تاریخ دہرا رہی ہے!
ان دنوں سوشل میڈیا پر بخارا اور سمرقند کی وہ تاریخ گردش کر رہی ہے
جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے حکومت نے بتدریج وقف املاک پر قبضہ جما لیا۔
مگر افسوس… یہ قصہ صرف بخارا یا سمرقند کا نہیں، بلکہ ہر اُس قوم کا ہے:
جو غفلت کی چادر اوڑھ کر سو جائے،
بدنظمی کو اپنی زندگی کا معمول بنا لے،
اختلاف کو اپنی شناخت سمجھ لے،
کمزوری کو اپنی تقدیر مان لے،
جو ماضی کے زخموں سے سبق نہ لے،
اور مستقبل کی تیاری کے بجائے حال کے سائے میں سکون تلاش کرے،
جو دشمن کی چالاکیوں کو اصلاحات کا نام دے کر قبول کرے،
اور اپنے دینی اداروں کے زوال پر صرف ماتم پر اکتفا کرے۔
ایسی قوموں کے لیے تاریخ صرف عبرت نہیں رہتی،
بلکہ بار بار دہرا دیا جانے والا انجام بن جاتی ہے۔
یہ تباہی کسی اچانک زلزلے یا جنگ کا نتیجہ نہیں تھی،
بلکہ یہ ایک منظم، قانونی زبان میں لپٹی ہوئی
حکومت کی جانب سے مرحلہ وار منصوبہ بندی تھی —
بالکل ویسی ہی جیسی آج بھارت میں وقف کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔
تاریخ سے نظریں چُرانا؟ یا سچ کا سامنا؟
کچھ لوگ کہتے ہیں ایسی باتیں مت پھیلاؤ، عوام کو مت بتاؤ، اس سے ہمیں خود نقصان ہوگا۔
مگر المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے نظریں چُرانا تو ہماری عادت بن چکی ہے۔
ہم نے اپنی اسلامی تاریخ کو یا تو درخورِ اعتنا نہ سمجھا،
یا اسے قصے کہانیوں کی طرح سنا اور بھلا دیا۔
لیکن افسوس، وہی تاریخ جن سے ہم شرمندہ یا لاتعلق ہیں،
وہی دوسرے قومیں اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھاتی ہیں،
ان پر مقالے اور تھیسس لکھتی ہیں،
ان سے سیکھتی ہیں،
اور انہی تجربات سے بچاؤ کی راہیں نکالتی ہیں۔
ہم تاریخ سے منہ موڑتے رہے،
اور وہ تاریخ ہمیں مڑ کر کاٹتی رہی۔
---
❖ 1920 کی دہائی میں سوویت ترکستان میں کیا ہوا تھا؟
❖ اور آج 2025 کے ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟
❖ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بخارا اور دہلی میں فرق صرف تاریخ کا ہے، ذہنیت کا نہیں۔
---
سوویت ماڈل – آج کا بھارتی ایڈیشن؟
1. وقف پر قبضہ – ریاستی نگرانی کی آڑ میں چوری
▪️ 28 دسمبر 1922 کو جمہوریہ ترکستان کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک فرمان جاری کیا:
▪️ مذہبی اداروں سے وقف املاک کی ملکیت چھین لی گئی
▪️ ان کا انتظام محکمہ تعلیم کو سونپا گیا
▪️ مقامی سرکاری افسران کو متولی بنانے کا اختیار دے دیا گیا
▪️ آج بھارت میں وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعے:
▪️ وقف بورڈ کے اختیارات ختم کیے جا رہے ہیں
▪️ ریاست کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ وقف کی حیثیت طے کرے یا ختم کرے
جس طرح سوویت حکومت نے “انتظامی بہتری” کا بہانہ بنایا،
ویسے ہی آج “قانونی شفافیت” کا پردہ ڈال کر
وقف کو ریاستی جائیداد میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
---
2. شرعی عدالتوں کا خاتمہ – عدالتی آزادی کی تذلیل
▪️ 1923 میں سوویت حکومت نے شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو
▪️ باطل قرار دینے کا اختیار عوامی عدالتوں کو دے دیا
▪️ 1926 تک تمام شرعی عدالتیں قانوناً ختم کر دی گئیں
▪️ 1927 میں سوویت یونین نے حکم جاری کیا کہ آئندہ کوئی
▪️ نئی اسلامی عدالت قائم نہیں ہو سکتی
▪️ آج بھارت میں:
▪️ مسلم پرسنل لا
▪️ طلاق
▪️ وراثت
▪️ اور خاندانی معاملات کو
▪️ یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) کی زد میں لایا جا رہا ہے
یہ وہی حکمتِ عملی ہے:
شریعت کے دائرے کو محدود کرو،
عوامی قانون کے تابع بنا دو،
اور آخرکار شریعت کو قانونی نظام سے بے دخل کر دو۔
---
. دینی تعلیم کا گلا گھونٹنا – بنیاد پرستی کے نام پر
زار روس کے دورِ حکومت (1910–1917) میں مسلمانوں کے لیے
تعلیم کا کوئی مؤثر ریاستی انتظام نہ تھا۔
صرف 97 سرکاری اسکول موجود تھے
(3,000 سے بھی کم طلبہ کی گنجائش)۔
مسلمانوں نے اپنی محنت سے
7,290 مکاتب اور 375 مدارس قائم کیے،
جن میں 69,864 بچوں اور 9,627 طلبہ کو تعلیم دی جا رہی تھی۔
یہ اعداد و شمار امتِ مسلمہ کی اجتماعی غیرت کی عکاسی تھے،
مگر جب "ریاست اور مذہب کی علیحدگی" کا نظریہ نافذ ہوا،
تو تعلیم سے دین کا اخراج کر دیا گیا۔
1930 تک دینی مدارس کی مالی بنیاد ختم کر دی گئی،
بخارا کا مشہور مدرسہ "میر عرب" بند کر کے عجائب گھر بنا دیا گیا۔
---
آج بھارت میں:
▪️ مدارس کے سروے ہو رہے ہیں
▪️ مکاتب کو "غیر منظور شدہ" قرار دینے کی تیاری
▪️ مدرسہ بورڈز کو ختم کرنے کے مطالبات
▪️ دینی شناخت رکھنے والے نوجوانوں کو "شدت پسند" کہا جا رہا ہے
یہ وہی زبان ہے جو اسٹالن کے دور میں استعمال کی گئی تھی۔
---
تاریخ کے دھارے کو پہچانیے
سوویت یونین نے یہ سب ایک دن میں نہیں کیا۔
یہ عمل 1922 سے 1937 تک پھیلا رہا:
▪️ قدم بہ قدم
▪️ خاموشی سے
▪️ قانونی پردوں میں
▪️ "اصلاحات" کے نعروں میں
سوویت ترتیب: 1922 – وقف کا خاتمہ 1923 – شرعی عدالتوں کی بے توقیری 1926 – عدالتوں کی بندش 1927 – اسلامی عدالتی نظام پر پابندی 1930 – دینی تعلیم کا معاشی قتل 1937 – علما کی گرفتاری، مدارس کی بندش، بخارا کا علمی جنازہ
بھارت کی ترتیب: 2019 – شہریت کا مسئلہ، NRC 2020 – دینی تعلیمی اداروں کی نگرانی 2022 – وقف بورڈز کی جانچ پڑتال 2023 – UCC پر بحث 2024 – وقف ترمیمی بل کل؟ – شریعت، مکاتب، مدارس… سب سوالیہ نشان؟
---
یہ بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صرف سوویت ماڈل کی پیروی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی کمیونسٹ ردِعمل کے ساتھ ساتھ تعصب اور ذاتی مفاد پر بھی مبنی ہے۔
ان وقف املاک سے بھارت کے سرمایہ دار طبقے، سیاسی حلقے، اور ریاستی مفاد پرستوں کو کتنا مالی فائدہ ہوگا، اس کا صحیح اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔
یہ زمینیں، جو غریبوں، مسافروں، یتیموں اور دینی اداروں کے لیے وقف تھیں، اب ان کی نظر میں صرف ریاستی خزانے یا پرائیویٹ منافع کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
---
اب کیا کرنا ہے؟ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے دینی و اجتماعی نظام کو مؤثر، منظم اور پائیدار بنائیں۔ نیت کے ساتھ اب مہارت، نظم و ضبط، اور فکری وحدت بھی درکار ہے۔
ہمیں اپنے اداروں کو محض چلانے کے قابل نہیں، بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا — چاہے وہ وقف ہو، مکتب ہو یا پرسنل لا۔
یاد رکھیں: جہاں کہیں بھی ہماری جانب سے غفلت، بدنظمی یا کمزوری دکھائی دی، ریاست اسے فوراً اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرے گی۔
---
✅ اقدامات:
1. شفاف اور مضبوط ادارہ جاتی نظام قائم کریں – کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کو خود بے نقاب کریں – اعتماد بحال کریں، ورنہ دوسروں کو دروازہ کھلا چھوڑیں گے
2. علمی، قانونی اور سماجی سطح پر متحد ہوں – علما، وکلاء، مفکرین، منتظمین کو ایک فورم پر لائیں – فکری ہم آہنگی اور عملی منصوبہ بندی کے بغیر مزاحمت بیکار ہے
3. باشعور نسل تیار کریں، محض جذباتی نہیں – بخارا اور سمرقند کے اہل ایمان نے، جب ریاستی جبر کی انتہا ہو گئی، تو انہوں نے خفیہ طور پر نسلاً بعد نسل ایمان کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔ – وہ تعداد میں تھوڑے تھے، مگر اخلاص، صبر اور حکمت نے انھیں باقی رکھا۔ – آج ہماری تعداد کروڑوں میں ہے، مگر اگر حالات مزید بگڑے، تو ہمیں بھی انہی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ – ہمیں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو صرف جوش نہیں، گہری نظر، گہرا علم، اور گہری تدبیری صلاحیت رکھتی ہو۔ – علم کو "دینی" اور "دنیاوی" کے خانوں میں بانٹنے کے بجائے، علمِ نافع اور غیر نافع کے اصول پر دیکھیں۔ – ہر میدانِ علم میں مسلمان آگے بڑھیں — چاہے فقہ ہو یا فلسفہ، سائنس ہو یا سیاست، عدالت ہو یا معیشت۔ – عوام سے لے کر خواص تک، ہر شخص کی بصیرت گہری، نگاہ دور رس، اور ذہن حکمت شعار ہونا چاہیے۔
4. پیغام ہر طبقے اور مذہب تک پہنچائیں – غیر مسلم بھائیوں تک واضح کریں: یہ صرف مسلمانوں کا نہیں – بلکہ اقلیتوں، دستور اور آزادی کا مسئلہ ہے – آج اگر ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، کل وہی آپ کے ساتھ ہو سکتا ہے
5. مساجد، مکاتب، مدارس اور شریعت کا تحفظ – یہ صرف عبادت کے مراکز نہیں، بلکہ ملت کی شناخت کی دیواریں ہیں – اگر یہ گرا دی گئیں، تو صرف اینٹیں نہیں، پہچان مٹ جائے گی
6. اہلِ علم کی قیادت کا انتظار کریں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں – ہمارے درمیان ایسے جید علما اور اربابِ بصیرت موجود ہیں – جو اس معاملے کی گہرائی، پیچیدگی اور نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں – لہٰذا جذبات میں بہنے کے بجائے ان کی رہنمائی کا انتظار کریں – اور جب وہ کوئی موقف یا لائحہ عمل پیش کریں – تو پورے اعتماد اور اتحاد کے ساتھ ان کا ساتھ دیں – ہر عامی اور ہر خواص کی ذمہ داری ہے – کہ وہ اسے صرف دینی مسئلہ نہیں، بلکہ اپنا فرض سمجھے – اور اس کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے
---
اگرچہ آج کا سکہ اکثریت کا ہے، فضا مایوس کن ہے، مگر ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش ترک نہیں کرنی۔ یہی شعور، یہی مسلسل مزاحمت، ہماری اصل طاقت ہے۔
کسی بھی ظالم حکومت کو دوام حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اُس کا زوال بھی قریب آ جاتا ہے۔
تخت و تاج کی چمک دھمک، قانون کی آڑ میں کیے گئے فیصلے، اور طاقت کے سائے — سب وقتی ہوتے ہیں۔
دنیا نے فرعونوں، نمرودوں، چنگیزوں اور جدید آمریتوں کا انجام بھی دیکھ لیا ہے۔
جبر و استبداد کا نظام کچھ وقت کے لیے تو چلتا ہے، مگر آخرکار حق کی روشنی ہی اندھیروں کو چیرتی ہے۔
لہٰذا مایوسی نہیں، حکمت، صبر، اور مسلسل جدوجہد ہی ہماری اصل طاقت ہے۔
اور وہ دن ضرور آئے گا، جب یہ اندھیرے چھٹیں گے، اور ہم اپنے وجود، وقار اور ایمان کے ساتھ سرفراز ہوں گے۔
نوید اختر
شیلانگ، میگھالیہ
Email- distinctmufti@gmail.com