وقف: غربت مٹانے کا ایک ذریعہ
چشم کشا حقائق پر مشتمل، غربت کا آسان حل
کیا آپ جانتے ہیں کہ:
دنیا میں 79 کروڑ 50 لاکھ افراد روزانہ بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دنیا میں 3 ہزار بچے خوراک کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو بمشکل روٹی میسر آ پاتی ہے۔دنیا میں 80 کروڑ انسانوں کو وقتاً فوقتاً بھوکا سونا پڑتا ہے۔دنیا میں 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پوری دنیا میں ایک کروڑ 4 لاکھ افرادگھر سے بے گھر زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں کل 2 ارب 20 کروڑ بچے ہیں، جن میں سے ایک ارب غربت و افلاس کی آغوش میں زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں 30 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔پسماندہ براعظم افریقہ کے 22 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
لاطینی امریکا کے 4 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے براعظم ایشیا اور بحرالکاہل کے 55 کروڑ 30 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں 2 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آپ کے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں 60 افراد ہر ماہ غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ صرف افغانستان میں 50 لاکھ یتیم بچے ہیں۔
افغانستان کے دار الحکومت کابل میں 75 ہزار بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ مسلم ملک عراق میں جنگ کی وجہ سے مصر میں پناہ لینے والے عراقی 13 لاکھ ہیں۔ عراق کے 8 لاکھ باشندے اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شام میں جنگ کی وجہ سے ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندے 20 لاکھ ہیں۔
ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ کچھ اعداد و شمار کافی ہیں۔ جس سے دنیا کی صورت حال، عالم اسلام کی صورت حال، پھر ہمارے براعظم اور ہمارے پڑوس کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ اعداد و شمار انور یوسف صاحب کے 2 نومبر کے روزنامہ اسلام کے کالم سے لیے گئے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں اپنی خیبر کی زمین اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تم اصل زمین کو وقف کر دو اور اس سے جو کچھ پیدا ہو، اسے بطور صدقہ تقسیم کر دو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ اللہ کی راہ میں دے دیا، یعنی وقف کر دیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اسے کسی کی میراث قرار دی جائے۔یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح میں موجود ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ معلوم ہوتا ہے۔ زمین اضافی ملی تو فوراً اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبے کے ساتھ حاضر ہو گئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کی جانب رہنمائی فرما دی تاکہ اس کے اثرات دور رس ہو جائیں۔ تم یہ زمین وقف کر دو، باقی پیداوار اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی رہے گی۔ اس طرح اس کا معاشرے پر دیر تک اثر پڑتا رہے گا اور تمہارا ثواب بھی جاری رہے گا۔
اس وقت دنیا سسک رہی ہے۔ مالدار مال بنانے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ غریب غربت، ناداری اور پریشانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جس کی ایک جھلک شروع میں آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ صورت حال انفرادی سطح پر بھی ہے اور ملکوں کی سطح پر بھی۔اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر امت کو ان مشکل حالات سے نکالنے کی کوشش ضرور کریں۔ کوشش کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ہم امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے لیے دعا ضرور کریں۔ اللہ تعالی نے ہمیں سکون و عافیت دی، اس کی قدر کریں۔ اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار رہیں۔ جتنی ہو سکیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں۔
حضرت عمر کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کا مشورہ عنایت فرمایا۔ یہ مشورہ آج بھی ہمارے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے راہیں فراہم کر سکتا ہے۔ تو آئیے! دیکھتے ہیں کہ وقف سے کیا مراد ہے؟ وقف کیوں کیا جاتا ہے؟ وقف کس چیز کا کیا جا سکتا ہے؟ وقف کے دنیاوی فوائد کیا ہیں؟ وقف کے آخرت میں فوائد کیا ہیں؟ وقف کس مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت ہم وقف کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟
وقف کیا ہے؟
وقف سے مراد کسی چیز کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد بندوں کے لیے قرار دینا۔ جیسے کوئی زمین یا مکان وقف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکان یا دکان اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی گئی۔ اب اس کے فوائد جیسے زمین کی صورت میں اس کا استعمال یا پیداوار اور گھر کی صورت میں اس کی رہائش کا حق دار وہ ہو گا جس کے بارے میں وقف کرنے والا کہے۔ جیسے میں اپنا گھر غریبوں کے لیے وقف کر دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر تو اللہ تعالی کی ملکیت میں چلا گیا۔ باقی اس میں رہائش یا رہائش کے ذریعے ہونے والی کمائی غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔
وقف کی ضرورت
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جس میں کوئی رقم کسی کو دیے دینے سے لے کر کسی کو کوئی سہولت فراہم کرنا سب شامل ہیں اور اخلاص کے بقدر اس پر اجر اللہ تعالی کی جانب سے ملے گا۔ بعض اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ ایسا کوئی صدقہ کیا جائے جس کا اجر مستقل ملتا رہے۔ ایسی صورت میں شریعت صدقہ کرنے کا طریقہ بتا تی ہے۔ جس میں اصل چیز اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اس کے فوائد متعینہ لوگوں کو ملتے رہتے ہیں اور وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔
وقف کس چیز کا کیا جائے؟
اصولاً تو صرف جائیداد اور زمین کو ہی وقف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وقف میں اصل کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد کو لوگوں کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ یہ بات جائیداد وغیرہ میں تو پائی جاتی ہے۔ جبکہ باقی چیزیں بہت جلد استعمال سے خراب یا ختم ہو جاتی ہیں۔ البتہ جائیداد کے ساتھ دیگر اشیا بھی وقف کی جا سکتی ہیں، جیسے: زمین وقف کی تو اس کے ساتھ ٹریکٹر، ٹیوب ویل بھی وقف کر دے تا کہ پیداوار میں سہولت رہے۔ الگ سے اخراجات نہ کرنے پڑیں۔
وقف کے مقاصد
وقف کسی گناہ کے کام کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ باقی کسی نیک مقصد کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے! وقف سے فائدہ اٹھانے والا مسلمان یا غیر مسلم دونوں ہو سکتے ہیں، لہذا وقف اگر عام رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے۔ جیسے پانی کا کنواں کھدوایا، کوئی باغ وقف کیا تو جس طرح مسلمان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، غیر مسلم بھی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح وقف کرنا درست ہے۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ انسان ہی کسی وقف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ٹرسٹ جانوروں کی فلاح کے لیے ہو سکتا ہے، لیکن وقف صرف جانوروں، کتے، بلی وغیرہ کی فلاح بہبود کے لیے نہیں ہو سکتا۔
وقف کے اُخروی فوائد
وقف کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔ مرنے والے کے مر جانے کے بعد بھی اس کا نامہ اعمال میں ثواب چلتا رہتا ہے۔ اسی بات کی طرف ایک حدیث میں اشارہ فرمایا گیا کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جس نے کوئی نہر کھدوائی ہو یا نیک اولاد چھوڑی ہو یا کسی نیک کام کی بنیاد رکھی ہو توا س کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ وقف بھی انہی اعمال میں سے ہے، جس میں انسان کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ تو ہم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا ثواب چلتا رہے تو وقف اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
وقف کے دنیاوی فوائد
ایک ہے صدقہ یا خیرات کرنا۔ اس سے غریب کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے، لیکن ایسا کوئی قدم اٹھانا جس سے معاشرے کی فلاح و بہبود میں تیزی سے اضافہ ہو تو اس کے لیے وقف ایک مثالی ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت معاشی مسائل میں سرفہرست غربت ہے۔ جس کی ایک جھلک ہم نے مضمون کے شروع میں آپ کے سامنے پیش کی۔ وقف کو استعمال کر کے غربت کا بہترین حل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسے وقف بنائے جا سکتے ہیں جو معاشرے سے ہی عطیات وصول کریں اور براہ راست غریبوں پر خرچ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقف کی بنیاد پر ایسے ادارے بنائے جا سکتے ہیں، جو معاشرے میں ٹیکنکل تعلیم فراہم کریں۔ ٹیکنکل تعلیم سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے، ہنر مندی سکھانے والے ادارے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں اور بہت سے ادارے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد کام شروع کریں گے، لیکن یہ ادارے معاشرے کے مالدار افراد کی توجہ حاصل کر کے دولت کے بہاؤ کو ناصرف غریبوں کی طرف کریں گے، بلکہ اس طریقے سے کریں گے کہ دولت کا استعمال بہت بہتر انداز میں ہو گا اور بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل حل ہوتے جائیں گے۔
آج ہم حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرتی۔ غریبوں کا خیال نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو غریبوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ بے روزگار لوگوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ کفالت عامہ کا نظام تھا، لیکن وقف ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر حکومت کے بھی ہم اپنے معاشرے کو بنا سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے وقف کے بارے میں چند بنیادی باتیں رکھی ہیں، تفصیلات اہل علم سے معلوم کر یں۔ ہمیں ہمت کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔
اسلامی معاشیات
مولانا شیخ نعمان
شریعہ ڈپارٹمنٹ، بینک اسلامی
.............