی تجربات سے بچاؤ کی راہیں نکالتی ہیں۔


ہم تاریخ سے منہ موڑتے رہے،

اور وہ تاریخ ہمیں مڑ کر کاٹتی رہی۔



---


❖ 1920 کی دہائی میں سوویت ترکستان میں کیا ہوا تھا؟

❖ اور آج 2025 کے ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟

❖ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بخارا اور دہلی میں فرق صرف تاریخ کا ہے، ذہنیت کا نہیں۔



---


سوویت ماڈل – آج کا بھارتی ایڈیشن؟


1. وقف پر قبضہ – ریاستی نگرانی کی آڑ میں چوری


▪️ 28 دسمبر 1922 کو جمہوریہ ترکستان کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک فرمان جاری کیا:

▪️ مذہبی اداروں سے وقف املاک کی ملکیت چھین لی گئی

▪️ ان کا انتظام محکمہ تعلیم کو سونپا گیا

▪️ مقامی سرکاری افسران کو متولی بنانے کا اختیار دے دیا گیا


▪️ آج بھارت میں وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعے:

▪️ وقف بورڈ کے اختیارات ختم کیے جا رہے ہیں

▪️ ریاست کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ وقف کی حیثیت طے کرے یا ختم کرے


جس طرح سوویت حکومت نے “انتظامی بہتری” کا بہانہ بنایا،

ویسے ہی آج “قانونی شفافیت” کا پردہ ڈال کر

وقف کو ریاستی جائیداد میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔



---


2. شرعی عدالتوں کا خاتمہ – عدالتی آزادی کی تذلیل


▪️ 1923 میں سوویت حکومت نے شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو

▪️ باطل قرار دینے کا اختیار عوامی عدالتوں کو دے دیا

▪️ 1926 تک تمام شرعی عدالتیں قانوناً ختم کر دی گئیں

▪️ 1927 میں سوویت یونین نے حکم جاری کیا کہ آئندہ کوئی

▪️ نئی اسلامی عدالت قائم نہیں ہو سکتی


▪️ آج بھارت میں:

▪️ مسلم پرسنل لا

▪️ طلاق

▪️ وراثت

▪️ اور خاندانی معاملات کو

▪️ یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) کی زد میں لایا جا رہا ہے


یہ وہی حکمتِ عملی ہے:

شریعت کے دائرے کو محدود کرو،

عوامی قانون کے تابع بنا دو،

اور آخرکار شریعت کو قانونی نظام سے بے دخل کر دو۔



---

. دینی تعلیم کا گلا گھونٹنا – بنیاد پرستی کے نام پر


زار روس کے دورِ حکومت (1910–1917) میں مسلمانوں کے لیے

تعلیم کا کوئی مؤثر ریاستی انتظام نہ تھا۔


صرف 97 سرکاری اسکول موجود تھے

(3,000 سے بھی کم طلبہ کی گنجائش)۔


مسلمانوں نے اپنی محنت سے

7,290 مکاتب اور 375 مدارس قائم کیے،

جن میں 69,864 بچوں اور 9,627 طلبہ کو تعلیم دی جا رہی تھی۔


یہ اعداد و شمار امتِ مسلمہ کی اجتماعی غیرت کی عکاسی تھے،

مگر جب "ریاست اور مذہب کی علیحدگی" کا نظریہ نافذ ہوا،

تو تعلیم سے دین کا اخراج کر دیا گیا۔


1930 تک دینی مدارس کی مالی بنیاد ختم کر دی گئی،

بخارا کا مشہور مدرسہ "میر عرب" بند کر کے عجائب گھر بنا دیا گیا۔



---


آج بھارت میں:


▪️ مدارس کے سروے ہو رہے ہیں

▪️ مکاتب کو "غیر منظور شدہ" قرار دینے کی تیاری

▪️ مدرسہ بورڈز کو ختم کرنے کے مطالبات

▪️ دینی شناخت رکھنے والے نوجوانوں کو "شدت پسند" کہا جا رہا ہے


یہ وہی زبان ہے جو اسٹالن کے دور میں استعمال کی گئی تھی۔



---


تاریخ کے دھارے کو پہچانیے


سوویت یونین نے یہ سب ایک دن میں نہیں کیا۔

یہ عمل 1922 سے 1937 تک پھیلا رہا:


▪️ قدم بہ قدم

▪️ خاموشی سے

▪️ قانونی پردوں میں

▪️ "اصلاحات" کے نعروں میں


سوویت ترتیب: 1922 – وقف کا خاتمہ 1923 – شرعی عدالتوں کی بے توقیری 1926 – عدالتوں کی بندش 1927 – اسلامی عدالتی نظام پر پابندی 1930 – دینی تعلیم کا معاشی قتل 1937 – علما کی گرفتاری، مدارس کی بندش، بخارا کا علمی جنازہ


بھارت کی ترتیب: 2019 – شہریت کا مسئلہ، NRC 2020 – دینی تعلیمی اداروں کی نگرانی 2022 – وقف بورڈز کی جانچ پڑتال 2023 – UCC پر بحث 2024 – وقف ترمیمی بل کل؟ – شریعت، مکاتب، مدارس… سب سوالیہ نشان؟



---


یہ بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صرف سوویت ماڈل کی پیروی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی کمیونسٹ ردِعمل کے ساتھ ساتھ تعصب اور ذاتی مفاد پر بھی مبنی ہے۔


ان وقف املاک سے بھارت کے سرمایہ دار طبقے، سیاسی حلقے، اور ریاستی مفاد پرستوں کو کتنا مالی فائدہ ہوگا، اس کا صحیح اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔


یہ زمینیں، جو غریبوں، مسافروں، یتیموں اور دینی اداروں کے لیے وقف تھیں، اب ان کی نظر میں صرف ریاستی خزانے یا پرائیویٹ منافع کا ذریعہ بن گئی ہیں۔



---


اب کیا کرنا ہے؟ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے دینی و اجتماعی نظام کو مؤثر، منظم اور پائیدار بنائیں۔ نیت کے ساتھ اب مہارت، نظم و ضبط، اور فکری وحدت بھی درکار ہے۔


ہمیں اپنے اداروں کو محض چلانے کے قابل نہیں، بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا — چاہے وہ وقف ہو، مکتب ہو یا پرسنل لا۔


یاد رکھیں: جہاں کہیں بھی ہماری جانب سے غفلت، بدنظمی یا کمزوری دکھائی دی، ریاست اسے فوراً اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرے گی۔



---


✅ اقدامات:


1. شفاف اور مضبوط ادارہ جاتی نظام قائم کریں – کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کو خود بے نقاب کریں – اعتماد بحال کریں، ورنہ دوسروں کو دروازہ کھلا چھوڑیں گے



2. علمی، قانونی اور سماجی سطح پر متحد ہوں – علما، وکلاء، مفکرین، منتظمین کو ایک فورم پر لائیں – فکری ہم آہنگی اور عملی منصوبہ بندی کے بغیر مزاحمت بیکار ہے



3. باشعور نسل تیار کریں، محض جذباتی نہیں – بخارا اور سمرقند کے اہل ایمان نے، جب ریاستی جبر کی انتہا ہو گئی، تو انہوں نے خفیہ طور پر نسلاً بعد نسل ایمان کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔ – وہ تعداد میں تھوڑے تھے، مگر اخلاص، صبر اور حکمت نے انھیں باقی رکھا۔ – آج ہماری تعداد کروڑوں میں ہے، مگر اگر حالات مزید بگڑے، تو ہمیں بھی انہی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ – ہمیں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو صرف جوش نہیں، گہری نظر، گہرا علم، اور گہری تدبیری صلاحیت رکھتی ہو۔ – علم کو "دینی" اور "دنیاوی" کے خانوں میں بانٹنے کے بجائے، علمِ نافع اور غیر نافع کے اصول پر دیکھیں۔ – ہر میدانِ علم میں مسلمان آگے بڑھیں — چاہے فقہ ہو یا فلسفہ، سائنس ہو یا سیاست، عدالت ہو یا معیشت۔ – عوام سے لے کر خواص تک، ہر شخص کی بصیرت گہری، نگاہ دور رس، اور ذہن حکمت شعار ہونا چاہیے۔



4. پیغام ہر طبقے اور مذہب تک پہنچائیں – غیر مسلم بھائیوں تک واضح کریں: یہ صرف مسلمانوں کا نہیں – بلکہ اقلیتوں، دستور اور آزادی کا مسئلہ ہے – آج اگر ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، کل وہی آپ کے ساتھ ہو سکتا ہے



5. مساجد، مکاتب، مدارس اور شریعت کا تحفظ – یہ صرف عبادت کے مراکز نہیں، بلکہ ملت کی شناخت کی دیواریں ہیں – اگر یہ گرا دی گئیں، تو صرف اینٹیں نہیں، پہچان مٹ جائے گی



6. اہلِ علم کی قیادت کا انتظار کریں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں – ہمارے درمیان ایسے جید علما اور اربابِ بصیرت موجود ہیں – جو اس معاملے کی گہرائی، پیچیدگی اور نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں – لہٰذا جذبات میں بہنے کے بجائے ان کی رہنمائی کا انتظار کریں – اور جب وہ کوئی موقف یا لائحہ عمل پیش کریں – تو پورے اعتماد اور اتحاد کے ساتھ ان کا ساتھ دیں – ہر عامی اور ہر خواص کی ذمہ داری ہے – کہ وہ اسے صرف دینی مسئلہ نہیں، بلکہ اپنا فرض سمجھے – اور اس کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے





---


اگرچہ آج کا سکہ اکثریت کا ہے، فضا مایوس کن ہے، مگر ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش ترک نہیں کرنی۔ یہی شعور، یہی مسلسل مزاحمت، ہماری اصل طاقت ہے۔


کسی بھی ظالم حکومت کو دوام حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اُس کا زوال بھی قریب آ جاتا ہے۔


تخت و تاج کی چمک دھمک، قانون کی آڑ میں کیے گئے فیصلے، اور طاقت کے سائے — سب وقتی ہوتے ہیں۔


دنیا نے فرعونوں، نمرودوں، چنگیزوں اور جدید آمریتوں کا انجام بھی دیکھ لیا ہے۔


جبر و استبداد کا نظام کچھ وقت کے لیے تو چلتا ہے، مگر آخرکار حق کی روشنی ہی اندھیروں کو چیرتی ہے۔


لہٰذا مایوسی نہیں، حکمت، صبر، اور مسلسل جدوجہد ہی ہماری اصل طاقت ہے۔


اور وہ دن ضرور آئے گا، جب یہ اندھیرے چھٹیں گے، اور ہم اپنے وجود، وقار اور ایمان کے ساتھ سرفراز ہوں گے۔


نوید اختر 

شیلانگ، میگھالیہ

Email- distinctmufti@gmail.com

  گزشتہ دو دنوں سے ہم نے وقف بل کے بارے میں کئی ویڈیوز شیئر کی ہیں۔


کچھ تجاویز بھی دی گئیں کہ احتجاج کیسے شروع کیا جائے اور سپریم کورٹ کا رخ کیسے کیا جائے۔


یہ دونوں اچھی پہل ہیں، لیکن کیا یہ کافی ہے؟


چلیے پہلے احتجاج پر نظر ڈالتے ہیں –


1. احتجاج کون کرے گا؟ صرف مسلمان یا تمام مذاہب کے لوگ؟



2. ہم کتنے دن تک احتجاج کریں گے؟ جب تک بل واپس نہیں لیا جاتا؟



3. کیا خواتین کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا؟




کیا یہ احتجاج شاہین باغ کی طرز پر ہو گا – یعنی دن رات جاری؟

یا مختلف مقامات پر کبھی کبھی؟


صرف وقتی احتجاج سے کوئی اثر نہیں پڑے گا – مسلسل اور جاری احتجاج سے ہی دباؤ بنے گا اور رفتار پیدا ہو گی۔


اور عدالتوں سے رجوع کرنے کی بات – یقین ہے کہ ہمارے بہترین قانونی ماہرین اس پر کام کر رہے ہوں گے۔


اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟


1. تمام مساجد اور وقف کی دیگر جائیدادوں کی دستاویزات کو مکمل اور محفوظ بنانے میں مدد کریں، ٹھیک ہے؟



2. تو آئیے ان جگہوں کا دورہ کریں اور تصدیق کریں کہ دستاویزات مکمل ہیں۔



3. قریبی چھوٹے شہروں میں پیغام پھیلائیں اور یقین دہانی کرائیں کہ وہ بھی اپنی قانونی کارروائی مکمل کر رہے ہیں۔




اگر کسی اور کے پاس مزید تجاویز ہیں تو براہِ کرم اپنے خیالات شیئر کریں۔


آئیے تھوڑی brainstorming کرتے ہیں کہ ہم اور کیا کچھ کر سکتے ہیں… اور آئیے کچھ کرتے ہیں۔

[06/04, 9:58 am] عزیر احمد قاسمی: میرا تو یہ ماننا ہے کہ اس ک ف ریہ نظ ام میں مسلمان تو مسلمان کسی انسان کا بھی کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے 


عدالت (بابری مسجد مقدمہ کی طرح اٹھائیس سال) احتجاج (شاہین باغ یا کسانوں کی طرح ایک سال پندرہ دن کا احتجاج) منسٹروں کو منوانا (گرچہ اس کا موقع ابھی نہیں رہا )


مگر منو وادی آر ایس ایس ساڑھے تین فیصد کے یہودی النسل برہمن کافر جو چاہیں گے وہی ہوگا کیونکہ طاقت حکومت فوج پولس عدالت سب کچھ انہیں کے ہاتھ میں ہے اور ہم نہتے لاچار بے بس ہیں 


سچ کہا ہے خدا نے 

اِنْ یَّثْقَفُوْكُمْ یَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً وَّ یَبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَھُمْ وَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ﴿ؕ۲﴾


 اگر وہ تم کو پالیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں چلائیں ، اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ ،



 ایسے موقعے پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لئے نمونہ ہیں کہ انہوں نے کمپرومائز کی جگہ اپنی ایک الگ پہچان اور ح ک وم ت بنائی  مکی زندگی کے  تین کام ثقافتی محنت۔ تفاعل اور طلب نصرت پھر ری اس ت مدینہ  نے قیصر وکسری ظالمین کو خاک میں ملا دیا 

انڈیا میں یہ نا ممکن لگتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ ہم فکری ونظریاتی طور پر کفر کے تسلط سے آزاد ہونے کی سبیلیں تلاش کریں

 

مگر مسلمانوں کا اصول ذہن میں رہے 

لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا


اور اﷲ کافروں کو مسلمانوں پر حجت عطا نہیں فرمائیں گے۔