Wednesday, October 29, 2025

 وقف: غربت مٹانے کا ایک ذریعہ

چشم کشا حقائق پر مشتمل، غربت کا آسان حل

کیا آپ جانتے ہیں کہ:

دنیا میں 79 کروڑ 50 لاکھ افراد روزانہ بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دنیا میں 3 ہزار بچے خوراک کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو بمشکل روٹی میسر آ پاتی ہے۔دنیا میں 80 کروڑ انسانوں کو وقتاً فوقتاً بھوکا سونا پڑتا ہے۔دنیا میں 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پوری دنیا میں ایک کروڑ 4 لاکھ افرادگھر سے بے گھر زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں کل 2 ارب 20 کروڑ بچے ہیں، جن میں سے ایک ارب غربت و افلاس کی آغوش میں زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا میں 30 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔پسماندہ براعظم افریقہ کے 22 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

لاطینی امریکا کے 4 کروڑ 70 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے براعظم ایشیا اور بحرالکاہل کے 55 کروڑ 30 لاکھ باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں 2 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آپ کے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں 60 افراد ہر ماہ غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ صرف افغانستان میں 50 لاکھ یتیم بچے ہیں۔ 

افغانستان کے دار الحکومت کابل میں 75 ہزار بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ مسلم ملک عراق میں جنگ کی وجہ سے مصر میں پناہ لینے والے عراقی 13 لاکھ ہیں۔ عراق کے 8 لاکھ باشندے اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شام میں جنگ کی وجہ سے ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندے 20 لاکھ ہیں۔

ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ کچھ اعداد و شمار کافی ہیں۔ جس سے دنیا کی صورت حال، عالم اسلام کی صورت حال، پھر ہمارے براعظم اور ہمارے پڑوس کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہ اعداد و شمار انور یوسف صاحب کے 2 نومبر کے روزنامہ اسلام کے کالم سے لیے گئے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں اپنی خیبر کی زمین اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تم اصل زمین کو وقف کر دو اور اس سے جو کچھ پیدا ہو، اسے بطور صدقہ تقسیم کر دو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ اللہ کی راہ میں دے دیا، یعنی وقف کر دیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اسے کسی کی میراث قرار دی جائے۔یہ واقعہ مشکوٰۃ المصابیح میں موجود ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ معلوم ہوتا ہے۔ زمین اضافی ملی تو فوراً اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبے کے ساتھ حاضر ہو گئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کی جانب رہنمائی فرما دی تاکہ اس کے اثرات دور رس ہو جائیں۔ تم یہ زمین وقف کر دو، باقی پیداوار اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی رہے گی۔ اس طرح اس کا معاشرے پر دیر تک اثر پڑتا رہے گا اور تمہارا ثواب بھی جاری رہے گا۔

اس وقت دنیا سسک رہی ہے۔ مالدار مال بنانے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ غریب غربت، ناداری اور پریشانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جس کی ایک جھلک شروع میں آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ صورت حال انفرادی سطح پر بھی ہے اور ملکوں کی سطح پر بھی۔اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر امت کو ان مشکل حالات سے نکالنے کی کوشش ضرور کریں۔ کوشش کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ہم امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے لیے دعا ضرور کریں۔ اللہ تعالی نے ہمیں سکون و عافیت دی، اس کی قدر کریں۔ اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار رہیں۔ جتنی ہو سکیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں۔

حضرت عمر کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقف کا مشورہ عنایت فرمایا۔ یہ مشورہ آج بھی ہمارے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے راہیں فراہم کر سکتا ہے۔ تو آئیے! دیکھتے ہیں کہ وقف سے کیا مراد ہے؟ وقف کیوں کیا جاتا ہے؟ وقف کس چیز کا کیا جا سکتا ہے؟ وقف کے دنیاوی فوائد کیا ہیں؟ وقف کے آخرت میں فوائد کیا ہیں؟ وقف کس مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت ہم وقف کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ 

وقف کیا ہے؟

وقف سے مراد کسی چیز کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد بندوں کے لیے قرار دینا۔ جیسے کوئی زمین یا مکان وقف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکان یا دکان اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی گئی۔ اب اس کے فوائد جیسے زمین کی صورت میں اس کا استعمال یا پیداوار اور گھر کی صورت میں اس کی رہائش کا حق دار وہ ہو گا جس کے بارے میں وقف کرنے والا کہے۔ جیسے میں اپنا گھر غریبوں کے لیے وقف کر دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر تو اللہ تعالی کی ملکیت میں چلا گیا۔ باقی اس میں رہائش یا رہائش کے ذریعے ہونے والی کمائی غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔

وقف کی ضرورت

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جس میں کوئی رقم کسی کو دیے دینے سے لے کر کسی کو کوئی سہولت فراہم کرنا سب شامل ہیں اور اخلاص کے بقدر اس پر اجر اللہ تعالی کی جانب سے ملے گا۔ بعض اوقات انسان یہ چاہتا ہے کہ ایسا کوئی صدقہ کیا جائے جس کا اجر مستقل ملتا رہے۔ ایسی صورت میں شریعت صدقہ کرنے کا طریقہ بتا تی ہے۔ جس میں اصل چیز اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اس کے فوائد متعینہ لوگوں کو ملتے رہتے ہیں اور وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔

وقف کس چیز کا کیا جائے؟

اصولاً تو صرف جائیداد اور زمین کو ہی وقف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وقف میں اصل کو اللہ تعالی کی ملکیت میں دے کر اس کے فوائد کو لوگوں کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ یہ بات جائیداد وغیرہ میں تو پائی جاتی ہے۔ جبکہ باقی چیزیں بہت جلد استعمال سے خراب یا ختم ہو جاتی ہیں۔ البتہ جائیداد کے ساتھ دیگر اشیا بھی وقف کی جا سکتی ہیں، جیسے: زمین وقف کی تو اس کے ساتھ ٹریکٹر، ٹیوب ویل بھی وقف کر دے تا کہ پیداوار میں سہولت رہے۔ الگ سے اخراجات نہ کرنے پڑیں۔

وقف کے مقاصد

وقف کسی گناہ کے کام کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ باقی کسی نیک مقصد کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے! وقف سے فائدہ اٹھانے والا مسلمان یا غیر مسلم دونوں ہو سکتے ہیں، لہذا وقف اگر عام رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے۔ جیسے پانی کا کنواں کھدوایا، کوئی باغ وقف کیا تو جس طرح مسلمان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، غیر مسلم بھی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح وقف کرنا درست ہے۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ انسان ہی کسی وقف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ٹرسٹ جانوروں کی فلاح کے لیے ہو سکتا ہے، لیکن وقف صرف جانوروں، کتے، بلی وغیرہ کی فلاح بہبود کے لیے نہیں ہو سکتا۔

وقف کے اُخروی فوائد

وقف کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے وقف کرنے والے کا ثواب جاری رہتا ہے۔ مرنے والے کے مر جانے کے بعد بھی اس کا نامہ اعمال میں ثواب چلتا رہتا ہے۔ اسی بات کی طرف ایک حدیث میں اشارہ فرمایا گیا کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جس نے کوئی نہر کھدوائی ہو یا نیک اولاد چھوڑی ہو یا کسی نیک کام کی بنیاد رکھی ہو توا س کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ وقف بھی انہی اعمال میں سے ہے، جس میں انسان کا ثواب چلتا رہتا ہے۔ تو ہم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا ثواب چلتا رہے تو وقف اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

وقف کے دنیاوی فوائد

ایک ہے صدقہ یا خیرات کرنا۔ اس سے غریب کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے، لیکن ایسا کوئی قدم اٹھانا جس سے معاشرے کی فلاح و بہبود میں تیزی سے اضافہ ہو تو اس کے لیے وقف ایک مثالی ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت معاشی مسائل میں سرفہرست غربت ہے۔ جس کی ایک جھلک ہم نے مضمون کے شروع میں آپ کے سامنے پیش کی۔ وقف کو استعمال کر کے غربت کا بہترین حل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسے وقف بنائے جا سکتے ہیں جو معاشرے سے ہی عطیات وصول کریں اور براہ راست غریبوں پر خرچ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقف کی بنیاد پر ایسے ادارے بنائے جا سکتے ہیں، جو معاشرے میں ٹیکنکل تعلیم فراہم کریں۔ ٹیکنکل تعلیم سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے، ہنر مندی سکھانے والے ادارے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں اور بہت سے ادارے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد کام شروع کریں گے، لیکن یہ ادارے معاشرے کے مالدار افراد کی توجہ حاصل کر کے دولت کے بہاؤ کو ناصرف غریبوں کی طرف کریں گے، بلکہ اس طریقے سے کریں گے کہ دولت کا استعمال بہت بہتر انداز میں ہو گا اور بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل حل ہوتے جائیں گے۔

آج ہم حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرتی۔ غریبوں کا خیال نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو غریبوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ بے روزگار لوگوں کے لیے الاؤنس ہوتے تھے۔ کفالت عامہ کا نظام تھا، لیکن وقف ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر حکومت کے بھی ہم اپنے معاشرے کو بنا سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے وقف کے بارے میں چند بنیادی باتیں رکھی ہیں، تفصیلات اہل علم سے معلوم کر یں۔ ہمیں ہمت کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔

اسلامی معاشیات

مولانا شیخ نعمان

شریعہ ڈپارٹمنٹ، بینک اسلامی

.............

Wednesday, September 17, 2025

 *عرب اسپرنگ ۔سری لنکا.بنگلہ دیش ۔نیپال اور فرانس ہنگامہ آرائیاں*



جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے


جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 

دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکا ن نہیں ہے 

 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا

 ایک بدعتی شاعر کی شہر دیوبند پر تنقید اور

 مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ کی طرف سے اس کے شعر کا جواب۔


                تنقید 


دغا کی "دال" ہے یاجوج کی ہے "یا" اس میں

وطن فروشی کا "واؤ" بدی کی "با" اس میں


جو ان کے "نون" میں نار جحیم غلطاں ہے

تو اس کی "دال" سے دہقانیت نمایاں ہے


ملے یہ حرف تو بے چارہ *دیوبند* بنا

برے خمیر سے یہ شہر نا پسند بنا


           *جواب تنقید*

از۔ مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ


دعا کی "دال" کو کہتے ہو تم دغا کی ہے

علاجِ چشم کراؤ بڑی خطا کی ہے


یہ " دال" دولت دنیا و دیں سے ہے معمور

دماغ و دیدہ دل اس سے ہوگئے پرنور


غضب ہے " یا " تمہیں یاجوج کی نظر آئی

ضرور ڈوب گئی ہے تمہاری بینائی


نظر جماؤ کہ یاد خدا کی " یا " ہے یہ

یقین و یثرب و یمن و صفا کی " یا" ہے یہ


کہا جو " واؤ " کو تم نے وطن فروشی کا

ثبوت دے دیا اپنی گناہ کوشی کا


ادب کرو کہ وضو کا وفا کا " واؤ " ہے یہ

وقار و وعظ و وصال خدا کا " واؤ " ہے یہ


بدی کی " با " جسے کہتے ہو تم شرارت سے

وہ ہے بہشت بریں برکت و بہار کی " بے "


جو تم نے " نون " میں نار جحیم ہی دیکھی

تو کیا قصور تمہاری تو عاقبت ہے یہی


سنو کہ " نون " ہے نزہت و نفاست کا

نماز و نعمت و نیکی کا نور و نعمت کا


جو تم نے " دال " میں دہقانیت کی بو سونگھی

تو سمجھو اپنی غلاظت ہی ہو بہو سونگھی


ارے یہ " دال " دیانت کی دوستی کی ہے

درود کی ہے دوا کی ہے دل کشی کی ہے

بڑے ہی پاک عناصر سے دیوبند بنا

عدو کی جان جلی شہر دل پسند بنا

Tuesday, September 9, 2025

 جمہوری سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کے خون کو چوسنے ،امیروں کی تجوریاں بھرنے کا کام کیا ہے 

چھوٹے ممالک میں اس کا ری ایکشن جلدی ہوجاتا ہے نیپال سری لنکا بنگلہ دیش اور بہت سے عرب ممالک میں اس طرح مشتعل عوام نے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر کافر استعماری طاقتیں ۔نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے بدلنے کا کام کرتی آرہی ہے 

استعماری تھنک ٹینک اب اس نتیجے پر پہونچی ہے کہ عوام ٹیکس بھرتی رہے سیاستدانوں کو تنخواہیں برابر ملتی رہے کفریہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام برابر چلتا رہے۔ امیروں کا بھلا ہوتارہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی شہریت اور وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو عوام مشتعل ہونے کی بجائے اپنی شہریت کی سرٹیفیکیشن میں مصروف رہے گی چنانچہ کویت گورنمنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ کویت کا شہری وہی مانا جائے گا جس کا خونی رشتہ یہاں سے ہو۔اس 

قانون کے بعد سے روزانہ طلاق سے رشتے ختم کئے جا رہے ہیں 


انسانوں کی خدمت صرف ایک ہی نظام کرسکتی ہے جو انسانوں کے خالق نے بنایا ہے وہ ہے خ ل ا ف ت جسے پیغمبروں نے دنیا میں رائج کیا اور نصرت و ہجرت کے بعد مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا ساڑھے تیرہ سو سال تک مسلمان دنیا کے سوپر پاور طاقت تھے  اس دور میں دنیا نے نہ بھوک دیکھا نہ غریبی ںہ مہنگائی نہ خود کشیاں بالاخر کافر استعماروں نے تین سو سال کی سازشوں کے بعد 1924 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر جبرا قہرا ظلما ہر ملک میں جمہوریت سیکولرازم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرتے چلے آرہے ہیں 

جس کے بد ترین نتائج دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے 

ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ 

دوبارہ وہی نظام آئے گا

Monday, July 21, 2025

 *بابُ ما جاء فی مذاہبِ بریانیہ*


(ہند و پاک کی بریانیوں کا ثقافتی و فقہی تجزیہ)

از: جامع الفتاوی و البریانیات



مقدمہ: بریانی صرف ایک کھانا نہیں، بلکہ ایک تہذیب ہے۔

یہ چاول اور گوشت کا وہ مقدس نکاح ہے، جس میں مصالحہ جات قاضی کا کردار ادا کرتے ہیں، یخنی خطبۂ نکاح ہے، اور دم پر رکھنا عقدِ دائمی کی علامت!


لیکن صد حیف! اس مقدس رشتہ میں آلو داخل کرکے کلکتہ والوں نے ایسا ظلم کیا ہے، جسے فقہائے بریانیہ کی زبان میں "نکاحِ فسخ شدہ بالمکر" کہا جائے گا۔



باب اول: فقہائے بریانیہ کے مختلف مکاتبِ فکر


*1. دہلوی فقہائے بریانیہ*


دہلی کی بریانی کو شائستگی، تہذیب اور امتیازی لطافت کا درجہ حاصل ہے۔

حضرت کریم ہوٹل (نزد جامع مسجد) کے ہاں بریانی وہ نازک طعام ہے جو نہ شور میں غرق ہوتی ہے، نہ مصالحے میں ڈوبی ہوتی ہے، بلکہ ہر دانہ توازن کا مظہر ہوتا ہے۔


یہاں بریانی گویا ایک غزل ہے،


چاول: قافیے

گوشت: ردیف

خوشبو: بحرِ رمل


فقہائے دہلی فرماتے ہیں:

"اذا حضرت البریانی فی دہلی، فہٰذا مجلسِ ادب لا مائدۃِ طعام!"




*2. لکھنؤی فقہائے بریانیہ (مکتبِ نَوَابی)*


بریانی یہاں ریشمی تہذیب کی علامت ہے۔

چاہے حقیقی دونگا بریانی ہو یا ٹونٹی دار یخنی، لکھنؤ میں بریانی پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ فنِ خورد و نوش کا ایک کلاسیکی باب ہے۔


ہر چاول: حرفِ تہذیب

ہر بوٹی: ایک قرینہ

ہر خوشبو: مصرعِ موقوف


یہ وہ ذائقہ ہے جو واجد علی شاہ کے شاہی باورچی خانوں سے چل کر آج بھی پرانے لکھنؤ کی گلیوں میں زندہ ہے۔


اودھ کی مشہور بریانی اور باورچی:

ادریس بریانی ( پاٹہ نالہ چوک) جس کا ہر نوالہ گویا "نوابی سلام" ہے


مبین بریانی (اکبری گیٹ)  جہاں یخنی بھی گویا غالب کی غزل ہے


للا بریانی (چونپٹیوں مارکیٹ)  جس کی دم دار تہیں لکھنؤ کی تہذیبی تہیں ہیں


ابصار بھائی: جن کا ہاتھ یخنی میں ڈوبا ہو، تو گویا فتوٰی میں عطر ہو


پوسو بھائی:جو بریانی کو خطِ نسخ میں لکھتے ہیں: واضح، خوش خط، لازوال!


لکھنؤ کے فقہاء کا اجماعی فتویٰ:

 "ہٰذہ بریانی علٰی میزانِ شرعی!"




*3. حیدرآبادی مکتبِ بریانیہ*


یہاں بریانی مسلکِ تند و تیز پر قائم ہے۔

اتنا مرچ، اتنا زور، اور اتنی خوشبو کہ:

پہلا لقمہ: استغفار

دوسرا لقمہ: توبہ

تیسرا لقمہ: "سبحان اللہ! یہی جنت ہے!"


چاہے شاہ غوث ہوٹل ہو، بسم اللہ ہوٹل یا پارک حیات 

یہ سب شعلہ بیان ذاکرین کی تقریریں محسوس ہوتی ہیں۔


احنافِ حیدرآباد کا قول:

 "بلا مرچ بریانی کالصلاۃ بلا تکبیر!"



*4. کلکتوی مکتب (جس پر نکیر واجب ہے)*


یہاں فقہی انحراف کی انتہا ہو چکی ہے۔

آلو کو بریانی میں داخل کر کے جو فتنہ و بدعت برپا کی گئی، وہ فقہائے ذائقہ کے نزدیک ایسا ہے جیسے نماز میں پتنگ اڑانا۔


مشہور بدعاتی نام:

آرسلان بریانی

زمزم بریانی

زہرا بریانی

حاجی صاحب بریانی


یہ محض بدعت نہیں بلکہ:

 "مکروہِ تحریمی مع الفسادِ الذوقی!"


آلو، جس کا اصل مقام ترکاری، شوربے یا بگھارے بیگن میں ہے، اسے بریانی میں داخل کرنا:

 "تحریفِ ترکیبِ الٰہی"


فقہائے دہلی و لکھنؤ کا اجماعی فتویٰ:

 "من جعل البطاطا فی البریانی، فلیس من اہلِ الذوق، و کان علیہ کفارۃُ صحنٍ کامل!"




*5. کراچی فقہائے بریانیہ*


کراچی کی بریانی اجتہادِ جری کا شاہکار ہے۔

یہاں کی اقسام مثلاً:


نورانی بریانی

نانبائی بریانی

فرحت بریانی

جعل بریانی


سب ایسی ہیں کہ مصالحہ جگر کو جھنجھوڑتا ہے، اور گوشت ایسا نرم کہ فقہائے مالکیہ بھی عش عش کر اٹھیں۔


کراچی کی بریانی اگر بغیر کباب ہو، تو یہ:


"قصر فی الفتوٰی" ہے!



*باب دوم: تہذیبی تسلسل*


شہر بریانی کی تعبیر


دہلی بریانی ایک شعر ہے

لکھنؤ بریانی ایک ادب ہے

حیدرآباد بریانی ایک خطابت ہے

کراچی بریانی ایک مزاحمت ہے

کلکتہ بریانی کا جنازہ ہے (آلو کی صورت میں)



*باب سوم: ردِ بدعتِ آلو*


لکھنؤی ادب فرماتا ہے:


جس بریانی میں نزاکت نہ ہو،

جس میں یخنی کا ذوق نہ ہو،

جہاں گوشت و چاول ہم آہنگ نہ ہوں

وہ طعام نہیں، فقط تغافل ہے!


جہاں دہلی بریانی کو غزل کہتی ہے، وہیں لکھنؤ کہتا ہے:


بریانی ایک رباعیِ ذائقہ ہے


1. پہلا مصرع: خوشبو

2. دوسرا مصرع: یخنی

3. تیسرا مصرع: گوشت

4. چوتھا مصرع: چاول کی تہ


یہ رباعی جب دم پر آئے، تو دل بھی دم بخود ہو جائے!

بریانی کو ویسے کھایا جائے، جیسے غالب کا دیوان پڑھا جاتا ہے 

آہستہ، انہماک سے، چاول چبائے نہیں جاتے، محسوس کیے جاتے ہیں۔



*اقوالِ فقہائے ذوق*


ابنِ دہلی:

من زاد فی البریانی مالا یلزم، فذوقہ ناقص و فہمہ فاسد!"




امامِ کریم ہوٹل:

آلو بریانی نہیں، فتنے کی ابتدا ہے!"




احنافِ حیدرآباد:

بریانی میں آلو ڈالنا ایسا ہے جیسے خطبۂ جمعہ میں لطیفہ سنانا!"



*خاتمہ*

بریانی ذائقے کی عبادت ہے۔

اسے آلو، کشمش، یا بد ذوق ہاتھوں کی تحریف سے محفوظ رکھنا فقہاءِ بریانیہ پر فرضِ کفایہ ہے۔

 فمن أراد أن یدخل الآلو فی البریانی، فلیخرج من دارِ ذوق، و لیدخل دارِ شبہات!



اللہم احفظ لنا بریانیاتنا، کما حفظت القرآن من تحریف الرافضۃ... آمین!

Sunday, June 22, 2025

بریلوی سے تین سوال

 *میرے استاذ محترم مفتی یوسف صاحب تاولی حفظہ اللہ نے دوران درس ایک واقعہ سنایا بغور پڑھیں* 

ایک مرتبہ میرا صابر کلیریؒ کے مزار پر جانا ہوا وہاں متولی حضرات کو جب پتہ چلا دیوبند سے ایک بہت بڑے مفتی صاحب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے میرا پر جوش استقبال کیا، حضرت کی قبر پر گیا ایصال ثواب کر کے جب واپس ہونے لگا تو متولی صاحب نے بڑی عاجزی و انکساری اور احترام کے ساتھ درخواست کی حضرت برکتًا ہمارے دسترخوان پر تشریف لے آئیں، میں نے بخوشی قبول کیا، 

حضرت نے آگے فرمایا جب میں آنے لگا تو میں نے ان متولی صاحب سے تین سوال کئے، 

سوال نمبر: ۱۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی؟    

ان صاحب نے جواب دیا جی بالکل اور جنکا یہ عقیدہ نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ 

سوال نمبر: ۲۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی؟ 

ان صاحب نے پھر وہی جواب دیا، 

سوال نمبر: ۳۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل قیامت کے دن اپنے امتیوں کے لئے سفارش کرینگے؟ 

ان صاحب نے بڑی تاکید کے ساتھ وہی جواب دیا، 


آگے حضرت فرماتے ہیں میں نے ان سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عالم الغیب ہیں پھر وحی کی کیا ضرورت تھی؟،

آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو حاضر و ناظر ہیں پھر معراج کی کیا ضرورت تھی؟، 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خود مختار ہیں تو پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے؟، 

حضرت نے فرمایا وہ شخص ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 

یہ تین عقائد ایسے ہیں جن میں بریلوی حضرات نے بہت ہی زیادہ افراط سے کام لیا ہے،

اور ہمارے بزرگوں نے ان کے غلط عقائد کو چٹکیوں میں تار تار کر دیا۔


عبدالماجد قاسمی

 اسلامی تنخواہ کا معیار گرا کر اسلام کی جڑوں کو کمزور کرنے کا ذمہ دار کون؟


❗ اکابر یا آج کے "موٹے لوگ"؟


🔍 سوال:


کیا واقعی ہمارے اکابر قلیل تنخواہوں پر زندہ رہتے تھے؟

کیا وہ بھی ہم مولویوں کی طرح اضطراری فقر کے مارے تھے؟

کیا قلتِ رزق کو نیکی اور اخلاص کی علامت سمجھنا واقعی درست ہے؟


آئیے! پہلے ان مثالوں کو غور سے پڑھتے ہیں جنہیں غلط طور پر "اخلاص کی دلیل" بنا کر پیش کیا جاتا ہے — مگر حقیقت بالکل برعکس ہے:


📚 اکابر کی تنخواہیں — حقائق اور تقابلی جائزہ


▶ حضرت قاسم نانوتویؒ


> سوانح قاسمی کے مطابق آپ آٹھ/دس روپے اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے۔ اس وقت اتنے میں ایک بھینس خریدی جا سکتی تھی۔

آج کے حساب سے یہ تنخواہ 45,000 سے زائد بنتی ہے۔



▶ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ


> حضرت گیلانیؒ کی کتاب کے مطابق آپ کی تنخواہ 75 روپے ماہانہ تھی۔

50 میں گھر چلاتے، 25 دارالعلوم کو واپس کرتے۔

اس وقت 75 روپے میں ایک مہنگی زمین کا پلاٹ خریدا جا سکتا تھا۔


▶ حضرت اشرف علی تھانویؒ


> علیحدگی کے وقت تنخواہ 50 روپے تھی۔

جب 500 روپے جمع ہو گئے تو فرمایا: “اب مجھ پر حج فرض ہو گیا ہے۔”

یعنی 10 ماہ کی تنخواہ سے حج ممکن تھا۔ آج حج کے لیے کم از کم 5 لاکھ درکار ہیں۔ کیا کسی مولوی کی سالانہ تنخواہ 5 لاکھ ہے؟



▶ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ


> تنخواہ 250 روپے، اور حج پر صرف 1500 روپے خرچ ہوا۔

یعنی 6 ماہ کی تنخواہ میں حج مکمل۔


⚖ اب آئیں موجودہ حقیقت کی طرف


آج ایک متوسط بھینس 45,000 سے 80,000 روپے میں ملتی ہے


حج کا خرچ 5 سے 8 لاکھ روپے


کرایے کا مکان کم از کم 10,000 – 15,000 روپے ماہانہ


دوا، بجلی، کپڑے، اسکول، کھانا — سب پر مہنگائی قیامت کی حد کو چھو رہی ہے


مگر…!


❌ امام کی تنخواہ: 5,000 – 10,000


❌ مدرس کی تنخواہ: 4,000 – 8,000


❌ مؤذن کی تنخواہ: 3,000 – 6,000


کیا یہ اسلامی ہے؟ کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہ شریعت کا تقاضا ہے؟



❗ مسئلہ کہاں ہے؟


"اکابر" نے تنخواہیں نہیں گھٹائیں


اکابر کے دور میں:


تنخواہیں وقت کے معیار کے مطابق تھیں


اخلاص، خوش حالی کے ساتھ تھا


فقر "اختیاری" تھا، "اضطراری" نہیں


"تنظیم" کمزور تھی، مگر "نظام" قوی تھا



🧱 آج کا نظام؟


مہنگی مسجدیں، سستا امام


عظیم الشان مدرسے، محتاج معلم


لاکھوں کے چندے، ہزاروں کی اجرت


ٹرسٹی و مہتمم کروڑ پتی، مدرس فاقہ کش


یہ نظام نہ دینی ہے، نہ اسلامی، نہ انسانی۔


🧨 خطرناک خام خیالی:


> "کم تنخواہ پر بھی صبر کرنا نیکی ہے۔


❌ نہیں! اگر تمہاری تنخواہ اتنی ہے کہ تم ماں باپ، بیوی بچوں، بیٹیوں اور اپنے جسم کے بھی حقوق ادا نہ کر سکو تو تم اللہ کی نظر میں کامیاب نہیں، مجرم ہو:


> "کاد الفقر أن یکون کفرا"

(فقر انسان کو کفر کے قریب کر دیتا ہے)



🧠 ایک سادہ حساب لگائیں:


اگر 1970 میں ایک عالم کی تنخواہ 500 روپے تھی:


اور مہنگائی 300% بڑھی


تو آج اس کی تنخواہ ہونی چاہیے 15,000 روپے سے زائد


مگر مدارس آج بھی 6,000 – 8,000 دیتے ہیں



کیا یہ اسلامی ادارہ ہے یا استحصالی نظام؟


📣 مولوی بھائیو! بیدار ہو جاؤ!


> "اخلاص کا لالی پاپ" کھا کر اپنی نسلوں کو فقر میں نہ دھکیلیں

دین کی خدمت ضرور کرو، مگر ذلیل ہو کر نہیں

اگر کوئی مسجد یا مدرسہ تمہیں وقت کے مطابق تنخواہ نہیں دیتا —

تو چھوڑ دو! ہجرت کرو! دوسرا ذریعہ تلاش کرو۔


> ✔ کوئی گناہ نہیں

✔ کوئی عیب نہیں

✔ اگر تم رزقِ حلال کے لیے دکان چلاتے ہو، آن لائن پڑھاتے ہو، قرآن کا کورس چلاتے ہو —

یہ بھی عبادت ہے، اگر نیت پاک ہو!


📢 اب اپیل ہے:


🕌 مہتممین و متولیین سے:


1. اگر آپ تنخواہ نہیں بڑھا سکتے، تو نظام کسی اہل کے سپرد کر دیں


2. اللہ کے بندو! مسجد سونے سے نہ بنے، انسانوں کی خدمت سے بنتی ہے


3. کمیٹی بدلو، نظام بدلو، یا خود کو بدل دو


4. جو شخص اس ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، وہ گناہگار ہے


🤲 اختتامی پیغام:


> یا اللہ!

امت کو فقر کے شکنجوں سے نکال

اماموں، مؤذنوں، معلموں کو عزت و آرام دے

اور ہمارے اداروں میں وہ روشنی بھر دے

جس سے دین کے اصل خادم پھر سے چراغ بنیں، اور امت کو اندھیروں سے نکالیں

آمین یا رب العالمین۔